আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
گواہیوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১২০ টি
হাদীস নং: ২৩১৫
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئے کوئی بات
معاویہ بن حیدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتا ہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٨٨ (٤٩٩٠) (تحفة الأشراف : ١١٣٨١) ، و مسند احمد (٥/٣) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ٦٦ (٢٧٤٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ ہنسی کی وہ بات جو جھوٹی ہے قابل مذمت ہے ، لیکن بات اگر سچی ہے تو اس کے ذریعہ کبھی کبھار ہنسی کی فضا ہموار کرنا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، چناچہ رسول اللہ ﷺ سے بعض مواقع پر ہنسی کی بات کرنا ثابت ہے ، جیسے ایک بار آپ نے ایک بڑھیا سے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی ، اسی طرح عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو اس وقت ہنسے پر مجبور کردیا جب آپ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن غاية المرام (376) ، المشکاة (4838 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2315
حدیث نمبر: 2315 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৬
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہوگئی، ایک آدمی نے کہا : تجھے جنت کی بشارت ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شاید تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بےفائدہ ہو، یا ایسی چیز کے ساتھ بخل سے کام لیا ہو جس کے خرچ کرنے سے اس کا کچھ نقصان نہ ہوتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٩٣) (صحیح) (امام ترمذی نے حدیث پر غریب ہونے کا حکم لگایا ہے، اور ایسے ہی تحفة الأشراف میں ہے، نیز ترمذی نے لکھا ہے کہ أعمش کا سماع انس سے نہیں ہے (تحفة الأشراف) لیکن منذری کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا : حديث حسن صحیح اور خود منذری نے کہا کہ سند کے رواة ثقات ہیں، دوسرے طرق اور شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب ٢٨٨٢، ٢٨٨٣، وتراجع الألبانی ٥١١ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 11) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2316
حدیث نمبر: 2316 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ يَعْنِي رَجُلًا: أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَلَا تَدْرِي فَلَعَلَّهُ تَكَلَّمَ فِيمَا لَا يَعْنِيهِ، أَوْ بَخِلَ بِمَا لَا يَنْقُصُهُ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৭
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اس حدیث کو ابوسلمہ کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ (رض) سے اور ابوہریرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٦) (تحفة الأشراف : ١٥٢٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو باتیں اس سے متعلق نہیں ہیں اور نہ ہی جن سے دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے ان کی ٹوہ میں نہ لگا رہے بلکہ ان سے دور رہے یہی اس کے اسلام کی خوبی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3976) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2317
حدیث نمبر: 2317 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَمَاعَةَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৮
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
علی بن حسین (زین العابدین) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑ دے جو اس سے غیر متعلق ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - زہری کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں نے اسی طرح «عن الزهري عن علي بن حسين عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے مالک کی حدیث کی طرح مرسلا روایت کی ہے، ٢ - ہمارے نزدیک یہ حدیث ابوسلمہ کی ابوہریرہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ١ ؎، ٣ - علی بن حسین (زین العابدین) کی ملاقات علی (رض) سے ثابت نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (١٩١٣٤) (صحیح) (علی بن حسین زین العابدین تابعی ہیں اس لیے یہ حدیث مرسل ہے، مگر سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اصل حدیث ثابت ہے ، اس کی بحث «زهد وكيع» رقم ٣٦٤ میں دیکھئیے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2317) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2318
حدیث نمبر: 2318 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لَا يَعْنِيهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ مُرْسَلًا، وَهَذَا عِنْدَنَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৯
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کم گوئی کی فضلیت کے متعلق
صحابی رسول بلال بن حارث مزنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم میں سے کوئی اللہ کی رضا مندی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے اس کا مرتبہ کہاں تک پہنچے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا، اور تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے اس کا وبال کہاں تک پہنچے گا جب کہ اللہ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے ہے جس دن وہ اس سے ملے گا اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور اسے اسی طرح سے کئی لوگوں نے محمد بن عمرو سے اسی کے مثل روایت کیا ہے یعنی «عن محمد بن عمرو عن أبيه عن جده عن بلال بن الحارث» کی سند سے، ٣ - اس حدیث کو مالک نے «عن محمد بن عمرو عن أبيه عن بلال بن الحارث» کی سند سے روایت کیا ہے لیکن اس میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں ہے، ٤ - اس باب میں ام حبیبہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٦٩) (تحفة الأشراف : ٢٠٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فضول باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے ، اور کوشش کرنی چاہیئے کہ حسب ضرورت مفید اور سچ بات زبان سے نکلے ، بات کرتے وقت رضائے الٰہی پیش نظر رہے ، کیونکہ وہ بات جو جھوٹ اور فضول ہوگی وہ اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3969) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2319
حدیث نمبر: 2319 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَال: سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّصَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللَّهُ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا سَخَطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَ هَذَا، قَالُوا: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ جَدِّهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২০
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی بے وقعتی
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١٠) (تحفة الأشراف : ٤٦٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ یہ حقیر سے حقیر چیز ہے ، اس کی حقارت کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہوتی تو اسے صرف اپنے محبوب بندوں کو نوازتا ، جب کہ حال یہ ہے کہ اسے اپنے دشمنوں یعنی کفار و مشرکین کو دیتا ہے ، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دینے والا اپنے دشمن کو وہ چیز دے جو اس کے نزدیک قدر و قیمت والی ہو ، کافروں کو جنت کی ایک ادنی نعمت سے اسی لیے محروم رکھا گیا ہے کیونکہ جنت اللہ کے محبوب بندوں کے لیے ہے ، نہ کہ اس کے دشمنوں کے لیے ، معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک دنیا اور اس کے مال و اسباب کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے ، لہٰذا اہل ایمان کے نزدیک بھی اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہیئے بلکہ اسے آخرت کی زندگی سنوارنے کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (940) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2320
حدیث نمبر: 2320 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২১
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی بے وقعتی
مستورد بن شداد (رض) کہتے ہیں کہ میں بھی ان سواروں کے ساتھ تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس کھڑے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگ اسے دیکھ رہے ہو کہ جب یہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیر اور بےقیمت ہوگیا تو انہوں نے اسے پھینک دیا، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کی بےقیمت ہونے کی بنیاد ہی پر لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے، آپ نے فرمایا : دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور بےوقعت ہے جتنا یہ اپنے لوگوں کے نزدیک حقیر اور بےوقعت ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - مستورد (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢ - اس باب میں جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١١) (تحفة الأشراف : ١١٢٥٨) وانظر مسند احمد (٤/٢٢٩، ٢٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4111) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2321
حدیث نمبر: 2321 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الرَّكْبِ الَّذِينَ وَقَفُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّخْلَةِ الْمَيِّتَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا حِينَ أَلْقَوْهَا ، قَالُوا: مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَالدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا ، وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُسْتَوْرِدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২২
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی بے وقعتی
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اور متعلم (علم سیکھنے والے) کے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١٢) (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ کی یاد سے غافل کردینے والی ہوں سب کی سب اللہ کے نزدیک ملعون ہیں ، گویا لعنت دنیا کی ان چیزوں پر ہے جو ذکر الٰہی سے غافل کردینے والی ہوں ، اس سے دنیا کی وہ نعمتیں اور لذتیں مستثنیٰ ہیں جو اس بری صفت سے خالی ہیں ، مثلاً مال اگر حلال طریقے سے حاصل ہو اور حلال مصارف پر خرچ ہو تو یہ اچھا ہے ، بصورت دیگر یہی مال برا اور لعنت کے قابل ہے ، وہ علم بھی اچھا ہے جو بندوں کو اللہ سے قریب کر دے بصورت دیگر یہ بھی برا ہے ، اس حدیث سے علماء اور طلبائے علوم دینیہ کی فضیلت ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4112) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2322
حدیث نمبر: 2322 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، قَال: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ قُرَّةَ، قَال، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ضَمْرَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ، مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرُ اللَّهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২৩
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی بے وقعتی
مستورد بن شداد فہری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا کی مثال آخرت کے سامنے ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی سمندر کا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسماعیل بن ابی خالد کی کنیت ابوعبداللہ ہے، ٣ - قیس کے والد ابوحازم کا نام عبد بن عوف ہے اور یہ صحابی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صفة الجنة ١٤ (٢٨٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١٠٨) (تحفة الأشراف : ١١٢٥٥) ، و مسند احمد (٤/٢٢٩، ٢٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں آخرت کی نعمتوں اور اس کی دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی قدر و قیمت اور اس کی زندگی کا تناسب بیان کیا گیا ہے ، یہ تناسب ایسے ہی ہے جیسے ایک قطرہ پانی اور سمندر کے پانی کے درمیان تناسب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4108) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2323
حدیث نمبر: 2323 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَال: سَمِعْتُ مُسْتَوْرِدًا أَخَا بَنِي فِهْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَاذَا يَرْجِعُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَوَالِدُ قَيْسٍ أَبُو حَازِمٍ اسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَوْفٍ، وَهُوَ مِنَ الصَّحَابَةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২৪
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ دنیا مومن کے لئے جیل اور کافر کے لئے جنت ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا مومن کے لیے قید خانہ (جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١٣) (تحفة الأشراف : ١٤٠٥٥) ، و مسند احمد (٢/٣٢٣، ٣٨٩، ٤٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قید خانہ کا قیدی اس کے قواعد و ضوابط کا پابند ہوتا ہے اسی طرح یہ دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ کی مثل ہے ، اس میں مومن شہوات و خواہشات نفس سے بچتا ہوا مومنانہ و متقیانہ زندگی گزارتا ہے ، اس کے برعکس کافر ہر طرح سے آزاد رہ کر خواہشات و شہوات کی لذتوں میں مست رہتا ہے گویا دنیا اس کے لیے جنت ہے جب کہ مومن کے لیے قید خانہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2324
حدیث نمبر: 2324 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২৫
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا کی مثال چار شخصوں کی سی ہے
ابوکبشہ انماری (رض) کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میں تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کر رہا ہوں جسے یاد رکھو ، کسی بندے کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی (یہ پہلی بات ہے) ، اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتا ہے (دوسری بات ہے) ، اور اگر کوئی شخص پہنے کے لیے سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس کے لیے فقر و محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔ (یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا) (یہ تیسری بات ہے) اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کر رہا ہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو : یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے : ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے ١ ؎ اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ٢ ؎ ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔ اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی : برے کاموں میں مال خرچ کرتا) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وأخرج ابن ماجہ نحوہ في الزہد ٢٦ (٤٢٢٨) (تحفة الأشراف : ١٢١٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرتا ہے اور اعزہ و اقرباء کا خاص خیال رکھتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی فریضہ زکاۃ کی ادائیگی کرتا ہے اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے جو کچھ اس پر واجب ہوتا ہے خرچ کرتا ہے اور اس میں سے عام صدقات و خیرات بھی کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4228) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2325
حدیث نمبر: 2325 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ خَبَّابٍ، عَنْ سَعِيدٍ الطَّائِيِّ أَبِي الْبَخْتَرِيّ، أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو كَبْشَةَ الْأَنَّمَارِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ثَلَاثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ، وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عِزًّا، وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا . (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ: عَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالًا فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ، يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللَّهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২৬
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کر کے لوگوں سے بیان کرتا پھرے ١ ؎ تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہوگا، اور جو فاقہ کا شکار ہو اور اسے اللہ کے حوالے کر کے اس پر صبر سے کام لے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیر یا سویر روزی دے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الزکاة ٢٩ (١٦٤٥) (تحفة الأشراف : ٩٣١٩) ، و مسند احمد (١/٣٨٩) (صحیح) ” بموت عاجل أو غني عاجل “ ) کے لفظ سے صحیح ہے، صحیح سنن ابی داود ١٤٥٢، الصحیحة ٢٨٨٧ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی لوگوں سے اپنی محتاجی اور لاچاری کا تذکرہ کر کے ان کے آگے ہاتھ پھیلائے تو ایسے شخص کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوگی ، اور اگر وقتی طور پر پوری ہو بھی گئی تو پھر اس سے زیادہ سخت دوسری ضرورتیں اس کے سامنے آئیں گی جن سے نمٹنا اس کے لیے آسان نہ ہوگا۔ ٢ ؎ : چونکہ اس نے صبر سے کام لیا ، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں رزق عطا فرمائے گا ، یا آخرت میں اسے ثواب سے نوازے گا ، معلوم ہوا کہ حاجت و ضرورت کے وقت انسانوں کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ : ... بموت عاجل أو غنی عاجل ، صحيح أبي داود (1452) ، الصحيحة (2787) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2326
حدیث نمبر: 2326 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بَشِيرٍ أَبِي إِسْمَاعِيل، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْطَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ، وَمَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِاللَّهِ فَيُوشِكُ اللَّهُ لَهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২৭
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا
ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) ابوہاشم بن عتبہ بن ربیعہ القرشی کی بیماری کے وقت ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا : اے ماموں جان ! کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے ؟ کسی درد سے آپ بےچین ہیں یا دنیا کی حرص ستا رہی ہے، ابوہاشم نے کہا : ایسی کوئی بات نہیں ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک وصیت کی تھی جس پر میں عمل نہ کرسکا۔ آپ نے فرمایا تھا : تمہارے لیے پورے سرمایہ میں سے ایک خادم اور ایک سواری جو اللہ کی راہ میں کام آئے کافی ہے، جب کہ اس وقت میں نے اپنے پاس بہت کچھ جمع کرلیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - زائدہ اور عبیدہ بن حمید نے «عن منصور عن أبي وائل عن سمرة بن سهم» کی سند سے روایت کی ہے جس میں یہ نقل کیا ہے کہ معاویہ (رض) ابوہاشم کے پاس داخل ہوئے پھر اسی کے مانند حدیث ذکر کی ٢ - اس باب میں بریدہ اسلمی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ١١٩ (٥٣٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١ (٤١٠٣) (تحفة الأشراف : ١٢١٧٨) و مسند احمد (٥/٢٩٠) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (4103) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2327
حدیث نمبر: 2327 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: جَاءَ مُعَاوِيَةُ إِلَى أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ يَعُودُهُ، فَقَالَ: يَا خَالُ، مَا يُبْكِيكَ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ أَمْ حِرْصٌ عَلَى الدُّنْيَا، قَالَ: كُلٌّ لَا، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا لَمْ آخُذْ بِهِ، قَالَ: إِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ جَمْعِ الْمَالِ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَأَجِدُنِي الْيَوْمَ قَدْ جَمَعْتُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى زَائِدَةُ، وَعَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْمَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَهْمٍ، قَالَ: دَخَلَ مُعَاوِيَةُ عَلَى أَبِي هَاشِمٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَفِي الْبَابِ عَنْ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২৮
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جائیداد ١ ؎ کو مت بناؤ کہ اس کی وجہ سے تمہیں دنیا کی رغبت ہوجائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٢٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں ضیعہ آیا ہے ، اس سے مراد ایسی جائدادیں ہیں جو غیر منقولہ ہوں مثلاً باغ ، کھیت اور گاؤں وغیرہ ، کچھ لوگ کہتے ہیں : اس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن پر انسان کی معاشی زندگی کا دارومدار ہو ، اگر یہ چیزیں انسان کو ذکر الٰہی سے غافل کردینے والی ہوں اور انسان آخرت کو بھول بیٹھے اور اس کے دل میں پورے طورے پر دنیا کی رغبت پیدا ہوجائے تو اسے چاہیئے کہ ان سے کنارہ کشی اختیار کرے اور خشیت الٰہی کو اپنائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (12) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2328
حدیث نمبر: 2328 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ سَعْدِ بْنِ الْأَخْرَمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩২৯
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا
عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں ابوہریرہ اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٥١٩٧) ، مسند احمد (٤/١٨٨، ١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمر لمبی ہوگی اور عمل اچھا ہوگا تو نیکیاں زیادہ ہوں گی ، اس لیے یہ مومن کے حق میں بہتر ہے ، اس کے برعکس اگر عمر لمبی ہو اور اعمال برے ہوں تو یہ اور برا معاملہ ہوگا ، «أعاذنا اللہ منه»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1836) ، المشکاة (5285 / التحقيق الثانی) ، الروض النضير (926) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2329
حدیث نمبر: 2329 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ خَيْرُ النَّاسِ ؟ قَالَ: مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৩০
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دنیا کی محبت اور اس کے متعلق غمگین ہونا
ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو ، اس آدمی نے پھر پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بدتر شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١١٦٨٩) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر جیسے سابقہ حدیث سے یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ایک تاجر کی نگاہ میں راس المال اور سرمایہ کی جو حیثیت ہے وہی حیثیت اور مقام وقت کا ہے ، تاجر اپنے سرمایہ کو ہمیشہ بڑھانے کا خواہشمند ہوتا ہے ، اسی طرح لمبی مدت پانے والے کو چاہیئے کہ اس کے اوقات زیادہ سے زیادہ نیکی کے کاموں میں گزاریں ، اگر اس نے اپنی زندگی کے اس سرمایہ کو اسی طرح باقی رکھا تو جس طرح سرمایہ بڑھانے کا خواہشمند تاجر اکثر نفع کماتا ہے ، اسی طرح یہ بھی فائدہ ہی حاصل کرتا رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2329) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2330
حدیث نمبر: 2330 حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ ؟ قَالَ: مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ قَالَ: فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ ؟ قَالَ: مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَسَاءَ عَمَلُهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৩১
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس بارے میں کہ اس امت کی عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ سے ستر سال تک کے درمیان ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - ابوصالح کی یہ حدیث جسے وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے، ٢ - یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے اس کے علاوہ کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢٣٦) ، ویأتي عند المؤلف في الدعوات ١٠٢ (٣٥٥٠) (تحفة الأشراف : ١٢٨٧٦) (حسن صحیح) (یہ حدیث ” أعمار أمتي مابین … “ کے لفظ سے صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح بلفظ : أعمار أمتی ما بين ... وسيأتى برقم (3545) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا (2815 - 3802) //، ابن ماجة (4236) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2331
حدیث نمبر: 2331 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عُمْرُ أُمَّتِي مِنْ سِتِّينَ سَنَةً إِلَى سَبْعِينَ سَنَةً ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৩২
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زمانے کا قرب اور امیدروں کی قلت کے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہوجائے گا ١ ؎ سال ایک مہینہ کے برابر ہوجائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی) کے برابر ہوجائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیدا ہونے والی چنگاری کے برابر ہوجائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٨٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زمانہ قریب ہوجائے گا اس کا مفہوم یہ ہے کہ یا تو اس کی برکتیں کم ہوجائیں گی اور فائدہ کی بجائے نقصانات زیادہ ہوں گے یا اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ دنیاوی مشاغل میں اس قدر منہمک و مشغول ہوں گے کہ انہیں دن اور رات کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوگا (دوسرے ٹکڑے سے متعلق حدیث اگلے باب میں آرہی ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (5448 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2332
حدیث نمبر: 2332 حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَكُونُ السَّنَةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ، وَتَكُونُ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ، وَيَكُونُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ، وَتَكُونُ السَّاعَةُ كَالضَّرَمَةِ بِالنَّارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৩৩
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ امیدوں کے کم ہونے کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بدن کے بعض حصے کو پکڑ کر فرمایا : تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافر یا راہ گیر ہو، اور اپنا شمار قبر والوں میں کرو ۔ مجاہد کہتے ہیں : ابن عمر (رض) نے مجھ سے کہا : جب تم صبح کرو تو شام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کرلو اس لیے کہ اللہ کے بندے ! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اعمش نے مجاہد سے، مجاہد نے ابن عمر (رض) سے اس حدیث کی اسی طرح سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٣ (٦٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣ (٤١١٤) (تحفة الأشراف : ٧٣٨٦) ، و مسند احمد (٢/٢٤، ١٣١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں دنیا سے بےرغبتی اور دنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کا بیان ہے ، مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافر دوران سفر کچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتا ہے ، تم دنیا کو اپنے لیے ایسا ہی سمجھو ، بلکہ اپنا شمار قبر والوں میں کرو ، گویا تم دنیا سے جا چکے ، اسی لیے آگے فرمایا : صبح پالینے کے بعد شام کا انتظار مت کرو اور شام پالینے کے بعد صبح کا انتظار مت کرو بلکہ اپنی صحت و تندرستی کے وقت مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ تیاری کرلو ، کیونکہ تمہیں کچھ خبر نہیں کہ کل تمہارا شمار مردوں میں ہوگا یا زندوں میں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1157) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2333 اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1157 ) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2333
حدیث نمبر: 2333 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ جَسَدِي بِمِنْكَبِي، فَقَالَ: كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ الْقُبُورِ ، فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: إِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَاءِ، وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ غَدًا، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، نَحْوَهُ. حدیث نمبر: 2336 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৩৪
گواہیوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ امیدوں کے کم ہونے کے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ ابن آدم ہے اور یہ اس کی موت ہے ، اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنی گدی پر رکھا پھر اسے دراز کیا اور فرمایا : یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں ابو سعید خدری (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٧ (٤٢٣٢) (تحفة الأشراف : ١٠٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ ابن آدم کی زندگی کی مدت بہت مختصر ہے ، موت اس سے قریب ہے ، لیکن اس کی خواہشیں اور آرزوئیں لامحدود ہیں ، اس لیے آدمی کو چاہیئے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی مختصر زندگی کو پیش نظر رکھے ، اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی فکر کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4232) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2334
حدیث نمبر: 2334 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا ابْنُ آدَمَ وَهَذَا أَجَلُهُ وَوَضَعَ يَدَهُ عِنْدَ قَفَاهُ ثُمَّ بَسَطَهَا، فَقَالَ: وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
তাহকীক: