মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)

الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار

کتاب الجمل - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ১৮৭ টি

হাদীস নং: ৩৯০১১
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠١٢) حضرت جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے جنگ صفین میں فیصلہ کرنے والوں سے فرمایا کہ کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کرو، جسے قرآن نے زندگی دی ہے اسے زندہ کرو اور جسے قرآن نے مردہ کیا ہے اسے مردہ کہو، اور راہ راست سے نہ ہٹو۔
(۳۹۰۱۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ قَالَ : حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَعْفَرًا ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : إِنْ تَحْکُمَا بِمَا فِی کِتَابِ اللہِ فَتُحْیِیَا مَا أَحْیَا الْقُرْآنُ وَتُمِیتَا مَا أَمَاتَ الْقُرْآنُ وَلاَ تَزِیغَا۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০১২
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠١٣) حضرت عبداللہ بن حسن اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے جنگ صفین میں عبید اللہ بن عمر کو شہید کیا اور ان کے مال کو بطور مال غنیمت کے حاصل کیا۔
(۳۹۰۱۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ الْحَسَنِ یَذْکُرُ عَنْ أُمِّہِ ، أَنَّ الْمُسْلِمِینَ قَتَلُوا عُبَیْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ یَوْمَ صِفِّینَ ، وَأَخَذَ الْمُسْلِمُونَ سَلَبَہُ وَکَانَ مَالاً۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০১৩
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠١٤) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ جنگ صفین میں حضرت علی کے پاس جب کوئی قیدی لایا جاتا تو آپ اس کی سواری اور اسلحہ لے لیتے اور اس سے عہد لیتے کہ وہ واپس لشکر میں نہیں جائے گا اور اس کو آزاد کردیتے۔
(۳۹۰۱۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ إِذَا أُتِیَ بِأَسِیرِ یوم صِفِّینَ أَخَذَ دَابَّتَہُ وَسِلاَحَہُ ، وَأَخَذَ عَلَیْہِ أَنْ لاَ یَعُودَ ، وَخَلَّی سَبِیلَہُ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০১৪
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠١٥) حضرت محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ جنگ صفین میں مقتولین کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ گئی تھی، لوگوں نے انھیں گننے کے لیے بانسوں کا سہارا لیا۔
(۳۹۰۱۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : بَلَغَ الْقَتْلَی یَوْمَ صِفِّینَ سَبْعِینَ أَلْفًا ، فَمَا قَدَرُوا عَلَی عَدِّہِمْ إِلاَّ بِالْقَصَبِ ، وَضَعُوا عَلَی کُلِّ إنْسَانٍ قَصَبَۃً ، ثُمَّ عَدُّوا الْقَصَبَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০১৫
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠١٦) حضرت یزید بن بلال کہتے ہیں کہ میں جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شریک تھا، جب ان کے پاس کوئی قیدی لایا جاتا تو وہ فرماتے کہ میں تمہیں ہرگز قتل نہیں کروں گا، مجھے اللہ رب العالمین کا خوف مانع ہے۔ آپ اس کا ہتھیار لے لیتے اور اس سے قسم لیتے کہ وہ ان سے قتال نہیں کرے گا اور اسے چار دراہم عطا کرتے۔
(۳۹۰۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا کَیْسَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی مَوْلاَیَ یَزِیدُ بْنُ بِلاَلٍ ، قَالَ : شَہِدْت مَعَ عَلِیٍّ صِفِّینَ ، فَکَانَ إِذَا أُتِیَ بِالأَسِیرِ ، قَالَ : لَنْ أَقْتُلَک صَبْرًا ، إنِّی أَخَافُ اللَّہَ رَبَّ الْعَالَمِینَ ، وَکَانَ یَأْخُذُ سِلاَحَہُ وَیُحَلِّفُہُ : لاَ یُقَاتِلُہُ ، وَیُعْطِیہِ أَرْبَعَۃَ دَرَاہِمَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০১৬
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠١٧) حضرت شقیق سے پوچھا گیا کہ کیا آپ جنگ صفین میں شریک تھے ؟ انھوں نے فرمایا کہ وہ بدترین صفیں تھیں۔
(۳۹۰۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِیقٍ ، قَالَ : قِیلَ لَہُ : أَشْہَدْت صِفِّینَ ، قَالَ : نَعَمْ ، وَبِئْسَت الصفُّونَ کَانَتْ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০১৭
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠١٨) حضرت ضحاک نے قرآن مجید کی آیت { وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِنْ بَغَتْ إحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیئَ إِلَی أَمْرِ اللہِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اسے تلوار سے درست کرو۔ شاگرد نے پوچھا کہ ان کے مقتولین کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا کہ وہ جنت کے رزق یافتہ شہداء ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ بغاوت کرنے والوں کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا وہ جہنمی ہیں۔
(۳۹۰۱۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی قَوْلِہِ : {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِنْ بَغَتْ إحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیئَ إِلَی أَمْرِ اللہِ} قَالَ : بِالسَّیْفِ ، قَالَ قُلْتُ : فَمَا قَتلاَہُمْ ، قَالَ : شُہَدَائُ مَرْزُوقُونَ ، قَالَ : قُلْتُ : فَمَا حَالُ الأُخْرَی أَہْلِ الْبَغْیِ مَنْ قُتِلَ مِنْہُمْ ، قَالَ: إِلَی النَّارِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০১৮
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠١٩) حضرت عطاء بن سائب فرماتے ہیں کہ مجھ سے کئی لوگوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ شام کا ایک قاضی حضرت عمر کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اے امیر المومنین میں نے ایک خواب دیکھا جس نے مجھے خوفزدہ کردیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ سورج اور چاند باہم قتال کررہے ہیں اور ستارے آدھے آدھے دونوں کے ساتھ ہیں۔ حضرت عمر نے اس سے پوچھا کہ تم کس کے ساتھ تھے ؟ میں نے کہا کہ میں چاند کے ساتھ تھا اور سورج کے خلاف لڑرہا تھا۔ حضرت عمر نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی { وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَۃَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً } پھر فرمایا کہ چلے جاؤ، میں آئندہ تمہیں کوئی کام نہیں دوں گا۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ جنگ صفین میں حضرت معاویہ کی معیت میں مارا گیا تھا۔
(۳۹۰۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : حدَّثَنِی غَیْرُ وَاحِدٍ ، أَنَّ قَاضِیًا مِنْ قُضَاۃِ الشَّامِ أَتَی عُمَرَ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، رُؤْیَا أَفْظَعَتْنِی ، قَالَ : مَا ہِیَ ، قَالَ : رَأَیْتُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ یَقْتَتِلاَنِ ، وَالنُّجُومُ مَعَہُمَا نِصْفَیْنِ ، قَالَ : فَمَعَ أَیَّتِہِمَا کُنْت ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ الْقَمَرِ عَلَی الشَّمْسِ ، فَقَالَ عُمَرُ : {وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَۃَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً} فَانْطَلِقْ فَوَاللہِ لاَ تَعْمَلُ لِی عَمَلاً أَبَدًا ، قَالَ عَطَائٌ : فَبَلَغَنِی ، أَنَّہُ قُتِلَ مَعَ مُعَاوِیَۃَ یَوْمَ صِفِّینَ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০১৯
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢٠) حضرت عبداللہ بن عروہ فرماتے ہیں کہ مجھے صفین میں شریک ہونے والے ایک آدمی نے بتایا کہ حضرت علی ایک رات کو نکلے، انھوں نے اہل شام کو دیکھا اور دعا کی کہ اے اللہ ! ان کی بھی مغفرت فرما اور میری بھی مغفرت فرما۔
(۳۹۰۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُرْوَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی رَجُلٌ شَہِدَ صِفِّینَ، قَالَ: رَأَیْتُ عَلِیًّا خَرَجَ فِی بَعْضِ تِلْکَ اللَّیَالِی، فَنَظَرَ إِلَی أَہْلِ الشَّامِ، فَقَالَ: اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَلَہُمْ، فَأُتِی عَمَّارٌ فَذُکِرَ ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ : جُرُّوا لَہُ الْخَطِیرَ مَا جَرَّہُ لَکُمْ ، یَعْنِی سَعْدًا رحمہ اللہ۔ (ابن عساکر ۳۴۶)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২০
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢١) حضرت عبداللہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے جنگ صفین میں حضرت عمار کو دیکھا کہ وہ انتہائی بوڑھے تھے، ان کا ہاتھ کانپ رہا تھا اور ان کے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ دشمن اگر ہمیں مار کر تہس نہس بھی کردیں تو بھی مجھے یقین ہوگا کہ ہمارے مصلحین حق پر اور وہ لوگ باطل پر ہیں۔
(۳۹۰۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَمَّارًا یَوْمَ صِفِّینَ شَیْخًا آدَمَ طِوَالاً وَیَدَاہُ تَرْتَعِشُ وَبِیَدِہِ الْحَرْبَۃُ ، فَقَالَ : لَوْ ضَرَبُونَا حَتَّی یبْلُغُوا بِنَا سَعَفَاتِ ہَجَرَ لَعَلِمْت أَنَّ مُصْلِحِینَا عَلَی الْحَقِّ وَأَنَّہُمْ عَلَی الْبَاطِلِ۔ (ابن سعد ۲۵۶۔ احمد ۳۱۹)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২১
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢٢) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جب صفین میں لوگوں نے حملے کے لیے ہاتھ بلند کئے تو حضرت عمرو بن عاص نے یہ اشعار کہے : (ترجمہ) لڑائی نے زور پکڑ لیا، میں نے اس لڑائی کے لیے ایک بہادر اور اعلیٰ نسل کا گھوڑا تیار کیا ہے۔ وہ سختی کا مقابلہ سختی سے کرتا ہے اور جب گھڑ سوار ایک دوسرے کے قریب آجائیں تو وہ اور توانا ہوجاتا ہے، وہ تیز رفتار ہے اور بڑا ہے، جب پانی سے تر ہوجائے تو اور چست ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمرو نے شعر کہے : (ترجمہ) اگر جوان صفین میں میرے کھڑے ہونے کو دیکھ لیں تو ان کے بال سفید ہوجائیں۔ یہ وہ رات تھی جب اہل عراق بادلوں کی طرح آئے تھے۔ اس وقت ہماری صفیں سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مار رہی تھیں۔ ان کی چکی بھی گھومی اور ہماری چکی بھی گھومی اور ہمارے کندھے ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے۔ جب میں کہتا کہ وہ بھاگ گئے تو ان کی ایک جماعت اچانک آکر حملہ کردیتی۔ وہ ہم سے کہتے تھے کہ حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کرو اور ہم کہتے تھے کہ تم لڑائی کرو۔
(۳۹۰۲۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ قُدَامَۃَ الْجُمَحِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عُمَر بْنُ شُعَیْبٍ ، أَخُو عَمْرو بْنُ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: لَمَّا رَفَعَ النَّاسُ أَیْدِیَہُمْ عَنْ صِفِّینَ ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ:

شَبَّتِ الْحَرْبُ فَأَعْدَدْت لَہَا

مُفْرِعَ الْحَارِکِ مَلْوِیَّ الثَّبَجْ

یَصِلُ الشَّدَّ بِشَدٍّ فَإِذَا

وَنَتِ الْخَیْلُ مِنَ الثَّجِّ مَعَجْ

جُرْشُعٌ أَعْظَمُہُ جُفْرَتُہُ

فَإِذَا ابْتَلَّ مِنَ الْمَائِ حدج

قالَ : وَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو شِعرًا:

لَوْ شَہِدَتْ جُمْلٌ مَقَامِی

بِصِفِّینَ یَوْمًا شَابَ مِنْہَا الذَّوَائِبُ

عَشِیَّۃَ جَائَ أَہْلُ الْعِرَاقِ کَأَنَّہُمْ

سَحَابُ رَبِیعٍ رَفَّعَتْہُ الْجَنَائِبُ

وَجِئْنَاہُمْ نُرْدِی کَأَنَّ صُفُوفَنَا

مِنَ الْبَحْرِ مَدٌّ مَوْجُہُ مُتَرَاکِبُ

فَدَارَتْ رَحَانَا وَاسْتَدَارَتْ رَحَاہُمْ

سَرَاۃَ النَّہَارِ مَا تُوَلَّی الْمَنَاکِبُ

إذَا قُلْتَ قَدْ وَلَّوْا سِرَاعًا بَدَتْ لَنَا

کَتَائِبُ مِنْہُمْ فَارْجَحَنَّتْ کَتَائِبُ

فَقَالُوا لَنَا : إنَّا نَرَی أَنْ تُبَایِعُوا

عَلِیًّا فَقُلْنَا بَلْ نَرَی أَنْ تُضَارِبوا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২২
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت جندب جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ تھے لیکن انھوں نے لڑائی نہیں کی۔
(۳۹۰۲۳) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ جُنْدُبًا کَانَ مَعَ عَلِیٍّ یَوْمَ صِفِّینَ ، فقَالَ حَمَّادٌ : لَمْ یَکُنْ یُقَاتِلُ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২৩
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢٤) حضرت منصور کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا کہ کیا حضرت علقمہ جنگ صفین میں شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے فرمایا ہاں اور ان کی تلوار بھی رنگین ہوئی تھی اور ان کے بھائی ابی بن قیس مارے گئے تھے۔
(۳۹۰۲۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : شَہِدَ عَلْقَمَۃُ صِفِّینَ ، قَالَ : نَعَمْ ، وخَضَّبَ سَیْفَہُ وَقَتَلَ أَخُوہُ أُبَیُّ بْنُ قَیْسٍ۔ (ابن سعد ۸۷)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২৪
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢٥) حضرت ابو بختری فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ جنگ صفین سے واپس آئے تو ان کی تلوار رنگین تھی اور وہ حضرت علی کی طرف تھے۔
(۳۹۰۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، قَالَ : رَجَعَ عَلْقَمَۃُ یَوْمَ صِفِّینَ وَقَدْ خَضَّبَ سَیْفَہُ مَعَ عَلِیٍّ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২৫
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢٦) حضرت سہل بن حنیف نے جنگ صفین میں لوگوں سے کہا کہ لوگو ! اپنی رائے کو یقینی نہ سمجھنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں ہمیشہ ہمارے لیے معاملات کی حقیقت کو سمجھنا آسان رہا لیکن اس معاملے میں ہم کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرسکتے۔
(۳۹۰۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ یَوْمَ صِفِّینَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، اتَّہِمُوا رَأْیَکُمْ ، فَإِنَّہُ وَاللہِ مَا وَضَعْنَا سُیُوفَنَا عَلَی عَوَاتِقِنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَمْرٍ یُفْظِعُنَا إِلاَّ أَسْہَلْنَ بِنَا إِلَی أَمْرٍ نَعْرِفُہُ غَیْرَ ہَذَا۔ (بخاری ۳۱۸۱۔ مسلم ۱۴۱۲)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২৬
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢٧) حضرت عبداللہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے جنگ صفین میں حضرت عمار کو دیکھا کہ وہ انتہائی بوڑھے تھے، ان کا ہاتھ کانپ رہا تھا اور ان کے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ دشمن اگر ہمیں مار کر تہس نہس بھی کردیں تو بھی مجھے یقین ہوگا کہ ہمارے مصلحین حق پر اور وہ لوگ باطل پر ہیں۔
(۳۹۰۲۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ سَمِعَہُ یَقُولُ : رَأَیْت عَمَّارًا یَوْمَ صِفِّینَ شَیْخًا آدَمَ طِوَالاً آخِذٌ حَرْبَۃً بِیَدِہِ وَیَدُہُ تُرْعَدُ ، فَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ ضَرَبُونَا حَتَّی یَبْلُغُوا بِنَا سَعَفَاتِ ہَجَرَ لَعَرَفْت أَنَّ مُصْلِحِینَا عَلَی الْحَقِّ ، وَأَنَّہُمْ عَلَی الْبَاطِلِ۔ (احمد ۳۱۹)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২৭
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢٨) حضرت کلیب جرمی فرماتے ہیں کہ میں مسجد سے باہر تھا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس کو دیکھا، وہ حاکموں کے معاملے میں حضرت معاویہ کے پاس سے واپس آرہے تھے۔ وہ حضرت سلیمان بن ربیعہ کے گھر میں داخل ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ داخل ہوا۔ انھیں ایک آدمی نے طعنہ دیا، پھر ایک اور آدمی نے طعنہ دیا، پھر ایک اور آدمی نے طعنہ دیا اور کہا کہ اے ابن عباس ! تم نے کفر کیا، تم نے شرک کیا اور تم نے اللہ کا ہم سر ٹھہرایا۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں یہ فرماتا ہے، یہ فرماتا ہے اور یہ فرماتا ہے۔ راوی سے پوچھا گیا کہ وہ کون تھے ؟ انھوں نے بتایا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جلیل القدر صحابہ تھے۔

(٢) حضرت عبداللہ بن عباس نے ان کی بات سن کر فرمایا کہ تم اپنے میں سے سب سے زیادہ عالم اور سب سے بڑے مناظر کا انتخاب کرلو وہ مجھ سے بات کرے۔ انھوں نے ایک کانے شخص کا انتخاب کیا جن کا نام عتاب تھا اور وہ بنو تغلب سے تھے۔ انھوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ گویا وہ اپنی ضرورت کو قرآن کی ایک سورت سے ثابت کررہے تھے۔

(٣) ان کی بات سن کر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں آپ کو قرآن کا عالم سمجھتا ہوں، کیونکہ آپ نے بہت وضاحت سے اپنا موقف پیش کیا ہے۔ میں آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ شام والوں نے فیصلے کا مطالبہ کیا اور ہم نے اسے ناپسند کیا اور انکار کیا۔ پھر جب تمہیں زخم پہنچے، الم پہنچے اور تمہیں فرات کے پانی سے محروم کیا گیا تو تم نے فیصلے کا مطالبہ کرنا شروع کردیا ؟ مجھے حضرت معاویہ نے بتایا ہے کہ ان کے پاس ایک پتلی کمر والا گھوڑا لایا گیا تاکہ وہ اس پر سوار ہو کر بھاگ جائیں یہاں تک کہ تم میں سے کوئی آنے والا آئے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اہل عراق کو ان لوگوں کی طرح چھوڑ دیا ہے جو مکہ میں نفر کی رات ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

(٤) پھر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں تمہیں اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ ابوبکر کیسے آدمی تھے ؟ سب نے کہا کہ بھلے آدمی تھے اور ان کی تعریف کی۔ پھر پوچھا کہ عمر بن خطاب کیسے آدمی تھے ؟ سب نے کہا کہ بھلے آدمی تھے اور ان کی تعریف کی۔ پھر ابن عباس نے فرمایا کہ تمہارے خیال میں اگر کوئی شخص حج یا عمرے کے لیے جائے اور کسی ہرن یا وہاں کے حشرات میں سے کسی کو مار ڈالے اور خود فیصلہ کرلے تو کیا اس کا فیصلہ معتبر ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (یَحْکُمُ بِہِ ذَوَا عَدْلٍ ) جبکہ تمہارا جس معاملے میں اختلاف ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کے لیے پرندے کے معاملے میں دو حاکم بنائے ہیں، آدمی اور اس کی بیوی کے معاملے میں دو حاکم بنائے ہیں تو تمہارے اختلاف میں جو ان سے بڑا ہے دو حاکم کیوں نہیں ہوسکتے۔
(۳۹۰۲۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ الْجَرْمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : إنِّی لَخَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ إذْ رَأَیْت ابْنَ عَبَّاسٍ حِینَ جَائَ مِنْ عِنْدِ مُعَاوِیَۃَ فِی أَمْرِ الْحَکَمَیْنِ فَدَخَلَ دَارَ سُلَیْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ فَدَخَلْت مَعَہُ ، فَمَا زَالَ یُرْمَی إلَیْہِ بِرَجُلٍ ، ثُمَّ رَجُل بَعْدَ رَجُلٍ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ کَفَرْت وَأَشْرَکْت وَنَدَّدْت ، قَالَ اللَّہُ فِی کِتَابِہِ کَذَا ، وَقَالَ اللَّہُ کَذَا ، وَقَالَ اللَّہُ کَذَا حَتَّی دَخَلَنِی مِنْ ذَلِکَ ، قَالَ : وَمَنْ ہُمْ ، ہُمْ وَاللہِ السِّنُّ الأُوَلُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ، ہُمْ وَاللہِ أَصْحَابُ الْبَرَانِسِ وَالسَّوَارِی ۔

۲۔ قَالَ : فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : انْظُرُوا أَخْصَمَکُمْ وَأَجْدَلَکُمْ وَأَعْلَمَکُمْ بِحُجَّتِکُمْ ، فَلْیَتَکَلَّمْ ، فَاخْتَارُوا رَجُلاً أَعْوَرَ یُقَالُ لَہُ : عَتَّابٌ مِنْ بَنِی تَغْلِبَ ، فَقَامَ ، فَقَالَ : قَالَ اللَّہُ کَذَا ، وَقَالَ اللَّہُ کَذَا کَأَنَّمَا یَنْزِعُ بِحَاجَتِہِ مِنَ الْقُرْآنِ فِی سُورَۃٍ وَاحِدَۃٍ ۔

۳۔ قَالَ : فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : إنِّی أَرَاک قَارِئًا لِلْقُرْآنِ عَالِمًا بِمَا قَدْ فَصَّلْت وَوَصَلْت ، أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، ہَلْ عَلِمْتُمْ أَنَّ أَہْلَ الشَّامِ سَأَلُوا الْقَضِیَّۃَ فَکَرِہْنَاہَا وَأَبَیْنَاہَا ، فَلَمَّا أَصَابَتْکُمَ الْجِرَاحُ وَعَضَّکُمَ الأَلَمُ وَمُنِعْتُمْ مَائَ الْفُرَاتِ أَنْشَأْتُمْ تَطْلُبُونَہَا ، وَلَقَدْ أَخْبَرَنِی مُعَاوِیَۃُ أَنَّہُ أُتِیَ بِفَرَسٍ بَعِیدِ الْبَطْنِ مِنَ الأَرْضِ لِیَہْرُبَ عَلَیْہِ ، حتی أَتَاہُ آتٍ مِنْکُمْ ، فَقَالَ : إنِّی تَرَکْت أَہْلَ الْعِرَاقِ یَمُوجُونَ مِثْلَ النَّاسِ لَیْلَۃَ النَّفْرِ بِمَکَّۃَ ، یَقُولُونَ مُخْتَلِفِینَ فِی کُلِّ وَجْہٍ مِثْلُ لَیْلَۃِ النَّفْرِ بِمَکَّۃَ ۔

۴۔ قَالَ: ثُمَّ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ، أَیَّ رَجُلٍ کَانَ أَبُو بَکْرٍ؟ فَقَالُوا: خَیْرًا وَأَثْنَوْا، فَقَالَ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ؟ فَقَالُوا خَیْرًا وَأَثْنَوْا ، فَقَالَ : أَفَرَأَیْتُمْ لَوْ أَنَّ رَجُلاً خَرَجَ حَاجًّا ، أَوْ مُعْتَمِرًا فَأَصَابَ ظَبْیًا ، أَوْ بَعْضَ ہَوَامِّ الأَرْضِ فَحَکَمَ فِیہِ أَحَدُہُمَا وَحْدَہُ ، أَکَانَ لَہُ ، وَاللَّہُ یَقُولُ {یَحْکُمُ بِہِ ذَوَا عَدْلٍ} فَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِنْ أَمْرِ الأُمَّۃِ أَعْظَمُ ، یَقُولُ : فَلاَ تُنْکِرُوا حَکَمَیْنِ فِی دِمَائِ الأُمَّۃِ ، وَقَدْ جَعَلَ اللَّہُ فِی قَتْلِ طَائِرٍ حَکَمَیْنِ، وَقَدْ جَعَلَ بَیْنَ اخْتِلاَفِ رَجُلٍ وَامْرَأَتِہِ حَکَمَیْنِ لإِقَامَۃِ الْعَدْلِ وَالإِنْصَافِ بَیْنَہُمَا فِیمَا اخْتَلَفَا فِیہِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২৮
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٢٩) حضرت عبد العزیز بن رفیع فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی صفین گئے تو انھوں نے حضرت ابو مسعود کو لوگوں کا حاکم بنایا۔ انھوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا تو لوگوں کو کم پایا۔ تو فرمایا اے لوگو ! باہر نکلو، جو باہر نکلا وہ مامون ہوگا۔ بخدا ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض لوگ اس صورت کو ناپسند سمجھتے ہیں اور بوجھل خیال کرتے ہیں۔ باہر نکلو جو باہر نکلا وہ امن پائے گا۔ بخدا ہم اس چیز کو عافیت نہیں سمجھتے کہ یہ دو جماعتیں لڑیں اور ایک دوسرے سے ڈرے۔ بلکہ عافیت اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کی اصلاح فرمائے اور ان کو جمع کردے۔ میں تمہیں حضرت عثمان کے بارے میں بتاتا ہوں اور جو لوگوں نے ان سے انتقام لیا۔ لوگوں نے انھیں کسی حق کے ثابت کرنے کے لیے شہید نہیں کیا بلکہ وہ ان نعمتوں پر حسد کرتے تھے جو اللہ نے حضرت عثمان کو عطا فرمائی تھیں۔

جب حضرت علی آئے تو آپ نے فرمایا کہ اے فروخ ! کیا آپ نے وہ بات کی جو میں نے سنی ہے ؟ آپ ایک ایسے بوڑھے ہیں جس کی عقل ختم ہوچکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میری ماں نے میرا نام اس نام سے اچھا رکھا ہے جو آپ نے مجھے دیا ہے۔ کیا میری عقل چلی گئی ہے اور میرے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنت واجب ہوگئی ہے۔ آپ بھی اس بات کو جانتے ہیں۔ میری عقل باقی نہیں رہی۔ ہم باہم گفتگو کیا کرتے تھے کہ آخر شر ہے۔

جب وہ سیلحین یا قادسیہ میں تھے تو لوگوں کے سامنے آئے اور ان کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا، یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ احرام کی تیاری کررہے ہیں۔ جب انھوں نے سواری پر سوار ہونے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا کہ اے ابو مسعود ! ہمیں کوئی نصیحت فرما دیجئے۔ انھوں نے فرمایا کہ تم پر تقویٰ لازم ہے اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ جڑے رہو، کیونکہ مسلمانوں کی جماعت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔ لوگوں نے پھر نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ تم پر تقویٰ لازم ہے اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ جڑے رہو، نیک آدمی راحت پاتا ہے یا برے سے راحت پائی جاتی ہے۔
(۳۹۰۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، قَالَ : لَمَّا سَارَ عَلِیٌّ إِلَی صِفِّینَ اسْتَخْلَفَ أَبَا مَسْعُودٍ عَلَی النَّاسِ فَخَطَبَہُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَرَأَی فِیہِمْ قِلَّۃً ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، اخْرُجُوا فَمَنْ خَرَجَ فَہُوَ آمِنٌ ، إنَّا نَعْلَمُ وَاللہِ ، أَنَّ مِنْکُمَ الْکَارِہَ لِہَذَا الْوَجْہِ وَالْمُتَثَاقِلَ ، عَنْہُ ، اخْرُجُوا فَمَنْ خَرَجَ فَہُوَ آمِنٌ ، وَاللہِ مَا نَعُدُّہَا عَافِیَۃً أَنْ یَلْتَقِیَ ہَذَانِ الْغَارَانِ یَتَّقِی أَحَدُہُمَا الآخَرَ ، وَلَکِنْ نَعُدُّہَا عَافِیَۃً أَنْ یُصْلِحَ اللَّہُ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ وَیَجْمَعَ أُلْفَتَہَا ، أَلاَ أُخْبِرُکُمْ عَنْ عُثْمَانَ ، وَمَا نَقَمَ النَّاسُ عَلَیْہِ إِنَّہُمْ لَمْ یَدَعُوہُ وَذَنْبَہُ حَتَّی یَکُونَ اللَّہُ یُعَذِّبُہُ ، أَوْ یَعْفُو عَنْہُ ، وَلَمْ یُدْرِکوا الذی طلبوا إذْ حَسَدُوہُ مَا آتَاہُ اللَّہُ إیَّاہُ ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلِیٌّ ، قَالَ لہ : أَنْتَ الْقَائِلُ مَا بَلَغَنِی عَنْک یَا فَرُّوخُ ، إنَّک شَیْخٌ قَدْ ذَہَبَ عَقْلُک ، قَالَ : لَقَدْ سَمَّتْنِی أُمِّی بِاسْمٍ أَحْسَنَ مِنْ ہَذَا ، أَذَہَبَ عَقْلِی وَقَدْ وَجَبَتْ لِی الْجَنَّۃُ مِنَ اللہِ وَمِنْ رَسُولِہِ ، تَعْلَمُہُ أَنْتَ ، وَمَا بَقِیَ مِنْ عَقْلِی فَإِنَّا کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ الآخَرَ فَالآخَرُ شَرٌّ ، قَالَ : فَلَمَّا کَانَ بِالسِّیلِحِین ، أَوْ بِالْقَادِسِیَّۃِ خَرَجَ عَلَیْہِمْ وَظُفْرَاہُ یَقْطُرَانِ ، یُرَی أَنَّہُ قَدْ تَہَیَّأَ لِلإِحْرَامِ ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَہُ فِی الْغَرْزِ وَأَخَذَ بِمُؤَخِّرِ وَاسِطَۃِ الرَّحْلِ قَامَ إلَیْہِ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ فَقَالُوا : لَوْ عَہِدْت إلَیْنَا یَا أَبَا مَسْعُودٍ ، فَقَالَ : عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ وَالْجَمَاعَۃِ ، فَإِنَّ اللَّہَ لاَ یَجْمَعُ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ عَلَی ضَلاَلَۃٍ، قَالَ: فَأَعَادُوا عَلَیْہِ ، فَقَالَ: عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ وَالْجَمَاعَۃِ فَإِنَّمَا یَسْتَرِیحُ بَرٌّ ، أَوْ یُسْتَرَاحُ مِنْ فَاجِرٍ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০২৯
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٣٠) حضرت محمد بن عمارہ بن خزیمہ بن ثابت فرماتے ہیں کہ میرے والد جنگ صفین اور جنگ جمل میں ہتھیار سے دور رہے۔ لیکن جب حضرت عمار شہید ہوگئے تو انھوں نے اپنی تلوار نیام سے نکال لی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ پھر انھوں نے قتال کیا اور شہید ہوگئے۔
(۳۹۰۳۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَفْصٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَۃَ بْنِ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : مَا زَالَ جَدِّی کَافًّا سِلاَحَہُ یَوْمَ صِفِّینَ وَیَوْمَ الْجَمَلِ حَتَّی قُتِلَ عَمَّارٌ ، فَلَمَّا قُتِلَ سَلَّ سَیْفَہُ وَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ ، فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ۔ (طبرانی ۳۷۲۰)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩৯০৩০
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ جنگ صفین کا بیان
(٣٩٠٣١) حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔
(۳۹۰۳۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا وَرْقَائُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ زِیَادٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔ (احمد ۱۹۷۔ ابویعلی ۷۳۰۴)
tahqiq

তাহকীক: