আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
گواہیوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১২০ টি
হাদীস নং: ২৩৯৫
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مومن کی محبت کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٩ (٤٨٣٢) (تحفة الأشراف : ٤٠٤٩ و ٤٣٩٩) ، و مسند احمد (٣/٣٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مسلمان دنیا میں رہتے ہوئے اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے ، یہاں تک کہ کھانے کی دعوت دیتے وقت ایسے لوگوں کا انتخاب کرے جو متقی و پرہیزگار ہوں ، کیونکہ دعوت سے آپسی الفت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے کوشش یہ ہو کہ الف و محبت کسی پرہیزگار شخص سے ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (5018) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2395
حدیث نمبر: 2395 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ غَيْلَانَ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ قَيْسٍ التُّجِيبِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ سَالِمٌ، أَوْ عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৯৬
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصیبت پر صبر کرنے کے بارے میں
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں جلد سزا دے دیتا ہے ١ ؎، اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر (برائی) کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٤٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : (حديث : إذا أراد اللہ ... ) حسن صحيح، (حديث : إن عظم الجزاء .. ) حسن (حديث : إذا أراد الله .. ) ، الصحيحة (1220) ، المشکاة (1565) ، (حديث : إن عظم الجزاء ... ) ، ابن ماجة (4031) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2396
حدیث نمبر: 2396 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৯৭
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصیبت پر صبر کرنے کے بارے میں
ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے درد سے زیادہ درد کسی شخص کا نہیں دیکھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ٣ (٥٦٤٦) (تحفة الأشراف : ١٦١٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے اس تکلیف کی طرف اشارہ ہے جس سے مرض الموت میں آپ ﷺ دو چار ہوئے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1622) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2397
حدیث نمبر: 2397 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا رَأَيْتُ الْوَجَعَ عَلَى أَحَدٍ أَشَدَّ مِنْهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৯৮
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصیبت پر صبر کرنے کے بارے میں
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں ابوہریرہ اور حذیفہ بن یمان کی بہن فاطمہ (رض) سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ مصیبتیں کس پر زیادہ آتی ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : انبیاء و رسل پر پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں پھر جو ان کے بعد میں ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٣ (٤٠٢٣) (تحفة الأشراف : ٣٩٣٤) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٦٧ (٢٨٢٥) ، و مسند احمد (١/١٧٢، ١٧٤، ١٨٠، ١٨٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ جو بندہ اپنے ایمان میں جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر اس کی ابتلاء و آزمائش بھی ہوگی ، لیکن اس ابتلاء و آزمائش میں اس کے لیے ایک بھلائی کا بھی پہلو ہے کہ اس سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے ، اور بندہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (4023) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2398
حدیث نمبر: 2398 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُخْتِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৯৯
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مصیبت پر صبر کرنے کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن مرد اور مومن عورت کی جان، اولاد، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٥١١٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مومن ہمیشہ آزمائش سے دو چار رہے گا ، لیکن یہ آزمائشیں اس کے لیے اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں گی ، بشرطیکہ وہ صبر کا دامن پکڑے رہے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (2280) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2399
حدیث نمبر: 2399 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০০
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بینائی زائل ہونے کے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب میں اپنے بندے کی پیاری آنکھیں چھین لیتا ہوں تو میرے پاس اس کا بدلہ صرف جنت ہی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور زید بن ارقم (رض) سے احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ٧ (تعلیقا عقب حدیث رقم ٥٦٥٣، وھو أیضا عن أنس نحوہ) (تحفة الأشراف : ١٦٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : انسان کو جو نعمتیں رب العالمین کی جانب سے حاصل ہیں ، ان میں آنکھ ایک بڑی عظیم نعمت ہے ، یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جب کسی بندے سے یہ نعمت چھین لیتا ہے اور بندہ اس پر صبر و رضا سے کام لیتا ہے تو اسے قیامت کے دن اس نعمت کے بدل میں جس چیز سے نوازا جائے گا وہ جنت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (4 / 155 و 156) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2400
حدیث نمبر: 2400 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو ظِلَالٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: إِذَا أَخَذْتُ كَرِيمَتَيْ عَبْدِي فِي الدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَهُ جَزَاءٌ عِنْدِي إِلَّا الْجَنَّةَ ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو ظِلَالٍ اسْمُهُ: هِلَالٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০১
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بینائی زائل ہونے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے جس کی پیاری آنکھیں چھین لیں اور اس نے اس پر صبر کیا اور ثواب کی امید رکھی تو میں اسے جنت کے سوا اور کوئی بدلہ نہیں دوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عرباض بن ساریہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٢٣٨٦) ، و مسند احمد (٢/٢٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (4 / 156) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2401
حدیث نمبر: 2401 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَنْ أَذْهَبْتُ حَبِيبَتَيْهِ فَصَبَرَ وَاحْتَسَبَ لَمْ أَرْضَ لَهُ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ ، وفي الباب عن عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০২
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بینائی زائل ہونے کے متعلق
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب قیامت کے دن ایسے لوگوں کو ثواب دیا جائے گا جن کی دنیا میں آزمائش ہوئی تھی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کاش دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کتری جاتیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - بعض لوگوں نے اس حدیث کا کچھ حصہ «عن الأعمش عن طلحة بن مصرف عن مسروق» کی سند مسروق کے قول سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٢٧٧٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیاوی ابتلاء و آزمائش کا کس قدر عظیم ثواب ہے کہ قیامت کے دن عافیت اور امن و امان میں رہنے والے لوگ اس عظیم ثواب کی تمنا کریں گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (2206) ، التعليق الرغيب (4 / 146) ، المشکاة (1570) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2402
حدیث نمبر: 2402 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، وَيُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ أَبُو زُهَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَى أَهْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَهُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَوْلَهُ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০৩
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بینائی زائل ہونے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی مرتا ہے وہ نادم و شرمندہ ہوتا ہے ، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! شرم و ندامت کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اگر وہ شخص نیک ہے تو اسے اس بات پر ندامت ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکی نہ کرسکا، اور اگر وہ بد ہے تو نادم ہوتا ہے کہ میں نے بدی سے اپنے آپ کو نکالا کیوں نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - یحییٰ بن عبیداللہ کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے، اور یہ یحییٰ بن عبیداللہ بن موہب مدنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤١٢٣) (ضعیف جداً ) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، المشکاة (5545) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2403
حدیث نمبر: 2403 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُوتُ إِلَّا نَدِمَ ، قَالُوا: وَمَا نَدَامَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: إِنْ كَانَ مُحْسِنًا نَدِمَ أَنْ لَا يَكُونَ ازْدَادَ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا نَدِمَ أَنْ لَا يَكُونَ نَزَعَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَيَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ، وَهُوَ يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ مَدَنِيٌّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০৪
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بینائی زائل ہونے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے ساتھ دنیا کے بھی طلب گار ہوں گے، وہ لوگوں کو اپنی سادگی اور نرمی دکھانے کے لیے بھیڑ کی کھال پہنیں گے، ان کی زبانیں شکر سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی جب کہ ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا یہ لوگ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا مجھ پر جرات کرتے ہیں میں اپنی ذات کی قسم کھاتا ہوں کہ ضرور میں ان پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقلمند آدمی بھی حیران رہ جائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٤١٢٢) (ضعیف جداً ) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، التعليق الرغيب (1 / 32) // ضعيف الجامع الصغير (6419) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2404
حدیث نمبر: 2404 حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ، يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنَ اللِّينِ، أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ السُّكَّرِ، وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الذِّئَابِ، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُونَ، فَبِي حَلَفْتُ لَأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ مِنْهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا ، وفي الباب عن ابْنِ عُمَرَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০৫
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بینائی زائل ہونے کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے جن کی زبانیں شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہیں اور ان کے دل ایلوا کے پھل سے بھی زیادہ کڑوے ہیں، میں اپنی ذات کی قسم کھاتا ہوں ! کہ ضرور میں ان کے درمیان ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقلمند آدمی بھی حیران رہ جائے گا، پھر بھی یہ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا جرات کرتے ہیں ؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث ابن عمر (رض) کی روایت سے حسن غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧١٤٨) (ضعیف) (سند میں حمزہ بن أبی محمد ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 32) // ضعيف الجامع الصغير (162) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2405
حدیث نمبر: 2405 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، أَخْبَرَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، أَخْبَرَنَا حَمْزَةُ بْنُ أَبِي مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ: لَقَدْ خَلَقْتُ خَلْقًا أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ وَقُلُوبُهُمْ أَمَرُّ مِنَ الصَّبْرِ، فَبِي حَلَفْتُ لَأُتِيحَنَّهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا، فَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُونَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০৬
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! نجات کی کیا صورت ہے ؟ آپ نے فرمایا : اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٩٢٨) ، وانظر مسند احمد (٤/١٤٨) ، و (٥/٢٥٩) (صحیح) (یہ سند مشہور ضعیف اسانید میں سے ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے الصحیحة رقم : ٨٩٠ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں زبان کی حفاظت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے ، کیونکہ اسے کنٹرول میں نہ رکھنے کی صورت میں اس سے بکثرت گناہ صادر ہوتے ہیں ، اس لیے لایعنی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے اور کوشش یہ ہو کہ ہمیشہ زبان سے خیر ہی نکلے ، ایسے لوگوں اور مجالس سے دور رہنا چاہیئے جن سے شر کا خطرہ ہو ، بحیثیت انسان غلطیاں ضرور ہوں گی ان کی تلافی کے لیے رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہار کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (888) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2406
حدیث نمبر: 2406 حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، ح وحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا النَّجَاةُ ؟ قَالَ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০৭
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں : تو ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٠٣٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں زبان کو سارے اعضاء کے سدھار کا مرکز بتایا گیا ہے ، حالانکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا مرکز دل ہے ، توفیق کی صورت یہ ہے کہ زبان کو جسم کے ترجمان کی حیثیت حاصل ہے ، اس لیے مجازا اسے سارے اعضاء کا مرکز کہا گیا ، ورنہ مرکز دل ہے نہ کہ زبان۔ قال الشيخ الألباني : حسن، المشکاة (4838 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2407
حدیث نمبر: 2407 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الصَّهْبَاءِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَفَعَهُ، قَالَ: إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ، فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ، فَتَقُولُ: اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০৮
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مجھ سے اپنی دونوں ڈاڑھوں اور دونوں ٹانگوں کے بیچ کا ضامن ہو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث سہل بن سعد کی روایت سے حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٢٣ (٦٤٧٤) ، والحدود ١٩ (٦٨٠٧) (تحفة الأشراف : ٤٧٣٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ زبان اور شرمگاہ گناہوں کے صدور کا اصل مرکز ہیں ، اسی لیے ان کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے ، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں کی حفاظت کی ضمانت دینے والوں کے لیے جنت کی ضمانت دی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (3 / 197) ، الضعيفة (2302) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2408
حدیث نمبر: 2408 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يَتَكَفَّلُ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ، وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ، أَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪০৯
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے اللہ نے اس کی ٹانگوں اور ڈاڑھوں کے درمیان کی چیز کے شر و فساد سے بچا لیا وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - ابوہریرہ (رض) سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمان ہے، یہ عزہ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور کوفی ہیں اور سہل بن سعد سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمہ بن دینار ہے جو زاہد مدنی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٣٤٢٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الصحيحة (510) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2409
حدیث نمبر: 2409 حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ وَقَاهُ اللَّهُ شَرَّ مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَشَرَّ مَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: أَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ اسْمُهُ: سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ وَهُوَ كُوفِيٌّ، وَأَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَى عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ هُوَ أَبُو حَازِمٍ الزَّاهِدُ مَدَنِيٌّ وَاسْمُهُ: سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪১০
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق
سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھ سے ایسی بات بیان فرمائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں، آپ نے فرمایا : کہو : میرا رب (معبود حقیقی) اللہ ہے پھر اسی عہد پر قائم رہو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو مجھ سے کس چیز کا زیادہ خوف ہے ؟ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا : اسی کا زیادہ خوف ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث سفیان بن عبداللہ ثقفی سے کئی سندوں سے مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١٤ (٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٢) (تحفة الأشراف : ٤٤٧٨) ، و مسند احمد (٣/٤١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3972) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2410
حدیث نمبر: 2410 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَاعِزٍ، عَنْسُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ حَدِّثْنِي بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ، قَالَ: قُلْ رَبِّيَ اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقِمْ ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪১১
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام سے پرہیز کرو اس لیے کہ ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام دل کو سخت بنا دیتا ہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٧١٢٣) (ضعیف) (سند میں ابراہیم میں قدرے کلام ہے، یہ حدیث رسول ﷺ نہیں بلکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اقوال میں سے ہے جس کو ابراہیم نے حدیث رسول بنادیا ہے، دیکھیے الضعیفة : ٩٠٨، و ٩٢٠ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (920) ، المشکاة (2276 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6265) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2411
حدیث نمبر: 2411 حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي ثَلْجٍ الْبَغْدَادِيُّ صَاحِبُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُكْثِرُوا الْكَلَامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الْكَلَامِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللَّهِ الْقَلْبُ الْقَاسِي .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪১২
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زبان کی حفاظت کرنے کے متعلق
ام المؤمنین حبیبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انسان کی ساری باتیں اس کے لیے وبال ہیں ان میں سے اسے امربالمعروف، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے سوا اسے کسی اور کا ثواب نہیں ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے اسے ہم صرف محمد بن یزید بن خنیس کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٤) (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٧) (ضعیف) (سند میں ” محمد بن یزید بن خنیس “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3974) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (861) ، ضعيف الجامع الصغير (4283) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2412
حدیث نمبر: 2412 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ الْمَكِّيُّ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيَّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ صَالِحٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُلُّ كَلَامِ ابْنِ آدَمَ عَلَيْهِ لَا لَهُ، إِلَّا أَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ، أَوْ ذِكْرُ اللَّهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪১৩
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سلمان اور ابو الدرداء کے مابین بھائی چارہ کروایا تو ایک دن سلمان نے ابوالدرداء (رض) کی زیارت کی، دیکھا کہ ان کی بیوی ام الدرداء معمولی کپڑے میں ملبوس ہیں، چناچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری اس حالت کی کیا وجہ ہے ؟ ان کی بیوی نے جواب دیا : تمہارے بھائی ابوالدرداء (رض) کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے کہ جب ابو الدرداء گھر آئے تو پہلے انہوں نے سلمان (رض) کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا : کھاؤ میں آج روزے سے ہوں۔ سلمان (رض) نے کہا : میں نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ۔ چناچہ سلمان نے بھی کھایا۔ پھر جب رات آئی تو ابوالدرداء (رض) تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے، تو سلمان نے ان سے کہا : سو جاؤ وہ سو گئے۔ پھر تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا سو جاؤ، چناچہ وہ سو گئے، پھر جب صبح قریب ہوئی تو سلمان نے ان سے کہا : اب اٹھ جاؤ چناچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمان نے ان سے کہا : تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو ، اس کے بعد دونوں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس گفتگو کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا : سلمان نے سچ کہا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥ (١٩٦٨) ، والأدب ٨٦ (٦١٣٩) (تحفة الأشراف : ١١٨١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں بہت سارے فوائد ہیں : ایک بھائی کا دوسرے بھائی کی زیارت کرنا تاکہ اس کے حالات سے آگاہی ہو ، عبادت کا وہی طریقہ اپنانا چاہیئے جو مسنون ہے تاکہ دوسروں کے حقوق کی پامالی نہ ہو ، زیارت کے وقت اپنے بھائی کو اچھی باتوں کی نصیحت کرنا اور اس کی کوتاہیوں سے اسے باخبر کرنا ، کسی پریشان حال کی پریشانی کی بابت اس سے معلومات حاصل کرنا ، رات کی عبادت کا اہتمام کرنا وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2413
حدیث نمبر: 2413 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ وَبَيْنَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ: مَا شَأْنُكِ مُتَبَذِّلَةً ؟ قَالَتْ: إِنَّ أَخَاكَ أَبَا الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ قَرَّبَ إِلَيْهِ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لِيَقُومَ، فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: نَمْ، فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ، فَقَالَ لَهُ: نَمْ، فَنَامَ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الصُّبْحِ قَالَ لَهُ سَلْمَانُ: قُمِ الْآنَ فَقَامَا فَصَلَّيَا، فَقَالَ: إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ ، فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَا ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ: صَدَقَ سَلْمَانُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعُمَيْسِ اسْمُهُ: عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ أَخُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪১৪
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
عبدالوہاب بن ورد سے روایت ہے کہ ان سے مدینہ کے ایک شخص نے بیان کیا : معاویہ (رض) نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس ایک خط لکھا کہ مجھے ایک خط لکھئیے اور اس میں کچھ وصیت کیجئے۔ چناچہ عائشہ (رض) نے معاویہ (رض) کے پاس خط لکھا : دعا و سلام کے بعد معلوم ہو کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جو لوگوں کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو تو لوگوں سے پہنچنے والی تکلیف کے سلسلے میں اللہ اس کے لیے کافی ہوگا اور جو اللہ کی ناراضگی میں لوگوں کی رضا کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو اسے تکلیف دینے کے لیے مقرر کر دے گا ، (والسلام علیک تم پر اللہ کی سلامتی نازل ہو) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٨١٥) (صحیح) (سند میں ایک راوی ” رجل من أھل المدینة “ مبہم ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الصحیحة رقم : ٢٣١١ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا مندی ہر چیز پر مقدم ہے ، اس لیے اگر کوئی ایسا امر پیش ہو جسے انجام دینے سے اللہ کی رضا مندی حاصل ہوگی لیکن لوگوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا تو لوگوں کو نظر انداز کر کے اللہ کی رضا مندی کا طالب بنے ، کیونکہ ایسی صورت میں اسے اللہ کی نصرت و تائید حاصل رہے گی ، اور اگر بندوں کے غیض و غضب سے خائف ہو کر اللہ کی رضا کو بھول بیٹھا تو ایسا شخص رب العالمین کی نصرت و تائید سے محروم رہے گا ، ساتھ ہی اسے انہی بندوں کے ذریعہ ایسی ایذا اور تکلیف پہنچائے گا جو اس کے لیے باعث ندامت ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2311) ، تخريج الطحاوية (278) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2414
حدیث نمبر: 2414 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ الْوَرْدِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنِ اكْتُبِي إِلَيَّ كِتَابًا تُوصِينِي فِيهِ وَلَا تُكْثِرِي عَلَيَّ، فَكَتَبَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى مُعَاوِيَةَ سَلَامٌ عَلَيْكَ، أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنِ الْتَمَسَ رِضَاءَ اللَّهِ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللَّهُ مُؤْنَةَ النَّاسِ، وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَاءِ النَّاسِ بِسَخَطِ اللَّهِ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ ،
তাহকীক: