মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)
الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار
کتاب الجمل - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৮৭ টি
হাদীস নং: ৩৮৯৫১
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٥٢) حضرت حمیر بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت علی سے جنگ جمل کے دن حضرت عمار نے عرض کیا کہ آپ کا قیدیوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا ہم نے صرف ان سے قتال کیا ہے جو ہم سے لڑائی کے لیے آئے (یعنی ہم قیدیوں کو غلام نہیں بنائیں گے) حضرت عمار نے عرض کیا اگر آپ اس کے خلاف کوئی بات کہتے تو ہم آپ کی مخالفت کرتے۔
(۳۸۹۵۲) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ خُمَیْرِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ عَمَّارٌ لِعَلِیٍّ یَوْمَ الْجَمَلِ: مَا تَرَی فِی سَبْیِ الذُّرِّیَّۃِ ، قَالَ ، فَقَالَ : إنَّمَا قَاتَلْنَا مَنْ قَاتَلْنَا ، قَالَ : لَوْ قُلْتَ غَیْرَ ہَذَا خَالَفْنَاک۔ (بیہقی ۱۸۱)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৫২
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٥٣) حضرت احنف بن قیس سے منقول ہے کہ ہم مدینے پہنچے ہمارا حج کرنے کا ارادہ تھا۔ اپنی منزل پر پہنچ کر ہم نے اپنے کجاوے رکھے کہ اچانک آنے والے نے کہا کہ لوگ مسجد میں پریشان حال جمع ہیں۔ پس میں مسجد پہنچا اور لوگوں کو وہاں جمع دیکھا۔ حضرت علی، زبیر، طلحہ اور سعد بن وقاص بھی وہاں موجود تھے۔ میں بھی اس طرح کھڑا ہوگیا کہ حضرت عثمان بھی تشریف لائے۔ کسی نے کہا یہ عثمان ہیں ان کے سر پر زرد رنگ کا کپڑا تھا جس سے انھوں نے سر ڈھانپا ہوا تھا فرمانے لگے یہ حضرت علی ہیں ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ پھر فرمایا یہ حضرت زبیر ہیں ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ پھر فرمایا یہ طلحہ ہیں لوگوں نے جواب دیا جی ہاں۔ پھر فرمایا یہ سعد ہیں لوگوں نے کہا جی ہاں۔ پھر فرمانے لگے میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ کیا تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا جو فلاں قبےلل کے باڑے کو خرید لے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائیں گے۔ پس میں نے اسے بیس یا پچیس ہزار درہم کے عوض خریدا اور حاضر خدمت ہو کر میں نے عرض کیا تھا کہ میں نے خرید لیا ہے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اس کو مسجد بنادو اور تمہارے لیے اجر ہے ؟ تو لوگوں نے کہا بالکل اسی طرح ہے۔ پھر حضرت عثمان نے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو ؟ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا جو بئر رومہ (کنواں) خرید لے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائیں گے۔ پھر میں نے اسے خریدا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ میں نے کنواں خرید لیا ہے۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اسے مسلمانوں کے لیے وقف کردو اس کا اجر اللہ تم کو دے گا۔ لوگوں نے کہا جی بالکل ایسے ہے۔ پھر حضرت عثمان نے لوگوں سے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ جانتے ہو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کچھ کے چہروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہ جو ان لوگوں کو سامان جنگ مہیاکرے گا (غزوہ تبوک میں) اللہ تعالیٰ اس کے مغفرت فرمائیں گے۔ پس میں نے ان لوگوں کو سامان جنگ دیا حتیٰ کہ لگام اور اونٹ باندھنے کی رسی تک میں نے مہیا کی ؟ لوگوں نے کہا جی بالکل ایسے ہے۔ حضرت عثمان نے تین دفعہ فرمایا اے اللہ تو گواہ رہنا۔ احنف کہتے ہیں کہ میں چلا اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ اب آپ مجھے کس چیز کا حکم دیتے ہیں ؟ اور میرے لیے (بیعت کے لیے) کس کو پسند کرتے ہو ؟ کیونکہ ان کو (حضرت عثمان ) شہید ہوتے دیکھ رہاہوں۔ دونوں نے جواب دیا ہم آپ کو حضرت علی سے بیعت کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ میں نے پھر عرض کیا آپ حضرت علی کے بارے میں حکم دے رہے ہیں اور آپ میرے لیے ان پر راضی ہیں دونوں نے جواب دیا ہاں۔
پھر میں حج کے لیے مکہ روانہ ہوا کہ اس دوران حضرت عثمان کی شہادت کی خبر پہنچی۔ مکہ میں حضرت عائشہ بھی قیام فرما تھیں۔ میں ان سے ملا اور ان سے عرض کیا کہ اب میں کن سے بیعت کروں انھوں نے بھی حضرت علی کا نام لیا۔ میں نے عرض کیا آپ مجھے علی سے بیعت کا حکم دے رہی ہیں اور آپ اس پر راضی ہیں انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے واپسی پر حضرت علی سے بیعت کی مدینہ میں۔ پھر میں بصرہ لوٹ آیا۔ پھر میں نے معاملے کو مضبوط ہوتے ہوئے ہی دیکھا۔ اسی اثناء میں ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا حضرت عائشہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر خریبہ مقام پر قیام فرماں ہیں۔ میں نے پوچھا وہ کیوں آئے ہیں ؟ تو اس نے جواب دیا وہ آپ سے مدد چاہتے ہیں حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے میں جو مظلوم شہید ہوئے ہیں۔ احنف نے فرمایا مجھ پر اس سے زیادہ پریشان کرنے والا معاملہ کبھی نہیں آیا۔ میرا ان سے (طلحہ زبیر ) جدا ہونا بڑا دشوار کن مرحلہ ہے جبکہ ان کے ساتھ ام المومنین اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ بھی ہیں۔ اور دوسری طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد سے قتال کرنا بھی چھوٹی بات نہیں جب کہ ان کی بیعت کا حکم وہ (طلحہ ، زبیر ، ام المومنین ) خود دے چکے ہیں۔ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ کہنے لگے کہ ہم حضرت عثمان کے خون کا بدلہ کے سلسلہ میں مدد لینے کے لیے آئے ہیں جو مظلوم قتل ہوئے ہیں۔ احنف کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے ام المومنین ! میں آپ کو الٰہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا علی کا میں نے پھر کہا تھا کہ آپ مجھے حضرت علی کے بارے میں حکم دیتی ہیں اور آپ میرے لیے ان پر خوش ہیں تو آپنے فرمایا تھا ہاں۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا بالکل ایسے ہی ہے لیکن اب علی بدل چکے ہیں۔ پھر یہی بات میں نے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو مخاطب کر کے کہی انھوں نے بھی اسی طرح اقرار کیا اور فرمایا اب حضرت علی بدل چکے ہیں۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں تم سے قتال نہیں کروں گا جب کہ تمہارے ساتھ ام المومنین بھی ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ بھی ہیں۔ اور حضرت علی سے بھی قتال نہیں کروں گا کیونکہ تم لوگوں نے خود ہی مجھے علی کی بیعت کا حکم دیا ہے۔ میرے لیے تین باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرلو یا تو میرے لیے باب جسر کھول دو تاکہ میں عجمیوں کے وطن چلا جاؤں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ کردے یا پھر مجھے مکہ جانے دیا جائے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہ فرما دیں یا پھر میں علیحدہ ہوجاتا ہوں اور قریب میں قیام کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا ہم مشورہ کرتے ہیں پھر تمہیں پیغام بھیجتے ہیں پس انھوں نے مشورہ کیا اور کہنے لگے کہ ہم اس کے لیے باب جسر کھول دیتے ہیں تو اس کے ساتھ منافق اور جدا ہونے والے مل جائیں گے اور پھر یہ مکہ چلا جائے گا اور ممکن ہے تمہارے بارے میں مکہ والوں کی رائے کو بدلے اور تمہاری خبریں ان کو بتلائیں لہٰذا یہ مضبوط رائے نہیں ہے۔ اس کو قریب ٹھہراؤ تاکہ معاملے پر تم غالب آجاؤ اور اس پر نگاہ بھی رکھو۔ پس وہ مقام جلعاء میں ٹھہرے جو بصرہ سے دو فرسخ پر ہے اس کے ساتھ چھ ہزار کا لشکر بھی علیحدہ ہوگیا۔
پھر لشکر کی مڈ بھیڑ ہوئی پس پہلے شہید طلحہ تھے اور کعب بن سور کے پاس قرآن کریم بھی تھا اور دونوں لشکروں کو نصیحت کر رہے تھے اسی دوران وہ بھی شہید ہوگئے حضرت زبیر بصرہ کے مقام سفوان پہنچ گئے جیسے تم سے مقام قادسیہ ہے۔ پس ان سے بنو مجاشع کا ایک شخص ملا اور کہنے لگا اے صحابی رسول آپ کہاں جا رہے ہیں۔ میں میری پناہ میں آجائیں آپ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ پس وہ اس کے ساتھ چل دئیے پھر احنف کے پاس ایک آدمی آیا اور حضرت زبیر کے بارے میں اطلاع دی تو وہ کہنے لگے ان کو کس نے امن دیا ہے انھوں نے تو مسلمانوں کو مد مقابل لا کھڑا کیا یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے دربانوں کو تلواروں سے مار رہے ہیں۔ اور اب خود وہ اپنے گھر اور اہل کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یہ بات عمیر بن جرموز اور غواۃ غواء بن تمیم (سے) فضالہ بن حابس اور نفیع نے سنی پس وہ ان کی طلب میں نکلے اور حضرت زبیر سے ملے جب کہ ان کے ساتھ وہ شخص بھی تھا جس نے ان کو پناہ دی تھی۔ پس ان کے پاس عمیر بن جرموز آیا اس حال میں کہ گھوڑے پر تھا۔ اس نے حضرت زبیر کو طعنہ دیا حضرت زبیر نے اس پر حملہ کردیا اس حال میں کہ آپ بھی گھوڑے پر تھے جس کا نام ذوالخمار تھا۔ جب عمیربن جرموزنے گمان کیا کہ حضرت زبیر اسے قتل کردیں گے تو اس نے اپنے دو ساتھیوں کو آواز دی اے نفیع اے فضالہ پس ان سب نے حضرت زبیر پر حملہ کیا اور انھیں شہید کردیا۔
پھر میں حج کے لیے مکہ روانہ ہوا کہ اس دوران حضرت عثمان کی شہادت کی خبر پہنچی۔ مکہ میں حضرت عائشہ بھی قیام فرما تھیں۔ میں ان سے ملا اور ان سے عرض کیا کہ اب میں کن سے بیعت کروں انھوں نے بھی حضرت علی کا نام لیا۔ میں نے عرض کیا آپ مجھے علی سے بیعت کا حکم دے رہی ہیں اور آپ اس پر راضی ہیں انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے واپسی پر حضرت علی سے بیعت کی مدینہ میں۔ پھر میں بصرہ لوٹ آیا۔ پھر میں نے معاملے کو مضبوط ہوتے ہوئے ہی دیکھا۔ اسی اثناء میں ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا حضرت عائشہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر خریبہ مقام پر قیام فرماں ہیں۔ میں نے پوچھا وہ کیوں آئے ہیں ؟ تو اس نے جواب دیا وہ آپ سے مدد چاہتے ہیں حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے میں جو مظلوم شہید ہوئے ہیں۔ احنف نے فرمایا مجھ پر اس سے زیادہ پریشان کرنے والا معاملہ کبھی نہیں آیا۔ میرا ان سے (طلحہ زبیر ) جدا ہونا بڑا دشوار کن مرحلہ ہے جبکہ ان کے ساتھ ام المومنین اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ بھی ہیں۔ اور دوسری طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد سے قتال کرنا بھی چھوٹی بات نہیں جب کہ ان کی بیعت کا حکم وہ (طلحہ ، زبیر ، ام المومنین ) خود دے چکے ہیں۔ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ کہنے لگے کہ ہم حضرت عثمان کے خون کا بدلہ کے سلسلہ میں مدد لینے کے لیے آئے ہیں جو مظلوم قتل ہوئے ہیں۔ احنف کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے ام المومنین ! میں آپ کو الٰہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا علی کا میں نے پھر کہا تھا کہ آپ مجھے حضرت علی کے بارے میں حکم دیتی ہیں اور آپ میرے لیے ان پر خوش ہیں تو آپنے فرمایا تھا ہاں۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا بالکل ایسے ہی ہے لیکن اب علی بدل چکے ہیں۔ پھر یہی بات میں نے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو مخاطب کر کے کہی انھوں نے بھی اسی طرح اقرار کیا اور فرمایا اب حضرت علی بدل چکے ہیں۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں تم سے قتال نہیں کروں گا جب کہ تمہارے ساتھ ام المومنین بھی ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ بھی ہیں۔ اور حضرت علی سے بھی قتال نہیں کروں گا کیونکہ تم لوگوں نے خود ہی مجھے علی کی بیعت کا حکم دیا ہے۔ میرے لیے تین باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرلو یا تو میرے لیے باب جسر کھول دو تاکہ میں عجمیوں کے وطن چلا جاؤں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ کردے یا پھر مجھے مکہ جانے دیا جائے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہ فرما دیں یا پھر میں علیحدہ ہوجاتا ہوں اور قریب میں قیام کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا ہم مشورہ کرتے ہیں پھر تمہیں پیغام بھیجتے ہیں پس انھوں نے مشورہ کیا اور کہنے لگے کہ ہم اس کے لیے باب جسر کھول دیتے ہیں تو اس کے ساتھ منافق اور جدا ہونے والے مل جائیں گے اور پھر یہ مکہ چلا جائے گا اور ممکن ہے تمہارے بارے میں مکہ والوں کی رائے کو بدلے اور تمہاری خبریں ان کو بتلائیں لہٰذا یہ مضبوط رائے نہیں ہے۔ اس کو قریب ٹھہراؤ تاکہ معاملے پر تم غالب آجاؤ اور اس پر نگاہ بھی رکھو۔ پس وہ مقام جلعاء میں ٹھہرے جو بصرہ سے دو فرسخ پر ہے اس کے ساتھ چھ ہزار کا لشکر بھی علیحدہ ہوگیا۔
پھر لشکر کی مڈ بھیڑ ہوئی پس پہلے شہید طلحہ تھے اور کعب بن سور کے پاس قرآن کریم بھی تھا اور دونوں لشکروں کو نصیحت کر رہے تھے اسی دوران وہ بھی شہید ہوگئے حضرت زبیر بصرہ کے مقام سفوان پہنچ گئے جیسے تم سے مقام قادسیہ ہے۔ پس ان سے بنو مجاشع کا ایک شخص ملا اور کہنے لگا اے صحابی رسول آپ کہاں جا رہے ہیں۔ میں میری پناہ میں آجائیں آپ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ پس وہ اس کے ساتھ چل دئیے پھر احنف کے پاس ایک آدمی آیا اور حضرت زبیر کے بارے میں اطلاع دی تو وہ کہنے لگے ان کو کس نے امن دیا ہے انھوں نے تو مسلمانوں کو مد مقابل لا کھڑا کیا یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے دربانوں کو تلواروں سے مار رہے ہیں۔ اور اب خود وہ اپنے گھر اور اہل کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یہ بات عمیر بن جرموز اور غواۃ غواء بن تمیم (سے) فضالہ بن حابس اور نفیع نے سنی پس وہ ان کی طلب میں نکلے اور حضرت زبیر سے ملے جب کہ ان کے ساتھ وہ شخص بھی تھا جس نے ان کو پناہ دی تھی۔ پس ان کے پاس عمیر بن جرموز آیا اس حال میں کہ گھوڑے پر تھا۔ اس نے حضرت زبیر کو طعنہ دیا حضرت زبیر نے اس پر حملہ کردیا اس حال میں کہ آپ بھی گھوڑے پر تھے جس کا نام ذوالخمار تھا۔ جب عمیربن جرموزنے گمان کیا کہ حضرت زبیر اسے قتل کردیں گے تو اس نے اپنے دو ساتھیوں کو آواز دی اے نفیع اے فضالہ پس ان سب نے حضرت زبیر پر حملہ کیا اور انھیں شہید کردیا۔
(۳۸۹۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ جَاوَانَ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ وَنَحْنُ نُرِیدُ الْحَجَّ ، فَإِنَّا لبِمَنَازِلِنَا نَضَعُ رِحَالَنَا إذْ أَتَانَا آتٍ ، فَقَالَ : إِنَّ النَّاسَ قَدْ فَزِعُوا وَاجْتَمَعُوا فِی الْمَسْجِد ، فَانْطَلَقْت فَإِذَا النَّاسُ مُجْتَمِعُونَ فِی الْمَسْجِد ، فَإِذَا عَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ وَطَلْحَۃُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، قَالَ : فَإِنَّا لَکَذَلِکَ إِذْ جَائَنَا عُثْمَان ، فَقِیلَ : ہَذَا عُثْمَان ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ مُلِیَّۃٌ لَہُ صَفْرَائُ ، قَدْ قَنَّعَ بِہَا رَأْسَہُ ، قَالَ : ہَاہُنَا عَلِیٌّ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : ہَاہُنَا الزُّبَیْرُ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : ہَاہُنَا طَلْحَۃُ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ ہَاہُنَا سَعْدٌ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ہَلْ تَعْلَمُونَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ یَبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِی فُلاَنٍ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، فَابْتَعْتُہُ بِعِشْرِینَ أَلْفًا ، أَوْ بِخَمْسَۃٍ وَعِشْرِینَ أَلْفًا ، فَأَتَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ لَہُ : ابْتَعْتہ ، قَالَ : اجْعَلْہُ فِی مَسْجِدِنَا وَلَک أَجْرُہُ ؟ فَقَالُوا: اللَّہُمَّ نَعَمْ ۔
۲۔ قَالَ : فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنِ ابْتَاعَ رُومَۃَ ، غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، فَابْتَعْتُہَا بِکَذَا وَکَذَا ، ثُمَّ أَتَیْتہ ، فَقُلْتُ : قَدِ ابْتَعْتہَا ، قَالَ : اجْعَلْہَا سِقَایَۃً لِلْمُسْلِمِینَ وَأَجْرُہَا لَکَ ، قَالُوا : اللَّہُمَّ نَعَمْ ۔
۳۔ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَظَرَ فِی وُجُوہِ الْقَوْمِ، فَقَالَ : مَنْ جَہَّزَ ہَؤُلاَئِ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، یَعْنِی جَیْشَ الْعُسْرَۃِ ، فَجَہَّزْتُہُمْ حَتَّی لَمْ یَفْقِدُوا خِطَامًا وَلاَ عقَالاً ، قَالَ : قَالُوا : اللَّہُمَّ نَعَمْ ، قَالَ : اللَّہُمَّ اشْہَدْ ثَلاَثًا۔
۴۔ قَالَ الأَحْنَفُ : فَانْطَلَقْت فَأَتَیْت طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ ، فَقُلْتُ : مَن تَأْمُرَانِی بِہِ وَمَنْ تَرْضَیَانِہِ لِی ، فَإِنِّی لاَ أَرَی ہَذَا إِلاَّ مَقْتُولاً ، قَالاَ : نَأْمُرُک بِعَلِیٍّ ، قَالَ : قُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ، قَالاَ : نَعَمْ ۔
۵۔ قَالَ : ثُمَّ انْطَلَقْت حَاجًّا حَتَّی قَدِمْت مَکَّۃَ فَبَیْنَا نَحْنُ بِہَا إذْ أَتَانَا قَتْلُ عُثْمَانَ وَبِہَا عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَلَقِیتُہَا ، فَقُلْتُ لَہَا: مَنْ تَأْمُرِینِی بِہِ أَنْ أُبَایِعَ ، فَقَالَتْ : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ أَتَأْمُرِینَنِی بِہِ وَتَرْضَیْنَہُ لِی ، قَالَتْ: نَعَمْ۔
۶۔ فَمَرَرْت عَلَی عَلِیٍّ بِالْمَدِینَۃِ فَبَایَعْتہ ، ثُمَّ رَجَعْت إِلَی أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، وَلاَ أَرَی إَلاَّ أَنَّ الأَمْرَ قَد اسْتَقَامَ ، قَالَ : فَبَیْنَا أَنَا کَذَلِکَ إذْ أَتَانِی آتٍ ، فَقَالَ : ہَذِہِ عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ قَدْ نَزَلُوا جَانِبَ الْخُرَیْبَۃِ ، قَالَ: قُلْتُ: مَا جَائَ بِہِمْ ؟ قَالَ : أُرْسِلُوا إلَیْک یَسْتَنْصِرُونک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ ، قُتِلَ مَظْلُومًا قَالَ : فَأَتَانِی أَفْظَعُ أَمْرٍ أَتَانِی قَطُّ ، فَقُلْتُ : إِنَّ خُذْلاَنِی ہَؤُلاَئِ وَمَعَہُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَشَدِیدٌ ، وَإِنَّ قِتَالِی ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ أَمَرُونِی بِبَیْعَتِہِ لَشَدِیدٌ ، فَلَمَّا أَتَیْتُہُمْ ، قَالُوا: جِئْنَا نَسْتَنْصِرُک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ، قُتِلَ مَظْلُومًا، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، أَنْشُدُک بِاللہِ، ہَلْ قُلْتُ لَکَ : مَنْ تَأْمُرِینِی بِہِ ، فَقُلْتُ : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضَیْنَہُ لِی قلت نعم ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ ۔
۷۔ قُلْتُ : یَا زُبَیْرُ ، یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا طَلْحَۃُ ، نَشَدْتُکُمَا بِاللہِ أَقَلْت لَکُمَا : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ فَقُلْتُمَا : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی فَقُلْتُمَا : نَعَمْ ، قَالاَ : بَلَی ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ ۔
۸۔ قَالَ : فَقُلْتُ : لاَ وَاللہِ لاَ أُقَاتِلُکُمْ وَمَعَکُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ أُقَاتِلُ ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرْتُمُونِی بِبَیْعَتِہِ ، اخْتَارُوا مِنِّی بَیْنَ إحْدَی ثَلاَثِ خِصَالٍ : إمَّا أَنْ تَفْتَحُوا لِی بَابَ الْجِسْرِ فَأَلْحَقَ بِأَرْضِ الأَعَاجِمِ ، حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَلْحَقَ بِمَکَّۃَ فَأَکُونَ بِہَا حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی، أَوْ أَعْتَزِلَ فَأَکُونَ قَرِیبًا، قَالُوا: نَأْتَمِرُ، ثُمَّ نُرْسِلُ إلَیْک، فَائْتَمَرُوا فَقَالُوا : نَفْتَحُ لَہُ بَابَ الْجِسْرِ فَیَلْحَقُ بِہِ المفارق وَالْخَاذِلُ ، أو یَلْحَقُ بِمَکَّۃَ فَیَتَعَجَّسُکُمْ فِی قُرَیْشٍ وَیُخْبِرُہُمْ بِأَخْبَارِکُمْ ، لَیْسَ ذَلِکَ بِأَمْرٍ اجْعَلُوہُ ہَاہُنَا قَرِیبًا حَیْثُ تَطَؤُونَ عَلَی صِمَاخِہِ ، وَتَنْظُرُونَ إلَیْہِ ۔
۹۔ فَاعْتَزَلَ بِالْجَلْحَائِ مِنَ الْبَصْرَۃِ عَلَی فَرْسَخَیْنِ ، وَاعْتَزَلَ مَعَہُ زُہَائُ سِتَّۃِ آلاَفٍ۔
۱۰۔ ثُمَّ الْتَقَی الْقَوْمُ ، فَکَانَ أَوَّلَ قَتِیلٍ طَلْحَۃُ وکعب ابْنُ سُورٍ وَمَعَہُ الْمُصْحَفُ ، یُذَکِّرُ ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ حَتَّی قُتِلَ بینہم ، وَبَلَغَ الزُّبَیْرُ سَفَوَانَ مِنَ الْبَصْرَۃِ کَمَکَانِ الْقَادِسِیَّۃِ مِنْکُمْ ، فَلَقِیَہُ النَّعِرُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی مُجَاشِعٍ ، قَالَ : أَیْنَ تَذْہَبُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ إلَیَّ فَأَنْتَ فِی ذِمَّتِی ، لاَ یُوصَلُ إلَیْک ، فَأَقْبَلَ مَعَہُ، قَالَ : فَأَتَی إنْسَانٌ الأَحْنَفَ ، قَالَ : ہَذَا الزُّبَیْرُ قَدْ لُقِیَ بِسَفَوَانَ ، قَالَ : فَمَا یَأْمَنُ جَمَعَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی ضَرَبَ بَعْضُہُمْ حَوَاجِبَ بَعْضٍ بِالسُّیُوفِ ، ثُمَّ لَحِقَ بِبَیْتِہِ وَأَہْلِہِ ، فَسَمِعَہُ عُمَیْرۃ بْنُ جُرْمُوزٍ وَغُوَاۃٌ مِنْ غُوَاۃِ بَنِی تَمِیمٍ ، وَفَضَالَۃُ بْنُ حَابِسٍ ، وَنُفَیْعٌ ، فَرَکِبُوا فِی طَلَبِہِ ، فَلَقُوا مَعَہُ النَّعِرَ ، فَأَتَاہُ عُمَیْر بْنُ جُرْمُوزٍ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ ضَعِیفَۃٍ ، فَطَعَنَہُ طَعَنَۃً خَفِیفَۃً ، وَحَمَلَ عَلَیْہِ الزُّبَیْرُ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ یُقَالُ ذُو الْخِمَارِ حَتَّی إِذَا ظَنَّ ، أَنَّہُ قَاتِلُہُ نَادَی صَاحِبَیْہِ : یَا نُفَیْعُ یَا فَضَالَۃُ ، فَحَمَلُوا عَلَیْہِ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
۲۔ قَالَ : فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنِ ابْتَاعَ رُومَۃَ ، غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، فَابْتَعْتُہَا بِکَذَا وَکَذَا ، ثُمَّ أَتَیْتہ ، فَقُلْتُ : قَدِ ابْتَعْتہَا ، قَالَ : اجْعَلْہَا سِقَایَۃً لِلْمُسْلِمِینَ وَأَجْرُہَا لَکَ ، قَالُوا : اللَّہُمَّ نَعَمْ ۔
۳۔ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَظَرَ فِی وُجُوہِ الْقَوْمِ، فَقَالَ : مَنْ جَہَّزَ ہَؤُلاَئِ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، یَعْنِی جَیْشَ الْعُسْرَۃِ ، فَجَہَّزْتُہُمْ حَتَّی لَمْ یَفْقِدُوا خِطَامًا وَلاَ عقَالاً ، قَالَ : قَالُوا : اللَّہُمَّ نَعَمْ ، قَالَ : اللَّہُمَّ اشْہَدْ ثَلاَثًا۔
۴۔ قَالَ الأَحْنَفُ : فَانْطَلَقْت فَأَتَیْت طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ ، فَقُلْتُ : مَن تَأْمُرَانِی بِہِ وَمَنْ تَرْضَیَانِہِ لِی ، فَإِنِّی لاَ أَرَی ہَذَا إِلاَّ مَقْتُولاً ، قَالاَ : نَأْمُرُک بِعَلِیٍّ ، قَالَ : قُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ، قَالاَ : نَعَمْ ۔
۵۔ قَالَ : ثُمَّ انْطَلَقْت حَاجًّا حَتَّی قَدِمْت مَکَّۃَ فَبَیْنَا نَحْنُ بِہَا إذْ أَتَانَا قَتْلُ عُثْمَانَ وَبِہَا عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَلَقِیتُہَا ، فَقُلْتُ لَہَا: مَنْ تَأْمُرِینِی بِہِ أَنْ أُبَایِعَ ، فَقَالَتْ : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ أَتَأْمُرِینَنِی بِہِ وَتَرْضَیْنَہُ لِی ، قَالَتْ: نَعَمْ۔
۶۔ فَمَرَرْت عَلَی عَلِیٍّ بِالْمَدِینَۃِ فَبَایَعْتہ ، ثُمَّ رَجَعْت إِلَی أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، وَلاَ أَرَی إَلاَّ أَنَّ الأَمْرَ قَد اسْتَقَامَ ، قَالَ : فَبَیْنَا أَنَا کَذَلِکَ إذْ أَتَانِی آتٍ ، فَقَالَ : ہَذِہِ عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ قَدْ نَزَلُوا جَانِبَ الْخُرَیْبَۃِ ، قَالَ: قُلْتُ: مَا جَائَ بِہِمْ ؟ قَالَ : أُرْسِلُوا إلَیْک یَسْتَنْصِرُونک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ ، قُتِلَ مَظْلُومًا قَالَ : فَأَتَانِی أَفْظَعُ أَمْرٍ أَتَانِی قَطُّ ، فَقُلْتُ : إِنَّ خُذْلاَنِی ہَؤُلاَئِ وَمَعَہُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَشَدِیدٌ ، وَإِنَّ قِتَالِی ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ أَمَرُونِی بِبَیْعَتِہِ لَشَدِیدٌ ، فَلَمَّا أَتَیْتُہُمْ ، قَالُوا: جِئْنَا نَسْتَنْصِرُک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ، قُتِلَ مَظْلُومًا، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، أَنْشُدُک بِاللہِ، ہَلْ قُلْتُ لَکَ : مَنْ تَأْمُرِینِی بِہِ ، فَقُلْتُ : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضَیْنَہُ لِی قلت نعم ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ ۔
۷۔ قُلْتُ : یَا زُبَیْرُ ، یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا طَلْحَۃُ ، نَشَدْتُکُمَا بِاللہِ أَقَلْت لَکُمَا : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ فَقُلْتُمَا : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی فَقُلْتُمَا : نَعَمْ ، قَالاَ : بَلَی ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ ۔
۸۔ قَالَ : فَقُلْتُ : لاَ وَاللہِ لاَ أُقَاتِلُکُمْ وَمَعَکُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ أُقَاتِلُ ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرْتُمُونِی بِبَیْعَتِہِ ، اخْتَارُوا مِنِّی بَیْنَ إحْدَی ثَلاَثِ خِصَالٍ : إمَّا أَنْ تَفْتَحُوا لِی بَابَ الْجِسْرِ فَأَلْحَقَ بِأَرْضِ الأَعَاجِمِ ، حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَلْحَقَ بِمَکَّۃَ فَأَکُونَ بِہَا حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی، أَوْ أَعْتَزِلَ فَأَکُونَ قَرِیبًا، قَالُوا: نَأْتَمِرُ، ثُمَّ نُرْسِلُ إلَیْک، فَائْتَمَرُوا فَقَالُوا : نَفْتَحُ لَہُ بَابَ الْجِسْرِ فَیَلْحَقُ بِہِ المفارق وَالْخَاذِلُ ، أو یَلْحَقُ بِمَکَّۃَ فَیَتَعَجَّسُکُمْ فِی قُرَیْشٍ وَیُخْبِرُہُمْ بِأَخْبَارِکُمْ ، لَیْسَ ذَلِکَ بِأَمْرٍ اجْعَلُوہُ ہَاہُنَا قَرِیبًا حَیْثُ تَطَؤُونَ عَلَی صِمَاخِہِ ، وَتَنْظُرُونَ إلَیْہِ ۔
۹۔ فَاعْتَزَلَ بِالْجَلْحَائِ مِنَ الْبَصْرَۃِ عَلَی فَرْسَخَیْنِ ، وَاعْتَزَلَ مَعَہُ زُہَائُ سِتَّۃِ آلاَفٍ۔
۱۰۔ ثُمَّ الْتَقَی الْقَوْمُ ، فَکَانَ أَوَّلَ قَتِیلٍ طَلْحَۃُ وکعب ابْنُ سُورٍ وَمَعَہُ الْمُصْحَفُ ، یُذَکِّرُ ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ حَتَّی قُتِلَ بینہم ، وَبَلَغَ الزُّبَیْرُ سَفَوَانَ مِنَ الْبَصْرَۃِ کَمَکَانِ الْقَادِسِیَّۃِ مِنْکُمْ ، فَلَقِیَہُ النَّعِرُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی مُجَاشِعٍ ، قَالَ : أَیْنَ تَذْہَبُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ إلَیَّ فَأَنْتَ فِی ذِمَّتِی ، لاَ یُوصَلُ إلَیْک ، فَأَقْبَلَ مَعَہُ، قَالَ : فَأَتَی إنْسَانٌ الأَحْنَفَ ، قَالَ : ہَذَا الزُّبَیْرُ قَدْ لُقِیَ بِسَفَوَانَ ، قَالَ : فَمَا یَأْمَنُ جَمَعَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی ضَرَبَ بَعْضُہُمْ حَوَاجِبَ بَعْضٍ بِالسُّیُوفِ ، ثُمَّ لَحِقَ بِبَیْتِہِ وَأَہْلِہِ ، فَسَمِعَہُ عُمَیْرۃ بْنُ جُرْمُوزٍ وَغُوَاۃٌ مِنْ غُوَاۃِ بَنِی تَمِیمٍ ، وَفَضَالَۃُ بْنُ حَابِسٍ ، وَنُفَیْعٌ ، فَرَکِبُوا فِی طَلَبِہِ ، فَلَقُوا مَعَہُ النَّعِرَ ، فَأَتَاہُ عُمَیْر بْنُ جُرْمُوزٍ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ ضَعِیفَۃٍ ، فَطَعَنَہُ طَعَنَۃً خَفِیفَۃً ، وَحَمَلَ عَلَیْہِ الزُّبَیْرُ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ یُقَالُ ذُو الْخِمَارِ حَتَّی إِذَا ظَنَّ ، أَنَّہُ قَاتِلُہُ نَادَی صَاحِبَیْہِ : یَا نُفَیْعُ یَا فَضَالَۃُ ، فَحَمَلُوا عَلَیْہِ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৫৩
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٥٤) طارق بن شباب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کو قتل کیا گیا میں نے دل میں سوچا کہ مجھے کس شئے نے عراق میں ٹھہرایا ہوا ہے حالانکہ جماعت تو مدینہ میں ہے مہاجرین اور انصار کے پاس کہتے ہیں میں نکلا مجھے خبر ملی کہ لوگوں نے حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے کہتے ہیں کہ میں ربذہ مقام پر پہنچا تو وہاں حضرت علی موجود تھے۔ ان کے لیے ایک شخص نے بیٹھنے کے لیے نشست رکھی۔ پس حضرت علی کھڑے ہونے کی حالت میں تھے۔ انھوں نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا کہ طلحہ اور زبیر نے بیعت خوشی خوشی کی تھی نہ کہ حالت اکراہ میں۔ اب چاہتے ہیں کہ وہ معاملے کو بگاڑ دیں اور مسلمانوں کی لاٹھی (جمعیت) کو توڑ ڈالیں، حضرت علی نے ان سے قتال کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارا۔ پھر حسن بن علی کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ عرب ان کے ساتھ جمع ہوجائیں گے اگر اس شخص (حضرت عثمان ) کو شہید کیا گیا۔ اگر آپ اپنے گھر میں رہتے یعنی مدینہ میں تو مجھے ڈر تھا کہ آپ کو بھی اسی لاپرواہی سے قتل کردیاجاتا اور آپ کا کوئی مدد گار نہ ہوتا۔ حضرت علی نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ تم ایسے گنگناتے ہو جیسے دوشیزہ گنگناتی ہے یا یہ فرمایا کہ تمہارے لیے ایسا گنگنا ہونا ہے جیسے دوشیزہ کے لیے گنگنا ہونا۔ اللہ کی قسم میں مدینہ میں اس بھیڑیے کی طرح بیٹھا تھا جو زمین پر پتھر گر نے کی آواز سن رہا ہو۔ پس میں نے اس معاملے کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کیا میں نے سوائے تلوار یا کفر کے کچھ نہیں پایا۔
(۳۸۹۵۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ، قَالَ: حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ زِیَادٍ، عَنْ أم الصَّیْرَفِیِّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ قَبِیصَۃَ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ : لَمَّا قُتِلَ عُثْمَان قُلْتُ : مَا یُقِیمُنِی بِالْعِرَاقِ ، وَإِنَّمَا الْجَمَاعَۃُ بِالْمَدِینَۃِ عِنْدَ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ، قَالَ: فَخَرَجْت فَأُخْبِرْت، أَنَّ النَّاسَ قَدْ بَایَعُوا عَلِیًّا، قَالَ: فَانْتَہَیْت إِلَی الرَّبَذَۃِ وَإِذَا عَلِیٌّ بِہَا، فَوُضِعَ لَہُ رَحْلٌ فَقَعَدَ عَلَیْہِ، فَکَانَ کَقِیَامِ الرَّجُلِ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ إِنَّ طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ قد بَایَعَا طَائِعَیْنِ غَیْرَ مُکْرَہَیْنِ، ثُمَّ أَرَادَا أَنْ یُفْسِدَا الأَمْرَ وَیَشقَّا عَصَا الْمُسْلِمِینَ ، وَحَرَّضَ عَلَی قِتَالِہِمْ، قَالَ: فَقَامَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّ الْعَرَبَ سَتَکُونُ لَہُمْ جَوْلَۃٌ عِنْدَ قَتْلِ ہَذَا الرَّجُلِ ، فَلَوْ أَقَمْت بِدَارِکَ الَّتِی کُنْتَ بِہَا ، یَعْنِیَ الْمَدِینَۃَ فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ تُقْتَلَ بِحَالِ مَضْیَعَۃٍ لاَ نَاصِرَ لَکَ ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : اجْلِسْ فَإِنَّمَا تَخِنُّ کما تخن الْجَارِیَۃُ ، أو إِنَّ لَکَ خَنِینًا کَخَنِینِ الْجَارِیَۃِ ، آللہِ أَجْلِسُ بِالْمَدِینَۃِ کَالضَّبُعِ تَسْتَمِعُ اللَّدْمَ ، لَقَدْ ضَرَبْت ہَذَا الأَمْرَ ظَہْرَہُ وَبَطْنَہُ ، أَوْ رَأْسَہُ وَعَیْنَیْہِ ، فَمَا وَجَدْت إِلاَّ السَّیْفَ ، أَوِ الْکُفْرَ۔ (حاکم ۱۱۵)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৫৪
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٥٥) سیف بن فلاں بن معاویہ عنزی اپنے ماموں اور وہ میرے نانا سے نقل کرتے ہیں کہ جب جنگ جمل کا دن آیا تو لوگ پریشان تھے۔ لوگ حضرت علی کی طرف کھڑے ہوتے اور مختلف چیزوں کا دعوی کرتے۔ جب آوازیں زیادہ ہوگئیں اور حضرت علی لوگوں کی آوازوں کو سمجھ نہ پائے تو فرمایا کیا کوئی ایسا شخص نہیں جو اپنی بات پانچ یا چھ کلمات میں سمیٹ دے۔ پس میں جلدی سے ایک ٹانگ پر کھڑا ہوا اور کہا کہ اگر میں اپنی بات سمیٹ نہ سکا تو قریب میں بیٹھ جاؤں گا پس میں نے کہا اے امیرالمومنین ! میرا کلام پانچ یا چھ لفظوں کا نہیں بلکہ صرف دو الفاظ کا ہے حملہ یا قصاص۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ سے تیس تک گنا۔ کہتے ہیں کہ حضرت علی نے میری طرف دیکھا اور جو تم نے گنا (شمار کیا) وہ میرے ان قدموں کے نیچے ہے۔
(۳۸۹۵۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی سَیْفُ بْنُ فُلاَنِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْعَنَزِیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی خَالِی ، عَنْ جَدِّی ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْجَمَلِ وَاضْطَرَبَ النَّاسُ ، قَامَ النَّاسُ إِلَی عَلِیٍّ یَدَّعُونَ أَشْیَائَ ، فَأَکْثَرُوا الْکَلاَمُ ، فَلَمْ یَفْہَمْ عَنْہُمْ ، فَقَالَ : أَلاَ رَجُلٌ یَجْمَعُ لِی کَلاَمُہُ فِی خَمْسِ کَلِمَاتٍ ، أَوْ سِتٍّ ، فَاحْتَفَزْت عَلَی إحْدَی رِجْلَی ، فَقُلْتُ : إِنْ أَعْجَبَہُ کَلاَمُی وَإِلاَّ لَجَلَسْت مِنْ قَرِیبٍ ، فَقُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّ الْکَلاَمُ لَیْسَ بِخَمْسٍ وَلاَ بِسِتٍّ ، وَلَکِنَّہُمَا کَلِمَتَانِ ، ہَضْمٌ ، أَوْ قِصَاصٌ ، قَالَ : فَنَظَرَ إلَیَّ فَعَقَدَ بِیَدِہِ ثَلاَثِینَ ، ثُمَّ قَالَ : أَرَأَیْتُمْ مَا عَدَدْتُمْ فَہُوَ تَحْتَ قَدَمِی ہَذِہِ۔ (عبدالرزاق ۱۸۵۸۶)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৫৫
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٥٦) ابو نضرہ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو سعید کے سامنے حضرت علی ، حضرت عثمان ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کا تذکرہ کیا گیا تو انھوں نے فرمایا وہ ایسی قومیں تھیں جن کے حالات مختلف تھے ان کے معاملے کو اللہ کی طرف لوٹا دو ۔
(۳۸۹۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، قَالَ : ذَکَرُوا عَلِیًّا وَعُثْمَانَ وَطَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ عِنْدَ أَبِی سَعِیدٍ ، فَقَالَ : أَقْوَامٌ سَبَقَتْ لَہُمْ سَوَابِقُ وَأَصَابَتْہُمْ فِتْنَۃٌ ، فَرُدُّوا أَمْرَہُمْ إِلَی اللہِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৫৬
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٥٧) حبیب بن ابو ثابت سے روایت ہے کہ حضرت علی جنگ جمل کے دن فرما رہے تھے ! اے اللہ میں نے اس کا ارادہ نہیں کیا تھا۔
(۳۸۹۵۷) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی حَبِیبُ بْنُ أَبِی ثَابِتٍ ، أَنَّ عَلِیًّا ، قَالَ یَوْمَ الْجَمَلِ : اللَّہُمَّ لَیْسَ ہَذَا أَرَدْت ، اللَّہُمَّ لَیْسَ ہَذَا أَرَدْت۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৫৭
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٥٨) قیس سے منقول ہے کہ مروان جنگ جمل کے دن حضرت طلحہ کے ساتھ تھا۔ جب جنگ چھڑ چکی تو مروان نے کہا میں آج کے بعد انتقام طلب نہیں کروں گا پھر ان کی طرف تیر پھینکا جو حضرت طلحہ کے گھٹنے میں لگا اور خون مسلسل بہتا رہا یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے حضرت طلحہ نے (شہادت سے پہلے) فرمایا اس زخم کو چھوڑ دو یہ وہ تیر ہے جسے اللہ نے بھیجا ہے۔
(۳۸۹۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانَ مَرْوَانُ مَعَ طَلْحَۃَ یَوْمَ الْجَمَلِ ، قَالَ : فَلَمَّا اشْتَبَکَتِ الْحَرْبُ ، قَالَ مَرْوَانُ : لاَ أَطْلُبُ بِثَأْرِی بَعْدَ الْیَوْمِ ، قَالَ : ثُمَّ رَمَاہُ بِسَہْمٍ فَأَصَابَ رُکْبَتَہُ ، فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتَّی مَاتَ ، قَالَ : وَقَالَ طَلْحَۃُ : دَعَوْہُ فَإِنَّمَا ہُوَ سَہْمٌ أَرْسَلَہُ اللَّہُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৫৮
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٥٩) حضرت سوار سے منقول ہے کہ موسیٰ بن طلحہ نے مجھے کسی ضرورت کے لیے اپنے پاس بلایا میں حاضر خدمت ہوا۔ میں ان کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی اثنا میں مسجد کے کچھ لوگ حضرت موسیٰ بن طلحہ کے پاس آئے اور کہا اے ابو عیسیٰ ہمیں ہماری رات کے اساری کے بارے میں بتائیے، حضرت سوار صبح کے وقت قتل کردئیے جائیں گے پس جب میں نے صبح کی نماز ادا کی تو ایک شخص دوڑتا ہوا آیا جو پکارتے ہوئے کہہ رہا تھا الا ساری الا ساری پھر ایک دوسرا شخص اس کے نقش قدم پر چلتا ہوا آیا وہ پکار رہا تھا موسیٰ بن طلحہ موسیٰ بن طلحہ حضرت سوار فرماتے ہیں کہ پس میں چلا اور امیر المومنین کے پاس آیا اور سلام کیا۔ امیر المومنین نے کہا کہ کیا تم نے بیعت کرلی ؟ جہاں لوگ داخل ہوئے تم داخل ہوگئے ہو ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ سوار فرماتے ہیں کہ اس طرح (ہاتھ پھیلائے ہوئے) امیر المومنین نے اپنے ہاتھ پھیلائے۔ پھر کہا تم نے بیعت کرلی پھر کہا تم اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹ جاؤ جب لوگوں نے مجھے نکلتے ہوئے دیکھا تو وہ داخل ہونا شروع ہوئے اور بیعت کرنے لگے۔
(۳۸۹۵۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَرْسَلَ إلَیَّ مُوسَی بْنُ طَلْحَۃَ فِی حَاجَۃٍ فَأَتَیْتہ ، قَالَ : فَبَیْنَا أَنَا عِنْدَہُ إذْ دَخَلَ عَلَیْہِ نَاسٌ مِنْ أَہْلِ الْمَسْجِد ، فَقَالُوا : یَا أَبَا عِیسَی ، حدثنا فِی الأُسَارَی لَیْلَتَنَا ، فَسَمِعْتہمْ یَقُولُونَ : أَمَّا مُوسَی بْنُ طَلْحَۃَ فَإِنَّہُ مَقْتُولٌ بُکْرَۃً ، فَلَمَّا صَلَّیْت الْغَدَاۃَ جَائَ رَجُلٌ یَسْعَی الأُسَارَی الأُسَارَی ، قَالَ : ثُمَّ جَائَ آخَرُ فِی أَثَرِہِ یَقُولُ : مُوسَی بْنُ طَلْحَۃَ ، مُوسَی بْنُ طَلْحَۃَ قَالَ : فَانْطَلَقْت ، فَدَخَلْتُ عَلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ فَسَلَّمْت ، فَقَالَ : أَتَبَایَعُ تَدْخُلُ فِیمَا دَخَلَ فِیہِ النَّاسُ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : ہَکَذَا ، وَمَدَّ یَدَہُ فَبَسَطَہُمَا قَالَ : فَبَایَعْتہ ، ثُمَّ قَالَ : ارْجِعْ إِلَی أَہْلِکَ وَمَالِکِ ، قَالَ : فَلَمَّا رَأَنی النَّاسَ قَدْ خَرَجْت ، قَالَ : جَعَلُوا یَدْخُلُونَ فَیُبَایِعُونَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৫৯
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦٠) حضرت سدی سے منقول ہے کہ ” تم اس فتنے سے ڈرو جو صرف ظلم کرنے والے پر نہیں آئے گا (القرآن) اس کا مصداق اصحاب جمل ہیں۔
(۳۸۹۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ، عَنِ السُّدِّیِّ {وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لاَ تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّۃً} ، قَالَ: أَصْحَابُ الْجَمَلِ۔ (طبرانی ۲۱۸)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬০
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦١) حضرت عوف فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے قول { وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لاَ تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّۃًْ } کے بارے میں کسی سے نہیں سنا مگر حسن سے فرماتے ہیں تھے کہ فلاں فلاں اس کا مصداق ہیں۔
(۳۸۹۶۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٍ ، عَنْ عَوْفٍ قَالَ : لاَ أَعْلَمُہُ إَلاَّ عَنِ الْحَسَنِ فِی قَوْلِہِ : {وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لاَ تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّۃًْ} ، قَالَ : فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬১
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦٢) حضرت جعفر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت علی کے سامنے اصحاب جمل کا ذکر کیا یہاں تک کہ کفر تک پہنچا دیا پس حضرت علی نے اس کو منع کیا۔
(۳۸۹۶۲) أَخْبَرَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَجُلاً ذَکَرَ عِنْدَ عَلِیٍّ أَصْحَابَ الْجَمَلِ حَتَّی ذَکَرَ الْکُفْرَ ، فَنَہَاہُ عَلِیٌّ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬২
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦٣) حریث بن مخشی سے منقول ہے کہ میں نے علیس کے دن سے زیادہ سخت دن نہیں دیکھا مگر جنگ جمل کا دن (کہ یہ اس بھی سخت تھا) ۔
(۳۸۹۶۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ حُرَیْثِ بْنِ مُخَشِّی ، قَالَ : مَا شَہِدْت یَوْمًا أَشَدَّ مِنْ یَوْمِ عُلَیْسٍ إِلاَّ یَوْمَ الْجَمَلِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬৩
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦٤) حضرت ابوبکر بن عمرو بن عتبہ سے منقول ہے کہ جنگ صفین اور جمل کے درمیان دو یا تین مہینے کا فرق تھا۔
(۳۸۹۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : کَانَ بَیْنَ صِفِّینَ وَالْجَمَلِ شَہْرَانِ ، أَوْ ثَلاَثَۃٌ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬৪
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦٥) ابو جعفر سے روایت ہے کہ جنگ جمل کے دن ام المومنین کی طرف سے حضرت علی نے ایک آواز سنی۔ حضرت علی لوگوں سے کہا دیکھو یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے دیکھ کر بتایا کہ حضرت عثمان کے قاتلین کو ملامت کر رہے ہیں۔ پھر حضرت علی نے فرمایا۔ اے اللہ حضرت عثمان کے قاتلوں کو ذلیل کر دے
(۳۸۹۶۵) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : سَمِعَ عَلِیٌّ یَوْمَ الْجَمَلِ صَوْتًا تِلْقَائَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَالَ : انْظُرُوا مَا یَقُولُونَ ، فَرَجَعُوا فَقَالُوا : یَہْتِفُونَ بِقَتَلَۃِ عُثْمَانَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ جَلِّلْ بِقَتَلَۃِ عُثْمَانَ خِزْیًا۔ (ابن عساکر ۴۵۷)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬৫
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦٦) علی بن عمروثقفی سے منقول ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں اس سفر سے رک جاتی مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرے لیے حارث بن ہشام جیسے دس بیٹے ہوتے۔
(۳۸۹۶۶) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَمْرٍو الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : لأَنْ أَکُونَ جَلَسْت عَنْ مَسِیرِی کَانَ أَحَبَّ إلَیَّ مِنْ أَنْ یَکُونَ لِی عَشَرَۃٌ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ وَلَدِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬৬
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦٧) سلیمان بن صرد سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میں جنگ جمل کے دن حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا ان کے پاس حضرت حسن اور ان کے بعض ساتھی بھی تھے حضرت علی نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا اے ابن صرد کمزور اور ڈھیلے پڑگئے اور پیچھے ٹھہر گئے۔ اللہ کے ساتھ تمہارا کیا معاملہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے بےنیاز کردیا میں نے کہا اے امیر المومنین معاملہ بڑا سخت ہوگیا۔ معاملات ایسے ہوگئے ہیں کہ آپ کے دوست اور دشمن میں امتیاز مشکل ہوچکا کہتے ہیں کہ جب حضرت حسن کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے عرض کیا آپ نے میری ذرا بھی حمایت نہیں کی اور نہ ہی میری طرف سے کوئی عذراسی شخص (حضرت علی ) کے پاس کیا ؟ حالانکہ میں اس بات کا متمنی تھا ان کے پاس میری گواہی ہے۔ حضرت حسن نے فرمایا انھوں نے (حضرت علی ) جو ملامت آپ پر کرنی تھی سو وہ کی۔ حالانکہ مجھے جنگ جمل کے دن فرمایا کہ لوگ ایک دوسرے کی طرف جا رہے ہیں اے حسن تیری ماں تجھے گم کرے ! تیرا میرے اس معاملے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ دونوں لشکر آمنے سامنے ہیں اللہ کی قسم میں اس کے بعد خیر نہیں دیکھتا۔ میں نے کہا آپ خاموش ہوجائیے آپ کے ساتھی نہ سن لیں پس کہنے لگیں کہ تو نے معاملہ مشکوک کردیا اور تجھے قتل کردیں۔
(۳۸۹۶۷) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ نُضَیْلَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ صُرَدٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ عَلِیًّا یَوْمَ الْجَمَلِ ، وَعِنْدَہُ الْحَسَنُ وَبَعْضُ أَصْحَابِہِ ، فَقَالَ عَلِیٌّ حِینَ رَآنِی : یَا ابْنَ صُرَدٍ ، تَنَأْنَأْت وَتَزَحْزَحْتَ وَتَرَبَّصْت ، کَیْفَ تَرَی اللَّہَ صَنَعَ ، قَدْ أَغْنَی اللَّہُ عَنْک ، قُلْتُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّ الشَّوْطَ بَطِینُ وَقَدْ بَقِیَ مِنَ الأُمُورِ مَا تَعْرِفُ فِیہَا عَدُوَّک مِنْ صِدِّیقِکَ ، قَالَ: فَلَمَّا قَامَ الْحَسَنُ لَقِیتہ ، فَقُلْتُ: مَا أَرَاک أَغْنَیْت عَنِّی شَیْئًا وَلاَ عَذَرْتنِی عِنْدَ الرَّجُلِ، وَقَدْ کُنْت حَرِیصًا عَلَی أَنْ تَشْہَدَ مَعَہُ، قَالَ: ہَذَا یَلُومُک عَلَی مَا یَلُومُک ، وَقَدْ قَالَ لِی یَوْمَ الْجَمَلِ: حین مَشَی النَّاسُ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ : یَا حَسَنُ ثَکِلَتْک أُمُّک ، أَوْ ہَبِلَتْک أُمُّک مَا ظَنُّک بِأَمْرِی جَمَعَ بَیْنَ ہَذَیْنِ الْغَارَّیْنِ ، وَاللہِ مَا أَرَی بَعْدَ ہَذَا خَیْرًا ، قَالَ : فَقُلْتُ : اُسْکُتْ ، لاَ یَسْمَعُک أَصْحَابُک ، فَیَقُولُوا : شَکَکْت ، فَیَقْتُلُونَک۔ (نعیم بن حماد ۲۰۷)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬৭
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦٨) حضرت حسن سے منقول ہے کہ ایک آدمی زبیر کے پاس آیا اور عرض کیا میں آپ کے لیے حضرت علی کو قتل کردوں۔ حضرت زبیر نے فرمایا وہ کیسے ؟ اس نے جواب دیا میں اس کے پاس جا کر کہوں گا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں پھر میں انھیں دھوکے سے قتل کر ڈالوں گا۔ حضرت زبیر نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایمان دھوکے کو روکنے والا ہے اور مومن کبھی دھوکا نہیں دیتا۔
(۳۸۹۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی الزُّبَیْرِ یَوْمَ الْجَمَلِ ، فَقَالَ : أَقْتُلُ لَکَ عَلِیًّا ، قَالَ : وَکَیْفَ ، قَالَ : آتِیہِ فَأُخْبِرُہُ أَنِّی مَعَہُ ، ثُمَّ أَفْتِکُ بِہِ ، فَقَالَ الزُّبَیْرُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنَّ الإِیمَانُ قَیْدُ الْفَتْک ، لاَ یَفْتِکُ مُؤْمِنٌ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬৮
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٦٩) عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ جنگ جمل کے دن حضرت زبیر کھڑے تھے انھوں نے مجھے بلایا میں ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا۔ پھر فرمانے لگے کہ ظالم ہو کر یا مظلوم ہو کر قتل کردیا جاؤنگا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میں آج مظلوم قتل کردیا جاؤں گا مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرض کی ہے۔ کیا تو میرے قرض سے کوئی مال زائد دیکھتا ہے ؟ پھر فرمایا اے میرے بیٹے میرے مال و جائیداد کو بیچ کر میرا دین ادا کردینا۔ میں تمہارے لیے ایک تہائی کی وصیت کرتا ہوں اور دو ثلث اپنے بیٹوں کے لیے ہے۔ قرضہ ادا کرنے کے بعد اگر کوئی مال بچے تو ایک تہائی تیرے بیٹے کے لیے ہے۔
عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر نے مجھے دین کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بیٹے اگر تو کہیں عاجز آجائے تو میرے مولا سے مدد طلب کرلینا، عبداللہ ابن زبیر فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نہ سمجھا کہ مولا سے کیا مراد ہے یہاں تک کہ میں نے عرض کیا آپ کے مولا کون ہیں تو انھوں نے فرمایا اللہ ! وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم جب بھی مجھے قرض ادا کرنے میں مشکل پیش آئی تو میں نے دعا کی اے زبیر کے مولا اس کا قرض ادا فرما دے پس اللہ تعالیٰ نے قرض ادا کرنے میں مدد کی کہتے ہیں کہ حضرت زبیر شہید ہوئے تو ان کے ورثے میں کوئی درہم و دینار نہیں تھا سوائے زمینوں کے۔ ان زمینوں میں سے کچھ باغات تھے، گیارہ گھر مدینہ میں تھے، دو گھر بصرہ میں، ایک گھر کوفہ میں اور ایک گھر مصر میں۔ یہ قرض ان پر ایسے ہوا تھا کہ جب کوئی شخص ان کے پاس امانت رکھنے کے لیے آیا تو حضرت زبیر فرماتے یہ امانت نہیں بلکہ آپ کا میرے پاس قرض ہے، کیونکہ میں ڈرتا ہوں اس کے ضائع ہونے سے۔ وہ کبھی کسی شہر کے والی نہیں بنے، نہ ٹیکس اور خراج کے والی بنے اور نہ کسی اور شئے کے والی بنے سوائے اس کے کہ وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ غزوات میں رہے۔
عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر نے مجھے دین کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بیٹے اگر تو کہیں عاجز آجائے تو میرے مولا سے مدد طلب کرلینا، عبداللہ ابن زبیر فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نہ سمجھا کہ مولا سے کیا مراد ہے یہاں تک کہ میں نے عرض کیا آپ کے مولا کون ہیں تو انھوں نے فرمایا اللہ ! وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم جب بھی مجھے قرض ادا کرنے میں مشکل پیش آئی تو میں نے دعا کی اے زبیر کے مولا اس کا قرض ادا فرما دے پس اللہ تعالیٰ نے قرض ادا کرنے میں مدد کی کہتے ہیں کہ حضرت زبیر شہید ہوئے تو ان کے ورثے میں کوئی درہم و دینار نہیں تھا سوائے زمینوں کے۔ ان زمینوں میں سے کچھ باغات تھے، گیارہ گھر مدینہ میں تھے، دو گھر بصرہ میں، ایک گھر کوفہ میں اور ایک گھر مصر میں۔ یہ قرض ان پر ایسے ہوا تھا کہ جب کوئی شخص ان کے پاس امانت رکھنے کے لیے آیا تو حضرت زبیر فرماتے یہ امانت نہیں بلکہ آپ کا میرے پاس قرض ہے، کیونکہ میں ڈرتا ہوں اس کے ضائع ہونے سے۔ وہ کبھی کسی شہر کے والی نہیں بنے، نہ ٹیکس اور خراج کے والی بنے اور نہ کسی اور شئے کے والی بنے سوائے اس کے کہ وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ غزوات میں رہے۔
(۳۸۹۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : لَمَّا وَقَفَ الزُّبَیْرُ یَوْمَ الْجَمَلِ دَعَانِی فَقُمْت إِلَی جَنْبِہِ ، فَقَالَ : إِنَّہُ لاَ یُقْتَلُ إِلاَّ ظَالِمٌ ، أَوْ مَظْلُومٌ ، وَإِنِّی لاَ أُرَانِی سَأُقْتَلُ الْیَوْمَ مَظْلُومًا ، وَإِنَّ أَکْبَرَ ہَمِّی لَدَیْنِی ، أَفَتَرَی دَیْنَنَا یُبْقِی مِنْ مَالِنَا شَیْئًا ، ثُمَّ قَالَ : یَا بُنَی ، بِعْ مَالَنَا وَاقْضِ دَیْنَنَا ، وَأُوصِیک بِالثُّلُثِ وَثُلُثَیْہِ لِبَنِیہِ فَإِنْ فَضَلَ شَیْئٌ مِنْ مَالِنَا بَعْدَ قَضَائِ الدَّیْنِ فَثُلُثُہُ لِوَلَدِکَ ، قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ : فَجَعَلَ یُوصِینِی بِدَیْنِہِ وَیَقُولُ : یَا بُنَی ، إِنْ عَجَزْت ، عَنْ شَیْئٍ
مِنْہُ ؛ فَاسْتَعِنْ عَلَیْہِ مَوْلاَیَ ، قَالَ : فَوَاللہِ مَا دَرَیْت مَا أَرَادَ حَتَّی قُلْتُ : یَا أَبَتِ ، مَنْ مَوْلاَک ، قَالَ : اللَّہُ ، قَالَ: فوَاللہِ مَا وَقَعْت فِی کُرْبَۃٍ مِنْ دَیْنِہِ إِلاَّ قُلْتُ : یَا مَوْلَی الزُّبَیْرِ ، اقْضِ عَنْہُ دَیْنَہُ ، فَیَقْضِیہِ ، قَالَ : وَقُتِلَ الزُّبَیْرُ فَلَمْ یَدَعْ دِینَارًا وَلاَ دِرْہَمًا إِلاَّ أَرْضِینَ مِنْہَا الْغَابَۃُ وَإِحْدَی عَشْرَۃَ دَارًا بِالْمَدِینَۃِ ، وَدَارَیْنِ بِالْبَصْرَۃِ ، وَدَارًا بِالْکُوفَۃِ ، وَدَارًا بِمِصْرَ ، قَالَ : وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِی کَانَ عَلَیْہِ ، أَنَّ الرَّجُلَ کَانَ یَأْتِیہِ بِالْمَالِ فَیَسْتَوْدِعُہُ إیَّاہُ ، فَیَقُولُ الزُّبَیْرُ : لاَ وَلَکِنَّہُ سَلَفٌ ، إنِّی أَخْشَی عَلَیْہِ ضَیْعَۃً ، وَمَا وَلِیَ وِلاَیَۃً قَطُّ وَلاَ جِبَایَۃً وَلاَ خَرَاجًا وَلاَ شَیْئًا إِلاَّ أَنْ یَکُونَ فِی غَزْوٍ مَعَ النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَوْ مَعَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ۔
مِنْہُ ؛ فَاسْتَعِنْ عَلَیْہِ مَوْلاَیَ ، قَالَ : فَوَاللہِ مَا دَرَیْت مَا أَرَادَ حَتَّی قُلْتُ : یَا أَبَتِ ، مَنْ مَوْلاَک ، قَالَ : اللَّہُ ، قَالَ: فوَاللہِ مَا وَقَعْت فِی کُرْبَۃٍ مِنْ دَیْنِہِ إِلاَّ قُلْتُ : یَا مَوْلَی الزُّبَیْرِ ، اقْضِ عَنْہُ دَیْنَہُ ، فَیَقْضِیہِ ، قَالَ : وَقُتِلَ الزُّبَیْرُ فَلَمْ یَدَعْ دِینَارًا وَلاَ دِرْہَمًا إِلاَّ أَرْضِینَ مِنْہَا الْغَابَۃُ وَإِحْدَی عَشْرَۃَ دَارًا بِالْمَدِینَۃِ ، وَدَارَیْنِ بِالْبَصْرَۃِ ، وَدَارًا بِالْکُوفَۃِ ، وَدَارًا بِمِصْرَ ، قَالَ : وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِی کَانَ عَلَیْہِ ، أَنَّ الرَّجُلَ کَانَ یَأْتِیہِ بِالْمَالِ فَیَسْتَوْدِعُہُ إیَّاہُ ، فَیَقُولُ الزُّبَیْرُ : لاَ وَلَکِنَّہُ سَلَفٌ ، إنِّی أَخْشَی عَلَیْہِ ضَیْعَۃً ، وَمَا وَلِیَ وِلاَیَۃً قَطُّ وَلاَ جِبَایَۃً وَلاَ خَرَاجًا وَلاَ شَیْئًا إِلاَّ أَنْ یَکُونَ فِی غَزْوٍ مَعَ النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَوْ مَعَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৬৯
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٧٠) حضرت اسود سے روایت ہے کہ زبیر بن عوام جب بصرہ تشریف لائے بیت المال میں داخل ہوئے وہاں سونے چاندی کے ڈھیر تھے پھر فرمایا ” وعدہ کیا تم سے اللہ نے بہت غنیمتوں کا کہ تم ان کو لوگے، سو جلدی پہنچا دی تم کو یہ غنیمت “ (الفتح ٢١) اور ایک فتح اور جو تمہارے بس میں نہیں تھی وہ اللہ کے قابو میں ہے۔ پھر فرمایا یہ ہمارے لیے ہے۔
(۳۸۹۷۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ أَبِی حَرْبِ بْنِ أبی الأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ لَمَّا قَدِمَ الْبَصْرَۃَ دَخَلَ بَیْتَ الْمَالِ ، فَإِذَا ہُوَ بِصَفْرَائَ وَبَیْضَائَ ، فَقَالَ : یَقُولُ اللہ : {وَعَدَکُمَ اللَّہُ مَغَانِمَ کَثِیرَۃً تَأْخُذُونَہَا فَعَجَّلَ لَکُمْ ہَذِہِ} {وَأُخْرَی لَمْ تَقْدِرُوا عَلَیْہَا قَدْ أَحَاطَ اللَّہُ بِہَا} فَقَالَ : ہَذَا لَنَا۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮৯৭০
کتاب الجمل
পরিচ্ছেদঃ فِی مسِیرِ عائِشۃ وعلِیٍّ وطلحۃ والزّبیرِ رضی اللہ عنہم
(٣٨٩٧١) حضرت جعفر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ بصرہ (کی لڑائی) کے دن حضرت علی نے منادیوں کو یہ ندا لگانے کا حکم دیا کہ کوئی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرے، کوئی زخمی کو قتل نہ کرے۔ کوئی قیدی کو قتل نہ کرے، جو اپنے دروازے بند کرلے اسے امن ہے، جو اپنا ہتھیار ڈال دے اسے بھی امن حاصل ہے اور ان کے سامان سے کوئی شئے نہ لی جائے۔
(۳۸۹۷۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَمَرَ عَلِیٌّ مُنَادِیَہُ فَنَادَی یَوْمَ الْبَصْرَۃِ : لاَ یُتْبَعُ مُدْبِرٌ وَلاَ یُذَفَّفُ عَلَی جَرِیحٍ ، وَلاَ یُقْتَلُ أَسِیرٌ ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابًا آمِنَ ، وَمَنْ أَلْقَی سِلاَحَہُ فَہُوَ آمِنٌ ، وَلَمْ یَأْخُذْ مِنْ مَتَاعِہِمْ شَیْئًا۔ (بیہقی ۱۸۱)
তাহকীক: