কানযুল উম্মাল (উর্দু)
كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال
علم کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৯০৬ টি
হাদীস নং: ২৯৪৪১
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل : ۔۔۔ علوم مذمومہ اور مباحہ کے بیان میں : علم نجوم :
29441 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے علی ! نجومیوں کے پاس مت بیٹھو۔ (رواہ الخرائطی فی مساوی الاخلاق والدیلمی) ۔ کلام : ۔۔۔ حدیث ضعیف ہے دیکھئے الجامع المصنف 243 ۔
29441- عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "يا علي لا تجالس أصحاب النجوم". الخرائطي في مساوي الأخلاق والديلمي.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৪২
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ علم نسب کا بیان :
29442 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : علم انساب اتنا ہی حاصل کرو جس سے تم صلہ رحمی کرسکو۔ (رواہ ھناد) ۔ کلام : ۔۔۔ حدیث ضعیف ہے دیکھئے ذخیرۃ الحفاظ 2454 ۔
29442- عن عمر قال: تعلموا أنسابكم لتصلوا أرحامكم. هناد.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৪৩
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ علم نسب کا بیان :
29443 ۔۔۔ سفیان ، ابن جریج ، عطاء ابن عباس (رض) کی سند سے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف لائے آپ نے مسجد میں لوگوں کا جم غفیر دیکھا اور یہ لوگ ایک شخص کے پاس جمع تھے آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کی ، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ شخص بڑا علامہ ہے۔ فرمایا : کیسا علامہ ہے عرض کی : یہ عرب کے انساب اشعار اور جنگوں کے حالات کا ماہر ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ علم ایسا ہے کہ جس کا ہونانفع بخش نہیں اور اس سے جاہل رہنا باعث ضرر نہیں ۔ (رواہ الدیلمی)
29443- عن سفيان عن ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس وأبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل المسجد فرأى جمعا من الناس على رجل فقال: "ما هذا؟ قالوا: "يا رسول الله رجل علامة، قال: وما العلامة؟ قالوا: أعلم الناس بأنساب العرب وبالشعر وبما اختلف فيه العرب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هذا علم لا ينفع وجهالة لا تضر". الديلمي.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৪৪
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29444 ۔۔۔ قتادہ کی روایت ہے کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک شخص کو قصہ گوئی کرتے دیکھا اس سے فرمایا : کیا تمہیں سورت یوسف “ یاد ہے اس نے کہا : جی ہاں فرمایا پڑھو اس شخص نے سورت پڑھنی شروع کی اور جب ” نحن نقص علیک احسن القصص “۔ پڑھا تو آپ (رض) نے فرمایا : کیا تم قرآن کے اچھے قصوں سے زیادہ اچھے قصے بیان کرنا چاہتے ہو۔ (رواہ ابن عساکر)
29444- عن قتادة قال: سمع عمر بن الخطاب رجلا يتبع القصص فقال له: أتحسن سورة "يوسف"؟ قال: نعم، قال: اقرأها فقرأها حتى بلغ "نحن نقص عليك أحسن القصص" فقال: أتريد أحسن من أحسن القصص. "كر".
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৪৫
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29445 ۔۔۔ ابو نضرہ کی روایت ہے کہ حضرت تمیم داری (رض) نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) سے قصہ گوئی کی اجازت لی آپ (رض) نے پہلے انھیں منع کیا پھر اجازت دے دی ۔ (رواہ المروزی فی العلم)
29445- عن أبي نضرة استأذن تميم الداري عمر بن الخطاب في القصص فقال: الذبح، ثم أذن له بعد. المروزي في العلم.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৪৬
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29446 ۔۔۔ بشربن عاصم کہ ایک مرتبہ تمیم داری (رض) نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) سے قصہ گوئی کی اجازت لینی چاہی ۔ ، حضرت عمر (رض) نے فرمایا ، جی ہاں قصہ گوئی ذبح قصہ گوئی ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ (رواہ العسکری فی الموعظ)
29446- عن بشر بن عاصم قال: جاء تميم الداري إلى عمر فاستأذنه في القصص فقال: نعم وهو الذبح. العسكري في المواعظ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৪৭
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29447 ۔۔۔ سائب بن یزید (رض) کی روایت ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے دور میں قصہ گوئی نہیں کی جاتی تھی چنانچہ سب سے پہلے حضرت تمیم داری (رض) نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) سے قصہ گوئی کے متعلق اجازت طلب کی آپ (رض) نے اجازت دے دی ۔ (رواہ العسکری)
29447- عن السائب بن يزيد أنه لم يكن يقص على عهد النبي صلى الله عليه وسلم ولا أبي بكر ولا عمر وكان أول من قص تميم الداري استأذن عمر أن يقص على الناس قائما فأذن له. العسكري.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৪৮
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29448 ۔۔۔ ثابت بنانی کی روایت ہے کہ سب سے پہلے عبید بن عمیر نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کے دور خلافت میں قصہ گوئی کی ۔ (رواہ ابن سعد والعسکری فی الموعظ)
29448- عن ثابت البناني قال: أول من قص عبيد بن عمير على عهد عمر بن الخطاب. ابن سعد والعسكري في المواعظ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৪৯
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29449 ۔۔۔ ابو البختری روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) عنہمسجد میں داخل ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص لوگوں کو خوف دلا رہا ہے فرمایا : یہ کیا ہے لوگوں نے کہا : ایک شخص لوگوں کو نصیحت کررہا ہے ، فرمایا : نہیں یہ شخص لوگوں کو نصیحت نہیں کررہا بلکہ کہتا ہے میں فلاں بن فلاں ہوں مجھے پہچان لو آپ (رض) نے اس شخص کو اپنے پاس بلوایا اور کہا : کیا تم ناسخ منسوخ کو جانتے ہو ؟ کہا نہیں فرمایا : ہماری مسجد سے نکل جاؤ اور اس میں نصیحت مت کرو ۔ (رواہ المروزی فی العلم والنحاس فی نسخہ والعسکری فی مواعظ)
29449- عن أبي البحتري قال: دخل علي بن أبي طالب المسجد فإذا رجل يخوف فقال: ما هذا؟ فقالوا: رجل يذكر الناس، فقال: ليس برجل يذكر الناس ولكنه يقول: أنا فلان ابن فلان اعرفوني فأرسل إليه فقال: أتعرف الناسخ من المنسوخ؟ فقال: لا قال: فاخرج من مسجدنا ولا تذكر فيه. المروزي في العلم والنحاس في نسخه والعسكري في المواعظ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫০
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29450 ۔۔۔ ابو یحییٰ کی روایت ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) میرے پاس سے گزرے اور میں قصہ گوئی کررہا تھا ، فرمایا کیا ناسخ اور مسنوخ میں تمییز کرسکتے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں فرمایا : تو اپنا تعارف کرانا چاہتا ہے۔ (رواہ المروزی فی العلم)
29450- عن أبي يحيى قال: مر بي علي وأنا أقص فقال: هل عرفت الناسخ من المنسوخ؟ قلت لا قال: أنت أبو اعرفوني. المروزي في العلم.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫১
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29451 ۔۔۔ شریح کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے ساتھ تھا ان کے پاس درہ تھا اور آپ کوفہ کے بازار میں چل رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے : اے تاجروں کی جماعت اپنا حق لو اور وسروں کو حق دو سلامتی میں رہوں گے تھوڑا نفع ردنہ کرو چونکہ ایسا کرنے سے کثیر نفع سے محروم رہو گے۔ یوں آپ (رض) نے چلتے چلتے ایک قصہ گو کے پاس پہنچے آپ (رض) نے فرمایا : ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے میں تم سے دو سوال پوچھتا ہوں اگر تم نے درست جواب دیا تو بہت ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا قصہ گو نے کہا : اے امیر المؤمنین پوچھئے کیا پوچھنا ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا بتاؤ ایمان کو قائم رکھنے والی کونسی چیز ہے اور ایمان کو زائل کرنے والی چیز کونسی ہے ؟ نے کہا تقوی سے ایمان قائم رہتا ہے اور طمع سے ایمان زائل ہوجاتا ہے۔ (رواہ وکیع فی الغرر)
29451- عن شريح قال: كنت مع علي بن أبي طالب ومعه الدرة بسوق الكوفة وهو يقول: يا معشر التجار خذوا الحق وأعطوا الحق تسلموا لا تردوا قليل الربح فتحرموا كثيره، حتى انتهى إلى قاص يقص فقال: تقص ونحن حديثوا عهد برسول الله صلى الله عليه وسلم أما إني أسألك عن مسألتين فإن أصبت وإلا أوجعتك ضربا قال: سل يا أمير المؤمنين قال: ما ثبات الإيمان وزواله؟ قال: ثبات الإيمان الورع وزواله الطمع. وكيع في الغرر.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫২
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29452 ۔۔۔ حارث کی روایت ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوئے آپ (رض) کو کسی قصہ گو کی آواز سنائی دی جب آپ (رض) نے اسے دیکھا تو وہ خاموش ہوگیا آپ (رض) نے فرمایا : یہ کون ہے ؟ قصہ گو نے کہا : میں ہوں حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ میرے بعد بہت سارے قصہ گو ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا ۔ (رواہ عمیر بن فضالۃ فی امالیہ)
29452- عن الحارث عن علي أنه دخل المسجد فإذا بصوت قاص فلما رآه سكت قال علي: من هذا؟ قال القاص أنا فقال علي: أما أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " سيكون بعدي قصاص لا ينظر الله إليهم". أبو عمير ابن فضالة في أماليه.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫৩
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29453 ۔۔۔ سعید بن ابی ھند کی روایت ہے کہ حضرت علی (رض) ایک قصہ گو کے پاس سے گزرے آپ (رض) نے لوگوں سے پوچھا یہ شخص کیا کہتا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ قصہ گوئی کررہا ہے فرمایا نہیں بلکہ اپنا تعارف کرا رہا ہے۔ (رواہ مسدہ وصحح)
29453- عن سعيد بن أبي هند أن عليا مر بقاص فقال: ما يقول؟ قالوا: يقص قال: لا ولكن يقول: اعرفوني. مسدد؛ وصحح.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫৪
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29454 ۔۔۔ ” مسند تمیم داری (رض) “ سائب بن یزید کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی کریم (رض) ابوبکر (رض) اور عمر (رض) کے دور میں قصہ گوئی نہیں کی جاتی تھی ، چنانچہ سب سے پہلے تمیم داری (رض) نے قصہ گوئی کی انھوں نے حضرت عمر (رض) سے اجازت طلب کی حضرت عمر (رض) نے انھیں اجازت دے دی چنانچہ وہ کھڑے ہو کر قصہ گوئی کرتے تھے ۔ (رواہ ابو نعیم)
29454- "مسند تميم الداري رضي الله عنه" عن السائب بن يزيد قال: لم يكن يقص على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أبي بكر ولا عمر وكان أول من قص تميم الداري استأذن عمر فأذن له فقص قائما. أبو نعيم.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫৫
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قصہ گوئی کا بیان :
29455 ۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت تمیم داری (رض) نے مسجد میں چراغ جلایا ۔
29455- عن أبي هريرة قال: أول من أسرج في المسجد تميم الداري. أبو نعيم.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫৬
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ علم نحو کے بیان میں :
29456 ۔۔۔ ابو اسود دوئلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت علی بن ابی طالب (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے آپ (رض) کو دیکھا کہ آپ نے سر جھکا رکھا ہے اور گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں ، میں نے عرض کی : اے امیر المومنین آپ کس سوچ میں پڑے ہیں فرمایا : میں تمہارے اس شہر میں لوگوں کو اعراب میں بہت غلطیاں کرتے دیکھ رہا ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ اصول عربیت میں ایک وثقیہ لکھ دوں ۔ میں نے عرض کی ، اگر آپ ایسا کردیں گے تو آپ ہمیں زندہ کردیں گے اور یہ زبان ہمارے اندر زندہ رہے گی پھر میں تین دن بعد آیا آپ (رض) نے مجھے ایک نوشتہ دیا اس میں لکھا تھا : ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ کلام سارے کا سارا اسم ہے فعل ہے اور حرف ہے ، اسم وہ ہے جو مسمی کے متعلق خبر دے فعل وہ ہے جو مسمی کی حرکت کے متعلق خبر دے اور حرف ایسے معنی کے متعلق خبر دیتا ہے جو اسم میں ہے اور نہ فعل میں پھر فرمایا اس میں مزید اصولوں کا اضافہ کرو اور اے ابو اسود ! جان لو کہ اشیاء کی تین قسمیں ہیں ظاہر ، مضمر اور ایک وہ شی جو ظاہر ہے اور نہ مضمر ابو اسود کہتے ہیں میں نے کچھ اور اصول جمع کیے اور آپ کے سامنے پیش کیے اس میں میں نے حروف نصب پانچ ہی لکھے تھے وہ یہ ” ان ، ان لیست ، لعل کان ، ان میں میں نے ” لکن “ نہیں ذکر کیا تھا ، آپ (رض) نے مجھے کہا : تم نے لکن کو کیوں چھوڑ دیا میں نے عرض کیا : کیا یہ بھی انہی میں سے ہے ؟ فرمایا : کیوں نہیں ۔ چنانچہ آپ (رض) نے حروف نصب میں لکن کا بھی اضافہ کیا ۔ (رواہ ابو القاسم الزجاجی فی امالیہ)
29456- عن أبي الأسود الدؤلي قال: دخلت على علي بن أبي طالب فرأيته مطرقا متفكرا فقلت فيم تفكر يا أمير المؤمنين؟ قال: إني سمعت ببلدكم هذا لحنا فأردت أن اصنع كتابا في أصول العربية، فقلت: إذا فعلت هذا أحييتنا وبقيت فينا هذه اللغة، ثم أتيته بعد ثلاث فألقى إلي صحيفة فيها: بسم الله الرحمن الرحيم الكلام كله اسم وفعل وحرف، فالأسم ما أنبأ عن المسمى، والفعل ما أنبأ عن حركة المسمى، والحرف ما أنبأ عن معنى ليس باسم ولا فعل، ثم قال لي: تتبعه وزد فيه ما وقع لك واعلم يا أبا الأسود أن الأشياء ثلاثة ظاهر ومضمر وشيء ليس بظاهر ولا مضمر، وإنما يتفاضل العلماء في معرفة ما ليس بظاهر ولا مضمر قال أبو الأسود: فجمعت عنه أشياء وعرضتها عليه فكان من ذلك حروف النصب فذكرت منها أن وأن وليت ولعل وكأن، ولم أذكر لكن فقال لي: لم تركتها؟ فقلت لم أحسبها منها فقال: بلى هي منها فزاد لي فيها. أبو القاسم الزجاجي في أماليه.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫৭
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ علم نحو کے بیان میں :
29457 ۔۔۔ صعصعہ بن صومان کی روایت ہے کہ ایک عرابی سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے پاس آیا اور کہا : اے امیر المؤمنین ! آپ اس جملے کو کیسے پڑھتے ہیں۔ ’ لایاکلہ الا الخاطون کل واللہ یخطو “۔ (اعرابی نے اعراب میں غلطی کی الخاطون کی بجائے الخاطؤن ہونا چاہیے اور واللہ کی بجائے واللہ ھا کی کسرہ کے ساتھ ہونا چاہیے اور یخطو کی بجائے یخطا ہونا چاہیے تھا چونکہ الخاطون خطا یخطو یعنی قدم بڑھانا سے ہے اور جبکہ مقصود خطا یخطی بمعنی غلطی کرنا خطا کرنا تھا) حضرت علی ب اس کا لحن سن کر ہنس دیئے اور فرمایا : (لا یاکلہ الخاطؤن) اعرابی نے کہا اے امیر المؤمنین آپ نے سچ فرمایا پھر کہا : ” ماکان اللہ لیسلم عبدہ “ ۔ (اس میں بھی غلطی تھی) یہ بات سن کر حضرت علی (رض) نے ابو اسود دوئلی کی طرف التفات کیا اور فرمایا : بہت سارے عجمی دین میں داخل ہوچکے ہیں لہٰذا کچھ ایسے اصول بناؤ جن سے راہنمائی لے کر لوگ اپنی زبانوں کو محفوظ کرسکیں ۔ چنانچہ رفع نصب اور جر کی پہچان لکھی ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الاایمان وابن عساکر وابن النجار)
29457- عن صعصعة بن صوحان قال: جاء أعرابي إلى علي ابن أبي طالب فقال: يا أمير المؤمنين كيف نقرأ هذا الحرف لا يأكله إلا الخاطون كل والله يخطو فتبسم علي وقال: "لا يأكله الخاطئون" قال: صدقت يا أمير المؤمنين ما كان الله ليسلم عبده، ثم التفت علي إلى أبي الأسود الدؤلي فقال: إن الأعاجم قد دخلت في الدين كافة فضع للناس شيئا يستدلون به على صلاح ألسنتهم فرسم له الرفع والنصب والخفض. "هب، كر" وابن النجار.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫৮
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ علم الباطن
29458 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : علم باطن اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ہے اور اللہ کا ایک حکم ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ (رواہ ابو عبدالرحمن السلمی والدیلمی وابن الجوزی فی الواھیات واقال ، لا یصح وعامہ رواتہ لا یعرثون) ۔ کلام : ۔۔۔ حدیث ضعیف ہے دیکھئے التنزیۃ 181 وذیل اللآلی 44)
29458- عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " علم الباطن سر من أسرار الله وحكم من حكم الله تعالى يقذف في قلوب من يشاء من عباده". أبو عبد الرحمن السلمي والديلمي وابن الجوزي في الواهيات وقال: لا يصح، وعامة رواته لا يعرفون.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৫৯
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ علم الباطن
29459 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : جنت کی طرف بہت ساری اقوام سبقت لے گئی ہیں حالانکہ ان کے پاس اتنی زیادہ نمازیں ہیں اور نہ روزے حج ہیں اور نہ عمرے البتہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو سمجھا اور اس کی پابندی کی ۔ (رواہ الدینوری فی المجالسۃ)
29459- عن علي قال: لقد سبق إلى جنات عدن أقوام ما كانوا بأكثر صلاة ولا صيام ولا حج ولا اعتمار ولكن عقلوا عن الله ما أمرهم به. الدينوري في المجالسة.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৯৪৬০
علم کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب ۔۔۔ علم اور علماء کے آداب کے بیان میں : فصل ۔۔۔ روایت حدیث کے بیان میں :
29460 ۔۔۔ ” مسند صدیق (رض) “۔ حافظ عماد الدین بن کثیر (فی مسند صدیق) حاکم ابو عبداللہ نیشا پوری بکر بن محمد الصریجی (مرد میں) موسیٰ بن حماد صدیق بن غسان علی بن صالح موسیٰ بن عبداللہ بن حسن بن حسن ، ابراہیم بن عمرو بن عبید تیمی قاسم بن محمد کی سند سے حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کی روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میرے والد ماجد (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احادیث جمع کی تھیں ان کی تعداد پانچ سو تک پہنچتی تھی ایک رات کروٹیں لیتے لیتے گزار دی میں رنجیدہ ہوئی اور عرض کی : آپ کروٹیں لے رہے ہیں کوئی تکلیف تو نہیں یا پھر کیا وجہ ہے ؟ صبح ہوئی فرمایا : اے بیٹی احادیث کا وہ مجموعہ لاؤ جو تمہارے پاس ہے میں مجموعہ لائی پھر آپ (رض) نے آگ منگوائی اور وہ مجموعہ جلا دیا اور فرمایا مجھے خوف ہے کہ میں مرجاؤں اور یہ مجموعہ تمہارے پاس ہی رہ جائے اور اس میں وہ حدیثیں بھی ہوں جن کے راوی پر میں نے بھروسہ اور اعتماد کرلیا ہو اور بات حقیقت میں یوں نہ ہو جیسے اس نے مجھے بیان کی تھی اور یوں غلط بات میں میری تقلید کی جائے ۔ (وقد رواہ القاضی ابو امیۃ الاحوص بن المفضل بن غسان الغلاابی بسندہ) علامہ جلال الدین سیوطی حضرت انس بن مالک (رض) حدیث کے اس مجموعہ کے بارے میں کہتے ہیں ممکن ہے یہ ان حادیث کا مجموعہ ہو جن کا سماع سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے براہ راست نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ کیا ہو اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بالواسطہ سماع کیا ہو جیسے حدیث جدہ وغیرہ حالانکہ آپ (رض) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سب سے زیادہ حافظ حدیث تھے حتی کہ آپ (رض) کے پاس وہ احادیث بھی تھیں جو کسی دوسرے صحابی (رض) کے پاس نہیں تھیں جیسے ” ہر نبی کو وہیں دفن کیا جاتا ہے جہاں اس کی روح قبض ہوتی ہے “ وغیرہ۔ پھر آپ (رض) نے ناپسند سمجھا کہ جو احادیث میں نے براہ راست نہیں سنیں ان میں میری تقلید کی جائے ۔
29460- "مسند الصديق رضي الله عنه" قال الحافظ عماد الدين بن كثير في مسند الصديق قال: الحاكم أبو عبد الله النيسابوري حدثنا بكر بن محمد الصريفيني بمرو حدثنا موسى بن حماد ثنا المفضل ابن غسان ثنا علي بن صالح حدثنا موسى بن عبد الله بن حسن بن حسن عن إبراهيم بن عمرو بن عبيد الله التيمي حدثنا القاسم بن محمد قال: قالت عائشة: جمع أبي الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فكانت خمسمائة حديث، فبات ليلة يتقلب كثيرا، قالت: فغمني فقلت تتقلب لشكوى أو لشيء بلغك؟ فلما أصبح قال: أي بنية هلمي الأحاديث التي عندك فجئته بها فدعا بنار فأحرقها وقال: خشيت أن أموت وهي عندك فيكون فيها أحاديث عن رجل ائتمنه ووثقت به ولم يكن كما حدثني فأكون قد تقلدت ذلك. وقد رواه القاضي أبو أمية الأحوص بن المفضل بن غسان الغلابي عن أبيه عن علي بن صالح عن موسى بن عبد الله بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب عن إبراهيم بن عمر بن عبيد الله التيمي حدثني القاسم بن محمد أو ابنه عبد الرحمن بن القاسم شك موسى فيهما قال: قالت عائشة - فذكره وزاد بعد قوله: فأكون قد تقلدت ذلك ويكون قد بقي حديث لم أجده فيقال: لو كان قاله رسول الله صلى الله عليه وسلم ما غبي على أبي بكر إني حدثتكم الحديث ولا أدري لعلي لم أتتبعه حرفا حرفا. قال ابن كثير: هذا غريب من هذا الوجه جدا وعلي بن صالح لا يعرف والأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثر من هذا المقدار بألوف ولعله إنما اتفق له جمع تلك فقط ثم رأى ما رأى لما ذكرت قلت قال الشيخ جلال الدين السيوطي رحمه الله تعالى أو لعله جمع ما فاته سماعه من النبي صلى الله عليه وسلم وحدثه عنه به بعض الصحابة كحديث الجدة ونحوه والظاهر أن ذلك لا يزيد على هذا المقدار لأنه كان احفظ الصحابة وعنده من الأحاديث ما لم يكن عند أحد منهم كحديث "ما دفن نبي إلا حيث يقبض " ثم خشي أن يكون الذي حدثه وهم فكره تقلد ذلك وذلك صريح في كلامه.
তাহকীক: