কিতাবুস সুনান (আলমুজতাবা) - ইমাম নাসায়ী রহঃ (উর্দু)
المجتبى من السنن للنسائي
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৪৯২ টি
হাদীস নং: ৯১৬
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ تفسیر آیت کریمہ|"ولقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم سے آخر تک
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو سبع المثاني یعنی سات لمبی سورتیں ١ ؎ عطا کی گئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥١ (١٤٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور وہ یہ ہیں : بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، اعراف، ہود اور یونس، یہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا قول سند میں شریک ضعیف ہیں، نیز ابواسحاق بیہقی مدلس و مختلط لیکن سابقہ سند سے تقویت پا کر یہ حسن ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 915
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ قال: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قال: أُوتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي السَّبْعَ الطُّوَلَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯১৭
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ تفسیر آیت کریمہ|"ولقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم سے آخر تک
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اللہ عزوجل کے قول : سبعا من المثاني کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد سات لمبی سورتیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٥٩٠) (حسن) (سند میں شریک القاضی ضعیف اور ابو اسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن لغیرہ ہے، اور اصل حدیث صحیح ہے کماتقدم، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٥/٢٠٠، رقم : ١٣١٢) اور مشہور حسن کے نسخے میں ضعیف لکھا ہے اور حوالہ صحیح ابی داود کا ہے تو یہ کہا جائے گا کہ اس کی سند میں ضعف ہے اور اصل حدیث صحیح ہے ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 916
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قال: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلّ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي سورة الحجر آية 87 قَالَ: السَّبْعُ الطُّوَلُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯১৮
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ امام کی اقتداء میں سری نماز میں (سوا سورت فاتحہ کے) قرأت نہ کرے
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے ظہر پڑھائی تو ایک آدمی نے آپ کے پیچھے سورة سبح اسم ربک الأعلى پڑھی، جب آپ ﷺ نے نماز پڑھ لی تو پوچھا : سورة سبح اسم ربک الأعلى کس نے پڑھی ؟ تو اس آدمی نے عرض کیا : میں نے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے کسی نے مجھے خلجان میں ڈال دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٢ (٣٩٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٨ (٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٥) ، مسند احمد ٤/٤٢٦، ٤٣١، ٤٣٣، ٤٤١، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٧٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 917
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قال: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهُ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: مَنْ قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، قَالَ رَجُلٌ: أَنَا قَالَ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ قَدْ خَالَجَنِيهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯১৯
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ امام کی اقتداء میں سری نماز میں (سوا سورت فاتحہ کے) قرأت نہ کرے
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر یا عصر پڑھائی، اور ایک آدمی آپ کے پیچھے قرآت کر رہا تھا، تو جب آپ نے سلام پھیرا تو پوچھا : تم میں سے سورة سبح اسم ربک الأعلى کس نے پڑھی ہے ؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا : میں نے، اور میری نیت صرف خیر کی تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے بعض نے مجھ سے سورة پڑھنے میں خلجان میں دال دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خلجان مطلق سورة فاتحہ پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ زور سے پڑھنے کی وجہ سے ہوا، یہی بات قرین قیاس ہے بلکہ حتمی ہے، اس لیے اس حدیث سے سورة فاتحہ نہ پڑھنے پر استدلال واضح نہیں ہے، نیز عبادہ (رض) کی حدیث (رقم : ٩٢١ ) سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ نے باضابطہٰ سورة فاتحہ پڑھنے کی صراحت فرما دی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 918
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ وَرَجُلٌ يَقْرَأُ خَلْفَهُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَيُّكُمْ قَرَأَ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَىفَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا وَلَمْ أُرِدْ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ قَدْ خَالَجَنِيهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২০
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز سے جس میں آپ نے زور سے قرآت فرمائی تھی سلام پھیر کر پلٹے تو پوچھا : کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرآت کی ہے ؟ تو ایک شخص نے کہا : جی ہاں ! اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : آج بھی میں کہہ رہا تھا کہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے ۔ زہری کہتے ہیں : جب لوگوں نے یہ بات سنی تو جن نمازوں میں رسول اللہ ﷺ زور سے قرآت فرماتے تھے ان میں قرآت سے رک گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣٧ (٨٢٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٧ (٣١٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٣ (٨٤٨، ٨٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٤) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٠ (٤٤) ، مسند احمد ٢/٢٤٠، ٢٨٤، ٢٨٥، ٣٠١، ٣٠٢، ٤٨٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ قول کہ جب لوگوں نے … زہری کا ہے، ائمہ حدیث نے اس کی تصریح کردی ہے، اور زہری تابعی صغیر ہیں، وہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، ان کی یہ روایت مرسل ہے، اور مرسل ضعیف کی قسموں میں سے ہے، یا اس کا یہ معنی ہے کہ لوگ زور سے قرات کرتے تھے، اسی سے آپ ﷺ کو خلجان ہوتا تھا، اور خلجان کا واقعہ جہری سری دونوں میں پیش آیا ہے (جیسا کہ حدیث رقم : ٩١٨ میں گزرا) اس واقعہ کے بعد لوگ زور سے قرات کرنے سے رک گئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 919
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ: هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًاقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَقَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَاءَةِ مِنَ الصَّلَاةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২১
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ جس وقت امام جہری نماز میں قرأت کرے تو مقتدی کچھ نہ پڑھیں لیکن سورت فاتحہ پڑھیں
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کچھ نمازیں پڑھائیں جن میں قرآت بلند آواز سے کی جاتی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب میں بآواز بلند قرآت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورة فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣٦ (٨٢٤) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٥١١٦) ، مسند احمد ٥/٣١٣، ٣١٦، ٣٢٢ (حسن صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت حسن صحیح ہے، بعض ائمہ نے محمود میں کچھ کلام کیا ہے، جب کہ بہت سوں نے ان کی توثیق کی ہے، نیز وہ اس روایت میں منفرد بھی نہیں ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 920
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ صَدَقَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ حَرَامِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قال: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ: لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَاءَةِ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২২
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ آیت کریمہ کی تفسیر
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام تو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآت کرے تو تم خاموش رہو ١ ؎، اور جب سمع اللہ لمن حمده کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٣ (٨٤٦) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٢٣١٧) ، مسند احمد ٢/٣٧٦، ٤٢٠، وأخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٧٤ (٧٢٢) ، ٨٢ (٧٣٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١٤) ، سنن الدارمی/فیہ ٧١ (١٣٥٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اقوال میں آپس میں ٹکراؤ ممکن ہی نہیں، نیز رسول اللہ ﷺ کے اپنے اقوال میں بھی ٹکراو محال ہے، یہ مسلّمہ عقیدہ ہے، اس لیے سورة فاتحہ کے وجوب پر دیگر قطعی احادیث کے تناظر میں اس صحیح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے علاوہ کی قرات کے وقت امام کی قرات سنو، اور چپ رہو، رہا سورة فاتحہ پڑھنے کے مانعین کا آیت و إذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا سے استدلال، تو ایک تو یہ آیت نماز فرض ہونے سے پہلے کی ہے، تو اس کو نماز پر کیسے فٹ کریں گے ؟ دوسرے مکاتب میں ایک طالب علم کے پڑھنے کے وقت سارے بچوں کو خاموش رہ کر سننے کی بات کیوں نہیں کی جاتی ؟ جب کہ یہ حکم وہاں زیادہ فٹ ہوتا ہے، اور نماز کے لیے تو لا صلاة إلا بفاتحة الکتاب والی حدیث سے استثناء بھی آگیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 921
أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ قال: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২৩
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ آیت کریمہ کی تفسیر
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ قرآت کرے تو تم خاموش رہو ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : مخرمی کہتے تھے : وہ یعنی محمد بن سعد الانصاری ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 922
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قال: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُواقَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: كَانَ الْمُخَرِّمِيُّ يَقُولُ هُوَ ثِقَةٌ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيَّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২৪
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ مقتدی کی قرأت امام کے واسطے کافی ہے
ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کیا ہر نماز میں قرآت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! (اس پر) انصار کے ایک شخص نے کہا : یہ (قرآت) واجب ہوگئی، تو ابو الدرداء (رض) میری طرف متوجہ ہوئے اور حال یہ تھا کہ میں ان سے سب سے زیادہ قریب تھا، تو انہوں نے کہا : میں سمجھتا ہوں کہ امام جب لوگوں کی امامت کرے تو (امام کی قرآت) انہیں بھی کافی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں : اسے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنا غلط ہے، یہ تو صرف ابو الدرداء (رض) کا قول ہے، اور اسے اس کتاب کے ساتھ انہوں نے نہیں پڑھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٩) ، مسند احمد ٥/١٩٧، ٦/٤٤٨ وأخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١١ (٨٤٢) ، (من طریق أبی ادریس الخولانی إلی قولہ : وجب ھذا) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یہ مؤلف کے شاگرد ابوبکر ابن السنی کا قول ہے، یعنی ابن السنی نے مؤلف پر اس کتاب کو پڑھتے وقت یہ حدیث نہیں پڑھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد والموقوف منه فالتفت إلي صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 923
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قال: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ قال: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ قال: حَدَّثَنِي أَبُو الزَّاهِرِيَّةِقال: حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ سَمِعَهُ يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفِي كُلِّ صَلَاةٍ قِرَاءَةٌ، قَالَ: نَعَمْقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: وَجَبَتْ هَذِهِ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَكُنْتُ أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِنْهُ فَقَالَ: مَا أَرَى الْإِمَامَ إِذَا أَمَّ الْقَوْمَ إِلَّا قَدْ كَفَاهُمْ. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَأٌ إِنَّمَا هُوَ قَوْلُ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَلَمْ يُقْرَأْ هَذَا مَعَ الْكِتَابِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২৫
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ جو کوئی تلاوت قرآن نہ کرسکے تو اس کے واسطے اس کا کیا بدل ہے؟
ابن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : میں قرآن کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا، تو مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئیے جو میرے لیے قرآن کے بدلے کافی ہو، آپ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ واللہ أكبر ولا حول ولا قوة إلا باللہ اللہ پاک ہے اور اللہ ہی کے لیے حمد ہے، اور اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اور طاقت و قوت صرف اللہ ہی کی توفیق سے ہے پڑھ لیا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣٩ (٨٣٢) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٥١٥٠) ، مسند احمد ٤/٣٥٣، ٣٥٦، ٣٨٢ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 924
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى قال: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ السَّكْسَكِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، قال: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ فَعَلِّمْنِي شَيْئًا يُجْزِئُنِي مِنَ الْقُرْآنِ، فَقَالَ: قُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২৬
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ امام آمین بلند آواز سے پکارے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب قاری (امام) آمین کہے، تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے ١ ؎ گا تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ بخش دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٢٦٦) ، مسند احمد ٢/٢٣٨، ٤٤٩، ٤٥٩، سنن الدارمی/الصلاة ٣٨ (١٢٨١، ١٢٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مؤلف نے امام کے بلند آواز سے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے، کیونکہ اگر امام آہستہ آمین کہے گا تو مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہیں ہو سکے گا، اور جب انہیں اس کا علم نہیں ہو سکے گا تو ان سے امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا مطالبہ درست نہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 925
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قال: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، قال: أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২৭
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ امام آمین بلند آواز سے پکارے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب قاری (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے گا، اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٦٣ (٦٤٠٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٤ (٨٥١) ، مسند احمد ٢/٢٣٨، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 926
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২৮
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ امام آمین بلند آواز سے پکارے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمين کہو، کیونکہ فرشتے آمین کہتے ہیں اور امام آمین کہتا ہے تو جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے گا اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤ (٨٥٢) مختصراً ، مسند احمد ٢/٢٣٣، ٢٧٠، سنن الدارمی/الصلاة ٣٨ (١٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 927
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قال: حَدَّثَنِي مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا قَالَ الْإِمَامُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 فَقُولُوا: آمِينَ فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَقُولُ آمِينَ وَإِنَّ الْإِمَامَ يَقُولُ آمِينَ فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯২৯
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ امام آمین بلند آواز سے پکارے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے گا، اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١١ (٧٨٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٨ (٤١٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٢ (٩٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧١ (٢٥٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١ (٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 928
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدٍ، وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৩০
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ امام کی اقتداء میں آمین کہنا اس کا حکم
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم لوگ آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے گا اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٣ (٧٨٢) ، التفسیر ٢ (٤٤٧٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٢ (٩٣٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١ (٤٥) ، مسند احمد ٢/٤٥٩، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 929
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ الْإِمَامُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 فَقُولُوا: آمِينَ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৩১
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ فضیلت آمین
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی آمین کہے اور فرشتے بھی آسمان پر آمین کہیں اور ان دونوں میں سے ایک کی آمین دوسرے کے موافق ہوجائے تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١١ (٧٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٢٦) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١ (٤٦) ، مسند احمد ٢/٤٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 930
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ وَقَالَتِ الْمَلَائِكَةُ فِي السَّمَاءِ آمِينَ فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৩২
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ اگر مقتدی کو نماز میں چھینک آجائے تو کیا کہنا چاہئے؟
رفاعہ بن رافع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، تو مجھے چھینک آگئی، تو میں نے الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه مبارکا عليه كما يحب ربنا ويرضى اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے کہا، تو جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے، اور سلام پھیر کر پلٹے تو آپ نے پوچھا : نماز میں کون بول رہا تھا ؟ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے دوسری بار پوچھا : نماز میں کون بول رہا تھا ؟ تو رفاعہ بن رافع بن عفراء (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میں تھا، آپ ﷺ نے پوچھا : تم نے کیسے کہا تھا ؟ انہوں نے کہا : میں نے یوں کہا تھا : الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه مبارکا عليه كما يحب ربنا ويرضى اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے لے کر کون اوپر چڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٧٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٨٠ (٤٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٦) ، موطا امام مالک/القرآن ٧ (٢٥) ، مسند احمد ٤/٣٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 931
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَمِّ أَبِيهِ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَطَسْتُ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ فَقَالَ: مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِفَلَمْ يُكَلِّمْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ: مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِفَقَالَ: رِفَاعَةُ بْنُ رَافِعِ ابْنِ عَفْرَاءَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: كَيْفَ قُلْتَ، قَالَ: قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدِ ابْتَدَرَهَا بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ مَلَكًا أَيُّهُمْ يَصْعَدُ بِهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৩৩
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ اگر مقتدی کو نماز میں چھینک آجائے تو کیا کہنا چاہئے؟
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ نے اللہ اکبر کہا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کے نیچے تک اٹھایا، پھر جب آپ نے غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہا تو آپ نے آمین کہی جسے میں نے سنا، اور میں آپ کے پیچھے تھا ١ ؎، پھر رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه کہتے سنا، تو جب آپ اپنی نماز سے سلام پھیرلیا تو پوچھا : نماز میں کس نے یہ کلمہ کہا تھا ؟ تو اس شخص نے کہا : میں نے اللہ کے رسول ! اور اس سے میں نے کسی برائی کا ارادہ نہیں کیا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس پر بارہ فرشتے جھپٹے تو اسے عرش تک پہنچنے سے کوئی چیز روک نہیں سکی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١١٧٦٤) ، مسند احمد ٤/٣١٥، ٣١٧ (صحیح) (اس سند میں عبدالجبار اور ان کے باپ وائل بن حجر (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن ” فما نھنھھا ۔۔۔ “ کے جملے کے علاوہ اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر بقیہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بلند آواز سے آمین کہی، رہا بعض حاشیہ نگاروں کا یہ کہنا کہ پہلی صف والوں کے بالخصوص ایسے شخص سے سننے سے جو نبی اکرم ﷺ کے بالکل پیچھے ہو جہر لازم نہیں آتا، تو یہ صحیح نہیں کیونکہ صاحب ہدایہ نے یہ تصریح کی ہے کہ جہر یہی ہے کہ کوئی دوسرا سن لے، اور کرخی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جہر کا ادنی مرتبہ یہ ہے کہ بولنے والا آدمی خود اسے سنے، رہی وائل بن حجر (رض) کی خفض والی روایت تو شعبہ نے اس میں کئی غلطیاں کی ہیں، جس کی تفصیل سنن ترمذی حدیث رقم ( ٢٤٨ ) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره دون قوله فما نهنهها صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 932
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ مُحَمَّدٍ قال: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ قال: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ أَسْفَلَ مِنْ أُذُنَيْهِفَلَمَّا قَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، قَالَ: آمِينَفَسَمِعْتُهُ وَأَنَا خَلْفَهُ قَالَ: فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ فَلَمَّا سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ قَالَ: مَنْ صَاحِبُ الْكَلِمَةِ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا أَرَدْتُ بِهَا بَأْسًا قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدِ ابْتَدَرَهَا اثْنَا عَشَرَ مَلَكًا فَمَا نَهْنَهَهَا شَيْءٌ دُونَ الْعَرْشِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৩৪
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ فضائل قرآن کریم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حارث بن ہشام (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا : گھنٹی کی آواز کی طرح، پھر وہ بند ہوجاتی ہے اور میں اسے یاد کرلیتا ہوں، اور یہ قسم میرے اوپر سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، اور کبھی وحی کا فرشتہ میرے پاس نوجوان آدمی کی شکل میں آتا ہے، اور وہ مجھ سے کہہ جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٣ (٢٣٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٢٤) ، موطا امام مالک/القرآن ٤ (٧) ، مسند احمد ٦/١٥٨، ١٦٣، ٢٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 933
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قال: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قالت: سَأَلَ الْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ. قَالَ: فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ زِيَادَةً وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ وَأَحْيَانًا يَأْتِينِي فِي مِثْلِ صُورَةِ الْفَتَى فَيَنْبِذُهُ إِلَيَّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৩৫
نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
পরিচ্ছেদঃ فضائل قرآن کریم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حارث بن ہشام (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کبھی میرے پاس گھنٹی کی آواز کی شکل میں آتی ہے، اور یہ قسم میرے اوپر سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، پھر وہ بند ہوجاتی ہے اور جو وہ کہتا ہے میں اسے یاد کرلیتا ہوں، اور کبھی میرے پاس فرشتہ آدمی کی شکل میں آتا ہے ١ ؎ اور مجھ سے باتیں کرتا ہے، اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں اسے یاد کرلیتا ہوں ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کڑکڑاتے جاڑے میں آپ پر وحی اترتے دیکھا، پھر وہ بند ہوتی اور حال یہ ہوتا کہ آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ٢ (٢) ، سنن الترمذی/المناقب ٧ (٣٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٥٢) ، موطا امام مالک/القرآن ٤ (٧) ، مسند احمد ٦/٢٥٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یتمثل لي الملک رجلاً میں رَجَلاً منصوب بنزع الخافض ہے، تقدیر یوں ہوگی یتمثل لي الملک صورۃ رجل، صور ۃ جو مضاف تھا حذف کردیا گیا ہے، اور رجل جو مضاف الیہ کو مضاف کا اعراب دے دیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 934
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِيمَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحْيَانًا يَأْتِينِي فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُقَالَتْ عَائِشَةُ وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا.
তাহকীক: