মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)
الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار
کتاب الجمل - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৮৭ টি
হাদীস নং: ৩৯০৫১
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٥٢) حضرت جبلہ بن سحیم اور ابن نضلہ کہتے ہیں کہ حضرت علی نے خوارج کی طرف ایک لشکر کو روانہ فرمایا اور ان سے فرمایا کہ خوارج سے اس وقت تک قتال نہ کرنا جب تک انھیں دعوت نہ دی جائے کہ وہ پہلے والے سالانہ وظیفہ اور اللہ ورسول اللہ کے امان کو قبول کرلیں۔ لیکن انھوں نے اس بات سے انکار کیا اور ہمیں گالم گلوچ کی۔
(۳۹۰۵۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ حَیَّانَ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ وَفُلاَنِ بْنِ نَضْلَۃَ ، قَالاَ : بَعَثَ عَلِیٌّ إِلَی الْخَوَارِجِ ، فَقَالَ : لاَ تُقَاتِلُوہُمْ حَتَّی یَدْعُوا إِلَی مَا کَانُوا عَلَیْہِ مِنْ عَطَائٍ أو رَزْقٍ فِی أَمَانٍ مِنَ اللہِ وَرَسُولِہِ ، فَأَبَوْا وَسَبُّونَا۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৫২
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٥٣) حضرت زید بن وہب کہتے ہیں کہ حضرت علی نے دیزجان کے پل پر مدائن میں ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبے میں آپ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ ایک جماعت مشرق کی طرف سے خروج کرنے والی ہے ان میں ذوالثدیہ بھی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ وہی لوگ ہیں یا کوئی اور ہیں ؟ راوی کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے چلے، حروریہ نے کہا کہ ان سے اس طرح بات نہ کرنا جس طرح تم نے ان سے حروراء کے دن بات کی تھی۔ پھر انھوں نے ان سے بات کی اور تم لوٹ گئے۔ پھر ان کے درمیان نیزے چلنے لگے۔ حضرت علی کے کچھ ساتھیوں نے کہا کہ نیزوں کو کاٹ دو اور پھر وہ گھوم کر آئے اور ان سے قتال کیا۔ پھر حضرت علی کے ساتھیوں میں سے بارہ یا تیرہ لوگ شہید ہوئے ۔ پھر انھوں نے کہا کہ اسے تلاش کرو، انھوں نے اسے تلاش کیا اور پالیا۔ پھر فرمایا کہ خدا کی قسم نہ تو نے جھوٹ بولا اور نہ تجھ سے جھوٹ بولا گیا۔ عمل کرتے رہو اور پر امید نہ ہو۔ اگر تم امید پر سہارا نہ لگا لو تو میں تمہیں وہ بات بتادوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان فیض ترجمان سے جاری فرمائی ہے۔ پھر فرمایا کہ ہمارے ساتھ یمن کے بھی کچھ لوگ تھے۔ لوگوں نے کہا کہ وہ کیسے اے امیر المومنین ! آپ نے فرمایا کہ ان کی خواہشات ہمارے ساتھ تھیں۔
(۳۹۰۵۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ قَیْسٍ الْحَضْرَمِیُّ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : خَطَبَنَا عَلِیٌّ بِالْمَدَائِنِ بِقَنْطَرَۃِ الدّیزجَان ، فَقَالَ : قَدْ ذُکِرَ لِی ، أَنَّ خَارِجَۃً تَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ فِیہِمْ ذُو الثُّدَیَّۃِ ، وَإِنِّی لاَ أَدْرِی أَہُمْ ہَؤُلاَئِ أَمْ غَیْرُہُمْ ، قَالَ : فَانْطَلَقُوا یُلْقِی بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، فَقَالَتِ الْحَرُورِیَّۃُ : لاَ تُکَلِّمُوہُمْ کَمَا کَلَّمْتُمُوہُمْ یَوْمَ حَرُورَائَ ، فَکَلَّمُوہُم ، فَرَجَعْتُمْ ، قَالَ : فَشَجَرَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا بِالرِّمَاحِ ، فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِ عَلِیٍّ : قَطِّعُوا الْعَوَالِیَ ، قَالَ : فَاسْتَدَارُوا فَقَتَلُوہُمْ وَقُتِلَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِیٍّ اثْنَا عَشَرَ ، أَوْ ثَلاَثَۃَ عَشَرَ ، فَقَالَ : الْتَمِسُوہُ ، فَالْتَمَسُوہُ فَوَجَدُوہُ ، فَقَالَ : وَاللہِ مَا کَذَبْت وَلاَ کُذِّبْت ، اعْمَلُوا وَاتَّکِلُوا ، فَلَوْلاَ أَنْ تَتَّکِلُوا لأَخْبَرْتُکُمْ بِمَا قَضَی اللَّہُ لَکُمْ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ ، ثُمَّ قَالَ : لَقَدْ شَہِدَنَا نَاسٌ بِالْیَمَنِ ، قَالُوا : کَیْفَ ذَاکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَالَ : کَانَ ہُدَاہُمَ مَعَنا۔ (مسلم ۷۴۸۔ ابوداؤد ۴۷۳۵)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৫৩
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٥٤) حضرت ابوبر کہ صائدی فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی نے ذوالثدیہ کو قتل کردیا تو حضرت سعد نے فرمایا کہ ابن ابی طالب نے بل کے سانپ کو مارڈالا۔
(۳۹۰۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو شَیْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بَرَکَۃَ الصَّائِدِیِّ ، قَالَ : لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ ذَا الثُّدَیَّۃِ ، قَالَ سَعْدٌ : لَقَدْ قَتَلَ ابْنُ أَبِی طَالِبٍ جَانَّ الرَّدْہَۃِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৫৪
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٥٥) حضرت ابو رزین فرماتے ہیں کہ جب حکومت صفین میں تھی، اور خوارج نے حضرت علی کو چھوڑ دیا اور انھیں چھوڑ کر چلے گئے۔ تو خوارج ایک لشکر میں تھے اور حضرت علی دوسرے لشکر میں تھے۔ جب حضرت علی اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ واپس آگئے اور وہ اپنے لشکر میں حروراء چلے گئے تو حضرت علی نے ان کی طرف حضرت ابن عباس کو بھیجا لیکن انھوں نے کوئی گنجائش نہ پائی۔ پھر حضرت علی ان سے گفتگو کے لیے تشریف لیے گئے اور ان سے بات چیت ہوئی اور سب آپس میں راضی ہوگئے۔ اور کوفہ واپس آگئے۔ یہ رضامندی دو یا تین دن قائم رہی۔
پھر اشعث بن قیس آئے جو کہ حضرت علی کے پاس اکثر آیا کرتے تھے اور انھوں نے کہا کہ لوگ کہہ رہے کہ آپ نے ان سے ان کے کفر کے باوجود رجوع کرلیا۔ اگلے دن یا جمعہ کے دن حضرت علی منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور خطبہ میں انھیں نصیحت فرمائی۔ لوگوں سے ان کے الگ ہونے کا تذکرہ کیا، جس چیز میں انھوں نے مفارقت کی اس کا انھیں حکم دیا، حضرت علی نے ان کی اور ان کے طریقہ کار کی مذمت فرمائی۔ جب وہ منبر سے نیچے تشریف لائے تو مسجد کے کونوں سے آوازیں آنے لگیں کہ اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ! حضرت علی نے فرمایا کہ میں تمہارے بارے میں اللہ کے حکم کا انتظار کررہا ہوں۔ پھر منبر پر انھیں ہاتھ سے خاموش رہنے کا اشارہ فرمایا۔ اتنے میں خارجیوں کا ایک آدمی اپنی انگلیاں کانوں پر رکھ کر یہ آیت پڑھتے ہوئے آیا { لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُک وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ }۔
پھر اشعث بن قیس آئے جو کہ حضرت علی کے پاس اکثر آیا کرتے تھے اور انھوں نے کہا کہ لوگ کہہ رہے کہ آپ نے ان سے ان کے کفر کے باوجود رجوع کرلیا۔ اگلے دن یا جمعہ کے دن حضرت علی منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور خطبہ میں انھیں نصیحت فرمائی۔ لوگوں سے ان کے الگ ہونے کا تذکرہ کیا، جس چیز میں انھوں نے مفارقت کی اس کا انھیں حکم دیا، حضرت علی نے ان کی اور ان کے طریقہ کار کی مذمت فرمائی۔ جب وہ منبر سے نیچے تشریف لائے تو مسجد کے کونوں سے آوازیں آنے لگیں کہ اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ! حضرت علی نے فرمایا کہ میں تمہارے بارے میں اللہ کے حکم کا انتظار کررہا ہوں۔ پھر منبر پر انھیں ہاتھ سے خاموش رہنے کا اشارہ فرمایا۔ اتنے میں خارجیوں کا ایک آدمی اپنی انگلیاں کانوں پر رکھ کر یہ آیت پڑھتے ہوئے آیا { لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُک وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ }۔
(۳۹۰۵۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، قَالَ : لَمَّا کَانَتِ الْحُکُومَۃُ بِصِفِّینَ وَبَایَنَ الْخَوَارِجُ عَلِیًّا رَجَعُوا مُبَایِنِینَ لَہُ ، وَہُمْ فِی عَسْکَرٍ ، وَعَلِیٌّ فِی عَسْکَرٍ ، حَتَّی دَخَلَ عَلِیٌّ الْکُوفَۃَ مَعَ النَّاسِ بِعَسْکَرِہِ ، وَمَضَوْا ہُمْ إِلَی حَرُورَائَ فِی عَسْکَرِہِمْ ، فَبَعَثَ عَلِیٌّ إلَیْہِمَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَکَلَّمَہُمْ فَلَمْ یَقَعْ مِنْہُمْ مَوْقِعًا ، فَخَرَجَ عَلِیٌّ إلَیْہِمْ فَکَلَّمَہُمْ حَتَّی أَجْمَعُوا ہُمْ وَہُوَ عَلَی الرِّضَا ، فَرَجَعُوا حَتَّی دَخَلُوا الْکُوفَۃَ عَلَی الرِّضَا مِنْہُ وَمِنْہُمْ ، فَأَقَامُوا یَوْمَیْنِ ، أَوْ نَحْوَ ذَلِکَ ، قَالَ : فَدَخَلَ الأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ وَکَانَ یَدْخُلُ عَلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : إِنَّ النَّاسَ یَتَحَدَّثُونَ أَنَّک رَجَعَتْ لَہُمْ عَنْ کُفرْۃٍ ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ الْغَدُ وَالْجُمُعَۃُ صَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرَ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، فَخَطَبَ ، فَذَکَّرَہُمْ وَمُبَایَنَتَہُمَ النَّاسَ وَأَمْرَہُمَ الَّذِی فَارَقُوہُ فِیہِ ، فَعَابَہُمْ وَعَابَ أَمْرَہُمْ ، قَالَ : فَلَمَّا نَزَلَ عَنِ الْمِنْبَرِ تَنَادَوْا مِنْ نَوَاحِی الْمَسْجِدِ لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّہِ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : حُکْمُ اللہِ أَنْتَظِرُ فِیکُمْ ، ثُمَّ قَالَ بِیَدِہِ ہَکَذَا یُسْکِنُہُمْ بِالإِشَارَۃِ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ حَتَّی أَتَاہ رَجُلٌ مِنْہُمْ وَاضِعًا إصْبَعَیْہِ فِی أُذُنَیْہِ وَہُوَ یَقُولُ : {لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُک وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ}۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৫৫
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٥٦) حضرت ابن عباس کے سامنے خوارج کا تذکرہ کیا گیا، ان کی عبادت اور مساعی کا تذکرہ کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ یہودیوں اور عیسائیوں سے زیادہ کوشش کرنے والے اور ان سے زیادہ نماز پڑھنے والے نہیں ہیں۔
(۳۹۰۵۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ ذُکِرَ عِنْدَہُ الْخَوَارِجُ فَذُکِرَ مِنْ عِبَادَتِہِمْ وَاجْتِہَادِہِمْ ، فَقَالَ : لَیْسُوا بِأَشَدَّ اجْتِہَادًا مِنَ الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی ، ثُمَّ ہُمْ یُصَلُّونَ۔ (عبدالرزاق ۱۸۶۶۵)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৫৬
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٥٧) حضرت ابن عباس کے سامنے تذکرہ کیا گیا کہ خوارج قرآن کو ہمیشہ بنیاد قرار دیتے ہیں انھوں نے فرمایا کہ اس کے محکم پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے متشابہ کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
(۳۹۰۵۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّہُ ذَکَرَ مَا یَلْقَی الْخَوَارِجُ عِنْدَ الْقُرْآنِ ، فَقَالَ : یُؤْمِنُونَ عِنْدَ مُحْکَمِہِ وَیَہْلَکُونَ عِنْدَ مُتَشَابِہِہِ۔ (عبدالرزاق ۲۰۸۹۵)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৫৭
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٥٨) حضرت بشر بن شغاف فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے مجھ سے خوارج کے بارے میں سوال کیا تو میں نے عرض کیا کہ وہ سب سے لمبی نماز پڑھنے والے اور سب سے زیادہ روزے رکھنے والے ہیں۔ لیکن جب وہ پل کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں تو خون بہاتے ہیں اور مال چھین لے تھ ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ ان کے بارے میں تم سے یہی سوال کیا جائے گا۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ حضرت عثمان کو شہید نہ کرو، انھیں چھوڑ دو خدا کی قسم اگر تم انھیں گیارہ راتوں تک چھوڑ دو تو وہ اپنے بستر پر انتقال کرجائیں گے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ جب کوئی نبی قتل کیا جاتا ہے تو اس کے بدلے میں ستر ہزار لوگ قتل ہوتے ہیں اور جب کوئی خلیفہ قتل کیا جاتا ہے تو اس کے بدلہ میں پینتیس ہزار لوگ قتل ہوتے ہیں۔
(۳۹۰۵۸) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَاف ، قَالَ : سَأَلَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ ، عَنِ الْخَوَارِجِ ، فَقُلْتُ : ہُمْ أَطْوَلُ النَّاسِ صَلاَۃً وَأَکْثَرُہُمْ صَوْمًا غَیْرَ أَنَّہُمْ إِذَا خَلَّفُوا الْجِسْرَ أَہْرَاقُوا الدِّمَائَ ، وَأَخَذُوا الأَمْوَالَ ، فَقَالَ : لاَ تَسْأَل عنہم إِلاَّ ذَا ، أَمَا إنِّی قَدْ قُلْتُ لَہُمْ : لاَ تَقْتُلُوا عُثْمَانَ ، دَعُوہُ ، فَوَاللہِ لَئِنْ تَرَکْتُمُوہُ إحْدَی عَشْرَۃَ لَیْلَۃً لَیَمُوتَنَّ عَلَی فِرَاشِہِ مَوْتًا فَلَمْ یَفْعَلُوا ، فَإِنَّہُ لَمْ یُقْتَلْ نَبِیٌّ إِلاَّ قُتِلَ بِہِ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ النَّاسِ ، وَلَمْ یُقْتَلْ خَلِیفَۃٌ إِلاَّ قُتِلَ بِہِ خَمْسَۃٌ وَثَلاَثُونَ أَلْفًا۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৫৮
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٥٩) حضرت ابو طفیل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ آپ نے اسے دعا دی اور اس کی پیشانی کی جلد کو چھوا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس بچے کی پیشانی پر گھوڑے کے بالوں جیسا خم دار ایک بال نکلا۔ پھر وہ لڑکا جوان ہوگیا اور جب خوارج کا زمانہ آیا تو وہ خوارج کی طرف مائل ہوگیا۔ پھر اس کی پیشانی سے وہ بال گرگیا۔ اس کے باپ نے اس کو پکڑ کر باندھ دیا کیونکہ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں وہ خوارج کے ساتھ نہ جا ملے۔ ہم ایک مرتبہ اس سے ملے اور اسے نصیحت کی اور ہم نے اس سے کہا کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت بھی تمہاری پیشانی سے گرگئی ہے۔ ہم اسے اسی طرح سمجھاتے رہے یہاں تک کہ اس نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی پیشانی کے بال کو واپس کردیا اور اس نے توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کرلی۔
(۳۹۰۵۹) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ ، أَنَّ رَجُلاً وُلِدَ لَہُ غلاَم عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَا لَہُ وَأَخَذَ بِبَشَرَۃِ جَبْہَتِہِ ، فَقَالَ بِہَا ہَکَذَا : وَغَمَزَ جَبْہَتَہُ وَدَعَا لَہُ بِالْبَرَکَۃِ ، قَالَ : فَنَبَتَت شَعْرَۃٌ فِی جَبْہَتِہِ کَأَنَّہَا ہلْبَۃُ فَرَسٍ ، فَشَبَّ الْغُلاَمُ ، فَلَمَّا کَانَ زَمَنُ الْخَوَارِجِ أَحَبَّہُمْ فَسَقَطَتِ الشَّعْرَۃُ ، عَنْ جَبْہَتِہِ ، فَأَخَذَہُ أَبُوہُ فَقَیَّدَہُ مَخَافَۃَ أَنْ یَلْحَقَ بِہِمْ ، قَالَ : فَدَخَلْنَا عَلَیْہِ فَوَعَظْنَاہُ وَقُلْنَا لَہُ فِیمَا نَقُولُ : أَلَمْ تَرَ أَنَّ بَرَکَۃَ دَعْوَۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَتْ مِنْ جَبْہَتِکَ ، فَمَا زِلْنَا بِہِ حَتَّی رَجَعَ ، عَنْ رَأْیِہِمْ ، قَالَ : فَرَدَّ اللَّہُ إلَیْہِ الشَّعْرَۃَ بَعْدُ فِی جَبْہَتِہِ وَتَابَ وَأَصْلَحَ۔ (احمد ۴۵۶)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৫৯
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦٠) حضرت ابوہریرہ کے سامنے خوارج کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ بدترین مخلوق ہیں۔
(۳۹۰۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : ذُکِرَ الْخَوَارِجُ عِنْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فَقَالَ : أُولَئِکَ شَرُّ الْخَلْقِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬০
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦١) حضرت ابوبر کہ صائدی فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی نے ذوالثدیہ کو قتل کردیا تو حضرت سعد نے فرمایا کہ ابن ابی طالب نے بل کے سانپ کو مارڈالا۔
(۳۹۰۶۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو شَیْبَۃَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی بَرَکَۃَ الصَّائِدِیِّ قَالَ : لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ ذَا الثُّدَیَّۃِ قَالَ سَعْدٌ : لَقَدْ قَتَلَ علی جَانَّ الرَّدْہَۃِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬১
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦٢) حضرت عاصم بن ضمرہ فرماتے ہیں کہ خوارج نے حکومت کے خلاف آواز اٹھائی اور یہ نعرہ بلند کیا کہ اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں۔ حضرت علی نے اس پر فرمایا کہ بیشک اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں، لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ کسی کی امارت نہیں حالانکہ لوگوں کے لیے ایک امیر کا ہونا ضروری ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ مومن اس کی امارت میں کام کرے، کافر اس میں زندگی گزارے اور اللہ تعالیٰ اسے اسی کی مدت تک پہنچا دے۔
(۳۹۰۶۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ سَمِعْت عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَۃَ ، قَالَ : إِنَّ خَارِجَۃً خَرَجَتْ عَلَی حُکْمٍ ، فَقَالُوا : لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّہِ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : إِنَّہُ لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّہِ ، وَلَکِنَّہُمْ یَقُولُونَ : لاَ إمْرَۃَ ، وَلاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِیرٍ بَرٍّ ، أَوْ فَاجِرٍ ، یَعْمَلُ فِی إمَارَتِہِ الْمُؤْمِنُ وَیَسْتَمْتِعُ فِیہَا الْکَافِرُ ، وَیُبَلِّغُ اللَّہُ فِیہِ الأَجَلَ۔ (بیہقی ۱۸۴)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬২
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦٣) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے خوارج سے گفت و شنید کی، ان میں سے جس نے رجوع کرنا تھا رجوع کرلیا۔ ان کے ایک ٹولے نے رجوع کرنے سے انکار کردیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان کی طرف گھڑ سواروں کا ایک لشکر بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ وہ وہاں چلیں جائیں جہاں خوارج کا قیام ہے۔ ان سے کوئی تعرض نہ کریں اور نہ انھیں بھڑکائیں، اگر وہ قتل کریں یا زمین پر فساد مچائیں تو ان پر حملہ کردیں اور ان سے قتال کریں اور اگر وہ قتال نہ کریں اور زمین پر فساد نہ مچائیں تو انھیں چھوڑ دیں اور انھیں ان کا کام کرنے دیں۔
(۳۹۰۶۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : خَاصَمَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ الْخَوَارِجَ ، فَرَجَعَ مَنْ رَجَعَ مِنْہُمْ ، وَأَبَتْ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ أَنْ یَرْجِعُوا ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ رَجُلاً عَلَی خَیْلٍ وَأَمَرَہُ أَنْ یَنْزِلَ حَیْثُ یَرْتَحِلُونَ ، وَلاَ یُحَرِّکُہُمْ ، وَلاَ یُہَیِّجُہُمْ ، فَإِنْ ہم قَتَلُوا وَأَفْسَدُوا فِی الأَرْضِ ، فَابسُطْ عَلَیْہِمْ وَقَاتِلْہُمْ ، وَإِنْ ہُمْ لَمْ یَقْتُلُوا وَلَمْ یُفْسِدُوا فِی الأَرْضِ فَدَعْہُمْ یَسِیرُونَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬৩
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦٤) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری سے عرض کیا کہ کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی حروریہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے۔ حضرت ابو سعید نے فرمایا کہ ہاں، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک قوم کا تذکرہ کرتے سنا جو عبادت کرتے ہوں گے، آپ نے فرمایا کہ تم ان کی عبادت کے سامنے اپنی عبادت کو حقیر سمجھو گے، ان کے روزے کے سامنے اپنے روزے کو حقیر سمجھو گے، وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ وہ اپنی تلوار کو لے گا پھر وہ اپنے تیر کے پھل کو دیکھے گے وہاں کچھ نہ پائے گا، اس کے عقبی حصے کو دیکھے گا وہاں بھی کچھ نہ پائے گا۔ وہ اپنے تیر کی لکڑی کو دیکھے گا وہاں بھی کچھ نہ پائے گا، پھر تیر کے پروں کو دیکھے گا اور اسے شک ہوگا کہ اس نے کچھ دیکھا بھی ہے یا نہیں۔
(۳۹۰۶۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لأَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ : ہَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ فِی الْحَرُورِیَّۃِ شَیْئًا ، قَالَ : نَعَمْ سَمِعْتُہُ یَذْکُرُ قَوْمًا یَعْبُدُونَ ، یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلاَتَہُ مَعَ صَلاَتِہِمْ وَصَوْمَہُ مَعَ صَوْمِہِمْ ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ ، فأَخَذَ سَہْمَہُ فَنَظَرَ فِی نَصْلِہِ فَلَمْ یَرَ شَیْئًا ، فَنَظَرَ فِی رِصَافِہِ فَلَمْ یَرَ شَیْئًا ، فَنَظَرَ فِی قِدْحِہِ فَلَمْ یَرَ شَیْئًا ، فَنَظَرَ فِی الْقُذَذِ فَتَمَارَی ہَلْ یَرَی شَیْئًا أَمْ لاَ۔ (بخاری ۳۶۱۰۔ احمد ۳۳)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬৪
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦٥) حضرت غیلان بن جریر فرماتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ کے ساتھ مکہ جانے کا ارادہ کیا۔ میں نے ان سے اجازت طلب کی۔ میں نے کہا کہ کیا میں داخل ہوسکتا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں، اگر تم حروری نہ ہو۔
(۳۹۰۶۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَیُّوبُ ، عَنْ غِیلاَنَ بْنِ جَرِیرٍ ، قَالَ : أَرَدْت أَنْ أَخْرُجَ مَعَ أَبِی قِلاَبَۃَ إِلَی مَکَّۃَ ، فَاسْتَأْذَنْت عَلَیْہِ ، فَقُلْتُ : أَدْخُلُ ، قَالَ : إِنْ لَمْ تَکُنْ حَرُورِیًّا۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬৫
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦٦) حضرت کعب فرماتے ہیں کہ جسے خوارج شہید کریں اس کے لیے دس نور ہیں اور اسے شہداء کے نور سے دو نور زیادہ دیئے جائیں گے۔
(۳۹۰۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ کَعْبٍ، قَالَ: الَّذِی تَقْتُلُہُ الْخَوَارِجُ لَہُ عَشْرَۃُ أنُوَرٍ ، فُضِّلَ ثَمَانیَۃُ أنورٍ عَلَی نُورِ الشُّہَدَائِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬৬
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦٧) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نجدہ اور اس کے ساتھیوں نے ہمارے غیر سے تعرض کیا، اگر میں ان میں ہوتا اور میرے ساتھ میرا ہتھیار ہوتا تو میں ان سے قتال کرتا۔
(۳۹۰۶۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِی نَعَامَۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : إنَّہُمْ عَرَّضُوا بِغَیْرِنَا ، وَلَوْ کُنْت فِیہَا وَمَعِی سِلاَحِی لَقَاتَلْت عَلَیْہَا ، یَعْنِی نَجُدَۃ وَأَصْحَابِہِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬৭
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦٨) حضرت حسن کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا خط ہمارے سامنے پڑھا گیا، اس میں لکھا تھا کہ اگر حروری لوگ محترم خون کو بہائیں اور راہزنی کریں تو ہم ان سے بری ہیں اور آپ نے ان سے قتال کا حکم دیا۔
(۳۹۰۶۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَشْہَدُ أَنَّ کِتَابَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ قُرِئَ عَلَیْنَا : إِنْ سَفَکُوا الدَّمَ الْحَرَامَ وَقَطَعُوا السَّبِیلَ فَتَبَرَّأَ فِی کِتَابِہِ مِنَ الْحَرُورِیَّۃِ وَأَمَرَ بِقِتَالِہِمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬৮
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٦٩) حضرت حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو وائل کے پاس آیا اور میں نے ان سے اس قوم کے بارے میں سوال کیا جن سے حضرت علی نے قتال کیا تھا۔ میں نے کہا کہ انھوں نے حضرت علی کو کیوں چھوڑا ؟ ان کے خون کو حلال کیوں سمجھا ؟ اور حضرت علی نے انھیں کس چیز کی دعوت دی تھی ؟ پھر حضرت علی نے ان کے خون کو کس بنا پر حلال قرار دیا ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب صفین کے مقام پر اہل شام میں قتل زور پکڑ گیا تو حضرت معاویہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑ کو ٹھکانا بنایا۔ حضرت عمرو بن عاص نے فرمایا کہ حضرت علی کی طرف مصحف بھیجو، خدا کی قسم ! وہ اس کا انکار نہیں کریں گے۔ پس ایک آدمی مصحف لایا اور وہ یہ اعلان کررہا تھا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے { أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِنَ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ إِلَی کِتَابِ اللہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیقٌ مِنْہُمْ وَہُمْ مُعْرِضُونَ } اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ ہاں، ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے اور میں اس پر عمل کرنے کا تم سے زیادہ پابند ہوں۔
(٢) پھر خوارج آئے اور ان دنوں ہم انھیں ” قرائ “ کہا کرتے تھے۔ وہ اپنی تلواروں کو کندھے پر لٹکا کر لائے اور کہنے لگے اے امیر المؤمنین ! کیا ہم ان لوگوں کی طرف پیش قدمی نہ کریں کہ اللہ ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے۔ اس پر حضرت سہل بن حنیف نے فرمایا کہ اے لوگو ! اپنے نفوس کی مذمت کرو، ہم حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ اگر ہم قتال کو مستحسن سمجھتے تو قتال کرتے۔ یہ وہ صلح کا معاہدہ تھا جو مشرکین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ہوا تھا۔ اس موقع پر حضرت عمر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے ؟ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیوں نہیں۔ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ پھر ہم اپنے دین میں ذلت کو کیوں قبول کریں، اور واپس لوٹ جائیں جبکہ اللہ نے ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ نہیں فرمایا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابن خطاب ! میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
(٣) پھر حضرت عمر غصے کی حالت میں حضرت ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے ابوبکر ! کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا کیوں نہیں۔ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ پھر ہم اپنے دین میں ذلت کو کیوں قبول کریں، اور واپس لوٹ جائیں جبکہ اللہ نے ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ نہیں فرمایا ہے۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ اے ابن خطاب ! وہ اللہ کے رسول ہوں، اللہ انھیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
(٤) پھر اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورة الفتح کو نازل کیا، آپ نے کسی کو بھیج کو حضرت عمر کو بلایا اور ان کے سامنے اس سورت کی تلاوت فرمائی۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں۔ پھر وہ خوش ہوگئے اور واپس چلے گئے۔
(٥) اس کے بعد حضرت علی نے فرمایا کہ اے لوگو ! یہ فتح ہے۔ پھر حضرت علی نے اس فیصلے کو قبول فرمالیا اور واپس چلے گئے اور لوگ بھی واپس چلے گئے۔
(٦) حضرت علی کے اس فیصلے کو قبول کرنے کے بعد خوارج کے دس ہزار سے زیادہ لوگ حروراء چلے گئے۔ حضرت علی نے انھیں اللہ کا واسطہ دے کر واپس آنے کو کہا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ پھر ان کے پاس صعصعہ بن صوحان آئے اور اللہ کا واسطہ دیا اور ان سے پوچھا کہ تم کس بنیاد پر اپنے خلیفہ سے قتال کرو گے ؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں فتنہ کا خوف ہے۔ اس نے کہا کہ آنے والے سال کے فتنے سے عوام کو ابھی سے گمراہ مت کرو۔ وہ واپس چلے گئے اور انھوں نے کہا کہ ہم اپنے علاقے میں جارہے ہیں کیونکہ حضرت علی نے فیصلے کو قبول کرلیا ہے۔ ہم نے اسی وجہ سے قتال کیا جس وجہ سے صفین کی جنگ میں قتال کیا تھا اور اگر وہ فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو ہم ان کے ساتھ قتال کریں گے۔
(٧) پھر وہ لوگ چلے اور جب وہ نہروان پہنچے تو ایک جماعت ان سے الگ ہوگئی اور لوگوں کو قتل کی دھمکی دینے لگی۔ ان کے ساتھیوں نے کہا کہ تمہارا ناس ہو کیا ہم نے اس بات پر حضرت علی سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ حضرت علی کو ان کی یہ خبر پہنچی تو آپ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ تم کیا دیکھتے ہو ؟ کیا تم شام کی طرف جارہے ہو یا تم ان لوگوں کی طرف لوٹ رہے ہو ؟ انھوں نے کہا نہیں بلکہ ہم ان لوگوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ پھر انھوں نے ان کے معاملے کا تذکرہ کیا اور ان کے بارے میں وہ بات بیان کی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں فرمائی تھی کہ لوگوں کے اختلاف کے وقت ایک فرقہ کا خروج ہوگا، انھیں حق کے سب سے قریب تر فرقہ قتل کرے گا۔ اس خروج کرنے والے فرقے میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہوگا۔
(٨) پھر یہ لوگ چلے اور نہروان جا کر ایک دوسرے سے مل گئے۔ وہاں شدید قتال ہوا، حضرت علی کے بھیجے ہوئے گھڑ سوار اس جنگ کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہورہے تھے، آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے لوگو ! اگر تم میری خاطر لڑ رہے ہو تو خدا کی قسم میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں اور اگر تم اللہ کے لیے لڑ رہے ہو تو یہ قتال تمہارا نہیں یہ لڑائی اللہ کی ہے۔ پھر حضرت علی کے ساتھیوں نے بھرپور حملے کئے اور خارجیوں کے گھوڑے ان کے ہاتھوں سے نکل گئے اور وہ زمین پر منہ کے بل گرپڑے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ اس آدمی (جس کا ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے) کو تلاش کرو۔ لوگوں نے تلاش کیا لیکن وہ آدمی نہ ملا۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ علی نے ہمیں ہمارے بھائیوں سے لڑوا دیا اور ہم نے اپنے بھائیوں کو مار ڈالا (کیونکہ ان میں پیشین گوئی کے مطابق وہ آدمی نہیں ہے) یہ بات سن کر حضرت علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور اس جگہ آئے جہاں مقتولین پڑے تھے۔ آپ انھیں ان کے پاؤں سے کھینچنے لگے تو ان میں وہ آدمی مل گیا جس کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ یہ دیکھ کر حضرت علی نے اللہ اکبر کہا، لوگ بھی خوش ہوئے اور واپس آگئے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ میں اس سال جنگ نہیں کروں گا۔ پھر آپ کوفہ کی طرف واپس چلے گئے اور وہاں شہید کردیئے گئے۔ پھر حضرت حسن کو خلیفہ بنایا گیا اور آپ اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے رہے، پھر حضرت معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی گئی۔
(٢) پھر خوارج آئے اور ان دنوں ہم انھیں ” قرائ “ کہا کرتے تھے۔ وہ اپنی تلواروں کو کندھے پر لٹکا کر لائے اور کہنے لگے اے امیر المؤمنین ! کیا ہم ان لوگوں کی طرف پیش قدمی نہ کریں کہ اللہ ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے۔ اس پر حضرت سہل بن حنیف نے فرمایا کہ اے لوگو ! اپنے نفوس کی مذمت کرو، ہم حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ اگر ہم قتال کو مستحسن سمجھتے تو قتال کرتے۔ یہ وہ صلح کا معاہدہ تھا جو مشرکین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ہوا تھا۔ اس موقع پر حضرت عمر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے ؟ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیوں نہیں۔ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ پھر ہم اپنے دین میں ذلت کو کیوں قبول کریں، اور واپس لوٹ جائیں جبکہ اللہ نے ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ نہیں فرمایا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابن خطاب ! میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
(٣) پھر حضرت عمر غصے کی حالت میں حضرت ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے ابوبکر ! کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا کیوں نہیں۔ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ پھر ہم اپنے دین میں ذلت کو کیوں قبول کریں، اور واپس لوٹ جائیں جبکہ اللہ نے ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ نہیں فرمایا ہے۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ اے ابن خطاب ! وہ اللہ کے رسول ہوں، اللہ انھیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
(٤) پھر اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورة الفتح کو نازل کیا، آپ نے کسی کو بھیج کو حضرت عمر کو بلایا اور ان کے سامنے اس سورت کی تلاوت فرمائی۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں۔ پھر وہ خوش ہوگئے اور واپس چلے گئے۔
(٥) اس کے بعد حضرت علی نے فرمایا کہ اے لوگو ! یہ فتح ہے۔ پھر حضرت علی نے اس فیصلے کو قبول فرمالیا اور واپس چلے گئے اور لوگ بھی واپس چلے گئے۔
(٦) حضرت علی کے اس فیصلے کو قبول کرنے کے بعد خوارج کے دس ہزار سے زیادہ لوگ حروراء چلے گئے۔ حضرت علی نے انھیں اللہ کا واسطہ دے کر واپس آنے کو کہا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ پھر ان کے پاس صعصعہ بن صوحان آئے اور اللہ کا واسطہ دیا اور ان سے پوچھا کہ تم کس بنیاد پر اپنے خلیفہ سے قتال کرو گے ؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں فتنہ کا خوف ہے۔ اس نے کہا کہ آنے والے سال کے فتنے سے عوام کو ابھی سے گمراہ مت کرو۔ وہ واپس چلے گئے اور انھوں نے کہا کہ ہم اپنے علاقے میں جارہے ہیں کیونکہ حضرت علی نے فیصلے کو قبول کرلیا ہے۔ ہم نے اسی وجہ سے قتال کیا جس وجہ سے صفین کی جنگ میں قتال کیا تھا اور اگر وہ فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو ہم ان کے ساتھ قتال کریں گے۔
(٧) پھر وہ لوگ چلے اور جب وہ نہروان پہنچے تو ایک جماعت ان سے الگ ہوگئی اور لوگوں کو قتل کی دھمکی دینے لگی۔ ان کے ساتھیوں نے کہا کہ تمہارا ناس ہو کیا ہم نے اس بات پر حضرت علی سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ حضرت علی کو ان کی یہ خبر پہنچی تو آپ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ تم کیا دیکھتے ہو ؟ کیا تم شام کی طرف جارہے ہو یا تم ان لوگوں کی طرف لوٹ رہے ہو ؟ انھوں نے کہا نہیں بلکہ ہم ان لوگوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ پھر انھوں نے ان کے معاملے کا تذکرہ کیا اور ان کے بارے میں وہ بات بیان کی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں فرمائی تھی کہ لوگوں کے اختلاف کے وقت ایک فرقہ کا خروج ہوگا، انھیں حق کے سب سے قریب تر فرقہ قتل کرے گا۔ اس خروج کرنے والے فرقے میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہوگا۔
(٨) پھر یہ لوگ چلے اور نہروان جا کر ایک دوسرے سے مل گئے۔ وہاں شدید قتال ہوا، حضرت علی کے بھیجے ہوئے گھڑ سوار اس جنگ کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہورہے تھے، آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے لوگو ! اگر تم میری خاطر لڑ رہے ہو تو خدا کی قسم میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں اور اگر تم اللہ کے لیے لڑ رہے ہو تو یہ قتال تمہارا نہیں یہ لڑائی اللہ کی ہے۔ پھر حضرت علی کے ساتھیوں نے بھرپور حملے کئے اور خارجیوں کے گھوڑے ان کے ہاتھوں سے نکل گئے اور وہ زمین پر منہ کے بل گرپڑے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ اس آدمی (جس کا ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے) کو تلاش کرو۔ لوگوں نے تلاش کیا لیکن وہ آدمی نہ ملا۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ علی نے ہمیں ہمارے بھائیوں سے لڑوا دیا اور ہم نے اپنے بھائیوں کو مار ڈالا (کیونکہ ان میں پیشین گوئی کے مطابق وہ آدمی نہیں ہے) یہ بات سن کر حضرت علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور اس جگہ آئے جہاں مقتولین پڑے تھے۔ آپ انھیں ان کے پاؤں سے کھینچنے لگے تو ان میں وہ آدمی مل گیا جس کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ یہ دیکھ کر حضرت علی نے اللہ اکبر کہا، لوگ بھی خوش ہوئے اور واپس آگئے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ میں اس سال جنگ نہیں کروں گا۔ پھر آپ کوفہ کی طرف واپس چلے گئے اور وہاں شہید کردیئے گئے۔ پھر حضرت حسن کو خلیفہ بنایا گیا اور آپ اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے رہے، پھر حضرت معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی گئی۔
(۳۹۰۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ سِیَاہٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : أَتَیْتُہُ فَسَأَلْتُہُ عَنْ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ عَلِیٌّ ، قَالَ : قُلْتُ : فِیمَ فَارَقُوہُ ، وَفِیمَ اسْتَحَلُّوہُ ، وَفِیمَ دَعَاہُمْ ، وَفِیمَ فَارَقُوہُ ، ثُمَّ اسْتَحَلَّ دِمَائَہُمْ ؟ قَالَ : إِنَّہُ لَمَّا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ فِی أَہْلِ الشَّامِ بِصِفِّینَ ، اعْتَصَمَ مُعَاوِیَۃُ وَأَصْحَابُہُ بِجَبَلٍ ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : أَرْسِلْ إِلَی عَلِیٍّ بِالْمُصْحَفِ ، فَلاَ وَاللہِ لاَ یَرُدُّہُ عَلَیْکَ ، قَالَ : فَجَائَ بِہِ رَجُلٌ یَحْمِلُہُ یُنَادِی : بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللہِ {أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِنَ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ إِلَی کِتَابِ اللہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیقٌ مِنْہُمْ وَہُمْ مُعْرِضُونَ} ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : نَعَمْ ، بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللہِ ، أَنَا أَوْلَی بِہِ مِنْکُمْ ۔
۲۔ قَالَ : فَجَائَتِ الْخَوَارِجُ ، وَکُنَّا نُسَمِّیہِمْ یَوْمَئِذٍ الْقُرَّائَ ، قَالَ : فَجَاؤُوا بِأَسْیَافِہِمْ عَلَی عَوَاتِقِہِمْ ، فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَلاَ نَمْشِی إِلَی ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ حَتَّی یَحْکُمَ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ ، فَقَامَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ ، فَقَالَ :اَیُّہَا النَّاسُ ، اتَّہِمُوا أَنْفُسَکُمْ ، لَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، وَلَوْ نَرَی قِتَالاً لَقَاتَلْنَا ، وَذَلِکَ فِی الصُّلْحِ الَّذِی کَانَ بَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ ،
فَجَائَ عُمَرُ فَأَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ، وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ ، وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا ، وَنَرْجِعُ ، وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ ؟ فَقَالَ : یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، إِنِّی رَسُولُ اللہِ ، وَلَنْ یُضَیِّعَنِی اللَّہُ أَبَدًا ۔
۳۔ قَالَ: فَانْطَلَقَ عُمَرُ، وَلَمْ یَصْبِرْ مُتَغَیِّظًا، حَتَّی أَتَی أَبَا بَکْرٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ، أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ، وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ؟ فَقَالَ: بَلَی، قَالَ: أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ، وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: بَلَی، قَالَ: فَعَلاَمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ، وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ فَقَالَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّہُ رَسُولُ اللہِ، وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللَّہُ أَبَدًا۔
۴۔ قَالَ : فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْفَتْحِ ، فَأَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ ، فَأَقْرَأَہُ إِیَّاہُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَوَ فَتْحٌ ہُوَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَطَابَتْ نَفْسُہُ وَرَجَعَ۔
۵۔ فَقَالَ عَلِیٌّ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّ ہَذَا فَتْحٌ ، فَقَبِلَ عَلِیٌّ الْقَضِیَّۃَ وَرَجَعَ ، وَرَجَعَ النَّاسُ ۔
۶۔ ثُمَّ إِنَّہُمْ خَرَجُوا بِحَرُورَائَ ، أُولَئِکَ الْعِصَابَۃُ مِنَ الْخَوَارِجِ ، بِضْعَۃَ عَشَرَ أَلْفًا ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ یُنَاشِدُہُمُ اللَّہَ ، فَأَبَوْا عَلَیْہِ ، فَأَتَاہُمْ صَعْصَعَۃُ بْنُ صُوحَانَ ، فَنَاشَدَہُمُ اللَّہَ ، وَقَالَ : عَلاَمَ تُقَاتِلُونَ خَلِیفَتَکُمْ ؟ قَالُوا : نَخَافُ الْفِتْنَۃَ ، قَالَ : فَلاَ تُعَجِّلُوا ضَلاَلَۃَ الْعَامِ ، مَخَافَۃَ فِتْنَۃِ عَامٍ قَابِلٍ ، فَرَجَعُوا ، فَقَالُوا : نَسِیرُ عَلَی نَاحِیَتِنَا ، فَإِنْ عَلِیًّا قَبِلَ الْقَضِیَّۃَ ، قَاتَلْنَا عَلَی مَا قَاتَلْنَاہُمْ یَوْمَ صِفِّینَ ، وَإِنْ نَقَضَہَا قَاتَلْنَا مَعَہُ ۔
۷۔ فَسَارُوا حَتَّی بَلَغُوا النَّہْرَوَانَ ، فَافْتَرَقَتْ مِنْہُمْ فِرْقَۃٌ ، فَجَعَلُوا یَہُدُّونَ النَّاسَ قَتْلاً، فَقَالَ أَصْحَابُہُمْ: وَیْلَکُمْ، مَا عَلَی ہَذَا فَارَقْنَا عَلِیًّا ، فَبَلَغَ عَلِیًّا أَمْرُہُمْ ، فَقَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : مَا تَرَوْنَ ، أَتَسِیرُونَ إِلَی أَہْلِ الشَّامِ ، أَمْ تَرْجِعُونَ إِلَی ہَؤُلاَئِ الَّذِینَ خَلَّفُوا إِلَی ذَرَارِیکُمْ ؟ فَقَالُوا : لاَ ، بَلْ نَرْجِعُ إِلَیْہِمْ ، فَذَکَرَ أَمْرَہُمْ ، فَحَدَّثَ عَنْہُمْ مَا قَالَ فِیہِمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ فِرْقَۃً تَخْرُجُ عِنْدَ اخْتِلاَفٍ مِنَ النَّاسِ ، تَقْتُلُہُمْ أَقْرَبُ الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ ، عَلاَمَتُہُمْ رَجُلٌ فِیہِمْ ، یَدُہُ کَثَدْیِ الْمَرْأَۃِ۔
۸۔ فَسَارُوا حَتَّی الْتَقَوْا بِالنَّہْرَوَانِ ، فَاقْتَتَلُوا قِتَالاً شَدِیدًا ، فَجَعَلَتْ خَیْلُ عَلِیٍّ لاَ تَقُومُ لَہُمْ ، فَقَامَ عَلِیٌّ ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنْ کُنْتُمْ إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ لِی ، فَوَاللہِ مَا عِنْدِی مَا أَجْزِیکُمْ بِہِ ، وَإِنْ کُنْتُمْ إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ للہِ ، فَلاَ یَکُنْ ہَذَا قِتَالَکُمْ، فَحَمَلَ النَّاسُ حَمْلَۃً وَاحِدَۃً شَدِیدَۃً، فَانْجَلَتِ الْخَیْلُ عَنْہُمْ وَہُمْ مُکِبُّونَ عَلَی وُجُوہِہِمْ، فَقَالَ عَلِیٌّ : اطْلُبُوا الرَّجُلَ فِیہِمْ ، قَالَ : فَطَلَبَ النَّاسُ ، فَلَمْ یَجِدُوہُ ، حَتَّی قَالَ بَعْضُہُمْ : غَرَّنَا ابْنُ أَبِی طَالِبٍ مِنْ إِخْوَانِنَا حَتَّی قَتَلْنَاہُمْ ، فَدَمَعَتْ عَیْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : فَدَعَا بِدَابَّتِہِ فَرَکِبَہَا ، فَانْطَلَقَ حَتَّی أَتَی وَہْدَۃً فِیہَا قَتْلَی ، بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ ، فَجَعَلَ یَجُرُّ بِأَرْجُلِہِمْ ، حَتَّی وَجَدَ الرَّجُلَ تَحْتَہُمْ ، فَاجْتَرُّوہُ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، وَفَرِحَ النَّاسُ وَرَجَعُوا ، وَقَالَ عَلِیٌّ : لاَ أَغْزُو الْعَامَ ، وَرَجَعَ إِلَی الْکُوفَۃِ وَقُتِلَ ، وَاسْتُخْلِفَ حَسَنٌ ، فَسَارَ بِسِیرَۃِ أَبِیہِ ، ثُمَّ بَعَثَ بِالْبَیْعَۃِ إِلَی مُعَاوِیَۃَ۔ (ابویعلی ۴۶۹)
۲۔ قَالَ : فَجَائَتِ الْخَوَارِجُ ، وَکُنَّا نُسَمِّیہِمْ یَوْمَئِذٍ الْقُرَّائَ ، قَالَ : فَجَاؤُوا بِأَسْیَافِہِمْ عَلَی عَوَاتِقِہِمْ ، فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَلاَ نَمْشِی إِلَی ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ حَتَّی یَحْکُمَ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ ، فَقَامَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ ، فَقَالَ :اَیُّہَا النَّاسُ ، اتَّہِمُوا أَنْفُسَکُمْ ، لَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، وَلَوْ نَرَی قِتَالاً لَقَاتَلْنَا ، وَذَلِکَ فِی الصُّلْحِ الَّذِی کَانَ بَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ ،
فَجَائَ عُمَرُ فَأَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ، وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ ، وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا ، وَنَرْجِعُ ، وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ ؟ فَقَالَ : یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، إِنِّی رَسُولُ اللہِ ، وَلَنْ یُضَیِّعَنِی اللَّہُ أَبَدًا ۔
۳۔ قَالَ: فَانْطَلَقَ عُمَرُ، وَلَمْ یَصْبِرْ مُتَغَیِّظًا، حَتَّی أَتَی أَبَا بَکْرٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ، أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ، وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ؟ فَقَالَ: بَلَی، قَالَ: أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ، وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: بَلَی، قَالَ: فَعَلاَمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ، وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ فَقَالَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّہُ رَسُولُ اللہِ، وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللَّہُ أَبَدًا۔
۴۔ قَالَ : فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْفَتْحِ ، فَأَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ ، فَأَقْرَأَہُ إِیَّاہُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَوَ فَتْحٌ ہُوَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَطَابَتْ نَفْسُہُ وَرَجَعَ۔
۵۔ فَقَالَ عَلِیٌّ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّ ہَذَا فَتْحٌ ، فَقَبِلَ عَلِیٌّ الْقَضِیَّۃَ وَرَجَعَ ، وَرَجَعَ النَّاسُ ۔
۶۔ ثُمَّ إِنَّہُمْ خَرَجُوا بِحَرُورَائَ ، أُولَئِکَ الْعِصَابَۃُ مِنَ الْخَوَارِجِ ، بِضْعَۃَ عَشَرَ أَلْفًا ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ یُنَاشِدُہُمُ اللَّہَ ، فَأَبَوْا عَلَیْہِ ، فَأَتَاہُمْ صَعْصَعَۃُ بْنُ صُوحَانَ ، فَنَاشَدَہُمُ اللَّہَ ، وَقَالَ : عَلاَمَ تُقَاتِلُونَ خَلِیفَتَکُمْ ؟ قَالُوا : نَخَافُ الْفِتْنَۃَ ، قَالَ : فَلاَ تُعَجِّلُوا ضَلاَلَۃَ الْعَامِ ، مَخَافَۃَ فِتْنَۃِ عَامٍ قَابِلٍ ، فَرَجَعُوا ، فَقَالُوا : نَسِیرُ عَلَی نَاحِیَتِنَا ، فَإِنْ عَلِیًّا قَبِلَ الْقَضِیَّۃَ ، قَاتَلْنَا عَلَی مَا قَاتَلْنَاہُمْ یَوْمَ صِفِّینَ ، وَإِنْ نَقَضَہَا قَاتَلْنَا مَعَہُ ۔
۷۔ فَسَارُوا حَتَّی بَلَغُوا النَّہْرَوَانَ ، فَافْتَرَقَتْ مِنْہُمْ فِرْقَۃٌ ، فَجَعَلُوا یَہُدُّونَ النَّاسَ قَتْلاً، فَقَالَ أَصْحَابُہُمْ: وَیْلَکُمْ، مَا عَلَی ہَذَا فَارَقْنَا عَلِیًّا ، فَبَلَغَ عَلِیًّا أَمْرُہُمْ ، فَقَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : مَا تَرَوْنَ ، أَتَسِیرُونَ إِلَی أَہْلِ الشَّامِ ، أَمْ تَرْجِعُونَ إِلَی ہَؤُلاَئِ الَّذِینَ خَلَّفُوا إِلَی ذَرَارِیکُمْ ؟ فَقَالُوا : لاَ ، بَلْ نَرْجِعُ إِلَیْہِمْ ، فَذَکَرَ أَمْرَہُمْ ، فَحَدَّثَ عَنْہُمْ مَا قَالَ فِیہِمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ فِرْقَۃً تَخْرُجُ عِنْدَ اخْتِلاَفٍ مِنَ النَّاسِ ، تَقْتُلُہُمْ أَقْرَبُ الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ ، عَلاَمَتُہُمْ رَجُلٌ فِیہِمْ ، یَدُہُ کَثَدْیِ الْمَرْأَۃِ۔
۸۔ فَسَارُوا حَتَّی الْتَقَوْا بِالنَّہْرَوَانِ ، فَاقْتَتَلُوا قِتَالاً شَدِیدًا ، فَجَعَلَتْ خَیْلُ عَلِیٍّ لاَ تَقُومُ لَہُمْ ، فَقَامَ عَلِیٌّ ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنْ کُنْتُمْ إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ لِی ، فَوَاللہِ مَا عِنْدِی مَا أَجْزِیکُمْ بِہِ ، وَإِنْ کُنْتُمْ إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ للہِ ، فَلاَ یَکُنْ ہَذَا قِتَالَکُمْ، فَحَمَلَ النَّاسُ حَمْلَۃً وَاحِدَۃً شَدِیدَۃً، فَانْجَلَتِ الْخَیْلُ عَنْہُمْ وَہُمْ مُکِبُّونَ عَلَی وُجُوہِہِمْ، فَقَالَ عَلِیٌّ : اطْلُبُوا الرَّجُلَ فِیہِمْ ، قَالَ : فَطَلَبَ النَّاسُ ، فَلَمْ یَجِدُوہُ ، حَتَّی قَالَ بَعْضُہُمْ : غَرَّنَا ابْنُ أَبِی طَالِبٍ مِنْ إِخْوَانِنَا حَتَّی قَتَلْنَاہُمْ ، فَدَمَعَتْ عَیْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : فَدَعَا بِدَابَّتِہِ فَرَکِبَہَا ، فَانْطَلَقَ حَتَّی أَتَی وَہْدَۃً فِیہَا قَتْلَی ، بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ ، فَجَعَلَ یَجُرُّ بِأَرْجُلِہِمْ ، حَتَّی وَجَدَ الرَّجُلَ تَحْتَہُمْ ، فَاجْتَرُّوہُ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، وَفَرِحَ النَّاسُ وَرَجَعُوا ، وَقَالَ عَلِیٌّ : لاَ أَغْزُو الْعَامَ ، وَرَجَعَ إِلَی الْکُوفَۃِ وَقُتِلَ ، وَاسْتُخْلِفَ حَسَنٌ ، فَسَارَ بِسِیرَۃِ أَبِیہِ ، ثُمَّ بَعَثَ بِالْبَیْعَۃِ إِلَی مُعَاوِیَۃَ۔ (ابویعلی ۴۶۹)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৬৯
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧٠) حضرت زید بن وہب فرماتے ہیں کہ یوم نہروان میں حضرت علی کی خوارج سے مڈبھیڑ ہوئی۔ نیزے مسلسل چلتے رہے اور خوارج مارے گئے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ ان میں ذوالثدیہ کو تلاش کرو، لیکن تلاش کے بعد بھی وہ نہ ملا۔ حضرت علی نے فرمایا کہ نہ میں نے جھوٹ بولا اور نہ میرے ساتھ جھوٹ بولا گیا۔ اسے تلاش کرو۔ جب پھر تلاش کیا گیا تو وہ مقتولین کے ساتھ ایک جگہ زمین پر پڑا تھا۔ اس کے ہاتھ پر بلی کے پنجوں جیسی کوئی چیز تھی۔ اسے دیکھ کر حضرت علی اور لوگوں نے اللہ اکبر کہا اور لوگ بھی خوش ہوئے اور حضرت علی بھی خوش ہوئے۔
(۳۹۰۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ النَّہْرَوَانِ لَقِیَ الْخَوَارِجَ فَلَمْ یَبْرَحُوا حَتَّی شَجَرُوا بِالرِّمَاحِ فَقُتِلُوا جَمِیعًا ، فَقَالَ عَلِیٌّ : اطْلُبُوا ذَا الثُّدَیَّۃِ ، فَطَلَبُوہُ فَلَمْ یَجِدُوہُ، فَقَالَ عَلِیٌّ: مَا کَذَبْت وَلاَ کُذِّبْت ، اطْلُبُوہُ ، فَطَلَبُوہُ فَوَجَدُوہُ فِی وَہْدَۃٍ مِنَ الأَرْضِ عَلَیْہِ نَاسٌ مِنَ الْقَتْلَی، فَإِذَا رَجُلٌ عَلَی یَدِہِ مِثْلُ سَبَلاَتِ السِّنَّوْرِ، قَالَ: فَکَبَّرَ عَلِیٌّ وَالنَّاسُ، وَأُعْجِبَ النَّاسُ فَأُعْجِبَ عَلِیٌّ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৯০৭০
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ خوارج کا بیان
(٣٩٠٧١) بنو نصر بن معاویہ کے ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت علی کے پاس حاضر تھے کہ خوارج کا ذکر چھڑ گیا۔ ایک آدمی نے انھیں گالی دی تو حضرت علی نے فرمایا کہ انھیں گالی مت دو ۔ اگر وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں تو ان سے قتال کرو اور اگر وہ ظالم امام کے خلاف خروج کریں تو ان سے قتال نہ کرو۔ کیونکہ انھیں گفتگو کا حق ہے۔
(۳۹۰۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی نَصْرِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ: کُنَّا عِنْدَ عَلِیٍّ فَذَکَرُوا أَہْلَ النَّہَرِ فَسَبَّہُمْ رَجُلٌ ، فَقَالَ عَلِیٌّ: لاَ تَسُبُّوہُمْ ، وَلَکِنْ إِنْ خَرَجُوا عَلَی إمَامٍ عَادِلٍ فَقَاتِلُوہُمْ ، وَإِنْ خَرَجُوا عَلَی إمَامٍ جَائِرٍ فَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ ، فَإِنَّ لَہُمْ بِذَلِکَ مَقَالاً۔
তাহকীক: