কিতাবুস সুনান - ইমাম আবু দাউদ রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام أبي داود
کھانے پینے کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১২৩ টি
হাদীস নং: ৩৭৯৬
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گوہ کھانے کا بیان
عبدالرحمٰن بن شبل اوسی انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٧٠٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ضب : گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لئے یا طلاء کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ ﷺ کے دسترخوان پر یہ کھایا گیا اس لئے حلال ہے۔ جس جانور کو نبی اکرم ﷺ کے دسترخوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے ، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہ زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے ، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے۔ نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر ( ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے : ۔ ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے ، اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈا زرعی اور پانی والے علاقوں میں عام طورپر پایا جاتا ہے۔ ۔ نجدی ضب (گوہ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے، کبھی طویل صبر کے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیر کا گوہ پانی کے کناروں پر پایا جاتا ہے ، اور خوب پانی پیتا ہے۔ ۔ نجدی ضب ( گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے ، جلد شکار ہوجاتا ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ کا پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ ۔ نجدی ضب ( گوہ) کے پنجے آدمی کی ہتھیلی کی طرح نرم ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی گوہ کے پنجے اور اس کی دم نہایت سخت ہوتی ہیں، اور اس کے ناخن اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ اگر وہ کسی چیز کو پکڑلے تو اس سے اس کا چھڑانا نہایت دشوار ہوتا ہے ، ترقی یافتہ دور سے پہلے مشہو رہے کہ چور اس کی دم کے ساتھ رسی باندھ کر اسے مکان کے پچھواڑے سے اوپرچڑھادیتے اور یہ جانور مکان کی منڈیر کے ساتھ جاکر مضبوطی سے چمٹ جاتا اور پنجے گاڑلیتا اور چور اس کی دم سے بندھی رسی کے ذریعہ اوپرچڑھ جاتے اور چوری کرتے ، جب کہ نجدی ضب (گوہ) کی دم اتنی قوت والی نہیں ہوتی۔ ۔ ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے ، جب کہ نجدی ضب ( گوہ) ایسا نہیں کرتی۔ ۔ ہندوستانی گوہ ایک بدبودار جانور ہے اور اس کے قریب سے نہایت ناگوار بدبوآتی ہے ، جب کہ نجدی ضب ( گوہ) میں یہ نشانی نہیں پائی جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی گوہ گندگی کھاتی ہے ، اور کیڑے مکوڑے بھی ، نجدی ضب ( گوہ) کیڑے مکوڑے اور خاص کر ٹڈی کھانے میں مشہور ہے ، لیکن صحراء میں گندگی کا عملاً وجود نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو معمولی اور کبھی کبھار ، صحراء میں پائی جانے والی بوٹیوں کو بھی وہ کھاتا ہے۔ ۔ نجدی ضب ( گوہ) کی کھال کو پکاکرعرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے ، جس کو ضبة کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسا استعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے۔ ۔ نجدی ضب نامی جانور اپنے بنائے ہوئے پُرپیچ اور ٹیڑھے میڑھے بلوں (سوراخوں) میں اس طرح رہتا ہے کہ اس تک کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا، اور اسی لیے حدیث شریف میں امت محمدیہ کے بارے میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں چلے جانے کی تعبیرموجود ہے ، اور یہ نبی اکرم ﷺ کی کمال باریک بینی اور کمال بلاغت پر دال ہے ، امت محمدیہ سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کی گمراہیوں اور ضلالتوں کا شکار ہوگی ، حتی کہ اگر سابقہ امتیں اپنی گمراہی میں اس حدتک جاسکتی ہیں جس تک پہنچنامشکل بات ہے تو امت محمدیہ وہ کام بھی کرگزرے گی ، اسی کو نبی اکرم ﷺ نے اس طرح بیان کیا کہ اگر سابقہ امت اپنی گمراہی میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں گھسی ہوگی تو امت محمدیہ کے لوگ بھی اس طرح کا ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیار کریں گے اور یہ حدیث ضب (گوہ) کے مکان یعنی سوراخ کے پیچیدہ ہونے پر دلالت کررہی ہے ، اور صحراء نجد کے واقف کار خاص کر ضب ( گوہ) کا شکار کرنے والے اس کو بخوبی جانتے ہیں ، اور ضب (گوہ) کو اس کے سوراخ سے نکالنے کے لیے پانی استعمال کرتے ہیں کہ پانی کے پہنچتے ہی وہ اپنے سوراخ سے باہرآجاتی ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ پرائے گھروں یعنی مختلف سوراخوں اور بلوں اور پرانے درختوں میں موجودسوراخ میں رہتی ہے۔ ضب اور ورل میں کیا فرق ہے ؟ صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانورکو وَرَل کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے : ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانور ہے ، جو ضب کی خلقت پر ہے ، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے ، بالو اور صحراء میں پایا جاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانور ہے ، جس کی دم لمبی اور سر چھوٹا ہوتا ہے ، ازہری کہتے ہیں : وَرَل عمدہ قامت اور لمبی دم والاجانور ہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے، بسا اوقات اس کی دم دوہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے ، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے ، اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی ، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکار کرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری ، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے ، دم کا رنگ سبززردی مائل ہوتا ہے ، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے ، اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلاہوجاتا ہے ، اور یہ صرف ٹڈی ، چھوٹے کیڑے اور سبزگھاس کھاتی ہے ، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی ، اور ورل بچھو ، سانپ ، گرگٹ اور گوبریلاسب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے ، تریاق ہے ، بہت تیز موٹا کرتا ہے ، اسی لیے عورتیں اس کو استعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کو تیز کرتا ہے ، اور اس کی چربی کی مالش سے عضوتناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو : تاج العروس : مادہ ورل ، و لسان العرب) سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانور جس کو گوہ یا سانڈا کہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے، بایں ہمہ نجدی ضب ( گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں ، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت و حرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیے ، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبواٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غور کرنے کی ہے ، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہوجائے تو اس کا کھانا منع ہے ، اس کو اصطلاح میں جلالہ کہتے ہیں، تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ برصغیر کے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا۔ ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسرکنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں ، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوں لکھ کردی : نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے ، اور ورل نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورل کا شکارمشکل کام ہے ، ضب گھاس کھاتا ہے ، اور ورل گوشت کھاتا ہے ، ضب چیرپھاڑ کرنے والا جانور نہیں ہے ، جب کہ ورل چیرپھاڑ کرنے والا جانور ہے ، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے ، ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے ، ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے ، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے ، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے ، اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے ، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے ، ضب کھُردرا اوکانٹے دارہوتا ہے ، اور ورل نرم ہوتا ہے ، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے ، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے ، اور دم سے شکار بھی کرتا ہے ، ضب گوشت باکل نہیں کھاتا ، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے ، ضب تیز جانور ہے ، اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجود ہے ، وہ دانتوں سے کاٹتا ہے ، اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے ، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کر اور ہاتھوں سے نوچ کر یا دم سے مار کرتا ہے ، اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے ، ضب میں کچلی دانت نہیں ہے ، اور وَرل میں کچلی دانت ہے ، ضب حلال ہے ، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلا جانور ہے۔ صحرائے عرب کا ضب ، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصدصرف یہ ہے کہ اس جانور کے بارے میں صحیح صورت حال سامنے آجائے ، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بناپر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے ، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایساجانور ہے جس کو پانی سے عشق اور کیچڑ سے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہوجائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے ، اگر بھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کرکے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہیے ، اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کرنا چاہیے اور عاملین حدیث کے نقطہ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہیے۔ گوہ کی کئی قسمیں ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشترک ہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفیدہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔ حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں : نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے ، دم سخت اور چھوٹی ، قد بلی کے برابرہوتا ہے ، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے ، رنگ زرد سیاہی مائل ، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم ... اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔ (کتاب المفردات : ٤٢٧) ، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے۔ گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں : مشہورجانور ہے ، جو گرگٹ یا گلہری کی مانند لیکن اس سے بڑا ہوتا ہے ، اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے ، مزاج گرم وتر بدرجہ اوّل، افعال واستعمال بطورمقوی جاذب رطوبت ، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات : صفحہ ٢٧٥ )
حدیث نمبر: 3796 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ زُرْعَةَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى عَنْ أَكْلِ لَحْمِ الضَّبِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯৭
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حباری کھانے کے بیان میں
سفینہ (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (پانی کی چڑیا) سرخاب کا گوشت کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٢٦ (١٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٢) (ضعیف) (اس کے راوی بریہ مجہول الحال ہیں )
حدیث نمبر: 3797 حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنِي بُرَيْهُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَكَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمَ حُبَارَى.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯৮
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حشرات الارض کے کھانے کا بیان
تلب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں رہا لیکن میں نے کیڑے مکوڑوں کی حرمت کے متعلق نہیں سنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٥١) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ملقام مجہول الحال ہیں )
حدیث نمبر: 3798 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا غَالِبُ بْنُ حَجْرَةَ، حَدَّثَنِي مِلْقَامُ بْنُ التَّلِبِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَحِبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَسْمَعْ لِحَشَرَةِ الْأَرْضِ تَحْرِيمًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৭৯৯
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حشرات الارض کے کھانے کا بیان
نمیلہ کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے پاس تھا آپ سے سیہی ١ ؎ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت پڑھی : قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما اے نبی ! آپ کہہ دیجئیے میں اسے اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا ان کے پاس موجود ایک بوڑھے شخص نے کہا : میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : وہ ناپاک جانوروں میں سے ایک ناپاک جانور ہے ۔ تو ابن عمر (رض) نے کہا : اگر رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے تو بیشک وہ ایسا ہی ہے جو ہمیں معلوم نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨١) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی شیخ مبہم ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : بڑے چوہے کی مانند ایک جانور جس کے پورے بدن پر کانٹے ہوتے ہیں۔
حدیث نمبر: 3799 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ نُمَيْلَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَسُئِلَ عَنْ أَكْلِ الْقُنْفُذِ ؟، فَتَلَا: قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا سورة الأنعام آية 145، قَالَ: قَالَ شَيْخٌ عِنْدَهُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: خَبِيثَةٌ مِنَ الْخَبَائِثِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِنْ كَانَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا، فَهُوَ كَمَا قَالَ مَا لَمْ نَدْرِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০০
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ N/A
زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض چیزوں کو کھاتے تھے اور بعض چیزوں کو ناپسندیدہ سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا، اپنی کتاب نازل کی اور حلال و حرام کو بیان فرمایا، تو جو چیز اللہ نے حلال کر دی وہ حلال ہے اور جو چیز حرام کر دی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے، پھر ابن عباس نے آیت کریمہ: «قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما» آپ کہہ دیجئیے میں اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا اخیر تک پڑھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ صَبِيحٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ شَرِيكٍ الْمَكِّيَّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَأْكُلُونَ أَشْيَاءَ وَيَتْرُكُونَ أَشْيَاءَ تَقَذُّرًا، فَبَعَثَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ، وَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلَالٌ، وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ، وَتَلَا: قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا سورة الأنعام آية 145 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০১
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بجو کھانے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے لکڑبگھا (لگڑ بگڑ) ١ ؎ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : وہ شکار ہے اور جب محرم اس کا شکار کرے تو اسے ایک دنبے کا دم دینا پڑے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٢٨ (٨٥١) ، الأطعمة ٤ (١٧٩٢) ، سنن النسائی/الحج ٨٩ (٢٨٣٩) ، الصید ٢٧ (٤٣٢٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٠ (٣٠٨٥) ، الصید ١٥ (٣٢٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣١٨، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٩٠ (١٩٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ضبع : ایک درندہ ہے ، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے ، اس کا سر بڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع اضبع ہے (المعجم الوسیط : ٥٣٣-٥٣٤) ہندو پاک میں اس درندے کو لکڑبگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے ، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے ، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے ، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے ، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے ، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے ، اکثر رات میں نکلتا ہے ، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے ، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں ، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں ، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے ، نجد میں ان کی اس رہائش کو مضبعہ یا مجفرہ کہتے ہیں ، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے ، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے ، یہ جانور مردہ کھاتا ہے ، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے ، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے ، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکار کرتے تھے ، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں ، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں ، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے ضبع کا ترجمہ بجو سے کیا ہے ، فرماتے ہیں : فارسی زبان میں اسے کفتار اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ ضبع سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے ، اور اس کو لکڑبگڑکھا کہا جاتا ہے ، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور ضبع سے مراد لکڑبگھا ہے ، بجو نہیں ، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں ضبع کی تعریف بجو سے کی گئی ہے ، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے ، مولانا وحید الزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں : ” اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے ، امام شافعی کا یہی قول ہے ، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے ، تو اور درندوں کی طرح حرام ہوگا ، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے “ سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑبگھا ہی ضبع کا صحیح مصداق ہے ، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیرپھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے ، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے ، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے ، جیسے : کتا ، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے : شیر ، بھیڑیا ، چیتا، تیندوا ، لومڑی ، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور (نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑبگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے ، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطا امام مالک) لکڑبگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے ، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑبگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر (رض) کی حدیث ہے ، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر ٤/١٥٢) ، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑبگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے ، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن ربک غفور رحيم ( سورة الأنعام : 145) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑبگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو : الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : ٥/١٣٣-١ ٣٤ )
حدیث نمبر: 3801 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الضَّبُعِ ؟، فَقَالَ: هُوَ صَيْدٌ، وَيُجْعَلُ فِيهِ كَبْشٌ إِذَا صَادَهُ الْمُحْرِمُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০২
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ درندوں کے کھانے کا بیان
ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پھاڑ کھانے والے جانوروں میں سے ہر دانت والے جانور کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٩ (٥٥٣٠) ، الطب ٥٧ (٥٧٨٠) ، صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٢) ، الأطعمة ٣٣ (١٩٣٢) ، سنن الترمذی/الصید ١١ (١٤٧٧) ، سنن النسائی/الصید ٢٨ (٤٣٣٠) ، ٣٠ (٤٣٤٨) سنن ابن ماجہ/الصید ١٣ (٣٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٣، ١٩٤، ١٩٥) ، سنن الدارمی/ الأضاحی ١٨ (٢٠٢٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 3802 حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০৩
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ درندوں کے کھانے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہر دانت والے درندے، اور ہر پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٠٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الصید ٣٣ (٤٣٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٣ (٣٢٣٤) ، مسند احمد (١/٢٤٤، ٢٨٩، ٣٠٢، ٣٢٧، ٣٣٢، ٣٣٩، ٣٧٣) ، دی/ الأضاحی ١٨ (٢٠٢٥) (صحیح )
حدیث نمبر: 3803 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০৪
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ درندوں کے کھانے کا بیان
مقدام بن معدیکرب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! دانت والا درندہ حلال نہیں، اور نہ گھریلو گدھا، اور نہ کافر ذمی کا پڑا ہوا مال حلال ہے، سوائے اس مال کے جس سے وہ مستغنی اور بےنیاز ہو، اور جو شخص کسی قوم کے یہاں مہمان بن کر جائے اور وہ لوگ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو اسے یہ حق ہے کہ اس کے عوض وہ اپنی مہمانی کے بقدر ان سے وصول کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٥٧١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢ (٣٢٣٤) ، مسند احمد (٤/١٣٢) (صحیح )
حدیث نمبر: 3804 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ رُؤْبَةَ التَّغْلِبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ كَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَلَا لَا يَحِلُّ ذُو نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَلَا الْحِمَارُ الْأَهْلِيُّ، وَلَا اللُّقَطَةُ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ ضَافَ قَوْمًا فَلَمْ يَقْرُوهُ فَإِنَّ لَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০৪
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ درندوں کے کھانے کا بیان
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০৫
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ درندوں کے کھانے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن ہر دانت والے درندے اور ہر پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرما دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الصید ٣٣ (٤٣٥٣) ، سنن ابن ماجہ/ الصید ١٣ (٣٢٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٩) (صحیح )
حدیث نمبر: 3805 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০৬
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ درندوں کے کھانے کا بیان
خالد بن ولید (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میں نے خیبر کا غزوہ کیا، تو یہود آ کر شکایت کرنے لگے کہ لوگوں نے ان کے باڑوں کی طرف بہت جلدی کی ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار ! جو کافر تم سے عہد کرلیں ان کے اموال تمہارے لیے جائز نہیں ہیں سوائے ان کے جو جائز طریقے سے ہوں اور تمہارے لیے گھریلو گدھے، گھوڑے، خچر، ہر دانت والے درندے اور ہر پنجہ والے پرندے حرام ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : ٣٧٩٠، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٩) (ضعیف منکر) (اس کے راوی صالح ضعیف، اور یحییٰ مجہول ہیں، نیز خالد (رض) غزوہ خیبر تک مسلمان ہی نہیں ہوئے تھے تو اس میں شریک کیسے ہوئے )
حدیث نمبر: 3806 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ سُلَيْمَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ، عَنْ جَدِّهِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ كَرِبَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، فَأَتَتْ الْيَهُودُ فَشَكَوْا أَنَّ النَّاسَ قَدْ أَسْرَعُوا إِلَى حَظَائِرِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا لَا تَحِلُّ أَمْوَالُ الْمُعَاهَدِينَ إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحَرَامٌ عَلَيْكُمْ حُمُرُ الْأَهْلِيَّةِ، وَخَيْلُهَا، وَبِغَالُهَا، وَكُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَكُلُّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০৭
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ درندوں کے کھانے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلی کی قیمت سے منع فرمایا۔ ابن عبدالملک کی روایت میں بلی کھانے سے اور اس کی قیمت کھانے سے کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٩ (١٢٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢٠ (٣٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٩٤) (ضعیف) (اس کے راوی عمر ضعیف ہیں )
حدیث نمبر: 3807 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ زَيْدٍ الصَّنْعَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى عَنْ ثَمَنِ الْهِرِّ، قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ: عَنْ أَكْلِ الْهِرِّ، وَأَكْلِ ثَمَنِهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০৮
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ N/A
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھے کے گوشت کھانے سے منع فرمایا، اور ہمیں گھوڑے کا گوشت کھانے کا حکم دیا۔ عمرو کہتے ہیں: ابوالشعثاء کو میں نے اس حدیث سے باخبر کیا تو انہوں نے کہا: حکم غفاری بھی ہم سے یہی کہتے تھے اور اس «بحر» ( عالم ) نے اس حدیث کا انکار کیا ہے ان کی مراد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تھی ۱؎۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَسَنٍ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَخْبَرَنِي رَجُلٌ، عَنْجَابِرِ بَنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ، عَنْ أَنْ نَأْكُلَ لُحُومَ الْحُمُرِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَأْكُلَ لُحُومَ الْخَيْلِ ، قَالَ عَمْرٌو: فَأَخْبَرْتُ هَذَا الْخَبَرَ أَبَا الشَّعْثَاءِ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ الْحَكَمُ الْغِفَارِيُّ فِينَا يَقُولُ هَذَا، وَأَبَى ذَلِكَ الْبَحْرُ يُرِيدُ ابْنَ عَبَّاسٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮০৯
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ آبادی کے گدھوں کا گوشت کھانے کا بیان
غالب بن ابجر کہتے ہیں ہمیں قحط سالی لاحق ہوئی اور ہمارے پاس گدھوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا جسے ہم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے اور رسول اللہ ﷺ گھریلو گدھوں کے گوشت کو حرام کرچکے تھے، چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کو قحط سالی نے آپکڑا ہے اور ہمارے پاس سوائے موٹے گدھوں کے کوئی مال نہیں جسے ہم اپنے اہل و عیال کو کھلا سکیں اور آپ گھریلو گدھوں کے گوشت کو حرام کرچکے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے اہل و عیال کو اپنے موٹے گدھے کھلاؤ میں نے انہیں گاؤں گاؤں گھومنے کی وجہ سے حرام کیا ہے یعنی نجاست خور گدھوں کو حرام کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالرحمٰن سے مراد ابن معقل ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو شعبہ نے عبیدابوالحسن سے، عبید نے عبدالرحمٰن بن معقل سے عبدالرحمٰن بن معقل نے عبدالرحمٰن بن بشر سے انہوں نے مزینہ کے چند لوگوں سے روایت کیا کہ مزینہ کے سردار ابجر یا ابن ابجر نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠١٨) (ضعیف الإسناد/ مضطرب) (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے )
حدیث نمبر: 3809 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ غَالِبِ بْنِ أَبْجَرَ، قَالَ: أَصَابَتْنَا سَنَةٌ فَلَمْ يَكُنْ فِي مَالِي شَيْءٌ أُطْعِمُ أَهْلِي إِلَّا شَيْءٌ مِنْ حُمُرٍ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ لُحُومَ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَابَتْنَا السَّنَةُ وَلَمْ يَكُنْ فِي مَالِي مَا أُطْعِمُ أَهْلِي إِلَّا سِمَانُ الْحُمُرِ، وَإِنَّكَ حَرَّمْتَ لُحُومَ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، فَقَالَ: أَطْعِمْ أَهْلَكَ مِنْ سَمِينِ حُمُرِكَ فَإِنَّمَا حَرَّمْتُهَا مِنْ أَجْلِ جَوَّالِ الْقَرْيَةِ يَعْنِي الْجَلَّالَةَ، قَالَ 12 أَبُو دَاوُدَ 12: عَبْدُ الرَّحْمَنِ هَذَا هُوَ ابْنُ مَعْقِلٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ نَاسٍ مِنْ مُزَيْنَةَ: أَنَّ سَيِّدَ مُزَيْنَةَ أَبْجَرَ، أَوِ ابْنَ أَبْجَرَ، سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮১০
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ آبادی کے گدھوں کا گوشت کھانے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھے کے گوشت کھانے سے منع فرمایا، اور ہمیں گھوڑے کا گوشت کھانے کا حکم دیا۔ عمرو کہتے ہیں : ابوالشعثاء کو میں نے اس حدیث سے باخبر کیا تو انہوں نے کہا : حکم غفاری بھی ہم سے یہی کہتے تھے اور اس بحر (عالم) نے اس حدیث کا انکار کیا ہے ان کی مراد ابن عباس (رض) سے تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الصید ٢٨ (٥٥٢٩) ، انظر حدیث رقم : ٣٧٨٨، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٣) (صحیح) (اس سند میں رجل سے مراد محمد بن علی باقر ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ابن عباس (رض) گھریلو گدھا کے کھانے کو جائز مانتے تھے، ہوسکتا ہے کہ انہیں حرمت والی حدیث نہ پہنچی ہو، آیت کریمہ : قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما سے ان کا اس پر استدلال اس لئے صحیح نہیں ہے کہ یہ آیت مکی ہے، اور حرمت مدینہ میں ہوئی تھی۔
حدیث نمبر: 3808 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَسَنٍ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَخْبَرَنِي رَجُلٌ، عَنْجَابِرِ بَنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ، عَنْ أَنْ نَأْكُلَ لُحُومَ الْحُمُرِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَأْكُلَ لُحُومَ الْخَيْلِ، قَالَ عَمْرٌو: فَأَخْبَرْتُ هَذَا الْخَبَرَ أَبَا الشَّعْثَاءِ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ الْحَكَمُ الْغِفَارِيُّ فِينَا يَقُولُ هَذَا، وَأَبَى ذَلِكَ الْبَحْرُ يُرِيدُ ابْنَ عَبَّاسٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮১১
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ آبادی کے گدھوں کا گوشت کھانے کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے اور نجاست خور جانور کی سواری کرنے اور اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الضحایا ٤٢ (٤٤٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٩) (حسن صحیح )
حدیث نمبر: 3811 حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ، عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَعَنِ الْجَلَّالَةِ عَنْ رُكُوبِهَا وَأَكْلِ لَحْمِهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮১২
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ٹڈی کھانے کا بیان
سلمان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ٹڈی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ کے بہت سے لشکر ہیں، نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام کرتا ہوں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے معتمر نے اپنے والد سلیمان سے، سلیمان نے ابوعثمان سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، انہوں نے سلمان (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے (یعنی مرسلاً روایت کی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصید ٩ (٣٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٥) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن زبر قان حافظہ کے کمزور ہیں اس لئے ان کی مرفوع روایت معتمر کی مرسل روایت کے بالمقابل مرجوح ہے صحیح سند سے اس روایت کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے )
حدیث نمبر: 3813 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الزِّبْرِقَانِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْسَلْمَانَ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَرَادِ ؟، فَقَالَ: أَكْثَرُ جُنُودِ اللَّهِ، لَا آكُلُهُ، وَلَا أُحَرِّمُهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَذْكُرْ سَلْمَانَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮১৩
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ٹڈی کھانے کا بیان
سلمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ٹڈی کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ایسے ہی فرمایا : اللہ کے بہت سے لشکر ہیں ۔ علی کہتے ہیں : ان کا یعنی ابوالعوام کا نام فائد ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حماد بن سلمہ نے ابوالعوام سے ابوالعوام نے ابوعثمان سے اور ابوعثمان نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا اور سلمان (رض) کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٥) (ضعیف) ( زکریا کے بالمقابل حماد کی روایت صحیح ہے، اور حماد کی روایت سے یہ روایت مرسل ہے )
حدیث نمبر: 3814 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي الْعَوَّامِ الْجَزَّارِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ، فَقَالَ مِثْلَهُ، فَقَالَ: أَكْثَرُ جُنْدِ اللَّهِ، قَالَ عَلِيٌّ: اسْمُهُ فَائِدٌ يَعْنِي أَبَا الْعَوَّامِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْعَوَّامِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَذْكُرْ سَلْمَانَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩৮১৪
کھانے پینے کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پانی پر تیرتی ہوئی مردہ حالت میں مچھلی کا حکم
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سمندر جس مچھلی کو باہر ڈال دے یا جس سے سمندر کا پانی سکڑ جائے تو اسے کھاؤ، اور جو اس میں مر کر اوپر آجائے تو اسے مت کھاؤ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو سفیان ثوری، ایوب اور حماد نے ابو الزبیر سے روایت کیا ہے، اور اسے جابر پر موقوف قرار دیا ہے اور یہ حدیث ایک ضعیف سند سے بھی مروی ہے جو اس طرح ہے : عن ابن أبي ذئب عن أبي الزبير عن جابر عن النبي ﷺ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصید ١٨ (٣٢٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥٧) (ضعیف) (اس کے راوی یحییٰ حافظہ کے کمزور، اور ابو الزبیر مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
حدیث نمبر: 3815 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَلْقَى الْبَحْرُ أَوْ جَزَرَ عَنْهُ فَكُلُوهُ، وَمَا مَاتَ فِيهِ وَطَفَا فَلَا تَأْكُلُوهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَأَيُّوبُ، وَحَمَّادٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَوْقَفُوهُ عَلَى جَابِرٍ، وَقَدْ أُسْنِدَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا مِنْ وَجْهٍ ضَعِيفٍ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক: