মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩২১ টি
হাদীস নং: ১৩৩০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عام مومنین کے لئے استغفار
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :“جو بندہ عام مؤمنین و مؤمنات کے لئے (ہر روز ۲۷ دفعہ) اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت کی دعا کرے گا وہ اللہ کے اُن مقبول بندوں میں سے ہو جائے گا جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ، اور جن کی برکت سے دنیا والوں کو رزق ملتا ہے ”۔ (معجم کبیر طبرانی)
تشریح
اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت ہی محبوب ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت و خیر خواہی اور ان کو نفع پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔ ایک حدیث میں ہے :
الْخَلْقُ عِيَالُ اللهِ، وَأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ أَنْفَعُهُمْ لِعِيَالِهِ
سب مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ، اس لئے لوگوں میں اللہ کو زیادہ محبوب وہ بندے ہیں جو اس کی مخلوق کو زیادہ نفع پہنچائیں ۔
پھر جس طرح مخلوق کے لئے کھانے ، کپڑے کے قسم کی زندگی کی ضروریات فراہم کرنا اور ان کو راحت و آرام پہنچانا وغیرہ اس دنیا میں ان کی خدمت اور نفع رسانی کی صورتیں ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ سے بندوں کے لئے مغفرت اور بخشش کی دعا کرنا بھی اُخروی زندگی کے لحاظ سے ان کی بہت بڑی خدمت اور ان کے ساتھ بہت بڑی نیکی ہے ، اور اس کی قدر و قیمت آخرت میں اس وقت معلوم ہو گی جب یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ کسی کے استغفار نے کسی کو کیا دلوایا اور کتنا نفع پہنچایا ۔ پس جو مخلص بندے اخلاص اور دل کی گہرائی سے ایمان والے بندوں اور بندیوں کے لئے مغفرت اور بخشش کی دعائیں کرتے ہیں اور دن رات میں بار بار کرتے ہیں (جس کا کورس حدیث میں ۲۷ بتایا گیا ہے) وہ تمام مؤمنین و مؤمنات کے خاص الخاص محسن اور گویا آخرت کے لحاظ سے “اصحاب خدمت” ہیں اور اپنے اس عمل سے اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ایسے مقرب اور مقبول ہو جاتے ہیں کہ ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، اور ان کی دعاؤں کی برکت سے دنیا والوں کو اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے ۔
لیکن یہ بات یہاں قابل لحاظ ہے کہ اس دنیا میں تو ہر انسان بلکہ ہر جاندار کی خدمت اور اس کو ضروری درجہ کا آرام پہنچانے کی کوشش نیکی اور کارِ ثواب ہے ۔ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے : “كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ صَدَقَةٌ” لیکن اللہ سے مغفرت اور جنت کی دعا صرف اہلِ ایمان ہی کے لئے کی جا سکتی ہے ۔ کفر و شرک والے جب تک اس سے توبہ نہ کریں مغفرت اور جنت کے قابل نہیں ہیں ، اس لئے ان کے واسطے مغفرت اور جنت کی دعا بھی نہیں کی جا سکتی ۔ ماں ان کے واسطے ہدایت اور توبہ کی توفیق کی دعا کرنی چاہئے ، جس کے بعد ان کے لئے مغفرت اور جنت کا دروازہ کھل سکے ۔ ان کے حق میں یہی دعا کرنا ان کے ساتھ بہت بڑی نیکی اور خیر خواہی ہے ۔
تشریح
اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت ہی محبوب ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت و خیر خواہی اور ان کو نفع پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔ ایک حدیث میں ہے :
الْخَلْقُ عِيَالُ اللهِ، وَأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ أَنْفَعُهُمْ لِعِيَالِهِ
سب مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ، اس لئے لوگوں میں اللہ کو زیادہ محبوب وہ بندے ہیں جو اس کی مخلوق کو زیادہ نفع پہنچائیں ۔
پھر جس طرح مخلوق کے لئے کھانے ، کپڑے کے قسم کی زندگی کی ضروریات فراہم کرنا اور ان کو راحت و آرام پہنچانا وغیرہ اس دنیا میں ان کی خدمت اور نفع رسانی کی صورتیں ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ سے بندوں کے لئے مغفرت اور بخشش کی دعا کرنا بھی اُخروی زندگی کے لحاظ سے ان کی بہت بڑی خدمت اور ان کے ساتھ بہت بڑی نیکی ہے ، اور اس کی قدر و قیمت آخرت میں اس وقت معلوم ہو گی جب یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ کسی کے استغفار نے کسی کو کیا دلوایا اور کتنا نفع پہنچایا ۔ پس جو مخلص بندے اخلاص اور دل کی گہرائی سے ایمان والے بندوں اور بندیوں کے لئے مغفرت اور بخشش کی دعائیں کرتے ہیں اور دن رات میں بار بار کرتے ہیں (جس کا کورس حدیث میں ۲۷ بتایا گیا ہے) وہ تمام مؤمنین و مؤمنات کے خاص الخاص محسن اور گویا آخرت کے لحاظ سے “اصحاب خدمت” ہیں اور اپنے اس عمل سے اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ایسے مقرب اور مقبول ہو جاتے ہیں کہ ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، اور ان کی دعاؤں کی برکت سے دنیا والوں کو اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے ۔
لیکن یہ بات یہاں قابل لحاظ ہے کہ اس دنیا میں تو ہر انسان بلکہ ہر جاندار کی خدمت اور اس کو ضروری درجہ کا آرام پہنچانے کی کوشش نیکی اور کارِ ثواب ہے ۔ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے : “كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ صَدَقَةٌ” لیکن اللہ سے مغفرت اور جنت کی دعا صرف اہلِ ایمان ہی کے لئے کی جا سکتی ہے ۔ کفر و شرک والے جب تک اس سے توبہ نہ کریں مغفرت اور جنت کے قابل نہیں ہیں ، اس لئے ان کے واسطے مغفرت اور جنت کی دعا بھی نہیں کی جا سکتی ۔ ماں ان کے واسطے ہدایت اور توبہ کی توفیق کی دعا کرنی چاہئے ، جس کے بعد ان کے لئے مغفرت اور جنت کا دروازہ کھل سکے ۔ ان کے حق میں یہی دعا کرنا ان کے ساتھ بہت بڑی نیکی اور خیر خواہی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عن أبي الدرداء قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "من استغفر للمؤمنين والمؤمنات كل يوم سبعا وعشرين مرة كان من الذين يستجاب لهم ويرزق بهم أهل الأرض" (رواه الطبرانى فى الكبير)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ توبہ و انابت سے بڑے سے بڑے گناہوں کی معافی: سو آدمیوں کا قاتل سچی توبہ سے بخش دیا گیا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ تم سے پہلے کسی امت میں ایک آدمی تھا جس نے اللہ کے ننانوے بندے قتل کئے تھے (ایک وقت اس کے دل میں ندامت اور اپنے انجام اور آخرت کی فکر پیدا ہوئی) تو اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس علاقہ میں سب سے بڑا عالم کون ہے (تا کہ اس سے جا کر پوچھے کہ میری بخشش کی کیا صورت ہو سکتی ہے) لوگوں نے اس کو ایک راہب (کسی بزرک درویش) کے بارے میں بتایا ۔ چنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا کہ میں (ایسا بدبخت ہوں) جن نے ننانوے خون کئے ہیں ، تو کیا ایسے آدمی کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ (اور وہ بخشا جا سکتا ہے ؟) اس راہب بزرگ نے کہا : بالکل نہیں ، تو ۹۹ آدمیوں کے اس اس قاتل نے اس بزرگ راہب کو بھی قتل کر ڈالا اور سو کی گنتی پوری کر دی (لیکن پھر اس کے دل میں وہی خلش اور فکر پیدا ہوئی) اور پھر اس نے کچھ لوگوں سے کسی بہت بڑے عالم کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے اس کو کسی بزرگ عالم کا پتہ بتا دیا ، وہ ان کے پاس بھی پہنچا اور کہا کہ : میں نے سو خون کئے ہیں تو کیا ایسے مجرم کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے (اور وہ بخشا جا سکتا ہے ؟) انہوں نے کہا : ہاں ہاں ! (ایسے کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے) اور کون ہے جو اس کے اور توبہ کے درمیان حائل ہو سکے ۔ (یعنی کسی مخلوق میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس کی توبہ کو قبول ہونے سے روک دے ۔ پھر انہوں نے کہا میں تجھے مشورہ دیتا ہوں کہ) تو فلاں بستی میں چلا جا ، وہاں اللہ کے عبادت گزار کچھ بندے رہتے ہیں تو بھی (وہیں جا پڑ اور) ان کے ساتھ عبادت میں لگ جا (اس بستی پر خدا کی رحمت برستی ہے) اور پھر وہاں سے کبھی اپنی بستی میں نہ آ ، وہ بڑی خراب بستی ہے ۔ چنانچہ وہ اس دوسری بستی کی طرف چل پڑا ۔ یہاں تک کہ جب آدھا راستہ اس نے طے کر لیا تو اچانت اس کو موت آ گئی ۔ اب اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں نزاع ہوا ۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ توبہ کر کے آیا ہے اور اس نے صدقِ دل سے اپنا رخ اللہ کی طرف کر لیا ہے (اس لئے یہ رحمت کا مستحق ہو چکا ہے) اور عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے کبھی بھی کوئی نیک عمل نہیں کیا ہے (اور یہ سو خون کر کے آیا ہے اس لئے یہ سخت عذاب کا مستحق ہے) اس وقت ایک فرشتہ (اللہ کے حکم سے) آدمی کی شکل میں آیا ، فرشتوں کے دونوں گروہوں نے اس کو حکم مان لیا ۔ اس نے فیصلہ دیا کہ دونوں بستیوں تک کے فاصلہ کی پیمائش کر لی جائے (یعنی شر و فساد اور خدا کے عذاب والی وہ بستی جس سے وہ چلا تھا اور اللہ کے عبادت گزار بندوں والی وہ قابلِ رحمت بستی جس کی طرف وہ جا رہا تھا) پھر جس بستی سے وہ نسبتا ً اس بستی سے قریب ہو اس کو اسی کا مان لیا جائے ، چنانچہ پیمائش کی گئی تو وہ نسبتاً اس بستی سے قریب پایا گیا جس کے ارادہ سے وہ چلا تھا ، تو رحمت کے فرشتوں نے اس کو اپنے حساب میں لے لیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت بے حد وسیع ہے ، اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ توبہ کرنے اور معافی مانگنے پر بڑے سے بڑا گناہ معاف فرما دیتا ہے ، اور بڑے سے بڑے پاپیوں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے ۔ اگرچہ اس میں قہر و جلال کی صفت بھی ہے ، اور یہ صفت بھی اس کی شانِ عالی کے مطابق بدرجہ کمال ہے ، لیکن وہ انہی مجرموں کے لئے ہے جو جرائم اور گناہ کرنے کے بعد بھی توبہ کر کے اس کی طرف رجوع نہ ہوں اور اس سے معافی اور مغفرت نہ مانگیں ، بلکہ اپنے مجرمانہ رویہ ہی پر قائم رہیں اور اسی حال میں دنیا سے چلے جائیں ۔ مندرجہ ذیل حدیثوں کا یہی مدعا اور یہی پیغام ہے ۔
تشریح ..... یہ حدیث دراصل صرف ایک جزئی واقعہ کا بیان نہیں ہے بلکہ اس پیرائے میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کی وسعت اور اس کے کمال کو بیان فرمایا ہے ، اور اس کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ بڑے سے بڑا گنہگار اور پاپی بھی اگر سچے دل سے اللہ کے حضور میں توبہ اور آئندہ کے لئے فرمانبرداری والی زندگی اختیار کرنے کا ارادہ کر لے تو وہ بھی بخش دیا جائے گا اور ارحم الراحمین کی رحمت بڑھ کر اس کو اپنے آغوش میں لے لے گی ، اگرچہ اس توبہ و انابت کے بعد وہ فوراً ہی اس دنیا سے اُٹھا لیا جائے اور اسے اس کو اپنے آغوش میں لے لے گی ، اگرچہ اس توبہ و انابت کے بعد وہ فوراً ہی اس دنیا سے اٹھا لیا جائے اور اسے کوئی نیک عمل کرنے کا موقع بھی نہ ملے اور اس کا اعمال نامہ اعمالِ صالحہ سے بالکل خالی ہو ۔
اس حدیث کے مضمون پر ایک علمی اور اصولی اشکال بھی کیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ “ناحق قتل” ان گناہوں میں سے ہے جن کا تعلق صرف اللہ ہی سے نہیں بلکہ حقوق العباد سے بھی ہے جس مجرم اور قاتل نے کسی بندے کو ناحق قتل کیا ، اس نے اللہ کی نافرمانی کے علاوہ اس مقتول بندے پر اور اس کے بیوی بچوں پر بھی ظلم کیا اور مسلمہ اصول یہ ہے کہ اس طرح کے مظالم صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے ، بلکہ ان کے لئے مظلوم بندوں سے معاملہ صاف کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ شارحین نے اس کا یہ جواب دیا ہے اور صحیح جواب دیا ہے کہ بےشک اصول اور قانون یہی ہے ، لیکن مظلوموں کے حق کی ادائیگی اور ان سے معاملہ صاف کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں ان پر ظلم کرنے والے اور پھر اس ظلم سے سچی اور گہری توبہ کرنے والے بندوں کی طرف سے ان کے مظلوموں کو اپنے خزانہ رحمت سے دے کر راضی کر دے ۔ اس حدیث میں سو خون کرنے والے جس تائب بندے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ یہی کرے گا ، اور اس کی طرف سے اس کے مقتولوں اور سب مظلوموں کو کو اپنے خزانہ رحمت سے اتنا دے دے گا کہ وہ راضی ہو جائیں گے ۔ اور یہ سو خون کرنے والا تائب بندہ اللہ کی رحمت سے سیدھا جنت میں چلا جائے گا ۔
تشریح
قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت بے حد وسیع ہے ، اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ توبہ کرنے اور معافی مانگنے پر بڑے سے بڑا گناہ معاف فرما دیتا ہے ، اور بڑے سے بڑے پاپیوں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے ۔ اگرچہ اس میں قہر و جلال کی صفت بھی ہے ، اور یہ صفت بھی اس کی شانِ عالی کے مطابق بدرجہ کمال ہے ، لیکن وہ انہی مجرموں کے لئے ہے جو جرائم اور گناہ کرنے کے بعد بھی توبہ کر کے اس کی طرف رجوع نہ ہوں اور اس سے معافی اور مغفرت نہ مانگیں ، بلکہ اپنے مجرمانہ رویہ ہی پر قائم رہیں اور اسی حال میں دنیا سے چلے جائیں ۔ مندرجہ ذیل حدیثوں کا یہی مدعا اور یہی پیغام ہے ۔
تشریح ..... یہ حدیث دراصل صرف ایک جزئی واقعہ کا بیان نہیں ہے بلکہ اس پیرائے میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کی وسعت اور اس کے کمال کو بیان فرمایا ہے ، اور اس کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ بڑے سے بڑا گنہگار اور پاپی بھی اگر سچے دل سے اللہ کے حضور میں توبہ اور آئندہ کے لئے فرمانبرداری والی زندگی اختیار کرنے کا ارادہ کر لے تو وہ بھی بخش دیا جائے گا اور ارحم الراحمین کی رحمت بڑھ کر اس کو اپنے آغوش میں لے لے گی ، اگرچہ اس توبہ و انابت کے بعد وہ فوراً ہی اس دنیا سے اُٹھا لیا جائے اور اسے اس کو اپنے آغوش میں لے لے گی ، اگرچہ اس توبہ و انابت کے بعد وہ فوراً ہی اس دنیا سے اٹھا لیا جائے اور اسے کوئی نیک عمل کرنے کا موقع بھی نہ ملے اور اس کا اعمال نامہ اعمالِ صالحہ سے بالکل خالی ہو ۔
اس حدیث کے مضمون پر ایک علمی اور اصولی اشکال بھی کیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ “ناحق قتل” ان گناہوں میں سے ہے جن کا تعلق صرف اللہ ہی سے نہیں بلکہ حقوق العباد سے بھی ہے جس مجرم اور قاتل نے کسی بندے کو ناحق قتل کیا ، اس نے اللہ کی نافرمانی کے علاوہ اس مقتول بندے پر اور اس کے بیوی بچوں پر بھی ظلم کیا اور مسلمہ اصول یہ ہے کہ اس طرح کے مظالم صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے ، بلکہ ان کے لئے مظلوم بندوں سے معاملہ صاف کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ شارحین نے اس کا یہ جواب دیا ہے اور صحیح جواب دیا ہے کہ بےشک اصول اور قانون یہی ہے ، لیکن مظلوموں کے حق کی ادائیگی اور ان سے معاملہ صاف کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں ان پر ظلم کرنے والے اور پھر اس ظلم سے سچی اور گہری توبہ کرنے والے بندوں کی طرف سے ان کے مظلوموں کو اپنے خزانہ رحمت سے دے کر راضی کر دے ۔ اس حدیث میں سو خون کرنے والے جس تائب بندے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ یہی کرے گا ، اور اس کی طرف سے اس کے مقتولوں اور سب مظلوموں کو کو اپنے خزانہ رحمت سے اتنا دے دے گا کہ وہ راضی ہو جائیں گے ۔ اور یہ سو خون کرنے والا تائب بندہ اللہ کی رحمت سے سیدھا جنت میں چلا جائے گا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ: لَا، فَقَتَلَهُ، فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ؟ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللهَ فَاعْبُدِ اللهَ مَعَهُمْ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ، فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ، فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللهِ، وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ: إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ، فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ، فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ: قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَيْنِ، فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ، فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ، فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ " (رواه البخارى ومسلم واللفظ له)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مشرکوں اور کافروں کے لئے بھی منشور رحمت
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مجھے اس آیت کے مقابلہ میں ساری دنیا (اور اس کی نعمتوں) کا لینا بھی پسند نہیں : يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ . (اے میرے بندو ! جنہوں نے (گناہ کر کے) اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے (اور اپنے کو تباہ کر لیا ہے) تم اللہ کی رحمت سے نااُمید مت ہو ، اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے) ایک شخص نے عرض کیا : حضرت ! جن لوگوں نے شرک کیا ہے ، کیا ان کے لیے بھی یہی ارشاد ہے ؟ آپ ﷺ نے پہلے تو کچھ سکوت کیا ، پھر تین دفعہ فرمایا : إِلَّا مَنْ أَشْرَكَ سن لو ! مشرکوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا یہی ارشاد ہے ، سن لو مشرکوں کے لئے بھی یہی ارشااد ہے ، ہاں ! مرکوں کے لیے بھی میرے مالک کا یہی ارشاد ہے ۔ (مسند احمد)
تشریح
اس حدیث میں جس آیت کا حوالہ ہے ، وہ سورہ زمر کی آیت ہے ۔ بلاشبہ اس میں ہر قسم کے گنہگاروں کے لئے بڑی بشارت ہے ۔ خود ان کا مالک و پروردگار اُن ہی کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ تم بھی میری رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ آگے اس کا تکملہ یہ ہے :
وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿٥٤﴾وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿٥٥﴾
اور رخ کر لو اپنے پروردگار کی طرف قبل اس کے کہ تم عذاب میں گرفتار ہو جاؤ اور پھر کوئی تمہاری مدد اور حمایت نہ کر سکے ، اور جو بہترین ہدایت تمہارے لئے تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اس کی پیروی اختیار کر لو اس وقت کے آنے سے پہلے جب اچانک خدا کا عذاب نازل ہو کر تم کو اپنی گرفت میں لے لے ، اور تمہیں پہلے سے پتہ بھی نہ ہو گا ۔
اس تکملہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر قسم اور ہر درجہ کے مجرموں اور گنہگاروں کے لئے اللہ کی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، کسی کے لئے بھی دروازہ بند نہیں ہے ۔ شرط یہ ہے کہ عذاب یا موت کے آنے سے پہلے توبہ کر لیں ، اور نافرمانی کی راہ چھوڑ کر ہدایت ربانی کی فرمانبرداری اختیار کر لیں ۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ “رحمتِ خداوندی” کا جو “منشور عام” سب کے لئے ہے کافر اور مشرک بھی اس کے مخاطب ہیں ۔
رسول اللہ ﷺچونکہ خود رحمۃ للعالمین تھے اس لئے آپ ﷺ کو اس “منشور رحمت” سے بےحد خوشی تھی ، اور فرماتے تھے کہ مجھے اس آیت کے نزول کی اتنی خوشی ہے کہ اگر ساری دنیامجھے دیدی جائے تو اتنی خوشی مجھے نہ ہو گی ۔
تشریح
اس حدیث میں جس آیت کا حوالہ ہے ، وہ سورہ زمر کی آیت ہے ۔ بلاشبہ اس میں ہر قسم کے گنہگاروں کے لئے بڑی بشارت ہے ۔ خود ان کا مالک و پروردگار اُن ہی کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ تم بھی میری رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ آگے اس کا تکملہ یہ ہے :
وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿٥٤﴾وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿٥٥﴾
اور رخ کر لو اپنے پروردگار کی طرف قبل اس کے کہ تم عذاب میں گرفتار ہو جاؤ اور پھر کوئی تمہاری مدد اور حمایت نہ کر سکے ، اور جو بہترین ہدایت تمہارے لئے تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اس کی پیروی اختیار کر لو اس وقت کے آنے سے پہلے جب اچانک خدا کا عذاب نازل ہو کر تم کو اپنی گرفت میں لے لے ، اور تمہیں پہلے سے پتہ بھی نہ ہو گا ۔
اس تکملہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر قسم اور ہر درجہ کے مجرموں اور گنہگاروں کے لئے اللہ کی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، کسی کے لئے بھی دروازہ بند نہیں ہے ۔ شرط یہ ہے کہ عذاب یا موت کے آنے سے پہلے توبہ کر لیں ، اور نافرمانی کی راہ چھوڑ کر ہدایت ربانی کی فرمانبرداری اختیار کر لیں ۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ “رحمتِ خداوندی” کا جو “منشور عام” سب کے لئے ہے کافر اور مشرک بھی اس کے مخاطب ہیں ۔
رسول اللہ ﷺچونکہ خود رحمۃ للعالمین تھے اس لئے آپ ﷺ کو اس “منشور رحمت” سے بےحد خوشی تھی ، اور فرماتے تھے کہ مجھے اس آیت کے نزول کی اتنی خوشی ہے کہ اگر ساری دنیامجھے دیدی جائے تو اتنی خوشی مجھے نہ ہو گی ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا أُحِبُّ أَنَّ لِيَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا بِهَذِهِ الْآيَةِ: {يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ} فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَنْ أَشْرَكَ؟ فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «إِلَّا مَنْ أَشْرَكَ» ثَلَاثَ مَرَّاتِ. (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ توبہ و استغفار کے خاص کلمات
رسول اللہ ﷺکے ایک آزاد کردہ غلام تھے) نقل کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جس بندے نے ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ و استغفار کیا :
أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيَّ القَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ
میں اس اللہ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں جو حی و قیوم ہے ، اور اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں تو وہ بندہ ضرور بخش دیا جائے گا ، اگرچہ اس نے میدانِ جنگ سے بھاگنے کا گناہ کیا ہو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
توبہ اور استغفار کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے اس سے ناظرین نے سمجھ لیا ہو گا کہ اس میں اصل اہمیت اور بنیادی حیثیت معنی اور مقصد اور دل کی کیفیت کی ہے ۔ بندہ جس زبان میں اور جن مناسب الفاظ میں توبہ و استغفار کرے ، وہ اگر سچے دل سے ہے تو اللہ کے نزدیک حقیقی توبہ و استغفار ہے اور قابلِ قبول ہے ۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے توبہ و استغفار کے بعض کلمات بھی تلقین فرمائے ہیں اور ان کی خاص فضیلت اور برکت بیان فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :
تشریح ..... جان بچانے کے لیے میدانِ جہاد سے بھاگنا بدترین کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، لیکن اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اگر اس بدترین اور سخت ترین گناہ کا مرتکب بھی ان الفاظ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں استغفار اور توبہ کرے گا تو وہ بخش دیا جائے گا ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس طرح کی بات رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی وحی و الہام کے بغیر نہیں فرما سکتے ، اس لئے سمجھنا چاہئے کہ گناہگاروں کے لئے معافی اور مغفرت کی درخواست کے یہ الفاظ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم فرمائے گئے ہیں ، اور ان الفاظ کے ساتھ درخواست کرنے والوں نے لئے بڑے سے بڑے گناہوں کی معافی اور مغفرت کا حتمی وعدہ بلکہ فیصلہ فرما دیا گیا ہے ۔ قربان اس رحمت کے ۔ لیکن یہ بات پھر بھی ملحوظ رہے کہ استغفار صرف الفاظ کا نام نہیں ہے ، اللہ کے نزدیک حقیقی استغفار وہی ہے جو دل سے ہو ۔
أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيَّ القَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ
میں اس اللہ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں جو حی و قیوم ہے ، اور اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں تو وہ بندہ ضرور بخش دیا جائے گا ، اگرچہ اس نے میدانِ جنگ سے بھاگنے کا گناہ کیا ہو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
توبہ اور استغفار کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے اس سے ناظرین نے سمجھ لیا ہو گا کہ اس میں اصل اہمیت اور بنیادی حیثیت معنی اور مقصد اور دل کی کیفیت کی ہے ۔ بندہ جس زبان میں اور جن مناسب الفاظ میں توبہ و استغفار کرے ، وہ اگر سچے دل سے ہے تو اللہ کے نزدیک حقیقی توبہ و استغفار ہے اور قابلِ قبول ہے ۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے توبہ و استغفار کے بعض کلمات بھی تلقین فرمائے ہیں اور ان کی خاص فضیلت اور برکت بیان فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :
تشریح ..... جان بچانے کے لیے میدانِ جہاد سے بھاگنا بدترین کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، لیکن اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اگر اس بدترین اور سخت ترین گناہ کا مرتکب بھی ان الفاظ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں استغفار اور توبہ کرے گا تو وہ بخش دیا جائے گا ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس طرح کی بات رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی وحی و الہام کے بغیر نہیں فرما سکتے ، اس لئے سمجھنا چاہئے کہ گناہگاروں کے لئے معافی اور مغفرت کی درخواست کے یہ الفاظ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم فرمائے گئے ہیں ، اور ان الفاظ کے ساتھ درخواست کرنے والوں نے لئے بڑے سے بڑے گناہوں کی معافی اور مغفرت کا حتمی وعدہ بلکہ فیصلہ فرما دیا گیا ہے ۔ قربان اس رحمت کے ۔ لیکن یہ بات پھر بھی ملحوظ رہے کہ استغفار صرف الفاظ کا نام نہیں ہے ، اللہ کے نزدیک حقیقی استغفار وہی ہے جو دل سے ہو ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ بِلاَلَ بْنَ يَسَارِ بْنِ زَيْدٍ، مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيَّ القَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، غُفِرَ لَهُ وَإِنْ كَانَ فَرَّ مِنْ الزَّحْفِ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سید الاستغفار
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :“سید الاستغفار” (یعنی سب سے اعلیٰ استغفار) یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرے :
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
اے اللہ ! تو ہی میرا رب (یعنی مالک مولا) ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا فرمایا اور وجود بخشا ۔ میں تیرا بندہ ہوں اور جہاں تک مجھ عاجز و ناتواں سے ہو سکے گا تیرے ساتھ کئے ہوئے (ایمانی) عہد و میثاق اور (اطاعت و فرمانبرداری کے) وعدے پر قائم رہوں گا ۔ تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے عمل و کردار کے شر سے ، میں اقرار کرتا ہوں کہ تو نے مجھے نعمتوں سے نوازا ، اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے تیری نافرمانیاں کیں اور گناہ کئے ۔ اے میرے مالک و مولا ! تو مجھے معاف فرما دے اور میرے گناہ بخش دے ، تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس بندے نے اخلاص اور دل کے یقین کے ساتھ دن کے کسی حصے میں اللہ کے حضور میں یہ عرض کیا (یعنی ان کلمات کے ساتھ استغفار کیا) اور اسی دن رات شروع ہونے سے پہلے اس کو موت آ گئی تو وہ بلا شبہ جنت میں جائے گا اور اسی طرح اگر کسی نے رات کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہی عرض کیا اور صبح ہونے سے پہلے اس رات میں وہ چل بسا تو بلاشبہ وہ جنت میں جائے گا ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
مندرجہ ذیل حدیث سے استغفار کے ایک کلمہ کو رسول اللہ ﷺ نے “سید الاستغفار” بتایا ہے ، اور اس کی غیر معمولی فضیلت بیان فرمائی ہے ، اور بلاشبہ اپنے مضمون و مفہوم کے لحاظ سے بھی وہ ایسا ہی کلمہ ہے ۔
تشریح ..... اس استغفار کی اس غیر معمولی فضیلت کا راز بظاہر یہی ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ میں عبدیت کی روح بھری ہوئی ہے ۔ سب سے پہلے عرض کیا گیا ہے :
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ
اے اللہ ! تو ہی میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے وجود بخشا اور میں بس تیرا بندہ ہوں ۔
اس کے بعد عرض کیا گیا ہے کہ :
وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ
یعنی میں نے ایمان لا کے تیری عبادت و اطاعت کا جو عہد میثاق اور وعدہکیا ہے جہاں تک مجھ سے بن پڑے گا اس پر قائم رہنے کی کوشش کروں گا ۔
یہ بندے کی طرف سے اپنی کمزوری کا اعتراف کے ساتھ ایمانی عہد و میثاق کی تجدید ہے ۔ اس کے آگے عرض کیا گیا ہے:
أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ
مجھ سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں اور آئندہ ہوں ، اس کے برے نتیجے سے اے میرے مالک و رب میں تیری پناہ کا طالب ہوں ۔
اس میں اعترافِ قصور کے ساتھ اللہ کی پناہ بھی چاہی گئی ہے ۔ اس کے بعد عرض کیا گیا ہے:
أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي
میں تیرے انعامات اور احسانات کا اور اپنی گناگاریوں اور خطاکاریوں کا اعتراف کرتا ہوں ۔
آخر میں عرض کیا گیا ہے:
فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
میرے مالک و مولا ! تو اپنے رحم و کرم سے میرے جرائم ، میرے گناہ بخش دے ، جرموں اور گناہوں کو بخشنے والا بس تو ہی ہے ۔
حق یہ ہے کہ جس صاحبِ ایمان بندے کو وہ معرفت و بصیرت نصیب ہو جس کے ذریعے وہ اپنی اور اپنے اعمال کی حقیقت کو سمجھتا ہو ، اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت اور اس کے حقوق کو بھی کچھ جانتا ہو تو وہ خود کو صرف قصوروار اور گناہگار اور خیر اور بھلائی کے معاملہ میں بالکل مفلس ار تہی مایہ محسوس کرے گا اور پھر اس کے دِل کی آواز اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کی التجا یہی ہو گی جو رسول اللہ ﷺ کے تعلیم فرمائے ہوئے اس استغفار میں محسوس ہوتی ہے ۔ اس کو “سید الاستغفار” اسی خصوصیت کی وجہ سے کہا گیا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث پہنچ جانے کے بعد آپ ﷺ پر ایمان رکھنے والے ہر اُمتی کو چاہئے کہ وہ اس کا اہتمام کرے کہ ہر دن اور رات میں کم از کم ایک دفعہ ضرور وہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ استغفار کر لیا کرے ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ہمارے استاذ حضرت مولانا سراج احمد صاحب رشیدیؒ پر ، اب سے ۴۵ سال پہلے دارالعلوم دیوبند میں ان ہی سے مشکوٰۃ شریف پڑھی تھی ۔ جب سبق میں یہ حدیث آئی تو حضرت مولاناؒ نے پوری جماعت کو حکم دیا کہ یہ “سید الاستغفار” سب یاد کر لیں کل میں سب سے سنوں گا ۔ چنانچہ اگلے دن قریب قریب سب طلباء سے سنا اور وصیت فرمائی کہ دن رات میں کم از کم ایک دفعہ اس کو ضرور پڑھ لیا کرو ۔
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
اے اللہ ! تو ہی میرا رب (یعنی مالک مولا) ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا فرمایا اور وجود بخشا ۔ میں تیرا بندہ ہوں اور جہاں تک مجھ عاجز و ناتواں سے ہو سکے گا تیرے ساتھ کئے ہوئے (ایمانی) عہد و میثاق اور (اطاعت و فرمانبرداری کے) وعدے پر قائم رہوں گا ۔ تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے عمل و کردار کے شر سے ، میں اقرار کرتا ہوں کہ تو نے مجھے نعمتوں سے نوازا ، اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے تیری نافرمانیاں کیں اور گناہ کئے ۔ اے میرے مالک و مولا ! تو مجھے معاف فرما دے اور میرے گناہ بخش دے ، تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس بندے نے اخلاص اور دل کے یقین کے ساتھ دن کے کسی حصے میں اللہ کے حضور میں یہ عرض کیا (یعنی ان کلمات کے ساتھ استغفار کیا) اور اسی دن رات شروع ہونے سے پہلے اس کو موت آ گئی تو وہ بلا شبہ جنت میں جائے گا اور اسی طرح اگر کسی نے رات کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہی عرض کیا اور صبح ہونے سے پہلے اس رات میں وہ چل بسا تو بلاشبہ وہ جنت میں جائے گا ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
مندرجہ ذیل حدیث سے استغفار کے ایک کلمہ کو رسول اللہ ﷺ نے “سید الاستغفار” بتایا ہے ، اور اس کی غیر معمولی فضیلت بیان فرمائی ہے ، اور بلاشبہ اپنے مضمون و مفہوم کے لحاظ سے بھی وہ ایسا ہی کلمہ ہے ۔
تشریح ..... اس استغفار کی اس غیر معمولی فضیلت کا راز بظاہر یہی ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ میں عبدیت کی روح بھری ہوئی ہے ۔ سب سے پہلے عرض کیا گیا ہے :
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ
اے اللہ ! تو ہی میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے وجود بخشا اور میں بس تیرا بندہ ہوں ۔
اس کے بعد عرض کیا گیا ہے کہ :
وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ
یعنی میں نے ایمان لا کے تیری عبادت و اطاعت کا جو عہد میثاق اور وعدہکیا ہے جہاں تک مجھ سے بن پڑے گا اس پر قائم رہنے کی کوشش کروں گا ۔
یہ بندے کی طرف سے اپنی کمزوری کا اعتراف کے ساتھ ایمانی عہد و میثاق کی تجدید ہے ۔ اس کے آگے عرض کیا گیا ہے:
أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ
مجھ سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں اور آئندہ ہوں ، اس کے برے نتیجے سے اے میرے مالک و رب میں تیری پناہ کا طالب ہوں ۔
اس میں اعترافِ قصور کے ساتھ اللہ کی پناہ بھی چاہی گئی ہے ۔ اس کے بعد عرض کیا گیا ہے:
أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي
میں تیرے انعامات اور احسانات کا اور اپنی گناگاریوں اور خطاکاریوں کا اعتراف کرتا ہوں ۔
آخر میں عرض کیا گیا ہے:
فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
میرے مالک و مولا ! تو اپنے رحم و کرم سے میرے جرائم ، میرے گناہ بخش دے ، جرموں اور گناہوں کو بخشنے والا بس تو ہی ہے ۔
حق یہ ہے کہ جس صاحبِ ایمان بندے کو وہ معرفت و بصیرت نصیب ہو جس کے ذریعے وہ اپنی اور اپنے اعمال کی حقیقت کو سمجھتا ہو ، اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت اور اس کے حقوق کو بھی کچھ جانتا ہو تو وہ خود کو صرف قصوروار اور گناہگار اور خیر اور بھلائی کے معاملہ میں بالکل مفلس ار تہی مایہ محسوس کرے گا اور پھر اس کے دِل کی آواز اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کی التجا یہی ہو گی جو رسول اللہ ﷺ کے تعلیم فرمائے ہوئے اس استغفار میں محسوس ہوتی ہے ۔ اس کو “سید الاستغفار” اسی خصوصیت کی وجہ سے کہا گیا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث پہنچ جانے کے بعد آپ ﷺ پر ایمان رکھنے والے ہر اُمتی کو چاہئے کہ وہ اس کا اہتمام کرے کہ ہر دن اور رات میں کم از کم ایک دفعہ ضرور وہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ استغفار کر لیا کرے ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ہمارے استاذ حضرت مولانا سراج احمد صاحب رشیدیؒ پر ، اب سے ۴۵ سال پہلے دارالعلوم دیوبند میں ان ہی سے مشکوٰۃ شریف پڑھی تھی ۔ جب سبق میں یہ حدیث آئی تو حضرت مولاناؒ نے پوری جماعت کو حکم دیا کہ یہ “سید الاستغفار” سب یاد کر لیں کل میں سب سے سنوں گا ۔ چنانچہ اگلے دن قریب قریب سب طلباء سے سنا اور وصیت فرمائی کہ دن رات میں کم از کم ایک دفعہ اس کو ضرور پڑھ لیا کرو ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَيِّدُ الِاسْتِغْفَارِ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ " قَالَ: «وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا، فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ» (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سید الاستغفار
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بارگاہِ خداوندی میں اس طرح عرض کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي” تا “وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي” (اے اللہ ! میری خطا ، میرے قصور معاف کر دے ، اور (علم و معرفت کے تقاضے کے خلاف) جو نادانی کا کام میں نے کیا ہو اس کو معاف فرما دے اور اپنے جس معاملہ میں بھی میں نے تیرے حکم اور تیری رضا کی حد سے تجاوز کیا ہو اس کو بخش دے ۔ اے میرے اللہ ! میرے وہ گناہ بھی معاف فرما دے جو ہنسی مذاق میں مجھ سے سرزد ہو گئے ہوں اور وہ بھی معاف کر دے جو میں نے سوچ سمجھ کے اور سنجیدگی سے کئے ہوں ۔ میرے مالک ! میری وہ خطائیں بھی معاف کر دے جو بلا ارادہ مجھ سے سرزد ہو گئی ہوں ، اور وہ بھی معاف فرما دے جو میں نے جان بوجھ کے ارادہ سے کی ہوں ۔ اور (اے میرے مالک ! تو جانتا ہے کہ) یہ سب طرح کی خطائیں میں نے کی ہیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اللہ اکبر ! سید المرسلین محبوبِ رب العٰلمین ْ جو یقیناً معصوم تھے ، اُن کے احساسات اپنے بارے میں یہ تھے ، اور وہ اپنے کو سر تا سر خطاکار اور قصوروار سمجھتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں اس طرح استغفار کرتے تھے ۔ حق یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی جتنی معرفت ہو گفی وہ اتنا ہی زیادہ اپنے کو ادائے حق عبدیت کے بارے میں قصوروار سمجھے گا ۔ “قریباں را بیش بود حیرانی” ۔
رسول اللہ ﷺکے اس استغفار کے ایک ایک لفظ عبدیت کی روح بھری ہوئی ہے ، اور ہم امتیوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے ۔
تشریح
اللہ اکبر ! سید المرسلین محبوبِ رب العٰلمین ْ جو یقیناً معصوم تھے ، اُن کے احساسات اپنے بارے میں یہ تھے ، اور وہ اپنے کو سر تا سر خطاکار اور قصوروار سمجھتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں اس طرح استغفار کرتے تھے ۔ حق یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی جتنی معرفت ہو گفی وہ اتنا ہی زیادہ اپنے کو ادائے حق عبدیت کے بارے میں قصوروار سمجھے گا ۔ “قریباں را بیش بود حیرانی” ۔
رسول اللہ ﷺکے اس استغفار کے ایک ایک لفظ عبدیت کی روح بھری ہوئی ہے ، اور ہم امتیوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي. اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي هَزْلِي وَجِدِّي وَخَطَايَايَ وَعَمْدِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حضرت خضرؑ کا استغفار
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں سے اکثر فرمایا کرتے تھے : اے میرے ساتھیوں ! تمہارے لئے کیا چیز اس سے مانع ہو سکتی ہے کہ چند آسان کلموں کے ذریعے اپنے گناہوں کی صفائی کر لیا کرو ! عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! وہ کون سے کلمے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کہا کرو جو میرے بھائی خضر کہا کرتے تھے ۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! وہ کیا کہا کرتے تھے ؟ فرمایا : وہ کہا کرتے تھے “اللهم إني أستغفرك لما تبت إليك منه، ثم عدت فيه تا اللهم لا تخزني فإنك بي عالم، ولا تعذبني فإنك علي قادر” (اے اللہ ! میں تجھ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں اُن گناہوں کی جن سے میں نے تیرے حضور میں توبہ کی ہو (اور شامتِ نفس سے) پھر پلٹ کر وہی گناہ دوبارہ کئے ہوں ، اور میں تجھ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں اس عہد کے بارے میں جو میں نے اپنی ذات کی طرف سے تجھ سے کیا ہو اور پھر میں نے اس کو وفا نہ کیا ہو ، (بلکہ عہد شکنی کی ہو) اور میں تجھ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں اُن نعمتوں کے بارے میں جن سے طاقت و قوت حاصل کر کے میں نے تیری نافرمانیاں کی ہوں اور تجھ سے معافی اور بخشش کا سوال کرتا ہوں ہر اس نیکی کے بارے میں جو میں نے تیری رضا جوئی کی نیت سے کرنی چاہی ہو پھر اس میں تیرے ماسوا دوسرے اغراض کی آمیزش ہو گئی ہو ۔ اے میرے اللہ ! مجھے (دوسروں کے سامنے) رسوا نہ کرنا ۔ بےشک تو مجھے خوب جانتا ہے ، تجھ سے میرا کوئی راز ڈھکا چھپا نہیں ہے اور (میرے گناہوں پر) مجھے عذاب نہ دینا ، تجھے مجھ پر ہر طرح قدرت حاصل ہے ۔ (اور میں بالکل عاجز اور تیرے قبضہ و اختیار میں ہوں) ۔ (مسند احمد دیلمی)
تشریح
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا بندہ پورے صدق و خلوص کے ساتھ کسی گناہ سے توبہ کرتا ہے لیکن پھر اس سے وہی گناہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد و میثاق کرتا ہے اور پھر کسی وقت اس کے خلاف کر بیٹھتا ہے ۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق اور راحت و آرام وغیرہ کی جو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ان کے استعمال سے وہ جو قوت و طاقت یا دولت حاصل کرتا ہے اس کو وہ بجائے طاعت کے معصیت کی راہ میں استعمال کرتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نیک عمل خالص اللہ کے لئے اور اس کی رضا جوئی کے جذبہ کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے لیکن بعد میں دوسرے غلط جذبات اور ناپسندیدہ اغراض کی اس میں آمیزش ہو جاتی ہے ۔ یہ سب روزمرہ کے تجربے اور روزمرہ کی واردات ہیں اور اچھے اچھوں کو پیش آتی ہیں ۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آخرت کی فکر رکھنے والے بندوں کے دل و زبان کی استدعا کیا ہونی چاہئے ؟ مندرجہ بالا استغفار کے کلمات میں اسی کی پوری رہنمائی اور تلقین فرمائی گئی ہے اور یہ کلمات اپنے مضمون کی گہرائی اور جامعیت کے لحاظ سے یقینا معجزانہ ہیں ، اسی لئے اس حدیث کو یہاں درج کیا گیا ہے ، اگرچہ “کنز الاعمال ” میں اس کی تخریج صرف دیلمی سے کی گئی ہے جو محدثین کے نزدیک سند کے لحاظ سے ضعیف ہونے کی علامت ہے ۔ “کلمات استغفار” کے زیرِ عنوان یہاں صرف ان چار ہی حدیثوں پر اکتفا کیا گیا ہے ، نماز کے متعلق دُعاؤں میں ، اور اسی طرح مخصوص حالات و اوقات کی دعاؤں میں ، اور علیٰ ہذا جامع اور ہمہ گیر دعاؤں میں ان کے علاوہ استغفار کے بیسیوں بلکہ پچاسوں کلمات گزر چکے ہیں ۔ اس طرح استغفار کے ان کلمات کی مجموعی تعداد بہت زیادہ ہے جو رسول اللہ ﷺ سے کتب حدیث میں ماثور و منقول ہیں اور بلاشبہ وہ سب ہی بڑے بابرکت ہیں ۔
تشریح
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا بندہ پورے صدق و خلوص کے ساتھ کسی گناہ سے توبہ کرتا ہے لیکن پھر اس سے وہی گناہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد و میثاق کرتا ہے اور پھر کسی وقت اس کے خلاف کر بیٹھتا ہے ۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق اور راحت و آرام وغیرہ کی جو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ان کے استعمال سے وہ جو قوت و طاقت یا دولت حاصل کرتا ہے اس کو وہ بجائے طاعت کے معصیت کی راہ میں استعمال کرتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نیک عمل خالص اللہ کے لئے اور اس کی رضا جوئی کے جذبہ کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے لیکن بعد میں دوسرے غلط جذبات اور ناپسندیدہ اغراض کی اس میں آمیزش ہو جاتی ہے ۔ یہ سب روزمرہ کے تجربے اور روزمرہ کی واردات ہیں اور اچھے اچھوں کو پیش آتی ہیں ۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آخرت کی فکر رکھنے والے بندوں کے دل و زبان کی استدعا کیا ہونی چاہئے ؟ مندرجہ بالا استغفار کے کلمات میں اسی کی پوری رہنمائی اور تلقین فرمائی گئی ہے اور یہ کلمات اپنے مضمون کی گہرائی اور جامعیت کے لحاظ سے یقینا معجزانہ ہیں ، اسی لئے اس حدیث کو یہاں درج کیا گیا ہے ، اگرچہ “کنز الاعمال ” میں اس کی تخریج صرف دیلمی سے کی گئی ہے جو محدثین کے نزدیک سند کے لحاظ سے ضعیف ہونے کی علامت ہے ۔ “کلمات استغفار” کے زیرِ عنوان یہاں صرف ان چار ہی حدیثوں پر اکتفا کیا گیا ہے ، نماز کے متعلق دُعاؤں میں ، اور اسی طرح مخصوص حالات و اوقات کی دعاؤں میں ، اور علیٰ ہذا جامع اور ہمہ گیر دعاؤں میں ان کے علاوہ استغفار کے بیسیوں بلکہ پچاسوں کلمات گزر چکے ہیں ۔ اس طرح استغفار کے ان کلمات کی مجموعی تعداد بہت زیادہ ہے جو رسول اللہ ﷺ سے کتب حدیث میں ماثور و منقول ہیں اور بلاشبہ وہ سب ہی بڑے بابرکت ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عن ابن عمر قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كثيرا ما يقول لنا: معاشر أصحابي ما يمنعكم أن تكفروا ذنوبكم بكلمات يسيرة؟ قالوا يا رسول الله: وما هي؟ قال تقولون مقالة أخي الخضر، قلنا يا رسول الله: ما كان يقول؟ قال كان يقول: اللهم إني أستغفرك لما تبت إليك منه، ثم عدت فيه، وأستغفرك لما أعطيتك من نفسي ثم لم أوف لك به، وأستغفرك للنعم التي أنعمت بها علي فتقويت بها على معاصيك وأستغفرك لكل خير أردت به وجهك فخالطني فيه ما ليس لك، اللهم لا تخزني فإنك بي عالم، ولا تعذبني فإنك علي قادر ". (رواه الديلمي)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ استغفار کی برکات
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ استغفار کو لازم پکڑ لے (یعنی اللہ تعالیٰ سے برابر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی اور مشکل سے نکلنے اور رہائی پانے کا راستہ بنا دے گا ۔اور اس کی ہر فکر اور ہر پریشانی کو دور کر کے کشادگی اور اطمینان عطا فرمائے گا ، اور اس کو ان طریقوں سے رزق دے گا جن کا اس کو خیال و گمان بھی نہ ہو گا ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
استغفار کی اصل غرض و غایت اور اس کا موضوع تو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کو معاف کرانا ہے تا کہ بندہ ان کے عذاب و وبال سے بچ جائے لیکن قرآن مجید سے بھی معلوم ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے زیادہ وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بتلایا ہے کہ استغفار بہت سے دنیوی برکات کا بھی باعث بنتا ہے اور بندے کو اس دنیا میں بھی اس کے طفیل بہت کچھ ملتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یقین و عمل نصیب فرمائے ۔
ملحوظ رہے کہ یہ وعدہ صرف زبان سے کلماتِ استغفار پڑھنے پر نہیں ہے ، بلکہ استغفار کی حقیقت پر ہے جس کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے ، اللہ تعالیٰ شانہ نصیب فرمائے ۔
تشریح
استغفار کی اصل غرض و غایت اور اس کا موضوع تو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کو معاف کرانا ہے تا کہ بندہ ان کے عذاب و وبال سے بچ جائے لیکن قرآن مجید سے بھی معلوم ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے زیادہ وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بتلایا ہے کہ استغفار بہت سے دنیوی برکات کا بھی باعث بنتا ہے اور بندے کو اس دنیا میں بھی اس کے طفیل بہت کچھ ملتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یقین و عمل نصیب فرمائے ۔
ملحوظ رہے کہ یہ وعدہ صرف زبان سے کلماتِ استغفار پڑھنے پر نہیں ہے ، بلکہ استغفار کی حقیقت پر ہے جس کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے ، اللہ تعالیٰ شانہ نصیب فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ» (رواه احمد وابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ استغفار کی برکات
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : خوشی ہو اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیاادہ استغفار پائے (یعنی آخرت میں وہ دیکھے کہ اس کے اعمال نامہ میں استغفار بکثرت درج ہے) ۔ (سنن ابن ماجہ ، سنن نسائی)
تشریح
واضح رہے کہ اعمال نامہ میں جو حقیقی استغفار کے طور پر وہی استغفار درج ہو گا جو حقیقت کے لحاظ سے عنداللہ بھی استغفار ہو گا ۔ اور جو صرف زبان سے استغفار ہو گا اگر درج ہو گا تو صرف زبانی اور لفظی استغفار کے طور پر درج ہو گا اور اگر اندراج پانے کے قابل نہ ہو گا تو درج ہی نہ ہو گا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ : “طُوبَى لِمَنْ اسْتَغْفَرَ كَثِيرًا” (خوشی اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے) بلکہ یہ فرمایا کہ : “طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا” (خوشی اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے) امت کی مشہور عارفہ حضرت رابعہ عدویہ قدس سرہا سے منقول ہے ، وہ فرماتی تھیں کہ : ہمارا استغفار خود اس قابل ہوتا ہے کہ اللہ کی حضور میں اس سے بہت زیادہ استغفار کیا جائے ۔
اس حدیث میں “طوبیٰ” کا لفظ بہت ہی جامع ہے ، دنیا اور آخرت اور جنت کی ساری ہی مسرتیں اور نعمتیں اس میں شامل ہیں ۔ بلاشبہ جس بندے کو حقیقی استغفار نصیب ہو اور خوب کثرت سے نصیب ہو وہ بڑا خوش نصیب ہے اور اس کو سب ہی کچھ نصیب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے ۔
تشریح
واضح رہے کہ اعمال نامہ میں جو حقیقی استغفار کے طور پر وہی استغفار درج ہو گا جو حقیقت کے لحاظ سے عنداللہ بھی استغفار ہو گا ۔ اور جو صرف زبان سے استغفار ہو گا اگر درج ہو گا تو صرف زبانی اور لفظی استغفار کے طور پر درج ہو گا اور اگر اندراج پانے کے قابل نہ ہو گا تو درج ہی نہ ہو گا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ : “طُوبَى لِمَنْ اسْتَغْفَرَ كَثِيرًا” (خوشی اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے) بلکہ یہ فرمایا کہ : “طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا” (خوشی اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے) امت کی مشہور عارفہ حضرت رابعہ عدویہ قدس سرہا سے منقول ہے ، وہ فرماتی تھیں کہ : ہمارا استغفار خود اس قابل ہوتا ہے کہ اللہ کی حضور میں اس سے بہت زیادہ استغفار کیا جائے ۔
اس حدیث میں “طوبیٰ” کا لفظ بہت ہی جامع ہے ، دنیا اور آخرت اور جنت کی ساری ہی مسرتیں اور نعمتیں اس میں شامل ہیں ۔ بلاشبہ جس بندے کو حقیقی استغفار نصیب ہو اور خوب کثرت سے نصیب ہو وہ بڑا خوش نصیب ہے اور اس کو سب ہی کچھ نصیب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا» (رواه ابن ماجه والنسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৩৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ استغفار پوری اُمت کے لئے امان
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے دو امانیں مجھ پر نازل فرمائیں (سورہ انفال میں ارشاد فرمایا گیا) “وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ الاية” (یعنی اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تم ان کے درمیان موجود ہو اور ان پر عذاب نازل کر دے ، اور اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں گے اور معافی و مغفرت مانگتے ہوں گے) آپ ﷺ نے فرمایا : پھر جب میں گزر جاؤں گا تو قیامت تک کے لئے تمہارے درمیان استغفار کو (بطور امان) چھوڑ جاؤں گا ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
سورہ انفال کی آیت نمبر ۳۳ “وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ” جس کا اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حوالہ دیا ہے اس کا مدعا اور مقتضا یہ ہے کہ ایک تو خود آپ ﷺ کے ذات اور آپ ﷺ کا وجود امت کے لئے عذاب سے امان ہے ، جب تک آپ ﷺ ان میں موجود ہیں ان پر عذابِ عام نازل نہیں کیا جائے گا ۔ اور دوسری چیز جو ان کے لئے وسیلہ امان ہے وہ خود ان کا استغفار ہے جب تک یہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی اور مغفرت مانگتے رہیں گے اور استغفار کرتے رہیں گے عذابِ عام سے ہلاک نہیں کئے جائیں گے ۔ گویا ایک امان خود آپ ﷺ کا وجود تھا ، جس سے امت آپ ﷺ کی وفات کے بعد محروم ہو گئی ۔ دوسری امام خود آپ ﷺ کی امت کو ہی کے ذریعہ ملا ہے ، اور وہ قیامت تک باقی رہے گا ۔ اور امت انتہائی بداعمالیوں کے باوجود عذابِ عام سے آج تک محفوظ ہے ، یہ استغفار کرنے والے بندوں کے استغفار ہی کی برکت ہے ۔
تشریح
سورہ انفال کی آیت نمبر ۳۳ “وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ” جس کا اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حوالہ دیا ہے اس کا مدعا اور مقتضا یہ ہے کہ ایک تو خود آپ ﷺ کے ذات اور آپ ﷺ کا وجود امت کے لئے عذاب سے امان ہے ، جب تک آپ ﷺ ان میں موجود ہیں ان پر عذابِ عام نازل نہیں کیا جائے گا ۔ اور دوسری چیز جو ان کے لئے وسیلہ امان ہے وہ خود ان کا استغفار ہے جب تک یہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی اور مغفرت مانگتے رہیں گے اور استغفار کرتے رہیں گے عذابِ عام سے ہلاک نہیں کئے جائیں گے ۔ گویا ایک امان خود آپ ﷺ کا وجود تھا ، جس سے امت آپ ﷺ کی وفات کے بعد محروم ہو گئی ۔ دوسری امام خود آپ ﷺ کی امت کو ہی کے ذریعہ ملا ہے ، اور وہ قیامت تک باقی رہے گا ۔ اور امت انتہائی بداعمالیوں کے باوجود عذابِ عام سے آج تک محفوظ ہے ، یہ استغفار کرنے والے بندوں کے استغفار ہی کی برکت ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ أَمَانَيْنِ لأُمَّتِي {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ} فَإِذَا مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيهِمُ الاِسْتِغْفَارَ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ توبہ و استغفار سے اللہ کتنا خوش ہوتا ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے : خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس مسافر آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو (اثنائے سفر میں) کسی ایسی غیرا ٓباد اور سنسان زمین پر اُتر گیا ہو جو سامانِ حیات سے خالی اور اسبابِ ہلاکت سے بھرپور ہو اور اس کے ساتھ بس اس کی سواری کی اونٹنی ہو اسی پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو ، پھر وہ (آرام لینے کے لئے) سر رکھ کے لیٹ جائے پھر اسے نیند آ جائے پھر اس کی آنکھ کھلے تو دیکھے کہ اس کی اونٹنی (پورے سامان سمیت) غائب ہے ، پر وہ اس کی تلاش میں سرگرداں ہو ، یہاں تک کہ گرمی اور پیاس وغیرہ کی شدت سے جب اس کی جان پر بن آئے تو وہ سوچنے لگے کہ (میرے لئے اب یہی بہتر ہے) کہ میں اسی جگہ جا کر پڑ جاؤں (جہاں سویا تھا) یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے پھر وہ (اسی ارادہ سے وہاں آ کر) اپنے بازو پر سر رکھ کے مرنے کے لئے لیٹ جائے ، پھر اس کی آنکھ کھلے تو وہ دیکھے کہ اس کی اونٹنی اس کے پاس موجود ہے اور اس پر کھانے پینے کا پورا سامان (جوں کا توں محفوظ) ہے تو جتنا خوش یہ مسافر اپنی اونٹنی کے ملنے سے ہو گا خدا کی قسم مؤمن بندے کے توبہ کرنے سے خدا اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
توبہ و استغفار سے متعلق احادیث و روایات کے سلسلہ کو مندرجہ ذیل حدیث پر ختم کیا جاتا ہے جو صحیحین میں بھی متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے ، اور جس میں رسول اللہ ﷺ نے توبہ کرنے والے گناہگاروں کو وہ بشارت سنائی ہے جو کسی دوسرے بڑے سے بڑے عمل پر بھی نہیں سنائی گئی ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت کو سمجھنے کے لئے صرف یہی ایک حدیث ہوتی تو کافی تھی ۔ حق یہ ہے کہ اس چند سطری حدیث میں معرفت کا ایک دفتر ہے ۔ اللہ تعالیٰ فہم اور یقین نصیب فرمائے ۔
تشریح ذرا تصور کیجئے اس بدو مسافر کا جو اکیلا اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر اور راستہ بھر کے لئے کھانے پینے کا سامان اسی پر لاد کر دور دراز کے سفر پر کسی ایسے راستہ سے چلا جس میں کہیں دانہ پانی ملنے کی امید نہیں ، پھر اثنائے سفر میں وہ کسی دن دوپہر میں کہیں سایہ دیکھ کر اترا اور آرام کرنے کے ارادہ سے لیٹ گیا ، اس تھکے ماندے مسافر کی آنکھ لگ گئی ، کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اونٹنی اپنے سازو سامان کے ساتھ غائب ہے ، وہ بےچارہ حیران و سراسیمہ ہو کر اس کی تلاش میں دوڑا بھاگا ، یہاں تک کہ گرمی اور پیاس کی شدت نے اس کو لبِ دم کر دیا ، اب اس نے سوچا کہ شاید میری موت اسی طرح اس جنگل بیابان میں لکھی تھی ، اور اب بھوک پیاس میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے یہاں مرنا ہی میرے لئے مقدر ہے ، اس لئے وہ اسی سایہ کی جگہ میں مرنے کے لئے آگے پڑ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا ، اسی حالت میں اس کی آنکھ پھر جھپکی ، اس کے بعد جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اونٹنی اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ اپنی جگہ کھڑی ہے ۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ بھاگی ہوئی اور گم شدہ اونٹنی کو اس طرح اپنے پاس کھڑا دیکھ کے اس بدو کو جو مایوس ہو کر مرنے کے لئے پڑ گیا تھا کس قدر خوشی ہو گی ۔ صادق مصدوق ﷺ نے اس حدیث پاک میں قسم کھا کے فرمایا کہ : خدا کی قسم ! بندہ جب جرم و گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور سچے دل سے توبہ کر کے اس کی طرف آتا ہے تو اس رحیم و کریم رب کو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی کہ اس بدو کو اپنی بھاگی ہوئی اونٹنی کے ملنے سے ہو گی ۔
قریب قریب یہی مضمون صحیحین میں حضرت ابن مسعودؓ کے علاوہ حضرت انسؓ کی روایت سے بھی مروی ہے ۔ اور صحیح مسلم میں ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت ابو ہریرہؓ ، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مضمون مروی ہے ، بلکہ حضرت انسؓ کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بدو مسافر کی فرطِ مسرت کا حال بیان کرتے ہوئے گرمایا کہ : اونٹنی کے اس طرح مل جانے سے وہ اتنا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس بے انتہا عنایت اور بندہ نوازی کے اعتراف کے طور پر وہ کہنا چاہتا تھا کہ “اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ” (خداوندا ! بس تو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ) لیکن خوشی کی سرمستی میں اس کی زبان بہک گئی اور اس نے کہا “اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِىْ وَأَنَا رَبُّكَ” (میرے اللہ ! بس تو میرا بندہ اور میں تیرا خدا ۔) آنحضرتﷺ نے اس کی اس غلطی کی معذرت کرتے ہوئے فرمایا : “أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرْحِ” (فرطِ مسرت اور بےحد خوشی کی وجہ سے اس بےچارے بدو کی زبان بہک گئی) ۔ (1)
بلا شبہ اس حدیث میں توبہ کرنے والے گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی جو خوشنودی کی بشارت سنائی گئی ہے وہ جنت اور اس کی ساری نعمتوں سے بھی فائق ہے ۔
شیخ ابن القیمؒ نے “مدارج السالکین” میں توبہ و استغفار ہی کے بیان میں اسی حدیث پر کلام کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اس خوشنودی کی وضاحت میں ایک عجیب و غریب مضمون لکھا ہے جس کو پڑھ کر ایمانی روح وجد میں آ جاتی ہے ۔ ذیل میں اس کا صرف حاصل و خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔
“اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی ساری کائنات میں انسان کو خاص شرف بخشا ہے ، دنیا کی ساری چیزیں اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور اس کو اپنی معرفت اور اطاعت و عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے ، ساری مخلوقات کو اس کے لئے مسخر کیا ، اور اپنے فرشتوں تک کو اس کا خادم اور محافظ بنایا ، پھر اس کی ہادیت و رہنمائی کے لئے کتابیں نازل فرمائیں اور نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری فرمایا ، پھر ان ہی میں سے کسی کو اپنا خلیل بنایا اور کسی کو شرفِ ہم کلامی بخشا اور بہت بڑی تعداد کو اپنی ولایت اور قربِ خصوصی کی دولت سے نوازا ۔ اور انسانوں ہی کے لئے دراصل جنت و دوزخ کو بنایا ۔ الغرض دنیا و آخرت میں عالمِ خلق و امر میں جو کچھ ہے اور ہو گا اس سب کا اصل مرکز و محور بنی نوع انسان ہی ہے ، اس نے امانت کا بوجھ اٹھایا ، اسی کے لیے شریعت کا نزول ہوا ، اور ثواب و عذاب دراصل اسی کے لئے ہے ۔ پس اس پورے کارخانہ عالم میں انسان ہی اصل مقصود ہے ، اللہ نے اس کو اپنے کاص دستِ قدرت سے بنایا ، اس میں اپنی روح ڈالی ، اپنے فرشتوں سےئ اس کو سجدہ کرایا ، اور ابلیس اس کو سجدہ ہی نہ کرنے کے جرم میں مردود بارگاہ ہوا اور اللہ نے اس کو اپنا دشمن قرار دیا ۔ یہ سب اس لئے کہ اس خالق نے انسان ہی میں اس کی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ایک زمینی اور بادی مخلوق ہونے کے باوجود اپنے خالق و پروردگار کی (جو وراء الوراء اور غیب الغیب ہے) اعلیٰ درجہ کی معرفت حاصل کرے ، ممکن حد تک اس کے اسرار اور اس کی حکمتوں سے آشنا ہو ، اس سے محبت اور اس کی اطاعت کرے ، اس کے لئے اپنے نفسانی مرغوبات اور اپنی ہر چیز کو قربان کرے ، اور اس دنیا میں اس کی خلافت کی ذمہ داریوں کو ادا کرے ، اور پھر اس کی خاص الخاص عنایتوں اور بےحساب بخششوں کا مستحق ہو کر اس کی رحمت و رافت ، اس کے پیار و محبت اور اس کے بےانتہا لطف و کرم کا مورد بنے ۔ اور چونکہ وہ ربِ کریم اپنی ذات سے رحیم ہے اور لطف و کرم اس کی ذاتی صفت ہے (جس طرح بلا تشبیہ مامتاں کی ذاتی صفت ہے) اس لئے اپنے وفادار اور نیک کردار بندوں کو انعامات و احسانات سے نوازنا اور اپنے عطیات سے ان کی جھولیوں کو بھر دینا اس کے لئے بلاتشبیہ اسی طرح بےانتہا خوشی کا باعث ہے جس طرح اپنے بچے کو دودھ پلانا اور نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنانا مامتا والی ماں کے لئے انتہائی خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔ اب اگر بندے نے بدبختی سے اپنے اس خالق و پروردگار کی وفاداری اور فرمانبرداری کا راستہ چھوڑ کے بغاوت و نافرمانی کا طریقہ اختیار کر لیا اور اس کے دشمن اور باغی شیطان کے لشکر اور اس کے متبعین میں شامل ہو گیا اور رب کریم کی ذاتی صفت رحمت و رافت اور لطف و کرم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بجائے وہ اس کے قہر و غضب کو بھڑکانے لگا تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ میں (بلاتشبیہ) اس غصہ اور ناراضی کی سی کیفیت پیدا ہو گی جو نالائق اور ناخلف بیٹے کی نافرمانی اور بدکرداری دیکھ کر مامتا والی ماں کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ پھر اگر اس بندے کو کبھی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ محسوس کرے کہ میں نے اپنے مالک و پروردگار کو ناراض کر کے خود کو اور اپنے مستقبل کو برباد کر لیا اور اس کے دامنِ رحم و کرم کے سوا میرے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے ، پھر وہ اپنے کئے پر نادم و پشیمان ہوا اور مغفرت و رحمت کا سائل بن کر اس کی بارگاہِ کرم کی طرف رجوع کرے ، سچے دل سے توبہ کرے ، روئے اور گڑگڑائے اور معافی مانگے اور آئندہ کے لئے وفاداری اور فرمانبرداری کا عہد و ارادہ کر لے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے اس کریم رب کو جس کی ذاتی صفت رحمت و رأفت اور جس کا پیار ماں کے پیار سے بھی ہزاروں گنا زیادہ ہے ، اور جو بندوں پر نعمتوں کی بارش برسا کے اتنا خوش ہوتا ہے جتنا نعمتوں کو پا کر محتاج بندے خوش نہں ہوتے ، تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایسے کریم پروردگار کو اپنے اس بندے کی اس توبہ و انابت سے کتنی خوشی ہو گی ۔”
شیخ ابن القیمؒ نے اس سے بہت زیادہ وضاحت اور بسط کے ساتھ یہ مضمون لکھنے کے بعد آخر میں کسی عارف کا ایک واقعہ لکھا ہے جو شیطان یا نفسِ امارہ کے اغواء سے غلط راستے پر پڑ گئے تھے اور سرکشی و نافرمانی کے جراثیم ان کی روح میں پیدا ہونے لگے تھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ :
“وہ عارف ایک گلی سے گزر رہے تھے ، انہوں نے دیکھا کہ ایک گھر کا دروازہ کھلا اور ایک بچہ روتا چلاتا ہوا اس میں سے نکلا ، اس کی ماں اس کو گھر سے دھکے دے دے کر نکال رہی تھی ، جب وہ دروازے سے باہر ہو گیا تو ماں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا ، بچہ اسی طرح روتا چلاتا بکتا بڑبڑاتا کچھ دور تک گیا ، پھر ایک جگہ پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر کے سوا کہاں جا سکتا ہوں اور کون مجھے اپنے پاس رکھ سکتا ہے ، یہ سوچ کر ٹوٹے دل کے ساتھ وہ اپنے گھر کی طرف لوٹ پڑا ۔ دروازہ پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ دروازہ اندر سے بند ہے تو وہ بےچارہ وہیں چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑ گیا اور اسی حالت میں سو گیا ۔ ماں آئی اس نے دروازہ کھولا اور اپنے بچے کو اس طرح چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑا دیکھ کے اس کا دل بھر آیا اور مامتا کا جذبہ اُبھر آیا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، بچے کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور اس کو پیار کرنے لگی ، اور کہہ رہی تھی : بیٹے تو نے دیکھا تیرے لئے میرے سوا کون ہے ، تو نے نالائقی ، نادانی اور نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے اور میرا دل دکھا کے مجھے وہ غصہ دلایا جو تیرے لئے میری فطرت نہیں ہے ، میری فطرت اور مامتا کا تقاضا تو یہی ہے کہ میں تجھ پر پیار کروں اور تجھے راحت و آرام پہنچانے کی کوشش کروں ، تیرے لئے ہر خیر اور بھلائی چاہوں میرے پاس جو کچھ ہے تیرے ہی لئے ہے ۔
ان عارف نے یہ سارا ماجرا دیکھا اور اس میں اُن کے لئے جو سبق تھا وہ لیا ۔ ”
اس قصہ پر غور کرتے وقت رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سامنے رکھئے : “اَللهُ اَرْحَمُ لِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا” (خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی ذات میں اپنے بندوں کے لئے اس سے زیادہ پیار اور رحم ہے جتنا کہ اس ماں میں اپنے بچے کے لئے ہے) ۔
کیسے بدبخت اور محروم ہیں وہ بندے جنہوں نے نافرمانی کی راہ اپنا کے ایسے رحیم و کریم پروردگار کی رحمت سے اپنے کو محروم کر لیا ہے اور اس کے قہر و غضب کو بھڑکا رہے ہیں ، حالانکہ توبہ کا دروازہ اُن کے لئے کھلا ہوا ہے اور وہ اس کی طرف قدم بڑھا کے اللہ تعالیٰ کا وہ پیار حاصل کر سکتے ہیں جس کے سامنے ماں کا پیار کچھ بھی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم اور یقین نصیب فرمائے ۔
يَا غَفَّارُ اغْفِرْ لِي، يَا تَوَّابُ تُبْ عَلَيَّ، يَا رَحْمَانُ ارْحَمْنِي، يَا رَءُوفُ ارْأُفْ بِي، يَا عَفُوُّ اعْفُ عَنِّي، يَا رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكَرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ، وَطَوِّقْنِي حُسْنَ عِبَادَتِكَ.
تشریح
توبہ و استغفار سے متعلق احادیث و روایات کے سلسلہ کو مندرجہ ذیل حدیث پر ختم کیا جاتا ہے جو صحیحین میں بھی متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے ، اور جس میں رسول اللہ ﷺ نے توبہ کرنے والے گناہگاروں کو وہ بشارت سنائی ہے جو کسی دوسرے بڑے سے بڑے عمل پر بھی نہیں سنائی گئی ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت کو سمجھنے کے لئے صرف یہی ایک حدیث ہوتی تو کافی تھی ۔ حق یہ ہے کہ اس چند سطری حدیث میں معرفت کا ایک دفتر ہے ۔ اللہ تعالیٰ فہم اور یقین نصیب فرمائے ۔
تشریح ذرا تصور کیجئے اس بدو مسافر کا جو اکیلا اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر اور راستہ بھر کے لئے کھانے پینے کا سامان اسی پر لاد کر دور دراز کے سفر پر کسی ایسے راستہ سے چلا جس میں کہیں دانہ پانی ملنے کی امید نہیں ، پھر اثنائے سفر میں وہ کسی دن دوپہر میں کہیں سایہ دیکھ کر اترا اور آرام کرنے کے ارادہ سے لیٹ گیا ، اس تھکے ماندے مسافر کی آنکھ لگ گئی ، کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اونٹنی اپنے سازو سامان کے ساتھ غائب ہے ، وہ بےچارہ حیران و سراسیمہ ہو کر اس کی تلاش میں دوڑا بھاگا ، یہاں تک کہ گرمی اور پیاس کی شدت نے اس کو لبِ دم کر دیا ، اب اس نے سوچا کہ شاید میری موت اسی طرح اس جنگل بیابان میں لکھی تھی ، اور اب بھوک پیاس میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے یہاں مرنا ہی میرے لئے مقدر ہے ، اس لئے وہ اسی سایہ کی جگہ میں مرنے کے لئے آگے پڑ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا ، اسی حالت میں اس کی آنکھ پھر جھپکی ، اس کے بعد جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اونٹنی اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ اپنی جگہ کھڑی ہے ۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ بھاگی ہوئی اور گم شدہ اونٹنی کو اس طرح اپنے پاس کھڑا دیکھ کے اس بدو کو جو مایوس ہو کر مرنے کے لئے پڑ گیا تھا کس قدر خوشی ہو گی ۔ صادق مصدوق ﷺ نے اس حدیث پاک میں قسم کھا کے فرمایا کہ : خدا کی قسم ! بندہ جب جرم و گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور سچے دل سے توبہ کر کے اس کی طرف آتا ہے تو اس رحیم و کریم رب کو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی کہ اس بدو کو اپنی بھاگی ہوئی اونٹنی کے ملنے سے ہو گی ۔
قریب قریب یہی مضمون صحیحین میں حضرت ابن مسعودؓ کے علاوہ حضرت انسؓ کی روایت سے بھی مروی ہے ۔ اور صحیح مسلم میں ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت ابو ہریرہؓ ، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مضمون مروی ہے ، بلکہ حضرت انسؓ کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بدو مسافر کی فرطِ مسرت کا حال بیان کرتے ہوئے گرمایا کہ : اونٹنی کے اس طرح مل جانے سے وہ اتنا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس بے انتہا عنایت اور بندہ نوازی کے اعتراف کے طور پر وہ کہنا چاہتا تھا کہ “اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ” (خداوندا ! بس تو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ) لیکن خوشی کی سرمستی میں اس کی زبان بہک گئی اور اس نے کہا “اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِىْ وَأَنَا رَبُّكَ” (میرے اللہ ! بس تو میرا بندہ اور میں تیرا خدا ۔) آنحضرتﷺ نے اس کی اس غلطی کی معذرت کرتے ہوئے فرمایا : “أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرْحِ” (فرطِ مسرت اور بےحد خوشی کی وجہ سے اس بےچارے بدو کی زبان بہک گئی) ۔ (1)
بلا شبہ اس حدیث میں توبہ کرنے والے گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی جو خوشنودی کی بشارت سنائی گئی ہے وہ جنت اور اس کی ساری نعمتوں سے بھی فائق ہے ۔
شیخ ابن القیمؒ نے “مدارج السالکین” میں توبہ و استغفار ہی کے بیان میں اسی حدیث پر کلام کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اس خوشنودی کی وضاحت میں ایک عجیب و غریب مضمون لکھا ہے جس کو پڑھ کر ایمانی روح وجد میں آ جاتی ہے ۔ ذیل میں اس کا صرف حاصل و خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔
“اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی ساری کائنات میں انسان کو خاص شرف بخشا ہے ، دنیا کی ساری چیزیں اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور اس کو اپنی معرفت اور اطاعت و عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے ، ساری مخلوقات کو اس کے لئے مسخر کیا ، اور اپنے فرشتوں تک کو اس کا خادم اور محافظ بنایا ، پھر اس کی ہادیت و رہنمائی کے لئے کتابیں نازل فرمائیں اور نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری فرمایا ، پھر ان ہی میں سے کسی کو اپنا خلیل بنایا اور کسی کو شرفِ ہم کلامی بخشا اور بہت بڑی تعداد کو اپنی ولایت اور قربِ خصوصی کی دولت سے نوازا ۔ اور انسانوں ہی کے لئے دراصل جنت و دوزخ کو بنایا ۔ الغرض دنیا و آخرت میں عالمِ خلق و امر میں جو کچھ ہے اور ہو گا اس سب کا اصل مرکز و محور بنی نوع انسان ہی ہے ، اس نے امانت کا بوجھ اٹھایا ، اسی کے لیے شریعت کا نزول ہوا ، اور ثواب و عذاب دراصل اسی کے لئے ہے ۔ پس اس پورے کارخانہ عالم میں انسان ہی اصل مقصود ہے ، اللہ نے اس کو اپنے کاص دستِ قدرت سے بنایا ، اس میں اپنی روح ڈالی ، اپنے فرشتوں سےئ اس کو سجدہ کرایا ، اور ابلیس اس کو سجدہ ہی نہ کرنے کے جرم میں مردود بارگاہ ہوا اور اللہ نے اس کو اپنا دشمن قرار دیا ۔ یہ سب اس لئے کہ اس خالق نے انسان ہی میں اس کی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ایک زمینی اور بادی مخلوق ہونے کے باوجود اپنے خالق و پروردگار کی (جو وراء الوراء اور غیب الغیب ہے) اعلیٰ درجہ کی معرفت حاصل کرے ، ممکن حد تک اس کے اسرار اور اس کی حکمتوں سے آشنا ہو ، اس سے محبت اور اس کی اطاعت کرے ، اس کے لئے اپنے نفسانی مرغوبات اور اپنی ہر چیز کو قربان کرے ، اور اس دنیا میں اس کی خلافت کی ذمہ داریوں کو ادا کرے ، اور پھر اس کی خاص الخاص عنایتوں اور بےحساب بخششوں کا مستحق ہو کر اس کی رحمت و رافت ، اس کے پیار و محبت اور اس کے بےانتہا لطف و کرم کا مورد بنے ۔ اور چونکہ وہ ربِ کریم اپنی ذات سے رحیم ہے اور لطف و کرم اس کی ذاتی صفت ہے (جس طرح بلا تشبیہ مامتاں کی ذاتی صفت ہے) اس لئے اپنے وفادار اور نیک کردار بندوں کو انعامات و احسانات سے نوازنا اور اپنے عطیات سے ان کی جھولیوں کو بھر دینا اس کے لئے بلاتشبیہ اسی طرح بےانتہا خوشی کا باعث ہے جس طرح اپنے بچے کو دودھ پلانا اور نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنانا مامتا والی ماں کے لئے انتہائی خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔ اب اگر بندے نے بدبختی سے اپنے اس خالق و پروردگار کی وفاداری اور فرمانبرداری کا راستہ چھوڑ کے بغاوت و نافرمانی کا طریقہ اختیار کر لیا اور اس کے دشمن اور باغی شیطان کے لشکر اور اس کے متبعین میں شامل ہو گیا اور رب کریم کی ذاتی صفت رحمت و رافت اور لطف و کرم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بجائے وہ اس کے قہر و غضب کو بھڑکانے لگا تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ میں (بلاتشبیہ) اس غصہ اور ناراضی کی سی کیفیت پیدا ہو گی جو نالائق اور ناخلف بیٹے کی نافرمانی اور بدکرداری دیکھ کر مامتا والی ماں کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ پھر اگر اس بندے کو کبھی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ محسوس کرے کہ میں نے اپنے مالک و پروردگار کو ناراض کر کے خود کو اور اپنے مستقبل کو برباد کر لیا اور اس کے دامنِ رحم و کرم کے سوا میرے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے ، پھر وہ اپنے کئے پر نادم و پشیمان ہوا اور مغفرت و رحمت کا سائل بن کر اس کی بارگاہِ کرم کی طرف رجوع کرے ، سچے دل سے توبہ کرے ، روئے اور گڑگڑائے اور معافی مانگے اور آئندہ کے لئے وفاداری اور فرمانبرداری کا عہد و ارادہ کر لے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے اس کریم رب کو جس کی ذاتی صفت رحمت و رأفت اور جس کا پیار ماں کے پیار سے بھی ہزاروں گنا زیادہ ہے ، اور جو بندوں پر نعمتوں کی بارش برسا کے اتنا خوش ہوتا ہے جتنا نعمتوں کو پا کر محتاج بندے خوش نہں ہوتے ، تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایسے کریم پروردگار کو اپنے اس بندے کی اس توبہ و انابت سے کتنی خوشی ہو گی ۔”
شیخ ابن القیمؒ نے اس سے بہت زیادہ وضاحت اور بسط کے ساتھ یہ مضمون لکھنے کے بعد آخر میں کسی عارف کا ایک واقعہ لکھا ہے جو شیطان یا نفسِ امارہ کے اغواء سے غلط راستے پر پڑ گئے تھے اور سرکشی و نافرمانی کے جراثیم ان کی روح میں پیدا ہونے لگے تھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ :
“وہ عارف ایک گلی سے گزر رہے تھے ، انہوں نے دیکھا کہ ایک گھر کا دروازہ کھلا اور ایک بچہ روتا چلاتا ہوا اس میں سے نکلا ، اس کی ماں اس کو گھر سے دھکے دے دے کر نکال رہی تھی ، جب وہ دروازے سے باہر ہو گیا تو ماں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا ، بچہ اسی طرح روتا چلاتا بکتا بڑبڑاتا کچھ دور تک گیا ، پھر ایک جگہ پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر کے سوا کہاں جا سکتا ہوں اور کون مجھے اپنے پاس رکھ سکتا ہے ، یہ سوچ کر ٹوٹے دل کے ساتھ وہ اپنے گھر کی طرف لوٹ پڑا ۔ دروازہ پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ دروازہ اندر سے بند ہے تو وہ بےچارہ وہیں چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑ گیا اور اسی حالت میں سو گیا ۔ ماں آئی اس نے دروازہ کھولا اور اپنے بچے کو اس طرح چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑا دیکھ کے اس کا دل بھر آیا اور مامتا کا جذبہ اُبھر آیا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، بچے کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور اس کو پیار کرنے لگی ، اور کہہ رہی تھی : بیٹے تو نے دیکھا تیرے لئے میرے سوا کون ہے ، تو نے نالائقی ، نادانی اور نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے اور میرا دل دکھا کے مجھے وہ غصہ دلایا جو تیرے لئے میری فطرت نہیں ہے ، میری فطرت اور مامتا کا تقاضا تو یہی ہے کہ میں تجھ پر پیار کروں اور تجھے راحت و آرام پہنچانے کی کوشش کروں ، تیرے لئے ہر خیر اور بھلائی چاہوں میرے پاس جو کچھ ہے تیرے ہی لئے ہے ۔
ان عارف نے یہ سارا ماجرا دیکھا اور اس میں اُن کے لئے جو سبق تھا وہ لیا ۔ ”
اس قصہ پر غور کرتے وقت رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سامنے رکھئے : “اَللهُ اَرْحَمُ لِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا” (خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی ذات میں اپنے بندوں کے لئے اس سے زیادہ پیار اور رحم ہے جتنا کہ اس ماں میں اپنے بچے کے لئے ہے) ۔
کیسے بدبخت اور محروم ہیں وہ بندے جنہوں نے نافرمانی کی راہ اپنا کے ایسے رحیم و کریم پروردگار کی رحمت سے اپنے کو محروم کر لیا ہے اور اس کے قہر و غضب کو بھڑکا رہے ہیں ، حالانکہ توبہ کا دروازہ اُن کے لئے کھلا ہوا ہے اور وہ اس کی طرف قدم بڑھا کے اللہ تعالیٰ کا وہ پیار حاصل کر سکتے ہیں جس کے سامنے ماں کا پیار کچھ بھی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم اور یقین نصیب فرمائے ۔
يَا غَفَّارُ اغْفِرْ لِي، يَا تَوَّابُ تُبْ عَلَيَّ، يَا رَحْمَانُ ارْحَمْنِي، يَا رَءُوفُ ارْأُفْ بِي، يَا عَفُوُّ اعْفُ عَنِّي، يَا رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكَرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ، وَطَوِّقْنِي حُسْنَ عِبَادَتِكَ.
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ، مِنْ رَجُلٍ فِي أَرْضٍ دَوِّيَّةٍ مَهْلِكَةٍ، مَعَهُ رَاحِلَتُهُ، عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَنَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ، فَطَلَبَهَا حَتَّى أَدْرَكَهُ الْعَطَشُ، ثُمَّ قَالَ: أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِيَ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ، فَأَنَامُ حَتَّى أَمُوتَ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى سَاعِدِهِ لِيَمُوتَ، فَاسْتَيْقَظَ وَعِنْدَهُ رَاحِلَتُهُ وَعَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَاللهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ هَذَا بِرَاحِلَتِهِ وَزَادِهِ " (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صلوٰۃ و سلام: احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ مجھ پر ایک دفعہ صلوٰۃ بھیجے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس بار صلوٰۃ بھیجتا ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
“صلوٰۃ و سلام” دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور میں کی جانے والی بہت اعلیٰ اور اشرف درجہ کی ایک دعا ہے جو رسول اللہ ﷺکی ذاتِ پاک سے اپنی ایمانی وابستگی اور وفا کیشی کے اظہار کے لئے آپ ﷺ کے حق میں کی جاتی ہے ، اور اس کا حکم ہم بندوں کو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم میں دیا گیا ہے ، اور بڑے پیارے اور مؤثر انداز میں دیا گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے : “ إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ” (الاحزاب ع : ۷)
اس آیت میں اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا کریں (اور یہی آیت کا اصل موضوع اور مدعا ہے) لیکن اس خطاب اور حکم میں خاص اہمیت اور وزن پیدا کرنے کے لئے پہلے بطورِ تمہید فرمایا گیا ہے کہ : “إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ” یعنی نبی ﷺ پر صلوٰۃ (جس کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے) خدا وند قدوس اور اس کے پاک فرشتوں کا معمول و دَستور ہے ، تم بھی اس کو اپنا معمول بنا کے اس محبوب و مبارک عمل میں شریک ہو جاؤ ۔
حکم اور خطاب کا یہ انداز قرآن پاک میں صرف صلوٰۃ و سلام کے اس حکم ہی کے لئے اختیار کیا گیا ہے ۔ دوسرے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کے لئے بھی نہیں کہا گیا کہ خدا اور اس کے فرشتے یہ کام کرتے ہیں تم بھی کرو ۔ بلاشبہ صلوٰۃ و سلام کا یہ بہت بڑا امتیاز ہے ، اور رسول اللہ ﷺ کے مقامِ محبوبیت کے خصائص میں سے ہے ۔
صلوٰۃ علی النبی کا مطلب اور ایک اشکال کا حل
سورہ احزاب کی اس آیت میں بہت سے لوگوں کو یہ اشکال محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اللہ اور فرشتوں کی نسبت سے بھی “صلوٰۃ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور مومن بندوں کی نسبت سے بھی وہی لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، حالانکہ حقیقت کے لحاظ سے ان میں سے ہر ایک کا عمل دوسرے سے یقینا مختلف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ جپر صلوٰۃ کا جو عمل ہوتا ہے (جسکو اس آیت میں فرشتوں کے عمل کے ساتھ جوڑ کر “يُصَلُّونَ ” کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے) وہ ہرگز فرشتوں اور مؤمنین کا عمل نہیں ہو سکتا ۔ اور اسی طرح ایمان والے بندوں سے جس عملِ صلوٰۃ کا مطالبہ “صَلُّوا” کے لفظ سے کیا گیا ہے وہ ہرگز خدا کا فعل نہیں ہو سکتا ۔
اس کو حل کرنے کے لئے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ نسبت بدلنے سے صلوٰۃ کے معنی بدل جاتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی طرف اُس کی نسبت ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے رحمت نازل کرنا ، اور جب ملائکہ یا مومنین کی طرف نسبت ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے اللہ سے رحمت کی دعا کرنا ۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ صلوٰۃ کے معنی میں بہت وسعت ہے ۔ تکریم و تشریف ، مدح و ثناء ، رفعِ مراتب ، محبت و عطوفت ، برکت و رحمت ، پیار دُلار ، ارادہ خیر و دعائے خیر ، ان سب کو صلوٰۃ کا مفہوم حاوی ہے ۔ اس لئے اس کی نسبت اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف ایمان والے بندوں کی طرف یکساں طور پر کی جا سکتی ہے ۔ البتہ یہ فرق ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ اس کی شانِ عالی کے مطابق ہو گی ، اور فرشتوں کی طرف سے ان کے مرتبہ کے مطابق اور مومنین کی طرف سے اُن کی حیثیت کے مطابق ۔
اس بناء پر آٰت کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی ﷺ پر خاص الخاص عنایت و نوازش اور پیار دُلار سے ، اور وہ ان کی مدح و ستائش کرتا اور عظمت و شرف کے بلند ترین مقام تک انکو پہنچانا چاہتا ہے ، اور فرشتے بھی ان کی تکریم و تعظیم اور مدح و ثناء کرتے ہین اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بیش از بیش الطاف و عنایات اور رفع درجات کی دعائیں کرتے ہیں ۔ اے ایمان والو ! تم بھی ایسا ہی کرو ، اور آپ ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ سے خاص الخاص لطف و عنایت ، محبت و عطوفت ، مراتب اور درجات کی رفعت ، پورے عالم کی سیادت و امامت اور مقامِ محمود و قبولیت شفاعت کی دعا کیا کرو اور آپ ﷺ پر سلام بھیجا کرو ۔
صلوٰۃ و سلام کی عظمت و اہمیت
اس آیت میں جیسی شاندار تمہید اور جس اہتمام کے ساتھ اہلِ ایمان کو صلوٰۃ و سلامکا حکم دیا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت و عظمت ہے اور وہ کیسا محبوب عمل ہے ۔آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ اس میں اہلِ ایمان کے لئے کس قدر خیر ، کتنی رحمت اور کیسی برکات ہیں ۔
صلوٰۃ و سلام کے بارے میں فقہاء کے مسالک
امت کے فقہاء اس پر تقریباً متفق ہیں کہ سورہ احزاب کی اس آیت کی رو سے رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ہر فردِ امت پر فرض ہے ، پھر ائمہ امت میں سے امام شافعیؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ بھی اس کے قائل ہیں کہ خاص کر ہر نماز کے قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھنا واجباتِ نماز میں سے ہے ، اگر نہ پڑھی تو ان ائمہ کے نزدیک نماز ہی نہ ہو گی ۔ لیکن امام مالک اور امام ابو حنیفہ اور اکثر دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ قعدہ میں تشہد تو بےشک واجب ہے جس کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ پر سلام بھی آ جاتا ہے لیکن اس کے بعد مستقلا درود شریف پڑھنا فرض یا واجب نہیں بلکہ ایک اہم اور مبارک سنت ہے جس کے چھوٹ جانے سے نماز میں بڑا نقص رہ جاتا ہے ۔ مگر اس اختلاف کے باوجود اس پر تقریبا اتفاق ہے ک اس آیت کے حکم کی تعمیل میں رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا ہر مسلمان پر اسی طرح فرضِ عین ہے جس طرح مثلا آپ ﷺ کی رسالت کی شہادت دینا ، جس کے لئے کسی وقت اور تعداد کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور اس کا ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پڑھ لے اور پھر اس پر قائم رہے ۔
آگے بعض وہ حدیثیں آئیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ جب جب رسول اللہ ﷺ کا ذکر آئے آپ ﷺ پر لازما درود بھیجا جائے اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں بھی آئیں گی ۔ ان احادیث کی بناء پر بہت سے فقہاء اس کے بھی قائل ہیں کہ جب کوئی آپ ﷺ کا ذکر کرے یا کسی دوسرے سے سنے تو اس وقت آپ ﷺ پر درود بھیجنا واجب ہے ۔ پھر ایک رائے یہ ہے کہ اگر ایک ہی نشست اور ایک ہی سلسلہ کلام میں بار بار آپ ﷺ کا ذکر آئے تو ہر دفعہ درود پڑھنا واجب ہو گا اور دوسری رائے یہ ہے کہ اس صورت میں ایک دفعہ درود پڑھنا واجب ہو گا اور ہر دفعہ پڑھنا مستحب ہو گا اور محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے ۔ واللہ اعلم
درود شریف کی امتیازی خاصیت
اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں پھلوں اور پھولوں کو الگ الگ رنگتیں دی ہیں اور ان میں مختلف قسم کی خوشبوئیں رکھی ہیں (ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر ست) اسی طرح مختلف عبادات اور اذکار و دعوات کے الگ الگ خواص اور برکات ہیں ۔ درود شریف کی امتیازی خاصیت یہ ہے کہ خلوصِ دل سے اس کی کثرت ، اللہ تعالیٰ کی خاص نظر رحمت ، رسول اللہ ﷺ کے روحانی قرب اور آپ ﷺ کی خصوصی شفقت و عنایت حاصل ہونے کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہر اُمتی کا درود سلام اس کے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے اور اس کے لئے فرشتون کا ایک پورا عملہ ہے ۔
ذرا غور کریں ! اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کا فلاں بندہ آپ کے لئے اور آپ کے گھر والوں اور سب متعلقین کے لئے اچھی سے اچھی دعائیں برابر کرتا رہتا ہے ، اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے اتنا نہیں مانگتا جتنا آپ کے لئے مانگتا ہے اور یہ اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے تو آپ کے دل میں اس کی کیسی قدر و محبت اور خیرخواہی کا کیسا جذبہ پیدا ہو گا ۔ پھر جب کبھی اللہ کا وہ بندہ آپ سے ملے گا اور آپ کے سامنے آئے گا تو آپ کس طرح اس سے ملیں گے ۔ اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اللہ کا جو بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ رسول اللہ ﷺ پر کثرت سے درود و سلام پڑھے اس پر آپ کی کیسی نظر عنایت ہو گی اور قیامت و آخرت میں اس کے ساتھ آپ کا معاملہ کیا ہو گا ۔ اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا جو مقام حاصل ہے اس کو پیش نظر رکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس بندے سے اللہ تعالیٰ کتنا خوش ہو گا اور اس پر اس کا اکیسا کرم ہو گا ۔
درود و سلام کا مقصد
یہاں ایک بات یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ درود و سلام اگرچہ بظاہر رسول اللہ ﷺ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے ایک دعا ہے لیکن جس طرح کسی دوسرے کے لئے دعا کرنے کا اصل مقصد اس کو نفع پہنچانا ہوتا ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا مقصد آپ ﷺ کی ذات پاک کو نفع پہنچانا نہیں ہوتا ، ہماری دعاؤں کی آپ ﷺ کو قطعاً کوئی احتیاج نہیں ۔ بادشاہوں کو فقیروں ، مسکینوں کے تحفوں اور ہدیوں کی کیا ضرورت ۔ بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ہم بندوں پر حق ہے کہ اس کی عبادت اور حمد و تسبیح کے ذریعہ اپنی عبدیت اور عبودیت کا نذرانہ اس کے حضور میں پیش کریں اور اس سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ وہ خود ہماری ضرورت ہے ، اور اس کا نفع ہم ہی کو پہنچتا ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے محاسن و کمالات ، آپ ﷺ کی پیغمبرانہ خدمات اور امت پر آپ ﷺ کے عظیم احسانات کا یہ حق ہے کہ امتی آپ ﷺ کے حضور میں عقیدت و محبت اور وفاداری و نیاز مندی کا ہدیہ اور ممنویت و سپاس گزاری کا نذرانہ پیش کریں ، اسی کے لئے درود و سلام کا یہ طریقہ مقرر کیا گیا ہے ۔ اور جیسا کہ عرض کیا گیا اس کا مقصد آپ ﷺ کو کوئی نفع پہنچانا نہیں ہوتا ۔ بلکہ اپنے ہی نفع کے لئے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا و ثوابِ آخرت اور اس کے رسولِ پاک کا روحانی قرب اور ان کی خاص نظرِ عنایت حاصل کرنے کے لئے درود و سلام پڑھا جاتا ہے اور پڑھنے والے کا اصل مقصد بس یہی ہوتا ہے ۔
پھر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ وہ ہمارا درود و سلام کا یہ ہدیہ اپنے رسولِ پاک تک فرشتوں کے ذریعہ پہنچواتا ہے اور بہت سوں کا آپ ﷺ کو قبرِ مبارک میں براہ راست بھی سنوا دیتا ہے (جیسا کہ آگے درج ہونے والی احادیث سے معلوم ہو گا) نیز ہمارے اس درود و سلام کے حساب میں بھی رسول اللہ ﷺ پر اپنے الطاف و عنایات اور تکریم و تشریف میں اضافہ فرماتا ہے ۔
درود و سلام کی خاص حکمت
انبیاء علیہم السلام اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کی خدمت میں عقیدت و محبت اور وفاداری و نیاز مندی کا ہدیہ اور ممنونیت و سپاس گزاری کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے درود و سلام کا طریقہ مقرر کرنے کی سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ اس سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے مقدس اور محترم ہستیاں انبیاء علیہم السلام ہی کی ہیں اور ان میں سب سے اکرم و افضل خاتم النبیین سیدنا حضرت محمدﷺ ہیں ۔ جب ان کے بارے میں یہ حکم دے دیا گیا کہ ان پر درود و سلام بھیجا جائے (یعنی اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے خاص الخاص عنایت و رحمت اور سلامتی کی دعا کی جائے) تو معلوم ہوا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اور نظر کرم کے محتاج ہیں ، اور ان کا حق اور مقام عالی یہی ہے کہ ان کے واسطے اللہ تعالیٰ سے اعلیٰ سے اعلیٰ دعائیں کی جائیں اس کے بعد شرک کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ کتنا بڑا کرم ہے رب کریم کا کہ اس کے اس حکم نے ہم بندوں اور اُمتیوں کو نبیوں اور رسولوں کا اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کا دعاگو بنا دیا ۔ جو بندہ ان مقدس ہستیوں کا دعاگو ہو وہ کسی مخلوق کا پرستار کیسے ہو سکتا ہے ۔
اس تمہید کے بعد ہو حدیثیں پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام کی ترغیب دی گئی ہے ، اور اس کی فضیلت اور برکات کا بیان فرمایا گیا ہے ۔
تشریح ..... اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ صلوٰۃ کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی جو تکریم و تشریف اور آپ ﷺ پر جو خاص الخاص عنایت و نوازش ہوتی ہے اس کو بھی صلوٰۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور عام ایمان والے بندوں کے ساتھ رحمت و کرم کا جو معاملہ ہوتا ہے اس کے لئے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے اس حدیث میں اس رحمت و عنایت کے لئے بھی جو رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے والے بندے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے فرمایا گیا ہے “صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا” (یعنی حضور ﷺ پر ایک دفعہ صلوٰۃبھیجنے والے بندے پر اللہ تعالیٰ دس دفعہ صلوٰۃ بھیجتا ہے) مگر ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ میں اور دوسرے کسی ایمان والے بندے پر اس کی صلوٰۃ میں وہی فرق ہو گا جو رسول اللہ ﷺ کے مقامِ عالی اور اس بندے کے درجہ میں ہو گا ۔
آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ پر ہم بندوں کے صلوٰۃبھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کی استدعا کریں ۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ اس حدیث کا مقصد و مدعا صرف ایک حقیقت اور واقعہ کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس مبارک عمل (الصَّلَوةُ عَلَى النَّبِيِّ) کی ترغیب دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ یعنی خصوصی رحمتوں اور عنایتوں کے حاصل کرنے اور خود رسول اللہ ﷺ کے قربِ روحانی کی برکات سے بہرہ ور ہونے کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ اسی طرح آگے درج ہونے والی حدیثوں کا مقصد و مدعا بھی یہی ہے ۔
تشریح
“صلوٰۃ و سلام” دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور میں کی جانے والی بہت اعلیٰ اور اشرف درجہ کی ایک دعا ہے جو رسول اللہ ﷺکی ذاتِ پاک سے اپنی ایمانی وابستگی اور وفا کیشی کے اظہار کے لئے آپ ﷺ کے حق میں کی جاتی ہے ، اور اس کا حکم ہم بندوں کو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم میں دیا گیا ہے ، اور بڑے پیارے اور مؤثر انداز میں دیا گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے : “ إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ” (الاحزاب ع : ۷)
اس آیت میں اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا کریں (اور یہی آیت کا اصل موضوع اور مدعا ہے) لیکن اس خطاب اور حکم میں خاص اہمیت اور وزن پیدا کرنے کے لئے پہلے بطورِ تمہید فرمایا گیا ہے کہ : “إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ” یعنی نبی ﷺ پر صلوٰۃ (جس کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے) خدا وند قدوس اور اس کے پاک فرشتوں کا معمول و دَستور ہے ، تم بھی اس کو اپنا معمول بنا کے اس محبوب و مبارک عمل میں شریک ہو جاؤ ۔
حکم اور خطاب کا یہ انداز قرآن پاک میں صرف صلوٰۃ و سلام کے اس حکم ہی کے لئے اختیار کیا گیا ہے ۔ دوسرے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کے لئے بھی نہیں کہا گیا کہ خدا اور اس کے فرشتے یہ کام کرتے ہیں تم بھی کرو ۔ بلاشبہ صلوٰۃ و سلام کا یہ بہت بڑا امتیاز ہے ، اور رسول اللہ ﷺ کے مقامِ محبوبیت کے خصائص میں سے ہے ۔
صلوٰۃ علی النبی کا مطلب اور ایک اشکال کا حل
سورہ احزاب کی اس آیت میں بہت سے لوگوں کو یہ اشکال محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اللہ اور فرشتوں کی نسبت سے بھی “صلوٰۃ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور مومن بندوں کی نسبت سے بھی وہی لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، حالانکہ حقیقت کے لحاظ سے ان میں سے ہر ایک کا عمل دوسرے سے یقینا مختلف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ جپر صلوٰۃ کا جو عمل ہوتا ہے (جسکو اس آیت میں فرشتوں کے عمل کے ساتھ جوڑ کر “يُصَلُّونَ ” کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے) وہ ہرگز فرشتوں اور مؤمنین کا عمل نہیں ہو سکتا ۔ اور اسی طرح ایمان والے بندوں سے جس عملِ صلوٰۃ کا مطالبہ “صَلُّوا” کے لفظ سے کیا گیا ہے وہ ہرگز خدا کا فعل نہیں ہو سکتا ۔
اس کو حل کرنے کے لئے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ نسبت بدلنے سے صلوٰۃ کے معنی بدل جاتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی طرف اُس کی نسبت ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے رحمت نازل کرنا ، اور جب ملائکہ یا مومنین کی طرف نسبت ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے اللہ سے رحمت کی دعا کرنا ۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ صلوٰۃ کے معنی میں بہت وسعت ہے ۔ تکریم و تشریف ، مدح و ثناء ، رفعِ مراتب ، محبت و عطوفت ، برکت و رحمت ، پیار دُلار ، ارادہ خیر و دعائے خیر ، ان سب کو صلوٰۃ کا مفہوم حاوی ہے ۔ اس لئے اس کی نسبت اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف ایمان والے بندوں کی طرف یکساں طور پر کی جا سکتی ہے ۔ البتہ یہ فرق ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ اس کی شانِ عالی کے مطابق ہو گی ، اور فرشتوں کی طرف سے ان کے مرتبہ کے مطابق اور مومنین کی طرف سے اُن کی حیثیت کے مطابق ۔
اس بناء پر آٰت کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی ﷺ پر خاص الخاص عنایت و نوازش اور پیار دُلار سے ، اور وہ ان کی مدح و ستائش کرتا اور عظمت و شرف کے بلند ترین مقام تک انکو پہنچانا چاہتا ہے ، اور فرشتے بھی ان کی تکریم و تعظیم اور مدح و ثناء کرتے ہین اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بیش از بیش الطاف و عنایات اور رفع درجات کی دعائیں کرتے ہیں ۔ اے ایمان والو ! تم بھی ایسا ہی کرو ، اور آپ ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ سے خاص الخاص لطف و عنایت ، محبت و عطوفت ، مراتب اور درجات کی رفعت ، پورے عالم کی سیادت و امامت اور مقامِ محمود و قبولیت شفاعت کی دعا کیا کرو اور آپ ﷺ پر سلام بھیجا کرو ۔
صلوٰۃ و سلام کی عظمت و اہمیت
اس آیت میں جیسی شاندار تمہید اور جس اہتمام کے ساتھ اہلِ ایمان کو صلوٰۃ و سلامکا حکم دیا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت و عظمت ہے اور وہ کیسا محبوب عمل ہے ۔آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ اس میں اہلِ ایمان کے لئے کس قدر خیر ، کتنی رحمت اور کیسی برکات ہیں ۔
صلوٰۃ و سلام کے بارے میں فقہاء کے مسالک
امت کے فقہاء اس پر تقریباً متفق ہیں کہ سورہ احزاب کی اس آیت کی رو سے رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ہر فردِ امت پر فرض ہے ، پھر ائمہ امت میں سے امام شافعیؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ بھی اس کے قائل ہیں کہ خاص کر ہر نماز کے قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھنا واجباتِ نماز میں سے ہے ، اگر نہ پڑھی تو ان ائمہ کے نزدیک نماز ہی نہ ہو گی ۔ لیکن امام مالک اور امام ابو حنیفہ اور اکثر دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ قعدہ میں تشہد تو بےشک واجب ہے جس کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ پر سلام بھی آ جاتا ہے لیکن اس کے بعد مستقلا درود شریف پڑھنا فرض یا واجب نہیں بلکہ ایک اہم اور مبارک سنت ہے جس کے چھوٹ جانے سے نماز میں بڑا نقص رہ جاتا ہے ۔ مگر اس اختلاف کے باوجود اس پر تقریبا اتفاق ہے ک اس آیت کے حکم کی تعمیل میں رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا ہر مسلمان پر اسی طرح فرضِ عین ہے جس طرح مثلا آپ ﷺ کی رسالت کی شہادت دینا ، جس کے لئے کسی وقت اور تعداد کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور اس کا ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پڑھ لے اور پھر اس پر قائم رہے ۔
آگے بعض وہ حدیثیں آئیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ جب جب رسول اللہ ﷺ کا ذکر آئے آپ ﷺ پر لازما درود بھیجا جائے اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں بھی آئیں گی ۔ ان احادیث کی بناء پر بہت سے فقہاء اس کے بھی قائل ہیں کہ جب کوئی آپ ﷺ کا ذکر کرے یا کسی دوسرے سے سنے تو اس وقت آپ ﷺ پر درود بھیجنا واجب ہے ۔ پھر ایک رائے یہ ہے کہ اگر ایک ہی نشست اور ایک ہی سلسلہ کلام میں بار بار آپ ﷺ کا ذکر آئے تو ہر دفعہ درود پڑھنا واجب ہو گا اور دوسری رائے یہ ہے کہ اس صورت میں ایک دفعہ درود پڑھنا واجب ہو گا اور ہر دفعہ پڑھنا مستحب ہو گا اور محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے ۔ واللہ اعلم
درود شریف کی امتیازی خاصیت
اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں پھلوں اور پھولوں کو الگ الگ رنگتیں دی ہیں اور ان میں مختلف قسم کی خوشبوئیں رکھی ہیں (ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر ست) اسی طرح مختلف عبادات اور اذکار و دعوات کے الگ الگ خواص اور برکات ہیں ۔ درود شریف کی امتیازی خاصیت یہ ہے کہ خلوصِ دل سے اس کی کثرت ، اللہ تعالیٰ کی خاص نظر رحمت ، رسول اللہ ﷺ کے روحانی قرب اور آپ ﷺ کی خصوصی شفقت و عنایت حاصل ہونے کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہر اُمتی کا درود سلام اس کے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے اور اس کے لئے فرشتون کا ایک پورا عملہ ہے ۔
ذرا غور کریں ! اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کا فلاں بندہ آپ کے لئے اور آپ کے گھر والوں اور سب متعلقین کے لئے اچھی سے اچھی دعائیں برابر کرتا رہتا ہے ، اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے اتنا نہیں مانگتا جتنا آپ کے لئے مانگتا ہے اور یہ اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے تو آپ کے دل میں اس کی کیسی قدر و محبت اور خیرخواہی کا کیسا جذبہ پیدا ہو گا ۔ پھر جب کبھی اللہ کا وہ بندہ آپ سے ملے گا اور آپ کے سامنے آئے گا تو آپ کس طرح اس سے ملیں گے ۔ اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اللہ کا جو بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ رسول اللہ ﷺ پر کثرت سے درود و سلام پڑھے اس پر آپ کی کیسی نظر عنایت ہو گی اور قیامت و آخرت میں اس کے ساتھ آپ کا معاملہ کیا ہو گا ۔ اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا جو مقام حاصل ہے اس کو پیش نظر رکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس بندے سے اللہ تعالیٰ کتنا خوش ہو گا اور اس پر اس کا اکیسا کرم ہو گا ۔
درود و سلام کا مقصد
یہاں ایک بات یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ درود و سلام اگرچہ بظاہر رسول اللہ ﷺ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے ایک دعا ہے لیکن جس طرح کسی دوسرے کے لئے دعا کرنے کا اصل مقصد اس کو نفع پہنچانا ہوتا ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا مقصد آپ ﷺ کی ذات پاک کو نفع پہنچانا نہیں ہوتا ، ہماری دعاؤں کی آپ ﷺ کو قطعاً کوئی احتیاج نہیں ۔ بادشاہوں کو فقیروں ، مسکینوں کے تحفوں اور ہدیوں کی کیا ضرورت ۔ بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ہم بندوں پر حق ہے کہ اس کی عبادت اور حمد و تسبیح کے ذریعہ اپنی عبدیت اور عبودیت کا نذرانہ اس کے حضور میں پیش کریں اور اس سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ وہ خود ہماری ضرورت ہے ، اور اس کا نفع ہم ہی کو پہنچتا ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے محاسن و کمالات ، آپ ﷺ کی پیغمبرانہ خدمات اور امت پر آپ ﷺ کے عظیم احسانات کا یہ حق ہے کہ امتی آپ ﷺ کے حضور میں عقیدت و محبت اور وفاداری و نیاز مندی کا ہدیہ اور ممنویت و سپاس گزاری کا نذرانہ پیش کریں ، اسی کے لئے درود و سلام کا یہ طریقہ مقرر کیا گیا ہے ۔ اور جیسا کہ عرض کیا گیا اس کا مقصد آپ ﷺ کو کوئی نفع پہنچانا نہیں ہوتا ۔ بلکہ اپنے ہی نفع کے لئے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا و ثوابِ آخرت اور اس کے رسولِ پاک کا روحانی قرب اور ان کی خاص نظرِ عنایت حاصل کرنے کے لئے درود و سلام پڑھا جاتا ہے اور پڑھنے والے کا اصل مقصد بس یہی ہوتا ہے ۔
پھر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ وہ ہمارا درود و سلام کا یہ ہدیہ اپنے رسولِ پاک تک فرشتوں کے ذریعہ پہنچواتا ہے اور بہت سوں کا آپ ﷺ کو قبرِ مبارک میں براہ راست بھی سنوا دیتا ہے (جیسا کہ آگے درج ہونے والی احادیث سے معلوم ہو گا) نیز ہمارے اس درود و سلام کے حساب میں بھی رسول اللہ ﷺ پر اپنے الطاف و عنایات اور تکریم و تشریف میں اضافہ فرماتا ہے ۔
درود و سلام کی خاص حکمت
انبیاء علیہم السلام اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کی خدمت میں عقیدت و محبت اور وفاداری و نیاز مندی کا ہدیہ اور ممنونیت و سپاس گزاری کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے درود و سلام کا طریقہ مقرر کرنے کی سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ اس سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے مقدس اور محترم ہستیاں انبیاء علیہم السلام ہی کی ہیں اور ان میں سب سے اکرم و افضل خاتم النبیین سیدنا حضرت محمدﷺ ہیں ۔ جب ان کے بارے میں یہ حکم دے دیا گیا کہ ان پر درود و سلام بھیجا جائے (یعنی اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے خاص الخاص عنایت و رحمت اور سلامتی کی دعا کی جائے) تو معلوم ہوا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اور نظر کرم کے محتاج ہیں ، اور ان کا حق اور مقام عالی یہی ہے کہ ان کے واسطے اللہ تعالیٰ سے اعلیٰ سے اعلیٰ دعائیں کی جائیں اس کے بعد شرک کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ کتنا بڑا کرم ہے رب کریم کا کہ اس کے اس حکم نے ہم بندوں اور اُمتیوں کو نبیوں اور رسولوں کا اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کا دعاگو بنا دیا ۔ جو بندہ ان مقدس ہستیوں کا دعاگو ہو وہ کسی مخلوق کا پرستار کیسے ہو سکتا ہے ۔
اس تمہید کے بعد ہو حدیثیں پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام کی ترغیب دی گئی ہے ، اور اس کی فضیلت اور برکات کا بیان فرمایا گیا ہے ۔
تشریح ..... اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ صلوٰۃ کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی جو تکریم و تشریف اور آپ ﷺ پر جو خاص الخاص عنایت و نوازش ہوتی ہے اس کو بھی صلوٰۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور عام ایمان والے بندوں کے ساتھ رحمت و کرم کا جو معاملہ ہوتا ہے اس کے لئے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے اس حدیث میں اس رحمت و عنایت کے لئے بھی جو رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے والے بندے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے فرمایا گیا ہے “صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا” (یعنی حضور ﷺ پر ایک دفعہ صلوٰۃبھیجنے والے بندے پر اللہ تعالیٰ دس دفعہ صلوٰۃ بھیجتا ہے) مگر ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ میں اور دوسرے کسی ایمان والے بندے پر اس کی صلوٰۃ میں وہی فرق ہو گا جو رسول اللہ ﷺ کے مقامِ عالی اور اس بندے کے درجہ میں ہو گا ۔
آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ پر ہم بندوں کے صلوٰۃبھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کی استدعا کریں ۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ اس حدیث کا مقصد و مدعا صرف ایک حقیقت اور واقعہ کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس مبارک عمل (الصَّلَوةُ عَلَى النَّبِيِّ) کی ترغیب دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ یعنی خصوصی رحمتوں اور عنایتوں کے حاصل کرنے اور خود رسول اللہ ﷺ کے قربِ روحانی کی برکات سے بہرہ ور ہونے کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔ اسی طرح آگے درج ہونے والی حدیثوں کا مقصد و مدعا بھی یہی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ مَرَّةً وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ مجھ پر ایک صلوٰۃ بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس صلواتیں بھیجتا ہے اور اس کی دس خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں ۔ (سنن نسائی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ» (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا جو اُمتی خلوصِ دل سے مجھ پر صلوٰۃ بھیجے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس صلواتیں بھیجتا ہے اور اس کے صلہ میں اس کے دس درجے بلند کرتا ہے ، اور اس کے حساب میں دس نیکیاں لکھاتا ہے ، اور اس کے دس گناہ محو فرما دیتا ہے ۔ (سنن نسائی)
تشریح
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ پر ایک دفعہ صلوٰۃ بھیجنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس صلوٰتوں کے بھیجے جانے کا ذکر تھا ۔ اس کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ والی دوسری حدیث میں دس صلوٰتوں کے علاوہ دس درجوں کی بلندی اور دس گناہوں کی معافی کا بھی ذکر فرمایا گیا ۔ اور ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ والی اس تیسری حدیث میں ان سب کے علاوہ اس بندے کے نامہ اعمال میں مزید دس نیکیوں کے لکھے جانے کی بشارت بھی سنائی گئی ۔ اس عاجز کے نزدیک یہ صرف اجمال اور تفصیل کا فرق ہے ، یعنی دوسری اور تیسری حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے ، وہ پہلی حدیث کے اجمال کی تفصیل ہے ۔ واللہ اعلم ۔ تیسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صلہ پانے کے لئے شرط ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ“اخلاص قلب” سے بھیجی جائے ۔
تشریح
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ پر ایک دفعہ صلوٰۃ بھیجنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس صلوٰتوں کے بھیجے جانے کا ذکر تھا ۔ اس کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ والی دوسری حدیث میں دس صلوٰتوں کے علاوہ دس درجوں کی بلندی اور دس گناہوں کی معافی کا بھی ذکر فرمایا گیا ۔ اور ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ والی اس تیسری حدیث میں ان سب کے علاوہ اس بندے کے نامہ اعمال میں مزید دس نیکیوں کے لکھے جانے کی بشارت بھی سنائی گئی ۔ اس عاجز کے نزدیک یہ صرف اجمال اور تفصیل کا فرق ہے ، یعنی دوسری اور تیسری حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے ، وہ پہلی حدیث کے اجمال کی تفصیل ہے ۔ واللہ اعلم ۔ تیسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صلہ پانے کے لئے شرط ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ“اخلاص قلب” سے بھیجی جائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ مِنْ أُمَّتِي صَلَاةً مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَرَفَعَهُ بِهَا عَشْرَ دَرَجَاتٍ، وَكَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ، وَمَحَا عَنْهُ عَشْرَ سيئاتٍ» (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن تشریف لائے اور آپ کے چہرہ انور پر خوشی اور بشاشت کے آثار نمایاں تھے (اس کا سبب بیان کرتے ہوئے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : آج جبرئیل امین آئے اور انہوں نے بتایا کہ تمہارا رب فرماتا ہے کہ اے محمدﷺ! کیا یہ بات تمہیں راضی اور خوش نہیں کر دے گی کہ تمہارا جو امتی تم پر صلوٰۃ بھیجے اس پر دس صلوٰتیں بھیجوں ، اور جو تم پر سلام بھیجے اس پر دس سلام بھیجوں ۔ (سنن نسائی ، مسند دارمی)
تشریح
قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے “وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ” (اے نبیﷺ تمہارا رب تم کو اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے) اس وعدہ کا پورا ظہور تو آخرت میں ہو گا ، لیکن یہ بھی اس کی ایک قسط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا اتنا اکرام فرمایا ، اور محبوبیت کبریٰ کا وہ مقامِ عالی آپ ﷺ کو عطا فرمایا کہ جو بندہ آپ ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کے احترام میں خَالِصًا لله آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجے ، اللہ تعالیٰ نے اس پر دس صلوٰتیں اور دس سلام بھیجنے کا دستور اپنے لئے مقرر فرمایا اور جبرائیل امینؑ کے ذریعہ آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دی اور اس پیارے انداز میں دی : “إِنَّ رَبَّكَّ يَقُوْلُ أَمَا يُرْضِيكَ يَا مُحَمَّدُ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) ” (تمہارا رب فرماتا ہے اے محمد (ﷺ) ! کیا تمہیں ہمارا یہ فیصلہ راضی اور خوش نہیں کر دے گا) ۔
اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے تو ان احادیث سے رسول اللہ ﷺ کے مقامِ محبوبیت کو کچھ سمجھا جا سکتا ہے ۔
تشریح
قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے “وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ” (اے نبیﷺ تمہارا رب تم کو اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے) اس وعدہ کا پورا ظہور تو آخرت میں ہو گا ، لیکن یہ بھی اس کی ایک قسط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا اتنا اکرام فرمایا ، اور محبوبیت کبریٰ کا وہ مقامِ عالی آپ ﷺ کو عطا فرمایا کہ جو بندہ آپ ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کے احترام میں خَالِصًا لله آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجے ، اللہ تعالیٰ نے اس پر دس صلوٰتیں اور دس سلام بھیجنے کا دستور اپنے لئے مقرر فرمایا اور جبرائیل امینؑ کے ذریعہ آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دی اور اس پیارے انداز میں دی : “إِنَّ رَبَّكَّ يَقُوْلُ أَمَا يُرْضِيكَ يَا مُحَمَّدُ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) ” (تمہارا رب فرماتا ہے اے محمد (ﷺ) ! کیا تمہیں ہمارا یہ فیصلہ راضی اور خوش نہیں کر دے گا) ۔
اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے تو ان احادیث سے رسول اللہ ﷺ کے مقامِ محبوبیت کو کچھ سمجھا جا سکتا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رَضِي الله عَنهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ وَالْبِشْرُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ: " إِنَّهُ جَاءَنِي جِبْرِيلُ، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَّ يَقُوْلُ أَمَا يُرْضِيكَ يَا مُحَمَّدُ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا، وَلَا يُسَلِّمَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا " (رواه النسائى والدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ آبادی سے نکل کر کھجوروں کے ایک باغ میں پہنچے اور سجدے میں گر گئے اور بہت دیر تک اسی طرح سجدے میں پڑے رہے ، یہاں تک کہ مجھے خطرہ ہوا کہ آپ ﷺ وفات تو نہیں پا گئے ۔ میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور غور سے دیکھنے لگا ۔ آپ ﷺ نے سر مبارک سجدے سے اٹھایا اور مجھ سے فرمایا کیا بات ہے اور تمہیں کیا فکر ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ (آپ کے دیر تک سجدے سے سر نہ اٹھانے کی وجہ سے) مجھے ایسا شبہ ہوا تھا اس لئے میں آپ کو دیکھ رہا تھا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اصل واقعہ یہ ہے کہ جبرائیل نے آ کر مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہیں بشارت سناتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو بند تم پر صلوٰۃ بھیجے میں اس پر صلوٰۃ بھیجوں گا ، اور جو تم پر سلام بھیجے میں اس پر سلام بھیجوں گا ۔ (مسند احمد)
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے والے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و سلام بھیجے جانے کا ذکر ہے ، لیکن دس کا عدد اس روایت میں مذکور نہیں ہے ، مگر اس سے پہلی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ والی روایت سے معلوم ہو چکا ہے کہ حضرت جبرئیلؑ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس دفعہ صلوٰۃ بھیجے جانے کی بشارت دی تھی ۔ پھر یا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بتاتے وقت دس کا عدد کا ذکر ضروری نہیں سمجھا ، یا بعد کے کسی راوی کے بیان کرنے سے رہ گیا ۔
اسی حدیث کی مسند احمد کی ایک روایت میں یہ لفظ بھی ہے کہ : “فَسَجَدْتُّ للهِ شُكْرًا” (یعنی میں نے اس بشارت کے شکر میں یہ سجدہ کیا تھا) امام بیہقی نے اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سجدہ شکر کے ثبوت میں میری نظر میں یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے ۔ واللہ اعلم ۔
297) قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی ہے ، اس میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ایک غیر معمولی قسم کے سجدے کا ذکر ہے ، اس کے آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے سجدے سے اُٹھ کر مجھے بتایا کہ :
" إِنَّ جِبْرَئِيْلَ اَتَانِىْ فَقَالَ مَنْ صَلَّى عَلَيْكَ مِنْ اُمَّتِكَ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْرًا، وَرُفِعَهُ بِهَا عَشْرَ دَرَجَاتٍ " (معجم اوسط للطبرانى وسنن سعيد بن منصور)
جبرئیلؑ میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ پیغٖام پہنچایا کہ تمہارا جو اُمتی تم پر ایک صلوٰۃ بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس صلوٰتیں بھیجے گا اور اس کے دس درجے بلند فرمائے گا ۔
ان سب حدیثوں کا مقصد و مدعا ہم امتیوں کو یہی بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و سلام کا تمغہ اور اس کی بے انتہا عنایتیں اور رحمتیں حاصل کرنے کا ایک کامیاب اور بہترین ذریعہ خلوص قلب سے رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایک دفعہ کے صلوٰۃ و سلام کے صلہ میں دس دفعہ صلوٰۃ و سلام بھیجتا ہے دس درجے بلند فرماتا ہے ، نامہ اعمال میں سے دس گناہ محو کر دئیے اور مٹا دئیے جاتے ہیں اور دس نیکیاں لکھا دی جاتی ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی بندہ رسول اللہ ﷺپر روزانہ صرف سو دفعہ درودِ پاک پڑھتا ہے تو ان احادیث کی بشارت کے مطابق (جو ایک دو نہیں بلکہ بہت سے صحابہ کرامؓ (1) سے صحاح اور سنن و مسانید کی قریبا سب ہی کتابوں میں قابلِ اعتماد سندوں کے ساتھ مروی ہیں) اس پر اللہ تعالیٰ ایک ہزار صلوٰتیں بھیجتا ہے ، یعنی رحمتیں اور نوازشیں فرماتا ہے ، اس کے مرتبہ میں ایک ہزار درجے ترقی دی جاتی ہے ، اس کے اعمال نامہ سے ایک ہزار گناہ محو کئے جاتے ہیں اور ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ اللہ اکبر ۔ کتنا ارزاں اور نفع بخش سودا ہے ۔ اور کتنے خاسر اور بےنصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس سعادت اور کمائی سے خود کو محروم کر رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یقین نصیب فرمائے اور عمل کی توفیق دے ۔
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے والے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و سلام بھیجے جانے کا ذکر ہے ، لیکن دس کا عدد اس روایت میں مذکور نہیں ہے ، مگر اس سے پہلی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ والی روایت سے معلوم ہو چکا ہے کہ حضرت جبرئیلؑ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس دفعہ صلوٰۃ بھیجے جانے کی بشارت دی تھی ۔ پھر یا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بتاتے وقت دس کا عدد کا ذکر ضروری نہیں سمجھا ، یا بعد کے کسی راوی کے بیان کرنے سے رہ گیا ۔
اسی حدیث کی مسند احمد کی ایک روایت میں یہ لفظ بھی ہے کہ : “فَسَجَدْتُّ للهِ شُكْرًا” (یعنی میں نے اس بشارت کے شکر میں یہ سجدہ کیا تھا) امام بیہقی نے اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سجدہ شکر کے ثبوت میں میری نظر میں یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے ۔ واللہ اعلم ۔
297) قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی ہے ، اس میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ایک غیر معمولی قسم کے سجدے کا ذکر ہے ، اس کے آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے سجدے سے اُٹھ کر مجھے بتایا کہ :
" إِنَّ جِبْرَئِيْلَ اَتَانِىْ فَقَالَ مَنْ صَلَّى عَلَيْكَ مِنْ اُمَّتِكَ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْرًا، وَرُفِعَهُ بِهَا عَشْرَ دَرَجَاتٍ " (معجم اوسط للطبرانى وسنن سعيد بن منصور)
جبرئیلؑ میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ پیغٖام پہنچایا کہ تمہارا جو اُمتی تم پر ایک صلوٰۃ بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس صلوٰتیں بھیجے گا اور اس کے دس درجے بلند فرمائے گا ۔
ان سب حدیثوں کا مقصد و مدعا ہم امتیوں کو یہی بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و سلام کا تمغہ اور اس کی بے انتہا عنایتیں اور رحمتیں حاصل کرنے کا ایک کامیاب اور بہترین ذریعہ خلوص قلب سے رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایک دفعہ کے صلوٰۃ و سلام کے صلہ میں دس دفعہ صلوٰۃ و سلام بھیجتا ہے دس درجے بلند فرماتا ہے ، نامہ اعمال میں سے دس گناہ محو کر دئیے اور مٹا دئیے جاتے ہیں اور دس نیکیاں لکھا دی جاتی ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی بندہ رسول اللہ ﷺپر روزانہ صرف سو دفعہ درودِ پاک پڑھتا ہے تو ان احادیث کی بشارت کے مطابق (جو ایک دو نہیں بلکہ بہت سے صحابہ کرامؓ (1) سے صحاح اور سنن و مسانید کی قریبا سب ہی کتابوں میں قابلِ اعتماد سندوں کے ساتھ مروی ہیں) اس پر اللہ تعالیٰ ایک ہزار صلوٰتیں بھیجتا ہے ، یعنی رحمتیں اور نوازشیں فرماتا ہے ، اس کے مرتبہ میں ایک ہزار درجے ترقی دی جاتی ہے ، اس کے اعمال نامہ سے ایک ہزار گناہ محو کئے جاتے ہیں اور ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ اللہ اکبر ۔ کتنا ارزاں اور نفع بخش سودا ہے ۔ اور کتنے خاسر اور بےنصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس سعادت اور کمائی سے خود کو محروم کر رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یقین نصیب فرمائے اور عمل کی توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاتَّبَعْتُهُ حَتَّى دَخَلَ نَخْلًا فَسَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ قَدْ تَوَفَّاهُ قَالَ: فَجِئْتُ أَنْظُرُ فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: «مَا لَكَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ» قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قال: فَقَالَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلامُ قَالَ لِي: أَلا أُبَشِّرُكَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ لَكَ: مَنْ صَلَّى عَلَيْكَ صَلَّيْتُ عَلَيْهِ، وَمَنْ سَلَّمَ عَلَيْكَ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ " (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آپ ﷺ کے ذِکر کے وقت بھی درود سے غفلت کرنے والوں کی محرومی اور ہلاکت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذلیل و خوار ہو وہ آدمی جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ اس وقت بھی مجھ پر صلوٰۃ یعنی درود نہ بھیجے ، اور اس طرح ذلیل و خوار ہو وہ آدمی جس کے لئے رمضان (رحمت و مغفرت والا) مہینہ آئے اور اس کے گزرنے سے پہلے اس کی مغفرت کا فیصلہ نہ ہو جائے (یعنی رمضان کا مبارک مہینہ بھی وہ غفلت و خدا فراموشی میں گزار دے اور توبہ و استغفار کر کے اپنی مغفرت کا فیصلہ نہ کرا لے) اور ذلیل و خوار ہو وہ آدمی جس کے ماں باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک اس کے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں اور وہ (ان کی خدمت کر کے) جنت کا استحقاق حاصل نہ کر لے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں تین قسم کے جن آدمیوں کے لئے ذلت و خواری کی بددعا ہے ان کا مشترک سنگین جرم یہ ہے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت اور رحمت و مغفرت حاصل کرنے کے بہترین مواقع فراہم کئے ، لیکن انہوں نے خدا کی رحمت و مغفرت کو حاصل کرنا ہی نہیں چاہا اور اس سے محروم رہنا ہی اپنے لئے پسند کیا ، بےشک وہ بدبخت ایسی ہی بددعا کے مستحق ہیں اور آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ ایسے محروموں کے لئے اللہ کے مقرب ترین فرشتے حضرت جبرئیل امینؑ نے بھی بڑی سخت بددعا کی ہے ، اللہ کی پناہ !
تشریح
اس حدیث میں تین قسم کے جن آدمیوں کے لئے ذلت و خواری کی بددعا ہے ان کا مشترک سنگین جرم یہ ہے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت اور رحمت و مغفرت حاصل کرنے کے بہترین مواقع فراہم کئے ، لیکن انہوں نے خدا کی رحمت و مغفرت کو حاصل کرنا ہی نہیں چاہا اور اس سے محروم رہنا ہی اپنے لئے پسند کیا ، بےشک وہ بدبخت ایسی ہی بددعا کے مستحق ہیں اور آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ ایسے محروموں کے لئے اللہ کے مقرب ترین فرشتے حضرت جبرئیل امینؑ نے بھی بڑی سخت بددعا کی ہے ، اللہ کی پناہ !
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ، وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ، وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الكِبَرَ أَوْ أَحَدُهُمَا فَلَمْ يُدْخِلاَهُ الجَنَّةَ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آپ ﷺ کے ذِکر کے وقت بھی درود سے غفلت کرنے والوں کی محرومی اور ہلاکت
حضرت کعب بن عجر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو فرمایا : میرے پاس آ جاؤ ؟ ہم لوگ حاضر ہو گئے (آپ ﷺ کو جو کچھ ارشاد فرمانا تھا اس کے لئے آپ ﷺ منبر پر جانے لگے) جب منبر کے پہلے درجے پر آپ ﷺ نے قدم رکھا تو فرمایا : آمین ۔ پھر جب دوسرے درجے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا : آمین ۔ اسی طرح جب تیسرے درجے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا : آمین ۔ پھر جو کچھ آپ ﷺ کو فرمانا تھا جب اس سے فارغ ہو کر آپ ﷺ منبر سے نیچے اُتر آئے تو ہم لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آج ہم نے آپ سے ایک ایسی چیز سنی جو ہم پہلے نہیں سنتے تھے (یعنی منبر کے ہر درجے پر قدم رکھتے وقت آج آپ آمین ۔ کہتے تھے ، یہ نئی بات تھی) آپ نے بتایا کہ : “جب میں منبر پر چڑھنے لگا تو جبرئیل امین آ گئے ۔ انہوں نے کہا کہ : “بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ” (تباہ و برباد ہو وہ محروم جو رمضان مبارک پائے اور اس میں بھی اس کی مغفرت کا فیصلہ نہ ہو) تو میں نے کہا آمین ۔ پھر جب میں نے منبر کے دوسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: “بَعُدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ” (تباہ و برباد ہو وہ بےتوفیق اور بےنصیب جس کے سامنے تمہارا ذکر آئے اور وہ اس وقت بھی تم پر درود نہ بھیجے) تو میں نے اس پر بھی کہا آمین ۔
پھر جب میں نے منبر کے تیسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: “بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ اَبَوَيْهِ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدُهُمَا، فلَمْ يُدْخِلِ الْجَنَّةَ” (تباہ و برباد ہو وہ بدبخت آدمی جس کے ماں باپ یا اُن دونوں میں سے ایک اس کے سامنے بوڑھے ہو جائیں ، اور وہ (اُن کی خدمت کر کے اور ان کو راضی کر کے) نت کا مستحق نہ ہو جائے) اس پر بھی میں نے کہا آمین ۔ (مستدرک حاکم)
تشریح
اس حدیث کا مضمون بھی قریب قریب ہی ہے جو اس سے پہلی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا تھا ، فرق اتنا ہے کہ اس میں اصل بددعا کرنے والے حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی ہر بددعا پر آمین کہا ہے ۔
حضرت جبرئیلؑ کی بددعا اور رسول اللہ ﷺ کے آمین کہنے کا یہی واقعہ الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ حضرت کعب بن عجرہ انصاری کے علاوہ حضرت ابن عباس ، حضرت جابر بن سمرہ ، حضرت مالک بن الحویرث اور عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہم سے بھی حدیث کی مختلف کتابوں میں روایت کیا گیا ہے ۔ان میں سے بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضرت جبرئیلؑ بددعا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کرتے تھے کہ آپ آمین کہئے تو آپ آمین کہتے تھے ۔ ان سب حدیثوں میں مذکورہ بالا تین قسم کے محروموں کے لئے رسول اللہ ﷺ اور حضرت جبرئیلؑ کی طرف سے سخت ترین بددعا کے انداز میں جس طرح انتہائی ناراضی اور بیزاری کا اظہار کیا گیا ہے ، یہ دراصل ان تینوں کوتاہیوں کے بارے میں سخت ترین انتباہ ہے ۔ نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کی وجہ سے فرشتوں کی دنیا اور ملاءِ اعلیٰ میں عظمت و محبوبیت کا وہ بلند ترین مقام حاصل ہے کہ جو شخص آپ کے حق کی ادائیگی کے معاملہ میں صرف اتنی کوتاہی اور غفلت کرے کہ آپ ﷺ کے ذکر کے وقت آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے تو اس کے لئے سارے ملاءِ اعلیٰ کے امام اور نمائندے حضرت جبرئیل کے دل سے اتنی سخت بددعا نکلتی ہے اور وہ اس پر رسول اللہ ﷺ سے بھی آمین کہلواتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کی ہر تقصیر اور کوتاہی سے محفوظ رکھے ، اور آنحضرتﷺ کی حق شناسی اور حق کی ادائیگی کی توفیق دے ۔
ان ہی احادیث کی بناء پر فقہا نے یہ رائے قائم کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا ذِکر آئے تو آپ ﷺ پر درود بھیجنا ذِکر کرنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی واجب ہے ، جیسا کہ پہلے ذِکر کیا جا چکا ہے ۔
پھر جب میں نے منبر کے تیسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: “بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ اَبَوَيْهِ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدُهُمَا، فلَمْ يُدْخِلِ الْجَنَّةَ” (تباہ و برباد ہو وہ بدبخت آدمی جس کے ماں باپ یا اُن دونوں میں سے ایک اس کے سامنے بوڑھے ہو جائیں ، اور وہ (اُن کی خدمت کر کے اور ان کو راضی کر کے) نت کا مستحق نہ ہو جائے) اس پر بھی میں نے کہا آمین ۔ (مستدرک حاکم)
تشریح
اس حدیث کا مضمون بھی قریب قریب ہی ہے جو اس سے پہلی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا تھا ، فرق اتنا ہے کہ اس میں اصل بددعا کرنے والے حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی ہر بددعا پر آمین کہا ہے ۔
حضرت جبرئیلؑ کی بددعا اور رسول اللہ ﷺ کے آمین کہنے کا یہی واقعہ الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ حضرت کعب بن عجرہ انصاری کے علاوہ حضرت ابن عباس ، حضرت جابر بن سمرہ ، حضرت مالک بن الحویرث اور عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہم سے بھی حدیث کی مختلف کتابوں میں روایت کیا گیا ہے ۔ان میں سے بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضرت جبرئیلؑ بددعا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کرتے تھے کہ آپ آمین کہئے تو آپ آمین کہتے تھے ۔ ان سب حدیثوں میں مذکورہ بالا تین قسم کے محروموں کے لئے رسول اللہ ﷺ اور حضرت جبرئیلؑ کی طرف سے سخت ترین بددعا کے انداز میں جس طرح انتہائی ناراضی اور بیزاری کا اظہار کیا گیا ہے ، یہ دراصل ان تینوں کوتاہیوں کے بارے میں سخت ترین انتباہ ہے ۔ نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کی وجہ سے فرشتوں کی دنیا اور ملاءِ اعلیٰ میں عظمت و محبوبیت کا وہ بلند ترین مقام حاصل ہے کہ جو شخص آپ کے حق کی ادائیگی کے معاملہ میں صرف اتنی کوتاہی اور غفلت کرے کہ آپ ﷺ کے ذکر کے وقت آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے تو اس کے لئے سارے ملاءِ اعلیٰ کے امام اور نمائندے حضرت جبرئیل کے دل سے اتنی سخت بددعا نکلتی ہے اور وہ اس پر رسول اللہ ﷺ سے بھی آمین کہلواتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کی ہر تقصیر اور کوتاہی سے محفوظ رکھے ، اور آنحضرتﷺ کی حق شناسی اور حق کی ادائیگی کی توفیق دے ۔
ان ہی احادیث کی بناء پر فقہا نے یہ رائے قائم کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا ذِکر آئے تو آپ ﷺ پر درود بھیجنا ذِکر کرنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی واجب ہے ، جیسا کہ پہلے ذِکر کیا جا چکا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْضُرُوا فَحَضَرْنَا، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَرَجَةَ قَالَ: " آمِينَ "، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّانِيَةَ قَالَ: " آمِينَ "، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّالِثَةَ قَالَ: " آمِينَ "، فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ مِنَ الْمِنْبَرِ قَالَ: فَقُلْنَا له يَا رَسُولَ اللهِ سَمِعْنَا الْيَوْمَ مِنْكَ شَيْئًا مَا كُنَّا نَسْمَعُهُ فَقَالَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ عَرْضَ لِي فَقَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ فَقُلْتُ: آمِينَ فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّانِيَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ فَقُلْتُ: آمِينَ، فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّالِثَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ اَبَوَيْهِ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدُهُمَا، فلَمْ يُدْخِلِ الْجَنَّةَ فَقُلْتُ: آمِينَ " (رواه الحاكم فى المستدرك وقال صحيح الاسناد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آپ ﷺ کے ذِکر کے وقت بھی درود سے غفلت کرنے والوں کی محرومی اور ہلاکت
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اصل بخیل اور کنجوس وہ آدمی ہے جس کے سامنے میرا ذِکر آئے اور وہ (ذرا سی زبان ہلا کے) مجھ پر درود بھی نہ بھیجے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ عام طور پر سے بخیل ایسے آدمی کو سمجھا جاتا ہے جو دولت کے خرچ کرنے میں بخل کرے ، لیکن اس سے بھی بڑا بخیل اور بہت بڑا بخیل وہ آدمی ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ زبان سے درود کے دو کلمے کہنے میں بھی بخل کرے ۔ حالانکہ آپ ﷺ نے امت کے لئے وہ کیا ہے اور امت کو آپ کے ہاتھوں سے وہ دولتِ عظمیٰ ملی ہے کہ اگر ہر اُمتی اپنی جان بھی آپ ﷺ کے لئے قربان کر دے تو حق ادا نہ ہو سکے گا ۔ ؎
مرحبا اے پیک مشتاقاں بدہ پیغامِ دوست
تاکنم جاں اَز سرِ رغبت فدائے نامِ دوست
تشریح
مطلب یہ ہے کہ عام طور پر سے بخیل ایسے آدمی کو سمجھا جاتا ہے جو دولت کے خرچ کرنے میں بخل کرے ، لیکن اس سے بھی بڑا بخیل اور بہت بڑا بخیل وہ آدمی ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ زبان سے درود کے دو کلمے کہنے میں بھی بخل کرے ۔ حالانکہ آپ ﷺ نے امت کے لئے وہ کیا ہے اور امت کو آپ کے ہاتھوں سے وہ دولتِ عظمیٰ ملی ہے کہ اگر ہر اُمتی اپنی جان بھی آپ ﷺ کے لئے قربان کر دے تو حق ادا نہ ہو سکے گا ۔ ؎
مرحبا اے پیک مشتاقاں بدہ پیغامِ دوست
تاکنم جاں اَز سرِ رغبت فدائے نامِ دوست
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَلِيِّ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: البَخِيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৩৪৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مسلمانوں کی کوئی نشست ذِکر اللہ اور صلوٰۃ علی النبی ﷺ سے خالی نہ ہونی چاہئے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لوگ کہیں بیٹھے اور انہوں نے اس نشست میں نہ اللہ کو یاد کیا اور نہ اپنے نبیﷺ پر درود بھیجا (یعنی ان کی وہ مجلس اور نشست ذِکر اللہ اور صلوٰۃ علی النبیﷺ سے بالکل خالی رہی) تو قیامت میں یہ اُن کے لئے حسرت و خسران کا باعث ہو گی ۔ پھر چاہے اللہ ان کو عذاب دے اور چاہے معاف فرما دے اور بخش دے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
معلوم ہوا کہ مسلمان کی کوئی نشست اور مجلس ایسی نہ ہونی چاہئے جو اللہ کے ذکر سے اور رسول پاکﷺ پر درود و سلام سے خالی رہے ۔ اگر زندگی میں ایک نشست بھی ایسی ہوئی تو قیامت میں اس پر باز پرس ہو گی ۔ اور اس وقت سخت حسرت اور پشیمانی ہو گی پھر چاہے اللہ کی طرف سے معافی مل جائے یا سزا دی جائے ۔
یہی مضمون قریب قریب ان ہی الفاظ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو امامہ باہلی اور حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہم سے بھی حدیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہے ۔
تشریح
معلوم ہوا کہ مسلمان کی کوئی نشست اور مجلس ایسی نہ ہونی چاہئے جو اللہ کے ذکر سے اور رسول پاکﷺ پر درود و سلام سے خالی رہے ۔ اگر زندگی میں ایک نشست بھی ایسی ہوئی تو قیامت میں اس پر باز پرس ہو گی ۔ اور اس وقت سخت حسرت اور پشیمانی ہو گی پھر چاہے اللہ کی طرف سے معافی مل جائے یا سزا دی جائے ۔
یہی مضمون قریب قریب ان ہی الفاظ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو امامہ باہلی اور حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہم سے بھی حدیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ، وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ، إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ» (رواه الترمذى)
তাহকীক: