কিতাবুস সুনান - ইমাম আবু দাউদ রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام أبي داود
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৬১ টি
হাদীস নং: ৩০৪৮
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
عطا سے روایت ہے انہوں نے (قبیلہ) بکر بن وائل کے ایک شخص سے اس نے اپنے ماموں سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی قوم سے (اموال تجارت میں) دسواں حصہ لیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دسواں حصہ یہود و نصاریٰ پر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤٦، ١٨٤٨٩) (ضعیف) (اس کے سند میں بکر بن وائل اور ان کے ماموں مجہول ہیں )
حدیث نمبر: 3048 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ خَالِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُعَشِّرُ قَوْمِي، قَالَ: إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৪৯
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
حرب بن عبیداللہ کے نانا جو بنی تغلب سے تعلق رکھتے تھے کہتے ہیں میں نبی اکرم ﷺ کے پاس مسلمان ہو کر آیا، آپ نے مجھے اسلام سکھایا، اور مجھے بتایا کہ میں اپنی قوم کے ان لوگوں سے جو اسلام لے آئیں کس طرح سے صدقہ لیا کروں، پھر میں آپ کے پاس لوٹ کر آیا اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جو آپ نے مجھے سکھایا تھا سب مجھے یاد ہے، سوائے صدقہ کے کیا میں اپنی قوم سے دسواں حصہ لیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، دسواں حصہ تو یہود و نصاریٰ پر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤٦، ١٨٤٨٩) (ضعیف) (حرب ضعیف ہیں )
حدیث نمبر: 3049 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ الثَّقَفِيِّ،عَنْ جَدِّهِ رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَغْلِبَ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ وَعَلَّمَنِي الْإِسْلَامَ وَعَلَّمَنِي كَيْفَ آخُذُ الصَّدَقَةَ مِنْ قَوْمِي مِمَّنْ أَسْلَمَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كُلُّ مَا عَلَّمْتَنِي قَدْ حَفِظْتُهُ إِلَّا الصَّدَقَةَ أَفَأُعَشِّرُهُمْ ؟ قَالَ: لَا إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى النَّصَارَى وَالْيَهُودِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫০
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
عرباض بن ساریہ سلمی (رض) کہتے ہیں ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خیبر میں پڑاؤ کیا، جو لوگ آپ کے اصحاب میں سے آپ کے ساتھ تھے وہ بھی تھے، خیبر کا رئیس سرکش و شریر شخص تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : محمد ! کیا تمہارے لیے روا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کر ڈالو، ہمارے پھل کھاؤ، اور ہماری عورتوں کو مارو پیٹو ؟ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ غصہ ہوئے، اور عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے فرمایا : عبدالرحمٰن ! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اعلان کر دو کہ جنت سوائے مومن کے کسی کے لیے حلال نہیں ہے، اور سب لوگ نماز کے لیے جمع ہوجاؤ ، تو سب لوگ اکٹھا ہوگئے، نبی اکرم ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی پھر کھڑے ہو کر فرمایا : کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس قرآن میں جو کچھ حرام کیا اس کے سوا اور کچھ حرام نہیں ہے ؟ خبردار ! سن لو میں نے تمہیں کچھ باتوں کی نصیحت کی ہے، کچھ باتوں کا حکم دیا ہے اور کچھ باتوں سے روکا ہے، وہ باتیں بھی ویسی ہی (اہم اور ضروری) ہیں جیسی وہ باتیں جن کا ذکر قرآن میں ہے یا ان سے بھی زیادہ ١ ؎، اللہ نے تمہیں بغیر اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے، اور نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے و ستانے کی، اور نہ ہی ان کے پھل کھانے کی، جب تک کہ وہ تمہیں وہ چیزیں دیتے رہیں جو تمہارا ان پر ہے (یعنی جزیہ) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٦) (ضعیف) (اس کے راوی اشعث لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حدیث پر بھی قرآن کی طرح عمل واجب اور ضروری ہے، یہ نہ سمجھو کہ جو قرآن میں نہیں ہے اس پر عمل کرنا ضروری نہیں، رسول اللہ ﷺ نے جس بات کا حکم دیا ہے، وہ اصل میں اللہ ہی کا حکم ہے، اسی طرح جن باتوں سے آپ ﷺ نے روکا ہے ان سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، ارشاد باری ہے : وما آتاکم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا ( سورة الحشر : ٧ ) ۔
حدیث نمبر: 3050 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَكِيمَ بْنَ عُمَيْرٍ أَبَا الأَحْوَصِ، يُحَدِّثُ عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ وَمَعَهُ مَنْ مَعَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَكَانَ صَاحِبُ خَيْبَرَ رَجُلًا مَارِدًا مُنْكَرًا فَأَقْبَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَلَكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا حُمُرَنَا وَتَأْكُلُوا ثَمَرَنَا وَتَضْرِبُوا نِسَاءَنَا، فَغَضِبَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: يَا ابْنَ عَوْفٍ ارْكَبْ فَرَسَكَ ثُمَّ نَادِ أَلَا إِنَّ الْجَنَّةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِمُؤْمِنٍ وَأَنْ اجْتَمِعُوا لِلصَّلَاةِ، قَالَ: فَاجْتَمَعُوا، ثُمَّ صَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَقَالَ: أَيَحْسَبُ أَحَدُكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ قَدْ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ أَلَا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ وَعَظْتُ وَأَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثَرُ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ وَلَا أَكْلَ ثِمَارِهِمْ إِذَا أَعْطَوْكُمُ الَّذِي عَلَيْهِمْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫১
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
جہینہ کے ایک شخص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا ہوسکتا ہے کہ تم ایک قوم سے لڑو اور اس پر غالب آجاؤ تو وہ تمہیں مال (جزیہ) دے کر اپنی جانوں اور اپنی اولاد کو تم سے بچا لیں ۔ سعید کی روایت میں ہے : فيصالحونکم على صلح پھر وہ تم سے صلح پر مصالحت کرلیں پھر (مسدد اور سعید بن منصور دونوں راوی آگے کی بات پر) متفق ہوگئے کہ : جتنے پر مصالحت ہوگئی ہو اس سے زیادہ کچھ بھی نہ لینا کیونکہ یہ تمہارے واسطے درست نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٧) (ضعیف) ( رجل من ثقیف مبہم مجہول راوی ہے )
حدیث نمبر: 3051 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفٍ، عَنْ رَجُلٍمِنْ جُهَيْنَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّكُمْ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا فَتَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ فَيَتَّقُونَكُمْ بِأَمْوَالِهِمْ دُونَ أَنْفُسِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ، قَالَ سَعِيدٌ فِي حَدِيثِهِ: فَيُصَالِحُونَكُمْ عَلَى صُلْحٍ، ثُمَّ اتَّفَقَا فَلَا تُصِيبُوا مِنْهُمْ شَيْئًا فَوْقَ ذَلِكَ فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ لَكُمْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫২
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
ابوصخر مدینی کا بیان ہے کہ صفوان بن سلیم نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے کچھ بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے آبائ سے (جو ایک دوسرے کے عزیز تھے) اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے وکیل ١ ؎ ہوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں حجیج کا لفظ ہے یعنی میں اس کے دعوے کی وکالت کروں گا۔
حدیث نمبر: 3052 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ الْمَدِينِيُّ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ سُلَيْمٍ، أَخْبَرَهُ عَنْعِدَّةٍ، مِنْ أَبْنَاءِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَن آبَائِهِمْ دِنْيَةً، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫৩
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ اس ذمی کا بیان جو دوران سال مسلمان ہوجائے تو کیا اس سے جزیہ لیا جائے گا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر جزیہ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ١١ (٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨٥) (ضعیف) (اس کے راوی قابوس لین الحدیث ہیں )
حدیث نمبر: 3053 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ قَابُوسَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ جِزْيَةٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫৪
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ اس ذمی کا بیان جو دوران سال مسلمان ہوجائے تو کیا اس سے جزیہ لیا جائے گا
محمد بن کثیر کہتے ہیں سفیان سے اس حدیث کا مطلب ١ ؎ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب ذمی اسلام قبول کرلے تو اس پر (اسلام لاتے وقت سال میں سے گزرے ہوئے دنوں کا) جزیہ نہ ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ابن عباس (رض) کی مذکورہ حدیث (نمبر ٣٠٥٣) کے متعلق سوال کیا۔
حدیث نمبر: 3054 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: سُئِلَ سُفْيَانُ، عَنْ تَفْسِيرِ هَذَا فَقَالَ: إِذَا أَسْلَمَ فَلَا جِزْيَةَ عَلَيْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫৫
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ امام کے لئے مشرکین کا ہدیہ قبول کرنا
عبداللہ ہوزنی کہتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال (رض) سے حلب ١ ؎ میں ملاقات کی، اور کہا : بلال ! مجھے بتائیے کہ رسول اللہ ﷺ کا خرچ کیسے چلتا تھا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ نہ ہوتا، بعثت سے لے کر موت تک جب بھی آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی میں ہی اس کا انتظام کرتا تھا جب رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو ننگا دیکھتے تو مجھے حکم کرتے، میں جاتا اور قرض لے کر اس کے لیے چادر خریدتا، اسے پہننے کے لیے دے دیتا اور اسے کھانا کھلاتا، یہاں تک کہ مشرکین میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا : بلال ! میرے پاس وسعت ہے (تنگی نہیں ہے) آپ کسی اور سے قرض نہ لیں، مجھ سے لے لیا کریں، میں ایسا ہی کرنے لگا یعنی (اس سے لینے لگا) پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے وضو کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوا کہ اچانک وہی مشرک سوداگروں کی ایک جماعت لیے ہوئے آپہنچا جب اس نے مجھے دیکھا تو بولا : اے حبشی ! میں نے کہا : يا لباه ٢ ؎ حاضر ہوں، تو وہ ترش روئی سے پیش آیا اور سخت سست کہنے لگا اور بولا : تو جانتا ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں ؟ میں نے کہا : قریب ہے، اس نے کہا : مہینہ پورا ہونے میں صرف چار دن باقی ہیں ٣ ؎ میں اپنا قرض تجھ سے لے کر چھوڑوں گا اور تجھے ایسا ہی کر دوں گا جیسے تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا، مجھے اس کی باتوں کا ایسے ہی سخت رنج و ملال ہوا جیسے ایسے موقع پر لوگوں کو ہوا کرتا ہے، جب میں عشاء پڑھ چکا تو رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے جا چکے تھے (میں بھی وہاں گیا) اور شرف یابی کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی، میں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے اور نہ آپ کے پاس مال ہے جس سے میرے قرض کی ادائیگی ہوجائے اور نہ ہی میرے پاس ہے (اگر ادا نہ کیا) تو وہ مجھے اور بھی ذلیل و رسوا کرے گا، تو آپ مجھے اجازت دے دیجئیے کہ میں بھاگ کر ان قوموں میں سے کسی قوم کے پاس جو مسلمان ہوچکے ہیں اس وقت تک کے لیے چلا جاؤں جب تک کہ اللہ اپنے رسول کو اتنا مال عطا نہ کر دے جس سے میرا قرض ادا ہوجائے، یہ کہہ کر میں نکل آیا اور اپنے گھر چلا آیا، اور اپنی تلوار، موزہ جوتا اور ڈھال سرہانے رکھ کر سو گیا، صبح ہی صبح پو پھٹتے ہی یہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک شخص بھاگا بھاگا پکارتا ہوا آیا کہ اے بلال (تمہیں رسول اللہ ﷺ یاد کر رہے ہیں) چل کر آپ کی بات سن لو، تو میں چل پڑا، آپ ﷺ کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار لدے ہوئے جانور بیٹھے ہیں، آپ سے اجازت طلب کی تو رسول ﷺ نے مجھ سے فرمایا : بلال ! خوش ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہاری ضرورت پوری کردی، کیا تم نے چاروں بیٹھی ہوئی سواریاں نہیں دیکھیں ؟ ، میں نے کہا : ہاں دیکھ لی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ وہ جانور بھی لے لو اور جو ان پر لدا ہوا ہے وہ بھی ان پر کپڑا اور کھانے کا سامان ہے، فدک کے رئیس نے مجھے ہدیہ میں بھیجا ہے، ان سب کو اپنی تحویل میں لے لو، اور ان سے اپنا قرض ادا کر دو ، تو میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ بلال (رض) کہتے ہیں : پھر میں مسجد میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما ہیں، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ ﷺ نے پوچھا : جو مال تمہیں ملا اس کا کیا ہوا ؟ ، میں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے سارے قرضے ادا کردیئے اب کوئی قرضہ باقی نہ رہا، آپ ﷺ نے فرمایا : کچھ مال بچا بھی ہے ؟ ، میں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ جو بچا ہے اسے اللہ کی راہ میں صرف کر کے مجھے آرام دو کیونکہ جب تک یہ مال صرف نہ ہوجائے گا میں اپنی ازواج (مطہرات) میں سے کسی کے پاس نہ جاؤں گا ، پھر جب رسول اللہ ﷺ عشاء سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا : کیا ہوا وہ مال جو تمہارے پاس بچ رہا تھا ؟ میں نے کہا : وہ میرے پاس موجود ہے، کوئی ہمارے پاس آیا ہی نہیں کہ میں اسے دے دوں تو رسول ﷺ نے رات مسجد ہی میں گزاری۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی (اس میں ہے) یہاں تک کہ جب آپ ﷺ عشاء کی نماز پڑھ چکے یعنی دوسرے دن تو آپ نے مجھے بلایا اور پوچھا : وہ مال کیا ہوا جو تمہارے پاس بچ رہا تھا ؟ ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ نے آپ کو اس سے بےنیاز و بےفکر کردیا (یعنی وہ میں نے ایک ضرورت مند کو دے دیا) یہ سن کر آپ ﷺ نے اللہ اکبر کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا بیان کی اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو موت نہ آجاتی اور یہ مال آپ کے پاس باقی رہتا، پھر میں آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلا، آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے اور ایک ایک کو سلام کیا، پھر آپ ﷺ وہاں تشریف لے گئے جہاں رات گزارنی تھی، (اے عبداللہ ہوزنی ! ) یہ ہے تمہارے سوال کا جواب۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٠) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : شام کے ایک شہر کا نام ہے۔ ٢ ؎ : یہ کلمہ عربی میں جی، یا حاضر ہوں کی جگہ بولا جاتا ہے۔ ٣ ؎ : قرض واپسی کی مدت میں ابھی چار دن باقی تھے اس لئے اسے لڑنے جھگڑنے اور بولنے کا حق نہیں تھا، ادائیگی کا وقت گزر جانے کے بعد اسے بولنے اور جھگڑنے کا حق تھا۔ مگر تھا تو کافر مسلمانوں کا دشمن، قرض کا بہانہ کر کے لڑ پڑا۔
حدیث نمبر: 3055 حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، عَنْ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ الْهَوْزَنِيُّ، قَالَ: لَقِيتُ بِلَالًا مُؤَذِّنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَلَبَ، فَقُلْتُ: يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي كَيْفَ كَانَتْ نَفَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: مَا كَانَ لَهُ شَيْءٌ كُنْتُ أَنَا الَّذِي أَلِي ذَلِكَ مِنْهُ مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَنْ تُوُفِّيَ وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ الإِنْسَانُ مُسْلِمًا فَرَآهُ عَارِيًا يَأْمُرُنِي فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَقْرِضُ فَأَشْتَرِي لَهُ الْبُرْدَةَ فَأَكْسُوهُ وَأُطْعِمُهُ حَتَّى اعْتَرَضَنِي رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: يَا بِلَالُ إِنَّ عِنْدِي سَعَةً فَلَا تَسْتَقْرِضْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا مِنِّي فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ قُمْتُ لِأُؤَذِّنَ بِالصَّلَاةِ، فَإِذَا الْمُشْرِكُ قَدْ أَقْبَلَ فِي عِصَابَةٍ مِنَ التُّجَّارِ، فَلَمَّا أَنْ رَآنِي قَالَ: يَا حَبَشِيُّ قُلْتُ يَا لَبَّاهُ فَتَجَهَّمَنِي، وَقَالَ لِي قَوْلًا غَلِيظًا، وَقَالَ لِي: أَتَدْرِي كَمْ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الشَّهْرِ ؟ قَالَ: قُلْتُ قَرِيبٌ قَالَ: إِنَّمَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ أَرْبَعٌ فَآخُذُكَ بِالَّذِي عَلَيْكَ فَأَرُدُّكَ تَرْعَى الْغَنَمَ كَمَا كُنْتَ قَبْلَ ذَلِكَ، فَأَخَذَ فِي نَفْسِي مَا يَأْخُذُ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الْعَتَمَةَ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنَّ الْمُشْرِكَ الَّذِي كُنْتُ أَتَدَيَّنُ مِنْهُ قَالَ لِي: كَذَا وَكَذَا وَلَيْسَ عِنْدَكَ مَا تَقْضِي عَنِّي وَلَا عِنْدِي وَهُوَ فَاضِحِي فَأْذَنْ لِي أَنْ آبَقَ إِلَى بَعْضِ هَؤُلَاءِ الأَحْيَاءِ الَّذِينَ قَدْ أَسْلَمُوا حَتَّى يَرْزُقَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَقْضِي عَنِّي، فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا أَتَيْتُ مَنْزِلِي فَجَعَلْتُ سَيْفِي وَجِرَابِي وَنَعْلِي وَمِجَنِّي عِنْدَ رَأْسِي حَتَّى إِذَا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ الأَوَّلِ أَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ، فَإِذَا إِنْسَانٌ يَسْعَى يَدْعُو: يَا بِلَالُ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ فَإِذَا أَرْبَعُ رَكَائِبَ مُنَاخَاتٌ عَلَيْهِنَّ أَحْمَالُهُنَّ فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْشِرْ فَقَدْ جَاءَكَ اللَّهُ بِقَضَائِكَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ تَرَ الرَّكَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الأَرْبَعَ، فَقُلْتُ: بَلَى فَقَالَ: إِنَّ لَكَ رِقَابَهُنَّ وَمَا عَلَيْهِنَّ فَإِنَّ عَلَيْهِنَّ كِسْوَةً وَطَعَامًا أَهْدَاهُنَّ إِلَيَّ عَظِيمُ فَدَكَ فَاقْبِضْهُنَّ وَاقْضِ دَيْنَكَ، فَفَعَلْتُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ: مَا فَعَلَ مَا قِبَلَكَ ؟ قُلْتُ: قَدْ قَضَى اللَّهُ كُلَّ شَيْءٍ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَبْقَ شَيْءٌ، قَالَ: أَفَضَلَ شَيْءٍ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: انْظُرْ أَنْ تُرِيحَنِي مِنْهُ فَإِنِّي لَسْتُ بِدَاخِلٍ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَهْلِي حَتَّى تُرِيحَنِي مِنْهُ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَتَمَةَ دَعَانِي فَقَالَ: مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ ؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ مَعِي لَمْ يَأْتِنَا أَحَدٌ، فَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَقَصَّ الْحَدِيثَ حَتَّى إِذَا صَلَّى الْعَتَمَةَ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ دَعَانِي، قَالَ: مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ أَرَاحَكَ اللَّهُ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ شَفَقًا مِنْ أَنْ يُدْرِكَهُ الْمَوْتُ وَعِنْدَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ اتَّبَعْتُهُ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَزْوَاجَهُ، فَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ امْرَأَةٍ حَتَّى أَتَى مَبِيتَهُ فَهَذَا الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫৬
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ امام کے لئے مشرکین کا ہدیہ قبول کرنا
اس سند سے بھی ابوتوبہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ جب میں نے کہا کہ نہ آپ کے پاس اتنا مال ہے اور نہ میرے پاس کہ قرضہ ادا ہوجائے تو رسول اللہ ﷺ خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا تو مجھے بڑی گرانی ہوئی (کہ شاید رسول اللہ ﷺ نے میری بات پر توجہ نہیں دی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٠) (صحیح الإسناد )
حدیث نمبر: 3056 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، بِمَعْنَى إِسْنَادِ أَبِي تَوْبَةَ وَحَدِيثِهِ، قَالَ: عِنْدَ قَوْلِهِ مَا يَقْضِي عَنِّي فَسَكَتَ عَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاغْتَمَزْتُهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫৭
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ امام کے لئے مشرکین کا ہدیہ قبول کرنا
عیاض بن حمار (رض) کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک اونٹنی ہدیہ میں دی، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : کیا تم مسلمان ہوگئے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے مشرکوں سے تحفہ لینے کی ممانعت کردی گئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٢٤ (١٥٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٠١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے نجاشی، مقوقس، اکیدر دومہ اور رئیس فدک کے ہدایا قبول کئے تو یہ إني نهيت عن زبد المشرکين کے خلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ سب کے سب ہدایا اہل کتاب کے تھے نہ کہ مشرکین کے، گویا اہل کتاب کے ہدایا لینے درست ہیں نہ کہ مشرکین کے۔
حدیث نمبر: 3057 حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، قَالَ: أَهْدَيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةً، فَقَالَأَسْلَمْتَ، فَقُلْتُ: لَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫৮
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
وائل (رض) ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حضرموت ١ ؎ میں زمین کا ٹکڑا جاگیر میں دیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٣٩ (١٣٨١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٩٩) ، سنن الدارمی/البیوع ٦٦ (٢٦٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یمن کا ایک شہر ہے۔ ٢ ؎ : حاکم یا حکومت کی طرف سے رعایا کو دی گئی زمین کو جاگیر کہتے ہیں۔
حدیث نمبر: 3058 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَهُ أَرْضًا بِحَضْرَ مُوتَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৫৯
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
اس سند سے بھی علقمہ بن وائل سے اسی کے مثل روایت مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 3059 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬০
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں مجھے گھر بنانے کے لیے کمان سے نشان لگا کر ایک زمین دی اور فرمایا : میں تمہیں مزید دوں گا مزید دوں گا (فی الحال یہ لے لو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٨) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی خلفیہ مخزومی لین الحدیث ہیں )
حدیث نمبر: 3060 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فِطْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، قَالَ: خَطَّ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَارًا بِالْمَدِينَةِ بِقَوْسٍ، وَقَالَ: أَزِيدُكَ أَزِيدُكَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬১
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے کئی لوگوں سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث مزنی کو فرع ١ ؎ کی طرف کے قبلیہ ٢ ؎ کے کان دیئے، تو ان کانوں سے آج تک زکاۃ کے سوا کچھ نہیں لیا جاتا رہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٣ (٨) ، مسند احمد (١/٣٠٦) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے، اس میں مذکور جاگیر دینے والے واقعہ کی متابعت اور شواہد تو موجود ہیں مگر زکاة والے معاملہ کے متابعات و شواہد نہیں ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ ٢ ؎ : قبلیہ ایک گاؤں ہے جو فرع کے متعلقات میں سے ہے۔
حدیث نمبر: 3061 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ وَهِيَ مِنْ نَاحِيَةِ الْفُرْعِ فَتِلْكَ الْمَعَادِنُ لَا يُؤْخَذُ مِنْهَا إِلَّا الزَّكَاةُ إِلَى الْيَوْمِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬২
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
عمرو بن عوف مزنی (رض) ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حارث مزنی کو قبلیہ کی نشیب و فراز کی کانیں ٹھیکہ میں دیں ١ ؎۔ (ابوداؤد کہتے ہیں) اور دیگر لوگوں نے جلسيها وغوريها کہا ہے) اور قدس (ایک پہاڑ کا نام ہے) کی وہ زمین بھی دی جو قابل کاشت تھی اور وہ زمین انہیں نہیں دی جس پر کسی مسلمان کا حق اور قبضہ تھا، اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس کے لیے ایک دستاویز لکھ کردی، وہ اس طرح تھی : بسم الله الرحمن الرحيم، ، یہ دستاویز ہے اس بات کا کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث مزنی کو قبلیہ کے کانوں کا جو بلندی میں ہیں اور پستی میں ہیں، ٹھیکہ دیا اور قدس کی وہ زمین بھی دی جس میں کھیتی ہوسکتی ہے، اور انہیں کسی مسلمان کا حق نہیں دیا ۔ ابواویس راوی کہتے ہیں : مجھ سے بنو دیل بن بکر بن کنانہ کے غلام ثور بن زید نے بیان کیا، انہوں نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٠١٥، ١٠٧٧٧) (حسن) ( کثیر کی روایت متابعات و شواہد سے تقویت پا کر حسن ہے، ورنہ کثیر خود ضعیف راوی ہیں، ابن عباس (رض) کی روایت حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کے نام سے الاٹ کردیا۔
حدیث نمبر: 3062 حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ، وَغَيْرُهُ، قَالَ الْعَبَّاسُ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا، وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ وَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا أَعْطَى مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ أَعْطَاهُ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا، وَقَالَ غَيْرُ الْعَبَّاسُ: جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ. قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: وَحَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَوْلَى بَنِي الدِّيلِ بْنِ بَكْرِ بْنِ كِنَانَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৩
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
محمد بن نضر کہتے ہیں کہ میں نے حنینی کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اسے یعنی نبی اکرم ﷺ کے جاگیر نامہ کو کئی بار پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھ سے کئی ایک نے حسین بن محمد کے واسطہ سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں : مجھے ابواویس نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں : مجھ سے کثیر بن عبداللہ نے بیان کیا ہے وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حارث مزنی (رض) کو قبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں بطور جاگیر دیں۔ ابن نضر کی روایت میں ہے : اور اس کے جرس اور ذات النصب ١ ؎ کو دیا، پھر دونوں راوی متفق ہیں : اور قدس کی قابل کاشت زمین دی، اور بلال بن حارث کو کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا، اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں لکھ کردیا کہ یہ وہ تحریر ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث مزنی کو لکھ کردی، انہیں قبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں اور قدس کی قابل کاشت زمینیں دیں، اور انہیں کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا۔ ابواویس کہتے ہیں کہ ثور بن زید نے مجھ سے بیان کیا انہوں نے عکرمہ سے، عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے ہم مثل روایت کیا اور ابن نضر نے اتنا اضافہ کیا کہ (یہ دستاویز) ابی بن کعب (رض) نے لکھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دو جگہوں کے نام ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین کی قسموں کے نام ہیں۔
حدیث نمبر: 3063 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحُنَيْنِيَّ، قَالَ: قَرَأْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ يَعْنِي كِتَابَ قَطِيعَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وحَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا، قَالَ ابْنُ النَّضْرِ: وَجَرْسَهَا وَذَاتَ النُّصُبِ، ثُمَّ اتَّفَقَا وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ يُعْطِ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ حَقَّ مُسْلِمٍ، وَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا مَا أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ أَعْطَاهُ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ، قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: وَحَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، زَادَ ابْنُ النَّضْرِ، وَكَتَبَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৪
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
ابیض بن حمال ماربی (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے نمک کی کان کی جاگیر مانگی (ابن متوکل کی روایت میں ہے : جو مآرب ١ ؎ میں تھی) تو آپ ﷺ نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ واپس مڑے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے عرض کیا : جانتے ہیں کہ آپ نے ان کو کیا دے دیا ہے ؟ آپ نے ان کو ایسا پانی دے دیا ہے جو ختم نہیں ہوتا، بلا محنت و مشقت کے حاصل ہوتا ہے ٢ ؎ وہ کہتے ہیں : تو آپ ﷺ نے اسے واپس لے لیا، تب انہوں نے آپ سے پوچھا : پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ گھیری جائے ؟ ٣ ؎، آپ نے فرمایا : جہاں جانوروں کے پاؤں نہ پہنچ سکیں ٤ ؎۔ ابن متوکل کہتے ہیں : خفاف سے مراد أخفاف الإبل (یعنی اونٹوں کے پیر) ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٣٩ (١٣٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ١٧ (٢٤٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/البیوع ٦٦ (٢٦٥٠) (حسن لغیرہ) (یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے : ثمامہ لیّن، سمی مجہول اور شمیر لین ہیں، لیکن آنے والی حدیث (٣٠٦٦) سے تقویت پا کر یہ حسن ہوئی، اس کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے، البانی نے دوسرے طریق کی وجہ سے اس کی تحسین کی ہے، ما لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ کے استثناء کے ساتھ، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٨ ؍ ٣٨٨ ) وضاحت : ١ ؎ : یمن کے ایک گاؤں کا نام ہے۔ ٢ ؎ : یعنی یہ چیز تو سب کے استعمال و استفادہ کی ہے اسے کسی خاص شخص کی جاگیر میں دے دینا مناسب نہیں۔ ٣ ؎ : کہ جس میں اور لوگ نہ آسکیں اور اپنے جانور وہاں نہ چرا سکیں۔ ٤ ؎ : یعنی جو آبادی اور چراگاہ سے دور ہو۔
حدیث نمبر: 3064 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، الْمَعْنَى وَاحِد أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيَّحَدَّثَهُمْ، أَخْبَرَنِي أَبِي،عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ سُمَيِّ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ شُمَيْرٍ، قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ ابْنِ عَبْدِ الْمَدَانِ، عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ، أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْطَعَهُ الْمِلْحَ، قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: الَّذِي بِمَأْرِبَ فَقَطَعَهُ لَهُ فَلَمَّا أَنْ وَلَّى، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجْلِسِ: أَتَدْرِي مَا قَطَعْتَ لَهُ إِنَّمَا قَطَعْتَ لَهُ الْمَاءَ الْعِدَّ، قَالَ: فَانْتَزَعَ مِنْهُ، قَالَ وَسَأَلَهُ عَمَّا يُحْمَى مِنَ الأَرَاكِ، قَالَ: مَا لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ وَقَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: أَخْفَافُ الإِبِلِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৫
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
ہارون بن عبداللہ کہتے ہیں کہ محمد بن حسن مخزومی نے کہا : ما لم تنله أخفاف الإبل کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ کا سر جہاں تک پہنچے گا وہاں تک وہ کھائے ہی کھائے گا اس سے اوپر کا حصہ بچایا جاسکتا ہے (اس لیے ایسی جگہ گھیرو جہاں اونٹ جاتے ہی نہ ہوں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف جداً ) (محمد بن حسن مخزومی کذّاب راوی ہے )
حدیث نمبر: 3065 حدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَخْزُومِيُّ: مَا لَمْ تَنَلْهُ أَخْفَافُ الإِبِلِ يَعْنِي أَنَّ الإِبِلَ تَأْكُلُ مُنْتَهَى رُءُوسِهَا وَيُحْمَى مَا فَوْقَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৬
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
ابیض بن حمال ماربی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پیلو کی ایک چراگاہ مانگی ١ ؎ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پیلو میں روک نہیں ہے ، انہوں نے کہا : پیلو میرے باڑھ اور احاطے کے اندر ہیں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پیلو میں روک نہیں ہے (اس لیے کہ اس کی حاجت سبھی آدمیوں کو ہے) ۔ فرج کہتے ہیں : حظاری سے ایسی سر زمین مراد ہے جس میں کھیتی ہوتی ہو اور وہ گھری ہوئی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣) ، وقد أخرجہ : دی/ البیوع ٦٦ (٢٦٥٠) (حسن لغیرہ) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٨ ؍ ٣٩٠ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک احاطہ جس میں دوسرے لوگ آ کر نہ درخت کاٹیں نہ اس میں اپنے جانور چرائیں۔
حدیث نمبر: 3066 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حِمَى الأَرَاكِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حِمَى فِي الْأَرَاكِ، فَقَالَ: أَرَاكَةٌ فِي حِظَارِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حِمَى فِي الأَرَاكِ، قَالَ: فَرَجٌ يَعْنِي بِحِظَارِي الأَرْضَ الَّتِي فِيهَا الزَّرْعُ الْمُحَاطُ عَلَيْهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩০৬৭
محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
পরিচ্ছেদঃ زمین مقطعہ دینا
صخر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ثقیف سے جہاد کیا (یعنی قلعہ طائف پر حملہ آور ہوئے) چناچہ جب صخر (رض) نے اسے سنا تو وہ چند سوار لے کر نبی اکرم ﷺ کی مدد کے لیے نکلے تو دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ واپس ہوچکے ہیں اور قلعہ فتح نہیں ہوا ہے، تو صخر (رض) نے اس وقت اللہ سے عہد کیا کہ وہ قلعہ کو چھوڑ کر نہ جائیں گے جب تک کہ مشرکین رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک نہ جائیں اور قلعہ خالی نہ کردیں (پھر ایسا ہی ہوا) انہوں نے قلعہ کا محاصرہ اس وقت تک ختم نہیں کیا جب تک کہ مشرکین رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک نہ گئے۔ صخر (رض) نے آپ ﷺ کو لکھا : امّا بعد، اللہ کے رسول ! ثقیف آپ کا حکم مان گئے ہیں اور وہ اپنے گھوڑ سواروں کے ساتھ ہیں میں ان کے پاس جا رہا ہوں (تاکہ آگے کی بات چیت کروں) ، جب آپ ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے باجماعت نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور نماز میں احمس ١ ؎ کے لیے دس (باتوں کی) دعائیں مانگیں اور (ان دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی) : اللهم بارک لأحمس في خيلها ورجالها اے اللہ ! احمس کے سواروں اور پیادوں میں برکت دے ، پھر سب لوگ (یعنی ضحر (رض) اور ان کے ساتھی) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اس وقت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی اور کہا : اللہ کے نبی ! صخر نے میری پھوپھی کو گرفتار کرلیا ہے جب کہ وہ اس (دین) میں داخل ہوچکی ہیں جس میں سبھی مسلمان داخل ہوچکے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے صخر (رض) کو بلایا، اور فرمایا : صخر ! جب کوئی قوم اسلام قبول کرلیتی ہے تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو بچا اور محفوظ کرلیتی ہے، اس لیے مغیرہ کی پھوپھی کو انہیں لوٹا دو ، تو صخر (رض) نے مغیرہ (رض) کو ان کی پھوپھی واپس کردی، پھر صخر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے سلیمیوں کے پانی کے چشمے کو مانگا جسے وہ لوگ اسلام کے خوف سے چھوڑ کر بھاگ لیے تھے، صخر (رض) نے کہا : اللہ کے نبی ! آپ مجھے اور میری قوم کو اس پانی کے چشمے پہ رہنے اور اس میں تصرف کرنے کا حق و اختیار دے دیجئیے، آپ ﷺ نے کہا : ہاں ہاں (لے لو اور) رہو ، تو وہ لوگ رہنے لگے (اور کچھ دنوں بعد) بنو سلیم مسلمان ہوگئے اور صخر (رض) کے پاس آئے، اور صخر (رض) سے درخواست کی کہ وہ انہیں پانی (کا چشمہ) واپس دے دیں، صخر (رض) (اور ان کی قوم) نے دینے سے انکار کیا (اس خیال سے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ چشمہ انہیں اور ان کی قوم کو دے دیا ہے) تو وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے نبی ! ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم صخر کے پاس پہنچے (اور ان سے درخواست کی) کہ ہمارا پانی کا چشمہ ہمیں واپس دے دیں تو انہوں نے ہمیں لوٹانے سے انکار کردیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے صخر (رض) کو بلوایا اور فرمایا : صخر ! جب کوئی قوم اسلام قبول کرلیتی ہے تو اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیتی ہے (نہ اسے ناحق قتل کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کا مال لیا جاسکتا ہے) تو تم ان کو ان کا چشمہ دے دو صخر (رض) نے کہا : بہت اچھا اللہ کے نبی ! (صخر (رض) کہتے ہیں) میں نے اس وقت رسول اللہ ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا کہ وہ شرم و ندامت سے بدل گیا اور سرخ ہوگیا (یہ سوچ کر) کہ میں نے اس سے لونڈی بھی لے لی اور پانی بھی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٨٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٠) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٤ (١٧١٥) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ابان ضعیف الحفظ اور عثمان لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : احمس ایک قبیلہ ہے، صخر اسی قبیلہ کے ایک فرد تھے۔ ٢ ؎ : لونڈی وہی مغیرہ کی پھوپھی اور پانی وہی بنی سلیم کے پانی کا چشمہ۔
حدیث نمبر: 3067 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَبُو حَفْصٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ عُمَرُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ صَخْرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا ثَقِيفًا، فَلَمَّا أَنْ سَمِعَ ذَلِكَ صَخْرٌ رَكِبَ فِي خَيْلٍ يُمِدُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ انْصَرَفَ وَلَمْ يَفْتَحْ، فَجَعَلَ صَخْرٌ يَوْمَئِذٍ عَهْدَ اللَّهِ وَذِمَّتَهُ أَنْ لَا يُفَارِقَ هَذَا الْقَصْرَ حَتَّى يَنْزِلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُفَارِقْهُمْ حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ صَخْرٌ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ ثَقِيفًا قَدْ نَزَلَتْ عَلَى حُكْمِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا مُقْبِلٌ إِلَيْهِمْ وَهُمْ فِي خَيْلٍ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ جَامِعَةً فَدَعَا لِأَحْمَسَ عَشْرَ دَعَوَاتٍ اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأَحْمَسَ فِي خَيْلِهَا وَرِجَالِهَا، وَأَتَاهُ الْقَوْمُ فَتَكَلَّمَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّ صَخْرًا أَخَذَ عَمَّتِي وَدَخَلَتْ فِيمَا دَخَلَ فِيهِ الْمُسْلِمُونَ فَدَعَاهُ فَقَالَ: يَا صَخْرُ إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ فَادْفَعْ إِلَى الْمُغِيرَةِ عَمَّتَهُ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ وَسَأَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لِبَنِي سُلَيْمٍ قَدْ هَرَبُوا عَنِ الْإِسْلَامِ وَتَرَكُوا ذَلِكَ الْمَاءَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَنْزِلْنِيهِ أَنَا وَقَوْمِي، قَالَ: نَعَمْ فَأَنْزَلَهُ وَأَسْلَمَ، يَعْنِي السُّلَمِيِّينَ فَأَتَوْا صَخْرًا فَسَأَلُوهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَيْهِمُ الْمَاءَ فَأَبَى، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَسْلَمْنَا وَأَتَيْنَا صَخْرًا لِيَدْفَعَ إِلَيْنَا مَاءَنَا فَأَبَى عَلَيْنَا فَأَتَاهُ فَقَالَ: يَا صَخْرُ إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا أَمْوَالَهُمْ وَدِمَاءَهُمْ فَادْفَعْ إِلَى الْقَوْمِ مَاءَهُمْ، قَالَ: نَعَمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ عِنْدَ ذَلِكَ حُمْرَةً حَيَاءً مِنْ أَخْذِهِ الْجَارِيَةَ وَأَخْذِهِ الْمَاءَ.
তাহকীক: