মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)
الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار
جنگ کرنے کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৪২ টি
হাদীস নং: ৩৪৪২৬
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت ابو عبید (ابن مسعود ثقفی (رض) ) کی مہران میں جنگ اور اس کی تفصیلات کا بیان
(٣٤٤٢٧) ! اس اثر کا مضمون واضح نہیں ہوا۔ محققِ مصنف ابن ابی شیبہ محمد عوامہ اس حدیث کے حاشیہ میں لکھتے ہیں : وفی الخبر کلمات لم اتبینھا۔
(۳۴۴۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : قَالَ لِی جَرِیرٌ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَی مِہْرَانَ ، فَانْطَلَقْتُ مَعَہُ حَیْثُ اقْتَتَلُوا ، فَقَالَ لِی : لَقَدْ رَأَیْتُنِی فِیمَا ہَاہُنَا فِیَّ مِثْلُ حَرِیقِ النَّارِ ، یَطْعَنْونِی مِنْ کُلِّ جَانِبٍ بِنَیَازِکِہِمْ ، فَلَمَّا رَأَیْتُ الْہَلَکَۃَ جَعَلْتُ أَقُولُ : یَا فَرَسِی ، أَلاَ یَا جَرِیرُ ، فَسَمِعُوا صَوْتِی فَجَائَتْ قَیْسٌ ، مَا یَرُدَّہُمْ شَیٌء حَتَّی تَخَلِّصُونِی ، قُلْتُ : فَلَقَدْ عَبَرْتُ شَہْرًا ، مَا أَرْفَعُ لِی جَنْبًا مِنْ أَثَرِ النَّیَازِکَ ۔ قَالَ : قَالَ قَیْسٌ : لَقَدْ رَأَیْتُنَا نَخُوضُ دِجْلَۃَ ، وَإِنَّ أَبْوَابَ الْمَدَائِنِ لَمُغْلَقَۃٌ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪২৭
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت ابو عبید (ابن مسعود ثقفی (رض) ) کی مہران میں جنگ اور اس کی تفصیلات کا بیان
(٣٤٤٢٨) حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو عبید شہید کردیئے گئے اور ان کے ساتھی شکست کھا گئے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا تھا کہ میں تمہاری طرف سے بدلہ لوں گا۔
(۳۴۴۲۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا التَّیْمِیُّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : لَمَّا قُتِلَ أَبُو عُبَیْدٍ ، وَہُزِمَ أَصْحَابُہُ ، قَالَ عُمَرُ : أَنَا فِئَتُکُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪২৮
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت ابو عبید (ابن مسعود ثقفی (رض) ) کی مہران میں جنگ اور اس کی تفصیلات کا بیان
(٣٤٤٢٩) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کو ابو عبید ثقفی کی شہادت کی خبر ملی تو انھوں نے فرمایا کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں ان کا بدلہ لوں گا۔
(۳۴۴۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : لَمَّا بَلَغَ عُمَرُ قَتْلَ أَبِی عُبَیْدٍ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : إِنْ کُنْتُ لَہُ فِئَۃً ، لَوِ انْحَازَ إِلَیَّ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪২৯
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت ابو عبید (ابن مسعود ثقفی (رض) ) کی مہران میں جنگ اور اس کی تفصیلات کا بیان
(٣٤٤٣٠) حضرت حنش بن حارث نخعی قبیلہ کے بزرگوں سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت جریر نے جب مہران کو قتل کیا تو اس کے سر کو ایک نیزے پر نصب کردیا تھا۔
(۳۴۴۳۰) حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ الْقَوَارِیرِیُّ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَشْیَاخُ النَّخَعِ ؛ أَنَّ جَرِیرًا لَمَّا قَتَلَ مِہْرَانَ نَصَبَ ، أَوْ رَفَعَ رَأْسَہُ عَلَی رُمْحٍ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩০
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حضرت ابو عبید (ابن مسعود ثقفی (رض) ) کی مہران میں جنگ اور اس کی تفصیلات کا بیان
(٣٤٤٣١) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ حضرت ابو عبید کی شہادت کے دن ایک آدمی کے پاس سے گزرے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے تھے۔ وہ قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے : { مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا } ان کے پاس سے گزرنے والے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں ایک انصاری ہوں۔
(۳۴۴۳۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ مَرَّ بِرَجُلٍ یَوْمَ أَبِی عُبَیْدٍ ، وَقَدْ قُطِعَتْ یَدَاہُ وَرِجْلاَہُ ، وَہُوَ یَقُولُ : {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا} ، فَقَالَ لَہُ بَعْضُ مَنْ مَرَّ عَلَیْہِ : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : امْرُؤٌ مِنَ الأَنْصَارِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩১
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٣٢) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ میں جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کی طرف سے شریک تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اس جنگ میں مسلمانوں کے امیر تھے۔ رستم اپنی فوج کو لے کر آیا تو حضرت عمرو بن معدی کرب زبیدی مسلمانوں کی صفوں میں سے گزرے اور ان سے کہا کہ اے مہاجرین کی جماعت ! بہادر شیر بن جاؤ، اصل شیر وہ ہے جو اپنی جان کی پروا نہ کرے۔ فارسیوں کا مزاج ہے کہ جب وہ اپنا نیزہ ڈال دیں تو بکرے کی طرح ہیں۔ ان کے علاقے کے گرد بڑی بڑی دیواریں ہیں جن سے تیر تجاوز نہیں کرتے۔ ہم نے ان سے کہا کہ اے ابو ثور ! ان سے بچ کر رہنا۔ پھر ہم نے تیر چلائے، ایک تیر فارسیوں کے بادشاہ کے گھوڑے کو لگا، پھر حضرت عمرو نے اس پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا اور اس کا سامان حاصل کرلیا جس میں سونے کے دو کنگن تھے، ایک چادر تھی اور ایک ریشم کا چوغہ تھا۔
(٢) ثقیف کا ایک آدمی بھاگا اور اس نے جا کر مشرکین کو خبر دے دی اور اس نے بجیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اس طرف سے آرہے ہیں، پھر انھوں نے ہماری طرف سولہ ہاتھی بھیجے جن پر جنگجو سوار تھے۔ اور تمام لوگوں کی طرف دوہاتھی بھیجے۔ حضرت سعد اس دن فرما رہے تھے کہ بجیلہ سے پیچھے ہٹ جاؤ۔ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ ہم جنگ قادسیہ میں لوگوں کا ایک چوتھائی تھے۔ اور حضرت عمر (رض) نے ہمیں آلات جنگ کا چوتھائی حصہ دیا اور ہم نے تین سال اسے استعمال کیا۔
(٣) اس کے بعد حضرت جریر حضرت عمار بن یاسر کی معیت میں ایک وفد کے ساتھ حضرت عمر کے پاس آئے۔ حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ تم دونوں نے مجھے اپنے ان دو گھروں کے بارے میں نہیں بتایا۔ اس کے باوجود میں تم سے سوال کرتا ہوں اور میں تمہارے چہروں سے اندازہ کرسکتا ہوں کہ دونوں میں سے کون سا گھر بہتر ہے ؟ حضرت جریر نے کہا کہ اے امیر المومنین ! میں آپ کو خبر دیتا ہوں۔ ایک گھر تو وہ ہے جو سرزمین عرب سے کم کھجوریں دینے والا ہے اور دوسرا گھر سرزمین فارس ہے، اس کی گرمی، اس کی تپش اور اس کی وسیع وادی یعنی مدائن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمار نے میری تکذیب کی اور کہا کہ آپ نے جھوٹ بولا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ میں تمہیں تمہارے امیر کے بارے میں بتاؤں کہ کیا وہ تمہارے لیے کافی ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ نہ تو وہ کافی ہیں اور نہ ہی سیاست کے رموز کو جانتے ہیں۔ پھر حضرت عمر نے انھیں معزول کرکے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو امیر بنا کر بھیج دیا۔
(٢) ثقیف کا ایک آدمی بھاگا اور اس نے جا کر مشرکین کو خبر دے دی اور اس نے بجیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اس طرف سے آرہے ہیں، پھر انھوں نے ہماری طرف سولہ ہاتھی بھیجے جن پر جنگجو سوار تھے۔ اور تمام لوگوں کی طرف دوہاتھی بھیجے۔ حضرت سعد اس دن فرما رہے تھے کہ بجیلہ سے پیچھے ہٹ جاؤ۔ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ ہم جنگ قادسیہ میں لوگوں کا ایک چوتھائی تھے۔ اور حضرت عمر (رض) نے ہمیں آلات جنگ کا چوتھائی حصہ دیا اور ہم نے تین سال اسے استعمال کیا۔
(٣) اس کے بعد حضرت جریر حضرت عمار بن یاسر کی معیت میں ایک وفد کے ساتھ حضرت عمر کے پاس آئے۔ حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ تم دونوں نے مجھے اپنے ان دو گھروں کے بارے میں نہیں بتایا۔ اس کے باوجود میں تم سے سوال کرتا ہوں اور میں تمہارے چہروں سے اندازہ کرسکتا ہوں کہ دونوں میں سے کون سا گھر بہتر ہے ؟ حضرت جریر نے کہا کہ اے امیر المومنین ! میں آپ کو خبر دیتا ہوں۔ ایک گھر تو وہ ہے جو سرزمین عرب سے کم کھجوریں دینے والا ہے اور دوسرا گھر سرزمین فارس ہے، اس کی گرمی، اس کی تپش اور اس کی وسیع وادی یعنی مدائن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمار نے میری تکذیب کی اور کہا کہ آپ نے جھوٹ بولا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ میں تمہیں تمہارے امیر کے بارے میں بتاؤں کہ کیا وہ تمہارے لیے کافی ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ نہ تو وہ کافی ہیں اور نہ ہی سیاست کے رموز کو جانتے ہیں۔ پھر حضرت عمر نے انھیں معزول کرکے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو امیر بنا کر بھیج دیا۔
(۳۴۴۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ: شَہِدْتُ الْقَادِسِیَّۃَ ، وَکَانَ سَعْدٌ عَلَی النَّاسِ، وَجَائَ رُسْتُمُ ، فَجَعَلَ عَمْرَو بْنُ مَعْدِی کَرِبٍ الزُّبَیْدِیُّ یَمُرُّ عَلَی الصُّفُوفِ ، وَیَقُولُ: یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ، کُونُوا أُسُودًا أَشِدَّاء ً ، فَإِنَّمَا الأَسَدَ مَنْ أَغْنَی شَأْنَہُ ، إِنَّمَا الْفَارِسِیَّ تَیْسٌ بَعْدَ أَنْ یُلْقِی نَیْزَکَہُ ، قَالَ : وَکَانَ مَعَہُمْ أَسْوَارٌ لاَ تَسْقُطُ لَہُ نُشَّابَۃٌ ، فَقُلْنَا لَہُ : یَا أَبَا ثَوْرٍ ، اتَّقِ ذَاکَ ، قَالَ : فَإِنَّا لَنَقُولُ ذَاکَ إِذْ رَمَانَا فَأَصَابَ فَرَسَہُ ، فَحَمَلَ عَمْرٌو عَلَیْہِ فَاعْتَنَقَہُ ، ثُمَّ ذَبَحَہُ ، فَأَخَذَ سَلَبَہُ ، سِوَارَیْ ذَہَبٍ کَانَا عَلَیْہِ ، وَمِنْطَقَۃً وَقَبَائَ دِیبَاجٍ۔
وَفَرَّ رَجُلٌ مِنْ ثَقِیفٍ ، فَخَلاَ بِالْمُشْرِکِینَ ، فَأَخْبَرَہُمْ ، فَقَالَ : إِنَّ النَّاسَ فِی ہَذَا الْجَانِبِ ، وَأَشَارَ إِلَی بَجِیلَۃَ، قَالَ : فَرَمَوْا إِلَیْنَا سِتَّۃَ عَشَرَ فِیلاً ، عَلَیْہَا الْمُقَاتِلَۃُ ، وَإِلَی سَائِرِ النَّاسِ فِیلَیْن ، قَالَ : فَکَانَ سَعْدٌ یَقُولُ یَوْمَئِذٍ: ذَبَّوا عَنْ بَجِیلَۃ ۔ قَالَ قَیْسٌ : وَکُنَّا رُبْعُ النَّاسِ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ ، فَأَعْطَانَا عُمَرُ رُبْعَ السَّوَادِ ، فَأَخَذْنَاہُ ثَلاَثَ سِنِینَ۔
فَوَفَدَ بَعْدَ ذَلِکَ جَرِیرٌ إِلَی عُمَرَ ، وَمَعَہُ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَلاَ تُخْبِرَانِی عَنْ مَنْزِلَیْکُمْ ہَذَیْنِ ؟ وَمَعَ ذَلِکَ إِنِّی لأَسأْلْکُمَا ، وَإِنِّی لأََتَبَیَّنُ فِی وُجُوہِکُمَا أَیَّ الْمَنْزِلَیْنِ خَیْرٌ ؟ قَالَ : فَقَالَ جَرِیرٌ : أَنَا أُخْبِرَکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَمَّا أَحَدُ الْمَنْزِلَیْنِ فَأَدْنَی نَخْلَۃً مِنَ السَّوَادِ إِلَی أَرْضِ الْعَرَبِ ، وَأَمَّا الْمَنْزِلُ الآخَرُ فَأَرْضُ فَارِسَ، وَعَکُہَا وَحَرُّہَا وَبَقُّہَا ، یَعْنِی الْمَدَائِنَ ، قَالَ : فَکَذَّبَنِی عَمَّارٌ ، فَقَالَ : کَذَبْتَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : أَنْتَ أَکْذَبُ ۔ قَالَ : ثُمَّ قَالَ : أَلاَ تُخْبِرُونِی عَنْ أَمِیرِکُمْ ہَذَا ، أَمُجْزئٌ ہُوَ ؟ قَالُوا : لاَ وَاللہِ ، مَا ہُوَ بِمُجْرِئٍ ، وَلاَ کَافٍ ، وَلاَ عَالِمٍ بِالسِّیَاسَۃِ ، فَعَزَلَہُ وَبَعَثَ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ۔
وَفَرَّ رَجُلٌ مِنْ ثَقِیفٍ ، فَخَلاَ بِالْمُشْرِکِینَ ، فَأَخْبَرَہُمْ ، فَقَالَ : إِنَّ النَّاسَ فِی ہَذَا الْجَانِبِ ، وَأَشَارَ إِلَی بَجِیلَۃَ، قَالَ : فَرَمَوْا إِلَیْنَا سِتَّۃَ عَشَرَ فِیلاً ، عَلَیْہَا الْمُقَاتِلَۃُ ، وَإِلَی سَائِرِ النَّاسِ فِیلَیْن ، قَالَ : فَکَانَ سَعْدٌ یَقُولُ یَوْمَئِذٍ: ذَبَّوا عَنْ بَجِیلَۃ ۔ قَالَ قَیْسٌ : وَکُنَّا رُبْعُ النَّاسِ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ ، فَأَعْطَانَا عُمَرُ رُبْعَ السَّوَادِ ، فَأَخَذْنَاہُ ثَلاَثَ سِنِینَ۔
فَوَفَدَ بَعْدَ ذَلِکَ جَرِیرٌ إِلَی عُمَرَ ، وَمَعَہُ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَلاَ تُخْبِرَانِی عَنْ مَنْزِلَیْکُمْ ہَذَیْنِ ؟ وَمَعَ ذَلِکَ إِنِّی لأَسأْلْکُمَا ، وَإِنِّی لأََتَبَیَّنُ فِی وُجُوہِکُمَا أَیَّ الْمَنْزِلَیْنِ خَیْرٌ ؟ قَالَ : فَقَالَ جَرِیرٌ : أَنَا أُخْبِرَکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَمَّا أَحَدُ الْمَنْزِلَیْنِ فَأَدْنَی نَخْلَۃً مِنَ السَّوَادِ إِلَی أَرْضِ الْعَرَبِ ، وَأَمَّا الْمَنْزِلُ الآخَرُ فَأَرْضُ فَارِسَ، وَعَکُہَا وَحَرُّہَا وَبَقُّہَا ، یَعْنِی الْمَدَائِنَ ، قَالَ : فَکَذَّبَنِی عَمَّارٌ ، فَقَالَ : کَذَبْتَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : أَنْتَ أَکْذَبُ ۔ قَالَ : ثُمَّ قَالَ : أَلاَ تُخْبِرُونِی عَنْ أَمِیرِکُمْ ہَذَا ، أَمُجْزئٌ ہُوَ ؟ قَالُوا : لاَ وَاللہِ ، مَا ہُوَ بِمُجْرِئٍ ، وَلاَ کَافٍ ، وَلاَ عَالِمٍ بِالسِّیَاسَۃِ ، فَعَزَلَہُ وَبَعَثَ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩২
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٣٣) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاؤں پر ایک پھوڑا نکل آیا اور وہ قتال کے لیے نہ جاسکے۔ لوگوں میں ایک بےچینی تھی۔ حضرت سعد کی زوجہ جو کہ پہلے مثنی بن حارثہ شیبانی کے نکاح میں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ گھڑ سواروں کے لیے کوئی مثنی نہیں ہے ! اس پر حضرت سعد نے انھیں تھپڑ مارا۔ اس نے کہا کہ بزدلی اور غیرت کی وجہ سے ! ! ! راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے دشمنوں کو شکست دے دی۔
(۳۴۴۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانَ سَعْدٌ قَدَ اشْتَکَی قُرْحَۃً فِی رِجْلِہِ یَوْمَئِذٍ ، فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَی الْقِتَالِ ، قَالَ : فَکَانَتْ مِنَ النَّاسِ انْکِشَافَۃٌ ، قَالَ : فَقَالَتِ امْرَأَۃُ سَعْدٍ ، وَکَانَتْ قَبْلَہُ تَحْتَ الْمُثَنَّی بْنِ حَارِثَۃَ الشَّیْبَانِیِّ : لاَ مُثَنَّی لِلْخَیْلِ ، فَلَطَمَہَا سَعْدٌ ، فَقَالَتْ : جُبْنًا وَغَیْرَۃً ، قَالَ : ثُمَّ ہَزَمْنَاہُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩৩
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٣٤) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی ایک بیوی جن کا نام سلمی بنت خصفہ تھا، وہ بنو شیبان کے ایک شخص مثنی بن حارثہ کے نکاح میں رہ چکی تھیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ حضرت سعد کے سامنے مثنی کا ذکر کیا تو حضرت سعد نے انھیں تھپڑ مارا۔ انھوں نے کہا بزدلی اور غیر ت کی وجہ سے مارتے ہو ! ! !
(۳۴۴۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ؛ أَنَّ امْرَأَۃَ سَعْدٍ کَانَتْ یُقَالُ لَہَا : سَلْمَی بِنْتَ خَصَفَۃَ ، امْرَأَۃُ رَجُلٍ مِنْ بَنِی شَیْبَانَ ، یُقَالَ لَہُ : الْمُثَنَّی بْنُ الْحَارِثَۃِ ، وَأَنَّہَا ذَکَرَتْ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ مُثَنَّی فَلَطَمَہَا سَعْدٌ ، فَقَالَتْ : جُبْنٌ وَغَیْرَۃٌ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩৪
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٣٥) حضرت محمد بن سعد فرماتے ہیں کہ قادسیہ کی جنگ کے دوران ایک دن ابو محجن شاعر کو شراب پینے کے جرم میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس لایا گیا۔ حضرت سعد نے اسے بیڑیوں میں باندھنے کا حکم دے دیا۔ اس وقت حضرت سعد زخمی تھے اور لوگوں کے پاس نہ جاسکتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے اپنے مجاہدین کی نگرانی کے لیے عذیب نامی چشمے کے علاقے کو منتخب کیا اور معائنہ کرنے لگے۔ آپ نے خالد بن عرفطہ کو گھڑ سواروں کا قائد بنایا تھا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ابو محجن نے ایک شعرکہا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم گھڑ سواروں کو ہلاک کررہے ہو اور مجھے بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے۔
(٢) پھر اس نے حضرت سعد کی بیوی بنت خصفہ سے کہا کہ تم مجھے آزاد کردو میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر زندہ رہا تو واپس آکر خود اس بیڑی میں خود کو جکڑ لوں گا اور اگر مار دیا گیا تو رحمت کی دعا کی درخواست کروں گا۔ پھر بنت خصفہ نے اس کھول دیا اورادھر میدان کارزار گرم ہوچکا تھا۔
(٣) اس نے ایک چھلانگ لگائی تو حضرت سعد کے بلقاء نامی گھوڑے پر سوار ہوا، ایک نیزہ پکڑا اور دشمنوں پر حملہ کردیا وہ جہاں جاتا تھا دشمنوں کو شکست دے دیتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ بادشاہ ہے ! اور حضرت سعد فرما رہے تھے کہ چھلانگ تو میرے گھوڑے بلقاء کی ہے اور نیزہ چلانا ابو محجن کا ہے جب کہ ابو محجن تو قید میں ہے ! !
(٤) جب دشمن کو شکست ہوگئی تو ابو محجن واپس آیا اور خود کو بیڑی میں جکڑ لیا۔ بنت خصفہ نے سارا واقعہ حضرت سعد کو بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں ایسے آدمی پر حد جاری نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی۔ پھر حضرت سعد نے ابو محجن کو آزاد کردیا۔ اس پر ابو محجن نے کہا کہ جب مجھ پر حد قائم کی جاتی تھی تو میں شراب پیتا تھا اور حد کے ذریعہ پاک ہوجاتا تھا اور اب جبکہ آپ نے مجھ سے حد معاف کردی ہے تو خدا کی قسم میں شراب نہیں پیوں گا۔
(٢) پھر اس نے حضرت سعد کی بیوی بنت خصفہ سے کہا کہ تم مجھے آزاد کردو میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر زندہ رہا تو واپس آکر خود اس بیڑی میں خود کو جکڑ لوں گا اور اگر مار دیا گیا تو رحمت کی دعا کی درخواست کروں گا۔ پھر بنت خصفہ نے اس کھول دیا اورادھر میدان کارزار گرم ہوچکا تھا۔
(٣) اس نے ایک چھلانگ لگائی تو حضرت سعد کے بلقاء نامی گھوڑے پر سوار ہوا، ایک نیزہ پکڑا اور دشمنوں پر حملہ کردیا وہ جہاں جاتا تھا دشمنوں کو شکست دے دیتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ بادشاہ ہے ! اور حضرت سعد فرما رہے تھے کہ چھلانگ تو میرے گھوڑے بلقاء کی ہے اور نیزہ چلانا ابو محجن کا ہے جب کہ ابو محجن تو قید میں ہے ! !
(٤) جب دشمن کو شکست ہوگئی تو ابو محجن واپس آیا اور خود کو بیڑی میں جکڑ لیا۔ بنت خصفہ نے سارا واقعہ حضرت سعد کو بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں ایسے آدمی پر حد جاری نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی۔ پھر حضرت سعد نے ابو محجن کو آزاد کردیا۔ اس پر ابو محجن نے کہا کہ جب مجھ پر حد قائم کی جاتی تھی تو میں شراب پیتا تھا اور حد کے ذریعہ پاک ہوجاتا تھا اور اب جبکہ آپ نے مجھ سے حد معاف کردی ہے تو خدا کی قسم میں شراب نہیں پیوں گا۔
(۳۴۴۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أُتِیَ سَعْدٌ بِأَبِی مِحْجَنٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ وَقَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ ، فَأَمَرَ بِہِ إِلَی الْقَیْدِ ، قَالَ : وَکَانَ بِسَعْدٍ جِرَاحَۃٌ ، فَلَمْ یَخْرُجْ یَوْمَئِذٍ إِلَی النَّاسِ ، قَالَ : وَصَعِدُوا بِہِ فَوْقَ الْعُذَیْبِ لِیَنْظُرَ إِلَی النَّاسِ ، قَالَ : وَاسْتَعْمَلَ عَلَی الْخَیْلِ خَالِدَ بْنَ عُرْفُطَۃَ ، فَلَمَّا الْتَقَی النَّاسُ ، قَالَ أَبُو مِحْجَنٍ :
کَفَی حُزْنًا أَنْ تُرْدَی الْخَیْلُ بِالْقَنَا ۔۔۔ وَأُتْرَکُ مَشْدُودًا عَلَیَّ وَثَاقِیَا
فَقَالَ لاِبْنَۃِ خَصَفَۃَ ، امْرَأَۃِ سَعْدٍ : أَطْلِقِینِی وَلَکِ عَلَیَّ إِنْ سَلَّمَنِیَ اللَّہُ أَنْ أَرْجِعَ حَتَّی أَضَعَ رِجْلِی فِی الْقَیْدِ ، وَإِنْ قُتِلْتُ اسْتَرَحْتُمْ ، قَالَ : فَحَلَّتْہُ حِینَ الْتَقَی النَّاسُ۔
قَالَ : فَوَثَبَ عَلَی فَرَسٍ لِسَعْدٍ یُقَالَ لَہَا : الْبَلْقَائُ ، قَالَ ، ثُمَّ أَخَذَ رُمْحًا ، ثُمَّ خَرَجَ ، فَجَعَلَ لاَ یَحْمِلُ عَلَی نَاحِیَۃٍ مِنَ الْعَدُوِّ إِلاَّ ہَزَمَہُمْ ، قَالَ : وَجَعَلَ النَّاسُ یَقُولُونَ : ہَذَا مَلَکٌ ، لِمَا یَرَوْنَہُ یَصْنَعُ ، قَالَ : وَجَعَلَ سَعْدٌ یَقُولُ : الضَّبْرُ ضَبْرُ الْبَلْقَائِ ، وَالطَّعَنُ طَعَنُ أَبِی مِحْجَنٍ ، وَأَبُو مِحْجَنٍ فِی الْقَیْدِ۔
قَالَ ، فَلَمَّا ہُزِمَ الْعَدُوَّ ، رَجَعَ أَبُو مِحْجَنٍ حَتَّی وَضَعَ رِجْلَیْہِ فِی الْقَیْدِ ، فَأَخْبَرَتْ بِنْتُ خَصَفَۃَ سَعْدًا بِاَلَّذِی کَانَ مِنْ أَمْرِہِ ، قَالَ : فَقَالَ سَعْدٌ : وَاللہِ لاَ أَضْرِبُ الْیَوْمَ رَجُلاً أَبْلَی اللَّہُ الْمُسْلِمِینَ عَلَی یَدَیْہِ مَا أَبْلاَہُمْ ، قَالَ : فَخَلَّی سَبِیلَہُ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو مِحْجَنٍ : قَدْ کُنْتُ أَشْرَبُہَا حَیْثُ کَانَ یُقَامُ عَلَیَّ الْحَدُّ ، فَأَظْہَرُ مِنْہَا ، فَأَمَّا إِذْ بَہْرَجَتْنِی فَلاَ وَاللہِ لاَ أَشْرَبُہَا أَبَدًا۔
کَفَی حُزْنًا أَنْ تُرْدَی الْخَیْلُ بِالْقَنَا ۔۔۔ وَأُتْرَکُ مَشْدُودًا عَلَیَّ وَثَاقِیَا
فَقَالَ لاِبْنَۃِ خَصَفَۃَ ، امْرَأَۃِ سَعْدٍ : أَطْلِقِینِی وَلَکِ عَلَیَّ إِنْ سَلَّمَنِیَ اللَّہُ أَنْ أَرْجِعَ حَتَّی أَضَعَ رِجْلِی فِی الْقَیْدِ ، وَإِنْ قُتِلْتُ اسْتَرَحْتُمْ ، قَالَ : فَحَلَّتْہُ حِینَ الْتَقَی النَّاسُ۔
قَالَ : فَوَثَبَ عَلَی فَرَسٍ لِسَعْدٍ یُقَالَ لَہَا : الْبَلْقَائُ ، قَالَ ، ثُمَّ أَخَذَ رُمْحًا ، ثُمَّ خَرَجَ ، فَجَعَلَ لاَ یَحْمِلُ عَلَی نَاحِیَۃٍ مِنَ الْعَدُوِّ إِلاَّ ہَزَمَہُمْ ، قَالَ : وَجَعَلَ النَّاسُ یَقُولُونَ : ہَذَا مَلَکٌ ، لِمَا یَرَوْنَہُ یَصْنَعُ ، قَالَ : وَجَعَلَ سَعْدٌ یَقُولُ : الضَّبْرُ ضَبْرُ الْبَلْقَائِ ، وَالطَّعَنُ طَعَنُ أَبِی مِحْجَنٍ ، وَأَبُو مِحْجَنٍ فِی الْقَیْدِ۔
قَالَ ، فَلَمَّا ہُزِمَ الْعَدُوَّ ، رَجَعَ أَبُو مِحْجَنٍ حَتَّی وَضَعَ رِجْلَیْہِ فِی الْقَیْدِ ، فَأَخْبَرَتْ بِنْتُ خَصَفَۃَ سَعْدًا بِاَلَّذِی کَانَ مِنْ أَمْرِہِ ، قَالَ : فَقَالَ سَعْدٌ : وَاللہِ لاَ أَضْرِبُ الْیَوْمَ رَجُلاً أَبْلَی اللَّہُ الْمُسْلِمِینَ عَلَی یَدَیْہِ مَا أَبْلاَہُمْ ، قَالَ : فَخَلَّی سَبِیلَہُ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو مِحْجَنٍ : قَدْ کُنْتُ أَشْرَبُہَا حَیْثُ کَانَ یُقَامُ عَلَیَّ الْحَدُّ ، فَأَظْہَرُ مِنْہَا ، فَأَمَّا إِذْ بَہْرَجَتْنِی فَلاَ وَاللہِ لاَ أَشْرَبُہَا أَبَدًا۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩৫
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٣٦) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص اپنا لشکر لے کر قادسیہ پہنچے۔ میرے خیال میں ہم لوگ سات یا آٹھ ہزار سے زائد نہیں تھے۔ جبکہ مشرک دشمن ساٹھ ہزار سے زائد تھے۔ ان کے پاس ہاتھی بھی تھے۔ جب وہ میدان میں اترے تو انھوں نے ہم سے کہا کہ واپس چلے جاؤ، نہ تمہارے پاس تعداد ہے، نہ قوت ہے اور نہ ہی اسلحہ۔ واپس چلے جاؤ۔ ہم نے کہا کہ ہم واپس نہیں جائیں گے۔ وہ ہمارے تیروں کو دیکھ کر بھی ہنستے تھے اور انھیں چرخے سے تشبیہ دیتے تھے۔ جب ہم نے ان کی بات ماننے اور واپس جانے سے انکار کردیا تو انھوں نے کہا کہ کسی سمجھدار آدمی کو ہمارے پاس بھیجو جو تمہاری آمد کے مقصد کو ہمارے لیے واضح کردے کیونکہ ہم تو نہ تم میں کوئی تعداد دیکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی قوت !
(٢) اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں ان کے پاس جاتا ہوں۔ حضرت مغیرہ ان کے پاس گئے اور جاکر رستم کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھ گئے۔ یہ بات رستم کو اور اس کے ساتھیوں کو بہت ناگوار محسوس ہوئی۔ حضرت مغیرہ نے کہا کہ میرے یہاں بیٹھنے سے نہ تو میری عزت میں اضافہ ہوا ہے اور نہ تمہارے بادشاہ کی شان میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ رستم نے کہا کہ مجھے بتاؤ کہ تم اپنے شہر سے یہاں کیوں آئے ہو کیونکہ میں تم میں نہ کوئی تعداد دیکھتا ہوں اور نہ ہی قوت ؟ اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے فرمایا کہ ہم ایک ایسی قوم تھے جو بدبختی اور گمراہی کا شکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک نبی کو بھیجا جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی وجہ سے ہمیں روزی بھی عطا کی۔ جو روزی ان کی وجہ سے ہمیں ملی اس میں ایک ایسا غلہ تھا جس کے بارے میں لوگوں کو خیال ہے کہ وہ اس سرزمین میں پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم نے اسے کھایا اور اپنے گھر والوں کو کھلایا تو لوگوں نے کہا کہ ہمارے لیے اس وقت تک کوئی بھلائی نہیں جب تک ہم اس سرزمین میں جاکر اس غلے کونہ کھالیں۔
(٣) رستم نے کہا کہ پھر ہم تمہیں قتل کریں گے۔ حضرت مغیرہ نے کہا کہ اگر تم ہمیں قتل کرو گے تو ہم جنت میں داخل ہوں گے اور اگر ہم نے تمہیں قتل کیا تو تم جہنم میں جاؤ گے۔ لڑائی نہ ہونے کی صورت میں تمہیں جزیہ دینا ہوگا۔ جب حضرت مغیرہ نے کہا کہ تمہیں جزیہ دینا ہوگا تو وہ لوگ چیخنے لگے اور شدید غصے کا اظہار کرنے لگے۔ اور کہا کہ تمہاری اور ہماری صلح نہیں ہوگی۔ پھر حضرت مغیرہ نے فرمایا کہ تم ہماری طرف پیش قدمی کرتے ہو یا ہم تمہاری طرف بڑھیں ؟ رستم نے کہا کہ ہم تمہاری طرف آتے ہیں۔ پس مسلمان پیچھے ہوئے اور ان میں سے جس نے آگے بڑھنا تھا آگے بڑھا اور مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا، انھیں قتل کیا اور انھیں شکست دے دی۔ راوی حضرت حصین فرماتے ہیں کہ ان کے بادشاہ رستم کا تعلق آذربائیجان سے تھا۔
(٤) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ایک بزرگ عبید بن جحش کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم آدمیوں کی پشتوں پر چل رہے تھے اور آدمیوں کی پشتوں پر خندق عبورکر رہے تھے۔ انھیں کسی ہتھیارنے چھوا تک نہیں تھا، انھوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا۔ ہمیں ایک شیشی میں کچھ کافورملی، ہم نے سمجھا کہ یہ نمک ہے۔ چنانچہ ہم نے گوشت پکایا اور اس پرا سے چھڑکا لیکن ہمیں کچھ ذائقہ محسوس نہ ہوا۔ ہمارے پاس سے ایک قمیص میں ملبوس ایک عیسائی راہب گزرا اور اس نے کہا کہ اے عرب کے لوگو ! اپنا کھانا خراب نہ کرو۔ اس سرزمین کے نمک میں کوئی خیر نہیں۔ کیا میں تمہیں اس کے بدلے یہ قمیص دے دوں۔ چنانچہ نے ہم نے وہ شیشی ایک قمیص کے بدلے اسے دے دی اور وہ قمیص اپنے ایک ساتھی کو دی اور وہ اس نے پہن لی۔ ہم اسے گھمانے لگے اور خوش ہونے لگے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس قمیص کی قیمت دو درہم ہے۔
(٥) عبید بن جحش نامی بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس نے دو کنگن پہن رکھے تھے، اس کا ہتھیار ایک قبر میں تھا۔ میں نے اسے باہر نکلنے کو کہا وہ باہر نکلا، نہ اس نے ہم سے بات کی اور نہ ہم نے اس سے بات کی اور ہم نے اسے قتل کردیا۔ پھر ہم نے انھیں شکست دے دی اور وہ فرات چلے گئے۔ ہم نے انھیں تلاش کیا اور شکست خوردہ ہو کر سوراء تک چلے گئے۔ پھر ہم نے انھیں تلاش کیا، انھیں شکست دی تو وہ صراۃ چلے گئے، پھر ہم نے انھیں تلاش کیا، انھیں شکست دی تو وہ مدائن چلے گئے۔ پھر ہم کوثیٰ نامی جگہ ٹھہرے، وہاں مشرکین کے مسلح جنگجو تھے۔ مسلمانوں کے گھڑ سواروں نے ان سے جنگ کی تو وہ شکست کھا کرمدائن چلے گئے۔
(٦) پھر مسلمان چلے اور دریائے دجلہ کے کنارے جاکر پڑاؤ ڈالا۔ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت نے کلواذی یا اس کی نچلی جانب سے مدائن کو عبور کیا اور کافروں کا محاصرہ کرلیا۔ یہاں تک کہ ان کے پاس کھانے کے لیے ان کے کتوں اور بلیوں کے سوا کچھ نہ بچا۔ پھر ایک رات کے بعد وہ جلولاء آئے اور حضرت سعد (رض) لوگوں کو لے کر چلے اور حضرت ہاشم بن عتبہ لوگوں کے آگے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے دشمنوں کو ہلاک کردیا اور ان میں سے کچھ لوگ نہاوند چلے گئے۔ حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کو جلولاء میں شکست ہوگئی تو وہ نہاوند چلے گئے۔ حضرت عمر (رض) نے کوفہ والوں پر حضرت حذیفہ بن یمان کو اور بصرہ والوں پر مجاشع بن مسعود سلمی کو حاکم بنادیا۔ پھر حضرت عمرو بن معدی کرب ان کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے میرے گھوڑے جیسا گھوڑا اور میرے ہتھیار جیسا ہتھیار دو ۔ انھوں نے کہا کہ ہاں میں تمہیں اپنے مال میں سے دیتا ہوں۔ پھر عمرو بن معدیکرب نے ان سے کہا کہ ہم نے تمہاری ہجو کی لیکن ہم نے تمہیں خاموش نہ کرایا۔ ہم نے تم سے قتال کیا لیکن ہم نے تمہیں بزدل نہ کیا اور ہم نے تم سے سوال کیا لیکن ہم نے تمہیں بخیل نہ بنایا۔
(٧) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت نعمان بن مقرن کسکر کے حاکم تھے۔ انھوں نے حضرت عمر کو خط لکھا جس میں انھوں نے تحریر کیا کہ اے امیر المؤمنین ! میری اور کسکر کی مثال اس نوجوان کی سی ہے جو کسی فاحشہ عورت کے پاس ہو اور وہ عورت اس کے لیے زیب وزینت اختیار کرے اور خوشبو لگائے۔ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ مجھے کسکر سے معزول کرکے کسی لشکر میں بھیج دیں۔ حضرت عمر (رض) نے انھیں جواب میں فرمایا کہ تم نہاوند چلے جاؤ اور تم وہاں کے لشکر کے امیر ہو۔
(٨) حضرت نعمان بن مقرن وہاں فوج سے جاملے اور مشرکین سے لڑائی کی اور وہ پہلے شہید ثابت ہوئے۔ پھر سوید بن مقرن نے جھنڈا تھاما اور اللہ پاک نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی۔ اور مشرکین کو ہلاک فرمادیا اور اس کے بعد سے ان کی کوئی جماعت سر نہ اٹھا سکی۔ ہر شہر والے اپنے دشمنوں اور ان کے شہروں کی طرف جایا کرتے تھے۔
(٩) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کو مدائن میں شکست ہوگئی تو وہ جلولاء میں مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ پھر وہ واپس آگئے اور حضرت عمار بن یاسر کو بھیج دیا۔ وہ چلے اور مدائن پہنچے۔ اور ارادہ کیا کہ لوگوں کو وہاں اتاریں۔ وہاں لوگوں کی صحت خراب ہوگئی اور انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔ حضرت عمر (رض) کو یہ بات معلوم ہوئی کہ لوگوں نے اس جگہ کو پسند نہیں کیا۔ تو آپ نے سوال کیا کہ کیا اونٹ وہاں ٹھیک رہتے ہیں ؟ آپ کو بتایا گیا کہ نہیں کیونکہ وہاں مچھر بہت ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ عرب اس جگہ ٹھیک نہیں رہتے جہاں اونٹ ٹھیک نہ رہتے ہوں۔ پھر لوگ وہاں سے واپس آگئے۔ پھر حضرت سعد (رض) ایک عیسائی راہب کو ملے۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں ایک ایسی سرزمین کے بارے میں بتاتا ہوں جو نشیب سے بلند ہے، ٹیلے سے کم تر ہے۔ اس کی آب وہوا معتدل ہے اور وہ تمام مخلوق کے لیے عمدہ ہے۔ اور وہ حیرہ اور فرات کے درمیان کی سرزمین ہے۔
(٢) اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں ان کے پاس جاتا ہوں۔ حضرت مغیرہ ان کے پاس گئے اور جاکر رستم کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھ گئے۔ یہ بات رستم کو اور اس کے ساتھیوں کو بہت ناگوار محسوس ہوئی۔ حضرت مغیرہ نے کہا کہ میرے یہاں بیٹھنے سے نہ تو میری عزت میں اضافہ ہوا ہے اور نہ تمہارے بادشاہ کی شان میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ رستم نے کہا کہ مجھے بتاؤ کہ تم اپنے شہر سے یہاں کیوں آئے ہو کیونکہ میں تم میں نہ کوئی تعداد دیکھتا ہوں اور نہ ہی قوت ؟ اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے فرمایا کہ ہم ایک ایسی قوم تھے جو بدبختی اور گمراہی کا شکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک نبی کو بھیجا جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی وجہ سے ہمیں روزی بھی عطا کی۔ جو روزی ان کی وجہ سے ہمیں ملی اس میں ایک ایسا غلہ تھا جس کے بارے میں لوگوں کو خیال ہے کہ وہ اس سرزمین میں پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم نے اسے کھایا اور اپنے گھر والوں کو کھلایا تو لوگوں نے کہا کہ ہمارے لیے اس وقت تک کوئی بھلائی نہیں جب تک ہم اس سرزمین میں جاکر اس غلے کونہ کھالیں۔
(٣) رستم نے کہا کہ پھر ہم تمہیں قتل کریں گے۔ حضرت مغیرہ نے کہا کہ اگر تم ہمیں قتل کرو گے تو ہم جنت میں داخل ہوں گے اور اگر ہم نے تمہیں قتل کیا تو تم جہنم میں جاؤ گے۔ لڑائی نہ ہونے کی صورت میں تمہیں جزیہ دینا ہوگا۔ جب حضرت مغیرہ نے کہا کہ تمہیں جزیہ دینا ہوگا تو وہ لوگ چیخنے لگے اور شدید غصے کا اظہار کرنے لگے۔ اور کہا کہ تمہاری اور ہماری صلح نہیں ہوگی۔ پھر حضرت مغیرہ نے فرمایا کہ تم ہماری طرف پیش قدمی کرتے ہو یا ہم تمہاری طرف بڑھیں ؟ رستم نے کہا کہ ہم تمہاری طرف آتے ہیں۔ پس مسلمان پیچھے ہوئے اور ان میں سے جس نے آگے بڑھنا تھا آگے بڑھا اور مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا، انھیں قتل کیا اور انھیں شکست دے دی۔ راوی حضرت حصین فرماتے ہیں کہ ان کے بادشاہ رستم کا تعلق آذربائیجان سے تھا۔
(٤) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ایک بزرگ عبید بن جحش کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم آدمیوں کی پشتوں پر چل رہے تھے اور آدمیوں کی پشتوں پر خندق عبورکر رہے تھے۔ انھیں کسی ہتھیارنے چھوا تک نہیں تھا، انھوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا۔ ہمیں ایک شیشی میں کچھ کافورملی، ہم نے سمجھا کہ یہ نمک ہے۔ چنانچہ ہم نے گوشت پکایا اور اس پرا سے چھڑکا لیکن ہمیں کچھ ذائقہ محسوس نہ ہوا۔ ہمارے پاس سے ایک قمیص میں ملبوس ایک عیسائی راہب گزرا اور اس نے کہا کہ اے عرب کے لوگو ! اپنا کھانا خراب نہ کرو۔ اس سرزمین کے نمک میں کوئی خیر نہیں۔ کیا میں تمہیں اس کے بدلے یہ قمیص دے دوں۔ چنانچہ نے ہم نے وہ شیشی ایک قمیص کے بدلے اسے دے دی اور وہ قمیص اپنے ایک ساتھی کو دی اور وہ اس نے پہن لی۔ ہم اسے گھمانے لگے اور خوش ہونے لگے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس قمیص کی قیمت دو درہم ہے۔
(٥) عبید بن جحش نامی بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس نے دو کنگن پہن رکھے تھے، اس کا ہتھیار ایک قبر میں تھا۔ میں نے اسے باہر نکلنے کو کہا وہ باہر نکلا، نہ اس نے ہم سے بات کی اور نہ ہم نے اس سے بات کی اور ہم نے اسے قتل کردیا۔ پھر ہم نے انھیں شکست دے دی اور وہ فرات چلے گئے۔ ہم نے انھیں تلاش کیا اور شکست خوردہ ہو کر سوراء تک چلے گئے۔ پھر ہم نے انھیں تلاش کیا، انھیں شکست دی تو وہ صراۃ چلے گئے، پھر ہم نے انھیں تلاش کیا، انھیں شکست دی تو وہ مدائن چلے گئے۔ پھر ہم کوثیٰ نامی جگہ ٹھہرے، وہاں مشرکین کے مسلح جنگجو تھے۔ مسلمانوں کے گھڑ سواروں نے ان سے جنگ کی تو وہ شکست کھا کرمدائن چلے گئے۔
(٦) پھر مسلمان چلے اور دریائے دجلہ کے کنارے جاکر پڑاؤ ڈالا۔ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت نے کلواذی یا اس کی نچلی جانب سے مدائن کو عبور کیا اور کافروں کا محاصرہ کرلیا۔ یہاں تک کہ ان کے پاس کھانے کے لیے ان کے کتوں اور بلیوں کے سوا کچھ نہ بچا۔ پھر ایک رات کے بعد وہ جلولاء آئے اور حضرت سعد (رض) لوگوں کو لے کر چلے اور حضرت ہاشم بن عتبہ لوگوں کے آگے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے دشمنوں کو ہلاک کردیا اور ان میں سے کچھ لوگ نہاوند چلے گئے۔ حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کو جلولاء میں شکست ہوگئی تو وہ نہاوند چلے گئے۔ حضرت عمر (رض) نے کوفہ والوں پر حضرت حذیفہ بن یمان کو اور بصرہ والوں پر مجاشع بن مسعود سلمی کو حاکم بنادیا۔ پھر حضرت عمرو بن معدی کرب ان کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے میرے گھوڑے جیسا گھوڑا اور میرے ہتھیار جیسا ہتھیار دو ۔ انھوں نے کہا کہ ہاں میں تمہیں اپنے مال میں سے دیتا ہوں۔ پھر عمرو بن معدیکرب نے ان سے کہا کہ ہم نے تمہاری ہجو کی لیکن ہم نے تمہیں خاموش نہ کرایا۔ ہم نے تم سے قتال کیا لیکن ہم نے تمہیں بزدل نہ کیا اور ہم نے تم سے سوال کیا لیکن ہم نے تمہیں بخیل نہ بنایا۔
(٧) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ حضرت نعمان بن مقرن کسکر کے حاکم تھے۔ انھوں نے حضرت عمر کو خط لکھا جس میں انھوں نے تحریر کیا کہ اے امیر المؤمنین ! میری اور کسکر کی مثال اس نوجوان کی سی ہے جو کسی فاحشہ عورت کے پاس ہو اور وہ عورت اس کے لیے زیب وزینت اختیار کرے اور خوشبو لگائے۔ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ مجھے کسکر سے معزول کرکے کسی لشکر میں بھیج دیں۔ حضرت عمر (رض) نے انھیں جواب میں فرمایا کہ تم نہاوند چلے جاؤ اور تم وہاں کے لشکر کے امیر ہو۔
(٨) حضرت نعمان بن مقرن وہاں فوج سے جاملے اور مشرکین سے لڑائی کی اور وہ پہلے شہید ثابت ہوئے۔ پھر سوید بن مقرن نے جھنڈا تھاما اور اللہ پاک نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی۔ اور مشرکین کو ہلاک فرمادیا اور اس کے بعد سے ان کی کوئی جماعت سر نہ اٹھا سکی۔ ہر شہر والے اپنے دشمنوں اور ان کے شہروں کی طرف جایا کرتے تھے۔
(٩) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کو مدائن میں شکست ہوگئی تو وہ جلولاء میں مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ پھر وہ واپس آگئے اور حضرت عمار بن یاسر کو بھیج دیا۔ وہ چلے اور مدائن پہنچے۔ اور ارادہ کیا کہ لوگوں کو وہاں اتاریں۔ وہاں لوگوں کی صحت خراب ہوگئی اور انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔ حضرت عمر (رض) کو یہ بات معلوم ہوئی کہ لوگوں نے اس جگہ کو پسند نہیں کیا۔ تو آپ نے سوال کیا کہ کیا اونٹ وہاں ٹھیک رہتے ہیں ؟ آپ کو بتایا گیا کہ نہیں کیونکہ وہاں مچھر بہت ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ عرب اس جگہ ٹھیک نہیں رہتے جہاں اونٹ ٹھیک نہ رہتے ہوں۔ پھر لوگ وہاں سے واپس آگئے۔ پھر حضرت سعد (رض) ایک عیسائی راہب کو ملے۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں ایک ایسی سرزمین کے بارے میں بتاتا ہوں جو نشیب سے بلند ہے، ٹیلے سے کم تر ہے۔ اس کی آب وہوا معتدل ہے اور وہ تمام مخلوق کے لیے عمدہ ہے۔ اور وہ حیرہ اور فرات کے درمیان کی سرزمین ہے۔
(۳۴۴۳۶) حَدَّثَنَا عَفَّانٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُصَیْنٌ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : جَائَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ حَتَّی نَزَلَ الْقَادِسِیَّۃَ وَمَعَہُ النَّاسُ ، قَالَ : فَمَا أَدْرِی لَعَلَّنَا أَنْ لاَ نَزِیدَ عَلَی سَبْعَۃِ آلاَفٍ ، أَوْ ثَمَانِیَۃِ آلاَفٍ ، بَیْنَ ذَلِکَ ، وَالْمُشْرِکُونَ سِتُونَ أَلْفًا ، أَوْ نَحْوَ ذَلِکَ ، مَعَہُمَ الْفُیُولُ ، قَالَ : فَلَمَّا نَزَلُوا ، قَالُوا لَنَا : ارْجِعُوا فَإِنَّا لاَ نَرَی لَکُمْ عَدَدًا ، وَلاَ نَرَی لَکُمْ قُوَّۃً ، وَلاَ سِلاَحًا ، فَارْجِعُوا ، قَالَ : قُلْنَا : مَا نَحْنُ بِرَاجِعِینَ ، قَالَ : وَجَعَلُوا یَضْحَکُونَ بِنَبْلِنَا ، وَیَقُولُونَ : دُوک ، یُشَبِّہُونَہَا بِالْمُغَازَلِ ، قَالَ : فَلَمَّا أَبَیْنَا عَلَیْہِمْ ، قَالُوا : ابْعَثُوا إِلَیْنَا رَجُلاً عَاقِلاً یُخْبِرُنَا بِاَلَّذِی جَائَ بِکُمْ مِنْ بِلاَدِکُمْ ، فَإِنَّا لاَ نَرَی لَکُمْ عَدَدًا ، وَلاَ عُدَّۃً۔
قَالَ : فَقَالَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ : أَنَا ، قَالَ : فَعَبَرَ إِلَیْہِمْ ، قَالَ : فَجَلَسَ مَعَ رُسْتُمَ عَلَی السَّرِیرِ ، قَالَ : فَنَخَرَ وَنَخَرُوا حِینَ جَلَسَ مَعَہُ عَلَی السَّرِیرِ ، قَالَ : قَالَ الْمُغِیرَۃُ : وَاللَّہِ مَا زَادَنِی فِی مَجْلِسِی ہَذَا ، وَلاَ نَقَصَ صَاحِبُکُمْ ، قَالَ : فَقَالَ : أَخْبَرُونِی مَا جَائَ بِکُمْ مِنْ بِلاَدِکُمْ ، فَإِنِّی لاَ أَرَی لَکُمْ عَدَدًا ، وَلاَ عُدَّۃً ؟ قَالَ : فَقَالَ: کُنَّا قَوْمًا فِی شَقَائٍ وَضَلاَلَۃٍ ، فَبَعَثَ اللَّہُ فِینَا نَبِیَّنَا ، فَہَدَانَا اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، وَرَزَقَنَا عَلَی یَدَیْہِ ، فَکَانَ فِیمَا رَزَقَنَا حَبَّۃٌ ، زَعَمُوا أَنَّہَا تَنْبُتُ بِہَذِہِ الأَرْضِ ، فَلَمَّا أَکَلْنَا مِنْہَا ، وَأَطْعَمْنَا مِنْہَا أَہْلِینَا ، قَالُوا : لاَ خَیْرَ لَنَا حَتَّی تَنْزِلُوا ہَذِہِ الْبِلاَدَ فَنَأْکُلُ ہَذِہِ الْحَبَّۃَ۔
قَالَ : فَقَالَ رُسْتُمُ : إِذًا نَقْتُلُکُمْ ، قَالَ : فَقَالَ : فَإِنْ قَتَلْتُمُونَا دَخَلْنَا الْجَنَّۃَ ، وَإِنْ قَتَلْنَاکُمْ دَخَلْتُمَ النَّارَ ، وَإِلاَّ أَعْطَیْتُمَ الْجِزْیَۃَ ، قَالَ : فَلَمَّا قَالَ أَعْطَیْتُمَ الْجِزْیَۃَ ، قَالَ : صَاحُو وَنَخَرُوا ، وَقَالُوا : لاَ صُلْحَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ ، فَقَالَ الْمُغِیرَۃُ : أَتَعْبُرُونَ إِلَیْنَا ، أَوْ نَعْبُرُ إِلَیْکُمْ ؟ قَالَ : فَقَالَ رُسْتُمُ : بَلْ نَعْبُرُ إِلَیْکُمْ ، قَالَ : فَاسْتَأْخَرَ عَنْہُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّی عَبَرَ مِنْہُمْ مَنْ عَبَرَ ، قَالَ : فَحَمَلَ عَلَیْہِمَ الْمُسْلِمُونَ فَقَتَلُوہُمْ وَہَزَمُوہُمْ۔
قَالَ حُصَیْنٌ : کَانَ مَلِکُہُمْ رُسْتُمُ مِنْ أَہْلِ آذَرْبِیجَانَ۔
قَالَ حُصَیْنٌ : وَسَمِعْتُ شَیْخًا مِنَّا ، یُقَالَ لَہُ : عُبَیْدُ بْنُ جَحْشٍ : قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُنَا نَمْشِی عَلَی ظُہُورِ الرِّجَالِ ، نَعْبُرُ الْخَنْدَقَ عَلَی ظُہُورِ الرِّجَالِ ، مَا مَسَّہُمْ سِلاَحٌ ،
قَدْ قَتَلَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، قَالَ : وَوَجَدْنَا جِرَابًا فِیہِ کَافُورٌ ، قَالَ : فَحَسِبْنَاہُ مِلْحًا ، لاَ نَشُکُّ فِیہِ أَنَّہُ مِلْحٌ ، قَالَ: فَطَبَخْنَا لَحْمًا ، فَطَرَحْنَا مِنْہُ فِیہِ ، فَلَمَّا لَمْ نَجِدْ لَہُ طَعْمًا ، فَمَرَّ بِنَا عِبَادِیٌّ مَعَہُ قَمِیصٌ ، قَالَ : فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ الْمُعْبِرِینَ ، لاَ تُفْسِدُوا طَعَامَکُمْ ، فَإِنَّ مِلْحَ ہَذِہِ الأَرْضِ لاَ خَیْرَ فِیہِ ، ہَلْ لَکُمْ أَنْ أُعْطِیَکُمْ فِیہِ ہَذَا الْقَمِیصَ، قَالَ : فَأَعْطَانَا بِہِ قَمِیصًا ، فَأَعْطَیْنَاہُ صَاحِبًا لَنَا فَلَبِسَہُ ، قَالَ : فَجَعَلْنَا نُطِیفُ بِہِ وَنُعْجَبُ ، قَالَ : فَإِذَا ثَمَنُ الْقَمِیصِ حِینَ عَرَفْنَا الثِّیَابَ دِرْہَمَانِ۔ قَالَ : وَلَقَدْ رَأَیْتُنِی أَشَرْتُ إِلَی رَجُلٍ ، وَإِنَّ عَلَیْہِ لَسِوَارَیْنِ مِنْ ذَہَبٍ ، وَإِنَّ سِلاَحَہُ تَحْت فِی قَبْرٍ مِنْ تِلْکَ الْقُبُورِ ، وَأَشَرْتُ إِلَیْہِ فَخَرَجَ إِلَیْنَا ، قَالَ : فَمَا کَلَّمَنَا وَلاَ کَلَّمْنَاہُ حَتَّی ضَرَبْنَا عُنُقَہُ ، فَہَزَمْنَاہُمْ حَتَّی بَلَغُوا الْفُرَاتَ ، قَالَ : فَرَکِبْنَا فَطَلَبْنَاہُمْ فَانْہَزَمُوا حَتَّی انْتَہَوْا إِلَی سُورَائَ ، قَالَ : فَطَلَبْنَاہُمْ فَانْہَزَمُوا حَتَّی أَتَوْا الصَّراۃَ ، قَالََ : فَطَلَبْنَاہُمْ فَانْہَزَمُوا حَتَّی انْتَہَوْا إِلَی الْمَدَائِنِ، قَالَ : فَنَزَلْنَا کُوْثَی ، قَالَ : وَمَسْلحَۃً لِلْمُشْرِکِینَ بِدَیْرِی مِنَ الْمَسَالحِ تَأْتِیہمْ خَیْلُ الْمُسْلِمِینَ فَتُقَاتِلُہُمْ ، فَانْہَزَمَتْ مَسْلحَۃُ الْمُشْرِکِینَ ، حَتَّی لَحِقُوا بِالْمَدَائِنِ۔
وَسَارَ الْمُسْلِمُونَ حَتَّی نَزَلُوا عَلَی شَاطِئِ دِجْلَۃَ ، وَعَبَرَ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ کَلْوَاذَی ، أَوْ مِنْ أَسْفَلَ مِنَ الْمَدَائِنِ ، فَحَصَرُوہُمْ حَتَّی مَا یَجِدُونَ طَعَامًا ، إِلاَّ کِلاَبَہُمْ وَسَنَانِیرَہُمْ ، قَالَ : فَتَحَمَّلُوا فِی لَیْلَۃٍ حَتَّی أَتَوْا جَلُولاَئَ ، قَالَ : فَسَارَ إِلَیْہِمْ سَعْدٌ بِالنَّاسِ ، وَعَلَی مُقَدِّمَتِہِ ہَاشِمُ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : وَہُیَ الْوَقْعَۃُ الَّتِی کَانَتْ ، قَالَ : فَأَہْلَکَہُمَ اللَّہُ ، وَانْطَلَقَ فَلَّہُمْ إِلَی نَہَاوَنْدَ ۔ قَالَ : وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ : إِنَّ الْمُشْرِکِینَ لَمَّا انْہَزَمُوا مِنْ جَلُولاَئَ أَتَوْا نَہَاوَنْد ، قَالَ : فَاسْتَعْمَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی أَہْلِ الْکُوفَۃِ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ ، وَعَلَی أَہْلِ الْبَصْرَۃِ مُجَاشِعَ بْنَ مَسْعُودٍ السُّلَّمِیَّ ، قَالَ : فَأَتَاہُ عَمْرَو بْنَ مَعْدِی کَرِبَ ، فَقَالَ لَہُ : أَعْطِنِی فَرَس مِثْلِی ، وَسِلاَحَ مِثْلِی ، قَالَ : نَعَمْ ، أُعْطِیکَ مِنْ مَالِی ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عَمْرُو بْنُ مَعْدِی کَرِبَ : وَاللہِ لَقَدْ ہَاجَیْنَاکُمْ فَمَا أَفْحَمْنَاکُمْ ، وَقَاتَلْنَاکُمْ فَمَا أَجَبْنَاکُمْ ، وَسَأَلْنَاکُمْ فَمَا أَبْخَلْنَاکُمْ۔ قَالَ حُصَیْنٌ : وَکَانَ النُّعْمَانُ بْنُ مُقَرَّنٍ عَلَی کَسْکَرَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَی عُمَرَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّ مَثَلِی وَمَثَلَ کَسْکَرَ مَثَلُ رَجُلٍ شَابٍّ عِنْدَ مُومِسَۃٍ ، تُلَوَّنُ لَہُ وَتُعَطَّرُ ، وَإِنِّی أَنْشُدُک بِاللہِ لَمَا عَزَلَتْنِی عَنْ کَسْکَرَ ، وَبَعَثْتَنِی فِی جَیْشٍ مِنْ جُیُوشِ الْمُسْلِمِینَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیْہِ : سِرْ إِلَی النَّاسِ بِنَہَاوَنْد ، فَأَنْتَ عَلَیْہِمْ۔
قَالَ : فَسَارَ إِلَیْہِمْ ، قَالَ : فَالْتَقَوْا ، فَکَانَ أَوَّلَ قَتِیلٍ ، قَالَ : وَأَخَذَ سُوَیْد بْنُ مُقَرَّنٍ الرَّایَۃَ ، فَفَتَحَ اللَّہُ لَہُمْ ، وَأَہْلَکَ اللَّہُ الْمُشْرِکِینَ ، فَلَمْ تَقُمْ لَہُمْ جَمَاعَۃٌ بَعْدَ یَوْمَئِذٍ۔
قَالَ : وَکَانَ أَہْلُ کُلِّ مِصْرٍ یَسِیرُونَ إِلَی عَدُوِّہِمْ وَبِلاَدِہِمْ۔
قَالَ حُصَیْنٌ : لَمَّا ہُزِمَ الْمُشْرِکُونَ مِنَ الْمَدَائِنِ ، لَحِقَہُمْ بِجَلُولاَئَ ، ثُمَّ رَجَعَ وَبَعَثَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، فَسَارَ حَتَّی نَزَلَ الْمَدَائِنَ ، قَالَ : وَأَرَادَ أَنْ یَنْزِلَہَا بِالنَّاسِ ، فَاجْتَوَاہَا النَّاسُ وَکَرِہُوہَا ، فَبَلَغَ عُمَرُ أَنَّ النَّاسَ کَرِہُوہَا ، فَسَأَلَ : ہَلْ تصْلَحُ بِہَا الإِبِلُ ؟ قَالُوا : لاَ ، لأَنَّ بِہَا الْبَعُوضَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : فَإِنَّ الْعَرَبَ لاَ تصْلَحُ بِأَرْضٍ لاَ تصْلَحُ بِہَا الإِبِلُ ، قَالَ : فَرَجَعُوا ، قَالَ : فَلَقِیَ سَعْدٌ عِبَادِیًّا ، قَالَ : فَقَالَ : أَنَا أَدُلُّکُمْ عَلَی أَرْضٍ ارْتَفَعَتْ مِنَ الْبَقَّۃِ ، وَتَطَأْطَأَتْ مِنَ السَّبْخَۃِ ، وَتَوَسَّطَتِ الرِّیفَ ، وَطَعَنَتْ فِی أَنْفِ البَّرِیۃِ ، قَالَ : أَرْضٌ بَیْنَ الْحِیرَۃِ وَالْفُرَاتِ۔
قَالَ : فَقَالَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ : أَنَا ، قَالَ : فَعَبَرَ إِلَیْہِمْ ، قَالَ : فَجَلَسَ مَعَ رُسْتُمَ عَلَی السَّرِیرِ ، قَالَ : فَنَخَرَ وَنَخَرُوا حِینَ جَلَسَ مَعَہُ عَلَی السَّرِیرِ ، قَالَ : قَالَ الْمُغِیرَۃُ : وَاللَّہِ مَا زَادَنِی فِی مَجْلِسِی ہَذَا ، وَلاَ نَقَصَ صَاحِبُکُمْ ، قَالَ : فَقَالَ : أَخْبَرُونِی مَا جَائَ بِکُمْ مِنْ بِلاَدِکُمْ ، فَإِنِّی لاَ أَرَی لَکُمْ عَدَدًا ، وَلاَ عُدَّۃً ؟ قَالَ : فَقَالَ: کُنَّا قَوْمًا فِی شَقَائٍ وَضَلاَلَۃٍ ، فَبَعَثَ اللَّہُ فِینَا نَبِیَّنَا ، فَہَدَانَا اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، وَرَزَقَنَا عَلَی یَدَیْہِ ، فَکَانَ فِیمَا رَزَقَنَا حَبَّۃٌ ، زَعَمُوا أَنَّہَا تَنْبُتُ بِہَذِہِ الأَرْضِ ، فَلَمَّا أَکَلْنَا مِنْہَا ، وَأَطْعَمْنَا مِنْہَا أَہْلِینَا ، قَالُوا : لاَ خَیْرَ لَنَا حَتَّی تَنْزِلُوا ہَذِہِ الْبِلاَدَ فَنَأْکُلُ ہَذِہِ الْحَبَّۃَ۔
قَالَ : فَقَالَ رُسْتُمُ : إِذًا نَقْتُلُکُمْ ، قَالَ : فَقَالَ : فَإِنْ قَتَلْتُمُونَا دَخَلْنَا الْجَنَّۃَ ، وَإِنْ قَتَلْنَاکُمْ دَخَلْتُمَ النَّارَ ، وَإِلاَّ أَعْطَیْتُمَ الْجِزْیَۃَ ، قَالَ : فَلَمَّا قَالَ أَعْطَیْتُمَ الْجِزْیَۃَ ، قَالَ : صَاحُو وَنَخَرُوا ، وَقَالُوا : لاَ صُلْحَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ ، فَقَالَ الْمُغِیرَۃُ : أَتَعْبُرُونَ إِلَیْنَا ، أَوْ نَعْبُرُ إِلَیْکُمْ ؟ قَالَ : فَقَالَ رُسْتُمُ : بَلْ نَعْبُرُ إِلَیْکُمْ ، قَالَ : فَاسْتَأْخَرَ عَنْہُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّی عَبَرَ مِنْہُمْ مَنْ عَبَرَ ، قَالَ : فَحَمَلَ عَلَیْہِمَ الْمُسْلِمُونَ فَقَتَلُوہُمْ وَہَزَمُوہُمْ۔
قَالَ حُصَیْنٌ : کَانَ مَلِکُہُمْ رُسْتُمُ مِنْ أَہْلِ آذَرْبِیجَانَ۔
قَالَ حُصَیْنٌ : وَسَمِعْتُ شَیْخًا مِنَّا ، یُقَالَ لَہُ : عُبَیْدُ بْنُ جَحْشٍ : قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُنَا نَمْشِی عَلَی ظُہُورِ الرِّجَالِ ، نَعْبُرُ الْخَنْدَقَ عَلَی ظُہُورِ الرِّجَالِ ، مَا مَسَّہُمْ سِلاَحٌ ،
قَدْ قَتَلَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، قَالَ : وَوَجَدْنَا جِرَابًا فِیہِ کَافُورٌ ، قَالَ : فَحَسِبْنَاہُ مِلْحًا ، لاَ نَشُکُّ فِیہِ أَنَّہُ مِلْحٌ ، قَالَ: فَطَبَخْنَا لَحْمًا ، فَطَرَحْنَا مِنْہُ فِیہِ ، فَلَمَّا لَمْ نَجِدْ لَہُ طَعْمًا ، فَمَرَّ بِنَا عِبَادِیٌّ مَعَہُ قَمِیصٌ ، قَالَ : فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ الْمُعْبِرِینَ ، لاَ تُفْسِدُوا طَعَامَکُمْ ، فَإِنَّ مِلْحَ ہَذِہِ الأَرْضِ لاَ خَیْرَ فِیہِ ، ہَلْ لَکُمْ أَنْ أُعْطِیَکُمْ فِیہِ ہَذَا الْقَمِیصَ، قَالَ : فَأَعْطَانَا بِہِ قَمِیصًا ، فَأَعْطَیْنَاہُ صَاحِبًا لَنَا فَلَبِسَہُ ، قَالَ : فَجَعَلْنَا نُطِیفُ بِہِ وَنُعْجَبُ ، قَالَ : فَإِذَا ثَمَنُ الْقَمِیصِ حِینَ عَرَفْنَا الثِّیَابَ دِرْہَمَانِ۔ قَالَ : وَلَقَدْ رَأَیْتُنِی أَشَرْتُ إِلَی رَجُلٍ ، وَإِنَّ عَلَیْہِ لَسِوَارَیْنِ مِنْ ذَہَبٍ ، وَإِنَّ سِلاَحَہُ تَحْت فِی قَبْرٍ مِنْ تِلْکَ الْقُبُورِ ، وَأَشَرْتُ إِلَیْہِ فَخَرَجَ إِلَیْنَا ، قَالَ : فَمَا کَلَّمَنَا وَلاَ کَلَّمْنَاہُ حَتَّی ضَرَبْنَا عُنُقَہُ ، فَہَزَمْنَاہُمْ حَتَّی بَلَغُوا الْفُرَاتَ ، قَالَ : فَرَکِبْنَا فَطَلَبْنَاہُمْ فَانْہَزَمُوا حَتَّی انْتَہَوْا إِلَی سُورَائَ ، قَالَ : فَطَلَبْنَاہُمْ فَانْہَزَمُوا حَتَّی أَتَوْا الصَّراۃَ ، قَالََ : فَطَلَبْنَاہُمْ فَانْہَزَمُوا حَتَّی انْتَہَوْا إِلَی الْمَدَائِنِ، قَالَ : فَنَزَلْنَا کُوْثَی ، قَالَ : وَمَسْلحَۃً لِلْمُشْرِکِینَ بِدَیْرِی مِنَ الْمَسَالحِ تَأْتِیہمْ خَیْلُ الْمُسْلِمِینَ فَتُقَاتِلُہُمْ ، فَانْہَزَمَتْ مَسْلحَۃُ الْمُشْرِکِینَ ، حَتَّی لَحِقُوا بِالْمَدَائِنِ۔
وَسَارَ الْمُسْلِمُونَ حَتَّی نَزَلُوا عَلَی شَاطِئِ دِجْلَۃَ ، وَعَبَرَ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ کَلْوَاذَی ، أَوْ مِنْ أَسْفَلَ مِنَ الْمَدَائِنِ ، فَحَصَرُوہُمْ حَتَّی مَا یَجِدُونَ طَعَامًا ، إِلاَّ کِلاَبَہُمْ وَسَنَانِیرَہُمْ ، قَالَ : فَتَحَمَّلُوا فِی لَیْلَۃٍ حَتَّی أَتَوْا جَلُولاَئَ ، قَالَ : فَسَارَ إِلَیْہِمْ سَعْدٌ بِالنَّاسِ ، وَعَلَی مُقَدِّمَتِہِ ہَاشِمُ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : وَہُیَ الْوَقْعَۃُ الَّتِی کَانَتْ ، قَالَ : فَأَہْلَکَہُمَ اللَّہُ ، وَانْطَلَقَ فَلَّہُمْ إِلَی نَہَاوَنْدَ ۔ قَالَ : وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ : إِنَّ الْمُشْرِکِینَ لَمَّا انْہَزَمُوا مِنْ جَلُولاَئَ أَتَوْا نَہَاوَنْد ، قَالَ : فَاسْتَعْمَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی أَہْلِ الْکُوفَۃِ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ ، وَعَلَی أَہْلِ الْبَصْرَۃِ مُجَاشِعَ بْنَ مَسْعُودٍ السُّلَّمِیَّ ، قَالَ : فَأَتَاہُ عَمْرَو بْنَ مَعْدِی کَرِبَ ، فَقَالَ لَہُ : أَعْطِنِی فَرَس مِثْلِی ، وَسِلاَحَ مِثْلِی ، قَالَ : نَعَمْ ، أُعْطِیکَ مِنْ مَالِی ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عَمْرُو بْنُ مَعْدِی کَرِبَ : وَاللہِ لَقَدْ ہَاجَیْنَاکُمْ فَمَا أَفْحَمْنَاکُمْ ، وَقَاتَلْنَاکُمْ فَمَا أَجَبْنَاکُمْ ، وَسَأَلْنَاکُمْ فَمَا أَبْخَلْنَاکُمْ۔ قَالَ حُصَیْنٌ : وَکَانَ النُّعْمَانُ بْنُ مُقَرَّنٍ عَلَی کَسْکَرَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَی عُمَرَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّ مَثَلِی وَمَثَلَ کَسْکَرَ مَثَلُ رَجُلٍ شَابٍّ عِنْدَ مُومِسَۃٍ ، تُلَوَّنُ لَہُ وَتُعَطَّرُ ، وَإِنِّی أَنْشُدُک بِاللہِ لَمَا عَزَلَتْنِی عَنْ کَسْکَرَ ، وَبَعَثْتَنِی فِی جَیْشٍ مِنْ جُیُوشِ الْمُسْلِمِینَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیْہِ : سِرْ إِلَی النَّاسِ بِنَہَاوَنْد ، فَأَنْتَ عَلَیْہِمْ۔
قَالَ : فَسَارَ إِلَیْہِمْ ، قَالَ : فَالْتَقَوْا ، فَکَانَ أَوَّلَ قَتِیلٍ ، قَالَ : وَأَخَذَ سُوَیْد بْنُ مُقَرَّنٍ الرَّایَۃَ ، فَفَتَحَ اللَّہُ لَہُمْ ، وَأَہْلَکَ اللَّہُ الْمُشْرِکِینَ ، فَلَمْ تَقُمْ لَہُمْ جَمَاعَۃٌ بَعْدَ یَوْمَئِذٍ۔
قَالَ : وَکَانَ أَہْلُ کُلِّ مِصْرٍ یَسِیرُونَ إِلَی عَدُوِّہِمْ وَبِلاَدِہِمْ۔
قَالَ حُصَیْنٌ : لَمَّا ہُزِمَ الْمُشْرِکُونَ مِنَ الْمَدَائِنِ ، لَحِقَہُمْ بِجَلُولاَئَ ، ثُمَّ رَجَعَ وَبَعَثَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ ، فَسَارَ حَتَّی نَزَلَ الْمَدَائِنَ ، قَالَ : وَأَرَادَ أَنْ یَنْزِلَہَا بِالنَّاسِ ، فَاجْتَوَاہَا النَّاسُ وَکَرِہُوہَا ، فَبَلَغَ عُمَرُ أَنَّ النَّاسَ کَرِہُوہَا ، فَسَأَلَ : ہَلْ تصْلَحُ بِہَا الإِبِلُ ؟ قَالُوا : لاَ ، لأَنَّ بِہَا الْبَعُوضَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : فَإِنَّ الْعَرَبَ لاَ تصْلَحُ بِأَرْضٍ لاَ تصْلَحُ بِہَا الإِبِلُ ، قَالَ : فَرَجَعُوا ، قَالَ : فَلَقِیَ سَعْدٌ عِبَادِیًّا ، قَالَ : فَقَالَ : أَنَا أَدُلُّکُمْ عَلَی أَرْضٍ ارْتَفَعَتْ مِنَ الْبَقَّۃِ ، وَتَطَأْطَأَتْ مِنَ السَّبْخَۃِ ، وَتَوَسَّطَتِ الرِّیفَ ، وَطَعَنَتْ فِی أَنْفِ البَّرِیۃِ ، قَالَ : أَرْضٌ بَیْنَ الْحِیرَۃِ وَالْفُرَاتِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩৬
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٣٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ کے موقع پر حضرت عمر (رض) نے حضرت سعد کے نام ایک خط لکھا جس میں لکھا کہ میں آپ کی طرف حجاز والوں کو اور یمن والوں کو بھیج رہا ہوں، ان میں سے جو قتال کے قابل ہو اسے مال غنیمت میں سے حصہ دیجئے۔
(۳۴۴۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إِلَی سَعْدٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ : إِنِّی قَدْ بَعَثْتُ إِلَیْک أَہْلَ الْحِجَازِ وَأَہْلَ الْیَمَنِ ، فَمَنْ أَدْرَکَ مِنْہُمَ الْقِتَالَ قَبْلَ أَنْ یَتَفَقَّؤُوا ، فَأَسْہِمْ لَہُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩৭
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٣٨) حضرت نعیم بن ابی ہند فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں ایک آدمی نے دعا کی کہ اے اللہ ! میری بیوی حدیہ کالی اور دیہاتن ہے آج میری شادی موٹی آنکھوں والی حور سے کردے۔ پھر وہ میدان جنگ میں آگے بڑھا اور شہید ہوگیا۔ جب لوگوں کا اس کی نعش کے پاس سے گزر ہوا تو وہ ایک بہت بڑے پہلوان سے لپٹا ہوا تھا۔
(۳۴۴۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ : اللَّہُمَّ إِنَّ حُدَیۃ سَوْدَائُ بَدِیۃٌ ؟ فَزَوِّجْنِی الْیَوْمَ مِنَ الْحُورِ الْعَیْنِ ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقُتِلَ ، قَالَ : فَمَرُّوا عَلَیْہِ وَہُوَ مُعَانِقُ رَجُلٍ عَظِیمٍ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩৮
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٣٩) حضرت سعد بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ قادسیہ کی جنگ میں ایک آدمی کے پاس سے گزرے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے تھے۔ وہ قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے : { مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا } ان کے پاس سے گزرنے والے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں ایک انصاری ہوں۔
(۳۴۴۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَرُّوا عَلَی رَجُلٍ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ وَقَدْ قُطِعَتْ یَدَاہُ وَرِجْلاَہُ ، وَہُوَ یُفْحَصُ وَہُوَ یَقُولُ : {مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا}، قَالَ: فَقَالَ: مَا أَنْتَ یَا عَبْدَ اللہِ؟ قَالَ: أَنَا امْرُؤٌ مِنَ الأَنْصَارِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৩৯
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٤٠) حضرت براء فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے مجھے حکم دیا کہ میں قادسیہ میں یہ اعلان کروں کہ کدو کے بنے ہوئے برتن، لکڑی کے برتن اور تارکول چڑھے برتن میں نبیذ نہیں بنائی جائے گی۔
(۳۴۴۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : أَمَرَنِی عُمَرُ أَنْ أُنَادِیَ بِالْقَادِسِیَّۃِ : لاَ یُنْبَذُ فِی دُبَّائَ ، وَلاَ حَنْتَمٍ ، وَلاَ مُزَفَّتٍ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৪০
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٤١) حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ قادسیہ میں ہمارے پاس حضرت ابوبکر (رض) کا خط آیا اور وہ حضرت عبداللہ بن ارقم نے لکھا تھا۔
(۳۴۴۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِیقٍ ، قَالَ : جَائَنَا کِتَابُ أَبِی بَکْرٍ بِالْقَادِسِیَّۃِ ، وَکَتَبَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الأَرْقَمِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৪১
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٤٢) حضرت شبر بن علقمہ فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ میں اہل فارس کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے مقابلے کی دعوت دی۔ اس نے اپنی بہادری کا ذکر کیا۔ پھر ایک چھوٹے قد کے آدمی جن کا نام شبر بن علقمہ تھا۔ وہ اس کی طرف آگے بڑھے، اس فارسی پہلوان نے شبر کو اٹھا کر زمین پردے مارا۔ شبر نے اس فارسی پہلوان کا خنجر پکڑا، اور اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ پھر اسے مار ڈالا۔ پھر اس کا سامان لے کر حضرت سعد (رض) کے پاس آئے۔ حضرت سعد (رض) نے بارہ ہزار درہم کی قیمت لگائی اور اسے مال غنیمت کے طور پردے دیا۔
(۳۴۴۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ الْعَبْدِیِّ ، عَنْ شِبْرِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْقَادِسِیَّۃِ قَامَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ فَارِسَ فَدَعَا إِلَی الْمُبَارِزَۃِ ، فَذَکَرَ مِنْ عِظَمِہِ ، فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلٌ قَصِیرٌ ، یُقَالَ لَہُ : شِبْرُ بْنُ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ الْفَارِسِیُّ ہَکَذَا ، یَعْنِی احْتَمَلَہُ ، ثُمَّ ضَرَبَ بِہِ الأَرْضَ فَصَرَعَہُ ، قَالَ : فَأَخَذَ شِبْرٌ خِنْجَرًا کَانَ مَعَ الْفَارِسِیِّ ، فَقَالَ بِہِ فِی بَطْنِہِ ہَکَذَا ، یَعْنِی فَخَضْخَضَہُ ، قَالَ : ثُمَّ انْقَلَبَ عَلَیْہِ فَقَتَلَہُ ، ثُمَّ جَائَ بِسَلْبِہِ إِلَی سَعْدٍ ، فَقُوِّمَ بِاثْنَیْ عَشْرَ أَلْفًا ، فَنَفَلَہُ سَعْدٌ إِیَاہُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৪২
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٤٣) حضرت شبر بن علقمہ فرماتے ہیں کہ میں نے جنگ قادسیہ میں ایک عجمی سے لڑائی کی اور اسے قتل کردیا۔ پھر میں اس کا سامان لے کر حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس آیا ۔ حضرت سعد نے اپنے ساتھیوں میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ شبر کالایا ہوا سامان ہے اور بارہ ہزار درہم سے بہتر ہے۔ اور ہم نے اسے مال غنیمت کے طور پردے دیا۔
(۳۴۴۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ شِبْرِ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : بَارَزْتُ رَجُلاً یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ مِنَ الأَعَاجِمِ فَقَتَلْتُہُ ، وَأَخَذْتُ سَلَبَہُ ، فَأَتَیْتُ بِہِ سَعْدًا ، فَخَطَبَ سَعْدٌ أَصْحَابَہُ ، ثُمَّ قَالَ : ہَذَا سَلَبُ شِبْرٍ ، وَہُوَ خَیْرٌ مِنَ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفَ دِرْہَمٍ ، وَإِنَّا قَدْ نَفَلْنَاہُ إِیَّاہُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৪৩
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٤٤) حضرت حصین جنگ قادسیہ میں شریک ہونے والے ایک مجاہد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی غسل کررہا تھا کہ اسے پانی میں سونے کی ایک اینٹ ملی، وہ اس نے لا کر حضرت سعد کو دے دی۔ حضرت سعد نے فرمایا کہ اسے مال غنیمت میں رکھ دو ۔
(۳۴۴۴۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَمَّنْ شَہِدَ الْقَادِسِیَّۃَ ، قَالَ : بَیْنَا رَجُلٌ یَغْتَسِلُ إِذْ فَحَصَ لَہُ الْمَائُ التُّرَابَ عَنْ لَبِنَۃٍ مِنْ ذَہَبٍ ، فَأَتَی سَعْدًا فَأَخْبَرَہُ ، فَقَالَ : اجْعَلْہَا فِی غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৪৪
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٤٥) حضرت حصین جنگ قادسیہ میں شریک ہونے والے ایک مجاہد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے مال غنیمت سے ایک باندی خریدی۔ جب باندی نے دیکھا کہ وہ اس کی ہوچکی ہے تو اس نے بہت سا زیور نکال کر اسے دے دیا۔ اس آدمی نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ اس زیور کا کیا حکم ہے۔ پھر وہ حضرت سعد کے پاس لے کر آیا اور اس کے بارے میں سوال کیا تو حضرت سعد نے فرمایا کہ اسے مسلمانوں کے مال غنیمت میں رکھ دو ۔
(۳۴۴۴۵) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَمَّنْ أَدْرَکَ ذَاکَ ؛ أَنَّ رَجُلاً اشْتَرَی جَارِیَۃً مِنَ الْمَغْنَمِ ، قَالَ : فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّہَا قَدْ خَلُصَتْ لَہُ ، أَخْرَجَتْ حُلِیًّا کَثِیرًا کَانَ مَعَہَا ، قَالَ : فَقَالَ الرَّجُلُ : مَا أَدْرِی مَا ہَذَا ، حَتَّی آتِیَ سَعْدًا فَأَسْأَلَہُ ، فَقَالَ : اجْعَلْہُ فِی غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৪৪৪৫
جنگ کرنے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنگ قادسیہ اور جنگ جلولاء کا بیان
(٣٤٤٤٦) حضرت اسود بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد نے اہل حیرہ کے ایک آدمی سے ایک طشت ایک ہزار درہم کا خریدا۔ انھیں بتایا گیا کہ حضرت عمر کو اس بات کی اطلاع ہوئی ہے اور وہ آپ پر سخت ناراض ہیں۔ اس کے بعد حضرت سعد اس نصرانی کو تلاش کرتے رہے اور اسے ڈھونڈ کر طشت اسے واپس دیا اور ایک ہزار درہم حاصل کئے۔
(۳۴۴۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ مَخْرَمَۃَ ، قَالَ : بَاعَ سَعْدٌ طَسْتًا بِأَلْفِ دِرْہَمٍ مِنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْحِیرَۃِ ، فَقِیلَ لَہُ : إِنَّ عُمَرَ بَلَغَہُ ہَذَا عَنْک فَوَجَدَ عَلَیْک ، قَالَ : فَلَمْ یَزَلْ یَطْلُبُ إِلَی النَّصْرَانِیِّ ، حَتَّی رَدَّ عَلَیْہِ الطَّسْتَ وَأَخَذَ الأَلْفَ۔
তাহকীক: