মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩২১ টি
হাদীস নং: ১৩৫০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کی کثرت قیامت میں حضور ﷺ کے خصوصی قُرب کا وسیلہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن مجھ سے قریب ترین اور مجھ پر زیادہ حق رکھنے والا میرا وہ امتی ہو گا جو مجھ پر زیادہ صلوٰۃ بھیجنے والا ہو گا ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایمان اور ایمان والی زندگی کی بنیادی شرط کے ساتھ میرا جو امتی مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلوٰۃ و سلام بھیجے گا ، اس کو قیامت میں میرا خصوصی قرب اور خاص تعلق حاصل ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ یہ دولت و سعادت حاصل کرنے کی توفیق دے ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایمان اور ایمان والی زندگی کی بنیادی شرط کے ساتھ میرا جو امتی مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلوٰۃ و سلام بھیجے گا ، اس کو قیامت میں میرا خصوصی قرب اور خاص تعلق حاصل ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ یہ دولت و سعادت حاصل کرنے کی توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ القِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلاَةً. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৫১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کی کثرت قیامت میں حضور ﷺ کے خصوصی قُرب کا وسیلہ
حضرت رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا جو امتی مجھ پر صلوٰۃ بھیجے اور ساتھ ہی یہ دعا کرے کہ : “اللَّهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” (اے اللہ ! ان کو یعنی اپنے نبی محمدﷺ کو قیامت کے دن اپنے قریب کی نشست گاہ (کرسی) عطا فرما) اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گی ۔ (مسند احمد)
تشریح
اس حدیث کو طبرانی نے بھی معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے یہ الفاظ ہیں : “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي”
اس میں صلوٰۃ اور دعا کے پورے الفاظ آ گئے ہیں اور بہت مختصر ہیں ۔ یوں تو رسول اللہ ﷺ اپنے سب ہی امتیوں کی ان شاء اللہ شفاعت فرمائیں گے ، لیکن جو اہلِ ایمان آپ ﷺ پر ان الفاظ میں درود بھیجیں اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے یہ دعا کریں ۔ ان کی شفاعت کا آپ ﷺ اپنے پر خصوصی حق سمجھیں گے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی سفارش اُمید ہے کہ اہتمام سے فرمائیں گے ۔
تشریح
اس حدیث کو طبرانی نے بھی معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے یہ الفاظ ہیں : “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي”
اس میں صلوٰۃ اور دعا کے پورے الفاظ آ گئے ہیں اور بہت مختصر ہیں ۔ یوں تو رسول اللہ ﷺ اپنے سب ہی امتیوں کی ان شاء اللہ شفاعت فرمائیں گے ، لیکن جو اہلِ ایمان آپ ﷺ پر ان الفاظ میں درود بھیجیں اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے یہ دعا کریں ۔ ان کی شفاعت کا آپ ﷺ اپنے پر خصوصی حق سمجھیں گے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی سفارش اُمید ہے کہ اہتمام سے فرمائیں گے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي " (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৫২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اگر کوئی اپنے مقصد کے لئے دعاؤں کی جگہ بھی درود ہی پڑھے تو اس کے سارے مسائل غیب سے حل ہوں گے
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : میں چاہتا ہوں کہ آجپﷺ پر درود زیادہ بھیجا کروں (یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ ﷺ پر صلوٰۃ کی استدعا زیادہ کیا کروں) آپ ﷺ مجھے بتا دیجئے کہ اپنی دعا میں سے کتنا حصہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کر دوں ؟ (یعنی میں اپنے لئے دعا کرنے میں جو وقت صرف کیا کرتا ہوں اس میں سے کتنا آپ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کر دوں) آپ نے فرمایا : جتنا چاہو ۔ میں نے عرض کیا کہ : میں اس وقت کا چوتھائی حصہ آپ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کر دوں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جتنا تم چاہو اور اگر اور زیادہ کر دو گے تو تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا ۔ میں نے عرض کیا کہ : تو پھر میں آدھا وقت اس کے لئے مخصوص کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جتنا چاہو اور اگر اور زیادہ کرو گے تو تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا ۔ میں نے عرض کیا کہ : تو پھر میں اس میں سے دو تہائی وقت آپ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جتنا تم چاہو کر دو ، اور اگر زیادہ کر دو گے تو تمہارے لئے خیر ہی کا باعث ہو گا ۔ میں نے عرض کیا: پھر تو میں اپنی دعا کا سارا ہی وقت آپ پر صلوٰۃکے لئے مخصوص کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری ساری فکروں اور ضرورتوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفایت کی جائے گی (یعنی تمہارے سارے دینی و دنیاوی مہمات غیب سے انجام پائیں گے) اور تمہارے گناہ و قصور معاف کر دئیے جائیں گے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے جتنی تشریح کی ضرورت تھی وہ ترجمہ میں کر دی گئی ہے ۔ عام طور سے شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں “صلوٰۃ” دعا کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جو اس کے اصل معنی ہیں ۔
حضرت ابی بن کعب کثیر الدعوات تھے ، اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں مانگا کرتے تھے ۔ ان کے دِل میں آیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے جو دعائیں مانگتا ہوں اور جتنا وقت اس میں صرف کرتا ہوں اس میں سے کچھ وقت رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ کے واسطے مانگنے کے لئے) مخصوص کر دوں ۔ اس بارے میں انہوں نے خود حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ میں کتنا وقت اس کے لئے مخصوص کر دوں ۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے وقت کی کوئی تحدید و تعین مناسب نہیں سمجھی ، بلکہ ان ہی کی رائے پر چھوڑ دیا ، اور یہ اشارہ فرما دیا کہ اس کے لئے جتنا بھی زیادہ وقت دو گے تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا ۔ آخر میں انہوں نے طے کیا کہ میں سارا وقت جس میں اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا ہوں ، رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجنے ہی میں یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ ﷺ کے لئے مانگنے میں صرف کروں گا ۔ اُن کے اس فیصلہ پر رسول اللہ ﷺ نے بشارت سنائی کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے وہ سارے مسائل و مہمات جن کے لئے تم دعائیں کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے کرم سے آپ سے آپ حل ہوں گے ، اور تم سے جو گناہ و قصور ہوئے ہوں گے وہ بھی ختم کر دئیے جائیں گے ، اُن پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا ۔
“معارف الحدیث” کی اسی جلد میں تلاوتِ قرآن مجید کے فضائل کے بیان میں وہ حدیث قدسی گزر چکی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے : “مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِي وَمَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ” جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بندہ تلاوتِ قرآن میں اتنا مشغول رہے کہ اس کے علاوہ اللہ کے ذکر کے لئے اور اپنے مقاصد کے واسطے دعا کرنے کے لئے اسے وقت ہی نہ ملے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے اس سے بھی زیادہ اور بہتر دے گا جتنا دعا کرنے والوں اور مانگنے والوں کو دیتا ہے ۔
جس طرح اس حدیث میں اُن بندوں کے لئے جو تلاوتِ قرآن میں اپنا سارا وقت صرف کر دیں ، اور بس اسی کو اپنا وظیفہ بنا لیں ، اللہ تعالیٰ کی اس خاص عنایت و نوازش کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ ان کو دعائیں کرنے والوں اور مانگنے والوں سے بھی زیادہ اور بہتر عطا فرمائے گا ۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب والی اس زیرِ تشریح حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے لئے وقف کر دیں ، اور اپنے ذاتی مسائل و مقاصد کے لئے دعاؤں کی جگہ بھی بس آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجیں ، بتایا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص الخاس کرم ہو گا کہ ان کے مسائل و مہمات غیب سے حل کئے جائیں گے اور ان کے گناہ دُھو ڈالے جائیں گے ۔
اس کا راز یہ ہے کہ جس قرآن مجید کی تلاوت سے خاص شغف اور بس اسی کو اپنا وؓظیفہ بنا لینا اللہ کی مقدس کتاب پر ایمان اور اس سے محبت و تعلق کی خاص نشانی ہے ، اور اس لئے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص الخاص فضل کے مستحق ہیں ۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام سے ایسا شغف کہ اپنے ذاتی مقاصد و مسائل کے لئے دعا کی جگہ بھی بس آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجی جائے ، اور اپنے لئے کچھ مانگنے کی جگہ بس آپ ﷺ ہی کے لئے خدا سے مانگا جائے ۔ اللہ کے محبوب رسول ﷺ پر صادق ایمان اور سچے ایمانی تعلق اور قلبی محبت کی علامت ہے اور ایسے مخلص بندے بھی اس کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے سارے مسائل اپنی رحمت سے بِلا اُن کے مانگے حل فرمائے ۔
علاوہ ازیں وہ احادیث ابھی گزر چکی ہیں جن میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جو بندہ رسول اللہ ﷺ پر ایک صلوٰۃ بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر دس صلوٰتیں بھیجی جاتی ہیں ۔ اس کے اعمال نامے میں دس نیکیاں درج کی جاتی ہیں ، دس گناہ مِٹا دئیے جاتے ہیں اور دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں ۔ ذرا غور کیا جائے جس بندے کا حال یہ ہو کہ وہ اپنی ذاتی دعاؤں کی جگہ بھی بس رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجے ، اللہ سے اپنے لئے کچھ بھی نہ مانگے ، صرف حضور ﷺ کے لئے صلوٰۃ کی استدعا کرے ، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و برکات اور رحمتوں عنایتوں کی کیسی موسلادھار بارش ہو گی ، جس کا لازمی اثر اور انجام یہی ہو گ کہ اللہ کی رحمت بِلا مانگے اس کی چاہتیں اور ضرورتیں پوری کرے گی ، اور گناہوں کے اثرات سے وہ بالکل پاک صاف کر دیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا یقین اور عمل نصیب فرمائے ۔
تشریح
حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے جتنی تشریح کی ضرورت تھی وہ ترجمہ میں کر دی گئی ہے ۔ عام طور سے شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں “صلوٰۃ” دعا کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جو اس کے اصل معنی ہیں ۔
حضرت ابی بن کعب کثیر الدعوات تھے ، اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں مانگا کرتے تھے ۔ ان کے دِل میں آیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے جو دعائیں مانگتا ہوں اور جتنا وقت اس میں صرف کرتا ہوں اس میں سے کچھ وقت رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ کے واسطے مانگنے کے لئے) مخصوص کر دوں ۔ اس بارے میں انہوں نے خود حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ میں کتنا وقت اس کے لئے مخصوص کر دوں ۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے وقت کی کوئی تحدید و تعین مناسب نہیں سمجھی ، بلکہ ان ہی کی رائے پر چھوڑ دیا ، اور یہ اشارہ فرما دیا کہ اس کے لئے جتنا بھی زیادہ وقت دو گے تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا ۔ آخر میں انہوں نے طے کیا کہ میں سارا وقت جس میں اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا ہوں ، رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجنے ہی میں یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ ﷺ کے لئے مانگنے میں صرف کروں گا ۔ اُن کے اس فیصلہ پر رسول اللہ ﷺ نے بشارت سنائی کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے وہ سارے مسائل و مہمات جن کے لئے تم دعائیں کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے کرم سے آپ سے آپ حل ہوں گے ، اور تم سے جو گناہ و قصور ہوئے ہوں گے وہ بھی ختم کر دئیے جائیں گے ، اُن پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا ۔
“معارف الحدیث” کی اسی جلد میں تلاوتِ قرآن مجید کے فضائل کے بیان میں وہ حدیث قدسی گزر چکی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے : “مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِي وَمَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ” جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بندہ تلاوتِ قرآن میں اتنا مشغول رہے کہ اس کے علاوہ اللہ کے ذکر کے لئے اور اپنے مقاصد کے واسطے دعا کرنے کے لئے اسے وقت ہی نہ ملے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے اس سے بھی زیادہ اور بہتر دے گا جتنا دعا کرنے والوں اور مانگنے والوں کو دیتا ہے ۔
جس طرح اس حدیث میں اُن بندوں کے لئے جو تلاوتِ قرآن میں اپنا سارا وقت صرف کر دیں ، اور بس اسی کو اپنا وظیفہ بنا لیں ، اللہ تعالیٰ کی اس خاص عنایت و نوازش کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ ان کو دعائیں کرنے والوں اور مانگنے والوں سے بھی زیادہ اور بہتر عطا فرمائے گا ۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب والی اس زیرِ تشریح حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے لئے وقف کر دیں ، اور اپنے ذاتی مسائل و مقاصد کے لئے دعاؤں کی جگہ بھی بس آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجیں ، بتایا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص الخاس کرم ہو گا کہ ان کے مسائل و مہمات غیب سے حل کئے جائیں گے اور ان کے گناہ دُھو ڈالے جائیں گے ۔
اس کا راز یہ ہے کہ جس قرآن مجید کی تلاوت سے خاص شغف اور بس اسی کو اپنا وؓظیفہ بنا لینا اللہ کی مقدس کتاب پر ایمان اور اس سے محبت و تعلق کی خاص نشانی ہے ، اور اس لئے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص الخاص فضل کے مستحق ہیں ۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام سے ایسا شغف کہ اپنے ذاتی مقاصد و مسائل کے لئے دعا کی جگہ بھی بس آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجی جائے ، اور اپنے لئے کچھ مانگنے کی جگہ بس آپ ﷺ ہی کے لئے خدا سے مانگا جائے ۔ اللہ کے محبوب رسول ﷺ پر صادق ایمان اور سچے ایمانی تعلق اور قلبی محبت کی علامت ہے اور ایسے مخلص بندے بھی اس کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے سارے مسائل اپنی رحمت سے بِلا اُن کے مانگے حل فرمائے ۔
علاوہ ازیں وہ احادیث ابھی گزر چکی ہیں جن میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جو بندہ رسول اللہ ﷺ پر ایک صلوٰۃ بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر دس صلوٰتیں بھیجی جاتی ہیں ۔ اس کے اعمال نامے میں دس نیکیاں درج کی جاتی ہیں ، دس گناہ مِٹا دئیے جاتے ہیں اور دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں ۔ ذرا غور کیا جائے جس بندے کا حال یہ ہو کہ وہ اپنی ذاتی دعاؤں کی جگہ بھی بس رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجے ، اللہ سے اپنے لئے کچھ بھی نہ مانگے ، صرف حضور ﷺ کے لئے صلوٰۃ کی استدعا کرے ، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و برکات اور رحمتوں عنایتوں کی کیسی موسلادھار بارش ہو گی ، جس کا لازمی اثر اور انجام یہی ہو گ کہ اللہ کی رحمت بِلا مانگے اس کی چاہتیں اور ضرورتیں پوری کرے گی ، اور گناہوں کے اثرات سے وہ بالکل پاک صاف کر دیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا یقین اور عمل نصیب فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلاَةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلاَتِي؟ فَقَالَ: مَا شِئْتَ. قَالَ: قُلْتُ: الرُّبُعَ، قَالَ: مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: النِّصْفَ، قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: فَالثُّلُثَيْنِ، قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلاَتِي كُلَّهَا قَالَ: إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ، وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৫৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف دُعا کی قبولیت کا وسیلہ
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : دعا آسمان اور زمین کے درمیان ہی رکی رہتی ہے اوپر نہیں جا سکتی جب تک کہ نبی پاکﷺ پر درود نہ بھیجا جائے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
وہ حدیث “آداب دعا” کے ذیل میں (صفحہ ۹۹پر) گزر چکی ہے ۔ جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ دُعا کرنے والے کو چاہئے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی حاجت عرج کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ دعا کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجنی چاہئے ، وہ دعا کی قبولیت کا خاص وسیلہ ہے ۔ “حصن حصین” میں شیخ ابو سلیمان دارانیؒ سے نقل کیا گیا ہے انہوں نے فرمایا کہ درود شریف (جو رسول اللہ ﷺ کے حق مین ایک اعلیٰ و اشرف دعا ہے) وہ تو اللہ تعالیٰ ضرور ہی قبول فرماتا ہے ، پھر جب بندہ اپنی دعا سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ سے حضور ﷺ کے حق میں دعا کرے اور اس کے بعد بھی دعا کرے تو اس کے کرم سے یہ بہت ہی بعید ہے کہ وہ اول و آخر کی دعائیں تو قبول کر لے اور درمیان کی اس بےچارے کی دعا رد کر دے ، اس لئے پوری امید رکھنی چاہئے کہ جس دعا کے اول و آخر رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجی جائے گی وہ ان شاء اللہ ضرور قبول ہو گی ۔
مندرجہ بالا روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات (جو انہوں نے دعا کی قبولیت کے بارے میں فرمائی) رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی ، لیکن چونکہ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی شخص اپنی رائے اور فہم سے ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا ، بلکہ اللہ کے پیغمبر ﷺ سے سُن کے ہی ایسی بات کہی جا سکتی ہے ، اس لئے محدثین کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ روایت حدیث مرفوع ہی کے حکم میں ہے ۔
تشریح
وہ حدیث “آداب دعا” کے ذیل میں (صفحہ ۹۹پر) گزر چکی ہے ۔ جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ دُعا کرنے والے کو چاہئے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی حاجت عرج کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ دعا کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجنی چاہئے ، وہ دعا کی قبولیت کا خاص وسیلہ ہے ۔ “حصن حصین” میں شیخ ابو سلیمان دارانیؒ سے نقل کیا گیا ہے انہوں نے فرمایا کہ درود شریف (جو رسول اللہ ﷺ کے حق مین ایک اعلیٰ و اشرف دعا ہے) وہ تو اللہ تعالیٰ ضرور ہی قبول فرماتا ہے ، پھر جب بندہ اپنی دعا سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ سے حضور ﷺ کے حق میں دعا کرے اور اس کے بعد بھی دعا کرے تو اس کے کرم سے یہ بہت ہی بعید ہے کہ وہ اول و آخر کی دعائیں تو قبول کر لے اور درمیان کی اس بےچارے کی دعا رد کر دے ، اس لئے پوری امید رکھنی چاہئے کہ جس دعا کے اول و آخر رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجی جائے گی وہ ان شاء اللہ ضرور قبول ہو گی ۔
مندرجہ بالا روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات (جو انہوں نے دعا کی قبولیت کے بارے میں فرمائی) رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی ، لیکن چونکہ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی شخص اپنی رائے اور فہم سے ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا ، بلکہ اللہ کے پیغمبر ﷺ سے سُن کے ہی ایسی بات کہی جا سکتی ہے ، اس لئے محدثین کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ روایت حدیث مرفوع ہی کے حکم میں ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لاَ يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৫৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دنیا میں کہیں بھی درود بھیجا جائے ، رسول اللہ ﷺ کو پہنچتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم اپنے گھروں کو قبریں نہ بنا لو ، اور میری قبر کو میلہ نہ بنا لینا ہاں مجھ پر صلوٰۃ بھیجا کرنا ، تم جہاں بھی ہو گے مجھے تمہاری صلوٰۃ پہنچے گی ۔ (سنن نسائی)
تشریح
اس حدیث میں تین ہدایتیں فرمائی گئی ہیں : پہلی یہ کہ : “اپنے گھروں کو قبر نہ بنا لو” ۔ اس کا مطلب عام طور سے شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ جس طرح قبروں میں مُردے ذِکر و عبادت نہیں کرتے ، اور قبریں ذکر و عبادت سے خالی رہتی ہیں ، تم اپنے گھروں کو ایسانہ بنا لو کہ وہ ذِکر و عبادت سے خالی رہیں ، بلکہ ان کو ذکر و عبادت سے معمور رکھو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت نہ ہو وہ زندوں کے گھر نہیں ، بلکہ مُردوں کے قبرستان ہیں ۔
دوسری ہدایت یہ فرمائی گئی ہے کہ “میری قبر کو میلہ نہ بنا لینا” یعنی جس طرح سال کے کسی معین دن میں میلوں میں لوگ جمع ہوتے ہیں اس طرح میری قبر پر کوئی میلہ نہ لگایا جائے ۔
بزرگانِ دین کی قبروں پر عرسوں کے نام سے جو میلے ہوتے ہیں اُن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ رسول اللہ ﷺ کی قبر شریف پر کوئی میلہ اس طرح کا ہوتا تو اس سے روح پاک کو کتنی شدید اذیت پہنچتی ۔
تیسری ہدایت یہ فرمائی گئی ہے کہ تم مشرق یا مغرب میں خشکی یا تری میں جہاں بھی ہو ، مجھ پر صلوٰۃ بھیجو ، وہ مجھے پہنچے گی ۔ یہی مضمون قریب قریب ان ہی الفاظ میں طبرانی نے اپنی سند سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے ، اس کے الفاظ ہیں : “حَيْثُمَا كُنْتُمْ فَصَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي” اللہ تعالیٰ نے جن بندوں کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قلبی تعلق کا کچھ حصہ عطا فرمایا ہے اُن کے لئے یہ کتنی بڑی بشارت اور تسلی کی بات ہے کہ خواہ وہ ہزاروں میل دور ہوں ، اُن کا صلوٰۃ و سلام آپ ﷺ کو پہنچتا ہے ۔ ؎
قرب جانی چو بودِ بُعد مکانی سہل اَست
تشریح
اس حدیث میں تین ہدایتیں فرمائی گئی ہیں : پہلی یہ کہ : “اپنے گھروں کو قبر نہ بنا لو” ۔ اس کا مطلب عام طور سے شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ جس طرح قبروں میں مُردے ذِکر و عبادت نہیں کرتے ، اور قبریں ذکر و عبادت سے خالی رہتی ہیں ، تم اپنے گھروں کو ایسانہ بنا لو کہ وہ ذِکر و عبادت سے خالی رہیں ، بلکہ ان کو ذکر و عبادت سے معمور رکھو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت نہ ہو وہ زندوں کے گھر نہیں ، بلکہ مُردوں کے قبرستان ہیں ۔
دوسری ہدایت یہ فرمائی گئی ہے کہ “میری قبر کو میلہ نہ بنا لینا” یعنی جس طرح سال کے کسی معین دن میں میلوں میں لوگ جمع ہوتے ہیں اس طرح میری قبر پر کوئی میلہ نہ لگایا جائے ۔
بزرگانِ دین کی قبروں پر عرسوں کے نام سے جو میلے ہوتے ہیں اُن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ رسول اللہ ﷺ کی قبر شریف پر کوئی میلہ اس طرح کا ہوتا تو اس سے روح پاک کو کتنی شدید اذیت پہنچتی ۔
تیسری ہدایت یہ فرمائی گئی ہے کہ تم مشرق یا مغرب میں خشکی یا تری میں جہاں بھی ہو ، مجھ پر صلوٰۃ بھیجو ، وہ مجھے پہنچے گی ۔ یہی مضمون قریب قریب ان ہی الفاظ میں طبرانی نے اپنی سند سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے ، اس کے الفاظ ہیں : “حَيْثُمَا كُنْتُمْ فَصَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي” اللہ تعالیٰ نے جن بندوں کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قلبی تعلق کا کچھ حصہ عطا فرمایا ہے اُن کے لئے یہ کتنی بڑی بشارت اور تسلی کی بات ہے کہ خواہ وہ ہزاروں میل دور ہوں ، اُن کا صلوٰۃ و سلام آپ ﷺ کو پہنچتا ہے ۔ ؎
قرب جانی چو بودِ بُعد مکانی سہل اَست
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ» (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৫৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دنیا میں کہیں بھی درود بھیجا جائے ، رسول اللہ ﷺ کو پہنچتا ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ کے کچھ فرشتے ہیں جو دنیا میں چکر لگاتے رہتے ہیں اور میرے امتیوں کا سلام و صلوٰۃ مجھے پہنچاتے ہیں ۔ (سنن نسائی ، مسند دارمی)
تشریح
ایک دوسری حدیث میں جس کو طبرانی وغیرہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، یہ بھی تفصیل ہے کہ صلوٰۃ و سلام پہنچانے والا فرشتہ بھیجنے والے امتی کے ام کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پہنچاتا ہے ، کہتا ہے : “يا محمد صلى عليك فلان كذا وكذا” (اے محمدﷺ ! تمہارے فلاں اُمتی نے تم پر اس طرح صلوٰۃ و سلام بھیجا ہے) اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ وہ فرشتہ صلوٰۃ و سلام بھیجنے والے امتی کا نام اس کی ولدیت کے ساتھ ذکر کرتا ہے یعنی حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کرتا ہے : “يا محمد صلى عليك فلان كذا وكذا” کتنی خوش قسمتی ہے اور کتنا اَرزاں سودا ہے کہ جو امتی اخلاص کے ساتھ صلوٰۃ و سلام عرض کرتا ہے ، وہ حضور ﷺ کی خدمت میں اس کے نام اور ولدیت کے ساتھ فرشتے کے ذریعہ پہنچتا ہے ، اور اس طرح آپ ﷺ کی بارگاہِ عالی میں اُس بےچارے مسکین اُمتی اور اس کے باپ کا ذِکر بھی آ جاتا ہے ۔ ؎
جاں میدہم در آرزو اے قاصد آخر باز گو
در مجلس آں نازنیں حرفے کہ اَز ما مے رَوَد
تشریح
ایک دوسری حدیث میں جس کو طبرانی وغیرہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، یہ بھی تفصیل ہے کہ صلوٰۃ و سلام پہنچانے والا فرشتہ بھیجنے والے امتی کے ام کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پہنچاتا ہے ، کہتا ہے : “يا محمد صلى عليك فلان كذا وكذا” (اے محمدﷺ ! تمہارے فلاں اُمتی نے تم پر اس طرح صلوٰۃ و سلام بھیجا ہے) اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ وہ فرشتہ صلوٰۃ و سلام بھیجنے والے امتی کا نام اس کی ولدیت کے ساتھ ذکر کرتا ہے یعنی حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کرتا ہے : “يا محمد صلى عليك فلان كذا وكذا” کتنی خوش قسمتی ہے اور کتنا اَرزاں سودا ہے کہ جو امتی اخلاص کے ساتھ صلوٰۃ و سلام عرض کرتا ہے ، وہ حضور ﷺ کی خدمت میں اس کے نام اور ولدیت کے ساتھ فرشتے کے ذریعہ پہنچتا ہے ، اور اس طرح آپ ﷺ کی بارگاہِ عالی میں اُس بےچارے مسکین اُمتی اور اس کے باپ کا ذِکر بھی آ جاتا ہے ۔ ؎
جاں میدہم در آرزو اے قاصد آخر باز گو
در مجلس آں نازنیں حرفے کہ اَز ما مے رَوَد
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ، يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» (رواه النسائى والدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৫৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دنیا میں کہیں بھی درود بھیجا جائے ، رسول اللہ ﷺ کو پہنچتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب کوئی مجھ پر سلام بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر واپس فرمائے گا تا کہ میں اس کے سلام کا جواب دے دوں ۔ (سنن ابی داؤد دعوات کبیر للبیہقی)
تشریح
حدیث کے ظاہری الفاظ “إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي” سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی روحِ مبارک جسدِ اطہر سے الگ رہتی ہے ، جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے جسد اطہر میں روحِ مبارک کو لوٹا دیتا ہے تا کہ آپ سلام کا جواب دے سکیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی ، اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں دفعہ آپ ﷺ کی روحِ مبارک جسمِ اقدس میں ڈالی اور نکالی جاتی ہے ، کیوں کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کے لاکھوں کروڑوں اُمتی آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام نہ بھیجتے ہوں ۔ روضہ اقدس پر حاضر ہو کر سلام عرض کرنے والوں کا بھی ہر وقت تانتا بندھا رہتا ہے ، اور عام دنوں میں بھی ان کا شمار ہزاروں سے کم نہیں ہوتا ۔ علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام کا اپنی قبور میں زندہ ہونا ایک مسلم حقیقت ہے ۔ اگرچہ اس حیات کی نوعیت کے بارے میں علماء امت کی رائیں مختلف ہیں ، لیکن اتنی بات سب کے نزدیک مسلم اور دلائل شرعیہ سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کو اپنی قبور میں حیات حاصل ہے اس لئے حدیث کا یہ مطلب کسی طرح نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ کا جسدِ اطہر روح سے خالی رہتا ہے اور جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دلوانے کے لئے اس میں روح ڈال دیتا ہے ۔ اس بناء پر اکثر شارحین نے “رد روح” کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قبرِ مبارک میں آپ ﷺ کی روحِ پاک کی تمام تر توجہ دوسرے عالم کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی جمالی و جلالی تجلیات کے مشاہدہ میں مصروف رہتی ہے (اور یہ بات بالکل قرین قیاس ہے) پھر جب کوئی اُمتی سلام عرض کرتا ہے اور وہ فرشتہ کے ذریعہ یا براہ راست آپ ﷺ تک پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپ ﷺ کی روح اس طرف بھی متوجہ ہوتی ہے اور آپ ﷺ سلام کا جواب دیتے ہین ، بس اس روحانی توجہ و التفات کو “رد روح” سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔
عاجز راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اس بات کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عالمِ برزخ کے معاملات و احوال سے کچھ مناسبت رکھتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کی معرفت نصیب فرمائے ۔
اس حدیث کا خاص پیغام یہ ہے کہ جو امتی بھی اخلاصِ قلب سے آپ ﷺ پر سلام بھیجتا ہے ، آپ ﷺ عادی اور سرسری طور پر صرف زبان سے نہیں بلکہ روح اور قلب سے متوجہ ہو کر اس کے سلام کا جواب عنایت فرماتے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر عمر بھر کے صلوٰۃ و سلام کا کچھ بھی اجر و ثواب نہ ملے صرف آپ ﷺ کا جواب مل جائے تو سب کچھ مل گیا ۔ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ
تشریح
حدیث کے ظاہری الفاظ “إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي” سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی روحِ مبارک جسدِ اطہر سے الگ رہتی ہے ، جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے جسد اطہر میں روحِ مبارک کو لوٹا دیتا ہے تا کہ آپ سلام کا جواب دے سکیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی ، اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں دفعہ آپ ﷺ کی روحِ مبارک جسمِ اقدس میں ڈالی اور نکالی جاتی ہے ، کیوں کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کے لاکھوں کروڑوں اُمتی آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام نہ بھیجتے ہوں ۔ روضہ اقدس پر حاضر ہو کر سلام عرض کرنے والوں کا بھی ہر وقت تانتا بندھا رہتا ہے ، اور عام دنوں میں بھی ان کا شمار ہزاروں سے کم نہیں ہوتا ۔ علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام کا اپنی قبور میں زندہ ہونا ایک مسلم حقیقت ہے ۔ اگرچہ اس حیات کی نوعیت کے بارے میں علماء امت کی رائیں مختلف ہیں ، لیکن اتنی بات سب کے نزدیک مسلم اور دلائل شرعیہ سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کو اپنی قبور میں حیات حاصل ہے اس لئے حدیث کا یہ مطلب کسی طرح نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ کا جسدِ اطہر روح سے خالی رہتا ہے اور جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دلوانے کے لئے اس میں روح ڈال دیتا ہے ۔ اس بناء پر اکثر شارحین نے “رد روح” کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قبرِ مبارک میں آپ ﷺ کی روحِ پاک کی تمام تر توجہ دوسرے عالم کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی جمالی و جلالی تجلیات کے مشاہدہ میں مصروف رہتی ہے (اور یہ بات بالکل قرین قیاس ہے) پھر جب کوئی اُمتی سلام عرض کرتا ہے اور وہ فرشتہ کے ذریعہ یا براہ راست آپ ﷺ تک پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپ ﷺ کی روح اس طرف بھی متوجہ ہوتی ہے اور آپ ﷺ سلام کا جواب دیتے ہین ، بس اس روحانی توجہ و التفات کو “رد روح” سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔
عاجز راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اس بات کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عالمِ برزخ کے معاملات و احوال سے کچھ مناسبت رکھتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کی معرفت نصیب فرمائے ۔
اس حدیث کا خاص پیغام یہ ہے کہ جو امتی بھی اخلاصِ قلب سے آپ ﷺ پر سلام بھیجتا ہے ، آپ ﷺ عادی اور سرسری طور پر صرف زبان سے نہیں بلکہ روح اور قلب سے متوجہ ہو کر اس کے سلام کا جواب عنایت فرماتے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر عمر بھر کے صلوٰۃ و سلام کا کچھ بھی اجر و ثواب نہ ملے صرف آپ ﷺ کا جواب مل جائے تو سب کچھ مل گیا ۔ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ» (رواه ابو دؤد والبيهقى فى الدعوات الكبير)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৫৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دنیا میں کہیں بھی درود بھیجا جائے ، رسول اللہ ﷺ کو پہنچتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو آدمی میری قبر کے پاس مجھ پر درود بھیجے گا (یا سلام عرض کرے گا) وہ میں خود سنوں گا ، اور جو کہیں دور سے بھیجے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
اس حدیث سے یہ تفصیل معلوم ہو گئی کہ فرشتوں کے ذریعہ آپ ﷺ کو صرف وہی درود و سلام پہنچتا ہے جو کوئی دور سے بھیجے ، لیکن اللہ تعالیٰ جن کو قبرِ مبارک کے پا پہنچا دے اور وہ وہاں حاضر ہو کر صلوٰۃ و سلام عرض کریں تو آپ ﷺ اس کو بنفسِ نفیس سنتے ہین ، اور جیسا کہ ابھی معلوم ہو چکا ہے ہر ایک کو جواب بھی عنایت فرماتے ہیں ۔
کتنے خوش نصیب ہیں وہ بندے جو روزان سینکڑوں یا ہزاروں بار صلوٰۃ و سلام عرض کرتے ہیں اور آپ ﷺ کا جواب پاتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ اگر ساری عمر کے صلوٰۃ و سلام کا ایک ہی دفعہ جواب مل جائے تو جن کو محبت کا کوئی ذرہ نصیب ہے اُن کے لئے وہی دو جہاں کی دولت سے زیادہ ہے ۔ کسی محبّ نے کہا ہے ۔ ؎
بہر سلام مکن رنجہ دَر جواب آں لب
کہ صد سلام مرا بس یکے جواب از تو
اللهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَآلِهِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمْ كَمَا تُحِبُّ وَتَرْضَى عَدَدَ مَا تُحِبُّ وَتَرْضَى
تشریح
اس حدیث سے یہ تفصیل معلوم ہو گئی کہ فرشتوں کے ذریعہ آپ ﷺ کو صرف وہی درود و سلام پہنچتا ہے جو کوئی دور سے بھیجے ، لیکن اللہ تعالیٰ جن کو قبرِ مبارک کے پا پہنچا دے اور وہ وہاں حاضر ہو کر صلوٰۃ و سلام عرض کریں تو آپ ﷺ اس کو بنفسِ نفیس سنتے ہین ، اور جیسا کہ ابھی معلوم ہو چکا ہے ہر ایک کو جواب بھی عنایت فرماتے ہیں ۔
کتنے خوش نصیب ہیں وہ بندے جو روزان سینکڑوں یا ہزاروں بار صلوٰۃ و سلام عرض کرتے ہیں اور آپ ﷺ کا جواب پاتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ اگر ساری عمر کے صلوٰۃ و سلام کا ایک ہی دفعہ جواب مل جائے تو جن کو محبت کا کوئی ذرہ نصیب ہے اُن کے لئے وہی دو جہاں کی دولت سے زیادہ ہے ۔ کسی محبّ نے کہا ہے ۔ ؎
بہر سلام مکن رنجہ دَر جواب آں لب
کہ صد سلام مرا بس یکے جواب از تو
اللهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَآلِهِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمْ كَمَا تُحِبُّ وَتَرْضَى عَدَدَ مَا تُحِبُّ وَتَرْضَى
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أَبْلَغْتُهُ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৫৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
مشہور جلیل القدر تابعی عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میری ملاقات کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی (جو اصحاب بیعت رضوان میں سے ہیں) اُنہوں نے مجھ سے فرمایا میں تمہیں ایک خاص تحفہ پیش کروں (یعنی ایک بیش بہا حدیث سناؤں) جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ، میں نے عرض کیا مجھے وہ تحفہ ضرور دیجئے ! انہوں نے بتایا کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تو ہم کو بتا دیا کہ ہم آپ ﷺ پر سلام کس طرح بھیجا کریں (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ نے ہم کو بتا دیا ہے کہ ہم تشہد میں “السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ” کہہ کر آپ ﷺ پر سلام بھیجا کریں) اب آپ ہمیں یہ بھی بتا دیجئے کہ ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کیسے بھیجا کریں ، آپ ﷺ نے فرمایا یوں کہا کرو : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدﷺ پر اور حضرت محمد ﷺ کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے نوازش اور عنایت و رحمت فرمائی حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کے گھر والوں پر ، بےشک تو حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے ۔ اے اللہ ! خاص برکتیں نازل فرما حضرت حمدﷺ پر اور حضرت محمد ﷺ کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کے گھرانے والوں پر ، تو حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ پاک ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا ہم بندوں کو حکم دیا اور بڑے مؤثر اور پیارے انداز میں حکم دیا ، اور خود رسول اللہ ﷺ نے مختلف پیرایوں میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کے وہ برکات اور فضائل بیان فرمائے جو ناظرین کو مندرجہ سابق احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں ۔ پھر صحابہ کرام کے دریافت کرنے پر رسول اللہ ﷺ نے درود و سلام کے خاص کلمات بھی تعلیم فرمائ ۔ اپنے امکان کی حد تک کتبِ حدیث کی پوری چھان بین کے بعد اس سلسلہ کی مستند روایات جمع کر کے ذیل میں درج کی جا رہی ہیں ۔
تشریح ..... حضرت کعب بن عجرہ نے عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کو یہ حدیث جس طرح اور جس تمہید کے ساتھ سنائی اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس حدیث کو اور اس درود شریف کو کتنا عظیم اور کیسا بیش بہا تحفہ سمجھتے تھے ۔ اور طبری کی اسی حدیث کی روایت میں یہ بھی ہے کہ کعب بن عجرہ نے یہ حدیث عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے سنائی تھی ۔ (1) اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اس کی کتنی عظمت تھی ۔
اسی حدیث کی بیہقی کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ صلوٰۃ یعنی درود کے طریقہ کے بارے میں یہ سوال رسول اللہ ﷺ سے اس وقت کیا گیا جب سورہ احزاب کی یہ آیت نازل ہوئی (2) إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اس آیت میں صلوٰۃ و سلام کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے بارے میں تفصیل سے پہلے لکھا جا چکا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سوال کے جواب میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا ہم کو جو حکم دیا ہے اس کا کیا طریقہ ہے اور کس طرح ہم آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجا کریں ؟ صلوٰۃ کے جو کلمات اس حدیث میں اور اس کے علاوہ بھی بہت سی دوسری حدیثوں میں تلقین فرمائے یعنی اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ الخ ان سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ پر ہمارے صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ سے التجا اور استدعا کریں کہ وہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجے اور برکتیں نازل فرمائے ۔ یہ اس لئے کہ ہم خود چونکہ محتاج و مفلس اور تہی مایہ ہیں ، ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ اپنے محسنِ اعظم اور اللہ کے نبی محترم ﷺ کی بارگاہ میں کچھ پیش کر سکیں ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں استدعا اور التجا کرتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ اور برکت بھیجے یعنی آپ ﷺ کی تشریف و تکریم آپ پر نوازش و عنایت ، رحمت و رأفت ، پیار دُلار میں اور مقبولیت کے درجات و مراتب میں اضافہ فرمائے اور آپ ﷺ کو اپنی خاص برکتوں سے نوازے ، نیز آپ ﷺ کے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرمائے ۔
استدعاء “صلوٰۃ” کے بعد “برکت” مانگنے کی حکمت
صلوٰۃ کے بارے میں پہلے بقدرِ ضرورت کلام کیا جا چکا ہے اور بتایا جا چکا ہے کہ اس کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ۔ تشریف و تکریم ، مدح و ثنا ، رحمت و رأفت ، محبت و عطوفت ، رفع مراتب ، ارادہ خیر ، اعطاء خیر ، اور دعائے خیر سب ہی کو صلوٰۃ کا مفہوم حاوی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندہ پر “برکت” ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کے لئے بھرپور نوازش و عنایت اور خیر و نعمت کا اور اس کے دوام اور اس میں برابر اضافہ و ترقی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہے ۔ بہرحال برکت کسی ایسی چیز کا نام نہیں ہے جس کو “صلوٰۃ” کا وسیع مفہوم حاوی نہ ہو ۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں رسول اللہ ﷺ کے لئے صلوٰۃ کی استدعا کرنے کے بعد آپ ﷺ کے واسطے برکت یا رحمت کی دعا اور التجا کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا اور سوال کے موقع پر یہی مستحسن ہے کہ مختلف الفاظ و عبارات میں بار بار عرض و معروض کی جائے ، اس سے بندہ کی شدید محتاجی اور صدقِ طلب کا اظہار ہوتا ہے اور سائل اور منگتا کے لئے یہی مناسب ہے ۔ اس لئے اس درود شریف میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کے لئے اللہ تعالیٰ سے صلوٰۃ کی استدعا کے بعد برکت کی التجا بھی کی گئی ہے اور بعض دوسری روایات میں (جو عنقریب درج ہوں گی) صلوٰۃ اور برکت کے بعد ترحم کا بھی سوال کیا گیا ہے ۔
دُرود شریف میں لفظ “آل” کا مطلب
اس دُرود شریف میں “آل” کا لفظ چار دفعہ آیا ہے ، ہم نے اس کا ترجمہ “گھرانے والوں کا کیا ہے ۔ عربی زبان اور خاص کر قرآن حدیث کے استعمالات میں کسی شخص کی آل ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ خصوصی تعلق رکھتے ہوں ، خواہ یہ تعلق نسب اور رشتہ کا ہو ، جیسے اس کے بیوی بچے یا رفاقت اور عقیدت و محبت اور اتباع و اطاعت کا ، جیسے کہ اس کے مشن کے خاص ساتھی اور محبین و متبعین (1) اس لئے نفس لغت کے لحاظ سے یہاں آل کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اگلے ہی نمبر پر اسی مضمون کی حضرت ابو حمید ساعدی کی جو حدیث درج کی جا رہی ہے اس میں دُرود شریف کے جو الفاظ ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں “آل” سے “گھرانے والے” ہی مراد ہیں ۔ یعنی آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور آپ ﷺ کی نسل و اولاد ، اور جس طرح ان کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خصوصی قرابت و جزئیت اور زندگی میں شرکت کا خاص شرف حاصل ہے (جو دوسرے حضرات کو حاصل نہیں ہے اگرچہ وہ درجہ میں ان سے افضل ہوں) اسی طرح یہ بھی ان کا ایک مخصوص شرف ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان پر بھی درود و سلام بھیجا جاتا ہے ۔ اور اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ ازواجِ مطہرات وغیرہ جو لفظ “آل” کے مصداق ہیں ، امت میں سب سے افضل ہوں ، عنداللہ افضلیت کا مدار ایمان اور ایمان والے اعمال اور ایمانی کیفیات پر ہے جس کا جامع عنوان تقویٰ ہے ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
اس کو بالکل یوں سمجھنا چاہئے کہ ہماری اس دنیا میں بھی جب کوئی مخلص محبّ اپنے کسی محبوب بزرگ کی خدمت میں کوئی خاص مرغوب تحفہ اور سوغات پیش کرتا ہے تو اس کے پیش نظر خود وہ بزرگ اور ان کے ذاتی تعلق کی بناء پر ان کے گھر والے ہوتے ہیں اور اس مخلص کی یہ خوشی ہوتی ہے کہ یہ تحفہ ان بزرگ کے ساتھ ان کے گھر والے یعنی اہل و عیال بھی استعمال کریں ، کسی کے ساتھ تعلق و محبت کا دراصل یہ فطری تقاضا ہے ۔ دُرود شریف بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک تحفہ اور سوغات ہے ، اس میں آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ آپ کے خاص متعلقین یعنی اہل و عیال کو بھی شریک کرنا بلا شبہ آپ ﷺ کی محبت کا تقاضا ہے ، اور اس سے آپ ﷺ کے قلبِ مبارک کا بہت زیادہ خوش ہونا بھی ایک فطری بات ہے ۔ اس کی بنیاد پر افضلیت اور مفضولیت کی کلامی بحث کرنا کوئی خوش ذوقی کی بات نہیں ہے ۔ بہرحال اس عاجز کے نزدیک راجح یہی ہے کہ دُرود شریف میں آل محمدﷺ سے آپ کے گھر والے یعنی ازواجِ مطہرات اور ذریت مراد ہیں ، اور اسی طرح سے آل ابراہیم علیہ السلام سے حضرت ابراہیمؑ کے گھر والے ! قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ مطہرہ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے ۔ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ بلاشبہ آلِ ابراہیمؑ وہی ہیں جن کو اس آیت میں اہل البیت فرمایا گیا ہے ۔
دُرود شریف میں تشبیہ کی حقیقت اور نوعیت
رسول اللہ ﷺ کے تلقین فرمائے ہوئے اس دُرود شریف میں اللہ تعالیٰ سے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر صلوٰۃ اور برکت نازل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا گیا ہے کہ ایسی صلوٰۃ اور برکت نازل فرما جیسی کہ تو نے حضرت ابراہیمؑ اور اُن کی آل پر نازل فرمائی ۔ اس تشبیہ کے بارے میں ایک مشہور علمی اشکال ہے کہ تشبیہ میں مشبہ ، مشبہ بہ کے مقابلہ میں کمتر ہوتا ہے اور مشبہ بہ اعلیٰ اور برتر ہوتا ہے ۔ مثلاً ٹھنڈے پانی کو برف سے تشبیہ دی جاتی ہے تو پانی خواہ کتنا ہی ٹھنڈا ہو ، ٹھنڈک میں بہرحال برف سے کمتر ہوتا ہے اور برف میں اس سے زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے ۔ اس اُصول پر دُرود شریفکی مذکورہ بالا تشبیہ سے لازم آتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ پر نازل ہونے والی صلوٰۃ و برکات ان صلوٰۃ و برکات سے اعلیٰ اور افضل ہوں جن کی اس دُرود پاک میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل کے لئے استدعا اور التجا کی گئی ہے ۔
شارحین حدیث نے اس اشکال کے بہت سے جوابات دئیے ہیں جو فتح الباری وغیرہ میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس عاجز کے نزدیک سب سے زیادہ تسلی بخش جواب یہ ہے کہ تشبیہ کبھی صرف نوعیت کی تعین کے لئے بھی ہوتی ہے مثلاً ایک شخص کسی خاص قسم کے کپڑے کا ایک پرانا ٹکڑا لے کر کپڑے کی بڑی دکان پر جاتا ہے کہ مجھے ایسا کپڑا چاہئے ، حالانکہ جس ٹکڑے کو وہ نمونے کے طور پر دکھا رہا ہے اور جو مشبہ بہ ہے وہ ایک پرانا اور بےقیمت ٹکڑا ہے اور اسی قسم کا جو کپڑا وہ دکاندار سے چاہتا ہے وہ ظاہر ہے کہ نیا اور قیمتی ہو گا اور اس لحاظ سے نمونہ والے ٹکڑے سے بہتر ہو گا ۔ پس دُرود شریف میں تشبیہ اسی قسم کی ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس خاص نوعیت کی صلوٰۃ و برکات سے سیدنا ابراہیمؑ و آل ابراہیمؑ کو نوازا گیا ، اسی نوعیت کی صلوٰۃ و برکات سیدنا محمد ﷺ و آلِ محمد پر نازل فرمائی جائیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام نبیوں بلکہ ساری مخلوق میں یہ امتیازات حاصل ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنا خلیل بنایا (وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا) ان کو امامتِ کبریٰ کے عظیم شرف سے مشرف اور سرفراز فرمایا (إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا) ان کو بیت اللہ کا بانی بنایا ۔ ان کے بعد سے قیامت تک کے لئے نبوت و رسالت کا سلسلہ اُن ہی کی نسل اور ان ہی کے اخلاف میں منحصر کر دیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سوا کسی پر بھی اللہ تعالیٰ کی یہ نوازشیں اور عنایتیں نہیں ہوئیں اور کسی کو بھی محبوبیت و مقبولیت کا یہ مقام عالی عطا نہیں ہوا ۔ پس دُرود شریف میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا اور التجا کی جاتی ہے کہ اسی قسم کی اور اسی نوع کی عنایتیں اور نوازشیں اپنے حبیب حضرت محمدﷺ اور ان کی آل پر بھی فرما اور محبوبیت و مقبولیت کا ویسا ہی مقام ان کو بھی عطا فرما ۔ الغرض یہ تشبیہ صرف نوعیت کی تعین اور وضاحت کے لئے جس میں بسا اوقات مشبہ ، مشبہ بہ کے مقابلہ میں اعلیٰ و برتر ہوتا ہے اور اس کی مثال وہی ہے جو اوپر کپڑے کی دی گئی ہے ۔
دُرود شریف کا اول و آخر اللَّهُمَّ ......... إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
دُرود شریف کو اللَّهُمَّ سے شروع کر کے اللہ تعالیٰ کے دو مبارک اور پاک ناموں حمید و مجید پر ختم کیا گیا ہے ۔ بعض جلیل القدر ائمہ سلف سے نقل کیا گیا ہے کہ اللَّهُمَّ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء حسنیٰ کے قائم مقام ہے ۔ اور اس کے ذریعہ دعا کرنا ایسا ہے جیسا کہ تمام اسماء حسنیٰ کے ذریعہ دعا کی جائے ۔ “جلاء الافہام” میں اس پر بڑی نفیس فاضلانہ بحث کی ہے جو اہلِ علم کے لئے قابلِ دید ہے ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ معنی اللَّهُمَّ کی میم مشدد سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کو فلسفہ لغت سے ثابت کیا ہے ۔ پھر اس دعوے کی تائید میں چند ائمہ سلف کے اقوال بھی نقل کئے ہیں (1) اور حمید و مجید اللہ تعالیٰ کے یہ دو مبارک نام اس کی تمام صفاتِ جلال و جمال کے آئینہ دار ہیں حمید وہ ہے جس کی ذات میں سارے وہ محاسن و کمالات ہوں جن کی بناء پر وہ ہر ایک کی حمد و ستائش کا مستحق و سزاوار ہو ۔ اور مجید وہ ہے جس کو ذاتی جلال و جبروت اور عظمت کبریائی بدرجہ کمال حاصل ہو ۔ اس بناء پر إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ کا مطلب یہ ہوا کہ اے اللہ تو تمام صفاتِ جمال و کمال اور شانِ جلال کا جامع ہے اس لئے سیدنا محمدﷺ اور آلِ محمد پر صلوٰۃ اور برکت بھیجنے کی تجھ ہی سے استدعا ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے گھر والوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و برکت کا جہاں ذکر کیا گیا ہو وہاں بھی اللہ کے ان دونوں ناموں کی اسی خصوصیت اور امتیاز کی وجہ سے انہی کو بالکل اسی طرح خاتمہ کلام بنایا گیا ہے ۔ سورہ ھود میں فرشتوں کی زبانی فرمایا گیا ہے رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
الغرض اللَّهُمَّ سے درود شریف کا آغاز اور إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ پر اس کا اختتام اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے اور ان دونوں کلموں کی اس معنویت کا لحاظ کرنے سے درود شریف کا کیف بےحد بڑھ جاتا ہے ۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ
اس دُرود شریف کے الفاظ کی روایتی حیثیت
حضرت کعب بن عجرہ کی روایت سے دُرود شریف کے جو الفاظ اوپر نقل کئے گئے ہیں وہ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کی کتاب الانبیاء میں روایت کئے ہیں (جلد اول ص ۴۴۷) اس کے علاوہ کم سے کم دو جگہ اور یہ حدیث امام بخاریؒ نے روایت کی ہے ۔ ایک سورہ احزاب کی تفسیر میں (ص ۷۰۸، ج ۲)اور دوسرے کتاب الدعوات میں ص ۹۴۱ ، ج : ۲) ان دونوں جگہوں پر دُرود شریف میں “كَمَا صَلَّيْتَ” اور “كَمَا بَارَكْتَ” کے بعد “عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” کی جگہ صرف “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” روایت کیا ہے اور صحیح مسلم کی روایت میں بھی اسی طرح ہے لیکن حافظ ابنِ حجرؒ نے اس حدیث کی صحیحین اور غیر صحیحین کی تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فتح الباری میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کعب بن عجرہ کی روایت میں دُرود شریف کے پورے الفاظ یہی ہیں جو یہاں نقل کئے گئے ہیں اور جن روایات میں صرف “عَلَى إِبْرَاهِيمَ” یا “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ”
وارد ہوا ہے وہاں بعض راویوں کے حافظہ کے فرق سے ایسا ہو گیا ہے ۔ (1) (فتح الباری جزء ۲۶ ، ص ۵۱)
حضرت کعب بن عجرہ کے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کرام سے قریب قریب یہی مضمون اور درود شریف کے قریباً یہی الفاظ کتبِ حدیث میں روایت کئے گئے ہیں ۔ وہ تمام روایات آگے پیش کی جا رہی ہیں ۔
اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدﷺ پر اور حضرت محمد ﷺ کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے نوازش اور عنایت و رحمت فرمائی حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کے گھر والوں پر ، بےشک تو حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے ۔ اے اللہ ! خاص برکتیں نازل فرما حضرت حمدﷺ پر اور حضرت محمد ﷺ کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کے گھرانے والوں پر ، تو حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ پاک ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا ہم بندوں کو حکم دیا اور بڑے مؤثر اور پیارے انداز میں حکم دیا ، اور خود رسول اللہ ﷺ نے مختلف پیرایوں میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کے وہ برکات اور فضائل بیان فرمائے جو ناظرین کو مندرجہ سابق احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں ۔ پھر صحابہ کرام کے دریافت کرنے پر رسول اللہ ﷺ نے درود و سلام کے خاص کلمات بھی تعلیم فرمائ ۔ اپنے امکان کی حد تک کتبِ حدیث کی پوری چھان بین کے بعد اس سلسلہ کی مستند روایات جمع کر کے ذیل میں درج کی جا رہی ہیں ۔
تشریح ..... حضرت کعب بن عجرہ نے عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کو یہ حدیث جس طرح اور جس تمہید کے ساتھ سنائی اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس حدیث کو اور اس درود شریف کو کتنا عظیم اور کیسا بیش بہا تحفہ سمجھتے تھے ۔ اور طبری کی اسی حدیث کی روایت میں یہ بھی ہے کہ کعب بن عجرہ نے یہ حدیث عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے سنائی تھی ۔ (1) اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اس کی کتنی عظمت تھی ۔
اسی حدیث کی بیہقی کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ صلوٰۃ یعنی درود کے طریقہ کے بارے میں یہ سوال رسول اللہ ﷺ سے اس وقت کیا گیا جب سورہ احزاب کی یہ آیت نازل ہوئی (2) إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اس آیت میں صلوٰۃ و سلام کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے بارے میں تفصیل سے پہلے لکھا جا چکا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سوال کے جواب میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا ہم کو جو حکم دیا ہے اس کا کیا طریقہ ہے اور کس طرح ہم آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجا کریں ؟ صلوٰۃ کے جو کلمات اس حدیث میں اور اس کے علاوہ بھی بہت سی دوسری حدیثوں میں تلقین فرمائے یعنی اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ الخ ان سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ پر ہمارے صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ سے التجا اور استدعا کریں کہ وہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجے اور برکتیں نازل فرمائے ۔ یہ اس لئے کہ ہم خود چونکہ محتاج و مفلس اور تہی مایہ ہیں ، ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ اپنے محسنِ اعظم اور اللہ کے نبی محترم ﷺ کی بارگاہ میں کچھ پیش کر سکیں ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں استدعا اور التجا کرتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ اور برکت بھیجے یعنی آپ ﷺ کی تشریف و تکریم آپ پر نوازش و عنایت ، رحمت و رأفت ، پیار دُلار میں اور مقبولیت کے درجات و مراتب میں اضافہ فرمائے اور آپ ﷺ کو اپنی خاص برکتوں سے نوازے ، نیز آپ ﷺ کے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرمائے ۔
استدعاء “صلوٰۃ” کے بعد “برکت” مانگنے کی حکمت
صلوٰۃ کے بارے میں پہلے بقدرِ ضرورت کلام کیا جا چکا ہے اور بتایا جا چکا ہے کہ اس کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ۔ تشریف و تکریم ، مدح و ثنا ، رحمت و رأفت ، محبت و عطوفت ، رفع مراتب ، ارادہ خیر ، اعطاء خیر ، اور دعائے خیر سب ہی کو صلوٰۃ کا مفہوم حاوی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندہ پر “برکت” ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کے لئے بھرپور نوازش و عنایت اور خیر و نعمت کا اور اس کے دوام اور اس میں برابر اضافہ و ترقی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہے ۔ بہرحال برکت کسی ایسی چیز کا نام نہیں ہے جس کو “صلوٰۃ” کا وسیع مفہوم حاوی نہ ہو ۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں رسول اللہ ﷺ کے لئے صلوٰۃ کی استدعا کرنے کے بعد آپ ﷺ کے واسطے برکت یا رحمت کی دعا اور التجا کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا اور سوال کے موقع پر یہی مستحسن ہے کہ مختلف الفاظ و عبارات میں بار بار عرض و معروض کی جائے ، اس سے بندہ کی شدید محتاجی اور صدقِ طلب کا اظہار ہوتا ہے اور سائل اور منگتا کے لئے یہی مناسب ہے ۔ اس لئے اس درود شریف میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کے لئے اللہ تعالیٰ سے صلوٰۃ کی استدعا کے بعد برکت کی التجا بھی کی گئی ہے اور بعض دوسری روایات میں (جو عنقریب درج ہوں گی) صلوٰۃ اور برکت کے بعد ترحم کا بھی سوال کیا گیا ہے ۔
دُرود شریف میں لفظ “آل” کا مطلب
اس دُرود شریف میں “آل” کا لفظ چار دفعہ آیا ہے ، ہم نے اس کا ترجمہ “گھرانے والوں کا کیا ہے ۔ عربی زبان اور خاص کر قرآن حدیث کے استعمالات میں کسی شخص کی آل ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ خصوصی تعلق رکھتے ہوں ، خواہ یہ تعلق نسب اور رشتہ کا ہو ، جیسے اس کے بیوی بچے یا رفاقت اور عقیدت و محبت اور اتباع و اطاعت کا ، جیسے کہ اس کے مشن کے خاص ساتھی اور محبین و متبعین (1) اس لئے نفس لغت کے لحاظ سے یہاں آل کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اگلے ہی نمبر پر اسی مضمون کی حضرت ابو حمید ساعدی کی جو حدیث درج کی جا رہی ہے اس میں دُرود شریف کے جو الفاظ ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں “آل” سے “گھرانے والے” ہی مراد ہیں ۔ یعنی آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور آپ ﷺ کی نسل و اولاد ، اور جس طرح ان کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خصوصی قرابت و جزئیت اور زندگی میں شرکت کا خاص شرف حاصل ہے (جو دوسرے حضرات کو حاصل نہیں ہے اگرچہ وہ درجہ میں ان سے افضل ہوں) اسی طرح یہ بھی ان کا ایک مخصوص شرف ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان پر بھی درود و سلام بھیجا جاتا ہے ۔ اور اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ ازواجِ مطہرات وغیرہ جو لفظ “آل” کے مصداق ہیں ، امت میں سب سے افضل ہوں ، عنداللہ افضلیت کا مدار ایمان اور ایمان والے اعمال اور ایمانی کیفیات پر ہے جس کا جامع عنوان تقویٰ ہے ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
اس کو بالکل یوں سمجھنا چاہئے کہ ہماری اس دنیا میں بھی جب کوئی مخلص محبّ اپنے کسی محبوب بزرگ کی خدمت میں کوئی خاص مرغوب تحفہ اور سوغات پیش کرتا ہے تو اس کے پیش نظر خود وہ بزرگ اور ان کے ذاتی تعلق کی بناء پر ان کے گھر والے ہوتے ہیں اور اس مخلص کی یہ خوشی ہوتی ہے کہ یہ تحفہ ان بزرگ کے ساتھ ان کے گھر والے یعنی اہل و عیال بھی استعمال کریں ، کسی کے ساتھ تعلق و محبت کا دراصل یہ فطری تقاضا ہے ۔ دُرود شریف بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک تحفہ اور سوغات ہے ، اس میں آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ آپ کے خاص متعلقین یعنی اہل و عیال کو بھی شریک کرنا بلا شبہ آپ ﷺ کی محبت کا تقاضا ہے ، اور اس سے آپ ﷺ کے قلبِ مبارک کا بہت زیادہ خوش ہونا بھی ایک فطری بات ہے ۔ اس کی بنیاد پر افضلیت اور مفضولیت کی کلامی بحث کرنا کوئی خوش ذوقی کی بات نہیں ہے ۔ بہرحال اس عاجز کے نزدیک راجح یہی ہے کہ دُرود شریف میں آل محمدﷺ سے آپ کے گھر والے یعنی ازواجِ مطہرات اور ذریت مراد ہیں ، اور اسی طرح سے آل ابراہیم علیہ السلام سے حضرت ابراہیمؑ کے گھر والے ! قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ مطہرہ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے ۔ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ بلاشبہ آلِ ابراہیمؑ وہی ہیں جن کو اس آیت میں اہل البیت فرمایا گیا ہے ۔
دُرود شریف میں تشبیہ کی حقیقت اور نوعیت
رسول اللہ ﷺ کے تلقین فرمائے ہوئے اس دُرود شریف میں اللہ تعالیٰ سے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر صلوٰۃ اور برکت نازل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا گیا ہے کہ ایسی صلوٰۃ اور برکت نازل فرما جیسی کہ تو نے حضرت ابراہیمؑ اور اُن کی آل پر نازل فرمائی ۔ اس تشبیہ کے بارے میں ایک مشہور علمی اشکال ہے کہ تشبیہ میں مشبہ ، مشبہ بہ کے مقابلہ میں کمتر ہوتا ہے اور مشبہ بہ اعلیٰ اور برتر ہوتا ہے ۔ مثلاً ٹھنڈے پانی کو برف سے تشبیہ دی جاتی ہے تو پانی خواہ کتنا ہی ٹھنڈا ہو ، ٹھنڈک میں بہرحال برف سے کمتر ہوتا ہے اور برف میں اس سے زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے ۔ اس اُصول پر دُرود شریفکی مذکورہ بالا تشبیہ سے لازم آتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ پر نازل ہونے والی صلوٰۃ و برکات ان صلوٰۃ و برکات سے اعلیٰ اور افضل ہوں جن کی اس دُرود پاک میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل کے لئے استدعا اور التجا کی گئی ہے ۔
شارحین حدیث نے اس اشکال کے بہت سے جوابات دئیے ہیں جو فتح الباری وغیرہ میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس عاجز کے نزدیک سب سے زیادہ تسلی بخش جواب یہ ہے کہ تشبیہ کبھی صرف نوعیت کی تعین کے لئے بھی ہوتی ہے مثلاً ایک شخص کسی خاص قسم کے کپڑے کا ایک پرانا ٹکڑا لے کر کپڑے کی بڑی دکان پر جاتا ہے کہ مجھے ایسا کپڑا چاہئے ، حالانکہ جس ٹکڑے کو وہ نمونے کے طور پر دکھا رہا ہے اور جو مشبہ بہ ہے وہ ایک پرانا اور بےقیمت ٹکڑا ہے اور اسی قسم کا جو کپڑا وہ دکاندار سے چاہتا ہے وہ ظاہر ہے کہ نیا اور قیمتی ہو گا اور اس لحاظ سے نمونہ والے ٹکڑے سے بہتر ہو گا ۔ پس دُرود شریف میں تشبیہ اسی قسم کی ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس خاص نوعیت کی صلوٰۃ و برکات سے سیدنا ابراہیمؑ و آل ابراہیمؑ کو نوازا گیا ، اسی نوعیت کی صلوٰۃ و برکات سیدنا محمد ﷺ و آلِ محمد پر نازل فرمائی جائیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام نبیوں بلکہ ساری مخلوق میں یہ امتیازات حاصل ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنا خلیل بنایا (وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا) ان کو امامتِ کبریٰ کے عظیم شرف سے مشرف اور سرفراز فرمایا (إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا) ان کو بیت اللہ کا بانی بنایا ۔ ان کے بعد سے قیامت تک کے لئے نبوت و رسالت کا سلسلہ اُن ہی کی نسل اور ان ہی کے اخلاف میں منحصر کر دیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سوا کسی پر بھی اللہ تعالیٰ کی یہ نوازشیں اور عنایتیں نہیں ہوئیں اور کسی کو بھی محبوبیت و مقبولیت کا یہ مقام عالی عطا نہیں ہوا ۔ پس دُرود شریف میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا اور التجا کی جاتی ہے کہ اسی قسم کی اور اسی نوع کی عنایتیں اور نوازشیں اپنے حبیب حضرت محمدﷺ اور ان کی آل پر بھی فرما اور محبوبیت و مقبولیت کا ویسا ہی مقام ان کو بھی عطا فرما ۔ الغرض یہ تشبیہ صرف نوعیت کی تعین اور وضاحت کے لئے جس میں بسا اوقات مشبہ ، مشبہ بہ کے مقابلہ میں اعلیٰ و برتر ہوتا ہے اور اس کی مثال وہی ہے جو اوپر کپڑے کی دی گئی ہے ۔
دُرود شریف کا اول و آخر اللَّهُمَّ ......... إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
دُرود شریف کو اللَّهُمَّ سے شروع کر کے اللہ تعالیٰ کے دو مبارک اور پاک ناموں حمید و مجید پر ختم کیا گیا ہے ۔ بعض جلیل القدر ائمہ سلف سے نقل کیا گیا ہے کہ اللَّهُمَّ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء حسنیٰ کے قائم مقام ہے ۔ اور اس کے ذریعہ دعا کرنا ایسا ہے جیسا کہ تمام اسماء حسنیٰ کے ذریعہ دعا کی جائے ۔ “جلاء الافہام” میں اس پر بڑی نفیس فاضلانہ بحث کی ہے جو اہلِ علم کے لئے قابلِ دید ہے ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ معنی اللَّهُمَّ کی میم مشدد سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کو فلسفہ لغت سے ثابت کیا ہے ۔ پھر اس دعوے کی تائید میں چند ائمہ سلف کے اقوال بھی نقل کئے ہیں (1) اور حمید و مجید اللہ تعالیٰ کے یہ دو مبارک نام اس کی تمام صفاتِ جلال و جمال کے آئینہ دار ہیں حمید وہ ہے جس کی ذات میں سارے وہ محاسن و کمالات ہوں جن کی بناء پر وہ ہر ایک کی حمد و ستائش کا مستحق و سزاوار ہو ۔ اور مجید وہ ہے جس کو ذاتی جلال و جبروت اور عظمت کبریائی بدرجہ کمال حاصل ہو ۔ اس بناء پر إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ کا مطلب یہ ہوا کہ اے اللہ تو تمام صفاتِ جمال و کمال اور شانِ جلال کا جامع ہے اس لئے سیدنا محمدﷺ اور آلِ محمد پر صلوٰۃ اور برکت بھیجنے کی تجھ ہی سے استدعا ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے گھر والوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و برکت کا جہاں ذکر کیا گیا ہو وہاں بھی اللہ کے ان دونوں ناموں کی اسی خصوصیت اور امتیاز کی وجہ سے انہی کو بالکل اسی طرح خاتمہ کلام بنایا گیا ہے ۔ سورہ ھود میں فرشتوں کی زبانی فرمایا گیا ہے رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
الغرض اللَّهُمَّ سے درود شریف کا آغاز اور إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ پر اس کا اختتام اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے اور ان دونوں کلموں کی اس معنویت کا لحاظ کرنے سے درود شریف کا کیف بےحد بڑھ جاتا ہے ۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ
اس دُرود شریف کے الفاظ کی روایتی حیثیت
حضرت کعب بن عجرہ کی روایت سے دُرود شریف کے جو الفاظ اوپر نقل کئے گئے ہیں وہ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کی کتاب الانبیاء میں روایت کئے ہیں (جلد اول ص ۴۴۷) اس کے علاوہ کم سے کم دو جگہ اور یہ حدیث امام بخاریؒ نے روایت کی ہے ۔ ایک سورہ احزاب کی تفسیر میں (ص ۷۰۸، ج ۲)اور دوسرے کتاب الدعوات میں ص ۹۴۱ ، ج : ۲) ان دونوں جگہوں پر دُرود شریف میں “كَمَا صَلَّيْتَ” اور “كَمَا بَارَكْتَ” کے بعد “عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” کی جگہ صرف “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” روایت کیا ہے اور صحیح مسلم کی روایت میں بھی اسی طرح ہے لیکن حافظ ابنِ حجرؒ نے اس حدیث کی صحیحین اور غیر صحیحین کی تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فتح الباری میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کعب بن عجرہ کی روایت میں دُرود شریف کے پورے الفاظ یہی ہیں جو یہاں نقل کئے گئے ہیں اور جن روایات میں صرف “عَلَى إِبْرَاهِيمَ” یا “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ”
وارد ہوا ہے وہاں بعض راویوں کے حافظہ کے فرق سے ایسا ہو گیا ہے ۔ (1) (فتح الباری جزء ۲۶ ، ص ۵۱)
حضرت کعب بن عجرہ کے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کرام سے قریب قریب یہی مضمون اور درود شریف کے قریباً یہی الفاظ کتبِ حدیث میں روایت کئے گئے ہیں ۔ وہ تمام روایات آگے پیش کی جا رہی ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ، فَقَالَ: أَلاَ أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، فَأَهْدِهَا لِي، فَقَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ البَيْتِ، فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُمْ؟ قَالَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ " (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৫৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
ضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ حضرت ! ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کس طرح پڑھا کریں ؟ آپ صﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا کرو ۔ “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ” اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدﷺ پر اور آپ کی (پاک) بیبیوں اور آپ ﷺ کی نسل پر جیسے کہ آپ نے نوازش اور عنایت و رحمت فرمائی آلِ ابراہیم پر ، اور خاص برکت نازل فرما حضرت محمدﷺ پر اور آپ ﷺکی (پاک) بیبیوں اور آپ ﷺ کی نسل پر جیسے کہ آپ نے برکتیں نازل فرمائی آلِ ابراہیم پر ، اے اللہ تو ساری حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے ہی لئے ساری عظمت و بڑائی ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں دُرود شریف کے جو الفاظ تلقین فرمائے گئے ہیں وہ کعب بن عجرہؓ والی پہلی حدیث سے کچھ مختلف ہیں ۔ پہلی حدیث میں “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ” اور “اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ” فرمایا گیا تھا ، اور اس حدیث میں دونوں جگہ “وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ” کے بجائے “وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ” فرمایا گیا ہے ، اسی بناء پر اس عاجز نے پہلی حدیث کی تشریح میں ان حضرات کے قول کو راجح قرار دیا تھا جنہوں نے کہا ہے کہ دُرود شریف میں آلِ محمد سے مراد ازواجِ مطہرات اور آپ ﷺ کی ذریت طیبہ ہے ۔ ایک دوسرا خفیف لفظی فرق یہ بھی ہے کہ پہلی حدیث میں “كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” اور “كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” فرمایا گیا تھا اور اس حدیث میں دونوں جگہ صرف “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” ہے ۔ اور حضرت ابو حمید ساعدی کی اس روایت کے علاوہ دوسرے اکثر صحابہ کی حدیثوں میں بھی جو آگے درج ہوں گی ، اسی طرح صرف “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” وارد ہوا ہے ۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا یہ صرف لفظی فرق ہے ۔ اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ عربی محاورات میں جب کسی کا نام لے کر اس کی آل کا ذکر کیا جائے اور خود اس کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ بھی اس میں شامل ہوتا ہے مثلاً قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ” (اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ساری قوموں میں برگزیدہ کیا آدمؑ کو اور نوحؑ کو اور آل ابراہیم) کو ظاہر ہے کہ یایہاں آلِ ابراہیم میں کود حضرت ابراہیم بھی شامل ہیں ۔ اسی طرح “وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ” اور “أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ” میں خود فرعون بھی شامل ہے ۔
بہرحال ان دونوں حدیثوں میں دُرود شریف کے جو کلمات وارد ہوئے ہیں ان میں خفیف سا فرق صرف الفاظ میں ہے ۔ اسی لئے علماء و فقہا نے تصریح کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دُرود نماز میں پڑھا جا سکتا ہے ۔ اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام کی روایتوں سے آئندہ درج ہونے والی حدیثوں میں دُرود شریف کے جو کلمات آ رہے ہیں جن میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی ہے ، وہ سب بھی نماز میں پڑھے جا سکتے ہیں ۔
تشریح
اس حدیث میں دُرود شریف کے جو الفاظ تلقین فرمائے گئے ہیں وہ کعب بن عجرہؓ والی پہلی حدیث سے کچھ مختلف ہیں ۔ پہلی حدیث میں “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ” اور “اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ” فرمایا گیا تھا ، اور اس حدیث میں دونوں جگہ “وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ” کے بجائے “وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ” فرمایا گیا ہے ، اسی بناء پر اس عاجز نے پہلی حدیث کی تشریح میں ان حضرات کے قول کو راجح قرار دیا تھا جنہوں نے کہا ہے کہ دُرود شریف میں آلِ محمد سے مراد ازواجِ مطہرات اور آپ ﷺ کی ذریت طیبہ ہے ۔ ایک دوسرا خفیف لفظی فرق یہ بھی ہے کہ پہلی حدیث میں “كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” اور “كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” فرمایا گیا تھا اور اس حدیث میں دونوں جگہ صرف “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” ہے ۔ اور حضرت ابو حمید ساعدی کی اس روایت کے علاوہ دوسرے اکثر صحابہ کی حدیثوں میں بھی جو آگے درج ہوں گی ، اسی طرح صرف “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” وارد ہوا ہے ۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا یہ صرف لفظی فرق ہے ۔ اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ عربی محاورات میں جب کسی کا نام لے کر اس کی آل کا ذکر کیا جائے اور خود اس کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ بھی اس میں شامل ہوتا ہے مثلاً قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ” (اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ساری قوموں میں برگزیدہ کیا آدمؑ کو اور نوحؑ کو اور آل ابراہیم) کو ظاہر ہے کہ یایہاں آلِ ابراہیم میں کود حضرت ابراہیم بھی شامل ہیں ۔ اسی طرح “وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ” اور “أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ” میں خود فرعون بھی شامل ہے ۔
بہرحال ان دونوں حدیثوں میں دُرود شریف کے جو کلمات وارد ہوئے ہیں ان میں خفیف سا فرق صرف الفاظ میں ہے ۔ اسی لئے علماء و فقہا نے تصریح کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دُرود نماز میں پڑھا جا سکتا ہے ۔ اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام کی روایتوں سے آئندہ درج ہونے والی حدیثوں میں دُرود شریف کے جو کلمات آ رہے ہیں جن میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی ہے ، وہ سب بھی نماز میں پڑھے جا سکتے ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِيْ حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ قَالَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ " (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم کچھ لوگ سعد بن عبادہ کی نشست گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، وہیں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو (حاضرین مجلس میں سے) بشیر بن سعد نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا حکم دیا ہے (ہمیں بتائیے کہ) ہم کس طرح آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجا کریں ؟ حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کچھ دیر تک خاموش رہے اور آپ ﷺ نے بشیر بن سعد کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا (جس سے ہمیں یہ شبہ ہو کہ شاید یہ سوال آپ کو اچھا نہیں لگا) یہاں تک کہ ہمارے دل میں آیا کہ کاش یہ سوال نہ کیا گیا ہوتا پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد (اس سوال کا جواب دیتے ہوئے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یوں کہا کرو :
اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ
اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدپر اور ان کے گھرانے والوں پر جس طرح تو نے نوازش و عنایت اور رحمت فرمائی حضرت ابراہیم کے گھرانے پر ، اور اپنی خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمداور ان کے گھرانے پر ، جسطرح تونے برکتیں نازل فرمائیںحضرت ابراہیم کے گھرانے پر ، ساری حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے ہی لئے ساری عظمت و بزرگی ہے اور سلام اس طرح جس طرح کہ تمہیں معلوم ہو چکا ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت ابو مسعود انصاری کی اس حدیث کی طبری کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب بشیر بن سعد نے آپ ﷺ سے سوال کی اکہ ہم آپ ﷺ پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ تو آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ پر وحی آئی (فَسَكَتَ حَتَّى جَاءَهُ الْوَحْىُ) اس کے بعد آپ ﷺ نے مندرجہ بالا دُرود تلقین فرمایا ۔ اس اضافہ سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ کی خاموشی وحی کے انتظار میں تھی اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ دُرود شریف کے کلمات آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم فرمائے گئے تھے ۔ اور مزید یہ بھی معلوم ہو گیا کہ دُرود کے بارے میں آپ ﷺ سے پہلی دفعہ سعد بن عبادہ کی مجلس ہی میں کیا گیا تھا جس کے جواب میں آپ ﷺ کو وحی کا انتظار کرنا پڑا ۔ دوسرے بعض صحابہ (کعب بن عجرہ اور ابو حمید ساعدی وغیرہ) کی روایات میں جو اسی طرح کے سوال کا ذکر ہے وہ یا تو اسی مجلس کے واقعہ کا بیان ہے یا مختلف حضرات نے مختلف موقعوں پر رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا اور آپ ﷺ نے جواب میں ان کو دُرود شریف کے وہ کلمات تلقین فرمائے جو ان کی روایات میں وارد ہیں ۔ اکثر احادیث کے سیاق اور الفاظ و کلمات کے فرق سے اسی دوسرے احتمال کی تائید ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
حضرت ابو سعید انصاری کی اس حدیث کی امام احمد اور ابن خزیمہ اور حاکم وغیرہ کی روایات میں ایک اضافہ یہ بھی ہے کہ بشیر بن سعد نے دُرود بھیجنے کے بارے میں سوال کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا :
كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ اِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا عَلَيْكَ فِىْ صَلَاتِنَا
جب ہم نماز میں آپ ﷺ پر درود بھیجیں تو کس طرح بھیجا کریں؟
اس سے معلوم ہوا کہ یہ سوال خاص طور سے نماز میں دُرود پڑھنے کے بارے میں کیا گیا تھا اور یہ دُرود ابراہیمی رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت سے نماز میں پڑھنے کے لئے تلقین فرمایا ۔
حضرت ابو مسعود انصاریؓ کی اس روایت میں بھی ابو حمید ساعدی کی حدیث کی طرح “كَمَا صَلَّيْتَ” اور “كَمَا بَارَكْتَ” کے بعد “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” روایت کیا گیا ہے اور آخر میں “إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” سے پہلے “فِى الْعَالَمِيْنَ” کا اضافہ بھی ہے ۔
اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ
اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدپر اور ان کے گھرانے والوں پر جس طرح تو نے نوازش و عنایت اور رحمت فرمائی حضرت ابراہیم کے گھرانے پر ، اور اپنی خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمداور ان کے گھرانے پر ، جسطرح تونے برکتیں نازل فرمائیںحضرت ابراہیم کے گھرانے پر ، ساری حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے ہی لئے ساری عظمت و بزرگی ہے اور سلام اس طرح جس طرح کہ تمہیں معلوم ہو چکا ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت ابو مسعود انصاری کی اس حدیث کی طبری کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب بشیر بن سعد نے آپ ﷺ سے سوال کی اکہ ہم آپ ﷺ پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ تو آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ پر وحی آئی (فَسَكَتَ حَتَّى جَاءَهُ الْوَحْىُ) اس کے بعد آپ ﷺ نے مندرجہ بالا دُرود تلقین فرمایا ۔ اس اضافہ سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ کی خاموشی وحی کے انتظار میں تھی اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ دُرود شریف کے کلمات آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم فرمائے گئے تھے ۔ اور مزید یہ بھی معلوم ہو گیا کہ دُرود کے بارے میں آپ ﷺ سے پہلی دفعہ سعد بن عبادہ کی مجلس ہی میں کیا گیا تھا جس کے جواب میں آپ ﷺ کو وحی کا انتظار کرنا پڑا ۔ دوسرے بعض صحابہ (کعب بن عجرہ اور ابو حمید ساعدی وغیرہ) کی روایات میں جو اسی طرح کے سوال کا ذکر ہے وہ یا تو اسی مجلس کے واقعہ کا بیان ہے یا مختلف حضرات نے مختلف موقعوں پر رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا اور آپ ﷺ نے جواب میں ان کو دُرود شریف کے وہ کلمات تلقین فرمائے جو ان کی روایات میں وارد ہیں ۔ اکثر احادیث کے سیاق اور الفاظ و کلمات کے فرق سے اسی دوسرے احتمال کی تائید ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
حضرت ابو سعید انصاری کی اس حدیث کی امام احمد اور ابن خزیمہ اور حاکم وغیرہ کی روایات میں ایک اضافہ یہ بھی ہے کہ بشیر بن سعد نے دُرود بھیجنے کے بارے میں سوال کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا :
كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ اِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا عَلَيْكَ فِىْ صَلَاتِنَا
جب ہم نماز میں آپ ﷺ پر درود بھیجیں تو کس طرح بھیجا کریں؟
اس سے معلوم ہوا کہ یہ سوال خاص طور سے نماز میں دُرود پڑھنے کے بارے میں کیا گیا تھا اور یہ دُرود ابراہیمی رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت سے نماز میں پڑھنے کے لئے تلقین فرمایا ۔
حضرت ابو مسعود انصاریؓ کی اس روایت میں بھی ابو حمید ساعدی کی حدیث کی طرح “كَمَا صَلَّيْتَ” اور “كَمَا بَارَكْتَ” کے بعد “عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ” روایت کیا گیا ہے اور آخر میں “إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” سے پہلے “فِى الْعَالَمِيْنَ” کا اضافہ بھی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ: أَمَرَنَا اللهُ تَعَالَى أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُولُوا اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہم نے عرض کیا حضرت ! آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہم کو معلوم ہو گیا (یعنی تشہد کے ضمن میں بتا دیا گیا “السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ” اب ہمیں یہ بھی بتا دیا جائے کہ ہم آپ پر “صلوٰۃ” کس طرح بھیجا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا کرو :
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ (رواه البخارى)
اے اللہ ! اپنی خاص عنایت و نوازش اور محبت و رحمت فرما اپنے خاص بندے اور رسول (حضرت) محمد پر ، جیسی تو نے نوازش و عنایت اور محبت و رحمت فرمائی (اپنے خلیل حضرت) ابراہیم پر ، اور خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمد و آلِ محمد پر ، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم و آلِ ابراہیم پر ۔ (صحیح بخاری)
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ (رواه البخارى)
اے اللہ ! اپنی خاص عنایت و نوازش اور محبت و رحمت فرما اپنے خاص بندے اور رسول (حضرت) محمد پر ، جیسی تو نے نوازش و عنایت اور محبت و رحمت فرمائی (اپنے خلیل حضرت) ابراہیم پر ، اور خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمد و آلِ محمد پر ، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم و آلِ ابراہیم پر ۔ (صحیح بخاری)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا السَّلاَمُ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ نُصَلِّي؟ قَالَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ " (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا ہم آپ ﷺ پر کس طرح صلوٰۃ بھیجا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یوں کہا کرو اے اللہ ! نوازش و عنایت اورمحبت و رحمت فرما محمد ﷺ پر جیسی نوازش و عنایت اور محبت و رحمت فرمائی تو نے ابراہیمؑ پر ، تو حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور ہر طرح کی عظمت و بزرگی تیرے لئے ہے ۔ (سنن نسائی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ طَلْحَةَأَنَّ رَجُلًا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ. (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہم لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ(ﷺ) پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو چکا ہے ۔ اب بتا دیجئے کہ آپ(ﷺ) پر صلوٰۃ کس طرح بھیجی جائے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، اللہ کے حضور میں یوں عرض کیا کرو :
«اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا جَعَلْتَهَا عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»
اے اللہ ! اپنی خاص نوازشیںو عنایتیںاوراپنی مخصوص رحمت نازل فرما حضرت محمد اور ان کے گھرانے والوں پر جیسے تو نے نازل فرمائیں حضرت ابراہیم پر ، تو ہر حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے عظمت و کبریائی تیری ذاتی صفت ہے ۔ (مسند احمد)
«اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا جَعَلْتَهَا عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»
اے اللہ ! اپنی خاص نوازشیںو عنایتیںاوراپنی مخصوص رحمت نازل فرما حضرت محمد اور ان کے گھرانے والوں پر جیسے تو نے نازل فرمائیں حضرت ابراہیم پر ، تو ہر حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے عظمت و کبریائی تیری ذاتی صفت ہے ۔ (مسند احمد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فَكَيْفَ نُصَلِّى عَلَيْكَ؟ قَالَ: قُولُوا: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا جَعَلْتَهَا عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم مجھ پر صلوٰۃ بھیجو تو اس طرح کہا کرو “اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” (مسند احمد ، صحیح ابن حبان ، سنن دار قطنی ، سنن بیہقی)
(چونکہ دُرود پاک کے ان کلمات کا ترجمہ بار بار کیا جا چکا ہے اس لئے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں سمجھی گئی)۔
تشریح
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے روایت کردہ اس دُرود میں رسول اللہ ﷺ کا نام پاک آپ کی امتیازی صفت اور خاص لقب “النبی الامی” کے اضافہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، قرآن مجید میں آپ ﷺ کی یہ صفت ایک خاص نشانی اور پہچان کے طور پر ذکر کی گئی ہے (الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ ..... الاعراف) اس آیت میں اشارہ ہے کہ تورات و انجیل میں آپ ﷺ کا ذکر اس صفت کے ساتھ کیا گیا تھا “امی” کے معنی ہیں “بے لکھے پڑھے” مطلب یہ ہے کہ جو علم و ہدایت آپ ﷺ لے کر آئے وہ آپ ﷺ نے کسی استاد یا کتاب سے حاصل نہیں کیا ہے ، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے حاصل ہوا ہے ۔ لکھنے پڑھنے کے لحاظ سے آپ ﷺ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے ۔ ظاہر ہے آپ ﷺ کی اس صفت اور اس لقب میں ایک خاص محبوبیت ہے اور اس چھوٹے سے لفظ میں آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی ایک بڑی روشن دلیل پیش کر دی گئی ہے ؎
نگارِ من کہ بمکتب نہ رفت و خط نہ نوشت
بغمزہ مسئلہ آموز صد مدرس شُد
(چونکہ دُرود پاک کے ان کلمات کا ترجمہ بار بار کیا جا چکا ہے اس لئے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں سمجھی گئی)۔
تشریح
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے روایت کردہ اس دُرود میں رسول اللہ ﷺ کا نام پاک آپ کی امتیازی صفت اور خاص لقب “النبی الامی” کے اضافہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، قرآن مجید میں آپ ﷺ کی یہ صفت ایک خاص نشانی اور پہچان کے طور پر ذکر کی گئی ہے (الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ ..... الاعراف) اس آیت میں اشارہ ہے کہ تورات و انجیل میں آپ ﷺ کا ذکر اس صفت کے ساتھ کیا گیا تھا “امی” کے معنی ہیں “بے لکھے پڑھے” مطلب یہ ہے کہ جو علم و ہدایت آپ ﷺ لے کر آئے وہ آپ ﷺ نے کسی استاد یا کتاب سے حاصل نہیں کیا ہے ، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے حاصل ہوا ہے ۔ لکھنے پڑھنے کے لحاظ سے آپ ﷺ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے ۔ ظاہر ہے آپ ﷺ کی اس صفت اور اس لقب میں ایک خاص محبوبیت ہے اور اس چھوٹے سے لفظ میں آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی ایک بڑی روشن دلیل پیش کر دی گئی ہے ؎
نگارِ من کہ بمکتب نہ رفت و خط نہ نوشت
بغمزہ مسئلہ آموز صد مدرس شُد
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَيَّ فَقُولُوا اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ " (رواه احمد وابن حبان والدار قطنى والبيهقى فى السنن)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت زید بن خارجہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ پر دُرود کس طرح بھیجی جائے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھ پر درود بھیجا کرو اور خوب اہتمام اور دِل لگا کے دعا کیا کرو اور یوں عرض کیا کرو : “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” (اے اللہ ! حضرت محمد آلِ محمد پر اپنی خاص عنایت و رحمت اور برکت نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائیں ، تو ہر حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور عظمت و کبریائی تیری ذاتی صفت ہے) ۔ (مسند احمد ، سنن نسائی)
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن خارجہ کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ ﷺ پر دُرود کس طرح بھیجی جائے ؟ دُرود کے کلمات بھی تلقین فرمائے اور اس سے پہلے ارشاد فرمایا “صَلُّوا عَلَيَّ وَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ” اس عاجز نے “وَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ” کا مطلب یہی سمجھا ہے کہ دُرود شریف جو دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور میں رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک دعا ہے ، صرف زبان سے سرسری طور پر نہیں ، بلکہ اہتمام اور دل کی پوری توجہ سے مانگی جائے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن خارجہ کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ ﷺ پر دُرود کس طرح بھیجی جائے ؟ دُرود کے کلمات بھی تلقین فرمائے اور اس سے پہلے ارشاد فرمایا “صَلُّوا عَلَيَّ وَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ” اس عاجز نے “وَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ” کا مطلب یہی سمجھا ہے کہ دُرود شریف جو دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور میں رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک دعا ہے ، صرف زبان سے سرسری طور پر نہیں ، بلکہ اہتمام اور دل کی پوری توجہ سے مانگی جائے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ زَيْدَ بْنَ خَارِجَةَ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ؟ فَقَالَ: " صَلُّوا عَلَيَّ وَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ، وَقُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ " (رواه احمد والنسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس نے مجھ پر اس طرح دُرود بھیجا “من قَالَ: اللَّهُمَّ {صل على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد، كَمَا صليت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم، وَبَارك على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد، كَمَا باركت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم، وترحم على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد، كَمَا ترحمت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم” تو میں قیامت کے دن اس کے لئے شہادت دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا ۔ (تہذیب الآثار للطبرانی)
تشریح
حضرت ابو ہریرہؓ کی رایت کی ہوئی اور اس درود میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کے لئے صلوٰۃ اور برکت کے علاوہ ترحم کی بھی دعا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے علماء اور فقہاء نے رسول اللہ ﷺ کے لئے رحمت کی دعا سے منع فرمایاکیوں کہ یہ دعا تو عام مومنین کے لئے بھی کی جاتی ہے لیکن اگر صلوٰۃ و سلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے رحمت و ترحم کی استدعا آپ ﷺ کے لئے کی جائے تو مضائقہ نہیں ہے ۔ تشہد میں “السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ” ہر نما زمیں پڑھا جاتا ہے ار اس میں آپ ﷺ کے لئے سلام کے ساتھ رحمت کی دعا بھی ہے ، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ کے روایت کئے ہوئے اس دُرود میں صلوٰۃ اور برکت کی استدعا کے بعد ترحم کی استدعا بھی کی گئی ہے ۔ اس طرح ترحم کی استدعا صلوٰۃ و سلام کا تکملہ بن جاتی ہے ۔
تشریح
حضرت ابو ہریرہؓ کی رایت کی ہوئی اور اس درود میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کے لئے صلوٰۃ اور برکت کے علاوہ ترحم کی بھی دعا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے علماء اور فقہاء نے رسول اللہ ﷺ کے لئے رحمت کی دعا سے منع فرمایاکیوں کہ یہ دعا تو عام مومنین کے لئے بھی کی جاتی ہے لیکن اگر صلوٰۃ و سلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے رحمت و ترحم کی استدعا آپ ﷺ کے لئے کی جائے تو مضائقہ نہیں ہے ۔ تشہد میں “السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ” ہر نما زمیں پڑھا جاتا ہے ار اس میں آپ ﷺ کے لئے سلام کے ساتھ رحمت کی دعا بھی ہے ، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ کے روایت کئے ہوئے اس دُرود میں صلوٰۃ اور برکت کی استدعا کے بعد ترحم کی استدعا بھی کی گئی ہے ۔ اس طرح ترحم کی استدعا صلوٰۃ و سلام کا تکملہ بن جاتی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَن أبي هُرَيْرَة، رَفَعَهُ " من قَالَ: اللَّهُمَّ صَلِّ على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد، كَمَا صليت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم، وَبَارك على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد، كَمَا باركت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم، وترحم على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد، كَمَا ترحمت على إِبْرَاهِيم وعَلى آل إِبْرَاهِيم، شهِدت لَهُ يَوْم الْقِيَامَة بِشَهَادَة، وشفعت لَهُ بشفاعة ". (رواه الطبرى فى تهذيب الآثار فتح البارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس کو اس سے خوشی ہو اور وہ چاہے کہ مجھ پر اور میرے گھر والوں پر درود بھیج کر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں زیادہ سے زیادہ ار بھرپور حاصل کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرے ۔
“اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما اُمی حضرت محمد ﷺ پر اور ان کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین اور اُن کی نسل پر اور اُن کے سب گھر والوں پر ، تو ہر حمد و ستائش کا مستحق و سزاوار ہے اور عظمت و کبریائی تیری ہی صفت ہے ۔
تشریح
اس حدیث کی بنا پر بعض حضرات کا خیال ہے کہ درودوں میں یہ درودسب سے افضل ہے کیوں کہ فرمایا گیا ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ اور بھرپور رحمت و برکت اور اجر و ثواب حاصل کرنا چاہے وہ یہ درود پڑھے اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ نماز میں تو وہ درود پڑھنا افضل ہے جو ابتدائی حدیثوں میں گزر چکا ، اور نماز سے باہر یہ درود افضل ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں روایت کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
“اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ” اے اللہ ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما اُمی حضرت محمد ﷺ پر اور ان کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین اور اُن کی نسل پر اور اُن کے سب گھر والوں پر ، تو ہر حمد و ستائش کا مستحق و سزاوار ہے اور عظمت و کبریائی تیری ہی صفت ہے ۔
تشریح
اس حدیث کی بنا پر بعض حضرات کا خیال ہے کہ درودوں میں یہ درودسب سے افضل ہے کیوں کہ فرمایا گیا ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ اور بھرپور رحمت و برکت اور اجر و ثواب حاصل کرنا چاہے وہ یہ درود پڑھے اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ نماز میں تو وہ درود پڑھنا افضل ہے جو ابتدائی حدیثوں میں گزر چکا ، اور نماز سے باہر یہ درود افضل ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں روایت کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَكْتَالَ بِالْمِكْيَالِ الْأَوْفَى، إِذَا صَلَّى عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ " (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جبرئیل امین نے میرے ہاتھ کی انگلیوں پر گن کر دُرود شریف کے یہ کلمات تعلیم فرمائے اور بتایا کہ رب العزت جل جلالہ کی طرف سے یہ اسی طرح اُترے ہیں وہ کلمات یہ ہیں ۔
اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ..... الخ (مسند فردوس دیلمی ، شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
اس دُرود میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے گھر والوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے صلوٰۃ اور برکت اور ترحم کی استدعا کے علاوہ سلام اور تحسنن کی استدعا کی گئی ہے ۔ تحسنن کے مفہوم کو اردو زبان میں شفقت اور پیار دُلار سے ادا کیا جا سکتا ہے اور سلام کے معنی ہیں ہر برائی اور ناپسندیدہ چیز سے سلامتی ار حفاظت ۔
اس حدیث کے بارے میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کنز العمال جلد اول میں جہاں یہ حدیث ذکر کی گئی ہے وہیں سند کے لحاظ سے اس کے ضعیف ہونے کی تصریح بھی کر دی گئی ے ۔ پھر اسی کی دوسری جلد میں اسی مضمون کی ایک اور حدیث اور دُرود شریف کے یہی کلمات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی صاحب مستدرک ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری کی “معرفۃ علم الحدیث” کے حوالے سے ان کی مسلسل سند کے ساتھ نقل کئے گئے ہیں اور اس سند کے بھی بعض راویوں پر سخت جرح کی گئی ہے ، ساتھ ہی سیوطی سے نقل کیا گیا ہے کہ انہیں اس حدیث کے بعض اور “طریقے” بھی ملے ، نیز حضرت انس سے بھی قریبا اسی مضمون کی ایک حدیث روایت کی گئی ہے جو ابن عساکر کے حوالے سے کنز العمال میں بھی درج ہے اور اصحاب فن کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ضعیف حدیث تعدد طرق کی وجہ سے قابلِ قبول ہو جاتی ہے ۔ خاص کر فضائلِ اعمال میں ایسی حدیث سب کے نزدیک قابلِ عمل ہے ۔ ملا علی قاریؒ نے شرح شفاء میں ھاکم کی روایت کردہ حضرت علی والی حدیث کے راویوں پر سخت جرح کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ “غایۃ الامر یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو بھی قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے ۔ ” (شرح شفاء ص : ۴۷۳، ج:۳) انہی سب باتوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود یہاں درج کر دی گئی ہے ۔
یہاں تک جو احادیث درج ہوئیں جن میں دُرود و سلام کے کلمات تلقین فرمائے گئے ہین ، یہ سب مرفوع حدیثیں تھیں ، یعنی رسول اللہ ﷺ کے ارشادات تھے ۔ اور ان میں دُرود و سلام کے جو کلمات تعلیم فرمائے گئے ہیں ۔ ان سب کی بنیاد وحی ربانی پر ہے ۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ذیل میں اوپر گزر چکا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے بشیر بن سعد نے دریافت کیا کہ ہم آپ پر درود کس طرح بھیجا کریں ؟ تو آپ ﷺ کچھ دیر خاموش رہے ، یہاں تک کہ وحی آئی اس کے بعد آپ ﷺ نے درودِ ابراہیمی تلقین فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دُرود شریف کے بارے میں آپ ﷺ کو بنیادی رہنمائی وحی سے ملی تھی ، اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ دُرود و سلام کے جو کلمات بھی کسی وقت آپ ﷺ نے تلقین فرمائے ان کی بنیاد وحی پر ہے اور یہ فضیلت دُرود و سلام کے انہیں کلمات کو حاصل ہے جو کسی وقت آپ ﷺ نے تعلیم فرمائے ۔ ان کے علاوہ بعض صحابہ کرام اور دوسرے سلف صالحین سے دُرود و سلام کے جو کلمات منقول ہیں ان کو یہ خصوصیت اور فضیلت ھاصل نہیں ہے ، اگرچہ ان میں سے بعض لفظی اور معنوی لحاظ سے بہت ہی بلند ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ ان میں سے ایک جو کتبِ حدیث میں فقیہ الامۃ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیاگیاہے ، اور دوسرا جو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہاں درج کئے جا رہے ہیں اور انہی پر روایات کا یہ سلسلہ ختم کیا جا رہا ہے ۔
اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ..... الخ (مسند فردوس دیلمی ، شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
اس دُرود میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے گھر والوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے صلوٰۃ اور برکت اور ترحم کی استدعا کے علاوہ سلام اور تحسنن کی استدعا کی گئی ہے ۔ تحسنن کے مفہوم کو اردو زبان میں شفقت اور پیار دُلار سے ادا کیا جا سکتا ہے اور سلام کے معنی ہیں ہر برائی اور ناپسندیدہ چیز سے سلامتی ار حفاظت ۔
اس حدیث کے بارے میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کنز العمال جلد اول میں جہاں یہ حدیث ذکر کی گئی ہے وہیں سند کے لحاظ سے اس کے ضعیف ہونے کی تصریح بھی کر دی گئی ے ۔ پھر اسی کی دوسری جلد میں اسی مضمون کی ایک اور حدیث اور دُرود شریف کے یہی کلمات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی صاحب مستدرک ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری کی “معرفۃ علم الحدیث” کے حوالے سے ان کی مسلسل سند کے ساتھ نقل کئے گئے ہیں اور اس سند کے بھی بعض راویوں پر سخت جرح کی گئی ہے ، ساتھ ہی سیوطی سے نقل کیا گیا ہے کہ انہیں اس حدیث کے بعض اور “طریقے” بھی ملے ، نیز حضرت انس سے بھی قریبا اسی مضمون کی ایک حدیث روایت کی گئی ہے جو ابن عساکر کے حوالے سے کنز العمال میں بھی درج ہے اور اصحاب فن کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ضعیف حدیث تعدد طرق کی وجہ سے قابلِ قبول ہو جاتی ہے ۔ خاص کر فضائلِ اعمال میں ایسی حدیث سب کے نزدیک قابلِ عمل ہے ۔ ملا علی قاریؒ نے شرح شفاء میں ھاکم کی روایت کردہ حضرت علی والی حدیث کے راویوں پر سخت جرح کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ “غایۃ الامر یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو بھی قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے ۔ ” (شرح شفاء ص : ۴۷۳، ج:۳) انہی سب باتوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود یہاں درج کر دی گئی ہے ۔
یہاں تک جو احادیث درج ہوئیں جن میں دُرود و سلام کے کلمات تلقین فرمائے گئے ہین ، یہ سب مرفوع حدیثیں تھیں ، یعنی رسول اللہ ﷺ کے ارشادات تھے ۔ اور ان میں دُرود و سلام کے جو کلمات تعلیم فرمائے گئے ہیں ۔ ان سب کی بنیاد وحی ربانی پر ہے ۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ذیل میں اوپر گزر چکا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے بشیر بن سعد نے دریافت کیا کہ ہم آپ پر درود کس طرح بھیجا کریں ؟ تو آپ ﷺ کچھ دیر خاموش رہے ، یہاں تک کہ وحی آئی اس کے بعد آپ ﷺ نے درودِ ابراہیمی تلقین فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دُرود شریف کے بارے میں آپ ﷺ کو بنیادی رہنمائی وحی سے ملی تھی ، اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ دُرود و سلام کے جو کلمات بھی کسی وقت آپ ﷺ نے تلقین فرمائے ان کی بنیاد وحی پر ہے اور یہ فضیلت دُرود و سلام کے انہیں کلمات کو حاصل ہے جو کسی وقت آپ ﷺ نے تعلیم فرمائے ۔ ان کے علاوہ بعض صحابہ کرام اور دوسرے سلف صالحین سے دُرود و سلام کے جو کلمات منقول ہیں ان کو یہ خصوصیت اور فضیلت ھاصل نہیں ہے ، اگرچہ ان میں سے بعض لفظی اور معنوی لحاظ سے بہت ہی بلند ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ ان میں سے ایک جو کتبِ حدیث میں فقیہ الامۃ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیاگیاہے ، اور دوسرا جو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہاں درج کئے جا رہے ہیں اور انہی پر روایات کا یہ سلسلہ ختم کیا جا رہا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عُمَرَ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَدَّهُنَّ فِي يَدَيَّ جِبْرِيلُ وَقَالَ جِبْرِيلُ هَكَذَا أُنْزِلَتْ مِنْ عِنْدِ رَبِّ الْعِزَّةِ:
اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهُمَّ وَتَرَحَّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا تَرَحَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهُمَّ وَتَحَنَّنْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا تَحَنَّنْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهُمَّ وَسَلِّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا سَلَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (رواه البيهقى فى شعب الايمان والديلمى)
اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهُمَّ وَتَرَحَّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا تَرَحَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهُمَّ وَتَحَنَّنْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا تَحَنَّنْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهُمَّ وَسَلِّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا سَلَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (رواه البيهقى فى شعب الايمان والديلمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৬৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ درود شریف کے خاص کلمات
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : جب تم رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجو تو بہتر سے بہتر طریقہ پر درود بھیجنے کی کوشش کرو ، تم جانتے نہیں ہو ان شاء اللہ تمہارا وہ درود آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ۔ لوگوں نے عرض کیا تو آپ ﷺ ہمیں بتا دیجئے اور سکھا دیجئے کہ ہم کس طرح درود بھیجا کریں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا یوں عرض کیا کرو :
اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ، وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكَاتِكَ ...... الى قوله .... إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»
(اے اللہ ! اپنی خاص عنایات اور رحمتیںاور برکتیں نازل فرما سید المرسلین ، امام المتقین ، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر جو تیرے خاص بندے اور رسول ہیں ، نیکی اور بھلائی کے راستہ کے امام اور راہنما ہیں ، رحمت والے پیغمبر ہیں (یعنی جن کا وجود ساری دنیا کے لئے باعث رحمت ہے) اے اللہ ! ان کو اس “مقام محمود” پر فائز فرما جو اولین و آخرین کے لئے قابلِ رشک ہو ۔ اے اللہ ! حضرت محمد اور آلِ محمد پر اپنی خاص نوازشیں اور عنایتیں فرما جس طرح کہ تو نے حضرت ابراہیم و آلِ ابراہیمؑ پر نوازشیں اور عنایتیں فرمائیں اور حضرت محمد پر و آلِ محمد پر اپنی خاص برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیمؑو آلِ ابراہیمؑ پر برکتیں نازل فرمائیں ، تیری ذات ہر حمد و ستائش کی سزاوار ہے اور عظمت و کبریائی تیری ذاتی صفت ہے ۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
دُرود شریف کے یہ کلمات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے لوگوں کو تعلیم فرمائے تھے ۔ بلاشبہ بڑے مبارک اور مقبول کلمات ہیں اور اس میں وہ درود ابراہیمی بھی لفظ بہ لفظ شامل ہے جو کعب بن عجرہ کی اس روایت میں گزر چکا ہے جو صحیحین کے حوالہ سے سب سے پہلے درج کی جا چکی ہے ۔
اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ، وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكَاتِكَ ...... الى قوله .... إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»
(اے اللہ ! اپنی خاص عنایات اور رحمتیںاور برکتیں نازل فرما سید المرسلین ، امام المتقین ، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر جو تیرے خاص بندے اور رسول ہیں ، نیکی اور بھلائی کے راستہ کے امام اور راہنما ہیں ، رحمت والے پیغمبر ہیں (یعنی جن کا وجود ساری دنیا کے لئے باعث رحمت ہے) اے اللہ ! ان کو اس “مقام محمود” پر فائز فرما جو اولین و آخرین کے لئے قابلِ رشک ہو ۔ اے اللہ ! حضرت محمد اور آلِ محمد پر اپنی خاص نوازشیں اور عنایتیں فرما جس طرح کہ تو نے حضرت ابراہیم و آلِ ابراہیمؑ پر نوازشیں اور عنایتیں فرمائیں اور حضرت محمد پر و آلِ محمد پر اپنی خاص برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیمؑو آلِ ابراہیمؑ پر برکتیں نازل فرمائیں ، تیری ذات ہر حمد و ستائش کی سزاوار ہے اور عظمت و کبریائی تیری ذاتی صفت ہے ۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
دُرود شریف کے یہ کلمات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے لوگوں کو تعلیم فرمائے تھے ۔ بلاشبہ بڑے مبارک اور مقبول کلمات ہیں اور اس میں وہ درود ابراہیمی بھی لفظ بہ لفظ شامل ہے جو کعب بن عجرہ کی اس روایت میں گزر چکا ہے جو صحیحین کے حوالہ سے سب سے پہلے درج کی جا چکی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَحْسِنُوا الصَّلَاةَ عَلَيْهِ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ، لَعَلَّ ذَلِكَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ، قَالَ: فَقَالُوا لَهُ: فَعَلِّمْنَا، قَالَ، قُولُوا
«اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ، وَرَحْمَتَكَ، وَبَرَكَاتِكَ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ، وَإِمَامِ الْمُتَّقِينَ، وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، إِمَامِ الْخَيْرِ، وَقَائِدِ الْخَيْرِ، وَرَسُولِ الرَّحْمَةِ، اللَّهُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا، يَغْبِطَ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ. (رواه ابن ماجه)
«اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ، وَرَحْمَتَكَ، وَبَرَكَاتِكَ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ، وَإِمَامِ الْمُتَّقِينَ، وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، إِمَامِ الْخَيْرِ، وَقَائِدِ الْخَيْرِ، وَرَسُولِ الرَّحْمَةِ، اللَّهُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا، يَغْبِطَ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ. (رواه ابن ماجه)
তাহকীক: