মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)

الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار

فضائل کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৯০০ টি

হাদীস নং: ৩২৩৯৫
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٩٦) مغیث بن سمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھ پر نئی توراۃ نازل ہوئی ہے جس میں حکمت کا نور اور علم کے سرچشمے ہیں، تاکہ اس سے اللہ اندھی آنکھوں اور بند دلوں اور بہرے کانوں کو کھول دیں، اور وہ رحمن کی سب سے آخری کتاب ہے۔
(۳۲۳۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ مُغِیثِ بْنِ سُمَیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُنْزِلَتْ عَلَیَّ تَوْرَاۃٌ مُحْدَثَۃٌ ، فِیہَا نُورُ الْحِکْمَۃِ وَیَنَابِیعُ الْعِلْمِ ، لِتُفْتَحَ بِہَا أَعْیُنًا عُمْیًا ، وَقُلُوبًا غُلْفًا وَآذَانًا صُمًّا ، وَہِیَ أَحْدَثُ الْکُتُبِ بِالرَّحْمَان۔ (دارمی ۳۳۲۷)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৩৯৬
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٩٧) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو اللہ نے فرمایا کہ تمہارے لیے ستر ہزار ہیں، جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے، میں نے کہا اے میرے رب ! اور اضافہ فرمائیے ! فرمایا کہ تمہارے لیے ہر ستر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہیں ، میں نے کہا اور اضافہ فرمائیے ، فرمایا کہ تمہارے لیے اتنے اور اتنے اور اتنے ہیں، ابوبکر نے عرض کیا کہ ہمیں کافی ہے، حضرت عمر نے فرمایا کہ اے ابوبکر ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ دیجئے، حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ اے عمر ! ہم تو اللہ کی ایک ہی لپ ہیں۔
(۳۲۳۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَأَلْتُ الشَّفَاعَۃَ لأُمَّتِی ، فَقَالَ : لَک سَبْعُونَ أَلْفًا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ، قُلْتُ : زِدْنِی ، قَالَ : لَک مَعَ کُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا ، قُلْتُ : زِدْنِی ، قَالَ : فَإِنَّ لَک ہَکَذَا وَہَکَذَا وَہَکَذَا ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : حَسْبُنَا ، فَقَالَ عُمَرُ : یَا أَبَا بَکْرٍ ، دَعْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : یَا عُمَرُ ، إنَّمَا نَحْنُ حَفْنَۃٌ مِنْ حَفَنَاتِ اللہِ۔ (ترمذی ۲۴۳۷۔ احمد ۲۵۰)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৩৯৭
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٩٨) عبد الرحمن بن ابی عقیل فرماتے ہیں کہ ہم ایک وفد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، ہم میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنے رب سے سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت جیسی سلطنت کا سوال نہیں کیا ؟ آپ ہنسے اور فرمایا شاید تمہارا ساتھی اللہ کے ہاں سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت سے افضل ہو، بیشک اللہ نے جس نبی کو مبعوث فرمایا اس کو ایک دعا عطا فرمائی، بعض نے دنیا کو اختیار کیا تو اللہ نے ان کو عطا فرما دی، اور بعض نے اپنی قوم کی نافرنی کے وقت اس کو اپنی قوم کی بد دعا میں استعمال کیا، چنانچہ وہ ہلاک کردیے گئے، اور اللہ نے مجھے دعا عطا فرمائی تو میں نے اس کو اپنے رب کے ہاں اپنی امت کی شفاعت کے لیے ذخیرہ کرلیا۔
(۳۲۳۹۸) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ یَزِیدُ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَوْنُ بْنُ أَبِی جُحَیْفَۃَ السُّوَائِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَقِیلٍ ، قَالَ : انْطَلَقْنَا فِی وَفْدٍ فَأَتَیْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنَّا : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَلاَ سَأَلْت رَبَّک مُلْکًا کَمُلْکِ سُلَیْمَانَ ، فَضَحِکَ وَقَالَ : لَعَلَّ لِصَاحِبِکُمْ عِنْدَ اللہِ أَفْضَلَ مِنْ مُلْکِ سُلَیْمَانَ ، إنَّ اللَّہَ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیًّا إلاَّ أَعْطَاہُ دَعْوَۃً ، فَمِنْہُمْ مَنِ اتَّخَذَ بِہَا دُنْیَا فَأُعْطِیَہَا ، وَمِنْہُمْ مَنْ دَعَا بِہَا عَلَی قَوْمِہِ إذْ عَصَوْہُ فَأُہْلِکُوا ، وَإِنَّ اللَّہَ أَعْطَانِی دَعْوَۃً فَاخْتَبَأْتُہَا عِنْدَ رَبِّی شَفَاعَۃً لأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৩৯৮
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٣٩٩) حضرت رفاعہ جہنی سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لوٹے تو آپ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار کو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل فرمائیں گے۔
(۳۲۳۹۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ أَبِی مَیْمُونَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ رِفَاعَۃَ الْجُہَنِیِّ ، قَالَ : صدَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : لَقَدْ وَعَدَنِی رَبِّی أَنْ یُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِی الْجَنَّۃَ سَبْعِینَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلاَ عَذَابٍ۔ (طیالسی ۱۲۹۱۔ احمد ۱۶)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৩৯৯
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠٠) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے، اور وہ میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچنے والی ہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔
(۳۲۴۰۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الْمَلِکِ ، قَالَ سَمِعْت أَبَا جَعْفَرٍ یُحَدِّثُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أُعْطِیتُ الشَّفَاعَۃَ وَہِیَ نَائِلَۃٌ مَنْ لَمْ یُشْرِکْ بِاللہِ شَیْئًا۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০০
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠١) حضرت ابی ّ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابی ّ ! میرے رب نے مجھ پر وحی فرمائی کہ قرآن کو ایک حرف پر پڑھو، میں نے عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرمائیے، اللہ نے فرمایا کہ قرآن کو سات حروف پر پڑھو اور ہر مرتبہ کے بدلے تمہارے لیے ایک دعا ہے جس کا آپ مجھ سے سوال کریں، آپ نے فرمایا اے اللہ ! میری امت کی مغفرت فرما، اے اللہ میری امت کی مغفرت فرما، اور میں نے تیسری دعا اس دن کے لیے مؤخر کردی ہے جس میں مخلوق میری طرف رغبت کرے گی یہاں تک کہ ابراہیم (علیہ السلام) بھی۔
(۳۲۴۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عِیسَی ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہُ : یَا أُبَی ، إنَّ رَبِّی أَرْسَلَ إلَیَّ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ عَلَی حَرْفٍ ، فَرَدَدْت إلَیْہِ أَنْ ہَوِّنْ عَلَی أُمَّتِی ، فَرَدَّ إلَیَّ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ ، وَلَک بِکُلِّ رَدَّۃٍ رَدَدْتُکَہَا مَسْأَلَۃٌ تَسْأَلُنِیہَا ، قَالَ : قُلْتُ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأُمَّتِی ، اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأُمَّتِی ، وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَۃَ إلَی یَوْمٍ یَرْغَبُ إلَیَّ فِیہِ الْخَلْقُ حَتَّی إبْرَاہِیمُ۔ (مسلم ۵۶۲۔ احمد ۱۲۷)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০১
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠٢) صلہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا جائے گا، ان کی نظر تیز ہوگی، اور ان کو پکارنے والے کی پکار سنائی دے گی، چنانچہ ایک پکارنے والا پکارے گا اولین و آخرین کے سامنے، کہ اے محمد ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے لبیک وسعدیک ، تمام بھلائیاں آپ کے ہاتھ میں ہیں، ہدایت یافتہ وہ ہے جس کو آپ ہدایت عطا فرمائیں، آپ برکت اور بلندی والے ہیں، اور آپ ہی کی طرف سے ملتا ہے اور آپ ہی کی طرف پہنچتا ہے، آپ سے پناہ اور نجات کی جگہ نہیں مگر آپ کی طرف، آپ پاک ہیں، بیت اللہ کے مالک ہیں، اے ہمارے رب آپ بابرکت اور بلند ہیں، حذیفہ فرماتے ہیں کہ یہی مقام محمود ہے۔
(۳۲۴۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ صِلَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : یُجْمَعُ النَّاسُ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ یَنْفُذُہُمُ الْبَصَرُ وَیُسْمِعُہُمُ الدَّاعِی فَیُنَادِی مُنَادٍ : یَا مُحَمَّدُ ، عَلَی رُؤُوسِ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ ، فَیَقُولُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ ، وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْک ، الْمَہْدِیُّ مَنْ ہَدَیْت ، تَبَارَکْت وَتَعَالَیْت ، وَمِنْک وَإِلَیْک ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا إلاَّ إلَیْک ، سُبْحَانَک رَبَّ الْبَیْتِ ، تَبَارَکْت رَبَّنَا وَتَعَالَیْت ، قَالَ حُذَیْفَۃُ : فَذَلِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ۔ (نسائی ۱۱۲۹۴۔ طیالسی ۴۱۴)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০২
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠٣) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کے فرمان { عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا } کی تفسیر نقل کرتے ہیں کہ اس سے مراد شفاعت ہے۔
(۳۲۴۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ دَاوُدَ الأَوْدِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِہِ : {عَسَی أَنْ یَبْعَثَک رَبُّک مَقَامًا مَحْمُودًا} ، قَالَ : الشَّفَاعَۃُ۔ (ترمذی ۳۱۳۷۔ احمد ۴۴۱)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০৩
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠٤) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بیٹے کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائی، اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے اس بیٹے کو جنون ہے، اور اس کو دو پہر اور شام کے وقت پر طاری ہوتا ہے، اور یہ بری حرکات کرتا ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی ، اس نے قے کی تو اس کے پیٹ سے سیاہ بڑے چوہے کی شکل کا ایک جاندار نکلا۔
(۳۲۴۰۴) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ امْرَأَۃً جَائَتْ بِابْنٍ لَہَا إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ إنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ جُنُونٌ یَأْخُذُہُ عِنْدَ غَدَائِنَا وَعَشَائِنَا ، فَیَخْبُثُ ، قَالَ : فَمَسَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدْرَہُ وَدَعَا ، فَثَعَّ ثَعَّۃً ، خَرَجَ مِنْ جَوْفِہِ مِثْلُ الْجِرْوِ الأَسْوَدِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০৪
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠٥) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شہتیر سے ٹیک لگا کو خطبہ دیا کرتے تھے، جب آپ نے منبر بنوا لیا تو اس کی طرف منتقل ہوگئے، چنانچہ وہ شہتیر رونے لگا یہاں تک کہ آپ نے اس کو پکڑ کر گلے لگا لیا تو اس کو سکون ہوگیا، تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں اس کو گلے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔
(۳۲۴۰۵) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدِ وَعَفَّانُ ، قَالاَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَن عَمَّارِ بْنِ أَبِی عَمَّارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَخْطُبُ إلَی جِذْعٍ ، فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إلَیْہِ ، فَحَنَّ الْجِذْعُ حَتَّی أَخَذَہُ فَاحْتَضَنَہُ فَسَکَنَ ، فَقَالَ : لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْہُ لَحَنَّ إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۲۶۶۔ دارمی ۳۹)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০৫
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠٦) ابو حازم فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت سہل بن سعد کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منبر کس چیز کا تھا ؟ فرمانے لگے کہ مجھ سے زیادہ اس کو جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا، فرمایا کہ وہ جنگل کے جھاؤ کے درخت کا تھا، اور اس کو فلاں عورت کے آزاد کردہ غلام فلاں شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تیار کیا تھا ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے ایک شہتیر سے ٹیک لگاتے اور جب خطبہ دیتے تو اس کے بعد اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے، جب منبر تیار ہوا اور آپ اس پر بیٹھ گئے تو وہ شہتیر رونے لگا، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور اس کو زمین میں ٹھہرایا یہاں تک کہ اس کو سکون ہوگیا، اور ابو حازم کی روایت میں ” فوطدہ “ کے الفاظ نہیں ہیں۔ “
(۳۲۴۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ أَتَوْا سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ فَقَالُوا : مِنْ أَیِّ شَیْئٍ مِنْبَرُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : مَا بَقِیَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّی ، قَالَ : ہُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَۃِ ، وَعَمِلَہُ فُلاَنٌ - مَوْلَی فُلاَنَۃَ - لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَنِدُ إلَی جِذْعٍ فِی الْمَسْجِدِ یُصَلِّی إِلَیْہِ إذَا خَطَبَ ، فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ فَقَعَدَ عَلَیْہِ حَنَّ الْجِذْعُ ، قَالَ : فَأَتَاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَطَّدَہُ ، - وَلَیْسَ فِی حَدِیثِ أَبِی حَازِمٍ : فوطدہ - حَتَّی سَکَنَ۔ (بخاری ۴۴۸۔ مسلم ۳۸۷)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০৬
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠٧) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، چنانچہ ایک انصاری عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! میرا ایک بڑھئی غلام ہے کیا میں اس کو حکم نہ دوں کہ آپ کے لیے منبر بنائے ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں، چنانچہ اس نے منبر بنایا ، جب جمعے کا دن ہوا تو آپ نے منبر پر خطبہ دیا، چنانچہ وہ شہتیر رونے لگا جس سے آپ ٹیک لگاتے تھے جیسے بچہ روتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کو اس لیے رونا آگیا کہ اس کے پاس سے ذکر ختم ہوگیا۔
(۳۲۴۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إلَی جِذْعِ نَخْلَۃٍ ، فَقَالَتْ لَہُ امْرَأَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ لِی غُلاَمًا نَجَّارًا ، أَفَلاَ آمُرُہُ یَصْنَعُ لَک مِنْبَرًا ؟ قَالَ : بَلَی ، فَاتَّخَذَ مِنْبَرًا ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ خَطَبَ عَلَی الْمِنْبَرِ ، قَالَ : فَأَنَّ الْجِذْعُ الَّذِی کَانَ یَقُومُ عَلَیْہِ کَمَا یَإن الصَّبِیِّ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ ہَذَا بَکَی لِمَا فَقَدَ مِنَ الذِّکْرِ۔

(بخاری ۴۴۹۔ احمد ۳۰۰)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০৭
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠٨) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شہتیر سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، چنانچہ ایک رومی شخص آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا کیا میں آپ کے لیے ایک منبر بناؤں جس پر کھڑے ہو کر آپ خطبہ دیں ؟ چنانچہ اس نے آپ کے لیے یہ منبر بنایا جو آپ دیکھ رہے ہو، جب آپ اس پر کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا تو وہ اس طرح رونے لگا جس طرح اونٹنی اپنے بچے پر روتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتر کر اس کے پاس آئے اور اس کو اپنے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہوگیا، پھر آپ نے اس کو ایک جگہ کھود کر دفن کرنے کا حکم فرمایا۔
(۳۲۴۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ أَبِی الْوَدَّاکِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إلَی جِذْعٍ ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ رُومِیٌّ ، فَقَالَ : أَصْنَعُ لَک مِنْبَرًا تَخْطُبُ عَلَیْہِ ، فَصَنَعَ لَہُ مِنْبَرَہُ ہَذَا الَّذِی تَرَوْنَ ، فَلَمَّا قَامَ عَلَیْہِ فَخَطَبَ حَنَّ الْجِذْعُ حُنَیْنَ النَّاقَۃِ عَلَی وَلَدِہَا ، فَنَزَلَ إلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَضَمَّہُ إلَیْہِ ، فَسَکَنَ ، فَأَمَرَ بِہِ أَنْ یُدْفَنَ ، وَیُحْفَرَ لَہُ۔ (دارمی ۳۷۔ ابویعلی ۱۰۶۲)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০৮
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤٠٩) حضرت انس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ابن عباس کی گزشتہ روایت کی طرح روایت کرتے ہیں۔
(۳۲۴۰۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَ حَدِیثِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْمَاضِی۔ (ابن ماجہ ۱۴۱۵۔ احمد ۲۴۹)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪০৯
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤١٠) حضرت عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ٹھہرے ، چنانچہ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی سواری کے اگلے پاؤں پر سرہانہ لگا لیا، میں رات کے کسی حصّے میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کے سامنے کوئی نہیں، چنانچہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے نکلا تو معاذ بن جبل اور عبداللہ بن قیس کھڑے تھے، میں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں ہیں ؟ کہنے لگے کہ ہمیں اس کے علاوہ کوئی علم نہیں کہ ہم نے وادی کے اوپر کی جانب سے ایک آواز سنی تو سنا کہ پن چکّی جیسی آواز آرہی تھی، چنانچہ ہم تھوڑا ہی چلے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے، اور فرمایا کہ آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے مجھے میری امت کے نصف لوگوں کے جنت میں داخل ہونے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا اور میں نے شفاعت کو اختیار کیا ہے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کو اللہ کا اور آپ کی صحبت کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنے اہل شفاعت میں سے کر دیجئے، آپ نے فرمایا تم میری شفاعت کے حصّہ داروں میں ہو، کہتے ہیں کہ ہم تیزی سے لوگوں کے پاس آئے تو وہ گھبرائے ہوئے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کر رہے تھے، آپ نے فرمایا کہ آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے مجھے میری امت کے نصف لوگوں کے جنت میں داخل کیے جانے اور میری شفاعت کے درمیان اختیار دیا، اور میں نے شفاعت کو اختیار کیا ہے، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کو اللہ کا اور آپ کی صحبت کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنے اہل شفاعت میں کر دیجئے، آپ نے فرمایا کہ میں تمام حاضرین کو گواہ بناتا ہوں کہ میری شفاعت میری امت کے ہر اس شخص کے لیے ہوگی جو اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہوگا۔
(۳۲۴۱۰) حَدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ عَمْرٍو الْکَلْبِیُّ وَمَالِکَ بن إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ ، قَالَ : عَرَّسَ بِنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، فَافْتَرَشَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا ذِرَاعَ رَاحِلَتِہِ فَانْتَبَہْت بَعْضَ اللَّیْلِ فَإِذَا نَاقَۃُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ قُدَّامَہَا أَحَد، فَانْطَلَقْت أَطْلُبُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ قَیْسٍ قَائِمَانِ ، قَالَ : قُلْتُ أَیْنَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالاَ : لاَ نَدْرِی ، غَیْرَ أَنَّا سَمِعْنَا صَوْتًا فِی أَعْلَی الْوَادِی ، فَإذا مِثْلُ ہَزِیرِ الرَّحَی ، فَلَمْ نَلْبَثْ إلاَّ یَسِیرًا حَتَّی أَتَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّہُ أَتَانِی اللَّیْلَۃَ آتٍ مِنْ رَبِّی فَخَیَّرَنِی أَنْ یُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِی الْجَنَّۃَ وَبَیْنَ الشَّفَاعَۃِ ، وَإِنِّی اخْتَرْت الشَّفَاعَۃَ ، قَالَ : فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللہِ ، نَنْشُدُک اللَّہَ وَالصُّحْبَۃَ لَمَا جَعَلْتَنَا مِنْ أَہْلِ شَفَاعَتِکَ ، قَالَ : فَأَنْتُمْ مِنْ أَہْلِ شَفَاعَتِی ، قَالَ : فَأَقْبَلْنَا مَعَانِیقَ إلَی النَّاسِ ، قَالَ : فَإِذَا ہُمْ قَدْ فَزِعُوا وَفَقَدُوا نَبِیَّہُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّہُ أَتَانِی اللَّیْلَۃَ آتٍ مِنْ رَبِّی فَخَیَّرَنِی بَیْنَ أَنْ یُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِی الْجَنَّۃَ وَبَیْنَ الشَّفَاعَۃِ ، وَإِنِّی اخْتَرْت الشَّفَاعَۃَ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، نَنْشُدُک اللَّہَ وَالصُّحْبَۃَ ، لَمَا جَعَلْتَنَا مِنْ أَہْلِ شَفَاعَتِکَ ، فَلَمَّا أَضَبُّوا عَلَیْہِ ، قَالَ : فَإِنِّی أُشْہِدُ مَنْ حَضَرَ أَنَّ شَفَاعَتِی لِمَنْ مَاتَ مِنْأُمَّتِی لاَ یُشْرِکُ بِاللہِ شَیْئًا۔ (ابن خزیمۃ ۳۸۷)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪১০
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤١١) حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گزرے جبکہ میں اپنے اونٹ کو ہانک رہا تھا اور سب لوگوں سے پیچھے تھا اور میرا اونٹ لنگڑا یا بیمار تھا، آپ نے فرمایا اس کو کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! لنگڑا یا بیمار ہے، آپ نے ایک چیز لی جو آپ کے ہاتھ میں تھی، اور اس کو مارا ، پھر فرمایا سوار ہو جاؤ، چنانچہ میں اس کو روکتا تھا تاکہ لوگ مجھ تک پہنچ جائیں۔
(۳۲۴۱۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَرَّ بِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَسُوقُ بَعِیرًا لِی وَأَنَا فِی آخِرِ النَّاسِ وَہُوَ یَظْلَع ، أَوْ قَدَ اعْتَلَّ ، قَالَ : مَا شَأْنُہُ ؟ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ : یَظْلَع ، أَوْ قَدَ اعْتَلَّ ، فَأَخَذَ شَیْئًا کَانَ فِی یَدِہِ فَضَرَبَہُ ، ثُمَّ قَالَ : ارْکَبْ ، فَلَقَدْ کُنْت أَحْبِسُہُ حَتَّی یَلْحَقُونِی۔ (مسلم ۱۲۲۲۔ نسائی ۶۲۳۵)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪১১
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤١٢) حضرت یعلی بن مرّہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تین نشانیاں دیکھی ہیں جو نہ مجھ سے پہلے کسی نے دیکھیں نہ میرے بعد کوئی دیکھے گا، میں آپ کے ساتھ ایک سفر میں نکلا یہاں تک کہ ہم راستے میں ایک عورت کے پاس سے گزرے جس کے ساتھ ایک بچہ تھا، اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے اس بیٹے کو ایک مصیبت آئی ہے، آپ نے فرمایا مجھے دو ، اس نے بچہ آپ کو دیا، آپ نے اس کو اپنے اور کجاوے کے درمیانی حصّے کے درمیان رکھ لیا، پھر آپ نے اس کا منہ کھولا اور اس میں تین مرتبہ ” بِسْمِ اللہِ أَنَا عَبْدُ اللہِ اخْسَأْ عَدُوَّ اللہِ “ کہہ کر پھونکا ، پھر وہ بچہ اس کو دے دیا، اور فرمایا کہ واپسی میں ہمیں اسی جگہ ملنا ، اور بتانا کہ کیا ہوا، کہتے ہیں کہ ہم گئے اور پھر لوٹے اور اس عورت کو اس جگہ دیکھا ، اس کے پاس بہت سی بکریاں تھیں، آپ نے فرمایا تمہارے بچے کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم کو اس کے بارے میں ابھی تک کچھ محسوس نہیں ہوا، آپ نے یہ بکریاں لے لیں آپ نے فرمایا اترو اور ایک بکری لے لو اور باقی واپس کردو۔

کہتے ہیں کہ ایک دن میں آپ کے ساتھ میدان کی طرف نکلا یہاں تک کہ جب ہم دور نکل گئے تو آپ نے فرمایا دیکھو کیا تم کوئی چیز دیکھتے ہو جو مجھے چھپالے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! مجھے آپ کو چھپانے والی کوئی چیز نظر نہیں آرہی سوائے ایک درخت کے جو آپ کو چھپا نہیں سکتا، آپ نے فرمایا اس کے قریب کوئی چیز نہیں ؟ میں نے عرض کیا اس کے پیچھے ایک درخت ہے جو اتنا ہی ہے یا اس کے قریب ہے، آپ نے فرمایا ان دونوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اللہ کے رسول تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم بحکم خدا کٹھے ہو جاؤ، کہتے ہیں کہ وہ دونوں درخت اکٹھے ہوگئے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی حاجت کے لیے تشریف لے گئے، پھر لوٹ آئے اور فرمایا کہ ان کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم دونوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک اپنی جگہ لوٹ جائے۔

کہتے ہیں کہ ایک دن میں آپ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک اونٹ روتا ہوا آیا، اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا، پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھو یہ کس کا اونٹ ہے ؟ اس کی بری حالت ہے، کہتے ہیں کہ میں اس کے مالک کو ڈھونڈنے نکلا تو وہ اونٹ انصار میں سے ایک آدمی کا پایا، میں نے اس کو آپ کے پاس بلایا ، آپ نے فرمایا کہ تمہارے اس اونٹ کا کیا قصّہ ہے ؟ اس نے بخدا میں نہیں جانتا کہ اس کی کیا حالت ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ ہم نے اس پر کام کیا اور پانی اٹھوایا، یہاں تک کہ یہ پانی اٹھانے سے عاجز ہوگیا پھر شام کو ہمارا مشورہ ہوا کہ اس کو ذبح کردیں اور اس کا گوشت تقسیم کردیں، آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو یہ مجھے ہبہ کردو یا بیچ دو ، اس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ آپ کا ہے، آپ نے اس پر صدقہ کا نشان لگایا اور پھر اس کو بھیج دیا۔
(۳۲۴۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَان بْنُ حَکِیمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا مَا رَآہَا أَحَدٌ قَبْلِی ، وَلاَ یَرَاہَا أَحَدٌ مِنْ بَعْدِی : لَقَدْ خَرَجْت مَعَہُ فِی سَفَرٍ حَتَّی إذَا کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ مَرَرْنَا بِامْرَأَۃٍ جَالِسَۃٍ مَعَہَا صَبِیٌّ ، قَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ابْنِی ہَذَا أَصَابَہُ بَلاَئٌ، وَأَصَابَنَا مِنْہُ بَلاَئٌ ، یُؤْخَذُ فِی الْیَوْمِ لاَ أَدْرِی کَمْ مَرَّۃً ، قَالَ : نَاوِلِینِیہِ ، فَرَفَعَتْہُ إلَیْہِ ، فَجَعَلَہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ وَاسِطَۃِ الرَّحْلِ ، ثُمَّ فَغَرَ فَاہُ فَنَفَثَ فِیہِ ثَلاَثًا بِسْمِ اللہِ أَنَا عَبْدُ اللہِ اخْسَأْ عَدُوَّ اللہِ ، قَالَ : ثُمَّ نَاوَلَہَا إیَّاہُ ، ثُمَّ قَالَ : الْقَیْنَا بِہِ فِی الرَّجْعَۃِ فِی ہَذَا الْمَکَانِ ، فَأَخْبِرِینَا بِمَا فَعَلَ، قَالَ : فَذَہَبْنَا وَرَجَعْنَا ، فَوَجَدْنَاہَا فِی ذَلِکَ الْمَکَانِ مَعَہَا شِیَاہٌ ثَلاَثٌ ، فَقَالَ : مَا فَعَلَ صَبِیُّک ؟ قَالَتْ : وَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِ مَا أَحْسَسْنَا مِنْہُ شَیْئًا حَتَّی السَّاعَۃِ فَاجْتَزِر ہَذِہِ الْغَنَمَ ، قَالَ : انْزِلْ فَخُذْ مِنْہَا وَاحِدَۃً وَرُدَّ الْبَقِیَّۃَ۔

قَالَ: وَخَرَجْت مَعَہُ ذَاتَ یَوْمٍ إلَی الْجَبَّانَۃِ ، حَتَّی إذَا بَرَزْنَا قَالَ : اُنْظُرْ وَیْحَک ، ہَلْ تَرَی مِنْ شَیْئٍ یُوَارِینِی؟ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا أَرَی شَیْئًا یُوَارِیک إلاَّ شَجَرَۃً مَا أَرَاہَا تُوَارِیک ، قَالَ : مَا قُرْبُہَا شَیْئٌ ؟ قُلْتُ : شَجَرَۃٌ خَلْفَہَا ، وَہِیَ مِثْلُہَا أَوْ قَرِیبٌ مِنْہَا ، قَالَ : اذْہَبْ إلَیْہِمَا فَقُلْ لَہُمَا إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا بِإِذْنِ اللہِ تَعَالَی ، قَالَ : فَاجْتَمَعَتَا فَبَرَزَ لِحَاجَتِہِ ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ : اذْہَبْ إلَیْہِمَا فَقُلْ لَہُمَا : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَرْجِعَ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْکُمَا إلَی مَکَانِہَا۔

قَالَ : وَکُنْت جَالِسًا مَعَہُ ذَاتَ یَوْمٍ إذْ جَائَ جَمَلٌ یَخِبُّ حَتَّی ضَرَبَ بِجِرَانِہِ بَیْنَ یَدَیْہِ ، ثُمَّ ذَرَفَتْ عَیْنَاہُ ، فَقَالَ : اُنْظُرْ وَیْحَک لِمَنْ ہَذَا الْجَمَلُ ؟ إنَّ لَہُ لَشَأْنًا ، فَخَرَجْت أَلْتَمِسُ صَاحِبَہُ فَوَجَدْتُہُ لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَدَعَوْتُہُ إلَیْہِ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُ جَمَلِکَ ہَذَا ؟ قَالَ : وَمَا شَأْنُہُ ؟ قَالَ : لاَ أَدْرِی وَاللہِ مَا شَأْنُہُ ، عَمِلْنَا عَلَیْہِ وَنَضَحْنَا عَلَیْہِ حَتَّی عَجَزَ عَنِ السِّقَایَۃِ ، فَائْتَمَرْنَا الْبَارِحَۃَ أَنْ نَنْحَرَہُ وَنُقَسِّمَ لَحْمَہُ ، قَالَ : فَلاَ تَفْعَلْ ، ہَبْہُ لِی، أَوْ بِعْنِیہِ ، قَالَ : ہُوَ لَک یَا رَسُولَ اللہِ ، فَوَسَمَہُ سِمَۃِ الصَّدَقَۃِ ، ثُمَّ بَعَثَ بِہِ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪১২
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤١٣) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلا ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضائے حاجت کے لیے نہ جاتے یہاں تک کہ اتنی دور چلے جائیں کہ نظر نہ آئیں، چنانچہ ہم ایک چٹیل میدان میں اترے جس میں کوئی درخت یا ٹیلہ نہیں تھا، آپ نے فرمایا اے جابر ! اپنے برتن میں پانی ڈالو، پھر ہمارے ساتھ چلو، کہتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم نظر نہیں آ رہے تھے ، وہاں آپ کو دو درخت نظر آئے جن کے درمیان چار ہاتھ کا فاصلہ تھا، آپ نے فرمایا اے جابر ! اس درخت کے پاس جاؤ اور اس کے کہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے ساتھ والے درخت کے ساتھ مل جاؤ تاکہ میں تمہارے پیچھے بیٹھ سکوں، چنانچہ وہ درخت دوسرے سے مل گیا ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پیچھے بیٹھ گئے، پھر وہ اپنی جگہ واپس چلے گئے۔

(٢) پھر ہم سوار ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تھے، گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے سایہ فگن ہیں، چنانچہ ہمارا ایک عورت سے سامنا ہوا جس کے ساتھ اس کا بچہ تھا، اس نے کہا یا رسول اللہ 5! میرے اس بیٹے کو ہر روز کئی مرتبہ شیطان پکڑ لیتا ہے، آپ اس کے لیے ٹھہرے اور بچے کو لیا اور اس کو اپنے اور کجاوے کے اگلے حصّے کے درمیان رکھا، پھر فرمایا اے اللہ کے دشمن ! دفع ہوجا، میں اللہ کا رسول ہوں، تین مرتبہ اس طرح فرمایا، پھر بچہ عورت کو دے دیا، جب ہم اس سفر سے واپس ہوئے تو ہم اس جگہ سے گزرے وہ عورت ہمارے سامنے آئی اور اس کے پاس دو مینڈھے تھے جن کو وہ ہانک رہی تھی، اس نے عرض کی یا رسول اللہ مجھ سے یہ قبول کر لیجیے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے وہ اس کے پاس دوبارہ نہیں آیا ، آپ نے فرمایا اس سے ایک لے لو اور دوسرا واپس کردو۔

(٣) فرماتے ہیں کہ پھر ہم چلے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تھے، اس طرح تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے سایہ فگن ہیں، اچانک ایک اونٹ دو قطاروں کے درمیان بھاگتا ہوا آیا اور سجدے میں گرگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے اور فرمایا کہ اے لوگو ! کون اس اونٹ کا مالک ہے ؟ معلوم ہوا کہ انصار کے چند جوان ہیں، کہنے لگے یا رسول اللہ ! یہ ہمارا ہے، آپ نے فرمایا کہ اس کی کیا حالت ہے ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم نے بیس سال اس سے پانی لگوایا ہے، اور اس میں کچھ چربی ہے اس لیے ہم اس کو ذبح کرنا چاہتے ہیں اور اپنے غلاموں میں اس کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں ، لیکن یہ ہم سے چھوٹ گیا، آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس کو بیچتے ہو ؟ وہ کہنے لگے نہیں، بلکہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آپ کو ہدیہ ہے، آپ نے فرمایا کہ اگر بیچنا نہیں چاہتے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو یہاں تک کہ اس کی موت آجائے۔
(۳۲۴۱۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُاللہِ بْنُ مُوسَی، قَالَ: أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِالْمَلِکِ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَرَجْت مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، وَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَأْتِی الْبَرَازَ حَتَّی یَتَغَیَّبَ فَلاَ یُرَی ، فَنَزَلْنَا بِفَلاَۃٍ مِنَ الأَرْضِ لَیْسَ فِیہَا شَجَرَۃٌ وَلاَ عَلَمٌ، فَقَالَ: یَا جَابِرُ اجْعَلْ فِی إِدَاوَتِکَ مَائ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِنَا ، قَالَ : فَانْطَلَقْنَا حَتَّی لاَ نُرَی فَإِذَا ہُوَ بِشَجَرَتَیْنِ بینہما أَرْبَعَۃ أَذْرعْ ، فَقَالَ : یَا جَابِر انْطَلِقْ إلَی ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ فَقُلْ لَہَا : یَقُولُ لَک رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْحَقِی بِصَاحِبَتِکَ حَتَّی أَجْلِسَ خَلْفَکُمَا ، فَرَجَعَتْ إلَیْہَا فَجَلَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَلْفَہُمَا ، ثُمَّ رَجَعَتَا إلَی مَکَانِہِمَا۔

فَرَکِبْنَا وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بَیْنَنَا کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِنَا الطَّیْرُ تُظِلُّنَا ، فَعَرَضَتْ لَنَا امْرَأَۃٌ مَعَہَا صَبِیٌّ لَہَا، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللہِ، إنَّ ابْنِی ہَذَا یَأْخُذُہُ الشَّیْطَانُ کُلَّ یَوْمٍ مِرَارًا، فَوَقَفَ بِہَا، ثُمَّ تَنَاوَلَ الصَّبِیَّ فَجَعَلَہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ مُقَدَّمِ الرَّحْلِ ، ثُمَّ قَالَ : اخْسَأْ عَدُوَّ اللہِ ، أَنَا رَسُولُ اللہِ ثَلاَثًا ، ثُمَّ دَفَعَہُ إلَیْہَا ، فَلَمَّا قَضَیْنَا سَفَرَنَا مَرَرْنَا بِذَلِکَ الْمَوْضِعِ فَعَرَضَتْ لَنَا الْمَرْأَۃُ مَعَہَا صَبِیُّہَا وَمَعَہَا کَبْشَانِ تَسُوقُہُمَا، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللہِ، اقْبَلْ مِنِّی ہَذَیْن، فَوَالَّذِی بَعَثَک بِالْحَقِ مَا عَادَ إلَیْہِ بَعْدُ، فَقَالَ: خُذُوا مِنْہَا أَحَدَہُمَا، وَرُدُّوا عَلَیْہَا الآخَرَ۔

قَالَ : ثُمَّ سِرْنَا وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَنَا کَأَنَّمَا عَلَی رُؤُوسِنَا الطَّیْرُ تُظِلُّنَا ، فَإِذَا جَمَلٌ نَادٌّ حَتَّی إذَا کَانَ بَیْنَ السِّمَاطَیْنِ خَرَّ سَاجِدًا ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ: عَلَیَّ النَّاسَ، مَنْ صَاحِبُ ہَذَا الْجَمَلِ ؟ فَإِذَا فِتْیَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ ، قَالُوا : ہُوَ لَنَا یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : فَمَا شَأْنُہُ ؟ قَالُوا: سَنَیْنَا عَلَیْہِ مُنْذُ عِشْرِینَ سَنَۃً ، وَکَانَتْ بِہِ شُحَیْمَۃٌ ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْحَرَہُ ، فَنَقْسِمُہُ بَیْنَ غِلْمَانِنَا ، فَانْفَلَتَ مِنَّا ، قَالَ : تَبِیعُونَہُ ، قَالُوا : لاَ ، بَلْ ہُوَ لَک یَا رَسُولَ اللہِ ، قَالَ : إمَّا لاَ فَأَحْسِنُوا إلَیْہِ حَتَّی یَأْتِیَہُ أَجَلُہُ۔
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪১৩
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤١٤) حضرت امّ جندب فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے یوم النحر کو بطن الوادی سے جمرۃ العقبۃ کی رمی کی، جبکہ آپ سواری پر تھے، پھر آپ مڑے اور قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پیچھے ہوئی، اس کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی تھا جس پر اثر تھا، کہنے لگی یا رسول اللہ ! یہ میرا بیٹا اور میرا وارث ہے، اور اس کو ایک اثر ہے جس کی وجہ سے بولتا نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے پاس تھوڑا پانی لاؤ، آپ کے پاس پانی لایا گیا تو آپ نے اپنے ہاتھ دھوئے اور کلی کی اور اس کو پانی دے دیا، اور فرمایا کہ اس کو اس سے پلاؤ اور اس پر اس سے چھڑکو، اور اللہ سے اس کے لیے شفاء مانگو ، کہتی ہیں کہ میں ایک عورت سے ملی اور اس سے کہا کہ اگر تھوڑا سا پانی اس میں سے مجھے دے دیں تو کیسا ہے، وہ کہنے لگی کہ یہ تو اس آفت زدہ کے لیے ہے، پھر میں ایک سال کے بعد عورت سے ملی اور اس سے لڑکے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ صحت یاب ہوگیا اور ایسا عقل مند ہوگیا کہ عام لوگ اتنے عقل مند نہیں ہوتے۔
(۳۲۴۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرٍو بن الأَحْوَصِ ، عَنْ أُمِّہِ أُمِّ جُنْدُبٍ ، قَالَتْ : رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَمَی جَمْرَۃَ الْعَقَبَۃِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِی یَوْمَ النَّحْرِ وَہُوَ عَلَی دَابَّۃٍ ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَتَبِعَتْہُ امْرَأَۃٌ مِنْ خَثْعَمَ ، وَمَعَہَا صَبِیٌّ لَہَا بِہِ بَلاَئٌ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ ہَذَا ابْنِی وَبَقِیَّۃُ أَہْلِی ، وَإِنَّ بِہِ بَلاَئً لاَ یَتَکَلَّمُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ائْتُونِی بِشَیْئٍ مِنْ مَائٍ ، فَأُتِیَ بِہِ فَغَسَلَ یَدَیْہِ وَمَضْمَضَ فَاہُ ، ثُمَّ أَعْطَاہَا ، فَقَالَ : اسْقِیہِ مِنْہُ ، وَصُبِّی عَلَیْہِ مِنْہُ ، وَاسْتَشْفِی اللَّہَ لَہُ ، قَالَتْ : فَلَقِیتُ الْمَرْأَۃَ ، فَقُلْتُ : لَوْ وَہَبْت لِی مِنْہُ ، فَقَالَتْ : إنَّمَا ہُوَ لِہَذَا الْمُبْتَلَی، فَلَقِیت الْمَرْأَۃَ مِنَ الْحَوْلِ فَسَأَلْتُہَا عَنِ الْغُلاَمِ ، فَقَالَتْ : بَرَأَ وَعَقَلَ عَقْلاً لَیْسَ کَعُقُولِ النَّاسِ۔ (ابوداؤد ۱۹۶۱۔ احمد ۵۰۳)ق
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪১৪
فضائل کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ فضیلتیں جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی ہیں
(٣٢٤١٥) حضرت عبداللہ بن جعفر فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنا ردیف بنایا اور مجھے رازداری سے ایک بات بتلائی جو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا، اور آپ کو یہ پسند تھا کہ قضاء حاجت کے لیے آپ کو کوئی ٹیلہ یا کھجور کے درخت کا جھنڈ چھپالے، ایک مرتبہ آپ انصار کے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوئے تو اس میں ایک اونٹ دیکھا ، جب اونٹ نے آپ کو دیکھا تو گرگیا اور اس کی آنکھیں بہنے لگیں، چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی پیٹھ اور گردن پر ہاتھ پھیرا تو وہ پرسکون ہوگیا، آپ نے فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے ؟ یا فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے ؟ تو ایک انصاری نے کہا یا رسول اللہ 5! میں ہوں، آپ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو، کیونکہ یہ مجھے شکایت کررہا ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور ہمیشہ کام میں لگا کر رکھتے ہو۔
(۳۲۴۱۵) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ مَہْدِیِّ بْنِ مَیْمُونً ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ : أَرْدَفَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ خَلْفَہُ فَأَسَرَّ إلَیَّ حَدِیثًا لاَ أُحَدِّثُہُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ ، وَکَانَ مِمَّا یُعْجِبُہ ، یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنْ یَسْتَتِرَ بِہِ لِقَضَائِ حَاجَتِہِ ہَدَفٌ ، أَوْ حَائِشُ نَخْلٍ ، فَدَخَلَ یَوْمًا حَائِشَ نَخْلِ الأَنْصَارِ فَرَأَی فِیہِ بَعِیرًا ، فَلَمَّا رَآہُ الْبَعِیرُ خَرَّ وَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ ، قَالَ : فَمَسَحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرَاتَہُ وَذِفْرَاہُ فَسَکَنَ ، فَقَالَ : لِمَنْ ہَذَا الْبَعِیرُ ؟ أَوْ مَنْ رَبُّ ہَذَا الْبَعِیرِ ؟ قَالَ : فَقَالَ الأَنْصَارِیُّ : أَنَا یَا رَسُولَ اللہِ ، فَقَالَ : أَحْسِنْ إلَیْہِ فَقَدْ شَکَا إلَیَّ أَنَّک تُجِیعُہُ وَتُدْئِبُہُ۔ (ابوداؤد ۲۵۴۲۔ احمد ۲۰۶)
tahqiq

তাহকীক: