মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)
الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار
جنگ کرنے کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৪২ টি
হাদীস নং: ৩৪৪৮৬
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت نعمان بن مقرن کی نہاوند کی جانب روانگی کا بیان
(٣٤٤٨٧) حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ہرمزان سے مشورہ کیا۔ (پھر انھوں نے عفان جیسی حدیث نقل کی) اس میں یہ اضافہ ہے : حضرت نعمان انھیں لے کر نہاوند گئے اور ان کے اور لوگوں کے درمیان دریا تھا۔ حضرت مغیرہ نے لوگوں کو دریا عبورکرایا اور اس وقت ان کا بادشاہ ذوالحاجبین تھا۔
(۳۴۴۸۷) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : شَاوَرَ عُمَرُ الْہُرْمُزَانَ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوًا مِنْ حَدِیثِ عَفَّانَ ، إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : فَأَتَاہُمَ النُّعْمَانُ بِنَہَاوَنْد ، وَبَیْنَہُمْ وَبَیْنَہُ نَہَرٌ ، فَسَرَّحَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ ، فَعَبَرَ إِلَیْہِمَ النَّہَرَ ، وَمَلِکُہُمْ یَوْمَئِذٍ ذُو الْحَاجِبَیْنِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৮৭
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت نعمان بن مقرن کی نہاوند کی جانب روانگی کا بیان
(٣٤٤٨٨) حضرت ربیع بن خثیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام کو نہاوند کے مال غنیمت کے حصے میں ایک بوڑھی یہودن ملی۔ وہ اسے لے کر یہودیوں کے ایک مالدار سردار کے پاس سے گزرے اور اس سے کہا کہ کیا اس کو خریدو گے۔ اس نے بڑھیا سے بات کی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کے دین پر ہے۔ اس نے پوچھا کہ کتنے میں بیچو گے ؟ حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا کہ چار ہزار میں۔ اس نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے قسم کھائی کہ وہ اس سے کم نہیں کریں گے۔ پھر حضرت عبداللہ بن سلام سے اس نے سرگوشی کی اور قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی { وَإِنْ یَأْتُوکُمْ أُسَارَی تُفَادُوہُمْ } پھر اس نے کہا کہ تم عبداللہ بن سلام ہو ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں۔ پھر اس سے کہا کہ یا تو یہ باندی مجھے بیچو یا اپنے دین سے نکل جاؤ۔ اس نے کہا کہ میں نے اس باندی کو لے لیا تم جو چاہو اس کی قیمت میں سے مجھے ہدیہ کردو۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے دو ہزار لے لیے اور دو ہزار اسے واپس کردیئے۔
(۳۴۴۸۸) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلاَمٍ ؛ وَقَعَ لَہُ فِی سَہْمِہِ عَجُوزٌ یَہُودِیَّۃٌ ، فَمَرَّ بِرَأْسِ الْجَالُوتِ ، فَقَالَ : یَا رَأْسَ الْجَالُوتِ ، تَشْتَرِی مِنِّی ہَذِہِ الْجَارِیَۃَ ؟ فَکَلَّمَہَا فَإِذَا ہِیَ عَلَی دِینِہِ ، قَالَ : بِکَمْ ؟ قَالَ : بِأَرْبَعَۃِ آلاَفٍ ، قَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہَا ، فَحَلَفَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ : لاَ یُنْقِصُہُ ، فَسَارَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ بِشَیْئٍ ، فَقَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَإِنْ یَأْتُوکُمْ أُسَارَی تُفَادُوہُمْ} الآیَۃَ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلاَمٍ : أَنْتَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : لَتَشْتَرِیَنَّہَا ، أَوْ لَتَخْرُجَنَّ مِنْ دِینِکَ ، قَالَ : قَدْ أَخَذْتُہَا ، قَالَ : فَہَبْ لِی مَا شِئْتَ ، قَالَ : فَأَخَذَ مِنْہُ أَلْفَیْنِ ، وَرَدَّ عَلَیْہِ أَلْفَیْنِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৮৮
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت نعمان بن مقرن کی نہاوند کی جانب روانگی کا بیان
(٣٤٤٨٩) حضرت حمید بن عبد الرحمن حمیری فرماتے ہیں کہ ایک صحابی جن کا نام ” حممہ “ تھا۔ وہ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں اصبہان کی طرف جہاد کی نیت سے نکلے۔ انھوں نے اس غزوہ میں دعا کی کہ اے اللہ ! حممہ سمجھتا ہے کہ وہ تجھ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اگر حممہ سچا ہے تو اس کے سچ کو صادر فرمادے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو بھی اس کا فیصلہ فرمادے خواہ وہ اس کو ناپسند ہی کیوں نہ کرے۔ اے اللہ ! حممہ کو اس سفر سے واپس نہ بھیج۔ راوی کہتے ہیں کہ بعد ازاں اصبہان میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت ابو موسیٰ (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں کہا کہ اے لوگو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور ہمارے علم کے مطابق حممہ شہید ہیں۔
(۳۴۴۸۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی دَاوُد بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَوْدِیُّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیَّ ؛ أَنَّ رَجُلاً کَانَ یُقَالَ لَہُ : حُمَمَۃُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، خَرَجَ إِلَی أَصْبَہَانَ غَازِیًا فِی خِلاَفَۃِ عُمَرَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنَّ حُمَمَۃَ یَزْعُمُ أَنَّہُ یُحِبُّ لِقَائَک ، فَإِنْ کَانَ حُمَمَۃُ صَادِقًا فَاعْزِمْ لَہُ بِصِدْقِہِ ، وَإِنْ کَانَ کَاذِبًا فَاعْزِمْ لَہُ عَلَیْہِ ، وَإِنْ کَرِہَ ، اللَّہُمَّ لاَ تَرُدُّ حُمَمَۃَ مِنْ سَفَرِہِ ہَذَا ، قَالَ : فَأَخَذَہُ الْمَوْتُ ، فَمَاتَ بِأَصْبَہَانَ ، قَالَ : فَقَامَ أَبُو مُوسَی ، فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، أَلاَ إِنَّا وَاللہِ مَا سَمِعْنَا فِیمَا سَمِعْنَا مِنْ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَمَا بَلَغَ عِلْمُنَا إِلاَّ أَنَّ حُمَمَۃَ شَہِیدٌ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৮৯
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت نعمان بن مقرن کی نہاوند کی جانب روانگی کا بیان
(٣٤٤٩٠) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ ہم نے شہر نہاوند کا محاصرہ کیا اور میں نے حضرت معضد کو اپنا ایک کپڑا دیا اور انھوں نے اس کی پگڑی باندھی۔ ان کے سر میں ایک پتھر آن لگا۔ وہ اپنے سر کو ملنے لگے اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے۔ یہ بہت چھوٹا ہے اور اللہ تعالیٰ چھوٹے میں برکت عطا فرمائے گا۔
(۳۴۴۹۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : حاصَرْنَا مَدِینَۃَ نَہَاوَنْد ، فَأَعْطَیْت مُعَضِّدًا ثَوْبًا لِی فَاعْتَجَرَ بِہِ ، فَأَصَابَہُ حَجَرٌ فِی رَأْسِہِ ، فَجَعَلَ یَمْسَحُہُ وَیَنْظُرُ إِلَیَّ وَیَقُولُ : إِنَّہَا لِصَغِیرَۃٍ ، وَإِنَّ اللَّہَ لَیُبَارِکُ فِی الصَّغِیرَۃِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯০
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت نعمان بن مقرن کی نہاوند کی جانب روانگی کا بیان
(٣٤٤٩١) حضرت صلت اور حضرت ابو مسافع کہتے ہیں کہ ہم نعمان بن مقرن کے پاس تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر بن خطاب کا خط آیا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ جب تم دشمن کا سامناکرو تو مت بھاگنا، جب تمہیں مال ملے تو خیانت نہ کرنا۔ پس جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو حضرت نعمان نے لوگوں سے کہا کہ ان پر ابھی حملہ نہ کرنا۔ (وہ جمعہ کا دن تھا) جب تک امیرالمومنین منبر پر اللہ سے مدد کی دعا نہ کرلیں۔ پھر ہم نے دشمن پر چڑھائی کی اور حضرت نعمان فورا ہی موت کی زد میں آگئے۔ انھوں نے شدید زخمی ہونے کے بعد کہا کہ مجھ پر ایک کپڑا ڈال دو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو اور میری وجہ سے کمزور نہ ہونا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمادی۔ جب حضرت عمر (رض) کو اطلاع ہوئی کہ حضرت نعمان اور فلاں فلاں لوگ شہید ہوگئے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی جنہیں ہم نہیں جانتے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ لیکن اللہ انھیں جانتا ہے۔
(۳۴۴۹۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الصَّلْتِ ، وَأَبِی مُسَافِعٍ ، قَالَ : کَتَبَ إِلَیْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَنَحْنُ مَعَ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ : إِذَا لَقِیتُمَ الْعَدُوَّ فَلاَ تَفِرُّوا ، وَإِذَا غَنِمْتُمْ فَلاَ تَغْلُوا ، فَلَمَّا لَقِینَا الْعَدُوَّ ، قَالَ النُّعْمَانُ لِلنَّاسِ : لاَ تُوَاقِعُوہُمْ ، وَذَلِکَ فِی یَوْمِ جُمُعَۃِ ، حَتَّی یَصْعَدَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ الْمِنْبَرَ یَسْتَنْصِرُ ، قَالَ : ثُمَّ وَاقَعْنَاہُمْ ، فَأُقْعِصَ النُّعْمَانُ ، وَقَالَ : سَجُّونِی ثَوْبًا ، وَأَقْبِلُوا عَلَی عَدُوِّکُمْ ، وَلاَ أَہُوَلَنَّکُمْ ، قَالَ: فَفَتَحَ اللَّہُ عَلَیْنَا ، قَالَ : وَأَتَی عُمَرَ الْخَبَرُ ؛ أَنَّہُ أُصِیبَ النُّعْمَانُ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ، وَرِجَالٌ لاَ نَعْرِفُہُمْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : لَکِنَّ اللَّہَ یَعْرِفُہُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯১
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت نعمان بن مقرن کی نہاوند کی جانب روانگی کا بیان
(٣٤٤٩٢) حضرت ابو مالک اور ابو مسافع کہتے ہیں کہ ہم نہاوند میں حضرت نعمان بن مقرن کے ساتھ تھے کہ حضرت عمر (رض) کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا، جب دشمن سے سامنا ہو تو پیٹھ مت پھیرنا اور جب کامیاب ہوجاؤ تو خیانت نہ کرنا۔
(۳۴۴۹۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ ، یَقُولُ : سَمِعْت أَبَا مَالِکٍ وَأَبَا مُسَافِعٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ یُحَدِّثَانِ ؛ أَنَّ کِتَابَ عُمَرَ أَتَاہُمْ مَعَ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ بِنَہَاوَنْد : أَمَّا بَعْدُ ، فَصَلُّوا الصَّلاَۃَ لِوَقْتِہَا ، وَإِذَا لَقِیتُمَ الْعَدُوَّ فَلاَ تَفِرُّوا ، وَإِذَا ظَفَرْتُمْ فَلاَ تَغْلُوا۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯২
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت نعمان بن مقرن کی نہاوند کی جانب روانگی کا بیان
(٣٤٤٩٣) حضرت عبد الملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت نعمان بن مقرن کو خط میں لکھا کہ لڑائی میں حضرت طلیحہ اور حضرت عمرو بن معدی کرب سے مشورہ اور مدد لیتے رہنا۔ لیکن انھیں کوئی ذمہ داری نہ سونپنا۔ کیونکہ ہر بنانے والا اپنی بنائی ہوئی چیز کو خوب جانتا ہے۔
(۳۴۴۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عن عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ : اسْتَشِرْ وَاسْتَعِنْ فِی حَرْبِکَ بِطُلَیْحَۃَ ، وَعَمْرِو بْنِ مَعْدِی کَرِبَ ، وَلاَ تُوَلِّیہِمَا مِنَ الأَمْرِ شَیْئًا ، فَإِنَّ کُلَّ صَانِعٍ ہُوَ أَعْلَمُ بِصِنَاعَتِہِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯৩
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت نعمان بن مقرن کی نہاوند کی جانب روانگی کا بیان
(٣٤٤٩٤) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت نعمان بن مقرن کوفہ کے لشکر کے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری بصرہ کے لشکر کے امیر تھے۔
(۳۴۴۹۴) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ النُّعْمَانُ بْنُ مُقَرِّنٍ عَلَی جُنْدِ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، وَأَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ عَلَی جُنْدِ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯৪
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بلنجر کی لڑائی کا بیان
(٣٤٤٩٥) حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ ہم بلنجر کی لڑائی میں سلمان بن ربیعہ کے ساتھ تھے۔ انھوں نے ہمیں مال غنیمت کے جانوروں پر سوار ہونے سے منع کیا اور ہمیں مال غنیمت کے ڈھول، رسی اور چھاننی استعمال کرنے کی اجازت دی۔
(۳۴۴۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ بَلَنْجَرَ ، فَحَرَّجَ عَلَیْنَا أَنْ نَحْمِلَ عَلَی دَوَابِّ الْغَنِیمَۃِ ، وَرَخَّصَ لَنَا فِی الْغِرْبَالِ وَالْحَبْلِ وَالْمُنْخُلِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯৫
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بلنجر کی لڑائی کا بیان
(٣٤٤٩٦) حضرت مالک بن صحار فرماتے ہیں کہ ہم نے بلنجر کی لڑائی میں حصہ لیا۔ اس میں میرا بھائی زخمی ہوگیا۔ میں نے اسے اپنی کمر پر سوار کیا۔ حضرت حذیفہ (رض) نے مجھے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ میں نے کہا کہ میرا بھائی ہے، زخمی ہوگیا ہے۔ ہم اگلے سال اسے فتح کرنے کے لیے آئیں گے۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھ پر فتح نہیں فرمائے گا نہ قسطنطینیہ کو اور نہ دیلم کو۔
(۳۴۴۹۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ ابْنِ الأَصْبَہَانِیِّ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ صَحَارٍ ، قَالَ : غَزَوْنَا بَلَنْجَرَ فَجُرِحَ أَخِی ، قَالَ : فَحَمَلْتُہُ خَلْفِی ، فَرَآنِی حُذَیْفَۃُ ، فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : أَخِی جُرِحَ ، نَرْجِعُ قَابِلاً نَفْتَحُہَا إِنْ شَائَ اللَّہُ ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : لاَ وَاللہِ ، لاَ یَفْتَحُہَا عَلَیَّ أَبَدًا ، وَلاَ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃ ، وَلاَ الدَّیْلَمَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯৬
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بلنجر کی لڑائی کا بیان
(٣٤٤٩٧) حضرت مالک بن صحار فرماتے ہیں کہ ہم نے بلنجر کے جہاد میں حصہ لیا۔ لیکن ہمیں فتح حاصل نہ ہوئی۔ لوگوں نے کہا کہ ہم اگلے سال اسے فتح کرنے کے لیے آئیں گے۔ اس پر حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ یہ علاقہ، کفر کا شہر اور دیلم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت میں سے ایک آدمی کے ہاتھ پر فتح ہوں گے۔
(۳۴۴۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ صَحَارٍ ، قَالَ : غَزَوْنَا بَلَنْجَرَ فَلَمْ یَفْتَحُوہَا ، فَقَالُوا : نَرْجِعُ قَابِلاً فَنَفْتَحُہَا ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : لاَ تُفْتَحُ ہَذِہِ ، وَلاَ مَدِینَۃَ الْکُفْرِ ، وَلاَ الدَّیْلَمَ ، إِلاَّ عَلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ بَیْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯৭
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بلنجر کی لڑائی کا بیان
(٣٤٤٩٨) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان نے جب بلنجر کے علاقے میں جہاد میں حصہ لیا تو ان کے حصے میں مشک کی ایک تھیلی آئی جو انھوں نے اپنی بیوی کے پاس امانت کے طورپر رکھوا دی۔ پھر اپنے مرض الوفات میں انھوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ تھیلی مجھے لا دو ۔ پھر آپ نے ایک صاف برتن منگوایا اور اپنی بیوی سے فرمایا کہ اس خوشبو میں پانی ملا کر اسے میرے ارد گرد چھڑک دو ، کیونکہ میرے پاس اللہ کی ایسی مخلوق (فرشتے) آرہی ہے جو کھانا نہیں کھاتے لیکن خوشبو محسوس کرتے ہیں۔ پھر تم باہر چلی جاؤ۔ ان کی بیوی یہ عمل کرکے باہر چلی گئیں جب واپس آئیں تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔
(۳۴۴۹۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا غَزَا سَلْمَانُ بَلَنْجَرَ أَصَابَ فِی قِسْمَتِہِ صُرَّۃً مَنْ مِسْکٍ ، فَلَمَّا رَجَعَ اسْتَوْدَعْتہَا امْرَأَتَہُ ، فَلَمَّا مَرِضَ مَرَضَہُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ ، قَالَ لاِمْرَأَتِہِ وَہُوَ یَمُوتُ : أَرِینِی الصُّرَّۃَ الَّتِی اسْتَوْدَعْتُکِ ، فَأَتَتْہُ بِہَا ، فَقَالَ : ائْتِنِی بِإِنَائٍ نَظِیفٍ ، فَجَائَتْ بِہِ ، فَقَالَ : أَدِیفیہِ ، ثُمَّ انْضَحِی بِہِ حَوْلِی ، فَإِنَّہُ یَحْضُرُنِی خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللہِ ، لاَ یَأْکُلُونَ الطَّعَامَ ، وَیَجِدُونَ الرِّیحَ ، ثُمَّ قَالَ : اُخْرِجِی عَنِّی وَتَعَاہَدِینِی ، فَخَرَجَتْ ، ثُمَّ رَجَعَتْ وَقَدْ قَضَی۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯৮
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بلنجر کی لڑائی کا بیان
(٣٤٤٩٩) حضرت رکین کے والد فرماتے ہیں کہ ہم سلمان بن ربیعہ کے ساتھ بلنجر میں تھے۔ میں نے رمضان کے انتیس روزے رکھنے کے بعد تیسویں دن چاشت کے وقت چاند دیکھا تو انھوں نے فرمایا کہ مجھے دکھاؤ، میں نے انھیں چاند دکھایا تو انھوں نے لوگوں کو روزہ توڑنے کا حکم دے دیا۔
(۳۴۴۹۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ بِبَلَنْجَرَ ، فَرَأَیْتُ ہِلاَلَ شَوَّالٍ یَوْمَ تِسْعٍ وَعِشْرِینَ ، لَیْلَۃً ثَلاَثِینَ ضُحًی ، قَالَ : فَقَالَ : أَرِنِیہِ ، فَأَرَیْتَہُ ، فَأَمَرَ النَّاسَ فَافْطُرُوا۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৯৯
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بلنجر کی لڑائی کا بیان
(٣٤٥٠٠) حضرت سلمان فرماتے تھے کہ میں نے اپنی اس تلوار سے سو آدمیوں کو قتل کیا ہے وہ سب اللہ کے غیر کی عبادت کرتے تھے۔ میں نے اس سے کسی صبر کرنے والے آدمی کو قتل نہیں کیا۔
(۳۴۵۰۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، قَالَ سَمِعَ أَبَاہُ وَعَمَّہُ یَذْکُرَانِ ، قَالَ : قَالَ سَلْمَانُ : قَتَلْتُ بِسَیْفِی ہَذَا مِئَۃَ مُسْتَلْئِمٍ، کُلُّہُمْ یَعْبُدُ غَیْرَ اللہِ ، مَا قَتَلْتُ مِنْہُمْ رَجُلاً صَبْرًا۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৫০০
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بلنجر کی لڑائی کا بیان
(٣٤٥٠١) حضرت حذیفہ (رض) فرماتے تھے کہ قسطنطنیہ، دیلم اور طبرستان بنوہاشم کے ایک آدمی کے ہاتھ پر فتح ہوں گے۔
(۳۴۵۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : لاَ یَفْتَحُ الْقُسْطُنْطِینِیَّۃ ، وَلاَ الدَّیْلَمَ ، وَلاَ الطَّبَرِسْتَانَ إِلاَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৫০১
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جبل کا بیان، آیا وہ صلح سے حاصل ہوا تھا یا زبردستی لیا گیا تھا
(٣٤٥٠٢) حضرت مجالد فرماتے ہیں کہ تمام اہل جبل نے صلح کی تھی اور جبل کا کوئی حصہ زبردستی نہیں لیا گیا تھا۔
(۳۴۵۰۲) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، قَالَ: صَالَحَ أَہْلَ الْجَبَلِ کُلَّہُمْ، لَمْ یُؤْخَذْ شَیْئٌ مِنَ الْجَبَلِ عَنْوَۃً۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৫০২
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جبل کا بیان، آیا وہ صلح سے حاصل ہوا تھا یا زبردستی لیا گیا تھا
(٣٤٥٠٣) حضرت مطرف فرماتے ہیں کہ حلوان سے اوپر کا حصہ ذمہ میں ہے اور حلوان کے علاوہ فیٔ ہے اور ہمارا یہ علاقہ فیٔ ہے۔
(۳۴۵۰۳) حَدَّثَنَا حُمَیْدٍ ، عَنْ حسن ، عَنْ مُطَرِّف ، قَالَ : مَا فَوْقَ حُلْوَانَ فَہُوَ ذِمَّۃٌ، وَمَا دُونَ حُلْوَانَ مِنَ السَّوَادِ فَہُوَ فَیْئٌ ، قَالَ : سَوَادُنَا ہَذَا فَیْئٌ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৫০৩
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جبل کا بیان، آیا وہ صلح سے حاصل ہوا تھا یا زبردستی لیا گیا تھا
(٣٤٥٠٤) حضرت ابو علاء فرماتے ہیں کہ میں بھی تکریت کی فتح میں شامل تھا۔ ہم نے ان سے اس بات پر صلح کی کہ وہ ہمیں مال کی ایک مقررہ مقدار دیں اور ہم ان کو امان دیں گے۔ چنانچہ انھوں نے ہمیں مال دے دیا۔ پھر ان میں سے ایک شخص کو کسی نے قتل کردیا تو ان کا راہب ہمارے پاس آیا اور اس نے کہا کہ کیا تم نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے امیر المومنین اور اپنا عہد نہیں دیا تھا، پھر تم نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی ؟ ! ہمارے امیر نے کہا کہ تم اس کے قاتل پر دو عادل گواہ پیش کردو تو ہم قاتل تمہارے حوالے کردیں گے اور اگر تم چاہو تو قسم کھالو ہم تمہیں فدیہ دے دیں گے اور اگر تم چاہو تو ہم قسم کھا لیں اس صورت میں تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔
پس اگلے دن کی ملاقات طے ہوئی، ان کا پادری آیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، زمین و آسمان کا تذکرہ کیا، قیامت کے دن کا ذکر کیا پھر اس نے کہا کہ خصومات میں سب سے پہلے خون کا حساب ہوگا۔ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹے فریق ہوں گے اور ایک کے خلاف فیصلہ کردیا جائے گا۔ پھر ایک ایک کرکے خون کا حساب ہوگا معاملہ ہمارے اور تمہارے ساتھی تک آپہنچے گا۔ پس مقتول قاتل سے کہے گا کہ تو نے مجھے کیوں قتل کیا تھا ؟ ہمیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تمہارا ساتھی ہمارے ساتھی کو یہ جواب دے کر خاموش کرادے کہ تیرے بعد والوں نے تیری دیت وصول کرلی تھی۔
پس اگلے دن کی ملاقات طے ہوئی، ان کا پادری آیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، زمین و آسمان کا تذکرہ کیا، قیامت کے دن کا ذکر کیا پھر اس نے کہا کہ خصومات میں سب سے پہلے خون کا حساب ہوگا۔ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹے فریق ہوں گے اور ایک کے خلاف فیصلہ کردیا جائے گا۔ پھر ایک ایک کرکے خون کا حساب ہوگا معاملہ ہمارے اور تمہارے ساتھی تک آپہنچے گا۔ پس مقتول قاتل سے کہے گا کہ تو نے مجھے کیوں قتل کیا تھا ؟ ہمیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تمہارا ساتھی ہمارے ساتھی کو یہ جواب دے کر خاموش کرادے کہ تیرے بعد والوں نے تیری دیت وصول کرلی تھی۔
(۳۴۵۰۴) حَدَّثَنَا شَاذَانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، قَالَ: کُنْتُ فِیمَنَ افْتَتَحَ تَکْرِیتَ فَصَالَحْنَاہُمْ عَلَی أَنْ یَبْرُزُوا لَنَا سُوقًا ، وَجَعَلْنَا لَہُمَ الأَمَانَ ، قَالَ : فَأَبْرُزُوا لَنَا سُوقًا ، قَالَ : فَقُتِلَ قَیْنٌ مِنْہُمْ ، فَجَائَ قَسَّہُمْ ، فَقَالَ : أَجَعَلْتُمْ لَنَا ذِمَّۃَ نَبِیِّکُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَذِمَّۃَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، وَذِمَّتَکُمْ ، ثُمَّ أَخْفَرْتُمُوہَا ؟ فَقَالَ أَمِیرُنَا : إِنْ أَقَمْتُمْ شَاہِدَیْنِ ذَوَیْ عَدْلٍ عَلَی قَاتِلِہِ أَقَدْنَاکُمْ بِہِ وَإِنْ شِئْتُمْ حَلَفْتُمْ وَأَعْطَیْنَاکُمَ الدِّیَۃَ وَإِنْ شِئْتُمْ حَلَفْنَا لَکُمْ وَلَمْ نُعْطِکُمْ شَیْئًا۔ قَالَ : فَتَوَاعَدُوا لِلْغَدِ ، فَحَضَرُوا ، فَجَائَ قَسُّہُمْ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ ذَکَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ ، وَمَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَذْکُرَ حَتَّی ذَکَرَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، ثُمَّ قَالَ: أَوَّلُ مَا یُبْدَأُ بِہِ مِنَ الْخُصُومَاتِ الدِّمَائُ ، قَالَ : فَیَخْتَصِمُ ابْنَا آدَمَ ، فَیَقْضِی لَہُ عَلَی صَاحِبِہِ، ثُمَّ یُؤْخَذُ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ ، حَتَّی یَنْتَہِیَ الأَمْرُ إِلَی صَاحِبِنَا وَصَاحِبِکُمْ ، قَالَ : فَیُقَالَ لَہُ : فِیمَ قَتَلَتْنِی ؟ قَالَ : فَلاَ نُحِبَّ أَنْ یَکُونَ لِصَاحِبِکُمْ عَلَی صَاحِبِنَا حُجَّۃٌ ، أَنْ یَقُولَ : قَدْ أَخَذَ أَہْلُک مِنْ بَعْدِکَ دِیَتَک۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৫০৪
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تستر کا بیان
(٣٤٥٠٥) حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوموسیٰ (رض) مجاہدین کو لے کر ہرمزان کی سرکوبی کے لیے تستر پر حملہ آور ہوئے تو انھوں نے یہاں ایک سال تک قیام کیا لیکن فتح یاب نہ ہوسکے۔ ہرمزان نے اس دوران تستر کے ایک معزز اور سرکردہ آدمی کو قتل کرادیا۔ مقتول کا بھائی ایک دن حضرت ابو موسیٰ (رض) کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ اگر میں آپ کو ہرمزان کے قلعے میں داخل ہونے کا راستہ بتادوں تو کیا انعام پاؤں گا ؟ حضرت ابوموسیٰ نے کہا تو کیا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا کہ آپ میرا اور میرے گھر والوں کا خون معاف کردیں، مجھے اور میرے گھر والوں کو مال و اسباب لے کر نکلنے دیں۔ حضرت ابو موسیٰ نے اس کی حامی بھرلی۔ اس نے کہا کہ اب مجھے کوئی ایسا آدمی دیجئے جو تیراکی جانتا ہو اور عقل مند ہو۔ وہ آپ کے پاس واضح خبر لائے گا۔
(٢) حضرت ابو موسیٰ نے مجزأۃ بن ثور سدوسی کو بلایا اور ان سے کہا کہ اپنی قوم میں سے کوئی ایسا آدمی دیجئے جو تیراکی جانتاہو اور خوب عقل مند ہو، لیکن وہ ایسا اہم آدمی نہ ہو جس کی شہادت مسلمانوں کے لیے مایوسی کا سبب ہو۔ اگر وہ سلامت رہا تو ہمارے پاس خبر لے آئے گا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ آدمی کیا چاہتا ہے ، نہ مجھے اس پر اعتماد ہے۔
(٣) حضرت مجزأۃ نے کہا کہ وہ شخص مل گیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے پوچھا کہ وہ کون ہے ؟ انھوں نے کہا کہ میں ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ نے کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، میں یہ نہیں چاہتا، مجھے کوئی اور آدمی دیجئے۔ حضرت مجزأۃ بن ثور نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں بکر بن وائل کی اس بڑھیا پر بھی اعتماد نہیں کرتا جس نے ام مجزأۃ کے بیٹے پر اپنے بیٹے کو فدا کردیا۔ بہرحال اگر آپ مناسب سمجھیں تو موقع عنایت فرمائیں۔
(٤) حضرت مجزأۃ نے سفید کپڑے پہنے اور ایک رومال اور ایک خنجر ہمراہ لے لیا۔ پھر اس آدمی کے ساتھ چلے، راستے میں ایک ندی کو تیر کر عبور کیا۔ پھر ندی کے راستے سے ان کے قلعے میں داخل ہوئے۔ بعض اوقات راستہ اتنا تنگ ہوجاتا کہ پیٹ کے بل چلنا پڑتا اور بعض اوقات راستہ کھل جاتا تو قدموں پر چلتے۔ بعض اوقات گھٹنوں کے بل چلتے۔ یہاں تک کہ شہر میں داخل ہوگئے۔ حضرت ابو موسیٰ نے انھیں حکم دیا تھا کہ شہر کے دروازے کا راستہ اور اس کی فصیل کا راستہ اور ہرمزان کے گھر کو یاد رکھیں۔ وہ آدمی انھیں لے گیا اور انھیں فصیل کا راستہ، دروازے کا راستے اور ہرمزان کا گھر دکھا دیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے حضرت مجزأۃ کو وصیت کی تھی کہ خود سے کوئی کارروائی نہ کرنا جب تک مجھے علم نہ ہوجائے۔
(٥) جب حضرت مجزأۃ نے دیکھا کہ ہرمزان اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا شراب پی رہا ہے تو انھوں نے اس آدمی سے کہا کہ یہ ہرمزان ہے ؟ اس نے کہا ہاں یہی ہے۔ حضرت مجزأۃ نے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس آدمی نے کہا کہ ایسا نہ کرو۔ اس کی حفاظت پر مامور لوگ تمہیں اس تک پہنچنے بھی نہیں دیں گے اور مسلمان بھی قلعہ میں داخل نہ ہوسکیں گے۔ حضرت مجزأۃ اپنی بات پر اڑے رہے۔ اس آدمی نے بہت سمجھایا بالآخر حضرت ابو موسیٰ (رض) کی نصیحت یاد دلائی تو حضرت مجزأۃ رک گئے اور پھر اس آدمی کے گھر آگئے اور شام تک وہیں رہے۔
(٦) اگلے دن حضرت ابو موسیٰ کے پاس گئے، انھوں نے حضرت مجزأۃ کے ہمراہ تین سو سے زائد مجاہدین کا دستہ روانہ فرمایا اور انھیں حکم دیا کہ ہر شخص صرف دو کپڑے پہنے اور تلوار ہمراہ رکھے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر سب مجاہدین نہر کے کنارے بیٹھ کر حضرت مجزأۃ کا انتظار کرنے لگے، حضرت مجزأۃ حضرت ابوموسیٰ کے پاس تھے اور احکام و ہدایات لے رہے تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کو موت کے سوا کسی چیز کی چاہت نہ تھی۔ وہ منظر میری نظروں کے سامنے ہے کہ دستر خوان حضرت ابو موسیٰ (رض) کے سامنے بچھا ہوا تھا، لیکن حضرت مجزأۃ اس بات میں شرم محسوس کررہے تھے کہ دستر خوان سے کوئی چیز لیں۔ انھوں نے انگور کا ایک دانہ اٹھایا لیکن اسے بھی نگلنے کی ہمت نہ ہوئی اور اسے آہستگی سے نکال کر نیچے رکھ دیا۔ حضرت ابوموسیٰ نے انھیں نصیحتیں کیں اور انھیں رخصت کردیا۔ رخصت ہوتے ہوئے حضرت مجزأۃ نے حضرت ابو موسیٰ سے کہا کہ میں آپ سے ایک چیز مانگوں تو کیا آپ مجھے عطا فرمائیں گے۔ حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا کہ آپ نے جب بھی مجھ سے کوئی چیز مانگی ہے میں نے آپ کو پیش کی ہے۔ حضرت مجزأۃ نے کہا کہ مجھے اپنی تلوار دے دیجئے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اپنی تلوار ان کو دے دی۔
(٧) پھر حضرت مجزأۃ مجاہدین کے ساتھ آملے اور اللہ اکبر کہہ کر پانی میں کو دگئے۔ پیچھے سب لوگ بھی پانی میں کود گئے۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ وہ بطخوں کی طرح پانی میں تیر رہے تھے۔ انھوں نے ندی کو عبور کیا، پھر اس سوراخ کی طرف بڑھے جس سے پانی اندر جارہا تھا۔ جب وہ شہر کے قریب پہنچے تو ان کے ساتھ صرف پینتیس یا چھتیس آدمی تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں واپس جاکر انھیں بھی لے آتا ہوں۔ اس پر ایک کوفی آدمی جنہیں جبان کہا جاتا تھا انھوں نے کہا کہ آپ کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے، آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کیجئے جو حکم آپ کو ملا ہے اس کو کر گزرئیے۔ حضرت مجزأۃ نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔
(٨) پھر آپ نے ایک دستے کو دروازے کی طرف اور ایک کو فصیل کی طرف مقرر فرمایا اور باقیوں کو لے کر فصیل پر چڑھ گئے۔ اتنے میں اس اور ہ قوم کا ایک جنگجو ہاتھ میں نیزہ لیے حملہ آور ہوا اور اس نے وہ نیزہ حضرت مجزأۃ کو مار دیا۔ حضرت مجزأہ نے لوگوں سے کہا کہ میری فکر مت کرو۔ مجاہدین نے ان پر ایک علامت لگادی تاکہ ان کی جگہ کو جان سکیں۔ پھر مسلمانوں نے فصیل اور شہر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا اور دروازہ کھول دیا اور مسلمان شہر میں داخل ہوگئے۔ ہرمزان کو بتایا گیا کہ عرب لوگ داخل ہوگئے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ لوگ کہاں سے داخل ہوئے ہیں ؟ کیا آسمان سے آگئے ہیں ؟ پھر وہ اپنے ایک خفیہ تہہ خانے میں پناہ گزین ہوگیا۔
(٩) حضرت ابو موسیٰ اپنے ایک عربی گھوڑے پر سوار تشریف لائے، حضرت انس بن مالک (رض) سے ملاقات ہوئی، وہ لوگوں کے امیر تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے ابو حمزہ آج تو ہم نے کچھ نہیں کیا۔ وہ قوم سے فارغ ہوگئے، قتل ہونے والے قتل ہوگئے اور قید ہونے والے قید ہوگئے۔ پھر انھوں نے ہرمزان کے خفیہ مکان کا محاصرہ کیا اور جب تک اسے امان نہ مل گئی اس تک رسائی حاصل نہ ہوسکی۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے ہرمزان اور اس کے ساتھیوں کو حضرت انس بن مالک (رض) کے ساتھ حضرت عمر کی طرف بھیج دیا۔ حضرت انس نے ملاقات سے پہلے حضرت عمر کے پاس آدمی کو بھیج کر ان سے پوچھا کہ انھیں بس ضروری لباس کے ساتھ حاضر خدمت کیا جائے یا ان کے شاہانہ لباس کے ساتھ انھیں لایا جائے۔ حضرت عمر (رض) نے پیغام بھجوایا کہ اگر تم انھیں صرف ضروری لباس کے ساتھ لاؤ گے تو لوگوں کے نزدیک وہ عجمی پہلوانوں سے زیادہ کچھ نہ ہوں گے۔ تم انھیں ان کی شان و شوکت کے حلیہ میں لاؤ تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کتنا فائدہ عطا کیا ہے۔ پس وہ لوگ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
(١٠) ہرمزان نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ اے امیر المومنین ! میں آپ سے کون سا کلام کروں ؟ ایک زندہ آدمی کا سا کلام جس کی زندگی بخشی جائے گی یا ایک مردہ کا سا کلام ؟ اس موقع پر حضرت عمر (رض) کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا کہ تم بات کرو، تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس پر ہرمزان نے کہا کہ اے امیر المومنین ! آپ جانتے ہیں کہ ہم کیا تھے اور آپ کیا تھے ؟ ہم سب گمراہی میں تھے۔ عرب کے قبائل جب ہمارے پہلوانوں کو دیکھتے تھے تو دور بھاگ جاتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت عطا کی تو تمہیں ایسا زور نصیب ہوا کہ ہم تم سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔
(١١) شام کو حضرت عمر نے حضرت انس کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ صبح اپنے قیدیوں کو میرے پاس لانا میں ان کی گردنیں مار دوں گا۔ حضرت انس (رض) نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے ؟ حضرت عمر نے فرمایا کہ وہ کیوں ؟ حضرت انس نے کہا کہ آپ نے اس آدمی سے کہا تھا کہ تم بات کرو، تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اس پر گواہ لاؤ ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا۔ حضرت انس نے حضرت عمر کے ہم نشینوں سے پوچھا کہ کیا انھوں نے یہ نہیں کہا تھا ؟ سب نے جواب دیا کہ کہا تھا۔ اس پر حضرت عمر کو بہت افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کہ اگر انھیں قتل نہیں کرنا تو پھر انھیں یہاں سے لے جاؤ اور دہلک نامی بستی میں چھوڑ دو ۔ جس کے لیے سمندر کے راستے سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ جب وہ لوگ اس بستی کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور تین مرتبہ یہ دعا کی کہ اے اللہ اس کشتی کو توڑ دے۔ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی ٹوٹ گئی، لیکن وہ کنارے کے قریب تھے لہٰذا سب بچ گئے۔ اس پر ایک مسلمان نے کہا کہ اگر حضرت عمر ان کے غرق ہونے کی دعا کرتے تو وہ سب غرق ہوجاتے لیکن چونکہ انھوں نے کشتی کے ٹوٹنے کی دعا کی تھی اس لیے کشتی ٹوٹ گئی۔
(٢) حضرت ابو موسیٰ نے مجزأۃ بن ثور سدوسی کو بلایا اور ان سے کہا کہ اپنی قوم میں سے کوئی ایسا آدمی دیجئے جو تیراکی جانتاہو اور خوب عقل مند ہو، لیکن وہ ایسا اہم آدمی نہ ہو جس کی شہادت مسلمانوں کے لیے مایوسی کا سبب ہو۔ اگر وہ سلامت رہا تو ہمارے پاس خبر لے آئے گا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ آدمی کیا چاہتا ہے ، نہ مجھے اس پر اعتماد ہے۔
(٣) حضرت مجزأۃ نے کہا کہ وہ شخص مل گیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے پوچھا کہ وہ کون ہے ؟ انھوں نے کہا کہ میں ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ نے کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، میں یہ نہیں چاہتا، مجھے کوئی اور آدمی دیجئے۔ حضرت مجزأۃ بن ثور نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں بکر بن وائل کی اس بڑھیا پر بھی اعتماد نہیں کرتا جس نے ام مجزأۃ کے بیٹے پر اپنے بیٹے کو فدا کردیا۔ بہرحال اگر آپ مناسب سمجھیں تو موقع عنایت فرمائیں۔
(٤) حضرت مجزأۃ نے سفید کپڑے پہنے اور ایک رومال اور ایک خنجر ہمراہ لے لیا۔ پھر اس آدمی کے ساتھ چلے، راستے میں ایک ندی کو تیر کر عبور کیا۔ پھر ندی کے راستے سے ان کے قلعے میں داخل ہوئے۔ بعض اوقات راستہ اتنا تنگ ہوجاتا کہ پیٹ کے بل چلنا پڑتا اور بعض اوقات راستہ کھل جاتا تو قدموں پر چلتے۔ بعض اوقات گھٹنوں کے بل چلتے۔ یہاں تک کہ شہر میں داخل ہوگئے۔ حضرت ابو موسیٰ نے انھیں حکم دیا تھا کہ شہر کے دروازے کا راستہ اور اس کی فصیل کا راستہ اور ہرمزان کے گھر کو یاد رکھیں۔ وہ آدمی انھیں لے گیا اور انھیں فصیل کا راستہ، دروازے کا راستے اور ہرمزان کا گھر دکھا دیا۔ حضرت ابو موسیٰ نے حضرت مجزأۃ کو وصیت کی تھی کہ خود سے کوئی کارروائی نہ کرنا جب تک مجھے علم نہ ہوجائے۔
(٥) جب حضرت مجزأۃ نے دیکھا کہ ہرمزان اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا شراب پی رہا ہے تو انھوں نے اس آدمی سے کہا کہ یہ ہرمزان ہے ؟ اس نے کہا ہاں یہی ہے۔ حضرت مجزأۃ نے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس آدمی نے کہا کہ ایسا نہ کرو۔ اس کی حفاظت پر مامور لوگ تمہیں اس تک پہنچنے بھی نہیں دیں گے اور مسلمان بھی قلعہ میں داخل نہ ہوسکیں گے۔ حضرت مجزأۃ اپنی بات پر اڑے رہے۔ اس آدمی نے بہت سمجھایا بالآخر حضرت ابو موسیٰ (رض) کی نصیحت یاد دلائی تو حضرت مجزأۃ رک گئے اور پھر اس آدمی کے گھر آگئے اور شام تک وہیں رہے۔
(٦) اگلے دن حضرت ابو موسیٰ کے پاس گئے، انھوں نے حضرت مجزأۃ کے ہمراہ تین سو سے زائد مجاہدین کا دستہ روانہ فرمایا اور انھیں حکم دیا کہ ہر شخص صرف دو کپڑے پہنے اور تلوار ہمراہ رکھے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر سب مجاہدین نہر کے کنارے بیٹھ کر حضرت مجزأۃ کا انتظار کرنے لگے، حضرت مجزأۃ حضرت ابوموسیٰ کے پاس تھے اور احکام و ہدایات لے رہے تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کو موت کے سوا کسی چیز کی چاہت نہ تھی۔ وہ منظر میری نظروں کے سامنے ہے کہ دستر خوان حضرت ابو موسیٰ (رض) کے سامنے بچھا ہوا تھا، لیکن حضرت مجزأۃ اس بات میں شرم محسوس کررہے تھے کہ دستر خوان سے کوئی چیز لیں۔ انھوں نے انگور کا ایک دانہ اٹھایا لیکن اسے بھی نگلنے کی ہمت نہ ہوئی اور اسے آہستگی سے نکال کر نیچے رکھ دیا۔ حضرت ابوموسیٰ نے انھیں نصیحتیں کیں اور انھیں رخصت کردیا۔ رخصت ہوتے ہوئے حضرت مجزأۃ نے حضرت ابو موسیٰ سے کہا کہ میں آپ سے ایک چیز مانگوں تو کیا آپ مجھے عطا فرمائیں گے۔ حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا کہ آپ نے جب بھی مجھ سے کوئی چیز مانگی ہے میں نے آپ کو پیش کی ہے۔ حضرت مجزأۃ نے کہا کہ مجھے اپنی تلوار دے دیجئے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اپنی تلوار ان کو دے دی۔
(٧) پھر حضرت مجزأۃ مجاہدین کے ساتھ آملے اور اللہ اکبر کہہ کر پانی میں کو دگئے۔ پیچھے سب لوگ بھی پانی میں کود گئے۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ فرماتے ہیں کہ وہ بطخوں کی طرح پانی میں تیر رہے تھے۔ انھوں نے ندی کو عبور کیا، پھر اس سوراخ کی طرف بڑھے جس سے پانی اندر جارہا تھا۔ جب وہ شہر کے قریب پہنچے تو ان کے ساتھ صرف پینتیس یا چھتیس آدمی تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں واپس جاکر انھیں بھی لے آتا ہوں۔ اس پر ایک کوفی آدمی جنہیں جبان کہا جاتا تھا انھوں نے کہا کہ آپ کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے، آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کیجئے جو حکم آپ کو ملا ہے اس کو کر گزرئیے۔ حضرت مجزأۃ نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔
(٨) پھر آپ نے ایک دستے کو دروازے کی طرف اور ایک کو فصیل کی طرف مقرر فرمایا اور باقیوں کو لے کر فصیل پر چڑھ گئے۔ اتنے میں اس اور ہ قوم کا ایک جنگجو ہاتھ میں نیزہ لیے حملہ آور ہوا اور اس نے وہ نیزہ حضرت مجزأۃ کو مار دیا۔ حضرت مجزأہ نے لوگوں سے کہا کہ میری فکر مت کرو۔ مجاہدین نے ان پر ایک علامت لگادی تاکہ ان کی جگہ کو جان سکیں۔ پھر مسلمانوں نے فصیل اور شہر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا اور دروازہ کھول دیا اور مسلمان شہر میں داخل ہوگئے۔ ہرمزان کو بتایا گیا کہ عرب لوگ داخل ہوگئے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ لوگ کہاں سے داخل ہوئے ہیں ؟ کیا آسمان سے آگئے ہیں ؟ پھر وہ اپنے ایک خفیہ تہہ خانے میں پناہ گزین ہوگیا۔
(٩) حضرت ابو موسیٰ اپنے ایک عربی گھوڑے پر سوار تشریف لائے، حضرت انس بن مالک (رض) سے ملاقات ہوئی، وہ لوگوں کے امیر تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے ابو حمزہ آج تو ہم نے کچھ نہیں کیا۔ وہ قوم سے فارغ ہوگئے، قتل ہونے والے قتل ہوگئے اور قید ہونے والے قید ہوگئے۔ پھر انھوں نے ہرمزان کے خفیہ مکان کا محاصرہ کیا اور جب تک اسے امان نہ مل گئی اس تک رسائی حاصل نہ ہوسکی۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے ہرمزان اور اس کے ساتھیوں کو حضرت انس بن مالک (رض) کے ساتھ حضرت عمر کی طرف بھیج دیا۔ حضرت انس نے ملاقات سے پہلے حضرت عمر کے پاس آدمی کو بھیج کر ان سے پوچھا کہ انھیں بس ضروری لباس کے ساتھ حاضر خدمت کیا جائے یا ان کے شاہانہ لباس کے ساتھ انھیں لایا جائے۔ حضرت عمر (رض) نے پیغام بھجوایا کہ اگر تم انھیں صرف ضروری لباس کے ساتھ لاؤ گے تو لوگوں کے نزدیک وہ عجمی پہلوانوں سے زیادہ کچھ نہ ہوں گے۔ تم انھیں ان کی شان و شوکت کے حلیہ میں لاؤ تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کتنا فائدہ عطا کیا ہے۔ پس وہ لوگ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
(١٠) ہرمزان نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ اے امیر المومنین ! میں آپ سے کون سا کلام کروں ؟ ایک زندہ آدمی کا سا کلام جس کی زندگی بخشی جائے گی یا ایک مردہ کا سا کلام ؟ اس موقع پر حضرت عمر (رض) کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا کہ تم بات کرو، تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس پر ہرمزان نے کہا کہ اے امیر المومنین ! آپ جانتے ہیں کہ ہم کیا تھے اور آپ کیا تھے ؟ ہم سب گمراہی میں تھے۔ عرب کے قبائل جب ہمارے پہلوانوں کو دیکھتے تھے تو دور بھاگ جاتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت عطا کی تو تمہیں ایسا زور نصیب ہوا کہ ہم تم سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔
(١١) شام کو حضرت عمر نے حضرت انس کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ صبح اپنے قیدیوں کو میرے پاس لانا میں ان کی گردنیں مار دوں گا۔ حضرت انس (رض) نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے ؟ حضرت عمر نے فرمایا کہ وہ کیوں ؟ حضرت انس نے کہا کہ آپ نے اس آدمی سے کہا تھا کہ تم بات کرو، تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اس پر گواہ لاؤ ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا۔ حضرت انس نے حضرت عمر کے ہم نشینوں سے پوچھا کہ کیا انھوں نے یہ نہیں کہا تھا ؟ سب نے جواب دیا کہ کہا تھا۔ اس پر حضرت عمر کو بہت افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کہ اگر انھیں قتل نہیں کرنا تو پھر انھیں یہاں سے لے جاؤ اور دہلک نامی بستی میں چھوڑ دو ۔ جس کے لیے سمندر کے راستے سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ جب وہ لوگ اس بستی کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور تین مرتبہ یہ دعا کی کہ اے اللہ اس کشتی کو توڑ دے۔ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی ٹوٹ گئی، لیکن وہ کنارے کے قریب تھے لہٰذا سب بچ گئے۔ اس پر ایک مسلمان نے کہا کہ اگر حضرت عمر ان کے غرق ہونے کی دعا کرتے تو وہ سب غرق ہوجاتے لیکن چونکہ انھوں نے کشتی کے ٹوٹنے کی دعا کی تھی اس لیے کشتی ٹوٹ گئی۔
(۳۴۵۰۵) حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ الْقُرَشِیُّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَ أَبُو مُوسَی بِالنَّاسِ عَلَی الْہُرْمُزَانِ وَمَنْ مَعَہُ بِتُسْتَرَ ، قَالَ : أَقَامُوا سَنَۃً ، أَوْ نَحْوَہَا لاَ یَخْلُصُونَ إِلَیْہِ ، قَالَ : وَقَدْ کَانَ الْہُرْمُزَانُ قَتَلَ رَجُلاً مِنْ دَہَاقِنَتِہمْ وَعُظَمَائِہِمْ فَانْطَلَقَ أَخُوہُ حَتَّی أَتَی أَبَا مُوسَی ، فَقَالَ : مَا تَجْعَلُ لِی إِنْ دَلَلْتُکَ عَلَی الْمَدْخَلِ ؟ قَالَ : سَلْنِی مَا شِئْتَ ، قَالَ : أَسْأَلُک أَنْ تَحْقِنَ دَمِی وَدِمَائَ أَہْلِ بَیْتِی ، وَتُخْلِی بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَا فِی أَیْدِینَا مِنْ أَمْوَالِنَا وَمَسَاکِنِنَا ، قَالَ : فَذَاکَ لَکَ ، قَالَ : ابْغِنِی إِنْسَانًا سَابِحًا ذَا عَقْلٍ وَلُبٍّ یَأْتِیک بِأَمْرٍ بَیِّنٍ۔
قَالَ : فَأَرْسَلَ أَبُو مُوسَی إِلَی مَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ السَّدُوسِیِّ ، فَقَالَ لَہُ : ابْغِنِی رَجُلاً مِنْ قَوْمِکَ سَابِحًا ذَا عَقْلٍ وَلُبٍ وَلَیْسَ بِذَاکَ فِی خَطَرِہِ فَإِنْ أُصِیبَ کَانَ مُصَابُہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ یَسِیرًا وَإِنْ سَلَّمَ جَائَنَا بِثَبْتٍ فَإِنِّی لاَ أَدْرِی مَا جَائَ بِہِ ہَذَا الدِّہْقَانُ ، وَلاَ آمَنَ لَہُ وَلاَ أَثِقُ بِہِ۔
قَالَ : فَقَالَ : مَجْزَأَۃُ : قَدْ وَجَدْتُ ، قَالَ : مَنْ ہُوَ ؟ فَأْتِ بِہِ ، قَالَ : أَنَا ہُوَ ، قَالَ أَبُو مُوسَی : یَرْحَمُک اللَّہُ مَا ہَذَا أَرَدْتُ ، فَابْغِنِی رَجُلاً ، قَالَ : فَقَالَ : مَجْزَأَۃُ بْنُ ثَوْرٍ : وَاللہِ لاَ أَعْمِدُ إِلَی عَجُوزٍ مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ أَفْدِی ابْنَ أُمَّ مَجْزَأَۃَ بِابْنِہَا ، قَالَ : أَمَا إِذْ أَبَیْتَ فَتَیَسَّر۔
فَلَبِسَ ثِیَابَ بِیاضٍ ، وَأَخَذَ مِنْدِیلاً ، وَأَخَذَ مَعَہُ خِنْجَرًا ، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَی الدِّہْقَانِ حَتَّی سَبَحَ فَأَجَازَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَأَدْخَلَہُ مِنْ مَدْخَلِ الْمَائِ ، حَیْثُ یُدْخَلُ عَلَی أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : فَأَدْخَلَہُ فِی مَدْخَلٍ شَدِیدٍ ، یَضِیقُ بِہِ أَحْیَانًا حَتَّی یَنْبَطِحَ عَلَی بَطْنِہِ وَیَتَّسِعَ أَحْیَانًا فَیَمْشِی قَائِمًا وَیَحْبُو فِی بَعْضِ ذَلِکَ حَتَّی دَخَلَ الْمَدِینَۃَ وَقَدْ أَمَرَہُ أَبُو مُوسَی أَنْ یَحْفَظَ طَرِیقَ بَابِ الْمَدِینَۃِ ، وَطَرِیقَ السَّورِ ، وَمَنْزِلَ الْہُرْمُزَانِ فَانْطَلَقَ بِہِ الدِّہْقَانُ حَتَّی أَرَاہُ طَرِیقَ السَّورِ وَطَرِیقَ الْبَابِ ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِہِ إِلَی مَنْزِلِ الْہُرْمُزَانِ وَقَدْ کَانَ أَبُو مُوسَی أَوْصَاہُ أَنْ لاَ تَسْبِقَنِی بِأَمْرٍ۔
فَلَمَّا رَأَی الْہُرْمُزَانَ قَاعِدًا وَحَوْلَہُ دَہَاقِنَتُہُ ، وَہُوَ یَشْرَبُ ، فَقَالَ لِلدِّہْقَانِ : ہَذَا الْہُرْمُزَانِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ: ہَذَا الَّذِی لَقِیَ الْمُسْلِمُونَ مِنْہُ مَا لَقُوا أَمَا وَاللہِ لأُرِیحَنَّہُمْ مِنْہُ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ الدِّہْقَانُ : لاَ تَفْعَلْ ، فَإِنَّہُمْ یَتَحْرَّزُونَ وَیَحُولُونَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ دُخُولِ ہَذَا الْمَدْخَلِ فَأَبَی مَجْزَأَۃُ إِلاَّ أَنْ یَمْضِیَ عَلَی رَأْیِہِ عَلَی قَتْلِ الْعِلْجِ فَأَدَارَہُ الدِّہْقَانُ وَأَلاصہُ أَنْ یَکُفَّ عَنْ قَتْلِہِ فَأَبَی فَذَکَرَ الدِّہْقَانُ قَوْلَ أَبِی مُوسَی لَہُ : اتَّقِ أَنْ لاَ تَسْبِقَنِی بِأَمْرٍ، فَقَالَ : أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَک صَاحِبُک أَنْ لاَ تَسْبِقَہُ بِأَمْرٍ ؟ فَقَالَ : ہَاہ ، أَمَا وَاللہِ ، لَوْلاَ ہَذَا لأَرِیحَنَّہُمْ مِنْہُ فَرَجَعَ مَعَ الدِّہْقَانِ إِلَی مَنْزِلِہِ ، فَأَقَامَ یَوْمَہُ حَتَّی أَمْسَی ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی أَبِی مُوسَی ، فَنَدَبَ أَبُو مُوسَی النَّاسَ مَعَہُ فَانْتَدَبَ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَنَیِّفٌ فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَلْبَسَ الرَّجُلَ ثَوْبَیْنِ لاَ یَزِیدَ عَلَیْہِ وَسَیْفہُ فَفَعَلَ الْقَوْمُ ، قَالَ : فَقَعَدُوا عَلَی شَاطِئِ النَّہَرِ یَنْتَظِرُونَ مَجْزَأَۃَ أَنْ یَأْتِیَہُمْ ، وَہُوَعِنْدَ أَبِی مُوسَی یُوصِیہِ وَیَأْمُرُہُ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ : وَلَیْسَ لَہُمْ ہُمْ غَیْرُہُ ، یُشِیرُ إِلَی الْمَوْتِ لأََنْظُرَنَّ مَا یَصْنَعُ ، وَالْمَائِدَۃُ مَوْضُوعَۃٌ بَیْنَ یَدَیْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : فَکَأَنَّہُ اسْتَحَیَی أَنْ لاَ یَتَنَاوَلَ مِنَ الْمَائِدَۃِ شَیْئًا ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ حَبَّۃً مِنْ عِنَبٍ فَلاَکَہَا فَمَا قَدَرَ عَلَی أَنْ یُسِیغَہَا ، فَأَخَذَہَا رُوَیْدًا ، فَنَبَذَہَا تَحْتَ الْخِوَانِ وَوَدَّعَہُ أَبُو مُوسَی وَأَوْصَاہُ ، فَقَالَ مَجْزَأَۃُ لأَبِی مُوسَی : إِنِّی أَسْأَلُک شَیْئًا فَأَعْطِنِیہِ ، قَالَ : لاَ تَسْأَلنِی شَیْئًا إِلاَّ أَعْطَیْتُکَہُ ، قَالَ : فَأَعْطِنِی سَیْفَک أَتَقَلَّدُہُ إِلَی سَیْفِی فَدَعَا لَہُ بِسَیْفِہِ ، فَأَعْطَاہُ إیَّاہُ۔
فَذَہَبَ إلَی الْقَوْمِ وَہُمْ یَنْتَظِرُونَہُ حَتَّی کَانَ فِی وَسَطٍ مِنْہُمْ ، فَکَبَّرَ وَوَقَعَ فِی الْمَائِ ، وَوَقَعَ الْقَوْمُ جَمِیعًا ، قَالَ : یَقُولُ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ : کَأَنَّہُمَ الْبَطُّ فَسَبَحُوا حَتَّی جَازُوا ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِہِمَا إلَی النُّقْبِ الَّذِی یَدْخُلُ الْمَائُ مِنْہُ فَکَبَّرَ ، ثُمَّ دَخَلَ ، فَلَمَّا أَفْضَی إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَنَظَرَ لَمْ یَتِمّ مَعَہُ ، إِلاَّ خَمْسَۃٌ وَثَلاَثُونَ ، أَوْ سِتَّۃٌ وَثَلاَثُونَ رَجُلاً ، فَقَالَ لأَصْحَابِہِ : أَلاَ أَعُودُ إِلَیْہِمْ فَأُدْخِلَہُمْ ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، یُقَالَ لَہُ : الْجَبَانُ لِشَجَاعَتِہِ : غَیْرُک فَلْیَقُلْ ہَذَا یَا مَجْزَأَۃُ إِنَّمَا عَلَیْک نَفْسُک ، فَامْضِ لِمَا أُمِرْتَ بِہِ ، فَقَالَ لَہُ : أَصَبْتَ فَمَضَی بِطَائِفَۃٍ مِنْہُمْ إِلَی الْبَابِ فَوَضَعَہُمْ عَلَیْہِ ، وَمَضَی بِطَائِفَۃٍ إِلَی السَّورِ وَمَضَی بِمَنْ بَقِیَ حَتَّی صَعِدَ إِلَی السَّورِ فَانْحَدَرَ عَلَیْہِ عِلْجٌ مِنَ الأَسَاوِرَۃِ وَمَعَہُ نَیزک ، فَطَعَنَ مَجْزَأَۃَ فَأَثْبَتَہُ ، فَقَالَ لہم مَجْزَأَۃُ : امْضُوا لأَمْرِکُمْ لاَ یَشْغَلَنَّکُمْ عَنِّی شَیْء ٌ فَأَلْقَوْا عَلَیْہِ بَرْدُعَۃً ، لِیَعْرِفُوا مَکَانَہُ وَمَضَوْا وَکَبَّرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی السَّورِ وَعِنْدَ بَابِ الْمَدِینَۃِ ، وَفَتَحُوا الْبَابَ وَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی عَادَتِہِمْ حَتَّی دَخَلُوا الْمَدِینَۃَ ، قَالَ : قِیلَ لَلْہُرْمُزَانِ : ہَذَہِ الْعَرَبُ قَدْ دَخَلُوا ، قَالَ : لاَ شَکَّ أَنَّہُمَا قَدْ دَحَسُوہَا عَلَیْہِمْ ، قَالَ : مِنْ أَیْنَ دَخَلُوا ؟ أَمِنَ السَّمَائِ ، قَالَ : وَتَحَصَّنَ فِی قَصَبَۃٍ لَہُ۔ وَأَقْبَلَ أَبُو مُوسَی یَرْکُضُ عَلَی فَرَسٍ لَہُ عَرَبِیٍّ ، حَتَّی دَخَلَ عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَہُوَ عَلَی النَّاسِ ، فَقَالَ : لَکِنْ نَحْنُ یَا أَبَا حَمْزَۃَ لَمْ نَصْنَعَ الْیَوْمَ شَیْئًا وَقَدْ فَرَغُوا مِنَ الْقَوْمِ ، قَتَلُوا مَنْ قَتَلُوا وَأَسَرُوا مَنْ أَسَرُوا وَأَطَافُوا بِالْہُرْمُزَانِ بِقَصَبَتِہِ ، فَلَمْ یَخْلُصُوا إِلَیْہِ حَتَّی أَمَّنُوہُ ، وَنَزَلَ عَلَی حُکْمِ عُمرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : فَبَعَثَ بِہِمْ أَبُو مُوسَی مَعَ أَنَسٍ بِالْہُرْمُزَانَ وَأَصْحَابَہُ فَانْطَلَقُوا بِہِمْ حَتَّی قَدِمُوا عَلَی عُمَرَ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ أَنَسٌ : مَا تَرَی فِی ہَؤُلاَئِ ؟ أَدْخِلْہُمْ عُرَاۃً مُکَتَّفِینَ ، أَوْ آمُرُہُمْ فَیَأْخُذُونَ حُلِیَّہُمْ وَبِزّتِہِمْ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ عُمَرُ لَوْ أَدْخَلْتَہُمْ کَمَا تَقُولُ عُرَاۃً مُکَتَّفِینَ ، لَمْ یَزِیدُوا عَلَی أَنْ یَکُونُوا أَعْلاَجًا وَلَکِنْ أَدْخِلْہُمْ عَلَیْہِمْ حُلِیُّہُمْ وَبِزّتِہِمْ حَتَّی یَعْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ فَأَمَرَہُمْ فَأَخَذُوا بِزَّتِہِمْ وَحُلِیَّہُمْ حَتَّی دَخَلُوا عَلَی عُمَرَ ، فَقَالَ الْہُرْمُزَانُ لِعُمَرَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَیَّ کَلاَمَ أُکَلِّمَکَ ؟ أَکَلاَمُ رَجُلِ حَیٍّ لَہُ بَقَائَ أَوْ کَلاَمُ رَجُلٍ مَقْتُولٍ ؟ قَالَ : فَخَرَجْتْ مِنْ عُمَرَ کَلِمَۃٌ لَمْ یُرِدْہا ، تَکَلَمَ فَلاَ بَأْسَ عَلَیْکَ ، فَقَالَ لَہٌ الْہُرْمُزَانُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَدْ عَلِمْتَ کَیْفَ کُنَّا وَکُنْتُمْ ، إِذْ کُنَّا عَلَی ضَلاَلَۃٍ جَمِیعًا کَانَتِ الْقَبِیلَۃُ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ تَرْی نُشَابَۃَ بَعْضِ أَسَاوِرَتِنَا فَیَہْرُبُونَ الأَرْضِ الْبَعِیدَۃِ ، فَلَمَّا ہَدَاکُمَ اللَّہُ ، فَکَانَ مَعَکُمْ لَمْ نَسْتَطِعْ نُقَاتِلَہُ فَرَجَعَ بِہِمْ أَنَسٌ۔
فَلَمَّا أَمْسَی عُمَرُ أَرْسَلَ إلَی أَنَسٍ : أَنَ اُغْدُ عَلَیَّ بِأَسْرَاک أَضْرِبُ أَعْنَاقَہُمْ فَأَتَاہُ أَنَسٌ ، فَقَالَ : وَاللہِ یَا عُمَرُ مَا ذَاکَ لَکَ ، قَالَ : وَلِمَ ؟ قَالَ : إِنَّک قَدْ قُلْتَ لِلرَّجُلِ : تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ عَلَیْک ، قَالَ : لَتَأْتِینِی عَلَی ہَذَا بِبُرْہَانٍ ، أَوْ لأَسُوؤُنَّکَ ، قَالَ : فَسَأَلَ أَنَسٌ الْقَوْمَ جُلَسَائَ عُمَرَ ، فَقَالَ : أَمَا قَالَ عُمَرُ لِلرَّجُلِ تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ عَلَیْک ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَکَبَّرَ ذَلِکَ عَلَی عُمَرَ ، قَالَ : إِمَا لاَ فَأَخْرَجَہُمْ عَنِّی فَسَیَّرَہُمْ إِلَی قَرْیَۃٍ ، یُقَالَ لَہَا : دَہْلَکَ فِی الْبَحْرِ ، فَلَمَّا تَوَجَّہُوا بِہِمْ رَفَعَ عُمَرُ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اکْسِرْہَا بِہِمْ ثَلاَثًا فَرَکِبُوا السَّفِینَۃَ ، فَانْدَقَّتْ بِہِمْ وَانْکَسَرَتْ وَکَانَتْ قَرِیبَۃً مِنَ الأَرْضِ فَخَرَجُوا ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ : لَوْ دَعَا أَنْ یُغْرِقَہُمْ لَغَرِقُوا وَلَکِنْ إِنَّمَا قَالَ : اکْسِرْہَا بِہِمْ ، قَالَ : فَأَقَرَّہُمْ۔
قَالَ : فَأَرْسَلَ أَبُو مُوسَی إِلَی مَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ السَّدُوسِیِّ ، فَقَالَ لَہُ : ابْغِنِی رَجُلاً مِنْ قَوْمِکَ سَابِحًا ذَا عَقْلٍ وَلُبٍ وَلَیْسَ بِذَاکَ فِی خَطَرِہِ فَإِنْ أُصِیبَ کَانَ مُصَابُہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ یَسِیرًا وَإِنْ سَلَّمَ جَائَنَا بِثَبْتٍ فَإِنِّی لاَ أَدْرِی مَا جَائَ بِہِ ہَذَا الدِّہْقَانُ ، وَلاَ آمَنَ لَہُ وَلاَ أَثِقُ بِہِ۔
قَالَ : فَقَالَ : مَجْزَأَۃُ : قَدْ وَجَدْتُ ، قَالَ : مَنْ ہُوَ ؟ فَأْتِ بِہِ ، قَالَ : أَنَا ہُوَ ، قَالَ أَبُو مُوسَی : یَرْحَمُک اللَّہُ مَا ہَذَا أَرَدْتُ ، فَابْغِنِی رَجُلاً ، قَالَ : فَقَالَ : مَجْزَأَۃُ بْنُ ثَوْرٍ : وَاللہِ لاَ أَعْمِدُ إِلَی عَجُوزٍ مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ أَفْدِی ابْنَ أُمَّ مَجْزَأَۃَ بِابْنِہَا ، قَالَ : أَمَا إِذْ أَبَیْتَ فَتَیَسَّر۔
فَلَبِسَ ثِیَابَ بِیاضٍ ، وَأَخَذَ مِنْدِیلاً ، وَأَخَذَ مَعَہُ خِنْجَرًا ، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَی الدِّہْقَانِ حَتَّی سَبَحَ فَأَجَازَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَأَدْخَلَہُ مِنْ مَدْخَلِ الْمَائِ ، حَیْثُ یُدْخَلُ عَلَی أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : فَأَدْخَلَہُ فِی مَدْخَلٍ شَدِیدٍ ، یَضِیقُ بِہِ أَحْیَانًا حَتَّی یَنْبَطِحَ عَلَی بَطْنِہِ وَیَتَّسِعَ أَحْیَانًا فَیَمْشِی قَائِمًا وَیَحْبُو فِی بَعْضِ ذَلِکَ حَتَّی دَخَلَ الْمَدِینَۃَ وَقَدْ أَمَرَہُ أَبُو مُوسَی أَنْ یَحْفَظَ طَرِیقَ بَابِ الْمَدِینَۃِ ، وَطَرِیقَ السَّورِ ، وَمَنْزِلَ الْہُرْمُزَانِ فَانْطَلَقَ بِہِ الدِّہْقَانُ حَتَّی أَرَاہُ طَرِیقَ السَّورِ وَطَرِیقَ الْبَابِ ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِہِ إِلَی مَنْزِلِ الْہُرْمُزَانِ وَقَدْ کَانَ أَبُو مُوسَی أَوْصَاہُ أَنْ لاَ تَسْبِقَنِی بِأَمْرٍ۔
فَلَمَّا رَأَی الْہُرْمُزَانَ قَاعِدًا وَحَوْلَہُ دَہَاقِنَتُہُ ، وَہُوَ یَشْرَبُ ، فَقَالَ لِلدِّہْقَانِ : ہَذَا الْہُرْمُزَانِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ: ہَذَا الَّذِی لَقِیَ الْمُسْلِمُونَ مِنْہُ مَا لَقُوا أَمَا وَاللہِ لأُرِیحَنَّہُمْ مِنْہُ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ الدِّہْقَانُ : لاَ تَفْعَلْ ، فَإِنَّہُمْ یَتَحْرَّزُونَ وَیَحُولُونَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ دُخُولِ ہَذَا الْمَدْخَلِ فَأَبَی مَجْزَأَۃُ إِلاَّ أَنْ یَمْضِیَ عَلَی رَأْیِہِ عَلَی قَتْلِ الْعِلْجِ فَأَدَارَہُ الدِّہْقَانُ وَأَلاصہُ أَنْ یَکُفَّ عَنْ قَتْلِہِ فَأَبَی فَذَکَرَ الدِّہْقَانُ قَوْلَ أَبِی مُوسَی لَہُ : اتَّقِ أَنْ لاَ تَسْبِقَنِی بِأَمْرٍ، فَقَالَ : أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَک صَاحِبُک أَنْ لاَ تَسْبِقَہُ بِأَمْرٍ ؟ فَقَالَ : ہَاہ ، أَمَا وَاللہِ ، لَوْلاَ ہَذَا لأَرِیحَنَّہُمْ مِنْہُ فَرَجَعَ مَعَ الدِّہْقَانِ إِلَی مَنْزِلِہِ ، فَأَقَامَ یَوْمَہُ حَتَّی أَمْسَی ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی أَبِی مُوسَی ، فَنَدَبَ أَبُو مُوسَی النَّاسَ مَعَہُ فَانْتَدَبَ ثَلاَثُ مِئَۃٍ وَنَیِّفٌ فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَلْبَسَ الرَّجُلَ ثَوْبَیْنِ لاَ یَزِیدَ عَلَیْہِ وَسَیْفہُ فَفَعَلَ الْقَوْمُ ، قَالَ : فَقَعَدُوا عَلَی شَاطِئِ النَّہَرِ یَنْتَظِرُونَ مَجْزَأَۃَ أَنْ یَأْتِیَہُمْ ، وَہُوَعِنْدَ أَبِی مُوسَی یُوصِیہِ وَیَأْمُرُہُ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ : وَلَیْسَ لَہُمْ ہُمْ غَیْرُہُ ، یُشِیرُ إِلَی الْمَوْتِ لأََنْظُرَنَّ مَا یَصْنَعُ ، وَالْمَائِدَۃُ مَوْضُوعَۃٌ بَیْنَ یَدَیْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : فَکَأَنَّہُ اسْتَحَیَی أَنْ لاَ یَتَنَاوَلَ مِنَ الْمَائِدَۃِ شَیْئًا ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ حَبَّۃً مِنْ عِنَبٍ فَلاَکَہَا فَمَا قَدَرَ عَلَی أَنْ یُسِیغَہَا ، فَأَخَذَہَا رُوَیْدًا ، فَنَبَذَہَا تَحْتَ الْخِوَانِ وَوَدَّعَہُ أَبُو مُوسَی وَأَوْصَاہُ ، فَقَالَ مَجْزَأَۃُ لأَبِی مُوسَی : إِنِّی أَسْأَلُک شَیْئًا فَأَعْطِنِیہِ ، قَالَ : لاَ تَسْأَلنِی شَیْئًا إِلاَّ أَعْطَیْتُکَہُ ، قَالَ : فَأَعْطِنِی سَیْفَک أَتَقَلَّدُہُ إِلَی سَیْفِی فَدَعَا لَہُ بِسَیْفِہِ ، فَأَعْطَاہُ إیَّاہُ۔
فَذَہَبَ إلَی الْقَوْمِ وَہُمْ یَنْتَظِرُونَہُ حَتَّی کَانَ فِی وَسَطٍ مِنْہُمْ ، فَکَبَّرَ وَوَقَعَ فِی الْمَائِ ، وَوَقَعَ الْقَوْمُ جَمِیعًا ، قَالَ : یَقُولُ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ : کَأَنَّہُمَ الْبَطُّ فَسَبَحُوا حَتَّی جَازُوا ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِہِمَا إلَی النُّقْبِ الَّذِی یَدْخُلُ الْمَائُ مِنْہُ فَکَبَّرَ ، ثُمَّ دَخَلَ ، فَلَمَّا أَفْضَی إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَنَظَرَ لَمْ یَتِمّ مَعَہُ ، إِلاَّ خَمْسَۃٌ وَثَلاَثُونَ ، أَوْ سِتَّۃٌ وَثَلاَثُونَ رَجُلاً ، فَقَالَ لأَصْحَابِہِ : أَلاَ أَعُودُ إِلَیْہِمْ فَأُدْخِلَہُمْ ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، یُقَالَ لَہُ : الْجَبَانُ لِشَجَاعَتِہِ : غَیْرُک فَلْیَقُلْ ہَذَا یَا مَجْزَأَۃُ إِنَّمَا عَلَیْک نَفْسُک ، فَامْضِ لِمَا أُمِرْتَ بِہِ ، فَقَالَ لَہُ : أَصَبْتَ فَمَضَی بِطَائِفَۃٍ مِنْہُمْ إِلَی الْبَابِ فَوَضَعَہُمْ عَلَیْہِ ، وَمَضَی بِطَائِفَۃٍ إِلَی السَّورِ وَمَضَی بِمَنْ بَقِیَ حَتَّی صَعِدَ إِلَی السَّورِ فَانْحَدَرَ عَلَیْہِ عِلْجٌ مِنَ الأَسَاوِرَۃِ وَمَعَہُ نَیزک ، فَطَعَنَ مَجْزَأَۃَ فَأَثْبَتَہُ ، فَقَالَ لہم مَجْزَأَۃُ : امْضُوا لأَمْرِکُمْ لاَ یَشْغَلَنَّکُمْ عَنِّی شَیْء ٌ فَأَلْقَوْا عَلَیْہِ بَرْدُعَۃً ، لِیَعْرِفُوا مَکَانَہُ وَمَضَوْا وَکَبَّرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی السَّورِ وَعِنْدَ بَابِ الْمَدِینَۃِ ، وَفَتَحُوا الْبَابَ وَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی عَادَتِہِمْ حَتَّی دَخَلُوا الْمَدِینَۃَ ، قَالَ : قِیلَ لَلْہُرْمُزَانِ : ہَذَہِ الْعَرَبُ قَدْ دَخَلُوا ، قَالَ : لاَ شَکَّ أَنَّہُمَا قَدْ دَحَسُوہَا عَلَیْہِمْ ، قَالَ : مِنْ أَیْنَ دَخَلُوا ؟ أَمِنَ السَّمَائِ ، قَالَ : وَتَحَصَّنَ فِی قَصَبَۃٍ لَہُ۔ وَأَقْبَلَ أَبُو مُوسَی یَرْکُضُ عَلَی فَرَسٍ لَہُ عَرَبِیٍّ ، حَتَّی دَخَلَ عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَہُوَ عَلَی النَّاسِ ، فَقَالَ : لَکِنْ نَحْنُ یَا أَبَا حَمْزَۃَ لَمْ نَصْنَعَ الْیَوْمَ شَیْئًا وَقَدْ فَرَغُوا مِنَ الْقَوْمِ ، قَتَلُوا مَنْ قَتَلُوا وَأَسَرُوا مَنْ أَسَرُوا وَأَطَافُوا بِالْہُرْمُزَانِ بِقَصَبَتِہِ ، فَلَمْ یَخْلُصُوا إِلَیْہِ حَتَّی أَمَّنُوہُ ، وَنَزَلَ عَلَی حُکْمِ عُمرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، قَالَ : فَبَعَثَ بِہِمْ أَبُو مُوسَی مَعَ أَنَسٍ بِالْہُرْمُزَانَ وَأَصْحَابَہُ فَانْطَلَقُوا بِہِمْ حَتَّی قَدِمُوا عَلَی عُمَرَ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ أَنَسٌ : مَا تَرَی فِی ہَؤُلاَئِ ؟ أَدْخِلْہُمْ عُرَاۃً مُکَتَّفِینَ ، أَوْ آمُرُہُمْ فَیَأْخُذُونَ حُلِیَّہُمْ وَبِزّتِہِمْ ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ عُمَرُ لَوْ أَدْخَلْتَہُمْ کَمَا تَقُولُ عُرَاۃً مُکَتَّفِینَ ، لَمْ یَزِیدُوا عَلَی أَنْ یَکُونُوا أَعْلاَجًا وَلَکِنْ أَدْخِلْہُمْ عَلَیْہِمْ حُلِیُّہُمْ وَبِزّتِہِمْ حَتَّی یَعْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ فَأَمَرَہُمْ فَأَخَذُوا بِزَّتِہِمْ وَحُلِیَّہُمْ حَتَّی دَخَلُوا عَلَی عُمَرَ ، فَقَالَ الْہُرْمُزَانُ لِعُمَرَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَیَّ کَلاَمَ أُکَلِّمَکَ ؟ أَکَلاَمُ رَجُلِ حَیٍّ لَہُ بَقَائَ أَوْ کَلاَمُ رَجُلٍ مَقْتُولٍ ؟ قَالَ : فَخَرَجْتْ مِنْ عُمَرَ کَلِمَۃٌ لَمْ یُرِدْہا ، تَکَلَمَ فَلاَ بَأْسَ عَلَیْکَ ، فَقَالَ لَہٌ الْہُرْمُزَانُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، قَدْ عَلِمْتَ کَیْفَ کُنَّا وَکُنْتُمْ ، إِذْ کُنَّا عَلَی ضَلاَلَۃٍ جَمِیعًا کَانَتِ الْقَبِیلَۃُ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ تَرْی نُشَابَۃَ بَعْضِ أَسَاوِرَتِنَا فَیَہْرُبُونَ الأَرْضِ الْبَعِیدَۃِ ، فَلَمَّا ہَدَاکُمَ اللَّہُ ، فَکَانَ مَعَکُمْ لَمْ نَسْتَطِعْ نُقَاتِلَہُ فَرَجَعَ بِہِمْ أَنَسٌ۔
فَلَمَّا أَمْسَی عُمَرُ أَرْسَلَ إلَی أَنَسٍ : أَنَ اُغْدُ عَلَیَّ بِأَسْرَاک أَضْرِبُ أَعْنَاقَہُمْ فَأَتَاہُ أَنَسٌ ، فَقَالَ : وَاللہِ یَا عُمَرُ مَا ذَاکَ لَکَ ، قَالَ : وَلِمَ ؟ قَالَ : إِنَّک قَدْ قُلْتَ لِلرَّجُلِ : تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ عَلَیْک ، قَالَ : لَتَأْتِینِی عَلَی ہَذَا بِبُرْہَانٍ ، أَوْ لأَسُوؤُنَّکَ ، قَالَ : فَسَأَلَ أَنَسٌ الْقَوْمَ جُلَسَائَ عُمَرَ ، فَقَالَ : أَمَا قَالَ عُمَرُ لِلرَّجُلِ تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ عَلَیْک ؟ قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَکَبَّرَ ذَلِکَ عَلَی عُمَرَ ، قَالَ : إِمَا لاَ فَأَخْرَجَہُمْ عَنِّی فَسَیَّرَہُمْ إِلَی قَرْیَۃٍ ، یُقَالَ لَہَا : دَہْلَکَ فِی الْبَحْرِ ، فَلَمَّا تَوَجَّہُوا بِہِمْ رَفَعَ عُمَرُ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اکْسِرْہَا بِہِمْ ثَلاَثًا فَرَکِبُوا السَّفِینَۃَ ، فَانْدَقَّتْ بِہِمْ وَانْکَسَرَتْ وَکَانَتْ قَرِیبَۃً مِنَ الأَرْضِ فَخَرَجُوا ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ : لَوْ دَعَا أَنْ یُغْرِقَہُمْ لَغَرِقُوا وَلَکِنْ إِنَّمَا قَالَ : اکْسِرْہَا بِہِمْ ، قَالَ : فَأَقَرَّہُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৫০৫
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تستر کا بیان
(٣٤٥٠٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے تستر کا محاصرہ کیا تو ہرمزان نے حضرت عمر کی خلافت کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے ہرمزان کے ساتھ مجھے حضرت عمر کی طرف بھیجا۔ جب ہم حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہرمزان نے کوئی بات نہ کی اور خاموش رہا۔ حضرت عمر نے اس سے فرمایا کہ بات کرو۔ اس نے کہا کہ زندہ شخص کی بات کروں یامردہ کی ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تم بات کرو تم پر کوئی حرج نہیں۔ اس نے کہا کہ اے اہل عرب اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور تمہارے درمیان بہت فرق کردیا ہے، ایک وقت وہ تھا جب ہم تمہیں قتل کرتے تھے اور تم پر غالب آتے تھے۔ اور جب اللہ تمہارے ساتھ ہوگیا تو اب ہمارا تم پر زور نہیں چلتا۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ اے انس تم کیا کہتے ہو ؟ میں نے کہا کہ اے امیر المومنین ! میں نے اپنے پیچھے زبردست طاقت اور بڑی تعداد چھوڑی ہے۔ اگر آپ اس کو قتل کردیں گے تو لوگ زندگی سے مایوس ہوجائیں گے اور یہ ان کی قوت کے لیے سخت ہوگا اور اگر آپ اسے زندہ چھوڑیں گے تو لوگ لالچ کریں گے۔
حضرت عمر نے فرمایا کہ کیا میں براء بن مالک اور مجزأۃ بن ثور کے قاتل کو زندہ چھوڑ دوں ! حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ وہ اسے قتل کردیں گے تو میں نے کہا کہ آپ اسے قتل نہیں کرسکتے ؟ انھوں نے فرمایا کیوں ؟ کیا تم نے اس سے کوئی مالی مدد لے لی ہے ؟ میں نے کہا میں نے ایسا نہیں کیا۔ آپ نے اس سے کہا کہ تم بات کرو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم اس بات پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا۔ پس میں گواہ کی تلاش میں نکلا تو مجھے حضرت زبیر ملے، انھیں بھی وہ بات یاد تھی جو مجھے یاد تھی۔ انھوں نے اس بات کی گواہی دی تو حضرت عمر نے ہرمزان کو چھوڑ دیا اور بعد میں اس نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت عمر نے اس کا وظیفہ مقرر کردیا۔
حضرت عمر نے فرمایا کہ کیا میں براء بن مالک اور مجزأۃ بن ثور کے قاتل کو زندہ چھوڑ دوں ! حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ وہ اسے قتل کردیں گے تو میں نے کہا کہ آپ اسے قتل نہیں کرسکتے ؟ انھوں نے فرمایا کیوں ؟ کیا تم نے اس سے کوئی مالی مدد لے لی ہے ؟ میں نے کہا میں نے ایسا نہیں کیا۔ آپ نے اس سے کہا کہ تم بات کرو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم اس بات پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا۔ پس میں گواہ کی تلاش میں نکلا تو مجھے حضرت زبیر ملے، انھیں بھی وہ بات یاد تھی جو مجھے یاد تھی۔ انھوں نے اس بات کی گواہی دی تو حضرت عمر نے ہرمزان کو چھوڑ دیا اور بعد میں اس نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت عمر نے اس کا وظیفہ مقرر کردیا۔
(۳۴۵۰۶) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ : قَالَ : حَاصَرْنَا تُسْتَرَ فَنَزَلَ الْہُرْمُزَانُ عَلَی حُکْمِ عُمَرَ فَبَعَثَ بِہِ أَبُو مُوسَی مَعِی ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی عُمَرَ سَکَتَ الْہُرْمُزَانِ فَلَمْ یَتَکَلَّمْ ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : تَکَلَّمَ ، فَقَالَ : أَکَلاَمُ حَیٍّ أَمْ کَلاَمُ مَیِّتٍ ؟ قَالَ : تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ ، قَالَ : إِنَّا وَإِیَّاکُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ مَا خَلَّی اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ فَإِنَّا کُنَّا نَقْتُلُکُمْ وَنُقْصِیکُمْ وَأَمَّا إِذْ کَانَ اللَّہُ مَعَکُمْ لَمْ یَکُنْ لَنَا بِکُمْ یَدَانِ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَا تَقُولُ یَا أَنَسُ ؟ قُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ تَرَکْتُ خَلْفِی شَوْکَۃً شَدِیدَۃً وَعَدَدًا کَثِیرًا إِنْ قَتَلْتَہُ أَیِسَ الْقَوْمُ مِنَ الْحَیَاۃِ ، وَکَانَ أَشَدُّ لِشَوْکَتِہِمْ وَإِنِ اسْتَحْیَیْتَہُ طَمِعَ الْقَوْمُ۔
فَقَالَ : یَا أَنَسُ اسْتَحْیِی قَاتِلَ الْبَرَائِ بْنِ مَالِکٍ وَمَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ ، فَلَمَّا خَشِیتُ أَنْ یَبْسُطَ عَلَیْہِ قُلْتُ : لَیْسَ إِلَی قَتْلِہِ سَبِیلٌ ، فَقَالَ عُمَرُ : لِمَ ؟ أَعْطَاک ؟ أَصَبْتَ مِنْہُ ؟ قُلْتُ : مَا فَعَلْتُ ، وَلَکِنَّک قُلْتَ لَہُ : تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ، قَالَ : لَتَجِیئَنَّی بِمَنْ یَشْہَدُ ، أَوْ لأََبْدَأَنَّ بِعُقُوبَتِکَ ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِہِ ، فَإِذَا أَنَا بِالزُّبَیْرِ قَدْ حَفِظَ مَا حَفِظْتُ فَشَہِدَ عِنْدَہُ فَتَرَکَہُ ، وَأَسْلَمَ الْہُرْمُزَانُ وَفَرَضَ لَہُ۔
فَقَالَ : یَا أَنَسُ اسْتَحْیِی قَاتِلَ الْبَرَائِ بْنِ مَالِکٍ وَمَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ ، فَلَمَّا خَشِیتُ أَنْ یَبْسُطَ عَلَیْہِ قُلْتُ : لَیْسَ إِلَی قَتْلِہِ سَبِیلٌ ، فَقَالَ عُمَرُ : لِمَ ؟ أَعْطَاک ؟ أَصَبْتَ مِنْہُ ؟ قُلْتُ : مَا فَعَلْتُ ، وَلَکِنَّک قُلْتَ لَہُ : تَکَلَّمَ فَلاَ بَأْسَ، قَالَ : لَتَجِیئَنَّی بِمَنْ یَشْہَدُ ، أَوْ لأََبْدَأَنَّ بِعُقُوبَتِکَ ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِہِ ، فَإِذَا أَنَا بِالزُّبَیْرِ قَدْ حَفِظَ مَا حَفِظْتُ فَشَہِدَ عِنْدَہُ فَتَرَکَہُ ، وَأَسْلَمَ الْہُرْمُزَانُ وَفَرَضَ لَہُ۔
তাহকীক: