কানযুল উম্মাল (উর্দু)
كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال
نماز کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৪৭০২ টি
হাদীস নং: ২৩৫১৯
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23519 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے سورج گرہن کے موقع پر صفہ زم زم میں دو رکعتیں پڑھیں ہر رکعت میں چار رکوع کیے ۔
23519- عن ابن عباس أنه صلى يوم كسفت الشمس ركعتين في صفة زمزم في كل ركعة أربع ركعات. (ابن جرير) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২০
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23520 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گرہن کے موقع پر نماز پڑھی جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ رکوع اور چار سجدے کیے ۔ (رواہ ابن جریر) کلام : ۔۔۔ یہ حدیث ضعیف ہے دیکھئے ضعیف النسائی 82 ۔
23520- عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى عند الكسوف ثمان ركعات وأربع سجدات. (ابن جرير) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২১
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23521 ۔۔۔ عطاء کی روایت ہے کہ عبید بن عمیر کہتے ہیں مجھے اس آدمی نے خبر دی ہے جس کی میں تصدیق کرتا ہوں عطا کہتے ہیں میرا گمان ہے کہ ان کی مراد حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) تھیں ، خبر یہ ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں سورج گرہن ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو نماز پڑھائی نماز میں طویل قیام کیا پھر رکوع کیا پھر قیام کیا اور پھر رکوع کیا اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر رکعت میں دو دو رکوع کیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع میں کہتے ! اللہ اکبر جب رکوع سے اٹھتے تو ” سمع اللہ لمن حمدہ “۔ کہتے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک نماز میں مصروف رہے جب تک کہ سورج چھٹ نہیں گیا ، طویل قیام کی وجہ سے لوگوں پر غشی طاری ہوجاتی تھی حتی کہ ان پر پانی کا ایک بڑا ڈول بہا دیا جاتا انھیں پتہ نہ چلتا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور حمد وثناء کے بعد فرمایا : سورج اور چاند کسی آدمی کی موت وحیات کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں ڈراتا ہے ، جب بھی سورج یا چاند گرہن ہوجائے فورا اللہ تعالیٰ کی یا میں لگ جاؤ حتی کہ گرہن ختم ہوجائے ، عطاء کہتے ہیں : میں نے عبید بن عمیر کے علاوہ دوسرے محدثین کو کہتے سنا ہے کہ صلوۃ کسوف پڑھتے ہوئے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جنت اور دوزخ لائے گئے حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوزخ کو دیکھ کر پیچھے ہٹے اور لوگ بھی پیچھے ہوگئے اور ایک دوسرے پر چڑھ گئے تھے ، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے فرمایا : دوزخ میرے سامنے لائی گئی میں نے اس میں عمرو بن لحی کو دیکھا چنانچہ آگ میں اس کی انتڑیاں کھینچی جا رہی تھی وہ ایک ٹیڑھے سر والے ڈنڈے سے حاجیوں کی چوری کرتا تھا وہ کہہ رہا تھا اے میرے رب میں نے چوری نہیں کی چوری تو میرے ڈنڈے نے کی ہے ، اسی طرح میں نے بلی والی عورت کو دیکھا جس نے ایک بلی باندھی تھی اسے نہ کھانا دیا نہ پانی اور نہ ہی کھولا تاکہ خود کھا پی لیتی اور یوں بندھی بندھی بھوکوں مرگئی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے بڑھ کر اپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنے کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے سامنے جنت لائی گئی اگر میں چاہتا تو میوہ ہائے جنت کے خوشے توڑ کر تمہیں دکھا سکتا تھا ۔ (رواہ ابن جریر)
23521- عن عطاء عن عبيد بن عمير قال: "أخبرني من أصدق فظننت أنه يريد عائشة أن الشمس كسفت على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فقام بالناس قياما طويلا يقوم ثم يركع، ثم يقوم ثم يركع، فركع ركعتين في كل ركعة ثلاث ركعات ويقول إذا ركع: الله أكبر، وإذا رفع رأسه" قال: "سمع الله لمن حمده، فلم ينصرف حتى تجلت الشمس، وحتى أن رجالا ليغشى عليهم حتى أن سجال الماء ليصب عليهم من طول القيام، ثم قام فحمد الله وأثنى عليه،" ثم قال: "إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته، ولكنهما آيتان من آيات الله تعالى يخوفكم بهما، فإذا انكسفا فافزعوا إلى ذكر الله تعالى حتى ينجليا،" قال عطاء: "وسمعت غير عبيد بن عمير يقول: عرضت عليه الجنة والنار في مقامه ذلك حتى تأخر وراءه وتأخر الناس وركب بعضهم بعضا وهو يقول: أي رب وأنا فيهم، فلما انصرف" قال: إني عرضت علي النار فأبصرت فيها عمرو بن لحي يجر قصبه في النار كان يسرق الحاج بمحجنه وكان يقول: يا رب أنا لا أسرق إنما يسرق محجني، وصاحبة الهرة امرأة ربطتها فلم تطعمها ولم تسقها ولم ترسلها تشرب وتأكل حتى ماتت جوعا ثم عاد يمشي حتى عاد إلى مصلاه فسئل فقال: عرضت علي الجنة إن أخذت منها قطفا لأريكموه". (ابن جري
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২২
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23522 ۔۔۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) کی روایت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلوۃ کسوف پڑھی جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر اوپر اٹھے اور طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر اوپر اٹھے اور طویل سجدہ کیا پھر اوپر اٹھے اور پھر طویل سجدہ کیا پھر اٹھے اور دوسری رکعت میں اسی طرح کیا جس طرح کہ پہلی رکعت میں کیا تھا ، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا جنت میرے قریب لائی گئی تھی اگر میں چاہتا تو اس کے میوہ جات میں سے خوشے توڑ کر تمہارے پاس لے آتا اس کے بعد دوزخ میرے قریب لائی گئی حتی کہ میں نے کہا : اے میرے پروردگار میں تو انھیں قریب سے دیکھ رہا ہوں ، پس میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت ہے جسے ایک بلی بار بار نوچ رہی ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حکم ہوا یہ بلی اس عورت نے باندھ دی تھی حتی کہ بھوکوں مرگئی نہ اسے کھانا دیا اور نہ ہی اسے کھولا تاکہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا کر اپنی پیٹ بھر سکتی ۔ مرواہ ابن جریر)
23522- عن أسماء بنت أبي بكر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى في كسوف الشمس فقام فأطال القيام، ثم ركع فأطال الركوع، ثم رفع فأطال القيام، ثم ركع فأطال الركوع، ثم رفع ثم سجد فأطال السجود، ثم رفع ثم سجد فأطال السجود، ثم قام فصنع في الثانية بمثل ما صنع في الأولى، ثم انصرف فقال: أدنيت مني الجنة حتى لو اجترأت عليها لجئتكم بقطاف من قطافها وأدنيت مني النار حتى قلت: يا رب وأنا معهم فإذا امرأة تخدشها هرة قلت: ما هذه؟ قال: "حبستها حتى ماتت جوعا لا أطعمتها ولا أرسلتها تأكل من خشاش الأرض". (وابن جرير) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২৩
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23523 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کی روایت ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے رونما ہونے والی نشانیوں کی نماز میں چھ رکوع اور چار سجدے ہیں۔ مرواہ ابن ابی شیبۃ)
23523- عن عائشة قالت: صلاة الآيات ست ركعات في أربع سجدات. (ش) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২৪
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23524 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کی روایت ہے خدائی نشانیوں کے ظہور پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے تھے جسمیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے پھر کھڑے ہوتے اور تین رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے اور کھڑے ہو کر تین رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے پھر کھڑے ہوتے اور تین رکوع کرتے اور پھر سجدہ کرتے ۔ مرواہ ابن جریر)
23524- عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقوم في صلاة الآيات فيركع ثلاث ركعات، ثم يسجد، ثم يقوم فيركع ثلاث ركعات، ثم يسجد يقوم فيركع ثلاث ركعات، ثم يسجد، ثم يقوم فيركع ثلاث ركعات، ثم يسجد. (ابن جرير) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২৫
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23525 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کی روایت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گرہن کے موقع پر نماز پڑھی جس میں چھ رکوع اور چار سجدے کیے ۔ مرواہ ابن جریر)
23525- عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في الخسوف ست ركعات وأربع سجدات. (ابن جرير) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২৬
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23526 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) فرماتے ہیں : بخدا ! یہ چاند اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف سے روپڑتا ہے لہٰذا تم میں سے جو رونے کی طاقت رکھتا ہو وہ رو لیا کرے اور جس کو رونا نہ آئے وہ کم از کم رونے کی صورت تو بنا لے ۔ (رواہ ابن عساکر)
23526- عن ابن عمر أنه قال: "والله إن هذا القمر ليبكي من خشية الله فمن استطاع منكم أن يبكي فليبك، ومن لم يستطع فليتباك". (كر) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২৭
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23527 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) کی روایت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ور میں جس دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرزند ابراہیم فوت ہوئے اس دن سورج گرہن ہوا لوگوں نے کہا : ابراہیم کی موت کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف لائے نماز پڑھی اور طویل قیام کیا حتی کہ کہا جانے لگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع نہیں کریں گے پھر رکوع کیا حتی کہ کہا جانے لگا کہ آپ رکوع سے نہیں اٹھیں گے ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوپر اٹھے اور پہلے کی طرح طویل قیام کیا یوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار رکوع اور دو سجدے کیے پھر فرمایا : اے لوگو سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں یہ کسی آدمی کی موت وحیات کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے جب تم سورج اور چاند کو گرہن ہوتے دیکھو تو فورا نماز کے ذریعے اللہ کی پناہ مانگو ۔ (رواہ ابن جریر)
23527- عن ابن عمر قال: "انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم مات إبراهيم ابنه فقال الناس: انكسفت لموت إبراهيم فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فأطال القيام حتى قيل: لن يركع، ثم ركع حتى قيل: لن يرفع رأسه، ثم رفع رأسه فأطال القيام على نحو الأول، فصلى أربع ركعات في سجدتين،" ثم قال: "يا أيها الناس إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله تعالى لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتموهما قد انكسفا فافزعوا إلى الصلاة". (ابن جرير) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২৮
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23528 ۔۔۔ مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ انھوں نے سورج اور چاند گرہن کے وقت نماز کا طریقہ بیان کیا کہ قراءت کی جائے پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد پھر قرآت کی جائے (رواہ ابن جریر)
23528- عن مجاهد أنه وصف الصلاة عند انكساف الشمس والقمر فقال: يقرأ ثم يرفع رأسه ثم يقرأ. (ابن جرير) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২৯
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23529 ۔۔۔ ” مسند علی (رض) “ حکم روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے دور خلافت میں سورج گرہن ہوا حضرت علی (رض) کوفہ میں تھے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو نماز پڑھائی نماز میں ” سورة فجر “ پڑھی پھر قیام کے بقدر رکوع کیا پھر رکوع سے اٹھ کر اتنی ہی دیر کھڑے رہے پھر نصف رکوع کے بقدر سجدہ کیا پھر سجدہ کے بقدر جلسہ کیا پھر دوسرا سجدہ جلسہ کے بقدر کیا پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے اس رکعت میں ” سورة یس “ اور ” سورة الروم “ پڑھی پھر ایسا ہی کیا جیسا کہ پہلی رکعت میں کیا تھا یوں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھ مرتبہ رکوع کیا اور چار سجدے کیے ۔ مرواہ ھناد فی حدیثہ )
23529- (مسند علي رضي الله عنه) عن الحكم قال: "انكسفت الشمس على عهد علي بالكوفة فقام يصلي بهم فقرأ الحجر، ثم ركع كقدر قيامه، ثم رفع رأسه كقدر ركوعه، ثم سجد كقدر نصف ركوعه، ثم رفع رأسه كقدر سجوده ثم سجد كقدر ما رفع رأسه، ثم قام فقرأ في الثانية يس والروم، ثم فعل مثل ما فعل في الأول، فكان ركوعه ست مرات في أربع سجدات. (هناد في حديثه) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩০
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23530 ۔۔۔ ” مسند ابن عمر (رض) “ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورج گرہن کے وقت دو رکعتیں پڑھیں بایں طور پر کہ ہر رکعت میں دو رکعتیں تھیں ۔ مرواہ ابن النجار )
23530- (مسند ابن عمر) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى في كسوف الشمس ركعتين في كل ركعة ركعتين. (ابن النجار) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩১
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23531 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کی روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : بخدا یہ چاند خشیت باری تعالیٰ سے رو پڑتا ہے مرواہ ابن عساکر )
23531- عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: "والله إن هذا القمر يبكي من خشية الله تبارك وتعالى". (كر) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩২
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23532 ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں میں تیر اندازی کررہا تھا اچانک سورج گرہن ہوا میں نے تیروں کو ہاتھ سے پھینک دیا اور اس کوشش میں لگ گیا کہ دیکھوں سورج گرہن کے موقع پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سا نیا عمل کرتے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں ہاتھ اٹھائے تکبیر وتہلیل اور حمد و تسبیح کر رہے ہیں پھر برابر دعا کرتے رہے حتی کہ سورج چھٹ گیا چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکوع جکیے ۔ (رواہ ابن جریر)
23532- عن عبد الرحمن بن سمرة قال: "بينا أنا أرمي بأسهمي في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ كسفت الشمس فنبذتهن وسعيت أنظر ما أحدث كسوف الشمس لرسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هو رافع يديه يسبح ويحمد ويهلل ويكبر ويدعو فلم يزل كذلك حتى حسر عن الشمس فقرأ سورتين وركع ركعتين". (ابن جرير) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩৩
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ کسوف کا بیان :
23533 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ جب کسی رات شدید آندھی چلتی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فورا مسجد میں آجاتے جب تک آندھی رک نہ جاتی مسجد ہی میں رہتے اور جب آسمان میں کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا مثلا سورج یا چاند گرہن ہوجاتا تو تب بھی آپ مسجد میں آجاتے ۔ مرواہ ابن ابی الدنیا وسندہ حسن)
23533- عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كانت ليلة ريح شديدة كان مفزعه إلى المسجد حتى تسكن الريح وإذا حدث في السماء حدث من كسوف شمس أو قمر كان مفزعه إلى المصلى. (ابن أبي الدنيا وسنده حسن) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩৪
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ استسقاء :
23534 ۔۔۔ شعبی روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) استسقاء (طلب بارش) کے لیے باہر تشریف لائے آپ (رض) نے دعا و استغفار سے زیادہ کچھ نہ کیا آپ (رض) سے کسی نے کہا : ہم نے تو آپ کو بارش طلب کرتے نہیں دیکھا ؟ آپ (رض) نے فرمایا میں نے آسمان کے نچھتروں سے بارش طلب کی ہے جن سے بارش کا نزول کیا جاتا ہے پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت کی : ” یا قوم استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ یرسل السماء علیکم مدارا “۔ یعنی اے میری قوم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو اور پھر اس کے حضور توبہ کرو وہ تمہارے اوپر آسمان سے موسلا دھار مینہ برسائے گا ۔ (رواہ عبدالرزاق و سعید بن المنصور وابن ابی شیبۃ وابن سعد وابوعبیدہ فی الغریب وابن المنذر وابن ابی حاتم ابوالشیخ وجعفر الفریابی فی الذکر والبیہقی) استسقاء کا معنی : ستسقاء کا لغوی معنی ” پانی طلب کرنا “ ہے اصطلاح میں صلوۃ استسقاء اس نماز کو کہا جاتا ہے جو خشک سالی اور قحط کے موقع پر مخصوص طریقہ سے پڑھی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ باران رحمت نازل فرمائے ۔
23534- عن الشعبي قال: "خرج عمر يستسقي فلم يزد على الاستغفار حتى رجع فقيل له: ما رأيناك استسقيت؟ " قال: "لقد طلبت المطر بمجاديح السماء التي يستنزل بها المطر،" ثم قرأ: {وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَاراً} . (عب ص ش وابن سعد وأبو عبيد في الغريب وابن المنذر وابن أبي حاتم وأبو الشيخ وجعفر الفريابي في الذكر، ق) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩৫
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ استسقاء :
23535 ۔۔۔ مالک دار روایت نقل کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کے دور خلافت میں قحط پڑگیا جس سے لوگ کافی متاثر ہوئے ایک آدمی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی امت کے لیے بارش طلب کیجئے بلاشبہ آپ کی امت ہلاکت کے دہانے پر پہنچ چکی ہے چنانچہ اس آدمی کو خواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت ہوئی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عمر (رض) کے پاس جاؤ اور انھیں میرا سلام کہو اور انھیں خبر دو کہ لوگوں پر بارش برسائی جائے گی اور ان سے کہو کہ عقلمندی کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو ، چنانچہ وہ آدمی سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کے پاس آیا اور سارا ماجرا سنایا سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سن کر رو پڑے اور پھر فرمایا : اے میرے پروردگار جس کام کو بجا لانے سے میں عاجز نہ رہا اس میں کوتاہی نہیں کروں گا ۔ (رواہ البیہقی فی الدلائل)
23535- عن مالك الدار قال: "أصاب الناس قحط في زمان عمر ابن الخطاب فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله استسق الله تعالى لأمتك فإنهم قد هلكوا فأتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم في المنام فقال: ائت عمر فأقرأه السلام وأخبره أنهم يسقون وقل له: عليك الكيس الكيس فأتاه الرجل فأخبره فبكى،" ثم قال: "يا رب لا آلو ما عجزت عنه". (ق في الدلائل) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩৬
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ استسقاء :
23536 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) لوگوں کو جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں ایک دیہاتی آگیا اور کہنے لگا : یا امیر المؤمینن ! بادل رک گئے ہیں دیہاتی بھوک کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں حتی کہ گوؤیں بھی دھوکا کرگئی ہیں سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا بلکہ بادلہ مینہ برسائے گا انشاء اللہ تعالیٰ دیہاتی شکم سیر ہوں گے اور گوؤیں بھی دموں سے پکڑی جائیں گی مجھے پسند نہیں کہ میرے پاس تیز رفتار سوار اونٹ ہوں اور دیہاتی گوؤں سے محروم ہوجائیں پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : موسم بہار کا عطیہ کتنا باقی رہا حضرت عباس (رض) نے جواب دیا کچھ تھوڑا بہت شور باقی رہ گیا ہے ، چنانچہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ہاتھ اوپر اٹھائے اور دعا کرنے لگے مسلمانوں نے بھی دعا کی ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے موسلا دھار بارش نازل فرمائی ۔ (رواہ ابن جریر والحاملی)
23536- عن عائشة أن أعرابيا جاء وعمر بن الخطاب يخطب الناس يوم الجمعة فقال: يا أمير المؤمنين قحط السحاب وجاعت الأعراب وخدعت الضباب، فقال عمر: بل أمطر السحاب إن شاء الله تعالى وشبعت الأعراب وأغطت بأذنابها الضباب، ما أحب أن لي مائة إبل كلها سود الحدقة قحط الأعراب من الضباب، ثم التفت إلى أصحابه فقال: ما بقي من أنواء الربيع؟ فقال العباس: بقيت العواء يا أمير المؤمنين فرفع عمر يديه ودعا المسلمون فلم يزل حتى سقاهم الله تعالى. (ابن جرير والمحاملي) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩৭
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ استسقاء :
23537 ۔۔۔ ابومروان اسلمی کی روایت ہے کہ وہ حضرت عمر (رض) کے ساتھ استسقاء (طلب بارش) کے لیے باہر آئے چنانچہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) جونہی اپنے گھر سے باہر نکلے مسلسل کہتے رہے یا اللہ ہماری مغفرت کر چونکہ مغفرت کرنے والا ہے آپ یہ کلمات بآواز بلند کہتے رہے حتی کہ کہتے کہتے عید گاہ تک پہنچ گئے ۔ (رواہ جعفر فریابی فی الذکر)
23537- عن أبي مروان الأسلمي أنه خرج مع عمر بن الخطاب يستسقي فلم يزل عمر يقول من حين خرج من منزله: اللهم اغفر لنا إنك كنت غفارا يجهر بذلك ويرفع صوته حتى انتهى إلى المصلى. (جعفر الفريابي في الذكر) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩৮
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلوۃ استسقاء :
23538 ۔۔۔ خوات بن جبیر کہتے ہیں سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کے دور میں لوگوں کو سخت قحط پیش آیا ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) لوگوں کے ساتھ نماز گاہ میں تشریف لائے اور لوگوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چادر گھمائی اور یوں کہ دایاں کونا گھما کر اپنے بائیں مونڈھے پر لائے اور چادر کا بایاں کونا گھما کر اپنے دائیں مونڈھے پر لائے پھر ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی : یا اللہ ہم تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں اور تجھ سے بارش طلب کرتے ہیں چنانچہ لوگ ابھی نماز گاہ سے نہیں ہٹے تھے کہ بارش برسنے لگی اسی دوران کچھ دیہاتی آئے اور کہنے لگے ہم اپنے دیہاتوں میں فلاں دن اور فلاں وقت تھے کہ اچانک بادلوں نے ہم پر سایہ کردیا ہم نے بادلوں کے بیچ سے آواز سنی کوئی کہہ رہا تھا ۔ اے ابو حفص تمہاری مدد آرہی ہے اے ابو حفص تمہاری مدد آرہی ہے۔ (رواہ ابن ابی الدنیا ابن عساکر)
23538- عن خوات بن جبير قال: "أصاب الناس قحط شديد على عهد عمر فخرج عمر بالناس فصلى بهم ركعتين وخالف بين طرفي ردائه فجعل اليمين على اليسار واليسار على اليمين، ثم بسط يديه فقال: اللهم إنا نستغفرك ونستسقيك فما برح مكانه حتى مطروا فبينما هم كذلك إذا الأعراب قد قاموا فأتوا عمر فقالوا: يا أمير المؤمنين بينا نحن في بوادينا في يوم كذا في ساعة كذا إذ أظلنا غمام فسمعنا فيها صوتا أتاك الغوث أبا حفص أتاك الغوث أبا حفص". (ابن أبي الدنيا، كر) .
তাহকীক: