আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
گواہیوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১২০ টি
হাদীস নং: ২৩৩৫
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ امیدوں کے کم ہونے کے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے گزرے، ہم اپنا چھپر کا مکان درست کر رہے تھے، آپ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ گھر بوسیدہ ہوچکا ہے، لہٰذا ہم اس کو ٹھیک کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا : میں تو معاملے (موت) کو اس سے بھی زیادہ قریب دیکھ رہا ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ١٦٩ (٥٢٣٥) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١٣ (٤١٦٠) (تحفة الأشراف : ٨٦٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ کے ارشاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مکان کی لیپا پوتی اور اس کی اصلاح و مرمت نہ کی جائے بلکہ مراد اس سے موت کی یاد دہانی ہے ، تاکہ موت ہر وقت انسان کے سامنے رہے اور کسی وقت بھی اس سے غفلت نہ برتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5275 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2335
حدیث نمبر: 2335 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا، فَقَالَ: مَا هَذَا ؟ فَقُلْنَا: قَدْ وَهَى فَنَحْنُ نُصْلِحُهُ، قَالَ: مَا أَرَى الْأَمْرَ إِلَّا أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ يُحْمِدَ، وَيُقَالُ: ابْنُ أَحْمَدَ الثَّوْرِيُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৩৬
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ اس امت کا فتنہ مال میں ہے
کعب بن عیاض (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش مال میں ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس حدیث کو ہم معاویہ بن صالح کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١١١٢٩) ، و مسند احمد (٤/١٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : فتنہ سے مراد آزمائش ہے ، اس حدیث میں اس امت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ مال کی محبت میں اعتدال سے کام لے ، ورنہ وہ اس آزمائش میں ناکام ہوسکتی ہے اور یہ مال جو اللہ کی نعمت ہے اس کے لیے شدید عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (594) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2336
حدیث نمبر: 2336 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عِيَاضٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً، وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৩৭
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اگر کسی شخص کے پاس دو وادیاں مال سے بھری ہوں تب بھی اسے تیسری کی حرص ہو گی
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر آدمی کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہوگی اور اس کا پیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی سے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس سے توبہ کرے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابی بن کعب، ابو سعید خدری، عائشہ، ابن زبیر، ابو واقد، جابر، ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٠ (٦٤٣٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٩ (١٠٤٨) (تحفة الأشراف : ١٥٠٨) ، و مسند احمد (٣/١٢٢، ١٧٦، ١٩٢، ١٩٨، ٢٣٨، ٢٧٢) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٦٢ (٢٨٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ ابن آدم کے اندر دنیاوی حرص اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کہ اس کے پاس مال کی بہتات ہو پھر بھی اسے آسودگی نہیں ہوتی یہاں تک کہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے پھر قبر کی مٹی سے ہی وہ آسودہ ہوتا ہے ، لیکن اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں دنیا سے بےرغبتی ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ انہیں دنیاوی حرص سے محفوظ رکھتا ہے ، اور قناعت کی دولت سے وہ سب مالا مال ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح تخريج مشكلة الفقر (14) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2337
حدیث نمبر: 2337 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ ذَهَبٍ لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ ثَانِيًا، وَلَا يَمْلَأُ فَاهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَأَبِي وَاقِدٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৩৮
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ بوڑھے کا دل دو چیزوں کی محبت پر جوان ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دو چیزوں کی محبت میں بوڑھے کا دل جوان رہتا ہے : لمبی زندگی کی محبت، دوسرے مال کی محبت ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢٣٣) (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٩) ، و مسند احمد (٢/٣١٧، ٣٣٥، ٣٣٨، ٣٣٩، ٣٥٨، ٣٧٩، ٣٩٤، ٤٤٣، ٤٤٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ بوڑھے کا دل لمبی عمر کی خواہش اور کثرت مال کی محبت سے سرشار ہوتا ہے ، یعنی بوڑھا ہونے کے باوجود اس کے اندر مال کی ہوس اور عمر کی زیادتی کی تمنا یہ دونوں خواہشیں جوان ہوتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (4233) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2338
حدیث نمبر: 2338 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ: طُولُ الْحَيَاةِ وَكَثْرَةُ الْمَالِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৩৯
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ بوڑھے کا دل دو چیزوں کی محبت پر جوان ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے البتہ اس کے اندر دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک (لمبی) زندگی کی خواہش، دوسرے مال کی حرص ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٩ (١٠٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢٣٤) (تحفة الأشراف : ١٤٣٤) ، و مسند احمد (٣/١١٥، ١١٩، ١٦٩، ١٩٢، ٢٥٦، ٢٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4234) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2339
حدیث نمبر: 2339 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪০
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں
ابوذر غفاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : دنیا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے اور مال کو برباد کر دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے، اس پر تم کو اس مال سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہیں مصیبت کے ثواب کی اس قدر رغبت ہو کہ جب تم مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ تو خواہش کرو کہ یہ مصیبت باقی رہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ٢ - راوی حدیث عمرو بن واقد منکرالحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١ (٤١٠٠) (تحفة الأشراف : ١١٩٢٥) (ضعیف جداً ) (سند میں عمرو بن واقد متروک الحدیث راوی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، ابن ماجة (4100) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (894) ، المشکاة (5301 / التحقيق الثاني) ، ضعيف الجامع الصغير (3194) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2340
حدیث نمبر: 2340 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا لَيْسَتْ بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ وَلَا إِضَاعَةِ الْمَالِ، وَلَكِنَّ الزَّهَادَةَ فِي الدُّنْيَا أَنْ لَا تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِمَّا فِي يَدَيِ اللَّهِ، وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أَنْتَ أُصِبْتَ بِهَا أَرْغَبَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ اسْمُهُ عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪১
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کرسکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کرسکے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث حریث بن سائب کی روایت سے ہے، ٣ - میں نے ابوداؤد سلیمان بن سلم بلخی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نضر بن شمیل نے کہا : «جلف الخبز» کا مطلب ہے وہ روٹی ہے جس کے ساتھ سالن نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٧٩٠) ، وانظر مسند احمد (١/٦٢) (ضعیف) (سند میں حریث وہم کے شکار ہوجایا کرتے تھے، اسی لیے اسرائیلی روایات کو انہوں نے مرفوع سمجھ کر روایت کردیا ہے، دیکھیے : الضعیفة رقم ١٠٦٣ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1063) ، نقد الکتاني ص (22) // ضعيف الجامع الصغير (4914) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2341
حدیث نمبر: 2341 حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا حُرَيْثُ بْنُ السَّائِبِ، قَال: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي حُمْرَانُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثُ الْحُرَيْثِ بْنِ السَّائِبِ، وَسَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنَ سَلْمٍ الْبَلْخِيَّ يَقُولُ: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: جِلْفُ الْخُبْزِ يَعْنِي: لَيْسَ مَعَهُ إِدَامٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪২
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں
عبداللہ بن شخیر (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور آپ «ألهاكم التکاثر» کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ تمہارا مال صرف وہ ہے جو تم نے صدقہ کردیا اور اسے آگے چلا دیا ١ ؎، اور کھایا اور اسے ختم کردیا یا پہنا اور اسے پرانا کردیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٥٩) ، سنن النسائی/الوصایا ١ (٣٦٤٣) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر ” التکاثر “ (٣٣٤٩) (تحفة الأشراف : ٥٣٤٦) ، و مسند احمد (٤/٢٤، ٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنا مال سمجھتا ہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطر اس نے صدقہ کردیا ، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے ، باقی مال کھا پی کر اسے ختم کردیا یا پہن کر اسے بوسیدا اور پرانا کردیا ، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا ، اس حدیث میں مستحقین پر اور اللہ کی پسندیدہ راہوں پر خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2342
حدیث نمبر: 2342 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ سورة التكاثر آية 1، قَالَ: يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي، وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪৩
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں
ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : ابن آدم ! اگر تو اپنی حاجت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو یہ تیرے لیے بہتر ہوگا، اور اگر تو اسے روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہوگا، اور بقدر کفاف خرچ کرنے میں تیری ملامت نہیں کی جائے گی اور صدقہ و خیرات دیتے وقت ان لوگوں سے شروع کر جن کی کفالت تیرے ذمہ ہے، اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے ہاتھ (مانگنے والے) سے بہتر ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٢ (١٠٣٦) (تحفة الأشراف : ٤٨٧٩) ، و مسند احمد (٥/٢٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اس سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت و حاجت کا خیال رکھو اور ضرورت سے زائد مال حاجتمندوں اور مستحقین کے درمیان تقسیم کر دو کیونکہ جمع خوری کا نتیجہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ صحیح نہیں ، جمع خوری سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ، اور آخرت میں بخل کا جو انجام ہے وہ بالکل واضح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (3 / 318 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2343
حدیث نمبر: 2343 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ هُوَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ إِنْ تَبْذُلِ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَكَ، وَإِنْ تُمْسِكْهُ شَرٌّ لَكَ، وَلَا تُلَامُ عَلَى كَفَافٍ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَشَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُكْنَى: أَبَا عَمَّارٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪৪
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٤ (٤١٦٤) (تحفة الأشراف : ١٠٥٨٦) ، و مسند احمد (١/٣٠، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ مومن کی زندگی رزق و معیشت کی فکر سے خالی ہونی چاہیئے ، اور اس کا دل پرندوں کی طرح ہونا چاہیئے جو اپنے لیے کچھ جمع کر کے نہیں رکھتے بلکہ ہر روز صبح تلاش رزق میں نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر لوٹتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4164) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2344
حدیث نمبر: 2344 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَالِكٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪৫
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے، ان میں ایک نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں رہتا تھا اور دوسرا محنت و مزدوری کرتا تھا، محنت و مزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا : شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : محنت مزدوری کرنے والے نے یہ شکایت کی کہ یہ کمانے میں میرا تعاون نہیں کرتا اور میرے ساتھ کھاتا ہے ، اس پر آپ ﷺ نے شکایت کرنے والے کی یہ فہمائش کی کہ وہ علم دین سیکھنے کے لیے میرے پاس رہتا ہے ، اس لیے یہ سمجھو کہ تم کو جو تمہاری کمائی سے روزی ملتی ہے اس میں اس کی برکت بھی شامل ہے ، اس لیے تم گھمنڈ میں مت مبتلا ہوجاؤ ، واضح رہے کہ دوسرا بھائی یونہی بیکار نہیں بیٹھا رہتا تھا ، یا یونہی کام چوری نہیں کرتا تھا ، علم دین کی تحصیل میں مشغول رہتا تھا ، اس لیے اس حدیث سے بےکاری اور کام چوری کی دلیل نہیں نکالی جاسکتی ، بلکہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اللہ کے راستہ میں لگنے والوں کی تائید اور معاونت دیگر اہل خانہ کیا کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5308) ، الصحيحة (2769) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2345
حدیث نمبر: 2345 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَخَوَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ أَحَدُهُمَا يَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ يَحْتَرِفُ، فَشَكَا الْمُحْتَرِفُ أَخَاهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪৬
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں
عبیداللہ بن محصن خطمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف مروان بن معاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢ - اور «حيزت» کا مطلب یہ ہے کہ جمع کی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٩ (٤١٤١) (تحفة الأشراف : ٩٧٣٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2346 اس سند سے بھی عبیداللہ بن محصن خطمی (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اس باب میں ابوالدرداء (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (حسن ) وضاحت : ؎ : مفہوم یہ ہے کہ امن و صحت کے ساتھ ایک دن کی روزی والی زندگی دولت کے انبار والی اس زندگی سے کہیں بہتر ہے جو امن و صحت والی نہ ہو، گویا انسان کو مال و دولت کے پیچھے زیادہ نہیں بھاگنا چاہیے بلکہ صبر و قناعت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ امن و سکون اور راحت و آسائش اسی میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4141) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2346
حدیث نمبر: 2346 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي شُمَيْلَةَ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِحْصَنٍ الْخَطْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ، مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وَحِيزَتْ: جُمِعَتْ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ نَحْوَهُ، وفي الباب عن أَبِي الدَّرْدَاءِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪৭
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گزارے کے لائق روزی پر صبر کرنا
ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے دوستوں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ رشک کرنے کے لائق وہ مومن ہے جو مال اور اولاد سے ہلکا پھلکا ہو، نماز میں جسے راحت ملتی ہو، اپنے رب کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرنے والا ہو، اور خلوت میں بھی اس کا مطیع و فرماں بردار رہا ہو، لوگوں کے درمیان ایسی گمنامی کی زندگی گزار رہا ہو کہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جاتا، اور اس کا رزق بقدر «کفاف» ہو پھر بھی اس پر صابر رہے، پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور فرمایا : جلدی اس کی موت آئے تاکہ اس پر رونے والیاں تھوڑی ہوں اور اس کی میراث کم ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٩٠٩) (ضعیف) (یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، عبیداللہ بن زحرعن علی بن یزید عن القاسم سب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : تراجع الالبانی ٣٦٤ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (5189 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1397) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2347
حدیث نمبر: 2347 أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أَغْبَطَ أَوْلِيَائِي عِنْدِي لَمُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ذُو حَظٍّ مِنَ الصَّلَاةِ أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَأَطَاعَهُ فِي السِّرِّ وَكَانَ غَامِضًا فِي النَّاسِ لَا يُشَارُ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ وَكَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا فَصَبَرَ عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ نَفَضَ بِيَدِهِ، فَقَالَ: عُجِّلَتْ مَنِيَّتُهُ قَلَّتْ بَوَاكِيهِ قَلَّ تُرَاثُهُ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪৮
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گزارے کے لائق روزی پر صبر کرنا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اور بقدر «کفاف» اسے روزی حاصل ہوئی اور اللہ نے اسے (اپنے دئیے ہوئے پر) «قانع» بنادیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٤٣ (١٠٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٩ (٤١٣٨) (تحفة الأشراف : ٨٨٤٨) ، و مسند احمد (٢/١٦٨، ١٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آخرت کی کامیابی کا دارومدار صرف اور صرف اسلام ہے ، اگر بدقسمتی سے کسی کا دامن دولت اسلام سے خالی رہا تو دنیا بھر کے خزانے اسے اخروی کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتے ، اسی طرح بقدر ضرورت اور برابر سرابر والی زندگی میں جو امن و سکون میسر ہے وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی خواہش رکھنے والے انسان کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتی ، گویا بقدر کفاف روزی کے ساتھ قناعت و استغنا کامل جانا امن و سکون کی ضمانت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4138) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2348
حدیث نمبر: 2348 حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَكَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪৯
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گزارے کے لائق روزی پر صبر کرنا
فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مبارکبادی ہو اس شخص کو جسے اسلام کی ہدایت ملی اور اسے بقدر «کفاف» روزی ملی پھر وہ اسی پر قانع و مطمئن رہا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ابوہانی کا نام حمید بن ہانی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١١٠٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (2 / 11) ، الصحيحة (1506) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2349
حدیث نمبر: 2349 حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، أَنَّأَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: طُوبَى لِمَنْ هُدِيَ إِلَى الْإِسْلَامِ وَكَانَ عَيْشُهُ كَفَافًا وَقَنَعَ ، قَالَ: وَأَبُو هَانِئٍ اسْمُهُ: حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫০
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فقر کی فضیلت کے بارے میں
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا : جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو ، اس نے پھر کہا : اللہ کی قسم ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا : جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو ، اس نے پھر کہا : اللہ کی قسم ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، اسی طرح تین دفعہ کہا تو آپ نے فرمایا : اگر تم مجھ سے واقعی محبت کرتے ہو تو فقر و محتاجی کا ٹاٹ تیار رکھو اس لیے کہ جو شخص مجھے دوست بنانا چاہتا ہے اس کی طرف فقر اتنی تیزی سے جاتا ہے کہ اتنا تیز سیلاب کا پانی بھی اپنے بہاؤ کے رخ پر نہیں جاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٦٤٧) (ضعیف) (سند میں ” جابر بن عمرو ابو الوازع “ وہم کے شکار ہوجایا کرتے تھے، اور اسی لیے یہ منکر حدیث روایت کردی، دیکھیے الضعیفہ رقم : ١٦٨١ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1681) // ضعيف الجامع الصغير (1297) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2350
حدیث نمبر: 2350 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَةَ الرَّاسِبِيُّ، عَنْ أَبِي الْوَازِعِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، فَقَالَ: انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ؟ قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، فَقَالَ: انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ؟ قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫১
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ فقرا مہاجرین امرا سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہاجر فقراء جنت میں مالدار مہاجر سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٦ (٤١٢٣) (تحفة الأشراف : ٤٢٠٧) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس لیے کہ غریب مہاجر کے پاس چونکہ مال کم تھا ، اس لیے انہیں حساب و کتاب میں زیادہ تاخیر نہیں ہوگی ، جب کہ مالدار مہاجرین کو مال کے حساب میں بہت تاخیر ہوگی ، اس سے غریب کی فضیلت معلوم ہوئی۔ آخرت کا آدھا دن دنیا کے پانچ سو سال کے برابر ہوگا ، اس لحاظ سے جس حدیث میں آدھے دن کا ذکر ہے اس سے آخرت کا آدھا دن مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4123) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2351
حدیث نمبر: 2351 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِخَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ فقرا مہاجرین امرا سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی : «اللهم أحيني مسكينا وأمتني مسكينا واحشرني في زمرة المساکين يوم القيامة» یا اللہ ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں وفات دے اور قیامت کے روز مسکینوں کے زمرے میں اٹھا ، ام المؤمنین عائشہ (رض) نے دریافت کیا اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ؟ آپ نے فرمایا : اس لیے کہ مساکین جنت میں اغنیاء سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے، لہٰذا اے عائشہ کسی بھی مسکین کو دروازے سے واپس نہ کرو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی سہی، عائشہ ! مسکینوں سے محبت کرو اور ان سے قربت اختیار کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تم کو روز قیامت اپنے سے قریب کرے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥١٩) (صحیح ) وضاحت : ٢ ؎ : اس حدیث میں تواضع کے اپنانے اور کبر و نخوت سے دور رہنے کی ترغیب ہے ، ساتھ ہی فقراء مساکین سے محبت اور ان سے قربت اختیار کرنے کی تعلیم ہے۔ قال الشيخ الألباني : (حديث أنس : اللهم أحيني ... ) صحيح، (من أول قول عائشة : لم يا رسول الله ؟ قال : إنهم يدخلون .... ) ضعيف جدا (حديث أنس : اللهم أحيني ... ) ، ابن ماجة (4126) // صحيح سنن ابن ماجة باختصار السند برقم (3328) //، (من أول قول عائشة : لم يا رسول الله ؟ .... ) ، الإرواء (3 / 359) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (861) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2352
حدیث نمبر: 2352 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَابِدُ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ النُّعْمَانِ اللَّيْثِيُّ، عَنْ أَنَسٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: إِنَّهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا، يَا عَائِشَةُ لَا تَرُدِّي الْمِسْكِينَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، يَا عَائِشَةُ أَحِبِّي الْمَسَاكِينَ وَقَرِّبِيهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ فقرا مہاجرین امرا سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فقراء جنت میں مالداروں سے پانچ سو برس پہلے داخل ہوں گے اور یہ قیامت کے آدھا دن کے برابر ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٦ (٤١٢٢) (تحفة الأشراف : ١٥٠٢٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں پانچ سو سال کا ذکر ہے ، جب کہ اس سے پہلے والی حدیث میں چالیس سال کا ذکر ہے ، مدت میں فرق فقراء کے درجات و مراتب میں فرق کے لحاظ سے ہے ، معلوم ہوا کہ کچھ فقراء اپنے مراتب و درجات کے لحاظ سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے جب کہ کچھ فقراء چالیس سال پہلے جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (4122) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2353
حدیث نمبر: 2353 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَدْخُلُ الْفُقَرَاءُ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ بِخَمْسِ مِائَةِ عَامٍ نِصْفِ يَوْمٍ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৪
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ فقرا مہاجرین امرا سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فقیر و محتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے آدھا دن پہلے داخل ہوں گے اور یہ آدھا دن پانچ سو برس کے برابر ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ١٥٠٣٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح انظر الحديث (2472) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2354
حدیث نمبر: 2354 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ وَهُوَ خَمْسُ مِائَةِ عَامٍ ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক: