কানযুল উম্মাল (উর্দু)

كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال

فضائل کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৬৫৬৯ টি

হাদীস নং: ৩৮২১২
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیت المقدس
٣٨٢٠٠۔۔۔ (مسند عمر) ہیثم بن عمار سے روایت ہے فرمایا : میں نے اپنے دادا کو فرماتے سنا : جب حضرت عمر (رض) خلیفہ بنائے گئے تو آپ نے شام والوں کی زیارت کی آپ نے جابیہ میں پڑاؤ کیا دمشق میں طاعون تیزی سے پھیل رہا تھا، آپ نے دمشق جانے کا ارادہ کیا تو آپ کے ساتھیوں نے آپ سے کہا : کیا آپ کو علم نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہے : جب تم میں طاعون پھیل جائے تو اس سے مت بھاگو اور جہاں وہ ہو وہاں نہ جاؤ ! اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ جو اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ساتھ تھے وہ خوش تھے جنہیں کبھی بھی طاعون کی بیماری نہیں ہوئی۔ اس وقت آپ نے ایک شخص جدیلہ سے روانہ فرمایا جو ابھی تک اس میں داخل نہیں ہوا تھا، اور آپ بیت المقدس کی طرف چل پڑے اور صلح سے اسے فتح کرلیا۔ پھر حضرت عمر (رض) بیت المقدس میں آئے آپ کے ساتھ کعب احبار تھے، آپ نے فرمایا : ابواسحاق ! چٹان کی جگہ تمہیں معلوم ہے ؟ وہ کہنے لگے : اس دیوار سے جو جہنم کی وادی کے اتنے اتنے قریب ہے ایک گز ناپ لیں، اور وہ ڈھیر ان ہے پھر اسے کھودیں تو آپ کو وہ مل جائے گی، چنانچہ لوگوں نے کھودی تو وہ ظاہر ہوگئی، پھر حضرت عمر (رض) نے کعب سے فرمایا : تمہارے رائے کے مطابق ہم سجدہ گاہ کہاں بنائیں ؟ انھوں نے کہا : چٹان کے پیچھے بنالیں یوں آپ موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبلوں کو جمع کرلیں گے، آپ نے فرمایا : تم نے یہودیت کی مشابہت کی، ابو اسحاق ! اللہ کی قسم ! سب سے بہتر سجدہ گاہ آگے والی ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ نے وہ جگہ مسجد کے اگلے حصہ میں بنائی۔ اہل عراق کو پتہ چلا کہ آپ نے اہل شام کی زیارت و ملاقات کی ہے انھوں نے آپ کو خط لکھا جس میں آپ سے ملاقات و زیارت کی ایسے درخواست کررہے تھے جیسی ملاقات آپ نے اہل شام سے کی۔ آپ نے جانے کا قصد کرلیا تو کعب نے آپ سے کہا : امیر المومنین ! میں آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں کہ آپ اس میں داخل ہوں، آپ نے فرمایا : کیوں ؟ وہ کہنے لگے، اس میں نافرمان جنات، ہارون اور ماروت ہیں جو لوگوں کو جادو سکھاتے ہیں اور اس میں شر کے دسویں حصہ کا نواں حصہ ہے اور ہر خطرناک بیماری ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا مجھے وہ سب کچھ تو سمجھ آگیا جو تم نے ذکر کیا، صرف خطرناک بیماری سمجھ نہیں آئی وہ کیا ہے ؟ وہ کہنے لگے ! مال کی کثرت جس کا کوئی علاج نہیں، چنانچہ آپ وہاں نہیں گئے۔ (رواہ ابن عساکر)
38200- "مسند عمر" عن الهيثم بن عمار قال: سمعت جدي يقول: لما ولي عمر بن الخطاب زار أهل الشام فنزل بالجابية وكانت دمشق تشتعل طاعونا فهم أن يدخلها، فقال له: أصحابه أما علمت أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا دخل بكم الطاعون فلا تهربوا منه ولا تأتوه حيث هو"، وقد علمت أن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم الذين معك فرحانين لم يصبهم طاعون قط! فأرسل عند ذلك رجلا من جديلة ولم يدخلها هو وسار إلى بيت المقدس فافتتحها صلحا. ثم أتاها عمر ومعه كعب فقال: يا أبا إسحاق! الصخرة أتعرف موضعها؟ قال: أذرع من الحائط الذي يلي وادي جهنم كذا وكذا ذراعا وهي مزبلة ثم احفر ذلك ستجدها، فحفروا فظهرت لهم، فقال عمر لكعب: أين ترى نجعل المسجد؟ قال: اجعله خلف الصخرة فتجمع بين القبلتين: قبلة موسى وقبلة محمد صلى الله عليه وسلم، فقال: ضاهيت اليهودية والله يا أبا إسحاق! خير المساجد مقدمها، فبناه في مقدم المسجد، فبلغ أهل العراق أنه زار أهل الشام فكتبوا إليه يسألونه أن يزورهم كما زار أهل الشام، فهم أن يفعل فقال له كعب: أعيذك بالله يا أمير المؤمنين أن تدخلها! قال: ولم؟ قال: فيها عصاة الجن وهاروت وماروت يعلمان الناس السحر، وفيها تسعة أعشار الشر وكل داء معضل، قال عمر: قد فهمت كل ما ذكرته غير الداء المعضل فما هو؟ قال: كثرة الأموال، هو الذي ليس له شفاء، فلم يأتها عمر."كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২১৩
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢٠١۔۔۔ حارث بن حرمل سے روایت ہے فرمایا : حضرت علی (رض) بن ابی طالب نے فرمایا : اے اہل عراق ! اہل شام کو برابھلا نہ کہو ! کیونکہ ان میں ابدال ہیں۔ (رواہ ابن عساکر)
38201- عن الحارث بن حرمل قال: قال علي بن أبي طالب: يا أهل العراق؟ لا تسبوا أهل الشام، فإن فيهم الأبدال."كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২১৪
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢٠٢۔۔۔ تمام رازی نے ” معارۃ الدم “ کتاب میں فرمایا : ہم سے ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم اوزعی نے بیان کیا فرماتے ہیں مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جس پر مجھے بھروسہ ہے وہ کہتے ہیں مجھ سے محمد بن احمد بن ابراہیم نے ولید بن مسلم کے حوالہ سے وہ ابن جریج سے وہ عروہ بن رویم سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرمایا : میں نے حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت معاویہ (رض) کو فرماتے سنا : ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ سے ایک شخص نے دمشق کے آثار و علامت کے متعلق پوچھا، آپ نے فرمایا : اس میں ایک پہاڑ ہے جس کا نام قاسیون ہے وہاں حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیٹے (قابیل) نے اپنے بھائی (ہابیل) کو قتل کیا تھا، اور اس کے نچلے حصہ میں ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے، اور اسی جگہ میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم (علیہما السلام) کو یہود (کے شر) سے پناہ دی۔

جو بندہ بھی روح اللہ کی جگہ پر آئے غسل کرے نماز پڑھے دعاکرے گا، ایک شخص کہنے لگا : اللہ کے رسول ! ہمیں اس کی کیفیت بیان کر دیجئے۔ فرمایا : وہ دمشق نامی شہر کی پست زمین میں ہے، مزید میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ایسا پہاڑ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کیا ہے اور اسی میں میرے (جدامجد) ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے، تو جو کوئی اس جگہ آئے وہ دعا سے عاجز نہ ہو (ضرور دعا کرے) ایک شخص کہنے لگا : اللہ کے رسول ! کیا یحییٰ (علیہ السلام) کی بھی کوئی جائے پناہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں، اس میں یحییٰ (علیہ السلام) اس سے محفوظ ہوئے تھے اور قوم عاد کا ایک شخص غار میں محفوظ ہوا تھا جو آدم (علیہ السلام) کے مقتول بیٹے کے خون کے نیچے ہے اسی میں الیاس (علیہ السلام) اپنی قوم کے بادشاہ سے محفوظ ہوئے تھے، اسی میں ابراہیم، لوط، موسیٰ ، عیسیٰ اور ایوب علیہم الصلوٰۃ والسلام نے نماز پڑھی تھی، سو وہاں دعا کرنے سے عاجز نہ ہونا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے ” مجھ سے دعاکرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا “

ایک شخص کہنے لگا : اللہ کے رسول ! ہمارا رب دعا سنتا ہے یا اس کی کیا کیفیت ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” اور جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں تو میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ (فی ھذا الاسناد علتان : الرجل المبھم وتدلیس الولید بن مسلم وانا اخشی ان یکون ھذا الحدیث موضوعا، قداخرجہ ابن عساکر فادخل بین محمد بن احمد بن ابراھیم وبین الولید، ثناھشام بن خالد رواہ تمام، فلم یذکر ھشاماوقال تمام : والاشھر عن معاویۃ، واخرجہ ابوالحسن علی بن محمد بن شجاع الربعی فی فضائل الشام، انبانا ابو القاسم عبدالرحمن بن عمر الامام ثنا یعقوب الاذرعی ثنا محمد بن احمد بن ابراھیم ثنا ہشام بن خالد عن الولید بن مسلم عن ابن جریج عن عروۃ عن ابیہ قال سمعت علی بن ابی طالب یقول : سمعت رسول اللہ اوسالہ رجل عن الاثارات بدمشق فذکرہ)
38202- قال تمام الرازي في كتاب فضل مغارة الدم ثنا أبو يعقوب إسحاق بن إبراهيم الأذرعي حدثني من أثق به ثنا محمد بن أحمد بن إبراهيم عن الوليد بن مسلم عن ابن جريج عن عروة بن رويم عن أبيه قال: سمعت علي بن أبي طالب ومعاوية يقولان: سمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وسأله رجل عن الاثارات بدمشق فقال: "بها جبل يقال له "قاسيون" فيه قتل ابن آدم أخاه، وفي أسفله في الضرب ولد إبراهيم وفيه آوى الله تعالى عيسى ابن مريم وأمه من اليهود، وما من عبد أتى معقل روح الله فاغتسل وصلى ودعا لم يرده الله خائبا، فقال رجل: يا رسول الله! صفه لنا قال: هو بالغوطة في مدينة يقال لها "دمشق" أزيدكم أنه جبل كلمه الله فيه، فيه ولد أبي إبراهيم، فمن أتى هذا الموضع فلا يعجز في الدعاء؛ فقال رجل: يا رسول الله! أكان ليحيى معقل؟ قال: نعم، احترس فيه يحيى من هذا ورجل من قوم عاد في الغار الذي تحت دم ابن آدم المقتول وفيه احترس إلياس من ملك قومه، وفيه صلى إبراهيم ولوط وموسى وعيسى وأيوب، فلا تعجزوا عن الدعاء فيه، فإن الله أنزل علي {ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ} ، فقال رجل: يا رسول الله! ربنا يسمع الدعاء أم كيف ذلك؟ فأنزل الله {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ} . "..... في هذا الإسناد علتان: الرجل المبهم، وتدليس الوليد بن مسلم، وأنا أخشى أن يكون هذا الحديث موضوعا. وقد أخرجه كر فأدخل بين محمد بن أحمد بن إبراهيم وبين الوليد: ثنا هشام بن خالد رواه تمام، فلم يذكر هشاما وقال تمام: والأشهر عن معاوية. وأخرجه أبو الحسن علي بن محمد بن شجاع الربعي في فضائل الشام: أنبأنا أبو القاسم عبد الرحمن بن عمر الإمام ثنا يعقوب الأذرعي ثنا محمد بن أحمد بن إبراهيم ثنا هشام بن خالد عن الوليد بن مسلم عن بن جريج عن عروة عن أبيه قال: سمعت علي بن أبي طالب يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وسأله رجل عن الاثارات بدمشق - فذكره".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২১৫
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢٠٣۔۔۔ (مسند جابر بن عبداللہ) عن عبدالرحمن بن زیاد بن انعم عن عمرو بن جابر الحضرمی فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا : جو دمشق میں رہا اس نے نجات پائی “ میں (عبدالرحمن) نے کہا : کیا یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہے ؟ انھوں نے فرمایا : کیا میں اپنی رائے سے تمہیں حدیث بیان کررہا ہوں ؟ (رواہ ابن عساکر)
38203- "مسند جابر بن عبد الله" عن الرحمن بن زياد بن أنعم عن عمرو بن جابر الحضرمي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من سكن دمشق نجا، فقلت: أعن رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا؟ قال: أعن رأيي أحدثك."كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২১৬
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢٠٤۔۔۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ منبر پر تھے آپ نے شام کی طرف دیکھا، پھر فرمایا : اے اللہ ! ان کے دل متوجہ کر، اے اللہ ! ان کے دل متوجہ کر، اور عراق کی طرف دیکھ کر ایسا ہی فرمایا، اور ہر طرف رخ کر کے یہی فرمایا، نیز فرمایا : یا اللہ ! ہمیں زمین کے پھل عطا فرما، ہمیں ہمارے مد اور صاع میں برکت عطا کر، اور فرمایا : مومن کی مثال اس ڈنٹھل کی سی ہے جو کبھی گرتا ہے اور کبھی سیدھا ہوجاتا ہے اور کافر کی مثال مضبوط درخت کی سی ہے جو برابر سیدھا رہتا اور پتہ بھی نہیں چلتا کہ گرجاتا ہے۔ (رواہ ابن عساکر)
38204- عن جابر أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يوما وهو على المنبر نظر قبل الشام فقام: "اللهم! أقبل بقلوبهم، اللهم! أقبل بقلوبهم،" ونظر قبل العراق فقال نحو ذلك، وقبل كل أفق فقال مثل ذلك، وقال: "اللهم ارزقنا من ثمرات الأرض وبارك لنا في مدنا صاعنا، وقال: مثل المؤمن كمثل السنبلة تخر مرة وتستقيم مرة ومثل الكافر كمثل الأرزة، لا يزال يستقيم حتى يخر ولا يشعر". "ابن عساكر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২১৭
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢٠٥۔۔۔ سلیمان تیمی بہزبن حکیم سے وہ اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں فرمایا : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے لیے کوئی بہتر فیصلہ فرمائیں ! آپ نے فرمایا : شام میں رہو۔ (دارقطنی فی الافراد، ابن عساکر، وقال دار قطنی، ھذا من روایۃ الا کا بر عن الاصاغر سلیمان تیمی اکبر من بھزبن حکیم قدلقی انس بن مالک)
38205- عن سليمان التيمي عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده قال: قلت: يا رسول الله! خر لي، قال: عليك بالشام."قط في الأفراد، كر، وقال قط: هذا من رواية الأكابر عن الأصاغر، فسليمان التيمي أكبر من بهز قد لقي أنس بن مالك".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২১৮
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢٠٦۔۔۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے روایت ہے فرمایا : ایک دفعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہارے لیے فتح کرنے والا ہے اور تمہیں قدرت دینے والا ہے تو ایک شخص نے عرض کیا : مجھے بہتر حکم دیجئے ! فرمایا، شام کو نہ چھوڑنا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا بہترین شہر ہے اس میں اس کے برگزیدہ بندے چنے جاتے ہیں۔ (رواہ ابن عساکر)
38206- عن معاوية بن أبي سفيان قال: بينا أنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ قال: "إن فاتح الله لكم! وممكن لكم": فقال رجل: خر لي، قال: "عليك بالشام، فإنها خيرة الله من بلاده، يجتبى إليها خيرته من عباده". "كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২১৯
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢٠٧۔۔۔ واثلہ بن اسقع (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگ لشکر روانہ کریں گے، ایک لشکر یمن میں ایک شام میں ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں ہوگا، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نوجوان آدمی ہوں اگر مجھے وہ زمانہ مل جائے تو آپ مجھے کہاں کا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا : شام، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ زمین ہے اس میں اپنے برگزیدہ بندے لے جاتا ہے، اگر تم نہ چاہو تو یمن میں رہو، اس کے تالابوں سے سیراب ہونا، اللہ تعالیٰ میرے لیے شام اور اس کے باسیوں کی طرف سے کافی ہے۔ (طبرانی فی الکبیر، ابن عساکر)
38207- عن واثلة بن الأسقع قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يجند الناس أجنادا فجند باليمن وجند بالشام وجند بالمشرق وجند بالمغرب"، فقلت: يا رسول! إني رجل حدث السن فإن أدركت ذلك الزمان فأيها تأمرني؟ قال "عليك بالشام، فإنه صفوة الله من أرضه يسوق إليها صفوته من خلقه، فإن أتيتم فعليكم باليمن فاسقوا بغدره، وقد تكفل الله لي بالشام وأهله". "طب، كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২০
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢٠٨۔۔۔ حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے فرمایا : ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ٹکڑوں سے قرآن مجید جمع کررہے تھے کہ آپ نے فرمایا : شام کے لیے خوشخبری ہو، کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ایسے کیوں ؟ آپ نے فرمایا : کیونکہ رحمن تعالیٰ کے فرشتے اس پر اپنے پرکھولے ہوئے ہیں۔ (ابن ابی شیبہ، مسند احمد، ترمذی، حسن غریب، ابن حبان، طبرانی فی الکبیر، حاکم، بیھقی، ضیاء فی المختارۃ)
38208- عن زيد بن ثابت قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم نؤلف القرآن من الرقاع إذ قال: "طوبى للشام"! قيل: يا رسول الله! ولم ذاك؟ "إن ملائكة الرحمن باسطة أجنحتها عليها". "ش، حم، ت: حسن غريب، حب، طب، ك، هب، ض".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২১
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢٠٩۔۔۔ حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت ہے فرمایا : ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے کہ شام اور اس میں رہنے والے رومیوں کا ذکر ہونے لگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم عنقریب شام فتح کرکے اس پر غالب آجاؤ گے، اور اس کے سمندر کے کنارے ایک قلعہ پاؤگے جسے ” انفۃ “ کہا جاتا ہے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ وہاں سے بارہ ہزار شہید اٹھائے گا۔ (ابن عساکر وقفل عن الاوزاعی انہ قال حدیث جدید)
38209- عن أبي أمامة قال: كنا جلوسا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا الشام ومن بها من الروم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنكم ستظهرون بالشام وتغلبون عليها وتصيبون على سيف بحرها حصنا يقال له "أنفة" يبعث الله منه يوم القيامة اثنى عشر ألف شهيد." كر، ونقل عن الأوزاعي أنه قال: حديث جيد".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২২
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١٠۔۔۔ حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور ہم لوگ آپ کے پاس بیٹھے تھے، شام کے لیے خوشخبری ہو ! ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اس کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اس پر ڈالی ہوئی ہے۔ (رواہ ابن عساکر)
38210- عن زيد بن ثابت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن عنده: "طوبى للشام"! قلنا: ما باله يا رسول الله؟ قال: "إن الرحمن لباسط رحمته عليه". "كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২৩
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١١۔۔۔ حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عنقریب تم لشکر تیار کرو گے، ایک لشکر شام میں، ایک یمن میں ایک عراق میں اور ایک مصر میں، لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہمارے لیے بہتر (جگہ کا) فیصلہ فرمائیے ! فرمایا : شام، عرض کیا ہم خیموں، مویشیوں والے لوگ ہیں شام نہیں جاسکتے، آپ نے فرمایا، جس کا دل نہ چاہے، اور ایک روایت میں ہے جو شام نہ جاسکتا ہو وہ اس کے یمن سے جاملے اور اس کے حوضوں کا پانی پیئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ میرے لیے شام اور اس کے باسیوں کی طرف سے کافی ہوگیا ہے۔ (رواہ ابن عساکر)
38211- عن أبي الدرداء أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إنكم ستجندون أجنادا جندا بالشام وجندا باليمن وجندا بالعراق وجندا بمصر" قالوا: فخر لنا يا رسول الله! قال: "عليكم بالشام" قالوا: إنا أصحاب ماشية وعمود ولا نطيق الشام، قال: فمن أبى - وفي لفظ: "من لم يطق الشام - فليلحق بيمنه وليسق بغدره، فإن الله قد تكفل لي بالشام وأهله". "كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২৪
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١٢۔۔۔ حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے فرمایا : شام، دارالاسلام کا وسط ہے۔ (رواہ ابن عساکر)
38212- عن أبي الدرداء قال: الشام عقر دار الإسلام."كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২৫
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١٣۔۔۔ حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے فرمایا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شام کا ذکر کرکے فرمایا : حشر ونشر کی زمین ہے۔ (ابویعلی، ابن عساکر)
38213- عن أبي ذر قال: ذكر النبي صلى الله عليه وسلم الشام فقال: "أرض المحشر والمنشر". "ع، كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২৬
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١٤۔۔۔ (مسند سہل بن سعد الساعدی) عبدالمیمین بن عباس بن سہل بن سعد اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں : کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : اللہ کے بندو ! اللہ سے ڈرو ! کیونکہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہے تو وہ تمہیں شام کی روٹی اور زیتون سے سیر کردے گا۔ (الرویانی، ابن عساکر)
38214- "مسند سهل بن سعد الساعدي" عن عبد المهيمن ابن عباس بن سهل بن سعد عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول: "اتقوا الله يا عباد الله! فإنكم إن اتقيتم الله أشبعكم من خبز الشام وزيت الشام". "الروياني، كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২৭
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١٥۔۔۔ (مسند شداد بن اوس) محمد بن عبدالرحمن سے روایت ہے فرمایا میں نے اپنے والد کو اپنے دادا شداد بن اوس (رض) سے روایت کرتے سنا، پھر وہ بیٹھے، پھر اٹھے پھر بیٹھے پھر کہنے لگے : یارسول اللہ ! مجھ پر زمین تنگ ہورہی، آپ نے فرمایا : انشاء اللہ شام اور بیت المقدس فتح ہوں گے انشاء اللہ تعالیٰ ، اور انشاء اللہ تم اور تمہاری اولاد تمہارے بعد وہاں کے امام ہوں گے۔ (رواہ ابن عساکر)
38215- "مسند شداد بن أوس" عن محمد بن عبد الرحمن قال: سمعت أبي يحدث عن جده شداد بن أوس ثم جلس ثم قام ثم جلس فقال: يا رسول الله! ضاقت بي الأرض، فقال: "ألا! إن الشام إن شاء الله وبيت المقدس سيفتح إن شاء الله تعالى، وتكون أنت وولدك من بعدك أئمة بها إن شاء الله." كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২৮
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١٦۔۔۔ محمد بن عبدالرحمن بن شداد بن محمد بن شداد سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد کو سنا وہ اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا شداد بن اوس کی روایت نقل کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جان کنی کے عالم میں تھے، آپ نے فرمایا : شداد تمہاری کیسی حالت ہے ؟ عرض کیا : دنیا تنگ لگ رہی ہے، آپ نے فرمایا : تم پر تنگ نہیں ہوگی، شام اور بیت المقدس فتح ہوگا، تم اور تمہاری اولاد انشاء اللہ ان لوگوں میں امام ہوں گے۔ (رواہ ابن عساکر)
38216- عن محمد بن الرحمن بن شداد بن محمد بن شداد قال: سمعت أبي يذكر عن أبيه عن جده عن شداد بن أوس أنه كان عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يجود بنفسه فقال: ما لك يا شداد؟ قال: ضاقت بي الدنيا، فقال: "ليس عليك، إن الشام يفتح ويفتح بيت المقدس وتكون أنت وولدك أئمة فيهم إن شاء الله". "كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২২৯
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١٧۔۔۔ عبداللہ بن حوالہ الازدی سے روایت ہے کہ انھوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے لیے تحریر لکھ دیجئے اور ایک روایت میں ہے : میرے لیے پسند کرلیجئے، کوئی شہر جس میں میں رہوں اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ زندہ رہیں گے تو میں آپ کی قربت پر کسی چیز کو پسند نہ کرتا، آپ نے فرمایا : شام، اور تین بار فرمایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب میری شام کے بارے میں ناپسندیدگی نظر نہ آئی تو فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ شام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اے شام ! میرا (رحمت کا) ہاتھ تجھ پر ہے اے شام ! تو میری پسندیدہ جگہ ہے میں تجھ میں اپنے بہترین بندے داخل کروں گا، تو میرے انتقام کی تلوار اور میرے عذاب کا کوڑا ہے تو زیادہ ڈرانے والی اور تیری طرف محشر ہوگا۔

اور میں نے معراج کی رات ایک سفید ستون دیکھا، گویا وہ موتی ہے جسے فرشتے اٹھائے ہوئے تھے، میں نے کہا : تم نے کیا اٹھا رکھا ہے ؟ وہ کہنے لگے : اسلام کا ستون ہے، ہمیں اسے شام میں رکھنے کا حکم ہے، اور ایک دفعہ میں سو رہا تھا کہ میں نے ایک کتاب دیکھی ایک روایت میں ہے کتاب کا ستون دیکھا، جو میرے تکئے کے نیچے سے اچک لیا گیا، میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو چھوڑ دیا ہے میں نے اس کے پیچھے اپنی نظر دوڑائی تو وہ ایک نور تھا جو میرے سامنے چھایا ہوا تھا، یہاں تک کہ شام میں رکھ دیا گیا۔

حضرت ابن حوالہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے لیے پسند فرمائیں، فرمایا : شام اور جو شام میں نہ جانا چاہے وہ اس کے یمن میں چلا جائے، اور اس کے حوضوں کا پانی پیئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ میرے لیے شام اور شام کے باسیوں کی طرف سے کافی ہے۔ (ابن عساکر وفیہ صالح بن رستم ابوعبد السلام مجھول وقال فی المیزان، روی عنہ ثقتان فخفت الجھالۃ )
38217- عن عبد الله بن حوالة الأزدي أنه قال: يا رسول الله اكتب لي - وفي لفظ: خر لي - بلدا أكون فيه، فلو أعلم أنك تبقى لم أختر على قربك شيئا، قال: "عليك بالشام" - ثلاثا فلما رأى النبي صلى الله عليه وسلم كراهيتي للشام قال: "هل تدرون ما يقول الله عز وجل في الشام؟ " يقول: "يا شام؟ يدي عليك يا شام! أنت صفوتي من بلادي، أدخل فيك خيرتي من عبادي، أنت سيف نقمتي وسوط عذابي، أنت الأنذر وإليك المحشر، ورأيت ليلة أسري بي عمودا أبيض كأنه لؤلؤ تحمله الملائكة، قلت: ما تحملون؟ قالوا: عمود الإسلام، أمرنا أن نضعه بالشام، وبينا أنا نائم رأيت كتابا - وفي لفظ: عمود الكتاب - اختلس من تحت وسادتي، فظننت أن الله قد تخلى عن أهل الأرض، فأتبعته بصري فإذا هو نور ساطع بين يدي حتى وضع بالشام، فقال ابن حوالة: يا رسول الله! خر لي، قال: "عليك بالشام، فمن أبى أن يلحق بالشام فليلحق بيمنه وليسق من غدره، فإن الله تكفل لي بالشام وأهله". "كر، وفيه صالح بن رستم أبو عبد السلام مجهول، وقال في الميزان: روى عنه ثقتان فخفت الجهالة".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২৩০
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١٨۔۔۔ حضرت عبداللہ بن حوالہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے ہم نے آپ سے فقروعریانی اور بےسروسامانی کی شکایت کی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خوش ہوجاؤ ! اللہ کی قسم ! مجھے تمہارے بارے میں بہتات سے زیادہ قلت کا زیادہ خوف ہے، اللہ کی قسم ! تم میں یہ چیز برقرار رہے گی یہاں تک کہ تمہارے لیے فارس، روم اور حمیر کی زمین فتح ہوگی یہاں تک کہ تین لشکر ہوں گے، ایک لشکر شام میں، ایک عراق میں، اور

ایک یمن میں ہوگا، یہاں تک کہ ایک شخص کو سو دینار دئیے جائیں گے پھر بھی وہ انھیں کم سمجھے گا۔

حضرت ابن حوالہ فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! شام کون جاسکتا ہے وہاں مینڈھیوں والے رومی ہیں ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ ضرور تمہیں فتح کرائے گا اور اس کا تمہیں خلیفہ بنائے گا۔ یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت جن کی قمیضیں سفید اور ان کی گدیاں منڈی ہوئی ہوں گی کھڑے ہو کر تمہارے حبشی آدمی پر سایہ کریں گے۔ وہ (حبشی) انھیں جو حکم دے گا وہ کریں گے، اور اب وہاں ایسے مرد ہیں جن کی نظروں میں تم اونٹوں کی چونتڑوں میں پائے جانے والی چیچڑیوں سے زیادہ حقیر ہو۔

حضرت ابن حوالہ (رض) فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے لیے پسند کریں اگر مجھے وہ زمانہ مل جائے ؟ آپ نے فرمایا : میں تمہارے لیے شام پسند کرتا ہوں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ علاقہ ہے اور اسی کی طرف اس کے برگزیدہ بندے چنے جاتے ہیں۔ اے اہل یمن، شام کو نہ چھوڑنا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ زمین شام ہے جو نہ چاہے وہ اس کے یمن میں چلا جائے اور اس کے حوضوں کا پانی پیئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ میرے لیے شام اور اس کے باسیوں کا ذمہ دار ہے۔ (الحسن بن سفیان، حلیۃ الاولیاء، ابن عساکر)
38218- عن عبد الله بن حوالة قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فشكونا إليه الفقر والعري وقلة الشيء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أبشروا! فوالله لأنا من كثرة الشيء أخوف عليكم من قلته! والله لا يزال هذا الأمر فيكم حتى تفتح لكم أرض فارس وأرض الروم وأرض حمير، وحتى يكونوا أجنادا ثلاثة: جندا بالشام، وجندا بالعراق، وجندا باليمن، وحتى يعطى الرجل مائة دينار فيتسخطها". قال ابن حوالة: فقلت: يا رسول الله! ومن يستطيع الشام وبها الروم ذات القرون؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "والله! ليفتحنها الله عليكم وليستخلفنكم الله فيها، حتى تظل العصابة منهم البيض قمصهم المحلقة أقفاؤهم قياما على الرجل الأسود منكم، ما أمرهم فعلوا، وإن بها اليوم رجالا لأنتم اليوم أحقر في أعينهم من القردان في أعجاز الإبل. قال ابن حوالة: فقلت: فاختر لي يا رسول الله إن أدركني ذلك، قال: أختار لك الشام، فإنها صفوة الله من بلاده، وإليها يجتبي صفوته من عباده، يا أهل اليمن! عليكم بالشام، فإن صفوة الله من الأرض الشام، فمن أبى فليلحق بيمنه وليسق بغدره، وإن الله قد تكفل لي بالشام وأهله". "الحسن بن سفيان، حل، كر".
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৮২৩১
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ شام
٣٨٢١٩۔۔۔ حضرت عبداللہ بن حوالہ (رض) سے مروی ہے فرمایا : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھے، آپ نے فرمایا : ابن حوالہ ! اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم اس فتنہ کو دیکھو گے جو زمین کے اطراف میں پھیل رہا ہوگا گویا وہ گائے کے سینگ ہیں ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا : شام کو نہ چھوڑنا۔ (رواہ ابن عساکر)
38219- عن عبد الله بن حوالة قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر قال: "يا ابن حوالة! كيف أنت إذا أدركتك فتنة تفور في أقطار الأرض كأنها صياصي بقر؟ قلت: ما تأمرني يا رسول الله؟ قال: عليك بالشام." كر".
tahqiq

তাহকীক: