কানযুল উম্মাল (উর্দু)
كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال
فتنوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৯৪৯ টি
হাদীস নং: ৩১৭০৩
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زبیر اور علی (رض) کی گفتگو
31691 ۔۔۔ (ٕمسند الزبیر ) ابوکنانہ سے روایت ہے کہ جنگ جمل کے دن زبیر (رض) نے کہا ہم ایسے دن سے بہت ڈرتے تھے ۔ ابن عساکر
31692 (مسند الزبير) عن أبي كنانة قال : قال الزبير يوم الجمل : قد كنا نحذر هذا اليوم.
(كر). ذيل وقعة الجمل
(كر). ذيل وقعة الجمل
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭০৪
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ذیل واقعة الجمل
31692 ۔۔۔ حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ تم بنی اسرائیل کی نقش قدم پر چلو گے ان میں جو باتیں پیش آئیں تم میں بھی پیش آئیں کی ایک شخص نے پوچھا تو کیا ہم میں بندر اور خنزیر بھی ہوں گے ؟ فرمایا تمہیں اس سے کون سی بات بری کررہی ہے تیری ماں میرے لوگوں نے کہا اے ابوعبداللہ ہمیں حدیث سنائیے۔ تو فرمایا اگر میں نے حدیث سنائی تو تم تین فرقوں میں منقسم ہوجاؤ گے ایک فرقہ جو مجھ سے قتال کرے کا ایک فرقہ جو میری مدد نہیں کرے گا ایک فرقہ جو میری تکذیب کرے گا میں حدیث بتایا کرتا ہوں لیکن اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نسبت نہیں کرتا ہوں تو بتاؤ اگر میں نے حدیث بیان کروں کہ تم اپنی کتاب (قرآن کریم) کو لے کر جلادوگے اور کوڑے میں ڈال دوگے کیا تم میری تصدیق کروگے ؟ لوگوں نے کہا سبحان اللہ یا ایسا ہونے والا ہے بتاؤ اگر میں حدیث بیان کروں کہ تم کعبہ اللہ کو توڑ دو گے کیا تم میری تصدیق کروں گے ؟ لوگوں نے کہا سبحان اللہ کیا ایسا بھی ہوگا ؟ بتاؤ میں حدیث بیان کردی کہ تمہاری ماں مسلمانوں کو ایک جماعت کے ساتھ نکلے گی اور تم سے قتال کرے گی کیا تم میری تصدیق کروگے ؟ لوگوں نے کہا سبحان اللہ کیا ایسا ہوگا ۔ رواہ ابن ابی شیبة
31693 عن حذيفة قال : لتعلمن بعمل بني إسرائيل ! فلا يكون فيهم شئ إلا كان فيكم مثله ، فقال رجل : يكون فينا قردة وخنازير ؟ قال : وما يبرئك من ذلك - لا أم لك ؟ قالوا : حدثنا يا أبا عبد الله ! قال : لو حدثتكم لافترقتم على ثلاث فرق : فرقة تقاتلني ، وفرقة لا تنصرني ، وفرقة تكذبني ، أما ! أني سأحدثكم ولا أقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أرأيتكم لو حدثتكم أنكم تأخذون كتابكم فتحرقونه وتلقونه في الحشوش صدقتموني ؟ قالوا : سبحان الله ! ويكون هذا ؟ قال : أرأيتكم لو حدثتكم أنكم تكسرون قبلتكم صدقتموني ؟ قالوا : سبحان الله ويكون هذا ؟ قال : أرأيتكم لو حدثتكم أن أمكم تخرج في فرقة من المسلمين وتقاتلكم صدقتموني ؟ قالوا : سبحان الله ! ويكون هذا.
(ش).
(ش).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭০৫
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ واقعہ صفین
31693 ۔۔۔ عبدالملک بن حمید سے روایت ہے کہ ہم عبدالمالک بن صالح کے ساتھ دمشق میں تھے تودمشق کے دیوان میں ایک خط ملا جس کا ترجمہ یہ ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
عبداللہ بن عباس کی طرف سے معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سلام علیک میں آپ کے لیے اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ ہمیں اور آپ کو تقویٰ کی دولت نصیب فرمائے حمدوصلوة کے بعد آپ کا خط موصول ہوا میں نے اس کے متعلق خبر ہی سنی آپ نے ہماری آپس کی محبت کا ذکر کیا اللہ کی قسم آپ میرے دل میں انتہائی محبوب اور مخلص ہیں میں آپس کی دوستی کی رعایت رکھنے والا ہوں اس کی صلاح کا محافظ ہوں لا قوة الاب اللہ اما بعد : آپ قریش کے انتہائی ہوشیار اور عقلمند بردباد اچھے اخلاق والے شخص ہیں آپ سے ایسی رائے صادر ہونی چاہیے جس میں آپ کے نفس کی رعایت ہو اور آپ کے دین کا بچاؤ ہو اسلام اور اہل اسلام پر شفقت ہو یہ آپ کے لیے بہتر ہے اور دنیا و آخرت میں آپ کے حصہ کو بڑھائے گی اور میں نے یہ بات سنی ہے کہ آپ عثمان بن عفان (رض) کی شان کا تذکرہ کرتے ہیں جان لیں آپ کا ان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے لوگوں کو ابھارنا مت کے انتشار اور مزید خون بہانی اور ارتکاب حرام کا سبب ہے اللہ کی قسم یہ کام السلام اور اہل اسلام دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اللہ تعالیٰ عنقریب آپ کے لیے کافی ہوں گے عثمان غنی (رض) کے خون بہانے والوں کے معاملہ میں آپ اپنے معاملہ میں غور کریں اور اللہ تعالیٰ سے ڈریں تحقیق کہا جائے گا آپ امارت کے طلبگار ہیں اور آپ کہیں گے آپ کے پاس اس بارے میں رسول اللہ کی وصیت موجود ہے تو رسول اللہ کا ارشاد برحق ہے آپ اپنے معاملہ کے بارے میں غور کریں میں نے رسول اللہ کو عباس (رض) سے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد میں سے بارہ افراد کو حکومت عطاء فرمائیں گے ان میں سفاح منصور مہدی امین اور موتمن اور امیر العصب ہوں گے آپ بتائیں میں وقت سے پہلے جلدی کروں یا رسول اللہ کی پیش گوئی کا انتظار کروں رسول اللہ کا قول حق ہے اللہ تعالیٰ جس کام کو انجام تک پہنچا نا چاہیں اس کو ٹالنے والا کوئی نہیں اگرچہ تمام عالم اس کو ناپسند کرے اللہ کی قسم اگر میں چاہوں تو اپنے لیے آگے بڑھنے والے اعوان و انصار جمع کرسکتا ہوں لیکن جس چیز سے آپ کو روک رہا ہوں اس کو اپنے لیے بھی ناپسند کرتا ہوں اللہ تعالیٰ رب العالمین کا دھیان رکھیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کی امت میں صالح خلیفہ بنیں جہاں تک آپ کے چچا زاد علی بن ابی طالب کا معاملہ ہے ان کے لیے تو ان کا خاندان کھڑا ہوگیا ہے اور ان کو سبقت حاصل ہے ان کا حق ہے اور ان کو حق پر برقرار رکھنے کے لیے مددگار موجود ہیں یہ میری طرف سے نصیحت ہے آپ کی حق میں ان کے حق میں اور پوری امت مسلمہ کے حق میں والسلام علیک ورحمتہ وبرکاة عکرمتہ نے لکھا ہے چودہ صفر 36 ھ ۔ رواہ ابن عساکر
عبداللہ بن عباس کی طرف سے معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سلام علیک میں آپ کے لیے اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ ہمیں اور آپ کو تقویٰ کی دولت نصیب فرمائے حمدوصلوة کے بعد آپ کا خط موصول ہوا میں نے اس کے متعلق خبر ہی سنی آپ نے ہماری آپس کی محبت کا ذکر کیا اللہ کی قسم آپ میرے دل میں انتہائی محبوب اور مخلص ہیں میں آپس کی دوستی کی رعایت رکھنے والا ہوں اس کی صلاح کا محافظ ہوں لا قوة الاب اللہ اما بعد : آپ قریش کے انتہائی ہوشیار اور عقلمند بردباد اچھے اخلاق والے شخص ہیں آپ سے ایسی رائے صادر ہونی چاہیے جس میں آپ کے نفس کی رعایت ہو اور آپ کے دین کا بچاؤ ہو اسلام اور اہل اسلام پر شفقت ہو یہ آپ کے لیے بہتر ہے اور دنیا و آخرت میں آپ کے حصہ کو بڑھائے گی اور میں نے یہ بات سنی ہے کہ آپ عثمان بن عفان (رض) کی شان کا تذکرہ کرتے ہیں جان لیں آپ کا ان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے لوگوں کو ابھارنا مت کے انتشار اور مزید خون بہانی اور ارتکاب حرام کا سبب ہے اللہ کی قسم یہ کام السلام اور اہل اسلام دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اللہ تعالیٰ عنقریب آپ کے لیے کافی ہوں گے عثمان غنی (رض) کے خون بہانے والوں کے معاملہ میں آپ اپنے معاملہ میں غور کریں اور اللہ تعالیٰ سے ڈریں تحقیق کہا جائے گا آپ امارت کے طلبگار ہیں اور آپ کہیں گے آپ کے پاس اس بارے میں رسول اللہ کی وصیت موجود ہے تو رسول اللہ کا ارشاد برحق ہے آپ اپنے معاملہ کے بارے میں غور کریں میں نے رسول اللہ کو عباس (رض) سے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد میں سے بارہ افراد کو حکومت عطاء فرمائیں گے ان میں سفاح منصور مہدی امین اور موتمن اور امیر العصب ہوں گے آپ بتائیں میں وقت سے پہلے جلدی کروں یا رسول اللہ کی پیش گوئی کا انتظار کروں رسول اللہ کا قول حق ہے اللہ تعالیٰ جس کام کو انجام تک پہنچا نا چاہیں اس کو ٹالنے والا کوئی نہیں اگرچہ تمام عالم اس کو ناپسند کرے اللہ کی قسم اگر میں چاہوں تو اپنے لیے آگے بڑھنے والے اعوان و انصار جمع کرسکتا ہوں لیکن جس چیز سے آپ کو روک رہا ہوں اس کو اپنے لیے بھی ناپسند کرتا ہوں اللہ تعالیٰ رب العالمین کا دھیان رکھیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کی امت میں صالح خلیفہ بنیں جہاں تک آپ کے چچا زاد علی بن ابی طالب کا معاملہ ہے ان کے لیے تو ان کا خاندان کھڑا ہوگیا ہے اور ان کو سبقت حاصل ہے ان کا حق ہے اور ان کو حق پر برقرار رکھنے کے لیے مددگار موجود ہیں یہ میری طرف سے نصیحت ہے آپ کی حق میں ان کے حق میں اور پوری امت مسلمہ کے حق میں والسلام علیک ورحمتہ وبرکاة عکرمتہ نے لکھا ہے چودہ صفر 36 ھ ۔ رواہ ابن عساکر
31694 عن عبد الملك بن حميد قال : كنا مع عبد الملك بن صالح بدمشق فأصاب كتابا في ديوان دمشق : بسم الله الرحمن الرحيم ، من عبد الله بن عباس إلى معاوية بن أبي سفيان ، سلام عليك ! فاني أحمد الله اليك الذي لا إله إلا هو ، عصمنا وإياك بالتقوى ! أما بعد فقد جاءني كتابك فلم أسمع منه إلا خيرا وذكرت شأن المودة بيننا وإنك لعمر الله لودود في صدري من أهل المودة الخالصة والخاصة ، وإني للخلة التي بيننا لراع ، ولصالحها لحافظ ولا قوة إلا بالله ، أما بعد فانك من ذوي النهى من قريش وأهل الحلم والخلق الجميل منها ! فليصدر رأيك بما فيه النظر لنفسك والتقية على دينك والشفقة على الاسلام وأهله ! فانه خير لك وأوفر لحظك في دنياك وآخرتك ، وقد سمعتك تذكر شأن عثمان بن عفان فاعلم أن انبعاثك في الطلب بدمه فرقة وسفك للدماء وانتهاك للمحارم ! وهذا لعمر الله ضرر على الاسلام وأهله ! وإن الله سيكفيك أمر سافكي دم عثمان فتأن في أمرك واتق الله ربك ! فقد يقال : إنك تريد
الامارة وتقول : إن معك وصية من النبي صلى الله عليه وسلم بذلك ، فقول نبي الله صلى الله عليه وسلم الحق فتأن في أمرك ! ولقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول للعباس : إن الله يستعمل من ولدك اثني عشر رجلا منهم السفاح والمنصور والمهدي والامين والمؤتمن وأمير العصب ، أفتراني أستعجل الوقت أو انتظر قول رسول الله صلى الله عليه وسلم وقوله الحق وما يرد الله من أمر يكن ولو كره العالم ذلك ! وايم الله لو أشاء لوجدت متقدما وأعوانا وأنصارا ! ولكني أكره لنفسي ما أنهاك عنه ، فراقب الله ربك واخلف محمدا في أمته خلافة صالحة ! فأما شأن ابن عمك علي بن أبي طالب فقد استقامت له عشيرته وله سابقته وحقه ويحق له على الحق أعوان ، ونصحا لك وله ولجماعة المسلمين ! والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.وكتب عكرمة ليلة البدر من صفر سنة ست وثلاثين.
(كر).
الامارة وتقول : إن معك وصية من النبي صلى الله عليه وسلم بذلك ، فقول نبي الله صلى الله عليه وسلم الحق فتأن في أمرك ! ولقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول للعباس : إن الله يستعمل من ولدك اثني عشر رجلا منهم السفاح والمنصور والمهدي والامين والمؤتمن وأمير العصب ، أفتراني أستعجل الوقت أو انتظر قول رسول الله صلى الله عليه وسلم وقوله الحق وما يرد الله من أمر يكن ولو كره العالم ذلك ! وايم الله لو أشاء لوجدت متقدما وأعوانا وأنصارا ! ولكني أكره لنفسي ما أنهاك عنه ، فراقب الله ربك واخلف محمدا في أمته خلافة صالحة ! فأما شأن ابن عمك علي بن أبي طالب فقد استقامت له عشيرته وله سابقته وحقه ويحق له على الحق أعوان ، ونصحا لك وله ولجماعة المسلمين ! والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.وكتب عكرمة ليلة البدر من صفر سنة ست وثلاثين.
(كر).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭০৬
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ واقعہ صفین
31694 ۔۔۔ اسماعیل بن رجاء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک حلقہ میں تھا اس میں ابو سعید خدری (رض) عبداللہ بن عمرو تھے وہاں سے حسین بن علی (رض) کا گذر ہوا انھوں نے سلام کیا قوم نے سلام کا جواب دیاتو عبداللہ بن عمرو نے کہا کیا میں تمہیں ایسے شخص کے بارے میں نہ بتلاؤں جو اہل زمین میں سے اہل آسمان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ قوم نے کہا ضرور بتلائیں ؟ تو بتایا وہ یہی چلنے والے ہیں (ٕیعنی حسین (رض)) انھوں نے صفین کی رات سے اب تک کوئی بات نہیں کی ان کا مجھ سے راضی ہونا مجھے سرخ اونٹ ملنے سے زیادہ محبوب ہے تو ابوسعید (رض) نے کہا کیا تم ان سے معذرت نہیں کرتے ؟ کہا کیوں نہیں ؟ ابوسعید (رض) نے اجازت حاصل کی اجازت مل گئی پھر عبداللہ بن عمرو کے لیے اجازت مانگی اور مسلسل جازت مانگتے رہے یہاں تک اجازت مل گئی ابوسعید (رض) کو عبداللہ بن عمرو کے قول کے متعلق بتایا تو حضرت حسین (رض) نے فرمایا اے عبداللہ بن عمرو کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں اہل آسمان کے نزدیک اہل زمین میں سب سے زیادہ محبوب ہوں تو عبداللہ بن عمرو نے کہا ہاں رب کعبہ کی قسم تو فرمایا تم نے مجھ سے اور میرے والد سے صفین کے دن کیوں قتال کیا ؟ اللہ کی قسم میرے والد تو مجھ سے بہتر تھے تو کہا ہاں لیکن میرے والد عمرو نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میری شکایت کی کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ رات بھرقیام کرتا ہے دن بھر روزہ رکھتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عبداللہ نمازیں بھی پڑھا کر اور سویا بھی کر روزہ بھی اور افطار بھی کرو اور عمر کی اطاعت بھی کرو جنگ صفین کے دن انھوں نے مجھے قسم دی تب میں نکلا اللہ کی قسم میں نے نہ ان کی تعداد بڑھائی نہ تلوار چلائی نہ نیزہ مارا نہ تیر پھینکا توراوی نے کہا توحضر تحسین (رض) بات چیت شروع کی ۔ رواہ ابن عساکر
31695 عن اسماعيل بن رجاء عن أبيه قال : كنت في مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم في حلقة فيها أبو سعيد الخدري وعبد الله بن عمرو فمر بنا حسين بن علي فسلم فرد عليه القوم فقال عبد الله بن عمر و : ألا أخبركم بأحب أهل الارض إلى أهل السماء ؟ قالوا : بلى ، قال : هو هذا الماشي ؟ ما كلمني كلمة منذ ليالي صفين ولان يرضى عني أحب إلي من أن يكون لي حمر النعم ، فقال أبو سعيد : ألا تعتذر إليه ؟ قال : بلى ، فاستأذن أبو سعيد فأذن له فدخل ، ثم استأذن لعبد الله بن عمرو فلم يزل به حتى أذن له ، فأخبره أبو سعيد بقول عبد الله بن عمرو فقال له حسين : أعلمت يا عبد الله أني أحب أهل الارض إلى أهل السماء ! قال : إي ورب الكعبة ! قال : فما حملك على أن قاتلتني وأبي يوم صفين ؟ فو الله لابي كا خيرا مني ! قال :
أجل ، ولكن عمرو شكاني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إن عبد الله يقوم الليل ويصوم النهار ، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا عبد الله بن عمرو ! صل ونم وصم وأفطر وأطع عمرا ! فلما كان يوم صفين أقسم علي فخرجت ، أما والله ! ما كثرت لهم سوادا ولا اخترطت سيفا ولا طعنت برمح ولا رميت بسهم ، قال : فكلمه.
(كر).
أجل ، ولكن عمرو شكاني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إن عبد الله يقوم الليل ويصوم النهار ، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا عبد الله بن عمرو ! صل ونم وصم وأفطر وأطع عمرا ! فلما كان يوم صفين أقسم علي فخرجت ، أما والله ! ما كثرت لهم سوادا ولا اخترطت سيفا ولا طعنت برمح ولا رميت بسهم ، قال : فكلمه.
(كر).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭০৭
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین پر باپ بیٹے کی گفتگو
31695 ۔۔۔ عمر بن شعیب جو عمرو بن شعیب کے بھائی میں وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو کی ماں منبہ بن حجاج کی بیٹی تھی وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتہائی شفقت کا برتاؤ کرتی تھیں ایک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لائے تو پوچھا اے ام عبداللہ آپ کیسی ہیں ؟ عرض کیا یا رسول اللہ خیریت سے ہوں پوچھا عبداللہ کیسے ہیں ؟ عرض کیا یارسول اللہ خیریت سے ہیں البتہ عبداللہ ایسے شخص ہیں کہ انھوں نے دنیا کو چھوڑ دیا اس کو بالکل نہیں چاہتے عورتوں کو چھوڑ دیا اور ان کی طرف بھی کوئی رغبت نہیں اور گوشت بھی نہیں کھاتے ۔ ان کے والد نے صفین کے دن جنگ کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو عر ض کیا اے اباجان آپ مجھے نکل کر قتال کا کی سے حکم دیتے ہیں حالانکہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عہدلیا ہے تو والد نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو تم سے آخری عہد لیا وہ یہ تھا کہ تمہارے ہاتھ پکڑ کر میرے ہاتھ میں دیا۔ اور فرمایا زندگی بھرعمر وبن عاص (رض) کی اطاعت کر عرض کیا ہاں۔ رواہ ابن عساکر
31696 عن عمر بن شعيب أخي عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : كان أم عبد الله بن عمرو ابنة منبه بن الحجاج وكانت تلطف برسول الله صلى الله عليه وسلم فأتاها ذات يوم فقال : كيف أنت يا أم عبد الله ؟ فقالت : بخير يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : فكيف أبو عبد الله ؟ قالت بخير يا رسول الله ، قال فكيف عبد الله ؟ قالت : بخير يا رسول الله ، وعبد الله جرل قد ترك الدنيا فلا يردها وترك النساء فلا يريدهن ولا يأكل اللحم فقال : له أبوه يوم صفيقن : أخرج فقاتل ! فقال : يا أبت كيف تأمرني أخرج فأقاتل وقد سمعت من عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ما سمعت ؟ قال : نشدتك بالله ! أتعلم أن آخر ما كان من رسول الله صلى الله عليه وسلم إليك أن أخذ بيدك فوضعها في يدي فقال : أطلع عمرو بن العاص ما دام حيا ! قال : نعم.
(كر).
(كر).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭০৮
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین پر باپ بیٹے کی گفتگو
31697 ۔۔۔ حضرت ابن عمرو (رض) سے روایت ہے انھوں نے اپنے والد سے کہا کہ اے ابا جان رسول اللہ نے وفات پائی وہ آپ سے راضی تھے اور ان کے بعد بھی دونوں خلیفہ آپ سے راضی تھے عثمان (رض) قتل ہوئے اس وقت آپ ان سے غائب تھے آپ گھر میں رہیں کیونکہ نہ آپ خلیفہ بنائے جائیں گے نہ ہی معاویہ (رض) کا حاشیہ بنیں اس فانی اور مختصر دنیا پر۔ رواہ ابن عساکر۔
31697 عن ابن عمرو أنه قال لابيه : يا أبت ! إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض وهو عنك راض والخليفتان من بعده ، وقتل عثمان وأنت عنه غائب ، فأقم في منزلك ! فانك لست مجعولا خليفة ولا تريد أن تكون حاشية لمعاوية على دنيا قليلة فانية.(كر).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭০৯
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین پر باپ بیٹے کی گفتگو
31696 ۔۔۔ حنظلہ بن خویلد عنتری روایت کرتے ہیں کہ میں معاویہ (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس وہ شخص آئے جو عمار (رض) کے سرکے متعلق لڑ رہے تھے ہر ایک یہ کہہ رہا تھا کہ میں نے قتل کیا تو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا تم میں ہر ایک اپنے ساتھی کے نفس کو خوش کرے کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ عمار کو باغی فرقہ قتل کرے گا تو معاویہ (رض) نے فرمایا پھر آپ ہمارے ساتھ کیوں ہیں ؟ عرض کیا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں لیکن میں نے قتال نہیں کیا کہ میرے والد صاحب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میری شکایت کی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا تھا کہ اپنے والد کی اطاعت کرو زندگی بھر ان کی نافرمانی نہ کرنا میں آپ کے ساتھ ہوں لیکن قتال نہیں کرتا۔ ابن ابی شیة ابن عساکر
31698 عن حنظلة بن خويلد العنزي قال : إني لجالس عند معاوية إذ أتاه رجلان يختصمان في رأس عمار كل واحد منهما يقول : أنا قتلته ! قال عبد الله بن عمرو : ليطب به أحد كما نفسا لصاحبه ! فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : تقتله الفئة الباغية ، قال معاوية : فما بالك معنا ؟ قال : إني معكم ولست أقاتل ، إن أبي شكاني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول صلى الله عليه وسلم : أطع أباك ما دام حيا ولا تعصه ! فأنا معكم ولست أقاتل.
(ش ، كر).
(ش ، كر).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১০
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31697 ۔۔۔ عبدالواحد دمشقی سے روایت ہے کہ جنگ صفین کے دن حوشب حمیری نے علی (رض) کو آواز دی اے ابن ابی طالب آپ ہم سے واپس ہوجائی ہم آپ کو اللہ کی قسم دیتے ہیں ہمارے خون کے بارے میں تو علی (رض) نے فرمایا دور ہوجا اے ام ظلیم کے بیٹے اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ دین میں مداھنت کی گنجائش ہے تو ضرور ایسا کرتا اور میرے اوپر اس کا برداشت کرنا آسان ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ اہل قرآن کی مداھنت اور سکوت پر راضی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمانے والے ہیں۔ حلیة الاولیا ابن عساکر
31699 عن عبد الواحد الدمشقي قال : نادى حوشب الحميري عليا يوم صفين فقال : انصر عنا يا ابن أبي طالب ! فانا ننشدك الله في دمائنا ! فقال علي : هيهات يا ابن أم ظليم ! والله لو علمت أن المداهنة تسعني في دين الله لفعلت ولكان أهون علي في المؤونة ، ولكن الله لم يرض من أهل القرآن بالادها والسكوت ، والله يقضي.
(حل ، كر).
(حل ، كر).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১১
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31698 ۔۔۔ یزید بن اصم سے روایت ہے کہ علی (رض) سے جنگ صفین کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا ہمارے اور ان کے مقتولین جنت میں ہوں گے اور انجام کار میرے اور معاویہ کے لیے ہوگا ۔ رواہ ابن ابی شیبة
31700 عن يزيد بن الاصم قال : سئل علي عن قتال يوم صفين فقال : قتلانا وقتلاهم في الجنة ، ويصير الامر إلي وإلى معاوية.
(ش).
(ش).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১২
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31699 ۔۔۔ ابن ابی ذنب اس شخص سے روایت کرتے ہیں جنہوں علی (رض) سے حدیث بیان کی کہ جب معاویہ (رض) سے قتال کیا تو پانی پہلے تو فرمایا ان کو چھوڑ دو اس لیے کہ پانی سے نہیں روکا جاتا ہے۔ رواہ ابن ابی شیبة
31701 عن ابن ذئب عمن حدثه عن علي أنه لما قاتل معاوية سبقه إلى الماء فقال : دعوهم ، فان الماء لا يمنع.
(ش).
(ش).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১৩
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31700 ۔۔۔ ابوجعفر سے روایت ہے کہ جنگ صفین کے دن جب علی (رض) کے پاس کوئی قیدی لایا جاتاتو ان کے سواری کا جانور اور اسلحہ کے لیتے اور ان سے عہد لیتے کہ دوبارہ لڑائی میں شریک نہیں ہوگا اس کے بعد رہا کردیتے ۔ رواہ ابن ابی شیبة
31702 عن أبي جعفر قال : كان علي إذا أتي بأسير يوم صفين أخذ دابته وسلاحه وأخذ عليه أن لا يعود وخلى سبيله.
(ش).
(ش).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১৪
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31701 ۔۔۔ یزید بن ہلال سے روایت ہے کہ میں علی (رض) کے ساتھ صفین میں شریک تھا جب کوئی قیدی لایا جاتا تو فرماتے تمہیں باندھ کر قتل نہیں کروں گا کیونکہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں اسلحہ لے لیتے اور قسم لیتے کے لڑائی میں دوبارہ شریک نہ ہو۔ اور اس کو چار دراھم دے دیتے۔ رواہ ابن ابی شیبة
31703 عن يزيد بن بلال قال : شهدت مع علي صفين فكان إذا أتي بالاسير قال : لن أقتلك صبرا ، إني أخاف الله رب العالمين ، وكان يأخذ سلاحه ويحلفه لا يقاتله ويعطيه أربعة دراهم.
(ش).
(ش).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১৫
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31702 ۔۔۔ حارث سے روایت ہے کہ جب علی (رض) صفین سے واپس لوٹے تو ان کو معلوم ہوگیا وہ ہرگز پوری حکومت حاصل نہیں کرسکتے تو انھوں نے چند ایسی باتیں بتائیں جو پہلے نہیں بتائی تھیں اور کچھ وہ حدیثیں بیان کیں جو پہلے بیان نہیں کرتے تھے تو انھوں نے فرمایا اے لوگو ! معاویہ (رض) کی حکومت کو ناپسند مت کرو اللہ کی قسم اگر تم نے ان کو گم کردیا تو تم دیکھو گے سرکندھوں سے حنظل کی طرح اتر رہے ہوں گے ۔
31704 عن الحارث قال : لما رجع علي من صفين علم أنه لا يملك أبدا فتكلم بأشياء كان لا يتكلم بها وحدث بأحاديث كان لا يتحدث بها فقال فيما يقول : أيها الناس ، لا تكرهوا إمارة معاوية ، والله لو فقدتموه لرأيتم الرؤس تندر من كواهلها كالحنظل.
(ش).
(ش).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১৬
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31703 ۔۔۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ عورتیں بانجھ ہوئیں امیر المومنین علی بن ابی طالب جیسابچہ جننے سے واللہ نہ میں نے سنانہ دیکھا ایسا کوئی بادشاہ جو ان کا ہم پلہ ہو ۔ میں نے ان کو صفین کے دن دیکھا ان کے سرپر ایک سفید عمامہ ہے اس کا ایک کنارہ لٹکا لیا گویا ان کی دونوں آنکھیں جلتا ہواچراغ ہیں وہ ایک ایک جماعت کے پاس ٹھہر کر ان کو ابھار رہے تھے یہاں تک میرے پاس پہنچے میں لوگوں کی ایک جماعت میں تھا فرمایا اے مسلمانو کی جماعت خشیت الہی کو اپنا شعار بنا لوآواز پشت کرلو وقار کی چادر اوڑ ھ لو نیزے تیار کرلوتلواریں نیام سے باہر نکال لوسوتنے سے پہلے نیزے مارنے میں قوت سے کام لوتلواروں سے قتال کرو اور تلواروں کو قدم سے ملا لوتیر کو نیزے سے کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کی نگرانی ہو نبی کے چچازاد بھائی کے ساتھ پلٹ کر حملہ کروبھاگنے سے شرم کرو کیونکہ میدان سے بھا گنا عار ہے جو ایڑی اور گردن میں باقی رہے گا روز قیامت آگ میں داخل ہونے کا سبب ہوگا اپنے نفسو س سے ہمارے نفسو س کو خوش کرو مت کو قبول کرو آسانی کے ساتھ تم اس سوادا عظم پر اور گاڑے ہوئے خیمہ پر حملہ کرو کیونکہ اس کے ایک جانب شیطان بیٹھا ہوا ہے اپنے بازو پھیلائے ہوئے کودنے کے لیے ایک ہاتھ بڑھایا ہوا ہے پٹنے کے لیے ایک پاؤں پیچھے کیا ہوا ہے ثابت قدم رہو یہاں تک تمہارے سامنے دین کا ستون ظاہر ہوجائے تم ہی غالب رہو گے اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے تمہارے اعمال کو ضائع نہیں فرمائیں گے ۔ رواہ ابن عساکر
31705 عن ابن عباس قال : عقم النساء أن يأتين بمثل أمير المؤمنين علي بن أبي طالب ، والله ما رأيت ولا سمعت رئيسا يوزن به ، لرأيته يوم صفين وعلى رأسه عمامة بيضاء قد أرخى طرفها كأن عينيه سراجا سليطا وهو يقف على شرذمة يحضهم حتى انتهى إلي وأنافي كثف من الناس فقال : معاشر المسلمين ، استشعروا الخشية وغضوا الاصوات وتجلبوا السكينة وأعملوا الاسنة وأقلعوا السيوف من الاغماد قبل السلة وأبلغوا الوخز ونافحوا الضبا وصلوا السيوف بالخطا والنبال بالرماح ! فانكم بعين الله ومع ابن عم نبيه صلى الله عليه وسلم ، عاودوا الكر واستحيوا من الفر ! فانه عار باق في الاعقاب والاعناق ونار يوم الحساب ، وطيبوا عن أنفسكم أنفسنا وامشوا إلى الموت سجحا ، وعليكم بهذا السود الاعظم والرواق المطنب ، فاضربوا ثبجه ، فان الشيطان راكد في كسره ومفترش ذراعيه قد قدم للوثبة يدا وأخر للنكوص رجلا ، فصمدا صمدا حتى ينجلي لكم عمود الدين ، وأنتم الاعلون والله معكم ولن يتركم أعمالكم.
(كر).
(كر).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১৭
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31704 ۔۔۔ (مندعلی) ابوفاختہ سے روایت ہے کہ صفین کے دن علی (رض) کے پاس قیدی لایا گیا تو فرمایا مجھے باندھ کر قتل نہ کریں علی (رض) نے فرمایا باندھ کر قتل نہیں کرتا ہوں میں اللہ رب العالمین سے ڈرتاہوں تو ان کو چھوڑ دیا اور فرمایا کیا تم میں کوئی خیر ہے کہ تم بیعت کرلو ۔ الشافعی والبیہقی
31706 (مسند علي) عن أبي فاختة أن عليا أتي بأسير يوم صفين فقال : لا تقتلني صبرا ، فقال علي : لا أقتلك صبرا ، إني أخاف الله رب العالمين ، فخلى سبيله وقال : أفيك خير تبايع.
(الشافعي ، ق).
(الشافعي ، ق).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১৮
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31705 ۔۔۔ علی (رض) سے روایت ہے کہ جو شخص ہماری جماعت میں سے اور ان کی جماعت میں سے اللہ کی رضا کا طلب گار ہوا اس نے نجات پائی یعنی جنگ صفین میں ۔ رواہ ابن عساکر
31707 عن علي قال : من كان يريد وجه الله منا ومنهم نجا يعني يوم صفين.
(كر).
(كر).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭১৯
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31706 ۔۔۔ (مسند حسن بن علی ابن ابی طالب ) سفیان روایت کرتے ہیں میں حسن (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا کوفہ سے مدینہ واپس آنے کے بعد میں نے ان سے کہا اے مسلمانو کو ذلیل کرنے والے انھوں نے میرے خلاف جس بات سے استدلال کیا وہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے بسنا کہ دن رات ختم نہ ہوئی جب تک اس امت کے اختیارات ایک ایسے شخص کے ہاتھ نہ جمع ہوجائیں جو بڑی سرین والے اور بڑے حلق والا (یعنی سخت قوت والا بہادر) جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتاوہ معاویہ (رض) ہے میں جان گیا اللہ کا فیصلہ واقع ہونے ولا ہے۔ نعیم بن حماد فی الفتن
31708 (من مسند الحسن بن علي بن أبي طالب) عن سفيان قال : أتيت حسن بن علي بعد رجوعه من الكوفة إلى المدينة فقلت له يا مذل المؤمنين ، فكان مما احتج علي أن قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : لا تذهب الايام والليالي حتى يجتمع أمر هذه الامة على رجل واسع السرم ضخم البلعوم يأكل ولا يشبع وهو معاوية ، فعلمت أن أمر الله واقع.
(نعيم بن حماد في الفتن).
(نعيم بن حماد في الفتن).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭২০
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31707 ۔۔۔ عطاء بن سائب سے روایت ہے کہ مجھ سے بہت لوگوں نے روایت بیان کی شام کے قاضیوں میں سے ایک قاضی عمر (رض) کے پاس آیا اور کہا اے امیر المومنین ؟ میں نے ایک خوفناک خواب دیکھا ہے پوچھا وہ کون سا ؟ کہاں میں نے چاند و سورج کو دیکھا آپس میں قتال کررہے تھے اور ستارے بھی دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے پوچھا تم کس کے ساتھ تھے کہا میں چاند کے ساتھ تھا سورج پر غالب تھا عمر (رض) نے فرمایا : فرمایا جاؤ آئندہ میرے لیے کوئی کام نہ کرنا تو عطاء کہتے ہیں مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ معاویہ (رض) کے ساتھ صفین کے دن قتل ہوا ۔ رواہ ابن ابی شیبة
31709 عن عطاء بن السائب قال : حدثني غير واحد أن قاضيا من قضاة الشام أتى عمر فقال : يا أمير المؤمنين ، رأيت رؤيا أفظعتني ، قال : ما هي ؟ قال : رأيت الشمس والقمر يقتتلان والنجوم معهما نصفين ، قال : فمع أيهما كنت ؟ قال : كنت مع القمر على الشمس ، فقال عمر : وجعلنا الليل والنهار آيتين فمحونا آية الليل وجعلنا آية النهار مبصرة فانطلق ، فو الله لا تعمل لي عملا أبدا.قال عطاء : فبلغني أنه قتل مع معاوية يوم صفين.
(ش).
(ش).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭২১
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31708 ۔۔۔ (مسندعلی) طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ میں نے علی (رض) کو ایک پرانے کجاوے پر دیکھا کہ وہ حسن و حسین (رض) سے کہہ رہے تمہیں کیا ہوا تم باندیوں کی طرح رو رہے ہو ؟ میں نے اس بات ظاہر و باطن سے دیکھا قوم سے قتال یا کفر کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں پایا اس دین کی رو سے جو اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ۔ مستدرک
31710 (مسند علي) عن طارق بن شهاب قال : رأيت عليا على رحل رث بالربذة وهو يقول للحسن والحسين : ما لكما تحنان حنين الجارية ؟ والله ، لقد ضربت هذا الامر ظهرا البطن فما وجدت بدا من قتال القوم أو الكفر بما أنزل الله على محمد ص.
(ك).
(ك).
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১৭২২
فتنوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دونوں کے مقتولین جنت میں
31709 ۔۔۔ میمون بن مہران سے روایت ہے کہ صفین کی دن علی (رض) کا گذر ایک مقتول پر ہوا آپ کے ساتھ اشترنخعی بھی تھا اس نے انا اللہ وانا راجعون پڑھی تو علی (رض) نے فرمایا تمہیں کیا ہوا ؟ کہا کہ یہ حابس یمانی ہے میں نے ایمان کی حالت میں اس سے ملاقات کی تھی آج گمراہی پر مارا گیا علی (رض) نے فرمایا کہ وہ اب بھی مومن ہے۔ رواہ ابن عساکر
31711 عن ميمون بن مهران قال : مر علي برجل مقتول يوم صفين ومعه الاشتر فاسترجع الاشتر فقال علي : ما لك ؟ قال : هذا حابس اليماني عهدته مؤمنا ثم قتل على ضلالة ، قال علي : والان هو مؤمن.
(كر).
(كر).
তাহকীক: