মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩২১ টি

হাদীস নং: ১৩১০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ تا وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ” (اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، برص ، جذام اور پاگل پن سے ، اور سب خراب بیماریوں سے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)

تشریح
برص ، جذام ، جنون اور اس طرح کی وہ بس بیماریاں جن کی وجہ سے لوگ مریض سے نفرت اور گھن کریں اور جن کی وجہ سے آدمی زندگی ہر موت کو ترجیح دینے لگے ۔ بلاشبہ ان سے ہر آدمی کو پناہ مانگنی چاہئے ، لیکن ہلکی اور معمولی قسم کی بیماریاں بعض پہلوؤں سے یقیناً خدا کی رحمت ہوتی ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ، وَالْجُذَامِ، وَالْجُنُونِ، وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ» (رواه ابوداؤد والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩১১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
ابوالیسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ تا وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا” (اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگیا ہوں (اپنے اوپر کسی عمارت وغیرہ کے) ڈھے جانے سے اور (کسی بلندی کے اوپر) گر پڑنے سے اور (دریا وغیرہ میں) ڈوب جانے سے ، اور آگ میں جل جانے سے ، اور انتہائی بڑھاپے سے ، اور تیری پناہ چاہتا ہوں ، اس بات سے کہ موت کے وقت شیطان مجھے وسوسوں میں مبتلا کردے اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ میں میدانِ جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہوا مروں ، اور پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ کسی زہریلے جانور کے ڈسنے سے مجھے موت آ جائے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)

تشریح
کسی دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مر جانا ، اور اسی طرح کسی بلندی سے نیچے گر کر ، یا دریا وغیرہ میں ڈوب کے ، یا آگ میں جل کر یا کسی زہریلے جانور سانپ وغیرہ کے ڈسنے سے ختم ہو جانا ، یہ سب صورتیں مفاجاتی اور ناگہانی موت کی ہیں ۔ علاوہ اس کے کہ انسانی روح موت کی ان سب صورتوں سے فطری طور پر بہت زیادہ گھراتی ہے ، ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان صورتوں میں مرنے والے کو موت کی تیاری ، تجدید ایمان اور توبہ و استغفار وغیرہ کا موقع نہیں ملتا (جو موت کی دوسری عام شکلوں میں عموماًً مل جاتا ہے) اس لئے ایک مومن کو موت کی ان سب ناگہانی صورتوں سے پناہ ہی مانگنا چاہئے ۔ اسی طرح اس سے بھی پناہ مانگنا چاہئے کہ میدانِ جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہوئے موت آئے ’ اللہ کی نگاہ میں یہ نہایت سنگین جرم ہے ، علیٰ ہذا اس سے بھی پناہ مانگتے رہنا چاہئے کہ موت کے وقت شیطان وسوسہ اندازی کے ذریعہ ہم کو گڑبڑا سکے اور گمراہ کر سکے ۔ خاتمہ ہی کے اچھے یا برے ہونے پر سارا دار و مدار ہے ۔
موت کی جن ناگہانی صورتوں سے اس دعا میں پناہ مانگی گئی ہے ، دوسری حدیثوں میں اس قسم کے حوادث سے مرنے والوں کو شہادت کی بشارت سنائی گئی ہے ، اور ان کو شہید قرار دیا گیا ۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے ۔ اپنی بشری کمزوری کے لحاظ وسے موت کی ان سب صورتوں سے ہمیں اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے لیکن جب تقدیر الٰہی سے کسی بندے کو اس طرح سے موت آ جائے تو ارحم الراحمین کی رحمت پر نگاہ رکھتے ہوئے توقع رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مفاجاتی موت ہی کی وجہ سے اس کو “اعزازی شہادت” کا مقام عطا فرمائے گا ۔ اور اگر عقائد و اعمال کے حساب سے کچھ بھی گنجائش ہو گی تو یقینا رب کریم کی طرف سے ایسا ہی ہو گا ۔ “إِنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ”
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي الْيَسَرِ، أَنَّ رَسُولَ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَدْمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّي، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْغَرَقِ، وَالْحَرَقِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا» (رواه ابوداؤد والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩১২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلَاقِ ، وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں برے اخلاق ’ برے اعمال اور بری خواہشات سے) ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلَاقِ، وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ» (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩১৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعوتِ استعاذہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے : “اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ، وَشَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ان اعمال کے شر سے جو میں نے کئے ہیں ، اور ان اعمال کے شر سے جو میں نے نہیں کئے) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
کسی برے عمل کا سرزد ہو جانا اور اسی طرح کسی اچھے عمل کا فوت ہو جانا ، دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کے شر سے ہم جیسے عامی بھی پناہ مانگتے ہیں ، لیکن عارفین اچھے سے اچھے عمل کرنے اور برے اور گندے اعمال سے دامن بچانے کے بعد بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمارے اندر اس کی وجہ سے عجب و غرور اور نیکی و پاکدامنی کا پندرانہ پیدا ہو جائے (جو اللہ کی نگاہ میں جرمِ عظیم ہے) اس لئے وہ اپنے اچھے اعمال کے شر اور برے اعمال کے ترک کے شر سے بھی اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ سچ ہے “حسنات الأبرار سيئات المقربين”
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ َانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: «اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ، وَشَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩১৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیماری اور برے اثرات سے تحفظ کے لئے استعاذہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (اپنے دونوں نواسوں) حضرت حسن و حسین پر دم کیا کرتے تھے (یہ کلمات پڑھ کے دم فرماتے تھے) : “أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ” (میں تم کو اللہ کے پورے پورے کلموں کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان کے اثر سے ، اور ڈَسنے والے ہر زہریلے کیڑے سے ، اور لگنے والی ہر نظرِ بد سے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
یہ کلمات پڑھ کر بچوں پر دم کرنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ، اور آپ ﷺ سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی سنت ہے ۔ بلاشبہ بڑے بابرکت ہیں یہ کلمات ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ يَقُولُ: «أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ»، وَيَقُولُ: «هَكَذَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يُعَوِّذُ إِسْحَاقَ وَإِسْمَاعِيلَ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩১৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بیماری اور برے اثرات سے تحفظ کے لئے استعاذہ
حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنی تکلیف عرض کی کہ : جب سے میں اسلام لایا ہوں جسم کے فلاں حصہ میں درد رہتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس جگہ درد ہے اس جگہ اپنا ہاتھ رکھو اور تین دفعہ بسم اللہ پڑھ کر سات دفعہ کہو : “أَعُوذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ” (میں اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی پناہ چاہتا ہوں اس تکلیف کے شر سے جو مجھے لاحق ہے اور اس سے بھی جس کا مجھے خطرہ ہے) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
ہر جسمانی تکلیف کے لئے یہ عمل اور تعوذ رسول اللہ ﷺ کا خاص عطیہ ہے اور بہت مجرب ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيِّ، أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعًا يَجِدُهُ فِي جَسَدِهِ مُنْذُ أَسْلَمَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ضَعْ يَدَكَ عَلَى الَّذِي تَأَلَّمَ مِنْ جَسَدِكَ، وَقُلْ بِاسْمِ اللهِ ثَلَاثًا، وَقُلْ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩১৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ توبہ و استغفار بلند ترین مقام: توبہ و استغفار کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ و استغفار کرتا ہوں” ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
دُعا ہی کی ایک خاص قسم استغفار ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی اور بخشش مانگنا اور تونہ کرنا گویا اس کے لوازم میں سے ہے ، بلکہ یہ دونوں ہی آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ جو گناہ اور نافرمانی یا ناپسندیدہ عمل بندے سے سرزد ہو جائے اس کے برے انجام کے خوف کے ساتھ اس پر اسے دِلی رنج و ندامت ہو ، اور آئندہ کے لئے اس سے بچے رہنے اور دور رہنے کا اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی رضاس جوئی کا وہ عزم اور فیصلہ کرے ۔
ظاہر ہے کہ جب یہ توبہ والی کیفیت نصیب ہو گی تو جو گناہ سرزد ہو چکے ہیں بندہ اللہ تعالیٰ سے ان کی معافی اور بخشش کی استدعا بھی ضرور کرے گا ، تا کہ ان کی سزا اور برے انجام سے بچ سکے ۔ اور اسی طرح جب سزا اور عذاب کے خوف سے معافی اور بخشش مانگے گا تو اس کو گناہ پر رنج و افسوس اور آئندہ کے لئے اس کے پاس نہ جانے کا عزم بھی ضرور ہو گا ۔ اسی بناء پر کہا گیا ہے کہ فی الحقیقت یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔
توبہ و استغفار کی حقیقت اس مثال سے اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ کوئی آدمی مثلاً غصہ کی حالت میں خودکشی کے ارادہ سے زہر کھا لے ، اور جب وہ زہر اندر پہنچ کر اپنا عمل شروع کرے اور آنتیں کٹنے لگیں اور وہ ناقابل برداشت تکلیف اور بےچینی ہونے لگے جو زہر کے نتیجہ میں ہوتی ہے ، اور موت سامنے کھڑی نظر آ ئے تو اس کو اپنی اس احمقانہ حرکت پر رنج و افسوس ہو اور اس وقت وہ چاہے کہ کسی بھی قیمت پر اس کی جان بچ جائے ، اور جو دوا حکیم یا داکٹر اسے بتائیں وہ اسے استعمال کرے اور اگر قے کرنے کے لئے کہیں تو قے لانے کے لئے بھی ہر تدبیر اختیار کرے ۔ یقیناً اس وقت وہ پوری صدق دلی کے ساتھ یہ بھی فیصلہ کرے گا کہ اگر میں زندہ بچ گیا تو آئندہ کبھی ایسی حماقت نہیں کروں گا ۔
بالکل اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ کبھی کبھی صاحبِ ایمان بندہ غفلت کی حالت میں اغواءِ شیطانی یا خود اپنے نفسِ امارہ کے تقاضے سے گناہ کر بیٹھتا ہے ، لیکن جب اللہ کی توفیق سے اس کا ایمانی حاسہ بیدار ہوتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے اپنے مالک و مولیٰ کی نافرمانی کر کے اپنے کو ہلاک کر ڈالا ، اوراللہ کی رحمت و عنایت اور اس کی رضا کے بجائے میں اس کے غضب اور عذاب کا مستحق ہو گیا اور اگر میں اسی حالت میں مر گیا تو قبر میں اور اس کے بعد حشر میں مجھ پر کیا گزرے گی اور وہاں اپنے مالک کو کیا منہ دکھاؤں گا اور آخرت کا عذاب کیسے برداشت کر سکوں گا ۔ الغرض جب توفیقِ الٰہی سے اس کے اندر یہ فکر و احساس پیدا ہوتا ہے تو وہ یہ یقین و عقیدہ رکھتے ہوئے کہ میرا مالک و مولیٰ بڑا رحیم و کریم ہے ، معافی مانگنے پر بڑے سے بڑے گناہوں ، قصوروں کو وہ بڑی خوشی سے معاف فرما دیتا ہے ، وہ اس سے معافی اور بخشش کی استدعا کرتا ہے اور اسی کو گناہ کے زہر کا علاج سمجھتا ہے ۔ نیز اس کے ساتھ وہ آئندہ کے فیصلہ کرتا ہے کہ اب کبھی اپنے مالک کی نافرمانی نہیں کروں گا اور کبھی اس گناہ کے پاس نہیں جاؤں گا ۔ بس بندے کے اسی عمل کا نام استغفار اور توبہ ہے ۔

پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مقبولین و مقربین کے مقامات میں سب سے بلند مقام عبدیت اور بندگی کا ہے ، اور دعا چونکہ عبدیت اور بندگی کا سب سے اعلیٰ مظہر ہے ، بلکہ ارشادِ نبویﷺ کے مطابق “مُخُّ العِبَادَةِ” (یعنی بندگی اور عبادت کا مغز اور جوہر ہے) اس لئے انسانی اعمال و احوال میں سب سے اکرم و اشرف دعا ہی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اپنے موقع پر درج ہو چکا ہے : “لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللهِ مِنَ الدُّعَاءِ” (اللہ کے یہاں کوئی چیز دعا سے زیادہ عزیز اور قیمتی نہیں ہے) ۔
اور استغفار و توبہ کے وقت بندہ چونکہ اپنی گنہگاری اور تقصیر کے احساس کی وجہ سے انتہائی ندامت اور احساسِ پستی کی حالت میں ہوتا ہے ، اور گناہ کی گندگی کی وجہ سے مالک کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا ، اور اپنے کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لئے توبہ کرتا ہے ، اس لئے بندگی اور تذلل اور گنہگاری و قصورواری کے احساس کی جو کیفیت استغفار و توبہ کے وقت میں ہوتی ہے وہ کسی دوسری دعا کے وقت میں نہیں ہوتی بلکہ نہیں ہو سکتی اس بناء پر استغفار و توبہ دراصل اعلیٰ درجہ کی عبادت اور قربِ الٰہی کے مقامات میں بلند ترین مقام ہے ، اور توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لئے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے ۔
وہ حدیثیں آگے آئیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ ﷺ ہر وقت توبہ و استغفار کرتے تھے ۔ اوپر کی سطروں میں توبہ و استغفار کے متعلق جو کچھ عرض کیا گیا اس کی روشنی میں آنحضرتﷺ کے اس کثرتِ استغفار کی وجہ آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے ۔
دراصل یہ خیال بہت ہی عامیانہ اور غلط ہے کہ استغفار و توبہ عاصیوں اور گنہگاروں ہی کا کام ہے ، اور انہی کو اس کی ضرورت ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے خاص مقرب بندے یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام جو گناہوں سے محفوظ و معصوم ہوتے ہیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ محسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق بالکل ادا نہ ہو سکا ، اس لئے وہ برابر توبہ و استغفار کرتے ہیں ، اور اپنے ہر عمل کو حتیٰ کہ اپنی نمازوں تک کو قابلِ استغفار سمجھتے ہیں ۔
اس سلسلہ کی تیسری جلد “کتاب الصلوٰۃ” میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ کہتے تھے : “أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ ” (یعنی اے اللہ میں تجھ سے بخشش و معافی چاہتا ہوں) نماز کے بعد آپ ﷺ کا یہ استغفار اسی بنیاد پر ہوتا تھا کہ آپ ﷺ محسوس کرتے تھے کہ نماز کا حق ادا نہیں ہوا ۔ واللہ اعلم ۔
بہرحال توبہ و استغفار عاصیوں اور گنہگاروں کے لئے مغفرت و رحمت کا ذریعہ اور مقربین و معصومین کے لئے درجاتِ قرب و محبوبیت میں بےانتہا ترقی کا وسیلہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم و یقین اور ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ۔

اس تمہید کے بعد استغفار و توبہ سے متعلق احادیث پڑھئے ۔ اور سب سے پہلے وہ احادیث پڑھئے جن میں توبہ و استغفار کے باب میں خود رسول اللہ ﷺ کا معمول ذکر کیا گیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور جلال و جبروت کے بارے میں جس بندے کو جس درجہ کا شعور و احساس ہو گا وہ اسی چرجہ میں اپنے آپ کو اداءِ حقوقِ عبودیت میں قصوروار سمجھے گا ، اور رسول اللہ ﷺ کو چونکہ یہ چیز بدرجہ کمال حاصل تھی اس لئے آپ ﷺ پریہ احساس غالب رہتا تھا کہ عبودیت کا حق ادا نہ ہو سکا ، اسی واسطے آپ ﷺ بار بار اور مسلسل توبہ و استغفار فرماتے تھے ۔ اور اس کا اظہار فرما کر دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي اليَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً» (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩১৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ توبہ و استغفار بلند ترین مقام: توبہ و استغفار کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ
حضرت اغر مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! اللہ کے حضور میں توبہ کرو ، میں خود دن میں سو سو دفعہ اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
پہلی حدیث میں “أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً” (دو دفعہ) دراصل صرف کثرت کے بیان کے لئے ہیں ، اور قدیم عربی زبان کا یہ عام محاورہ ہے ، ورنہ حضور ﷺ کے استغفار و توبہ کی تعداد یقیناً اس سے بہت زیادہ ہوتی تھی ۔ جیسا کہ آگے درج ہونے والی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ الْأَغَرِّ الْمُزْنِىِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، تُوبُوا إِلَى اللهِ وَاسْتَغْفِرُوا، فَإِنِّي أَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩১৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ توبہ و استغفار بلند ترین مقام: توبہ و استغفار کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک نشست میں شمار کر لیتے تھے کہ آپ ﷺ سو سو دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے تھے : “رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ” (اے میرے رب مجھے معاف کر دے ، بخش دے اور میری توبہ قبول فرما کر مجھ پر عنایت فرما ، بےشک تو بہت ہی عنایت فرمانے اور بہت ہی بخشنے والا ہے) ۔(مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس بیان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بطورِ ورد و وظیفہ کے استغفار و توبہ کا یہ کلمہ ایک نشست میں سو دفعہ پڑھتے تھے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ مجلس میں تشریف فرما ہوتے ، ہم لوگ بھی حاضر رہتے ، بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہتا اور آپ ﷺ اسی درمیان میں بار بار اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر ان کلمات کے ساتھ استغفار و توبہ بھی کرتے رہتے ، اور ہم اپنے طور پر اس کو شمار کرتے رہتے تو معلوم ہوتا کہ ایک نشست میں آپ ﷺ نے سو دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ عرض کیا ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: إِنَّا كُنَّا لَنَعُدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَجْلِسِ الْوَاحِدِ مِائَةَ مَرَّةٍ: «رَبِّ اغْفِرْ لِي، وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ» (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩১৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ توبہ و استغفار بلند ترین مقام: توبہ و استغفار کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے: “اللهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ إِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا، وَإِذَا أَسَاءُوا اسْتَغْفَرُوا” (اے اللہ ! مجھے اپنے اُن بندوں میں سے کر دے جو نیکی کریں تو خوش ہوں ، اور ان سے جب کوئی غلطی اور برائی سرزد ہو جائے تو تیرے حضور میں استغفار کریں) ۔ (سنن ابن ماجہ ، دعوات کبیر للبیہقی)

تشریح
کسی بندے کو ان اچھے اعمال کی توفیق ملنا جن کے صلہ میں جنت اور رضائے الٰہی کا وعدہ ہے اس بات کی علامت اور نشانی ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت ہے ، اس لئے اس کا حق ہے کو اس کو چاہئے کہ وہ اعمالِ حسنہ کی اس توفیق پر خوش ہو اور شکر ادا کرے ۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا
اللہ کے فضل اور اس کی رحمت و عنایت پر اس کے بندوں کو خوش ہونا چاہئے ۔
اسی طرح جب کسی بندے سے کوئی چھوٹی بڑی معصیت یا لغزش ہو جائے تو اسے اس کا رنج اور دکھ ہونا چاہئے ، اور فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا چاہئے ۔ جس بندے کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوں وہ بڑا خوش نصیب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ خود اپنے لئے دعا فرماتے تھے کہ : اللہ تعالیٰ مجھے بھی یہ دونوں باتیں نصیب فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " اللهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ إِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا، وَإِذَا أَسَاءُوا اسْتَغْفَرُوا " (رواه ابن ماجه والبيهقى فى الدعوات الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ گناہوں کی سیاہی اور توبہ و استغفار سے اس کا ازالہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ، پھر اگر اس نے اس گناہ سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں معافی اور بخشش کی التجا و استدعا کی تو وہ سیاہ نقطہ زائل ہو کر قلب صاف ہو جاتا ہے ، اور اگر اس نے گناہ کے بعد توبہ و استغفار کے بجائے مزید گناہ کئے اور گناہوں کی وادی میں قدم بڑھائے تو دل کی وہ سیاہی اور بڑھ جاتی ہے ، یہاں تک کہ قلب پر چھا جاتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : یہی وہ زنگ اور سیاہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے : كَلَّا ۖ بَلْ ۜرَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ
(مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
قرآن مجید میں ایک موقع پر بد انجام کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے “كَلَّا ۖ بَلْ ۜرَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ” جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی بدکرداریوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ اور سیاہی آ گئی ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ گناہوں اور بدکرداریوں کی وجہ سے صرف کافروں ہی کے دل سیاہ نہیں ہوتے ، بلکہ مسلمان بھی جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں بھی گناہ کی نحوست سے ظلمت پیدا ہوتی ہے ، لیکن اگر وہ سچے دل سے توبہ و استغفار کر لے تو یہ سیاہی اور ظلمت ختم ہو جاتی ہے اور دل حسبِ سابق صاف اور نورانی ہو جاتا ہے ، لیکن اگر گناہ کے بعد توبہ و استغفار نہ کرے یا کہ معصیت و نافرمانی ہی کے راستہ پر آگے بڑھتا ہے تو پھر یہ ظلمت برابر بڑھتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتی ہے ، اور کسی مسلمان کے لئے بلاشبہ یہ انتہائی بدبختی کی بات ہے کہ گناہوں کی ظلمت اس کے دل پر چھا جائے ، اور اس کے قلب میں اندھیرا ہی اندھیرا ہو جائے ۔ اعاذنا اللہ منہ
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ، فَإِنْ تَابَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ زَادَ، زَادَتْ حَتَّى تَعْلُوْا قَلْبَهُ، فَذَلِكُمُ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى: {كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ} (رواه احمد والترمذى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ گناہوں کی سیاہی اور توبہ و استغفار سے اس کا ازالہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر آدمی خطا کار ہے (کوئی نہیں ہے جس سے کبھی کوئی خطا اور لغزش نہ ہو) اور خطاکاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو (خطا و قصور کے بعد) مخلصانہ توبہ کریں ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جائیں ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ» (رواه الترمذى وابن ماجه والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ گناہوں کی سیاہی اور توبہ و استغفار سے اس کا ازالہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گناہ سے توبہ کر لینے والا گنہگار بندہ بالکل اس بندے کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو ۔ (سنن ابن ماجہ ، شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ سچی توبہ کے بعد گناہ کا کوئی اثر اور داغ دھبہ باقی نہیں رہتا ، اور بعض روایات میں ہے کہ آدمی گناہوں سے توبہ کے بعد ایسا بے گناہ ہو جاتا ہے جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت بےگناہ تھا (كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ) اور وہ احادیث ان شاء اللہ آگے درج ہوں گی جن سے معلوم ہو گا کہ توبہ کا نتیجہ صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ گناہ معاف ہو جائیں ،اور معصیات کی ظلمت اور سیاہی کے داغ دھبے مٹا دئیے جائیں ، بلکہ تائب بندہ اللہ کا محبوب اور پیارا بن جاتا ہے ، اور اس کی توبہ سے اس کو بےحد خوشی ہوتی ہے ۔ اللهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ التَّوَّابِينَ
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللهِ ابن مسعود قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ» (رواه ابن ماجه والبيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غفاریت کے ظہور کے لئے گناہوں کی ضرورت
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے قت فرمایا کہ : میں نے ایک بات رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی اور تم سے اب تک چھپائی تھی (اب جبکہ میرا ٓخری وقت ہے وہ میں تم کو بتاتا ہوں اور وہ امانت تمہارے سپرد کرتا ہوں) میں نے حضور ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے اگر بالفرض تم سب (ملائکہ کی طرح) بےگناہ ہو جاؤ اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو ، تو اللہ اور مخلوق پیدا کرے گا جن سے گناہ بھی سرزد ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمائے گا (اور اس طرح اسکی شانِ غفاریت کا اظہار ہو گا)

تشریح
اس حدیث سے یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کو معاذ اللہ گناہ مطلوب ہیں اور وہ گناہگاروں کو پسند فرماتا ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد کے ذریعہ گناہوں اور گناہگاروں کی ہمت افزائی ہے ، بڑی جاہلانہ غلط فہمی ہو گی ۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو گناہوں سے بچایا جائے اور اعمالِ صالحہ کی ترغیب دی جائے ۔ دراصل حدیث کا منشاء اور مدعا اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاریت کو ظاہر کرنا ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت کے ظہور کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق پیدا کی جائے اور فرمائے ۔ علیٰ ہذا جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفتِ ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق ہو جس میں ہدایت لینے کی صلاحیت ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو ہدایت ملے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاریت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی مخلوق ہو جس سے گناہ بھی سرزد ہوں پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں استغفار کرے اور گناہوں کی معافی اور بخشش چاہے ، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ فرمائے ۔ اس لئے ناگزیر ہے اور ازل سے طے ہے کہ اس دنیا میں گناہ کرنے والے بھی ہوں گے اُن میں سے جن کو توفیق ملے گی وہ استغفار بھی کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کا فیصلہ بھی فرمائے گا اور اس طرح اس کی صفتِ مغفرت اور شانِ غفاریت کا ظہور ہو گا ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے اس ارشاد کا اپنی زندگی میں اس خیال سے کبھی تذکرہ نہیں کیا کہ کم فہم لوگ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں پھر اپنے آخری وقت میں اپنے خاص لوگوں سے اظہار فرما کر امانت گویا اُن کے سپرد کر دی ۔
یہی مضمون الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنَّهُ قَالَ حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ: كُنْتُ كَتَمْتُ عَنْكُمْ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لَوْلَا أَنَّكُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللهُ خَلْقًا يُذْنِبُونَ يَغْفِرُ لَهُمْ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بار بار گناہ اور بار بار استغفار کرنے والے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا :اللہ کے کسی بندے نے کوئی گناہ کیا پھر اللہ سے عرض کیا اے میرے مالک ! مجھ سے گناہ ہو گیا ، مجھے معاف فرما دے ! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہوں پر پکڑ بھی سکتا ہے ، اور معاف بھی کر سکتا ہے ۔ میں نے اپنے بندے کا گناہ بخش دیا اور اس کو معاف کر دیا ۔ اس کے بعد جب تک اللہ نے چاہا وہ بندہ گناہ سے رُکا رہا ، اور پھر کسی وقت گناہ کر بیٹھا اور پھر اللہ سے عرض کیا میرے مالک ! مجھ سے گناہ ہو گیا تواس کو بخش دے اور معاف فرما دے ، تو اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہ و قصور معاف بھی کر سکتا ہے اور پکڑ بھی سکتا ہے ۔ میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف کر دیا ۔ اس کے بعد جب تک اللہ نے چاہا وہ بندہ گناہ سے رُکا رہا ، اور کسی وقت پھر گناہ کر بیٹھا اور پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے میرے مالک و مولیٰ! مجھ سے گناہ ہو گیا تو مجھے معاف فرما دے اور میرا گناہ بخش دے ! تو اللہ تعالیٰ نے پھر ارشاد فرمایا کہ میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا کوئی مالک و مولیٰ ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے ، اور سزا بھی دے سکتا ہے ۔ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اب جو اس کا جی چاہا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بار بار گناہ اور بار بار استغفار کرنے والے جس بندے کا واقعہ بیان فرمایا ہے ، بعض شارحین نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ ﷺ ہی کا کوئی امتی ہو اور ممکن ہے کہ انبیاء سابقین میں سے کسی کا امتی ہو ، لیکن اس عاجز کے نزدیک زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ کسی خاص اور معین واقعہ کا بیان نہیں ہے ، بلکہ ایک کردار کا بیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے لاکھوں کروڑوں بندے ہوں گے جن کا حال اور کردار یہی ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان کے باوجود اُن سے گناہ ہو جاتا ہے ، اور پھر وہ نادم و پشیمان ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں استغفار کرتے ہیں ، اور اس کے بعد بھی ان سے بار بار گناہ سرزد ہوتے ہیں ، اور وہ ہر بار سچے دل سے استغفار کرتے ہیں ، ایسے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی کریمانہ معاملہ ہے جو اس حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے ۔
آخری دفعہ کے استغفار اور اس پر معافی کے اعلان کے ساتھ فرمایا گیا ہے : “غَفَرْتُ لِعَبْدِي فَلْيَفْعَلْ مَا شَاءَ”(یعنی میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اب اس کا جو جی چاہے کرے) اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اب اس کو گناہوں کی بھی اجازت دیدی گئی ہے ، بلکہ ان الفاظ میں بندے کے مالک و مولیٰ کی طرف سے صرف اس لطف و کرم کا اعلان فرمایا گیا ہے کہ : اے بندے تو جتنی بار بھی گناہ کر کے اس طرح استغفار کرتا رہے گا میں تجھے معافی دیتا رہوں گا اور تو اپنے اس صادق و مؤمنانہ استغفار کی وجہ سے گناہوں کے زہر سے ہلاک نہ ہو گا ، بلکہ یہ استغفار ہمیشہ تریاق کا کام کرتا رہے گا ۔
اللہ تعالیٰ نے جن بندوں کا کچھ ذوق نصیب فرمایا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ مومن بندے کے ضمیر پر ایسے کریمانہ اعلان کا کیا اثر پڑے گا ، اور اس کے دل میں مالک کی کامل وفاداری اور فرنبرداری کا کیسا جذبہ اُبھرے گا ۔
اس حدیث کی صحیح مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیث کا یہ پورا مضمون اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے بیان فرمایا ۔ اس روایت کی بناء پر یہ “حدیث قدسی” ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَبْدًا أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ فَاغْفِرْهُ، فَقَالَ رَبُّهُ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا، َقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْهُ، فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا، قَالَ: قَالَ: أَذْنَبْتُ ذَنْبًا آخَرَ فَاغْفِرْهُ لِي، فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي فَلْيَفْعَلْ مَا شَاءَ " (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بار بار گناہ اور بار بار استغفار کرنے والے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بندہ (گناہ کر کے) استغفار کرے (یعنی سچے دل سے اللہ سے معافی مانگے) وہ اگر دن میں ستر دفعہ بھی پھر وہی گناہ کرے تو (اللہ کے نزدیک) وہ گناہ پراصرار کرنے والوں میں نہیں ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
گناہ پر اصرار ، یعنی بےفکری اور بےخوفی کے ساتھ گناہ کرتے رہنا اور اس پر دائم و قائم رہنا بڑی بدبختی اور بہت برے انجام کی نشانی ہے ، اور ایسا عادی مجرم گویا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق نہیں ہے ۔ اس حدیث میں واضح فرمایا گیا ہے کہ اگر بندہ گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے یعنی معافی مانگے تو پھر بار بار گناہ کرنے کے باوجود وہ “اصرار کرنے والوں” میں سے نہیں ہے ۔ مگر ملحوظ رہے کہ استغفار صرف زبان سے نکلنے والے الفاظ کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ دل کی ایک طلب ہے ، زبان اس کی صرف ترجمانی کرتی ہے ، اگر استغفار اور معافی طلبی دل سے ہو تو بلاشبہ ستر دفعہ بلکہ ستر ہزار دفعہ گناہ کرنے کے بعد بھی آدمی رحمتِ الٰہی کا مستحق ہے ، اور گناہ پر اصرار کرنے والے مجرموں میں سے نہیں ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ، وَإِنْ عَادَ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةٍ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کس وقت تک کی توبہ قابلِ قبول ہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک غرغرہ کی کیفیت شروع نہ ہو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
موت کے وقت جب بندے کی روح جسم سے نکلنے لگتی ہے تو حلق کی نالی میں ایک قسم کی آواز پیدا ہو جاتی ہے ، جسے عربی میں “غرغرہ” اور اردو میں “خرہ چلنا” کہتے ہیں ۔ اس کے بعد زندگی کی کوئی آس اور امید نہیں رہتی ، یہ موت کی قطعی اور آخری علامت ہے ۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ غرغرہ کی اس کیفیت کے شروع ہونے سے پہلے پہلے بندہ اگر توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا ۔ غرغرہ کی کیفیت شروع ہونے کے بعد آدمی کا رابطہ اور تعلق اس دنیا سے کٹ کر دوسرے عالم سے جُڑ جاتا ہے ، اس لئے اس وقت اگر کوئی کافر اور منکر ایمان لائے یا کوئی نافرمان بندہ گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ قبول نہ ہو گا ۔ ایمان اور توبہ اسی وقت تک کی معتبر اور قابلِ قبول ہے جب تک زندگی کی آس اور امید ہو ، اور موت آنکھوں ے سامنے نہ آ گئی ہو ۔ قرآنِ پاک میں بھی صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے :
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ
ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں جو برابر گناہ کرتے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو تو کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں ۔
حدیث کے مضمون کا ماخذ بظاہر یہی آیت ہے اور اس کا پیغام یہی ہے کہ :
بندے کو چاہئے کہ توبہ کے معاملہ میں ٹال مٹول نہ کرے ، معلوم نہیں کس وقت موت کی گھڑی آ جائے اور خدانخواستہ توبہ کا وقت ہی نہ ملے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ» (رواه الترمذى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مرنے والوں کے لئے سب سے بہتر تحفہ استغفار
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبر میں مدفون مُردے کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو دریا میں ڈوب رہا ہو اور مدد کے لئے چیخ پکار رہا ہو ۔ وہ بےچارہ انتظار کرتا ہے کہ ماں یا باپ یا بھائی یا کسی دوست آشنا کی طرف سے دعائے رحمت و مغفرت کا تحفہ پہنچے ، جب کسی طرف سے اس کو دعا کا تحفہ پہنچتا ہے تو وہ اس کو دنیا ومافیہا سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتا ہے ۔ اور دنیا میں رہنے بسنے والوں کی دعاؤں کی وجہ سے قبر کے مُردوں کو اتنا عظیم ثواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے جس کی مثال پہاڑوں سے دی جا سکتی ہے ۔ اور مُردوں کے لئے زندوں کا خاص ہدیہ ان کے لئے دعائے مغفرت ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ، يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ، فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مرنے والوں کے لئے سب سے بہتر تحفہ استغفار
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کر دیا جاتا ہے تو وہ جنتی بندہ پوچھتا ہے کہ اے پروردگار ! میرے درجہ اور مرتبہ میں یہ ترقی کس وجہ سے اور کہاں سے ہوئی ؟ جواب ملتا ہے کہ تیرے واسطے تیری فلاں اولا کے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے ۔ (مسند احمد)

تشریح
اس حدیث میں اولاد کی دعا سے درجہ میں ترقی کا ذکر صرف تمثیلا کیا گیا ہے ، ورنہ دوسرے اہلِ ایمان کی دعائیں بھی اسی طرح نفع مند ہوتی ہیں ۔ زندگی میں جس طرح سب سے بڑا حق اولاد پر والدین کا ہے اور ان کی خدمت و اطاعت فرائض میں سے ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد اولاد پر والدین کا خاص حق ہے کہ ان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے رہیں ۔ مرنے کے بعد ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا یہی خاص راستہ ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی ان دونوں حدیثوں کا مقصد صرف ایک حقیقت کی اطلاع دینا ہی نہیں ہے بلکہ ایک بلیغ انداز میں اولاد اور دوسرے اقارب و متعلقین کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مرنے والوں کے لئے مغفرت و رحمت کی دعائیں کرتے رہیں ۔ ان کے یہ تحفے قبروں میں اور جنت تک مرحومین کو پہنچتے رہیں گے ۔
راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنے بعض بندوں کو اس کا مشاہدہ بھی کرا دیتا ہے کہ کسی کی دعاؤں سے کسی بندے کو اس عالم میں کیا ملا ، اور اس کے حال اور درجہ میں کیسی ترقی ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا یقین نصیب فرمائے ، اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَرْفَعُ الدَّرَجَةَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، أَنَّى لِي هَذِهِ؟ فَيَقُولُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ " (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عام مومنین کے لئے استغفار
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ عام ایمان والوں اور ایمان والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگے گا اس کے لئے ہر مومن مرد و عورت کے حساب سے ایک ایک نیکی لکھی جائے گی ۔ (معجم کبیر للطبرانی)

تشریح
قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ : “آپ اپنے لئے اور عام مومنین و مومنات کے لئے استغفار یعنی اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت کی استدعا کیا کریں (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ)
یہی حکم ہم امتیوں کے لئے بھی ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی بڑی ترغیب دی اور بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی دو حدیثیں ذیل میں پڑھئے :

تشریح ..... کسی صاحبِ ایمان بندے یا بندی کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کی دعا کرنا ، ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ بہت بڑا احسان اور اس کی بہت بڑی خدمت ہے اس لئے جب کسی بندے نے عام اہلِ ایمان (مؤمنین و مؤمنات) کے لئے استغفار کیا اور ان کے لئے اللہ کی بخشش کی دعا کی تو فی الحقیقت اس ن ے اولین و آخرین ، زندہ اور مردہ سب ہی اہل ایمان کی خدمت اور ان کے ساتھ نیکی کی اس لئے ہر ایک کے حساب میں اس کی یہ نیکی لکھی جائے گی ۔ سبحان اللہ ! ہمارے لئے لاتعداد نیکیوں کے کمانے کا کیسا راستہ کھولا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔ جمیع مؤمنین و مؤمنات کے لئے دعائے مغفرت کے بہترین الفاظ وہ ہیں جو قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نقل کئے گئے ہیں :
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ
اے ہمارے رب ! مجھے بخش دے ، اور میرے ماں باپ کو بخش دے ، اور تمام ہی ایمان والوں کی مغفرت فرما دے قیامت کے دن ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عن عبادة بن الصامت قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "من استغفر للمؤمنين والمؤمنات كتب له بكل مؤمن ومؤمنة حسنة " (رواه الطبرانى فى الكبير)
tahqiq

তাহকীক: