মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)
الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار
کتاب الجمل - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৮৭ টি
হাদীস নং: ৩৯০৭১
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧٢) حضرت شریک بن شہاب حارثی کہتے ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی ایسے ساتھی سے ملوں جو مجھے خوارج کے بارے میں بتائے، میں یوم عرفہ کو حضرت ابو برزہ اسلمی سے ملا وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے کوئی ایسی بات سنائیں جو آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خوارج کے بارے میں سنی ہو۔ انھوں نے فرمایا کہ میں تمہیں ان کے بارے میں ایسا واقعہ سناؤں گا جسے میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا ہے۔ ہوا یوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ دنانیر لائے گئے۔ آپ انھیں تقسیم کرنے لگے، آپ کے پاس ایک آدمی تھا جس کے بال ڈھکے ہوئے تھے، اس پر دو سفید کپڑے تھے، اس کی آنکھوں کے درمیان سجدوں کا نشان تھا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہو کر آپ سے وہ دنانیر لینا چاہتا تھا، لیکن آپ نے اسے عطا نہ فرمائے۔ وہ آپ کے چہرہ مبارک کی طرف سے آیا لیکن آپ نے اسے کچھ نہ دیا، وہ دائیں طرف سے آیا، آپ نے اسے کچھ نہ دیا، پھر وہ بائیں طرف سے آیا آپ نے اسے پھر بھی کچھ نہ دیا، پھر وہ پیچھے سے آیا تو آپ نے اسے پھر بھی کچھ نہ دیا۔ پھر وہ کہنے لگا اے محمد ! آج کے دن آپ نے تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت زیادہ غصہ میں آئے اور آپ نے تین مرتبہ فرمایا ” خدا کی قسم ! تم اپنے بارے میں مجھ سے زیادہ کسی کو انصاف کرنے والا نہیں پاؤ گے “ پھر آپ نے فرمایا کہ تم پر مشرق کی طرف سے کچھ لوگ خروج کریں گے، یہ مجھے ان میں سے لگتا ہے، ان کا طریقہ کاریہ ہوگا کہ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے، پھر وہ اس میں واپس نہیں آئیں گے۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ سینے پر رکھا اور فرمایا کہ سر منڈانا ان کا شعار ہوگا، ان کا خروج ہمیشہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ ان کا آخری شخص مسیح دجال کے ساتھ نکلے گا۔ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا کہ جب تم انھیں دیکھو تو ان سے قتال کرو۔ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا کہ وہ تخلیق اور عادت کے اعتبار سے بدترین لوگ ہیں۔
(۳۹۰۷۲) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنِ الأَزْرَقِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ شَرِیکِ بْنِ شِہَابٍ الْحَارِثِیِّ ، قَالَ : جَعَلْت أَتَمَنَّی أَنْ أَلْقَی رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحَدِّثُنِی عَنِ الْخَوَارِجِ ، فَلَقِیت أَبَا بَرْزَۃَ الأَسْلَمِیَّ فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فِی یَوْمِ عَرَفَۃَ ، فَقُلْتُ : حَدِّثْنِی بِشَیْئٍ سَمِعْتہ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُہُ فِی الْخَوَارِجِ ، فَقَالَ : أُحَدِّثُکُمْ بِمَا سَمِعَتْ أُذُنَایَ وَرَأَتْ عَیْنَای ، أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِدَنَانِیرَ فَجَعَلَ یَقْسِمُہَا ، وَعِنْدَہُ رَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُومُ الشَّعْرِ ، عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَبْیَضَانِ ، بَیْنَ عَیْنَیْہِ أَثَرُ السُّجُود ، وَکَانَ یَتَعَرَّضُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُعْطِہِ ، فَأَتَاہُ فَعَرَضَ لَہُ مِنْ قِبَلِ وَجْہِہِ فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا ، فَأَتَاہُ مِنْ قِبَلِ یَمِینِہِ فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا ، ثُمَّ أَتَاہُ مِنْ قِبَلِ شِمَالِہِ فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا ، ثُمَّ أَتَاہُ مِنْ خَلْفِہِ فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، مَا عَدَلْت مُنْذُ الْیَوْمَ فِی الْقِسْمَۃِ ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَضَبًا شَدِیدًا ، ثُمَّ قَالَ : وَاللہِ لاَ تَجِدُونَ أَحَدًا أَعْدَلَ عَلَیْکُمْ مِنِّی ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : یَخْرُجُ عَلَیْکُمْ رِجَالٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ کَأَنَّ ہَذَا مِنْہُمْ ہَدْیُہُمْ ہَکَذَا ، یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ ، ثُمَّ لاَ یَعُودُونَ إلَیْہِ وَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی صَدْرِہِ سِیمَاہُمَ التَّحْلِیقُ ، لاَ یَزَالُونَ یَخْرُجُونَ حَتَّی یَخْرُجَ آخِرُہُمْ مَعَ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ ، فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُمْ فَاقْتُلُوہُمْ ثَلاَثًا ، شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِیقَۃِ یَقُولُہَا ثَلاَثًا۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৭২
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧٣) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ایک ایسی قوم آئے گی جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔
(۳۹۰۷۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی قُرَّۃُ بْنُ خَالِدٍ السَّدُوسِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ ، عَنْ حَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَجِیئُ قَوْمٌ یَقْرَؤُونَ الْقُرْآن لاَ یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ عَلَی فُوقِہِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৭৩
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧٤) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔
(۳۹۰۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَیَقْرَأَنَّ الْقُرْآنَ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی یَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَم کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৭৪
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧٥) حضرت ابوسلمہ اور حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو سعید خدری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حروریہ کو تو میں نہیں جانتا، البتہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمہارے بعد ایسی قوم آئے گی جن کی نمازوں کے سامنے تم اپنی نمازوں کو معمولی سمجھو گے، جن کے روزے کے سامنے تم اپنے روزوں کو اور جن کی عبادت کے سامنے تم اپنی عبادتوں کو بےحیثیت سمجھو گے۔ وہ قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔
(۳۹۰۷۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ دِینَارٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ وَعَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالاَ : جِئْنَا أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ فَقُلْنَا : سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحَرُورِیَّۃِ شَیْئًا ، فَقَالَ : مَا أَدْرِی مَا الْحَرُورِیَّۃَ ، وَلَکِنْ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : یَأْتِی مِنْ بَعْدِکُمْ أَقْوَامٌ تَحْتَقِرُونَ صَلاَتَکُمْ مَعَ صَلاَتِہِمْ وَصِیَامَکُمْ مَعَ صِیَامِہِمْ وَعِبَادَتَکُمْ مَعَ عِبَادَتِہِمْ ، یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৭৫
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧٦) حضرت سعد بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ذوالثدیہ کا تذکرہ کیا جو اصحاب نہر کے ساتھ تھا، آپ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ وہ گڑھے کا شیطان ہے، اس قبیلہ بجیلہ کا ایک آدمی جس کا نام اشہب یا ابن اشہب ہوگا وہ اسے گڑھے میں پھینکے گا، یہ ظالم قوم کی علامت ہوگا۔ عمار جہنی نے بیان کیا کہ قبیلہ بجیلہ کا ایک آدمی آیا جس کا نام اشہب یا ابن اشہب تھا۔
(۳۹۰۷۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ أَبِی الْعَبَّاسِ ،
قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَیْلِ یُخْبِرُ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَذَکَرَ ذَا الثُّدَیَّۃِ ، الَّذِی کَانَ مَعَ أَصْحَابِ النَّہَرِ ، فَقَالَ : شَیْطَانُ الرَّدْہَۃِ ، یَحْتَدِرُہُ رَجُلٌ مِنْ بَجِیلَۃَ ، یُقَالُ لَہُ : الأَشْہَبُ ، أَوِ ابْنُ الأَشْہَبِ ، عَلاَمَۃ فِی قَوْمٍ ظَلَمَۃٍ۔
فَقَالَ عَمَّارٌ الدُّہْنِیُّ ، حِینَ کَذَّبَ بِہِ : جَائَ رَجُلٌ مِنْ بَجِیلَۃَ ، قَالَ : وَأَرَاہُ ، قَالَ: مِنْ دُہْنٍ، یُقَالُ لَہُ الأَشْہَبُ، أَوِ ابْنُ الأَشْہَبِ۔ (احمد ۱۷۹۔ ابویعلی ۷۸۰)
قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَیْلِ یُخْبِرُ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَذَکَرَ ذَا الثُّدَیَّۃِ ، الَّذِی کَانَ مَعَ أَصْحَابِ النَّہَرِ ، فَقَالَ : شَیْطَانُ الرَّدْہَۃِ ، یَحْتَدِرُہُ رَجُلٌ مِنْ بَجِیلَۃَ ، یُقَالُ لَہُ : الأَشْہَبُ ، أَوِ ابْنُ الأَشْہَبِ ، عَلاَمَۃ فِی قَوْمٍ ظَلَمَۃٍ۔
فَقَالَ عَمَّارٌ الدُّہْنِیُّ ، حِینَ کَذَّبَ بِہِ : جَائَ رَجُلٌ مِنْ بَجِیلَۃَ ، قَالَ : وَأَرَاہُ ، قَالَ: مِنْ دُہْنٍ، یُقَالُ لَہُ الأَشْہَبُ، أَوِ ابْنُ الأَشْہَبِ۔ (احمد ۱۷۹۔ ابویعلی ۷۸۰)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৭৬
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧٧) حضرت عبید بن حسن فرماتے ہیں کہ خوارج نے حضرت عمر بن عبد العزیز سے فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ حضرت عمر بن خطاب والا معاملہ کریں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ انھیں کیا ہوا، اللہ انھیں مارے ! خدا کی قسم ! میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی کو مقتدیٰ نہیں بناؤں گا۔
(۳۹۰۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عبد اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَتِ الْخَوَارِجُ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ : تُرِیدُ أَنْ تَسِیرَ فِینَا بِسِیرَۃِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ : مَا لَہُمْ قَاتَلَہُمُ اللَّہُ ، وَاللہِ مَا زِدْت أَنْ أَتَّخِذَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إمَامًا۔ (ابن حزم ۶۲۴)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৭৭
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧٨) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن خباب خوارج کے قبضے میں تھے۔ اس وقت ان کا ایک آدمی کھجور کے ایک درخت کے پاس سے گزرا اور ایک کھجور اٹھا لی۔ اس کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ تو نے ایک ذمی کی کھجور اٹھا لی ہے ! پھر وہ ایک خنزیر کے پاس سے گزرے، ایک آدمی نے اسے تلوار ماری تو اس کے ساتھیوں نے کہا کہ تو نے ایک ذمی کے خنزیر کو مار ڈالا ! اس پر حضرت عبداللہ بن خباب نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ان دونوں سے زیادہ حرمت والے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ انھوں نے کہا کہ وہ کون ہے ؟ حضرت عبداللہ بن خباب نے فرمایا کہ وہ میں ہوں۔ میں نے نماز نہیں چھوڑی، میں فلاں عمل نہیں چھوڑا اور فلاں عمل بھی نہیں چھوڑا۔ اس کے باوجود بھی انھوں نے حضرت عبداللہ بن خباب کو شہید کردیا۔ جب حضرت علی ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ حضرت عبداللہ کے قاتل ہمارے حوالے کردو، تو انھوں نے کہا کہ ہم ان کے قاتل آپ کے حوالے کیسے کردیں حالانکہ ہم سب ان کے خون میں شریک ہیں۔ اس کے بعد حضرت علی نے ان سے قتال کو حلال قرار دے دیا۔
(۳۹۰۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : بَیْنَمَا عَبْدُ اللہِ بْنُ خَبَّابٍ فِی یَدِ الْخَوَارِجِ إذْ أَتَوْا عَلَی نَخْلٍ ، فَتَنَاوَلَ رَجُلٌ مِنْہُمْ تَمْرَۃً فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ أَصْحَابُہُ ، فَقَالُوا لَہُ : أَخَذْت تَمْرَۃً مِنْ تَمْرِ أَہْلِ الْعَہْد ، وَأَتَوْا عَلَی خِنْزِیرٍ فَنَفَحَہُ رَجُلٌ مِنْہُمْ بِالسَّیْفِ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ أَصْحَابُہُ ، فَقَالُوا لَہُ : قَتَلْت خِنْزِیرًا مِنْ خَنَازِیرِ أَہْلِ الْعَہْدِ ، قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ اللہِ ، أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ ہُوَ أَعْظَمُ عَلَیْکُمْ حَقًّا مِنْ ہَذَا ؟ قَالُوا : مَنْ ، قَالَ : أَنَا ، مَا تَرَکْت صَلاَۃً وَلاَ تَرَکْت کَذَا وَلاَ تَرَکْت کَذَا ، قَالَ : فَقَتَلُوہُ ، قَالَ : فَلَمَّا جَائَہُمْ عَلِیٌّ ، قَالَ : أَقِیدُونَا بِعَبْدِ اللہِ بْنِ خَبَّابٍ ، قَالُوا : کَیْفَ نُقِیدُک بِہِ وَکُلُّنَا قَدْ شَرَکَ فِی دَمِہِ ، فَاسْتَحَلَّ قِتَالَہُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৭৮
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧٩) حضرت عبداللہ بن سلمہ ان لوگوں میں سے ہیں جو جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شریک تھے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ان دونوں سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز محبوب نہیں ہے۔
(۳۹۰۷۹) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، قَالَ وَقَدْ کَانَ شَہِدَ مَعَ عَلِیٍّ الْجَمَلَ وَصِفِّینَ ، وَقَالَ : مَا یَسُرُّنِی بِہِمَا کُلُّ مَا عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৭৯
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨٠) حضرت مصعب بن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ قرآن مجید کی یہ آیت کیا خوارج کے بارے میں نازل ہوئی ہے : { قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالأَخْسَرِینَ أَعْمَالاً الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا } انھوں نے فرمایا کہ نہیں یہ آیت اہل کتاب یہود اور نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہود نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی اور نصاریٰ نے جنت کا انکار کیا۔ اور کہا کہ اس میں کھانا اور پینا نہیں ہے۔ حروریہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے : { الَّذِینَ یَنْقُضُونَ عَہْدَ اللہِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ } حضرت سعد خوارج کو فاسق کہا کرتے تھے۔
(۳۹۰۸۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبِی عَنْ ہَذِہِ الآیَۃِ : {قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالأَخْسَرِینَ أَعْمَالاً الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا} أَہُمُ الْحَرُورِیَّۃُ ؟ قَالَ : لاَ ، ہُمْ أَہْلُ الْکِتَابِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی ، أَمَّا الْیَہُودُ فَکَذَّبُوا بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَمَّا النَّصَارَی فَکَفَرُوا بِالْجَنَّۃِ وَقَالُوا : لَیْسَ فِیہَا طَعَامٌ وَلاَ شَرَابٌ ، وَلَکِنَّ الْحَرُورِیَّۃَ : {الَّذِینَ یَنْقُضُونَ عَہْدَ اللہِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ} وَکَانَ سَعْدٌ یُسَمِّیہِمُ الْفَاسِقِینَ۔ (بخاری ۴۷۲۸۔ حاکم ۳۷۰)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮০
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨١) حضرت مصعب بن سعد فرماتے ہیں کہ میرے والد سے خوارج کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ وہ قوم ہے جس نے ٹیڑھے راستے کو اختیار کیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔
(۳۹۰۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ سَمِعْت مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ ، قَالَ : سُئِلَ أَبِی عَنِ الْخَوَارِجِ ، قَالَ : ہُمْ قَوْمٌ زَاغُوا فَأَزَاغَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮১
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨٢) حضرت ابو مریم فرماتے ہیں کہ شبث بن ربعی اور ابن کو اء کوفہ سے حروراء کی طرف گئے، حضرت علی نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیار کے ساتھ نکلیں۔ لوگ مسجد میں آگئے یہاں تک کہ مسجد لوگوں سے بھر گئی۔ حضرت علی نے فرمایا کہ تم نے ہتھیاروں کے ساتھ مسجد مں داخل ہو کربہت برا کیا۔ تم سب میدان میں جمع ہوجاؤ اور اس وقت تک وہاں رہو جب تک میرا حکم تمہیں نہ مل جائے۔ ابو مریم فرماتے ہیں کہ پھر ہم میدان میں چلے گئے اور دن کا کچھ حصہ وہاں ٹھہرے پھر ہمیں خبر ہوئی کہ لوگ واپس جارہے ہیں۔
(٢) ابو مریم کہتے ہیں کہ میں ان کو دیکھنے کے لیے ان کی طرف چلا۔ میں ان کی صفوں کو چیرتا ہوا شبث بن ربعی اور ابن کو اء تک پہنچ گیا، وہ دونوں سواری سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ ان کے پاس حضرت علی کے قاصد تھے جو انھیں اللہ کا واسطہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تمہارا اگلے سال کے آنے سے پہلے فتنہ مچانے میں جلدی کرنا ایسا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں پناہ عطا فرمائے۔ خوارج کا ایک آدمی حضرت علی کے ایک قاصد کے پاس گیا اور اس کی سواری کو مار ڈالا۔ وہ آدمی انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہوا نیچے اترا اور اپنی زین کو لے کر چل پڑا۔ وہ دونوں کہہ رہے تھے کہ ہم تو ان سے صرف مقابلہ چاہتے ہیں اور وہ اللہ کے واسطے دے رہے ہیں۔
(٣) وہ سب کچھ دیر ٹھہرے اور پھر کوفہ چلے گئے، وہ یوم اضحی یایوم فطر تھا، حضرت علی اس سے پہلے ہم سے بیان کررہے تھے کہ ایک قوم اسلام سے خارج ہوجائے گی، وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ ان کی علامت یہ ہے ان میں مفلوج ہاتھ والا ایک آدمی ہوگا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت علی سے یہ بات کئی مرتبہ سنی ہے۔ اس بات کو مفلوج ہاتھ والے نافع نے بھی سنا۔ یہاں تک کہ میں نے اسے دیکھا کہ اس نے اس بات کو زیادہ سن کر اس کی ناگواری کی وجہ سے کھانا کھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ نافع ہمارے ساتھ مسجد میں تھا دن کو نماز پڑھتا تھا اور رات مسجد میں گزارتا تھا۔ میں نے اسے ایک ٹوپی پہنائی تھی۔ میں اگلے دن اسے ملا، میں نے اس سے سوال کیا کہ کیا وہ ان لوگوں کے ساتھ نکلا تھا جو حروراء کی طرف گئے تھے ؟ انھوں نے کہا کہ میں ان کا ارادہ کرکے نکلا تھا لیکن جب میں فلاں قبیلے مں ھ پہنچا تو مجھے کچھ بچے ملے جنہوں نے میرا اسلحہ چھین لیا۔ میں واپس آگیا، ایک سال بعد اہل نہروان نکلے اور حضرت علی بھی ان کی طرف گئے لیکن میں ان کے ساتھ نہیں گیا۔
(٤) میرے بھائی ابو عبداللہ اور ان کے غلام حضرت علی کے ساتھ نکلے۔ مجھے ابو عبداللہ نے بتایا کہ حضرت علی خوارج کی طرف گئے، جب نہروان کے کنارے ان کے برابر ہوگئے تو ان کی طرف آدمی بھیجا جو انھیں اللہ کا واسطہ دے اور انھیں رجوع کی دعوت دے۔ مختلف قاصدوں کا آنا جانا لگا رہا، یہاں تک کہ خارجیوں نے حضرت علی کے قاصد کو قتل کردیا۔ جب حضرت علی نے اس صورت حال کو دیکھا تو ان سے قتال کیا۔ جب سب کو تہس نہس کرکے فارغ ہوگئے تو اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ مفلوج ہاتھ والے شخص کو تلاش کریں۔ لوگوں نے انھیں تلاش کیا تو ایک آدمی نے کہا کہ ہمیں وہ زندہ حالت میں تو نہیں ملا۔ ایک آدمی نے کہا کہ وہ ان میں نہیں ہے۔ پھر ایک آدمی نے آکر خوشخبری دی کہ اے امیر المومنین ! خدا کی قسم ہم نے اسے دو مقتولوں کے نیچے گرا ہوا پالیا ہے۔ حضرت علی نے حکم دیا کہ اس کا مفلوج ہاتھ کاٹ کر میرے پاس لاؤ۔ جب وہ ہاتھ لایا گیا تو حضرت علی نے اسے بلند کرکے کہا کہ خدا کی قسم ! نہ تو میں نے جھوٹ بولا اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔
(٢) ابو مریم کہتے ہیں کہ میں ان کو دیکھنے کے لیے ان کی طرف چلا۔ میں ان کی صفوں کو چیرتا ہوا شبث بن ربعی اور ابن کو اء تک پہنچ گیا، وہ دونوں سواری سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ ان کے پاس حضرت علی کے قاصد تھے جو انھیں اللہ کا واسطہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تمہارا اگلے سال کے آنے سے پہلے فتنہ مچانے میں جلدی کرنا ایسا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں پناہ عطا فرمائے۔ خوارج کا ایک آدمی حضرت علی کے ایک قاصد کے پاس گیا اور اس کی سواری کو مار ڈالا۔ وہ آدمی انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہوا نیچے اترا اور اپنی زین کو لے کر چل پڑا۔ وہ دونوں کہہ رہے تھے کہ ہم تو ان سے صرف مقابلہ چاہتے ہیں اور وہ اللہ کے واسطے دے رہے ہیں۔
(٣) وہ سب کچھ دیر ٹھہرے اور پھر کوفہ چلے گئے، وہ یوم اضحی یایوم فطر تھا، حضرت علی اس سے پہلے ہم سے بیان کررہے تھے کہ ایک قوم اسلام سے خارج ہوجائے گی، وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ ان کی علامت یہ ہے ان میں مفلوج ہاتھ والا ایک آدمی ہوگا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت علی سے یہ بات کئی مرتبہ سنی ہے۔ اس بات کو مفلوج ہاتھ والے نافع نے بھی سنا۔ یہاں تک کہ میں نے اسے دیکھا کہ اس نے اس بات کو زیادہ سن کر اس کی ناگواری کی وجہ سے کھانا کھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ نافع ہمارے ساتھ مسجد میں تھا دن کو نماز پڑھتا تھا اور رات مسجد میں گزارتا تھا۔ میں نے اسے ایک ٹوپی پہنائی تھی۔ میں اگلے دن اسے ملا، میں نے اس سے سوال کیا کہ کیا وہ ان لوگوں کے ساتھ نکلا تھا جو حروراء کی طرف گئے تھے ؟ انھوں نے کہا کہ میں ان کا ارادہ کرکے نکلا تھا لیکن جب میں فلاں قبیلے مں ھ پہنچا تو مجھے کچھ بچے ملے جنہوں نے میرا اسلحہ چھین لیا۔ میں واپس آگیا، ایک سال بعد اہل نہروان نکلے اور حضرت علی بھی ان کی طرف گئے لیکن میں ان کے ساتھ نہیں گیا۔
(٤) میرے بھائی ابو عبداللہ اور ان کے غلام حضرت علی کے ساتھ نکلے۔ مجھے ابو عبداللہ نے بتایا کہ حضرت علی خوارج کی طرف گئے، جب نہروان کے کنارے ان کے برابر ہوگئے تو ان کی طرف آدمی بھیجا جو انھیں اللہ کا واسطہ دے اور انھیں رجوع کی دعوت دے۔ مختلف قاصدوں کا آنا جانا لگا رہا، یہاں تک کہ خارجیوں نے حضرت علی کے قاصد کو قتل کردیا۔ جب حضرت علی نے اس صورت حال کو دیکھا تو ان سے قتال کیا۔ جب سب کو تہس نہس کرکے فارغ ہوگئے تو اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ مفلوج ہاتھ والے شخص کو تلاش کریں۔ لوگوں نے انھیں تلاش کیا تو ایک آدمی نے کہا کہ ہمیں وہ زندہ حالت میں تو نہیں ملا۔ ایک آدمی نے کہا کہ وہ ان میں نہیں ہے۔ پھر ایک آدمی نے آکر خوشخبری دی کہ اے امیر المومنین ! خدا کی قسم ہم نے اسے دو مقتولوں کے نیچے گرا ہوا پالیا ہے۔ حضرت علی نے حکم دیا کہ اس کا مفلوج ہاتھ کاٹ کر میرے پاس لاؤ۔ جب وہ ہاتھ لایا گیا تو حضرت علی نے اسے بلند کرکے کہا کہ خدا کی قسم ! نہ تو میں نے جھوٹ بولا اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔
(۳۹۰۸۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَکِیمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو مَرْیَمَ ، أَنَّ شَبَثَ بْنَ رِبْعِیٍّ ، وَابْنَ الْکَوَّائِ خَرَجَا مِنَ الْکُوفَۃِ إِلَی حَرُورَائَ ، فَأَمَرَ عَلِیٌّ النَّاسَ أَنْ یَخْرُجُوا بِسِلاَحِہِمْ ، فَخَرَجُوا إِلَی الْمَسْجِدِ حَتَّی امْتَلأَ الْمَسْجِدُ ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہِم عَلِیٌّ : بِئْسَ مَا صَنَعْتُمْ حِینَ تَدْخُلُونَ الْمَسْجِدَ بِسِلاَحِکُمْ ، اذْہَبُوا إِلَی جَبَّانَۃِ مُرَادٍ حَتَّی یَأْتِیَکُمْ أَمْرِی ، قَالَ : قَالَ أَبُو مَرْیَمَ : فَانْطَلَقْنَا إِلَی جَبَّانَۃِ مُرَادٍ ، فَکُنَّا بِہَا سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ ، ثُمَّ بَلَغَنَا أَنَّ الْقَوْمَ قَدْ رَجَعُوا ، أَوْ أَنَّہُمْ رَاجِعُونَ ۔
۲۔ قَالَ : فَقُلْتُ : أَنْطَلِقُ أَنَا فَأَنْظُرُ إلَیْہِمْ ، قَالَ : فَانْطَلَقْت فَجَعَلْتُ أَتَخَلَّلُ صُفُوفَہُمْ حَتَّی انْتَہَیْت إِلَی شَبَثَ بْنِ رِبْعِیٍّ ، وَابْنِ الْکَوَّائِ وَہُمَا وَاقِفَانِ مُتَوَرِّکَانِ عَلَی دَابَّتَیْہِمَا ، وَعِنْدَہُمْ رُسُلُ عَلِیٍّ یُنَاشِدُونَہُمَا اللَّہَ لَمَا رَجَعُوا ، وَہُمْ یَقُولُونَ لَہُمْ : نُعِیذُکُمْ بِاللہِ أَنْ تُعَجِّلُوا الْفِتْنَۃ الْعَامِ خَشْیَۃَ عَامٍ قَابِلٍ ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ إِلَی بَعْضِ رُسُلِ عَلِیٍّ فَعَقَرَ دَابَّتَہُ ، فَنَزَلَ الرَّجُلُ وَہُوَ یَسْتَرْجِعُ ، فَحَمَلَ سَرْجَہُ فَانْطَلَقَ بِہِ ، وَہُمَا یَقُولاَنِ :
مَا طَلَبْنَا إِلاَّ مُنَابَذَتَہُمْ ، وَہُمْ یُنَاشِدُونَہُمَ اللَّہَ ۔
۳۔ فَمَکَثُوا سَاعَۃً ، ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَی الْکُوفَۃِ کَأَنَّہُ یَوْمُ أَضْحَی ، أَوْ یَوْمُ فِطْرٍ ، وَکَانَ عَلِیٌّ یُحَدِّثُنَا قَبْلَ ذَلِکَ ، إِنَّ قَوْمًا یَخْرُجُونَ مِنَ الإِسْلاَم ، یَمْرُقُونَ مِنْہُ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمْیَۃِ ، عَلاَمَتُہُمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْیَدِ ، قَالَ : فَسَمِعْت ذَلِکَ مِنْہُ مِرَارًا کَثِیرَۃً ، قَالَ : وَسَمِعَہُ نَافِعٌ : الْمُخْدَج أَیْضًا ، حَتَّی رَأَیْتہ یَتَکَرَّہُ طَعَامَہُ مِنْ کَثْرَۃِ مَا سَمِعَہُ مِنْہُ ، قَالَ : وَکَانَ نَافِعٌ مَعَنا فِی الْمَسْجِدِ یُصَلِّی فِیہِ بِالنَّہَارِ ، وَیَبِیتُ فِیہِ بِاللَّیْلِ ، وَقَدْ کَسَوْتہ بُرْنُسًا فَلَقِیتہ مِنَ الْغَدِ فَسَأَلْتُہُ : ہَلْ کَانَ خَرَجَ مَعَ النَّاسُ الَّذِینَ خَرَجُوا إِلَی حَرُورَائَ ، قَالَ : خَرَجْت أُرِیدُہُمْ حَتَّی إِذَا بَلَغْت إِلَی بَنِی فُلاَنٍ لَقِیَنِی صِبْیَانٌ ، فَنَزَعُوا سِلاَحِی ، فَرَجَعْت حَتَّی إِذَا کَانَ الْحَوْلُ ، أَوْ نَحْوُہُ خَرَجَ أَہْلُ النَّہْرَوَانِ وَسَارَ عَلِیٌّ إلَیْہِمْ ، فَلَمْ أَخْرُجْ مَعَہُ ۔
۴۔ قَالَ : وَخَرَجَ أَخِی أَبُو عَبْدِ اللہِ وَمَوْلاَہُ مَعَ عَلِیٍّ ، قَالَ : فَأَخْبَرَنِی أَبُو عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ عَلِیًّا سَارَ إلَیْہِمْ حَتَّی إِذَا کَانَ حِذَائَہُمْ عَلَی شَاطِئِ النَّہْرَوَانِ أَرْسَلَ إلَیْہِمْ یُنَاشِدُہُمَ اللَّہَ وَیَأْمُرُہُمْ أَنْ یَرْجِعُوا ، فَلَمْ تَزَلْ رُسُلُہُ تَخْتَلِفُ إلَیْہِمْ حَتَّی قَتَلُوا رَسُولَہُ ، فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ نَہَضَ إلَیْہِمْ فَقَاتَلَہُمْ حَتَّی فَرَغَ مِنْہُمْ کُلِّہِمْ ، ثُمَّ أَمَرَ أَصْحَابَہُ أَنْ یَلْتَمِسُوا الْمُخْدَجَ فَالْتَمَسُوہُ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : مَا نَجِدُہُ حَیًّا ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : مَا ہُوَ فِیہِمْ ، ثُمَّ إِنَّہُ جَائَہُ رَجُلٌ فَبَشَّرَہُ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَدْ وَاللہِ وَجَدْنَاہُ تَحْتَ قَتِیلَیْنِ فِی سَاقَیْہِ ، فَقَالَ : اقْطَعُوا یَدَہُ الْمُخْدَجَۃَ وَأْتُونِی بِہَا ، فَلَمَّا أُتِیَ بِہَا أَخَذَہَا بِیَدِہِ ، ثُمَّ رَفَعَہَا ، ثُمَّ قَالَ : وَاللہِ مَا کَذَبْتُ وَلاَ کُذِّبْتُ۔
۲۔ قَالَ : فَقُلْتُ : أَنْطَلِقُ أَنَا فَأَنْظُرُ إلَیْہِمْ ، قَالَ : فَانْطَلَقْت فَجَعَلْتُ أَتَخَلَّلُ صُفُوفَہُمْ حَتَّی انْتَہَیْت إِلَی شَبَثَ بْنِ رِبْعِیٍّ ، وَابْنِ الْکَوَّائِ وَہُمَا وَاقِفَانِ مُتَوَرِّکَانِ عَلَی دَابَّتَیْہِمَا ، وَعِنْدَہُمْ رُسُلُ عَلِیٍّ یُنَاشِدُونَہُمَا اللَّہَ لَمَا رَجَعُوا ، وَہُمْ یَقُولُونَ لَہُمْ : نُعِیذُکُمْ بِاللہِ أَنْ تُعَجِّلُوا الْفِتْنَۃ الْعَامِ خَشْیَۃَ عَامٍ قَابِلٍ ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ إِلَی بَعْضِ رُسُلِ عَلِیٍّ فَعَقَرَ دَابَّتَہُ ، فَنَزَلَ الرَّجُلُ وَہُوَ یَسْتَرْجِعُ ، فَحَمَلَ سَرْجَہُ فَانْطَلَقَ بِہِ ، وَہُمَا یَقُولاَنِ :
مَا طَلَبْنَا إِلاَّ مُنَابَذَتَہُمْ ، وَہُمْ یُنَاشِدُونَہُمَ اللَّہَ ۔
۳۔ فَمَکَثُوا سَاعَۃً ، ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَی الْکُوفَۃِ کَأَنَّہُ یَوْمُ أَضْحَی ، أَوْ یَوْمُ فِطْرٍ ، وَکَانَ عَلِیٌّ یُحَدِّثُنَا قَبْلَ ذَلِکَ ، إِنَّ قَوْمًا یَخْرُجُونَ مِنَ الإِسْلاَم ، یَمْرُقُونَ مِنْہُ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمْیَۃِ ، عَلاَمَتُہُمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْیَدِ ، قَالَ : فَسَمِعْت ذَلِکَ مِنْہُ مِرَارًا کَثِیرَۃً ، قَالَ : وَسَمِعَہُ نَافِعٌ : الْمُخْدَج أَیْضًا ، حَتَّی رَأَیْتہ یَتَکَرَّہُ طَعَامَہُ مِنْ کَثْرَۃِ مَا سَمِعَہُ مِنْہُ ، قَالَ : وَکَانَ نَافِعٌ مَعَنا فِی الْمَسْجِدِ یُصَلِّی فِیہِ بِالنَّہَارِ ، وَیَبِیتُ فِیہِ بِاللَّیْلِ ، وَقَدْ کَسَوْتہ بُرْنُسًا فَلَقِیتہ مِنَ الْغَدِ فَسَأَلْتُہُ : ہَلْ کَانَ خَرَجَ مَعَ النَّاسُ الَّذِینَ خَرَجُوا إِلَی حَرُورَائَ ، قَالَ : خَرَجْت أُرِیدُہُمْ حَتَّی إِذَا بَلَغْت إِلَی بَنِی فُلاَنٍ لَقِیَنِی صِبْیَانٌ ، فَنَزَعُوا سِلاَحِی ، فَرَجَعْت حَتَّی إِذَا کَانَ الْحَوْلُ ، أَوْ نَحْوُہُ خَرَجَ أَہْلُ النَّہْرَوَانِ وَسَارَ عَلِیٌّ إلَیْہِمْ ، فَلَمْ أَخْرُجْ مَعَہُ ۔
۴۔ قَالَ : وَخَرَجَ أَخِی أَبُو عَبْدِ اللہِ وَمَوْلاَہُ مَعَ عَلِیٍّ ، قَالَ : فَأَخْبَرَنِی أَبُو عَبْدِ اللہِ ، أَنَّ عَلِیًّا سَارَ إلَیْہِمْ حَتَّی إِذَا کَانَ حِذَائَہُمْ عَلَی شَاطِئِ النَّہْرَوَانِ أَرْسَلَ إلَیْہِمْ یُنَاشِدُہُمَ اللَّہَ وَیَأْمُرُہُمْ أَنْ یَرْجِعُوا ، فَلَمْ تَزَلْ رُسُلُہُ تَخْتَلِفُ إلَیْہِمْ حَتَّی قَتَلُوا رَسُولَہُ ، فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ نَہَضَ إلَیْہِمْ فَقَاتَلَہُمْ حَتَّی فَرَغَ مِنْہُمْ کُلِّہِمْ ، ثُمَّ أَمَرَ أَصْحَابَہُ أَنْ یَلْتَمِسُوا الْمُخْدَجَ فَالْتَمَسُوہُ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : مَا نَجِدُہُ حَیًّا ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : مَا ہُوَ فِیہِمْ ، ثُمَّ إِنَّہُ جَائَہُ رَجُلٌ فَبَشَّرَہُ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَدْ وَاللہِ وَجَدْنَاہُ تَحْتَ قَتِیلَیْنِ فِی سَاقَیْہِ ، فَقَالَ : اقْطَعُوا یَدَہُ الْمُخْدَجَۃَ وَأْتُونِی بِہَا ، فَلَمَّا أُتِیَ بِہَا أَخَذَہَا بِیَدِہِ ، ثُمَّ رَفَعَہَا ، ثُمَّ قَالَ : وَاللہِ مَا کَذَبْتُ وَلاَ کُذِّبْتُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮২
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨٣) حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس جب مفلوج شخص کو لایا گیا تو آپ نے سجدہ کیا۔
(۳۹۰۸۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، أَنَّ عَلِیًّا لَمَّا أُتِیَ بِالْمُخْدَجِ سَجَدَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮৩
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨٤) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے خوارج کے بارے میں فرمایا کہ اللہ انھیں ہلاک کرے۔
(۳۹۰۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حُصَیْنٍ وَکَانَ صَاحِبَ شُرْطَۃِ عَلِیٍّ ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ : قَاتَلَہُمَ اللَّہُ ، أَیُّ حَدِیثٍ شَانُوا ، یَعْنِی الْخَوَارِجَ الَّذِینَ قَتَل۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮৪
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨٥) حضرت کثیر بن نمر فرماتے ہیں کہ ہم جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے، حضرت علی منبر پر تھے کہ ایک آدمی اٹھا اور اس نے کہا کہ اللہ کے سوا کسی کا حکم قبول نہیں۔ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں۔ پھر مسجد کے گوشوں سے مختلف لوگ کھڑے ہو کر یہی نعرہ لگانے لگے۔ حضرت علی نے انھیں ہاتھ سے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ اور فرمایا کہ بلاشبہ اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں، لیکن یہ کلمہ حق ہے جس سے باطل کا ارادہ کیا گیا ہے۔ تمہارے بارے میں اللہ کے حکم کا انتظار کیا جارہا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس تمہارے لیے تین رعایتیں ہیں جب تک تم ہمارے ساتھ ہو، ہم تمہیں اللہ کی مسجدوں سے منع نہیں کریں گے کہ ان میں اللہ کے نام کا ذکر کیا جائے، ہم تمہیں فیء سے بھی محروم نہیں کریں گے جب تک ہمارے اور تمہارے ہاتھ اکٹھے ہیں، ہم تم سے اس وقت تک قتال نہیں کریں گے جب تک تم ہم سے قتال نہ کرو۔ پھر آپ نے دوبارہ خطبہ شروع کردیا۔
(۳۹۰۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ نَمِرٍ ، قَالَ : بَیْنَا أَنَا فِی الْجُمُعَۃِ ، وَعَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ عَلَی الْمِنْبَرِ إذْ قَامَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّہِ ، ثُمَّ قَامَ آخَرُ ، فَقَالَ : لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّہِ، ثُمَّ قَامُوا مِنْ نَوَاحِی الْمَسْجِدِ یُحَکِّمُونَ اللَّہَ فَأَشَارَ عَلَیْہِمْ بِیَدِہِ : اجْلِسُوا ، نَعَمْ لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّہِ ، کَلِمَۃُ حَقٍّ یُبْتَغَی بِہَا بَاطِلٌ ، حُکْمُ اللہِ یُنْتَظَرُ فِیکُمْ ، الآنَ لَکُمْ عِنْدِی ثَلاَثُ خِلاَلٍ مَا کُنْتُمْ مَعَنَا ، لَنْ نَمْنَعُکُمْ مَسَاجِدَ اللہِ أَنْ یُذْکُرَ فِیہَا اسْمُہُ ، وَلاَ نَمْنَعُکُمْ فَیْئًا مَا کَانَتْ أَیْدِیکُمْ مَعَ أَیْدِینَا ، وَلاَ نُقَاتِلُکُمْ حَتَّی تُقَاتِلُونَا ، ثُمَّ أَخَذَ فِی خُطْبَتِہِ۔ (بیہقی ۱۸۴)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮৫
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨٦) حضرت ابو بختری فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں۔ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں۔ حضرت علی نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں۔ بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے اور وہ لوگ آپ کو حقیر نہ سمجھیں جو ایمان نہیں رکھتے۔ کیا تم جانتے ہو کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں ؟ یہ کہہ رہے ہیں کہ امارت نہیں ہے۔ اے لوگو ! تمہارے لیے امیر کا ہونا ضروری ہے، خواہ وہ نیک ہو یا فاسق۔ لوگوں نے کہا کہ نیک امیر کو تو ہم نے دیکھ لیا۔ فاسق کیسا ہوتا ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ مومن عمل کرتا ہے اور فاجر کو ڈھیل دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ مدت تک پہنچاتا ہے، تمہارے راستے مامون ہیں، تمہارے بازار قائم ہیں، تمہارا مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے، تمہارے دشمن سے جہاد کیا جاتا ہے۔ ضعیف کا حق قوی سے لے کر اسے دلایا جاتا ہے۔
(۳۹۰۸۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حُسَیلِ بْنِ سَعْدِ بْنِ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَبِیبُ أَبُو الْحَسَنِ الْعَبْسِیُّ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ ، فقَالَ : لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّہِ ، ثُمَّ قَالَ آخَرُ : لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّہِ ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّہِ {إنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَلاَ یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِینَ لاَ یُوقِنُونَ} فَمَا تَدْرُونَ مَا یَقُولُ ہَؤُلاَئِ یَقُولُونَ : لاَ إمَارَۃَ ، أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّہُ لاَ یُصْلِحُکُمْ إِلاَّ أَمِیرٌ بَرٌّ ، أَوْ فَاجِرٌ ، قَالُوا : ہَذَا الْبَرُّ قَدْ عَرَفْنَاہُ ، فَمَا بَالُ الْفَاجِرِ ، فَقَالَ : یَعْمَلُ الْمُؤْمِنُ وَیُمْلَی لِلْفَاجِرِ ، وَیُبَلِّغُ اللَّہُ الأَجَلَ ، وَتَأْمَنُ سُبُلَکُمْ ، وَتَقُومَ أَسْوَاقُکُمْ ، وَیُقسمُ فَیْؤُکُمْ وَیُجَاہَدُ عَدُوُّکُمْ وَیُؤْخَذُ للضَّعِیفِ مِنَ الْقَوِیِّ ، أَوَ قَالَ : مِنَ الشَّدِیدِ مِنْکُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮৬
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨٧) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان حنین کا مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ بنو تمیم کا ایک آدمی آیا جسے ذوخویصرہ کہا جاتا تھا۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! انصاف کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ تیرا ناس ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو مریی ناکامی اور نامرادی میں کیا شک ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئے، میں اسے قتل کردوں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، اس کے کچھ ساتھی ہیں جو لوگوں کے اختلاف کے وقت ظاہر ہوں گے۔ یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ تم ان کی نماز کے سامنے اپنی نماز کو حقیر سمجھو گے، تم ان کے روزے کے سامنے اپنے روزے کو حقیر سمجھو گے۔ ان کی نشانی یہ ہوگی کہ ان میں عورت کے پستان جیسے ہاتھ والا ایک آدمی ہوگا، جو گوشت کے ٹکڑے کی طرح لٹک رہا ہوگا۔ حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ اس بات کو حنین کے دن میرے کانوں نے سنا اور حضرت علی کے ہمراہ خوارج کے خلاف جنگ میں میری آنکھوں نے دیکھا کہ اس کو نکالا گیا اور میں نے اس علامت والے شخص کو دیکھا۔
(۳۹۰۸۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالضَّحَّاکُ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : بَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْسِمُ مَغْنَمًا یَوْمَ حنین ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ یُقَالُ لَہُ ذُو الْخُوَیْصِرَۃِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، اعْدِلْ ، فَقَالَ : ہَاکَ لَقَدْ خِبْت وَخَسِرْت إِنْ لَمْ أَعْدِلْ ، فَقَالَ عُمَرُ : دَعْنِی یَا رَسُولَ اللہِ أَقْتُلُہُ ، فَقَالَ : لاَ ، إِنَّ لِہَذَا أَصْحَابًا یَخْرُجُونَ عِنْدَ اخْتِلاَفٍ مِنَ النَّاسِ ، یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ ، تَحْقِرُونِ صَلاَتَکُمْ مَعَ صَلاَتِہِمْ وَصِیَامَکُمْ مَعَ صِیَامِہِمْ ، آیَتُہُمْ رَجُلٌ مِنْہُمْ کَأَنَّ یَدَہُ ثَدْیُ الْمَرْأَۃِ ، وَکَأَنَّہَا بَضْعَۃٌ تَدَرْدَرُ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو سَعِیدٍ : فَسَمِعَ أُذُنِی مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حُنَیْنٍ وَبَصَرَ عَیْنِی مَعَ عَلِیٍّ حِینَ قَتَلَہُمْ ، ثُمَّ اسْتَخْرَجَہُ فَنَظَرْتُ إلَیْہِ۔ (بخاری ۶۱۶۳۔ احمد ۶۵)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮৭
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨٨) حضرت عمیر بن زوذی ابو کثیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک دن ہمیں خطبہ دیا، اس خطبہ میں خوارج کھڑے ہوئے اور ان کی بات کو کاٹ دیا۔ وہ نیچے اترے اور حجرے میں تشریف لے گئے، ہم بھی ان کے ساتھ اندر چلے گئے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں اس دن کھایا گیا جس دن سفید بیل کھایا گیا۔ پھر فرمایا کہ میری مثال ان تین بیلوں اور شیر کی سی ہے جو ایک کچھار میں جمع ہوگئے، ایک بیل سفید تھا، ایک سرخ اور ایک کالا، جب بھی شیر ان بیلوں کو کھانے کی کوشش کرتا وہ تینوں جمع ہوجاتے اور شیر کا مقابلہ کرتے اور شیر کو باز رکھتے۔ ایک دن شیر نے سرخ اور کالے بیل سے کہا کہ سفید بیل کا رنگ اس کچھار میں ہماری ذلت کا سبب ہے، تم دونوں ایسا کرو کہ مجھے وہ بیل کھا لینے دو ، پھر ہم تینوں آرام سے اس کچھار میں رہیں گے، میرا اور تمہارا رنگ بھی ایک جیسا ہے۔ چنانچہ وہ دونوں بیل اس کے جھانسے میں آگئے۔ اس بات کو منظور کرلیا اور شیر نے فورا حملہ کرکے سفید بیل کا کام تمام کردیا۔
(٢) پھر اس کے بعد جب کبھی وہ ان دونوں بیلوں میں سے کسی ایک کو مارنا چاہتا تو وہ دونوں جمع ہوجاتے اور اسے باز رکھتے۔ پس ایک دن شیر نے سرخ بیل سے کہا کہ اے سرخ بیل ! اس جگہ کالے کے ہونے کی وجہ سے ہماری عزت خراب ہورہی ہے۔ تم مجھے اجازت دو کہ میں اسے کھا لوں، پھر تم اور میں یہاں اکیلے رہیں گے، میرا رنگ تمہارے جیسا ہے اور تمہارا رنگ میرے جیسا ہے۔ پس سرخ بیل نے اسے اجازت دے دی اور اس نے کالے بیل کا قصہ تمام کردیا۔
(٣) پھر وہ کچھ دیر تک رکا رہا اور پھر سرخ بیل سے کہا کہ اے سرخ بیل ! میں تجھے کھاؤں گا۔ اس نے کہا کہ کیا تو مجھے کھائے گا ! اس نے کہا ہاں میں تجھے کھاؤں گا۔ بیل نے کہا کہ اگر تو نے مجھے کھانا ہی ہے تو مجھے تین آوازیں نکالنے کی اجازت دے دے۔ پھر تم جو چاہو کرلینا۔ پھر بیل نے کہا کہ میں تو اسی دن کھایا گیا تھا جس دن سفید بیل کھایا گیا تھا۔
(٤) پھر حضرت علی نے فرمایا کہ یاد رکھو جس دن حضرت عثمان کو شہید کیا گیا میں اسی دن کمزور ہوگیا تھا۔
(٢) پھر اس کے بعد جب کبھی وہ ان دونوں بیلوں میں سے کسی ایک کو مارنا چاہتا تو وہ دونوں جمع ہوجاتے اور اسے باز رکھتے۔ پس ایک دن شیر نے سرخ بیل سے کہا کہ اے سرخ بیل ! اس جگہ کالے کے ہونے کی وجہ سے ہماری عزت خراب ہورہی ہے۔ تم مجھے اجازت دو کہ میں اسے کھا لوں، پھر تم اور میں یہاں اکیلے رہیں گے، میرا رنگ تمہارے جیسا ہے اور تمہارا رنگ میرے جیسا ہے۔ پس سرخ بیل نے اسے اجازت دے دی اور اس نے کالے بیل کا قصہ تمام کردیا۔
(٣) پھر وہ کچھ دیر تک رکا رہا اور پھر سرخ بیل سے کہا کہ اے سرخ بیل ! میں تجھے کھاؤں گا۔ اس نے کہا کہ کیا تو مجھے کھائے گا ! اس نے کہا ہاں میں تجھے کھاؤں گا۔ بیل نے کہا کہ اگر تو نے مجھے کھانا ہی ہے تو مجھے تین آوازیں نکالنے کی اجازت دے دے۔ پھر تم جو چاہو کرلینا۔ پھر بیل نے کہا کہ میں تو اسی دن کھایا گیا تھا جس دن سفید بیل کھایا گیا تھا۔
(٤) پھر حضرت علی نے فرمایا کہ یاد رکھو جس دن حضرت عثمان کو شہید کیا گیا میں اسی دن کمزور ہوگیا تھا۔
(۳۹۰۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ زوذی أَبِی کَثِیرَۃَ ، قَالَ : خَطَبَنَا عَلِیٌّ یَوْمًا ، فَقَامَ الْخَوَارِجُ فَقَطَعُوا عَلَیْہِ کَلاَمُہُ ، قَالَ : فَنَزَلَ فَدَخَلَ وَدَخَلْنَا مَعَہُ ، فَقَالَ: أَلاَ إنِّی إنَّمَا أُکِلْت یَوْمَ أُکِلَ الثَّوْرُ الأَبْیَضُ ، ثُمَّ قَالَ : مَثَلِی مَثَلُ ثَلاَثَۃِ أَثْوَارٍ وَأَسَدٍ اجْتَمَعْن فِی أَجَمَۃٍ : أَبْیَضَ وَأَحْمَرَ وَأَسْوَدَ ، فَکَانَ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا مِنْہُنَّ اجْتَمَعْن ، فَامْتَنَعَنْ مِنْہُ ، فَقَالَ لِلأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ : إِنَّہُ لاَ یَفْضَحُنَا فِی أَجَمَتِنَا ہَذِہِ إِلاَّ مَکَانُ ہَذَا الأَبْیَضِ ، فَخَلِّیَا بَیْنِی وَبَیْنَہُ حَتَّی آکُلَہُ ، ثُمَّ أَخْلُو أَنَا وَأَنْتُمَا فِی ہَذِہِ الأَجَمَۃِ ، فَلَوْنُکُمَا عَلَی لَوْنِی وَلَوْنِی عَلَی لَوْنِکُمَا قَالَ : فَفَعَلاَ قَالَ : فَوَثَبَ عَلَیْہِ فَلَمْ یُلْبِثْہُ أَنْ قَتَلَہُ ۔
۲۔ قَالَ : فَکَانَ إِذَا أَرَادَ أَحَدُہُمَا اجْتَمَعَا ، فَامْتَنَعَا مِنْہُ ، فَقَالَ لِلأَحْمَرِ : یَا أَحْمَرُ ، إِنَّہُ لاَ یُشْہِرُنَا فِی أَجَمَتِنَا ہَذِہِ إِلاَّ مَکَانُ ہَذَا الأَسْوَد ، فَخَلِّ بَیْنِی وَبَیْنَہُ حَتَّی آکُلَہُ ، ثُمَّ أَخْلُو أَنَا وَأَنْتَ ، فَلَوْنِی عَلَی لَوْنِکَ وَلَوْنُک عَلَی لَوْنِی ، قَالَ : فَأَمْسَکَ عَنْہُ فَوَثَبَ عَلَیْہِ فَلَمْ یُلْبِثْہُ أَنْ قَتَلَہُ ۔
۳۔ ثُمَّ لَبِثَ مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ قَالَ لِلأَحْمَرِ : یَا أَحْمَرُ ، إنِّی آکُلُک ، قَالَ : تَأْکُلُنِی ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : إِمَّا لاَ فَدَعَنْی حَتَّی أُصَوِّتَ ثَلاَثَۃَ أَصْوَاتٍ ، ثُمَّ شَأْنُک بِی ، قَالَ : فَقَالَ : أَلاَ إنِّی إنَّمَا أُکِلْت یَوْمَ أُکِلَ الثَّوْرُ الأَبْیَضُ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ عَلِیٌّ : أَلاَ وَإِنِّی إنَّمَا وَہَنْتُ یَوْمَ قُتِلَ عُثْمَان۔
۲۔ قَالَ : فَکَانَ إِذَا أَرَادَ أَحَدُہُمَا اجْتَمَعَا ، فَامْتَنَعَا مِنْہُ ، فَقَالَ لِلأَحْمَرِ : یَا أَحْمَرُ ، إِنَّہُ لاَ یُشْہِرُنَا فِی أَجَمَتِنَا ہَذِہِ إِلاَّ مَکَانُ ہَذَا الأَسْوَد ، فَخَلِّ بَیْنِی وَبَیْنَہُ حَتَّی آکُلَہُ ، ثُمَّ أَخْلُو أَنَا وَأَنْتَ ، فَلَوْنِی عَلَی لَوْنِکَ وَلَوْنُک عَلَی لَوْنِی ، قَالَ : فَأَمْسَکَ عَنْہُ فَوَثَبَ عَلَیْہِ فَلَمْ یُلْبِثْہُ أَنْ قَتَلَہُ ۔
۳۔ ثُمَّ لَبِثَ مَا شَائَ اللَّہُ ، ثُمَّ قَالَ لِلأَحْمَرِ : یَا أَحْمَرُ ، إنِّی آکُلُک ، قَالَ : تَأْکُلُنِی ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : إِمَّا لاَ فَدَعَنْی حَتَّی أُصَوِّتَ ثَلاَثَۃَ أَصْوَاتٍ ، ثُمَّ شَأْنُک بِی ، قَالَ : فَقَالَ : أَلاَ إنِّی إنَّمَا أُکِلْت یَوْمَ أُکِلَ الثَّوْرُ الأَبْیَضُ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ عَلِیٌّ : أَلاَ وَإِنِّی إنَّمَا وَہَنْتُ یَوْمَ قُتِلَ عُثْمَان۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮৮
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٨٩) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت علی اہل نہر کے مال کا خمس دیا تھا۔
(۳۹۰۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : خَمَّسَ عَلِیٌّ أَہْلَ النَّہْرِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৮৯
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٩٠) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے اہل نہر کے غلام اور ان کا سارا سامان اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیا تھا۔
(۳۹۰۹۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، أَنَّ عَلِیًّا قَسَمَ بَیْنَ أَصْحَابِہِ رَقِیقَ أَہْلِ النَّہَرِ وَمَتَاعَہُمْ کُلَّہُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৯০
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٩١) بنو تمیم کے ایک آدمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر سے خوارج کے مال کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں غنیمت اور غلول نہیں ہے۔
(۳۹۰۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ غَرْقَدَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، عَنْ أَمْوَالِ الْخَوَارِجِ ، فقَالَ : لَیْسَ فِیہَا غَنِیمَۃٌ وَلاَ غُلُولٌ۔
তাহকীক: