মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩২১ টি

হাদীস নং: ১২৯০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا تَقْنَعُ بِعَطَائِكَ ” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں “نفس مطمئنہ” یعنی ایسا نفس جس کو تیری طرف سے اطمینان اور جمیعت کی دولت نصیب ہو ، اور مرنے کے بعد تیرے حضور میں حاضری کا اس کو کامل یقین ہو اور تیرے فیصلوں پر وہ راضی و مطمئن ہو ، اور تیری طرف سے جو کچھ ملے وہ اس پر قانع ہو) ۔ (مختارہ للضیاء المقدسی ، معجم کبیر طبرانی)

تشریح
“نفسِ مطمئنہ” وہی ہے جس میں یہ صفائی پائی جائیں اور یہ وہ نعمت ہے جو خاص ہی خاص بندوں کو عطا ہتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عن أبي أُمَامَةَ (مَرْفُوْعًا) قُلْ «اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ نَفْسًا بِكَ مُطْمَئِنَّةً، تُؤْمِنُ بِلِقَائِكَ، وَتَرْضَى بِقَضَائِكَ، وَتَقْنَعُ بِعَطَائِكَ» (رواه الضياء فى المختاره والطبرانى فى الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৯১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حارث اعور سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ : “میں تم کو ایک دعا بتاؤں جو مجھے رسول ﷺ نے بتائی تھی ! مین نے عرض کیا : ضرور بتائیے ! آپ نے فرمایا : یوں عرض کیا کرو ۔ “اللَّهُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِي تا وَعَمَلًا بِكِتَابِكَ” (اے اللہ ! تو اپنے ذکر کے لئے (یعنی اپنی ہدایت و نصیحت قرآن پاک کے لئے) میرے دل کے کان کھول دے ، اور مجھے اپنی اور اپنے رسولِ پاک ﷺ کی تابعداری کی اور اپنی کتابِ پاک قرآن مجید پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما) ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ الْحَارِثِ قَالَ: قَالَ لِىْ عَلِيٌّ أَلَا أُعَلِّمُكَ دُعَاءً عَلَّمَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْتُ: بَلَى. قَالَ: قُلْ: «اللَّهُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِي لِذِكْرِكَ، وَارْزُقْنِي طَاعَتَكَ وَطَاعَةَ رَسُولِكَ، وَعَمَلًا بِكِتَابِكَ» (رواه الطبرانى فى الاوسط)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৯২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي تا وَلَا تُشْقِنِي بِمَعْصِيَتِكَ” (اے اللہ ! میرا حال ایسا کر دے کہ تیرے حضور میں حاضر ہونے تک (یعنی مرتے دم تک) تیرے قہر و جلال سے میں ہر وقت اس طرح ترساں و لرزاں رہوں کہ گویا ہر دم تجھے دیکھ رہا ہوں ، اور اپنے خوف و تقویٰ کی دولت نصیب فرما کر مجھے خوش بخت کر دے ، اور ایسا نہ ہو کہ تیری نافرمانی کر کے میں بدبختی میں مبتلا ہو جاؤں) ۔ (معجم اوسط طبرانی)

تشریح
غور کیا جائے مندرجہ بالا دعاؤں میں خاص کر اس دعا میں کتنے مختصر الفاظ میں کتنی عظیم نعمتوں کی استدعا کی گئی ہے ۔ یہ دعائیں آنحضرتﷺ کی خاص میراث میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ان کی قدر و قیمت کو سمجھیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ (مَرْفُوْعًا) اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي أَخْشَاكَ حَتَّى كَأَنِّي أَرَاكَ أَبَدًا حَتَّى أَلْقَاكَ، وَأَسْعِدْنِي بِتَقْوَاكَ، وَلَا تُشْقِنِي بِمَعْصِيَتِكَ. (رواه الطبرانى فى الاوسط)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৯৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللهم ارزقني تا والأضراس جمرا ” (اے اللہ ! مجھے وہ آنکھیں نصیب فرما جو تیرے عذاب اور غضب کے خوف سے آنسوؤں کی بارش برسا کر دل کو سیراب کر دیں ، اس گھڑی کےک آنے سے پہلے جب بہت سی آنکھیں خون کے آنسو روئیں گی اور بہت سے مجرمین کی داڑھیں انگارہ ہو جائیں گی) ۔ (ابن عساکر)

تشریح
جن کو اللہ نے حقائق کی معرفت دی ہے ان کے نزدیک وہی آنکھ زندہ اور بینا ہے جو اللہ کے خوف سے روئے اور آنسوؤں کی بارش برسائے ان کے دل اسی بارش سے سیراب ہوتے ہیں ، اس لئے وہ اللہ سے رونے والی آنکھیں مانگتے ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عن ابن عمر (مَرْفُوْعًا) "اللهم ارزقني عينين هطالتين، تشفيان القلب بذروف الدمع من خشيتك قبل أن تكون الدموع دما، والأضراس جمرا" (رواه ابن عساكر)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৯৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
ھیثم بن مالک طائی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَل حبك تا من عبادتك” (اے اللہ ! ایسا کر دے کہ کائنات کی ساری چیزوں سے زیادہ مجھے تیری محبت ہو ، اور ساری چیزوں سے زیادہ مجھے تیرا خوف ہو اور اپنی ملاقات کے شوق کو مجھ پر اتنا طاری کر دے کہ دنیا کی ساری حاجتوں کا احساس اس کی وجہ سے فنا ہو جائے اور جہاں تو بہت سے اہلِ دنیا کو ان کی مرغوبات دے کر ان کی آنکھین ٹھنڈی کرتا ہے تو میری آنکھیں طاعت و عبادت سے ٹھنڈی کر (یعنی مجھے عبادت کا وہ ذوق و شوق بخش دے کہ اس میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور پھر مجھے عبادت کی بھرپور توفیق دے) ۔ (حلیہ ابی نعیم)
کتاب الاذکار والدعوات
عن الهيثم الطائي (مَرْفُوْعًا) اللَّهُمَّ اجْعَل حبك أحب الْأَشْيَاء إِلَيّ وَاجعَل خشيتك أخوف الْأَشْيَاء عِنْدِي واقطع عني حاجات الدُّنْيَا بالشوق إِلَى لقائك وَإِذا أَقرَرت أعين أهل الدُّنْيَا من دنياهم فأقرر عَيْني من عبادتك. (رواه ابو نعيم فى الحلية)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৯৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ : “اللہ کے پیغمبر داؤد علیہ السلام جو دعائیں کرتے تھے ان مین ایک خاص دعا یہ بھی تھی : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا وَمِنَ الْمَاءِ البَارِدِ” (اے میرے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں تیری محبت (یعنی مجھے اپنی محبت عطا فرما) اور اپنے ان بندوں کی محبت بھی مجھے عطا فرما جو تجھ سے محبت کرتے ہین ، اور ان اعمال کی بھی محبت مجھے عطا فرما جو تیری محبت کے مقام تک پہنچاتے ہوں ۔ اے اللہ ! ایسا کر دے کہ اپنی جان اور اہل و عیال کی محبت اور ٹھنڈے پانی کی چاہت سے بھی زیادہ مجھے تیری محبت اور چاہت ہو) حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر فرماتے تو ان کے متعلق یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ “وہ بہت ہی زیادہ عبادت گزار بندے تھے” ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حضرت داؤد علیہ السلام کی یہ دعا جو ان کے جذبہ محبت اور عشق الٰہی کی آئینہ دار تھی رسول اللہ ﷺ کو بہت ہی پسند تھی ، اسی لئے آپ ﷺ نے خاص طور سے صحابہ کرامؓ کو بتلائی ۔ وصفِ نبوت اگرچہ تمام انبیاء علیہم السلام کا مشترک شرف ہے ، لیکن اس کے علاوہ بعض انبیاء علیہم السلام کے کچھ خصائص بھی ہوتے ہین جن میں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کثرتِ عبادت حضرت داؤد علیہ السلام کی امتیازی خصوصیت تھی ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ، وَالعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي، وَمِنَ الْمَاءِ البَارِدِ قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَ دَاوُدَ يُحَدِّثُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ أَعْبَدَ البَشَرِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৯৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن یزید خطمی انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دعا یہ بھی کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي تا فِيمَا تُحِبُّ” (اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا فرما اور اپنے ان بندوں کی محبت عطا فرما جن کی محبت میرے لئے تیرے تیرے نزدیک نفع مند ہو ۔ اے اللہ ! میری چاہت اور رغبت کی جو چیزیں تو نے مجھے عطا فرمائی ہیں ان سے مجھے ان کاموں میں تقویت پہنچا جو تجھے محبوب ہیں ، اوری میری رغبت و چاہت کی جو چیزیں تو نے مجھے عطا نہیں فرمائیں (اور میرے اوقات کو ان سے فارغ رکھا) تو مجھے توفیق دے کہ میں اس فراغ کو ان کاموں میں استعمال کروں جو تجھے محبوب ہیں) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
آدمی کو اس کی مرغوبات دے دی جائیں تو اس کا بھی امکان ہے کہ وہ ان میں مست اور منہمک ہو کر خدا سے غافل ہو جائے ، یا وہ ان کو اس طرح استعمال کرے کہ معاذاللہ خدا سے اور دور ہو جائے ۔ اسی طرح مرغوبات نہ ملنے کی صورت میں بھی امکان ہے کہ وہ دوسری قسم کی خرافات میں اپنا وقت برباد کرے ۔ اس لئے بندے کو برابر یہ دعا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اگر اس کی مرغوبات عطا فرمائے تو اس کو اس کی بھی توفیق دے کہ وہ مرغوبات کو تقربِ الی اللہ کا وسیلہ بنائے ، اور اگر مرغوبات نہ ملیں اور اس کی وجہ سے فرصت و فراغ حاصل ہو تو اس کو توفیق ملے کہ فارغ اور خالی وقت کو اللہ تعالیٰ کی مرضیات ہی میں لگائے ۔ رسول اللہ ﷺ کی ہر دعا اور اس کا ہر جزو بلاشبہ معرفت کا خزانہ ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الخَطْمِيِّ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: «اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يَنْفَعُنِي حُبُّهُ عِنْدَكَ، اللَّهُمَّ مَا رَزَقْتَنِي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ قُوَّةً لِي فِيمَا تُحِبُّ، اللَّهُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ فَرَاغًا لِي فِيمَا تُحِبُّ» (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৯৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ دعا تلقین فرمائی : “اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِي رُشْدِي، وَأَعِذْنِي مِنْ شَرِّ نَفْسِي” (اے اللہ ! میرے دل میں وہ ڈال جس میں میرے لئے بھلائی اور بہتری ہو ، اور میرے نفس کے شر سے مجھے بچا ، اور اپنی پناہ میں رکھ) ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ: اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِي رُشْدِي، وَأَعِذْنِي مِنْ شَرِّ نَفْسِي. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৯৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
ام المومنین حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ان کے پاس ہوتے تو اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : “يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ” (اے دلوں کو پلٹنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت و قائم رکھ) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس روایت میں آگے حضرت امِ سلمہؓ کا یہ بیان بھی ہے کہ میں نے ایک دن حضور ﷺ سے عرض کیا کہ : کیا بات ہے کہ آپ ﷺ اکثر و بیشتر یہ دعا کرتے ہیں ؟ (حضرت امِ سلمہؓ کا مطلب غالبا اس سوال سے یہی ہو گا کہ آپ ﷺ تو لغزشوں سے محفوظ رہیں پھر آپ ﷺ یہ دعا کیوں کرتے ہیں) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ہر آدمی کا دل اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی کے اختیار میں ہے جس کا دل چاہے سیدھا رکھے اور جس کا چاہے ٹیڑھا کر دے ۔ آپ ﷺ کے اس جواب کا مطلب یہ ہوا کہ میرا معاملہ بھی اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اسی لئے مجھے بھی اس سے دعا مانگنے کی ضرورت ہے ۔ بلاشبہ جس بندے کو اپنے نفس کی اور ساتھ ہی اپنے رب کی معرفت نصیب ہو گی اس کا یہی حال ہو گا اور وہ کبھی اپنے کو مامون و محفوظ نہیں سمجھے گا ۔ بندوں کے حق میں یہی بلندی اور کمال ہے ۔
“قریباں را بیش بود حیرانی”
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أُمَّ سَلَمَةَ أَنَّ أَكْثَرَ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ عِنْدَهَا يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৯৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ إِنِّي ضَعِيفٌ تا وَإِنِّي فَقِيرٌ فارزقني” (اے میرے اللہ ! میں تیرا ایک کمزور بندہ ہوں تو اپنی رضاطلبی کی راہ میں میری کمزوری کو قوت سے بدل دے (تا کہ میں پوری تندہی اور تیز رفتاری سے تیری رضا کے لئے کام کر سکوں) اور میری پیشانی پکڑ کے میرا رُخ خیر کی طرف کر دے ، اور اسلام کو میرا منتہائے رضا بنا دے (یعنی میری انتہائی خوشی یہ ہو کہ میں پورا پورا مسلم ہو جاؤں) اے میرے اللہ ! میں ضعیف و ناتواں ہوں ، تو میری ناتوانی کو توانائی سے بدل دے اور میں ذلت و پستی کے حال میں ہوں تو مجھے عزت بخش دے ، اور میں فقیر و نادار ہوں تو مجھے میری ضرویات عطا فرما دے) ۔ (معجم کبیر طبرانی)
کتاب الاذکار والدعوات
عن ابن عمر (مَرْفُوْعًا) «قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي ضَعِيفٌ فَقَوِّ فِي رِضَاكَ ضَعْفِي، وَخُذْ إِلَى الْخَيْرِ بِنَاصِيَتِي، وَاجْعَلِ الْإِسْلَامَ مُنْتَهَى رِضَائِي، اللَّهُمَّ إِنِّي ضَعِيفٌ فَقَوِّنِي، وَإِنِّي ذَلِيلٌ فَأَعِزَّنِي، وَإِنِّي فَقِيرٌ فَارْزُقْنِىْ» (رواه الطبرانى فى الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “إليك ربي فحببني تا فجنبني ” (اے میرے پروردگار ! مجھے اپنا پیارا بنا لے اور مجھے ایسا کر دے کہ میں اپنے کو تیرے حضور میں ذلیل سمجھوں اور دوسرے بندوں کی نگاہ میں مجھے باعظمت بنا دے ، اور برے اخلاق سے مجھے بالکل بچا اور دور رکھ) ۔ (مکارم الاخلاق ابنِ ہلال)

تشریح
کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کا محبت فرمانا عظیم ترین دولت ہے جس کی ہر مومن کو دلی آرزو ہونی چاہئے ، اس دعا میں سب سے پہلے یہی نعمت مانگی گئی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی بندے پر اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام ہے کہ وہ خود کو تو ذلیل و حقیر سمجھے لیکن اللہ کے بندے اس کو عزت کی نگاہ میں دیکھیں اور اس کا احترام و اکرام کریں ۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا پہلے گزر چکی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَلنِي فِي عَيْني صَغِيرا اللَّهُمَّ اجْعَلنِي فِي أعين النَّاس كَبِيرا”
کتاب الاذکار والدعوات
عن ابن مسعود (مَرْفُوْعًا) "إليك ربي فحببني، وفي نفسي لك ربي فذللني، وفي أعين الناس فعظمني، ومن سيء الأخلاق فجنبني"
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نے مجھے یہ دعا تلقین فرمائی : “اللهم أنت الخلاق العظيم تا برحمتك يا أرحم الراحمين” (اے میرے اللہ ! تو خالق کل اور خلاق عظیم ہے تو سمیع و علیم (سب کچھ سننے والا اور جاننے والا) ہے ۔ تو غفور و رحیم (بخشنے والا اور نہایت مہربان) ہے ۔ تو مالکِ عرشِ عظیم ہے ، تو نہایت فیاض اور کریم ہے ۔ اپنی ان عالی صفات کے صدقہ میں ، تو مجھے بخش دے ، مجھ پر رحمت فرما ، مجھے عافیت عطا فرما ، مجھے رزق نصیب فرما ، میری پردہ داری فرما ، میری شکستگی کو جوڑ دے ، مجھے عزت و رفعت عطا فرما ، مجھے اپنی راہ پر چلا ، مجھے گمراہی سے بچا اور اے ارحم الراحمین (مرنے کے بعد آخرت میں) اپنی رحمت سے مجھے جنت میں داخلہ نصیب فرما) ۔
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا تلقین فرمائی اور مجھ سے ارشاد فرمایا : اس کو ایکھ لو اور اپنے بعد والوں کو سکھاؤ ۔ (مسند فردوس دیلمی)

تشریح
کس قدر جامع دعا ہے ! اس کو نہ سیکھنا اور اس سے فائدہ نہ اُٹھانا بلاشبہ بڑے خسارے کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان انمول جواہرات کی قدر نصیب فرمائے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عن جابر قال: قال لى رسول الله صلى الله عليه وسلم قل: اللهم أنت الخلاق العظيم، اللهم إنك سميع عليم، اللهم إنك غفور رحيم، اللهم إنك رب العرش العظيم، اللهم إنك أنت الجواد الكريم، فاغفر لي وارحمني وعافني وارزقني واسترني واجبرني وارفعني واهدني ولا تضلني وأدخلني الجنة برحمتك يا أرحم الراحمين، تعلمهن، وعلمهن عقبك من بعدك" (رواه الديلمي)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ کی پناہ مانگو بلاؤں کی سختی سے ، اور بدبختی کے لاحق ہونے سے اور بری تقدیر سے اور دشمنوں کی شماتت سے ” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ذخیرہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے جو دعائیں ماثور و منقول ہیں جو آپ ﷺ نے مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں خود کیں یا امت کو ان کی تعلیم و تلقین فرمائی ان میں زیادہ تر وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ سے کسی دنیوی یا اُخروی ، روحانی یا جسمانی ، انفرادی یا اجتماعی نعمت اور بھلائی کا سوال کیا گیا ہے اور مثبت طور پر کسی حاجت اور ضرورت کے لئے استدعا کی گئی ہے ۔ ڈیڑھ سو سے کچھ اوپر جو دعائیں اس سلسلہ میں اب تک درج ہو چکی ہیں وہ سب اسی قبیل کی تھیں ۔ ان کے علاوہ بہت سی ایسی دعائیں بھی آپ ﷺ سے مروی ہیں جن میں کسی خیر و نعمت اور کسی مثبت حاجت و ضرورت کے سوال کے بجائے دنیا یا آخرت کے کسی شر سے اور کسی بلا اور آفت سے پناہ مانگی گئی ہے اور حفاظت و بچاؤ کی استدعا کی گئی ہے ۔ پھر جس طرح پہلی قسم کی دعاؤں کو مجموعی طور پر سامنے رکھ کر یہ کہنا برحق ہے کہ دنیا اور آخرت کی کوئی خیر اور بھلائی اور کوئی حاجت و ضرورت ایسی نہیں ہے جس کی دعا رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے نہ کی ہو ، اور امت کو تلقین نہ فرمائی ہو ۔ اسی طرح دوسری قسم کی دعاؤں کو پیشِ نظر رکھ کر یہ کہنا بھی بالکل صحیح ہے کہ دنیا اور آخرت کا کوئی شر ، کوئی فساد ، کوئی فتنہ اور کوئی بلا اور آفت اس عالم وجود میں ایسی نہیں ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی پناہ نہ مانگی ہو اور امت کو اس کی تلقین نہ فرمائی ہو ۔ غور کرنے اور سمجھنے والوں کے لئے رسول اللہ ﷺ کا نہایت روشن معجزہ ہے کہ آپ ﷺ کی دعائیں انسانوں کی دنیوی و اخروی ، روحانی اور جسمانی ، انفرادی اور اجتماعی ظاہری اور باطنی ، مثبت اور منفی ساری ہی حاجتوں اور ضرورتوں پر حاوی ہیں اور کوئی خفی سے خفی اور دقیق سے دقیق حاجت نہیں بتائی جا سکتی جس کو آپ ﷺ نے بہتر سے بہتر پیرائے میں اللہ تعالیٰ سے نہ مانگا ہو ، اور امت کو اس کے مانگنے کا طریقہ نہ سکھایا ہو ۔ قرآن مجید میں بھی ان دونوں ہی قسموں کی یعنی مثبت اور منفی دعائیں موجود ہیں اور بالکل آخر کی دو مستقل سورتیں “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ” اور “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ” اول سے آخر تک منفی قسم کی دعا یعنی استعاذہ ہی پر مشتمل ہیں ، اور اسی لئے ان کو “معوذتین” کہا جاتا ہے اور ان ہی پر قرآن مجید ختم ہوا ہے ۔
قرآن پاک کے اس طریقے ہی کی پیروی میں یہ مناسب سمجھا گیا کہ جو احادیث ایسی دعاؤں پر مشتمل ہیں جن میں شرور و فتن اور بلیات سے اور برے اعمال و اخلاق اور ہر قسم کی ناپسندیدہ باتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے ، اُن کو آخر میں درج کیا جائے اور ان ہی کو اس سلسلہ کا خاتمہ بنایا جائے ۔ اب ذیل میں وہی حدیثیں پڑھئے :

اس حدیث میں بظاہر تو چار چیزوں سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے ، لیکن فی الحقیقت دنیا اور آخرت کی کوئی برائی اور کوئی تکلیف اور کوئی مصیبت اور کوئی پریشانی ایسی نہیں سوچی جا سکتی جو ان چار عنوانوں کے احاطہ سے باہر ہو ۔ ان میں سب سے پہلی چیز ہے : “جُهْدُ الْبَلَاءِ” (کسی بلا کی مشقت اور سختی) بلا ہر اس حالت کا نام ہے جو انسان کے لئے باعث تکلیف اور موجبِ پریشانی ہو ، اور جس میں اس کی آزمائش ہو ، یہ دینوی بھی ہو سکتی ہے اور دینی بھی ، روحانی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی ، انفرادی بھی ہو سکتی ہے اور اجتماعی بھی ۔ الغرض یہ ایک ہی لفظ تمام مصائب اور تکالیف اور ا ٓفات و بلیات کو حاوی ہے ۔ اس کے بعد دوسری چیز جس سے پناہ مانگنے کی اس حدیث میں تلقین فرمائی گئی ہے ، وہ ہے “دَرْكُ الشَّقَاءِ” (بدبختی کا لاحق ہونا) اور تیسری چیز ہے : “سُوْءُ الْقَضَاءِ” (بری تقدیر) ان دونوں کی جامعیت بھی بالکل ظاہر ہے ، جس بندے کو ہر نوع کی بدبختی سے اور بری تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اور حفاظت حاصل ہو گئی بلاشبہ اسے سب کچھ مل گیا ۔ آخری چیز جس سے پناہ مانگنے کی اس حدیث میں تلقین فرمائی گئی ہے وہ ہے “شَمَاتَةُ الْاَعْدَاءِ” (یعنی کسی مصیبت اور ناکامی پر دشمنوں کا ہنسنا) بلاشبہ دشمنوں کی شماتت اور طعنہ زنی بعض اوقات بڑی روحانی تکلیف و اذیت کا باعث ہوتی ہے ، اس لئے اس سے خصوصیت کے ساتھ پناہ مانگنے کے لئے فرمایا ، اگرچہ اس سے پہلے تین جامع عنوانات اس کو بھی حاوی تھے ۔
رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ان چاروں چیزوں سے پناہ مانگنے کے لئے صحیح اور مناسب الفاظ یہ ہوں گے : اللهم إنى أعوذ بك مِنْ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ القَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ
اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بلا کی سختی سے اور بدبختی لاحق ہونے سے اور بری تقدیر سے اور دشمنوں کے ہنسنے اور ان کی طعنہ زنی سے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ القَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس طرح دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ تا غَلَبَةِ الرِّجَالِ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر سے اور غم سے اور کم ہمتی اور کاہلی و بزدلی سے اور بخیلی و کنجوسی اور قرضہ کے بار سے اور لوگوں کے دباؤ سے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس دعا میں جن آٹھ چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے ، ان میں سے چار (فکر و غم ، قرضہ کا بار اور مخالفین کا غلبہ) ایسی چیزیں ہیں جو حساس و صاحبِ شعور آدمی کے لئے زندگی کے لطف سے محرومی اور سخت روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہیں اور اس کی قوتِ کار اور صلاحیتوں کو معطل کر کے رکھ دیتی ہیں جس کے نتیجہ میں وہ دنیا اور آخرت کی بہت سی کامیابیوں اور سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے ۔ اور باقی چار (کم ہمتی ، کاہلی ، کنجوسی اور بزدلی) ایسی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے آدمی وہ جرأت مندانہ اقدامات اور محنت و قربانی والے وہ اعمال نہیں کر سکتا جن کے بغیر نہ دنیا میں کامرانی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ آخرت میں فوز و فلاح اور نہ اللہ کی رضا کا مقام حاصل ہو سکتا ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ ان سب چیزوں سے اللہ کی پناہ چاہتے تھے ، اور اپنے عمل سے امت کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ تا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی ، کاہلی سے اور انتہائی بڑھاپے سے (جو آدمی کو بالکل ہی اذکار رفتہ کر دے) اور قرضہ کے بوجھ سے ، اور ہر گناہ سے ۔ اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں دوزخ کے عذاب سے او ر دوزخ کے فتنہ سے اور فتنہ قبر سے ، اور عذابِ قبر سے ، اور دولت و ثروت کے فتنہ کے شر سے ، اور مفلسی و محتاجی کے فتنہ کے شر سے اور فتنہ دجال کے شر سے ۔ اے میرے اللہ ! میرے گناہوں کے اثرات دھو دے اولے اور برف کے پانی سے اور میرے دل کو (گندے اعمال و اخلاق کی گندگیوں سے) اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے ، اور میری اور گناہوں کے درمیان اتنی دوری پیدا کر دے جتنی دوری تو نے مشرق و مغرب کے درمیان کر دی ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس دعا میں علاوہ اور چیزوں کے “ھرم” یعنی بڑھاپے سے بھی پناہ مانگی گئی ہے ۔ عمر کی اس حد تک درازی کہ ہوش و حواس صحیح سالم رہیں (اور آخرت کی کمائی کا سلسلہ جاری رہے) اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ، لیکن ایسا بڑھاپا جو بالکل ہی اذکار رفتہ کر دے جس کو قرآن پاک میں “اَرْذَلُ الْعُمُرِ” فرمایا گیا ہے ۔ ایسی ہی چیز ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگی جائے “ھرم” بڑھاپے کا وہی درجہ ہے ۔
اس دعا میں “عذابِ نار” کے ساتھ “فتنہ نار” سے اور “عذابِ قبر” کے ساتھ “فتنہ قبر” سے بھی پناہ مانگی گئی ہے ۔ عذابِ نار سے مراد بظاہر دوزخ کا وہ عذاب ہے جو ان دوزخیوں کو ہو گا جو کفر و شرک جیسے سنگین جرائم کی وجہ سے دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ اسی طرح عذابِ قبر سے مراد بظاہر قبر کا وہ عذاب ہے جو اسی طرح کے بڑے مجرموں کو قبر می ہو گا ۔ لیکن جو ان سے کم درجہ کے مجرمین ہیں ان کو اگرچہ دوزخیوں کی طرح دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا اور قبر میں بھی ان پر درجہ اول کے ان مجرمین والا وہ سخت عذاب مسلط نہیں کیا جائے گا ، لیکن دوزخ اور قبر کی کچھ تکلیفوں سے ان لوگوں کو بھی گزرنا پڑے گا اور بس یہی سزا ان کے لئے کافی ہو گی ۔ اس عاجز کے نزدیک “فتنہ نار” اور “عذابِ قبر” کے ساتھ اس “فتنہ نار” اور “فتنہ قبر” سے بھی پناہ چاہی اور اپنے عمل سے ہم کو بھی اس کی تلقین فرمائی ہے ۔
دجال کا فتنہ بھی ان عظیم ترین فتنوں میں سے ہے جن سے رسول اللہ ﷺ بکثرت پناہ مانگتے تھے ، اور اہلِ ایمان کو اس کی تلقین فرماتے تھے ۔ اللہ تعالی دجالِ اکبر کے فتنہ سے (جس کی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی ہے) اور ہر دجالی فتنہ سے اپنی پناہ میں رکھے ۔
اس دعا میں دولت مندی کے فتنہ سے اور اس کے ساتھ فقر و محتاجی کے فتنہ سے بھی اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے ۔ دولت و ثروت بذاتِ خود کوئی بری چیز نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ، اگر اس کا حق ادا کرنے اور اس کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی توفیق ملے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی دولت ہی سے وہ مقام پایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں اعلان فرمایا کہ : “عثمان اس کے بعد جیسا بھی عمل کریں ان پر کوئی عتاب نہ ہو گا اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہو گی (مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمَلَ بَعْدَ مَرَّتَيْنِ) (1) ” اسی طرح فقر کے ساتھ اگر صبر و قناعت نصیب ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے فقر ہی کی زندگی پسند فرمائی ، اور فقر اور اہلِ فقر کے بڑے فضائل بیان فرمائے ۔ لیکن اگر بدقسمتی سے دولت مندی و خوش حالی تکبر و غرور پیدا کرے اور مال و دولت کے صحیح استعمال کی توفیق نہ ملے تو پھر وہ قارونیت ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اسی طرح اگر فقر و محتاجی کے ساتھ صبر و قناعت نہ ہو اور اس کی وجہ سے آدمی ناکردنی کرنے لگے تو وہ خدا کا ایک عذاب ہے ، اور اسی کے برے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا” (محتاجی اور مفلسی آدمی کو کفر تک بھی پہنچا سکتی ہے) اس دعا میں غنا اور فقر (دولت مندی اور ناداری)کے جس شر و فتنہ سے پناہ مانگی گئی ہے وہ یہی ہے ، اور وہ ایسی ہی چیز ہے کہ اس سے ہزار بار پناہ مانگی جائے ۔
اس دعا کے آخر میں گناہوں کے اثرات دھونے کی اور دل کی صفائی کی اور گناہوں سے بہت دور کئے جانے کی جو دعا کی گئی ہے وہ اگچہ بظاہر مثبت دعاؤں میں سے ہے ، لیکن غور کیا جائے تو وہ بھی ایک طرح کہ سلبی دعا ہے اور گویا استعاذہ ہی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَالهَرَمِ، وَالمَغْرَمِ وَالمَأْثَمِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ القَبْرِ وَعَذَابِ القَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الغِنَى، وَشَرِّ فِتْنَةِ الفَقْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ تا وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں کم ہمتی سے اور سستی و کاہلی اور بزدلی سے ، اور بخیلی و کنجوسی سے اور انتہائی درجہ کے بڑھاپے سے اور قبر کے عذاب سے ۔ اے میرے اللہ ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما دے اور اس کا تزکیہ فرما کے اس کو مصفیٰ بنا دے تو ہی سب سے اچھا تزکیہ فرمانے والا ہے ، تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے ۔ اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع مند نہ ہو ، اور ایسے دل سے جس میں خشوع نہ ہو اور اس (ہوسناک) نفس سے جس کی سیری نہ ہو ، اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
علم غیر نافع ، قلب غیر خاشع اور ہوسناک نفس جس کی ہوسناکی ختم ہی نہ ہو اور وہ دعا جس کی اللہ کے ہاں سماعت نہ ہو ۔ ان چاروں چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا مطلب یہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ علم نافع عطا فرمائے ، قلب کو خشوع کی صفت مرحمت فرمائے ، نفس کو ہوسناکی سے پاک فرما کر اس کو قناعت سے آراسشتہ فرمائے اور دعاؤں کو قبولیت سے نوازے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: «اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَالْهَرَمِ، وَعَذَابِ، الْقَبْرِ اللهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا، أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی : “اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ تا وَجَمِيعِ سَخَطِكَ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمتوں کے زائل ہو جانے سے ، اور تیری بخشی ہوئی عافیت کے چلے جانے سے ، اور تیرے عذاب کے ناگہانی آ جانے سے ، اور تیری ہر قسم کی ناراضی اور ناخوشی ہے) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کی اس دعا سے بلکہ اس سلسلہ کی ساری ہی دعاؤں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبوت رسالت بلکہ مقامِ محبوبیت پر بھی جائز ہونے کے باوجود قضاء و قدر کے فیصلوں سے آپ ﷺ کتنے لرزاں و ترساں رہتے تھے ، اور اپنے کو اللہ تعالیٰ کی نگاہِ کرم اور اس کی حفاظت و پناہ کا کتنا محتاج سمجھتے تھے ، صحیح ہے ۔
“قریبان را بیش بود حیرانی”
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشِّقَاقِ، وَالنِّفَاقِ، وَسُوءِ الْأَخْلَاقِ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ شقاق یعنی آپس کے سخت اختلاف اور نفاق سے اور برے اخلاق سے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)

تشریح
“شقاق” اس شدیدی اختلاف کو کہتے ہیں جس کے نتیجہ میں فریقین ایک دوسرے سے بالکل جدا ہو جائیں اور ان کی راہیں الگ الگ ہو جائیں ۔ نفاق کے معنی ہیں ظاہر و باطن کا فرق ، یہ اعتقادی نفاق کے علاوہ عملی زندگی میں منافقانہ رویہ کو بھی شامل ہے ، یہ تینوں چیزیں جن سے اس دعا میں اللہ کی پناہ چاہی گئی ہے (یعنی خلاف و شقاق ، نفاق اور برے اخلاق) آدمی کے دین کو بلکہ اس کی دنیا کو بھی برباد کر دیتی ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ اگرچہ معصوم اور قطعاً محفوظ تھے لیکن ان کے باوجود ان مہلکات کی ہلاکت خیزی ہی کی وجہ سے ان سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ان چیزوں سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی اُتنی فکر کریں جتنی ایک مومن کو ہونی چاہئے اور ہمیشہ ان سے اللہ کی پناہ مانگتے رہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشِّقَاقِ، وَالنِّفَاقِ، وَسُوءِ الْأَخْلَاقِ» (رواه ابوداؤد والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
شکل بن حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ : یا رسول اللہ! مجھے کوئی تعوذ تعلیم فرما دیجئے (یعنی کوئی ایسی دعا بتا دیجئے) جس کے ذریعہ میں اللہ سے پناہ و حفاظت طلب کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں تھام کر فرمایا : کہو “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي تا وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کانوں کے شر سے ، اپنی نگاہ کے شر سے ، اور اپنی زبان کے شر سے ، اور اپنے قلب کے شر سے ، اور اپنے مادہ شہوت کے شر سے) ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی)

تشریح
سمع و بصر اور زبان و قلب اور اسی طرح جنسی خواہش کا شر یہ ہے کہ یہ چیزیں احکامِ خداوندی کے خلاف استعمال ہوں ، جس کا انجام اللہ کا غضب اور اس کا عذاب ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس شر سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے اور اس کی پناہ مانگی جائے ، وہی اگر بچائے گا تو بندہ بچ سکے گا ورنہ مبتلا ہو کر ہلاک ہو جائے گا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ شَكَلِ بْنِ حُمَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللهِ عَلِّمْنِي تَعَوُّذًا أَتَعَوَّذُ بِهِ. فَأَخَذَ بِكَفِّي وَقَالَ: " قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي، وَمِنْ شَرِّ بَصَرِي، وَمِنْ شَرِّ لِسَانِي، وَمِنْ شَرِّ قَلْبِي، وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي " (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩০৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُوعِ تا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بھوک اور فاقہ سے ، وہ بڑا تکلیف دہ رفیقِ کواب ہے اور خیانت کے جرم سے ، وہ بہت بری ہمراز ہے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
جب آدمی کو بھاک اور فاقہ کی تکلیف ہو تو نیند نہیں آتی ، بس اسی احساس کے ساتھ کروٹیں بدلتا رہتا ہے ۔ اسی لحاظ سے بھوک کو “رفیقِ خواب” (یعنی بستر کا ساتھی) کہا گیا ہے ۔ اور خیانت ہمیشہ چوری چھپے ہی کی جاتی ہے اور اس کا راز بس خیانت کرنے والے ہی کو معلوم ہوتا ہے ، اس لئے خیانت کو “بِطَانَةُ” (ہمراز) کہا گیا ہے ۔
بھوک اور خیانت جیسی چیزوں سے رسول اللہ ﷺ کا پناہ مانگنا کمالِ عبدیت کا وہ آخری اور انتہائی مقام ہے جو بلاشبہ آپ ﷺ کا طرہ امتیاز ہے اور اس مین ہمارے لئے بڑا سبق ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُوعِ، فَإِنَّهُ بِئْسَ الضَّجِيعُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخِيَانَةِ، فَإِنَّهَا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ» (رواه ابوداؤد والنسائى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক: