কানযুল উম্মাল (উর্দু)

كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال

کتاب البر - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩৮০৩ টি

হাদীস নং: ৯১৫০
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ جاگیروں کے متعلق
٩١٥٠۔۔۔ (مسند ابی بکر (رض)) عروہ (رح) سے روایت ہے کہ میں حضرت معاویہ (رض) کے پاس گیا، تو انھوں نے فرمایا : مسلول کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا وہ میرے پاس ہے، فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کے نشان لگائے ہیں حضرت ابوبکر نے زبیر کے لیے وہ جاگیر جدا کی تھی، میں ہی لکھا کرتا تھا، حضرت عمر آئے تو حضرت ابوبکر نے دستاویز دی اور اسے بستر کے بیچ میں رکھ دیا، حضررت عمر اندر آئے اور کہا : لگتا ہے آپ کو کوئی ضرورت ہے ؟ تو حضرت ابوبکر نے کہا : ہاں ، پھر ابوبکر نے وہ دستاویز نکالی تو میں نے اسے پورا کردیا۔ (بیھقی فی الشعب)
9150- "مسند أبي بكر رضي الله عنه" عن عروة قال: دخلت على معاوية، فقال لي: ما فعل المسلول؟ قلت: هو عندي، قال: أنا والله خططته بيدي اقطع أبو بكر الزبير، فكنت أكتبها، فجاء عمر فأخذ أبو بكر الكتاب فأدخله في ثني الفراش، فدخل عمر فقال: كأنكم على حاجة؟ فقال أبو بكر: نعم، فخرج أبو بكر الكتاب فأتممته. "ق".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৫১
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ جاگیروں کے متعلق
٩١٥١۔۔۔ (مسند عمر (رض)) عبیدہ سے روایت ہے کہ عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس (رض) حضرت ابوبکر الصدیق (رض) کے پاس آئے اور کہا : اے رسول اللہ کے خلیفہ ! ہمارے قریب ایک شواری زمین ہے جس میں نہ گھاس ہوتی ہے اور نہ کوئی فائدہ مندشے، آپ جب چاہیں اسے ہمارے لیے جدا کردیں ؟ شاید ہم اس میں کھیتی باڑی کرکے اس میں فصل لگائیں ، چنانچہ حضرت صدیق اکبر نے وہ زمین انھیں بطور جائیداد دے دی ، اور اس کے متعلق ایک تحریر بھی لکھی اور حضرت عمر (رض) کو اس کے متعلق گواہ بنادیا جبکہ وہ اس وقت لوگوں میں موجودنہ تھے۔

یہ دونوں حضرات حضرت عمر کے پاس چلے گئے تاکہ انھیں گواہ بنائیں ، حضرت عمر کو جب اس تحریر کا پتہ چلا تو اس دستاویز کو لے کر اس پر تھوک کر اسے مٹادیا، جس سے یہ دونوں ناراض ہوگئے، اور دونوں نے کوئی بری بات کہی حضرت عمر (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تمہاری دل جوئی کرتے تھے جب اسلام کی افرادی قوت کمزور تھی اور جب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا کردیا ہے ےتو تم دونوں جاؤ محنت کوشش کرو اللہ تعالیٰ دونوں پر مہربانی نہ کرے اگر تم دونوں رعایت کرو۔

دونوں حضرت صدیق کے پاس آئے، اور غصہ میں لال پیلے ہورہے تھے، دونوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہمیں یہ معلوم نہیں کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر ؟ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ عمر لہی خلیفہ ہے اور اگر چاہتا تو بن جاتا، اتنے میں حضرت عمر بھی غصہ سے بھرے ہوئے آگئے، اور حضرت ابوبکر کے سر پر آکھڑے ہوئے اور کہا : مجھے اس زمین کے بارے میں بتاؤ جو آپ نے ان دونوں آدمیوں کو جاگیر میں دے دی ہے، کیا یہ صرف آپ کی زمین ہے یا تمام مسلمانوں کے درمیان مشترک ہے ؟ حضرت عمر نے کہا : تو پھر آپ کو کسی بات نے مجبور کیا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ کر صرف ان دونوں کو مخصوص کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے ان لوگوں سے مشورہ لیا تھا جو تمہارے اردگرد بیٹھے ہیں، تو انھوں نے مجھے اسی کا مشورہ دیا، حضرت عمر نے کہا : کیا صرف ان لوگوں کے مشورے پر جو میرے اردگرد بیٹھے ہیں آپ نے تمام مسلمانوں کے مشورے اور رضا کو کافی سمجھا ہے ؟ تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : میں نے تمہیں پہلے کہا تھا کہ اس (خلافت) کے معاملہ میں تم مجھ سے زیادہ طاقتورہو، لیکن تم مجھ پر غالب آگئے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، بخاری فی تاریخہ و یعقوب بن سفیان ، بیھقی ، ابن عساکر)

تشریح :۔۔۔ یہ ہے ان لوگوں کا حال ، جن پر ایک متعصب، ہٹ دھرم ، عقل کی اندھی قوم ، غصب، خیانت ، اقرباپروری اور دوسرے غلط الزام لگاتی ہے۔
9151- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عبيدة قال جاء عيينة بن حصن والأقرع بن حابس إلى أبي بكر فقالا: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم إن عندنا أرضا سبخة ليس فيها كلاء ولا منفعة، فإذا رأيت أن تقطعناها؟ لعلنا نحرثها ونزرعها فأقطعها إياهما، وكتب لهما عليه كتابا، وأشهد فيه عمر وليس في القوم، فانطلقا إلى عمر ليشهداه، فلما سمع عمر ما في الكتاب تناوله من أيديهما، ثم تفل فيه ومحاه فتذمرا، وقالا: مقالة سيئة، قال عمر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يتألفكما والإسلام يومئذ ذليل، وإن الله قد أعز الإسلام، فاذهبا فاجهدا جهدكما لا أرعى الله عليكما إن رعيتما، فأقبلا إلى أبي بكر وهما يتذمران، فقالا: والله ما ندري أنت الخليفة أم عمر؟ فقال: بل هو، ولو شاء كان، فجاء عمر مغضبا حتى وقف على أبي بكر، فقال: أخبرني عن هذه الأرض التي اقطعتها هذين الرجلين، أرض هي لك خاصة أم هي بين المسلمين عامة؟ قال: بل هي بين المسلمين عامة، قال: فما حملك أن تخص هذين بها دون جماعة المسلمين؟ قال: استشرت هؤلاء الذين حولي، فأشاروا علي بذلك، قال: فإذا استشرت هؤلاء الذين حولك؟ أو كل المسلمين أوسعت مشورة ورضا؟ فقال أبو بكر: قد كنت قلت لك إنك أقوى على هذا مني، ولكنك غلبتني. "ش خ" في تاريخه ويعقوب بن سفيان "ق كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৫২
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ جاگیروں کے متعلق
٩١٥٢۔۔۔ یزید بن ابی حبیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے حضرت سعد (رض) کی طرف لکھا جب انھوں نے عراق فتح کیا : امابعد ! مجھے تمہارا خط ملا ہے جس میں تم نے ذکر کیا ہے کہ لوگوں نے تم سے غنیمتیں اور مال فئی کو تقسیم کرنے کا سوال کیا ہے، سو جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو دیکھو لوگوں نے تمہارے پاس لشکر میں جو گھوڑے خچر کیا کوئی مال لائے ہیں تو اسے ان مسلمانوں میں تقسیم کردو وہاں حاضر ہیں، اور زمین اور نہریں ویاں کے گورنروں کے لیے چھوڑدو، اور یہ مسلمانوں کے لیے رشک خوشی میں ہو، کیونکہ اگر تم نے انھیں حاضرین میں تقسیم کردیا تو دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے گا۔ (ابوعبدوابن زبجویہ معافی الاموال الخرائطی فی مکارم الا خلاق، بیھقی ، ابن عساکر)
9152- عن يزيد بن أبي حبيب قال: كتب عمر إلى سعد حين افتتح العراق: أما بعد فقد بلغني كتابك تذكر أن الناس سألوك تقسم بينهم مغانمهم وما أفاء الله عليهم، فإذا جاءك كتابي هذا فانظر ما أجلب الناس عليك إلى العسكر من كراع أو مال فاقسمه بين من حضر من المسلمين واترك الأرضين والأنهار لعمالهما، فيكون ذلك في اغتباط المسلمين، فإنك أن قسمتها بين من حضر لم يكن لمن بعدهم شيء. أبو عبيد وابن زنجويه معا في الأموال والخرائطي في مكارم الأخلاق "ق كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৫৩
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ جاگیروں کے متعلق
٩١٥٣۔۔۔ جریر بن عبداللہ بن بجلی سے روایت ہے فرماتے ہیں : بجیلہ لوگوں سے آباد تھا، تو حضرت عمر نے سواد کے علاقے ان میں تقسیم کردیئے جن کا نفع ان لوگوں نے تین سال تک حاصل کیا، پھر میں حضرت عمر (رض) کے پاس آیا، تو آپ نے فرمایا : اگر میں ایسا شخص نہ ہوتا جس سے تقسیم کے بارے پوچھا جاتا تو تمہیں تقسیم پر چھوڑے رکھتا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسے لوگوں کو واپس کردو، چنانچہ آپ نے ایسے ہی کیا۔ (الشافعی وابوعبیدوابن زنجویہ، بیھقی)
9153- عن جرير بن عبد الله البجلي قال: كانت بجيلة ربع الناس، فقسم لهم عمر ربع السواد فاستغلوه ثلاث سنين، ثم قدمت على عمر فقال: لولا أني قاسم مسؤول لتركتكم على ما قسم لكم، ولكن أرى أن تردوا على الناس ففعل. الشافعي وأبو عبيد وابن زنجويه "ق".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৫৪
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ جاگیروں کے متعلق
٩١٥٤۔۔۔ حضرت عروۃ سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے پورا عقیق جاگیر میں دے دیا۔ (الشافعی، عبدالرزاق، بیھقی)
9154- عن عروة أن عمر أقطع العقيق أجمع. الشافعي "عب ق".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৫৫
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ جاگیروں کے متعلق
٩١٥٥۔۔ عبداللہ بن حسن سے روایت ہے حضرت علی نے حضرت عمر سے مطالبہ کیا تو انھوں نے بیبع جاگیر میں دے دیا (بیھقی)
9155- عن عبد الله بن الحسن: أن عليا سأل عمر بن الخطاب فأقطعه ينبع. "ق".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৫৬
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ جاگیروں کے متعلق
٩١٥٦۔۔۔ (عثمان (رض)) امام شعبی سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر نے (عمومی) جاگیریں نہیں دیں، سب سے پہلے جس نے جاگیریں دیں وہ حضرت عثمان ہیں۔ (عبدالرزاق)
9156- "عثمان رضي الله عنه" عن الشعبي قال: لم يقطع أبو بكر ولا عمر، وأول من اقطع الأرض عثمان. "عب".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৫৭
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ جاگیر دینا
٩١٥٧۔۔۔ شعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے (عمومی) جاگیریں نہیں دیں، سب سے پہلے حضرت عثمان (رض) نے جاگیریں دیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
9157- عن الشعبي قال: لم يقطع النبي صلى الله عليه وسلم ولا أبو بكر ولا عمر، وأول من اقطع القطائع عثمان. "ش".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৫৮
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ جاگیر دینا
٩١٥٨۔۔۔ بلال بن حارث سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سارا عقیق انھیں جاگیر میں دیا تھا۔ (طبرانی فی الکبیر)
9158- عن بلال بن الحارث أن النبي صلى الله عليه وسلم أقطع له العقيق كله. "طب".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৫৯
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ جاگیر دینا
٩١٥٩۔۔۔ بلال بن حارث سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سارا عقیق انھیں جائیداد میں دیا تھا۔ (ابونعیم)
9159- عن بلال بن الحارث بن بلال عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم أقطع له العقيق كله. أبو نعيم.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬০
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ جاگیر دینا
٩١٦٠۔۔۔ ابیص بن حمال ماربی سبائی (رض) سے روایت ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ سے مارب کے نمک (کی کان) جاگیر میں لینے کا مطالبہ کیا چنانچہ آپ نے وہ انھیں جاگیر میں دیدیا، جب وہ چلے گئے تو (حاضرین) مجلس میں سے ایک شخص نے کہا : آپ جانتے ہیں کہ آپ نے اسے جاگیر میں کیا دیا ہے ؟ آپ نے اسے چشمہ دیدیا ہے، چنانچہ آپ نے ان سے واپس لے لیا۔

فرماتے ہیں : میں نے آپ سے پیلو کی چراگاہ بنانے کے بارے میں پوچھا ؟ آپ نے فرمایا : جسے اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچیں۔ (الدارمی، ابوداؤد، ترمذی غریب، نسائی ابن ماجہ ، ابویعلی ، ابن حبان ، دارقطنی، حاکم وابن ابی عاصم والباوردی وابن قانع و ابونعیم، سعید بن منصور ورواہ البغوی الی قولہ الماء العدقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلا اذا ، مربرقم : ٩١١٠)
9160- عن أبيض بن حمال المأربي السبائي رضي الله عنه: أنه وفد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستقطعه الملح الذي بمأرب، فأقطعه له، فلما أن ولى قال رجل من المجلس: أتدري ما قطعت له؟ إنما قطعت له الماء العد فانتزعه منه، قال: فسألته عما يحمى من الأراك؟ قال: ما لم تنله أخفاف الإبل. الدارمي "د ت" غريب "ن هـ ع حب قط ك" وابن أبي عاصم والباوردي وابن قانع وأبو نعيم "ص" ورواه البغوي إلى قوله الماء العد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلا إذا. مر برقم [9110] .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬১
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ جاگیر دینا
٩١٦١۔۔۔ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ نمک (کی کان) جاگیر میں لینے کا مطالبہ کیا جسے مارب کے بند کا نمک کہا جاتا ہے آپ نے انھیں عطا کردیا، پھر اقرع بن عابس تمیمی (رض) نے کہا : یارسول اللہ ! زمانہ جاہلیت میں میں اس نمک ( کی کان) میں گیا ہوں وہ ایسی زمین میں ہے ، جہاں پانی نہیں، جو اس میں داخل ہوا وہ اسے چیکا لیتا ہے وہ بہتے پانی میں ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابیض بن حمال سے نمک کی جاگیر کا فیصلہ منسوخ کردیا، توابیض نے کہا میں اس بناء پر اس بناپر اس معاملہ کو فسخ کرتا ہوں کہ آپ اسے میری جان سے صدقہ کردیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہے، وہ بہتے پانی کی طرح ہے جو اس میں جائے وہ اسے چیکا لیتا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ایک زمین اور (جرف موات) غیرآباد کچھ کنارے کے جھنڈ، اس فسخ کے بدلہ عطا کیے۔ (الباوردی)
9161- إنه استقطع من رسول الله صلى الله عليه وسلم الملح الذي يقال له: ملح سد مأرب، فأقطعه، ثم إن الأقرع بن حابس التميمي قال:يا رسول الله إني قد وردت الملح في الجاهلية وهو بأرض ليس بها ماء ومن ورده أخذه وهو في الماء العد، فاستقال النبي صلى الله عليه وسلم أبيض بن حمال في قطيعته في الملح، فقال الأبيض: قد أقلتك منه على أن تجعله مني صدقة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هو منك صدقة، وهو مثل الماء العد من ورده أخذه، فقطع له النبي صلى الله عليه وسلم: أرضا وعبلا بالجرف جرف موات حين أقاله منه. الباوردي.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬২
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ جاگیر دینا
٩١٦٢۔۔۔ زیاد بن ابی ھند الداری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : کہ مکہ میں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم چھ آدمی تھے، تمیم بن اوس، اور ان کے بھائی نعیم، یزید بن قیس، ابوھندبن عبداللہ اور ان کے بھائی طیب بن عبداللہ ، جن کا نام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالرحمن رکھ دیا، فاکہ بن نعمان ، ہم سب لوگ مسلمان ہوگئے ہم نے آپ سے شام کی زمین میں سے کچھ زمین کا مطالبہ کیا۔

چنانچہ آپ نے ہمیں زمین عطا کردی اور چمڑے پر ایک تحریر بھی لکھ دی جس پر حضرت عباس ، جہم بن قیس اور شرجیل بن حسنۃ کی گواہی تھی، ابوھندہ کہتے ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو ہم آپ کے پاس آئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے لیے وہ تحریر تازہ کردیں چنانچہ آپ نے تحریر لکھوائی جس کا نسخہ یہ ہے :

(بسم اللہ الرحمن الرحیم) یہ اس بات کی تحریر ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمیم داری اور اس کے دوستوں کو عطا کیا ہے پھر اس (سابقہ) تحریر کا ذکر کیا اور حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ، عمر بن خطاب ، عثمان بن عفان ، علی بن ابی طالب اور معاویہ بن ابی سفیان گواہ بنے اور انھوں نے لکھا۔ (ابونعیم فی المعرفۃ)
9162- عن زياد بن أبي هند الداري عن أبيه قال: قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة، ونحن ستة نفر: تميم بن أوس، ونعيم أخوه، ويزيد بن قيس، وأبو هند بن عبد الله، وأخوه الطيب بن عبد الله، فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن وفاكه بن النعمان، فأسلمنا وسألناه أن يعطنا أرضا من أرض الشام، فأعطانا وكتب لنا كتابا في جلد أدم فيه شهادة العباس وجهم بن قيس وشرحبيل بن حسنة، قال أبو هند: فلما هاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة قدمناه عليه فسألناه أن يجدد لنا كتابا فكتب لنا كتابا نسخته: بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما أعطى محمد صلى الله عليه وسلم تميما الداري وأصحابه فذكر الكتاب وشهد أبو بكر بن أبي قحافة، وعمر بن الخطاب، وعثمان بن عفان، وعلي بن أبي طالب ومعاوية بن أبي سفيان وكتب. أبو نعيم في المعرفة.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬৩
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ جاگیر دینا
٩١٦٣۔۔۔ عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمیل بن رذام کے نام تحریر لکھی : یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمیل بن رذام عذاری کو رمداء دے دیا ہے جس میں دوسرا کوئی حقدار نہیں، اور حضرت علی نے یہ تحریر مرتب فرمائی۔ (ابونعیم)
9163- عن عمرو بن حزم قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم لجميل بن رذام: هذا ما أعطى محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم جميل بن رذام العذري أعطاه الرمداء لا يحاقه فيه1 أحد وكتب على. أبو نعيم.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬৪
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ جاگیر دینا
٩١٦٤۔۔۔ عمر وبن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حصین بن فضلہ اسدی کے لیے لکھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ تحریر حصین بن فضلہ اسدی کے لیے ہے کہ رمد اور کثیف اس کی جاگیر ہے اس میں کوئی دوسرا حقدار نہیں ، یہ تحریر حضرت مغیرہ (رض) نے مرتب فرمائی۔ (ابونعیم)
9164- عن عمر بن حزم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب لحصين بن فضلة الأسدي كتابا: بسم الله الرحمن الرحيم، هذا من كتاب محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم لحصين بن فضلة الأسدي أن له رمدا وكثيفا لا يحاقه فيهما أحد وكتب المغيرة. أبو نعيم.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬৫
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ جاگیروں کے ذیل میں
٩١٦٥۔۔۔ عبداللہ بن ابی بکر (رض) سے روایت ہے فرمایا : بلال بن حارث مزنی (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک لمبی چوڑی اور وسیع زمین کا مطالبہ کرنے آئے جب حضرت عمر خلیفہ بنے تو بلال سے کہا : تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لمبی چوڑی اور وسیع زمین کی جاگیر مانگی تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی چیز سے منع نہیں فرماتے تھے، جس کا بھی سوال کیا جاتا تھا جتنی زمین تمہارے پاس ہے وہ تمہارے بس سے باہر ہے انھوں نے کہا : جی ہاں ، تو حضرت عمر نے کہا : تو دیکھو کس کی تمہیں قدرت ہے اسے اپنے پاس رکھو اور جس کی طاقت نہیں وہ ہمیں دیدوتا کہ ہم مسلمانوں میں تقسیم کرسکیں ۔ تو انھوں نے کہا : اللہ تعالیٰ کی قسم جو جاگیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دی ہے اس میں ایسا نہیں کرسکتا، حضرت عمر نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قسم ! تمہیں ضرور ایسا کرنا پڑے گا چنانچہ آپ نے ان سے وہ زمین لے لی جو ان کی دسترس سے باہر تھی اور اسے مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ (بیھقی فی الشعب)
9165- عن عبد الله بن أبي بكر قال: جاء بلال بن الحارث المزني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستقطعه أرضا طويلة عريضة، فلما ولي عمر، قال لبلال: إنك استقطعت رسول الله صلى الله عليه وسلم أرضا عريضة طويلة فقطعها، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يمنع شيئا يسأله فإنك لا تطيق ما في يديك، فقال: أجل قال: فانظر ما قويت عليه منها فأمسكه، وما لم تطق فادفعه إلينا نقسمه بين المسلمين، فقال: لا أفعل والله، شيء أقطعنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: والله لتفعلن، فأخذ منه ما عجز عن عمارته فقسمه بين المسلمين. "ق".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬৬
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ فصل۔۔۔ پانی دینے کی باری
٩١٦٦۔۔۔ (مسند ثعلبہ بن ابی مالک عن ابیہ) فرماتے ہیں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وادی کا جھگڑا حل کرانے گیا

جسے وادی مہروز کہا جاتا ہے، وہ وادی ہمارے (علاقہ کے) درمیان تھی اور بعض پر مخصوص کرتے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ کیا : جب پانی ٹخنوں تک پہنچ جائے تو اوپر والا نیچے والے کے لیے پانی نہ روکے (بلکہ کھول دے) ۔ (ابونعیم)
9166- "مسند ثعلبة بن أبي مالك عن أبيه" قال: اختصم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في واد يقال له: مهزور، وكان الوادي فينا، وكان يستأثر بعضهم على بعض، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا بلغ الماء الكعبين أن لا يحبس الأعلى على الأسفل. أبو نعيم.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬৭
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ فصل۔۔۔ پانی دینے کی باری
٩١٦٧۔۔۔ اسی طرح مضمون بن سلیم ثعلبہ بن ابی مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہ نقصان میں پڑو اور نہ نقصان پہنچاؤ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیلاب سے سیراب کی جانے والی کھجوروں کے بارے یہ فیصلہ کیا ہے یہاں تک کہ اوپر والا سیراب کرلے اور پانی ٹخنوں تک پہنچ جائے پھر نیچے والے کی طرف کھول دے، اسی طرح کہ پانی پر دیوار پر سے گزر جائے یا ختم ہوجائے۔ (ابونعیم)
9167- أيضا عن صفوان بن سليم عن ثعلبة بن أبي مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ضرر ولا ضرار، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في مشارب النخل بالسيل للأعلى على الأسفل حتى يشرب الأعلى، ويروى الماء إلى الكعبين، ثم يسرح الماء إلى الأسفل، وكذلك حتى تنقضي الحوائط أو يفنى الماء. أبو نعيم.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬৮
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ مخصوص علاقہ، بالشت بھر زمین
٩١٦٨۔۔۔ (عمر (رض)) اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنے ایک غلام ، جسے ھنی کہا جاتا تھا کو چراگاہ کا گورنر بنایا۔

آپ نے اس سے فرمایا : ھنی ! مسلمانوں سے نرمی کا سلوک کرنا، مظلوم کی بددعا سے بچنا، کیونکہ مظلوم کی بددعا قبول کی جاتی ہے اونٹوں اور بکریوں والوں کو داخل کرنا اور ابن عوف اور ابن عفان کے مویشیوں سے بچنا، کیونکہ اگر ان کے مویشی ہلاک ہوگئے، تو وہ دونوں کھجوروں اور فصلوں کا رخ کریں گے، اور اگر اونٹوں اور بکریوں والوں کے مویشی ہلاک ہوگئے تو وہ میرے پاس اپنے بیٹوں کو لے کر پہنچ جائیں گے اور کہیں گے : امیرلمؤمین ! کیا میں انھیں چھوڑنے والا ہوں، تیرا باپ نہ ہو ؟ میرے لیے سونے چاندی کی نسبت گھاس آسان ہے، اور اللہ تعالیٰ کی قسم ! وہ سمجھیں گے کہ میں نے ان پر ظلم کیا ہے، یہ تو انھیں کے علاقے ہیں جن پر جاہلیت میں انھوں نے قتال کیا اور انہی پر اسلام لائے، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر ہو مال نہ ہوتا جسے میں اللہ تعالیٰ کے راستہ میں صرف کرتا ہوں تو میں لوگوں کے شہروں میں ایک بالشت بھی زمین نہ رکھتا۔ (مالک ، ابوعبید بی الاموال ، مصنف ابن ابی شیبہ، بخاری، بیھقی)
9168- "عمر رضي الله عنه" عن أسلم أن عمر بن الخطاب استعمل مولى له يدعى هنيا على الحمى، فقال: يا هني اضمم جناحك عن المسلمين، واتق دعوة المظلوم، فإن دعوة المظلوم مجابة، وأدخل رب الصريمة والغنيمة وإياي ونعم ابن عوف، ونعم ابن عفان، فإنهما إن يهلك ماشيتهما يرجعان إلى نخل وزرع، وإن رب الصريمة والغنيمة أن يهلك ماشيتهما يأتني ببنيه، فيقول: يا أمير المؤمنين، أفتاركهم أنا لا أبالك؟ فالكلأ أيسر علي من الذهب والورق، وأيم الله إنهم يرون أني ظلمتهم، إنها لبلادهم قاتلوا عليها في الجاهلية، وأسلموا عليها في الإسلام، والذي نفسي بيده لولا المال الذي أحمل عليه في سبيل الله ما حميت على الناس في بلادهم شبرا. مالك وأبو عبيد في الأموال "ش خ ق".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯১৬৯
کتاب البر
পরিচ্ছেদঃ مخصوص علاقہ، بالشت بھر زمین
٩١٦٩۔۔۔ محمد بن زیادہ سے روایت ہے کہ میرے دادا حضرت عثمان بن مظعون کے غلام تھے، وہ عثمان کی زمین کے نگران تھے، اس زمین میں سبزی اور ترکاری تھی فرماتے ہیں : کبھی کبھار حضرت عمر بن خطاب (رض) دوپہر کے وقت آتے اور میں انھیں سبزیاں اور ترکاریاں کھلاتا ، ایک دن آپ نے مجھے کہا : میں نے تمہیں یہاں سے باہر جاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا ؟ میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : میں نے تمہیں یہاں کا نگران بنادیا، سو جس شخص کو دیکھو کہ وہ درخت کاٹ رہا ہے تو اس کی کلہاڑی اور رسی لے لو، میں نے کہا : اس کا توشہ بھی لے لوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ۔ (بیھقی)
9169- عن محمد بن زياد قال: كان جدي مولى لعثمان بن مظعون وكان يلي أرضا لعثمان، فيها بقل وقثاء، قال: فربما يجيء عمر بن الخطاب نصف النهار إلي فيحدثني وأطعمه من القثاء والبقل، فقال لي يوما: أراك لا تخرج مما ههنا؟ قلت أجل، فقال: إني استعملتك على ما ههنا فمن رأيت يعضد شجرا فخذ فأسه وحبله، قلت آخذ زاده؟ فقال: لا. "ق".
tahqiq

তাহকীক: