আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
نکاح کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৬৬ টি
হাদীস নং: ১১২০
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حلالہ کرنے اور کرانے والا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور کرانے والے (دونوں) پر لعنت بھیجی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے کئی اور طرق سے بھی روایت کی گئی ہے، ٣- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ جن میں عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، عبداللہ بن عمر وغیرہم (رض) بھی شامل ہیں۔ یہی تابعین میں سے فقہاء کا بھی قول ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، وکیع نے بھی یہی کہا ہے، ٤- نیز وکیع کہتے ہیں : اصحاب رائے کے قول کو پھینک دینا ہی مناسب ہوگا ١ ؎، ٥- سفیان ثوری کہتے ہیں : آدمی جب عورت سے نکاح اس نیت سے کرے کہ وہ اسے (پہلے شوہر کے لیے) حلال کرے گا پھر اسے اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھ لینا ہی بھلا معلوم ہو تو وہ اسے اپنی زوجیت میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس سے نئے نکاح کے ذریعے سے شادی نہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطلاق ١٣ (٣٤٤٥) ، (في سیاق طویل) ( تحفة الأشراف : ٩٥٩٥) ، مسند احمد (١/٤٤٨، ٤٥٠، ٤٥١، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٣ (٢٣٠٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اصحاب الرائے سے مراد امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں ، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نکاح حلالہ صحیح ہے گو حلال کرنے کی ہی نیت سے ہو۔ ان کی رائے کو چھوڑ دینا اس لیے مناسب ہے کہ ان کا یہ قول حدیث کے مخالف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (1119) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1120
حدیث نمبر: 1120 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو قَيْسٍ الْأَوْدِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَرْوَانَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو وَغَيْرُهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الْفُقَهَاءِ مِنَ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالَ: وسَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَذْكُرُ، عَنْ وَكِيعٍ، أَنَّهُ قَالَ بِهَذَا، وقَالَ: يَنْبَغِي أَنْ يُرْمَى بِهَذَا الْبَابِ مِنْ قَوْلِ أَصْحَابِ الرَّأْيِ، قَالَ جَارُودُ: قَالَ وَكِيعٌ: وَقَالَ سُفْيَانُ: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ لِيُحَلِّلَهَا ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا حَتَّى يَتَزَوَّجَهَا بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১২১
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نکاح متعہ
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر کی فتح کے وقت عورتوں سے متعہ ١ ؎ کرنے سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سبرہ جہنی اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، البتہ ابن عباس سے کسی قدر متعہ کی اجازت بھی روایت کی گئی ہے، پھر انہوں نے اس سے رجوع کرلیا جب انہیں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں اس کی خبر دی گئی۔ اکثر اہل علم کا معاملہ متعہ کی حرمت کا ہے، یہی ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢١٦) ، والنکاح ٣١ (٥١١٥) ، والذبائح ٢٨ (٥٥٣٣) ، والحیل ٤ (٦٩٦١) ، صحیح مسلم/النکاح ٣ (١٤٠٧) ، الصید والذبائح ٥ (١٤٠٧) ، سنن النسائی/النکاح ٧١ (٣٣٦٧) ، والصید ٣١ (٤٣٣٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٤ (١٩٦١) ، موطا امام مالک/النکاح ٧١ (٤١) ، مسند احمد (١/٧٩) ، سنن الدارمی/النکاح ١٦ (٢٢٤٣) ویأتي عند المؤلف في الأطعمة ٦ (١٧٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عورتوں سے مخصوص مدت کے لیے نکاح کرنے کو نکاح متعہ کہتے ہیں ، پھر علی (رض) نے خیبر کے موقع سے گھریلو گدھوں کی حرمت کے ساتھ متعہ کی حرمت کا ذکر کیا ہے یہاں مقصد متعہ کی حرمت کی تاریخ نہیں بلکہ ان دو حرام چیزوں کا تذکرہ ہے متعہ کی اجازت واقعہ اوطاس میں دی گئی تھی۔ حرام ہوگیا ، اور اب اس کی حرمت قیامت تک کے لیے ہے ، ائمہ اسلام اور علماء سلف کا یہی مذہب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1961) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1121
حدیث نمبر: 1121 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَالْحَسَنِ ابني محمد بن علي، عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ . قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَإِنَّمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ شَيْءٌ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي الْمُتْعَةِ، ثُمَّ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ حَيْثُ أُخْبِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمْرُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى تَحْرِيمِ الْمُتْعَةِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১২২
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نکاح متعہ
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں تھا۔ آدمی جب کسی ایسے شہر میں جاتا جہاں اس کی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ اپنے قیام کی مدت تک کے لیے کسی عورت سے شادی کرلیتا۔ وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی۔ اس کی چیزیں درست کر کے رکھتی۔ یہاں تک کہ جب آیت کریمہ «إلا علی أزواجهم أو ما ملکت أيمانهم» لوگ اپنی شرمگاہوں کو صرف دو ہی جگہ کھول سکتے ہیں، ایک اپنی بیویوں پر، دوسرے اپنی ماتحت لونڈیوں پر ، نازل ہوئی تو ابن عباس (رض) کہتے ہیں : ان دو کے علاوہ باقی تمام شرمگاہیں حرام ہوگئیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٤٤٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” موسیٰ بن عبیدہ “ ضعیف ہیں، نیز یہ شاذ بھی ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہں ی : اس کی سند ضعیف ہے، اور یہ شاذ بھی ہے کیونکہ یہ متعہ کی اباحت کی علت کے خلاف ہے، فتح الباری ٩/١٤٨، حافظ ابن حجر بخاری کی اس روایت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جس میں ابو جمرہ کہتے ہیں : ” میں نے ابن عباس کو عورتوں سے متعہ کرنے کے سوال پر یہ سنا کہ آپ نے اس کی رخصت سنن الدارمی/ تو آپ کے غلام نے عرض کیا کہ یہ تو صرف سخت حالات اور عورتوں کی قلت کی بنا پر تھا یا اس طرح کی بات کہی تو ابن عباس نے کہا : ہاں، ایسا ہی ہے “ بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عباس متعہ کی اباحت کے فتوے سے مطلقا رجوع ہوگئے تھے، اور اس کو مطلقا ناجائز کہتے تھے) ۔ قال الشيخ الألباني : منكر، الإرواء (1903) ، المشکاة (3158 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1122
حدیث نمبر: 1122 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُقْبَةَ أَخُو قَبِيصَةَ بْنِ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّمَا كَانَتْ الْمُتْعَةُ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْبَلْدَةَ لَيْسَ لَهُ بِهَا مَعْرِفَةٌ فَيَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ بِقَدْرِ مَا يَرَى أَنَّهُ يُقِيمُ، فَتَحْفَظُ لَهُ مَتَاعَهُ وَتُصْلِحُ لَهُ شَيْئَهُ حَتَّى إِذَا نَزَلَتِ الْآيَةُ إِلا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ سورة المؤمنون آية 6 . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَى هَذَيْنِ فَهُوَ حَرَامٌ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১২৩
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نکاح شغار کی ممانعت کے متعلق
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسلام میں نہ «جلب» ہے، نہ «جنب» ١ ؎ اور نہ ہی «شغار» ، اور جو کسی کی کوئی چیز اچک لے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں انس، ابوریحانہ، ابن عمر، جابر، معاویہ، ابوہریرہ، اور وائل بن حجر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الجہاد ٧٠ (٢٥٨١) ، مقتصرا علی قولہ ” لا جلب ولا جنب “ سنن ابی داود/ النکاح ٦٠ (٣٣٣٧) ، والخیل ١٥ (٣٦٢٠) ، و ١٦ (٣٦٢١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣ (٣٩٣٥) ، مقتصرا علی قولہ ” من انتہب… “ ( تحفة الأشراف : ١٠٧٩٣) مسند احمد (٤/٤٢٩، ٤٣٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : «جلب» اور «جنب» کے دو مفہوم ہیں : ایک مفہوم کا تعلق زکاۃ سے ہے اور دوسرے کا گھوڑ دوڑ کے مقابلے سے۔ زکاۃ میں «جلب» یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا کافی دور قیام کرے اور صاحب زکاۃ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اپنے جانور لے کر آئیں اور زکاۃ ادا کریں ، یہ ممنوع ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو خود ان کی چراگاہوں یا پنگھٹوں پر جا کر زکاۃ کے جانور لینے چاہئیں۔ اس کے مقابلے میں جنب یہ ہے کہ صاحب زکاۃ اپنے اپنے جانور لے کر دور چلے جائیں تاکہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کے ساتھ دوڑتا پھرے اور پریشان ہو۔ پہلی صورت یعنی «جلب» میں زکاۃ دینے والوں کو زحمت ہے اور دوسری صورت «جنب» میں زکاۃ وصول کرنے کو۔ لہٰذا یہ دونوں درست نہیں۔ گھوڑ دوڑ میں «جلب» اور «جنب» ایک دوسرے کے مترادف ہیں ، مطلب یہ ہے کہ آدمی ایک گھوڑے پر سوار ہوجائے اور دوسرا تازہ دم گھوڑا ساتھ رکھے تاکہ درمیان میں جب یہ تھک جائے تو دوسرے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوجائے اور مقابلہ بہ آسانی جیت سکے۔ اس میں چونکہ ناانصافی اور دھوکہ ہے ، لہٰذا اس معنی میں بھی «جلب» اور «جنب» درست نہیں ہے ( اور «شغار» کی تشریح خود مؤلف کے الفاظ میں اگلی حدیث کے ضمن میں آرہی ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (2947 / التحقيق الثاني) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1123
حدیث نمبر: 1123 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ وَهُوَ الطَّوِيلُ، قَالَ: حَدَّثَالْحَسَنُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ، وَمَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي رَيْحَانَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَمُعَاوِيَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১২৪
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نکاح شغار کی ممانعت کے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ نکاح شغار کو درست نہیں سمجھتے، ٣- شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کا نکاح کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس سے کر دے گا اور ان کے درمیان کوئی مہر مقرر نہ ہو، ٤- بعض اہل علم کہتے ہیں : نکاح شغار فسخ کردیا جائے گا اور وہ حلال نہیں، اگرچہ بعد میں ان کے درمیان مہر مقرر کرلیا جائے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٥- لیکن عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ وہ اپنے نکاح پر قائم رہیں گے البتہ ان کے درمیان مہر مثل مقرر کردیا جائے گا، اور یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٨ (٥١١٢) ، صحیح مسلم/النکاح ٧ (١٤١٥) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٥ (٢٠٧٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦١ (٣٣٣٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٦ (١٨٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ٨٣٢٣) موطا امام مالک/النکاح ١١ (٢٤) ، مسند احمد (٢/، ٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٩ (٢٢٢٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الحیل ٤ (٦٩٦٠) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) سنن النسائی/النکاح ٦٠ (٣٣٣٦) ، مسند احمد (٢/١٩) من ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1883) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1124
حدیث نمبر: 1124 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ نِكَاحَ الشِّغَارِ، وَالشِّغَارُ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الْآخَرُ ابْنَتَهُ أَوْ أُخْتَهُ، وَلَا صَدَاقَ بَيْنَهُمَا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: نِكَاحُ الشِّغَارِ مَفْسُوخٌ، وَلَا يَحِلُّ وَإِنْ جُعِلَ لَهُمَا صَدَاقًا، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرُوِيَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّهُ قَالَ: يُقَرَّانِ عَلَى نِكَاحِهِمَا وَيُجْعَلُ لَهُمَا صَدَاقُ الْمِثْلِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَهْلِ الْكُوفَةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১২৫
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پھوپھی اور بھتیجی، خالہ اور بھانجی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہ ہوں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا کہ کسی عورت سے شادی کی جائے اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ (پہلے سے) نکاح میں ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوحریز کا نام عبداللہ بن حسین ہے - تخریج دارالدعوہ : حدیث ابن عباس : سنن ابی داود/ النکاح ١٣ (٢٠٦٧) (تحفة الأشراف : ٦٠٧٠) ، مسند احمد (١/٢١٧، ٣٧٢) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابو حریز “ حافظہ کے کمزور ہیں) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (2882) ، ضعيف أبي داود (352) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1125
حدیث نمبر: 1125 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَبِي حَرِيزٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ تُزَوَّجَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا أَوْ عَلَى خَالَتِهَا . وَأَبُو حَرِيزٍ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُسَيْنٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১২৬
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ پھوپھی اور بھتیجی، خالہ اور بھانجی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہ ہوں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ عورت سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی پھوپھی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کیا جائے جبکہ اس کی بھتیجی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا بھانجی سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی خالہ (پہلے سے) نکاح میں ہو یا خالہ سے نکاح کیا جائے جب کہ اس کی بھانجی پہلے سے نکاح میں ہو۔ اور نہ نکاح کیا جائے کسی چھوٹی سے جب کہ اس کی بڑی نکاح میں ہو اور نہ بڑی سے نکاح کیا جائے جب کہ چھوٹی نکاح میں ہو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس اور ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ہمیں ان کے درمیان اس بات میں کسی اختلاف کا علم نہیں کہ آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بیک وقت کسی عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں رکھے۔ اگر اس نے کسی عورت سے نکاح کرلیا جب کہ اس کی پھوپھی یا خالہ بھی اس کے نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کرلیا جب کہ اس کی بھتیجی نکاح میں ہو تو ان میں سے جو نکاح بعد میں ہوا ہے، وہ فسخ ہوگا، یہی تمام اہل علم کا قول ہے، ٣- شعبی نے ابوہریرہ کو پایا ہے اور ان سے (براہ راست) روایت بھی کی ہے۔ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : صحیح ہے، ٤- شعبی نے ابوہریرہ سے ایک شخص کے واسطے سے بھی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ تعلیقا عقب حدیث جابر (٥١٠٨) ، صحیح مسلم/النکاح ٤ (٤٠٨/٣٩) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٣ (٢٠٦٥) ، سنن النسائی/النکاح ٤٧ (٣٢٨٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/النکاح ٢٧ (٥١٠٩، ٥١١٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٤ (١٤٠٨) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٣ (٢٠٦٦) ، سنن النسائی/النکاح ٤٧ (٣٢٩٠-٣٢٩٦) ، و ٤٨ (٣٢٩٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣١ (١٩٢٩) ، موطا امام مالک/النکاح ٨ (٢٠) ، مسند احمد (٢/٤٢٦) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی خالہ پھوپھی نکاح میں ہو تو اس کی بھانجی یا بھتیجی سے اور بھانجی یا بھتیجی نکاح میں ہو تو اس کی خالہ یا پھوپھی سے نکاح نہ کیا جائے ، ہاں اگر ایک مرجائے یا اس کو طلاق دیدے تو دوسری سے شادی کرسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (6 / 289 - 290) ، صحيح أبي داود (1802) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1126
حدیث نمبر: 1126 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا أَوِ الْعَمَّةُ عَلَى ابْنَةِ أَخِيهَا، أَوِ الْمَرْأَةُ عَلَى خَالَتِهَا أَوِ الْخَالَةُ عَلَى بِنْتِ أُخْتِهَا، وَلَا تُنْكَحُ الصُّغْرَى عَلَى الْكُبْرَى وَلَا الْكُبْرَى عَلَى الصُّغْرَى . قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمُ اخْتِلَافًا، أَنَّهُ لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا، فَإِنْ نَكَحَ امْرَأَةً عَلَى عَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا أَوِ الْعَمَّةَ عَلَى بِنْتِ أَخِيهَا فَنِكَاحُ الْأُخْرَى مِنْهُمَا مَفْسُوخٌ، وَبِهِ يَقُولُ: عَامَّةُ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: أَدْرَكَ الشَّعْبِيُّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَرَوَى عَنْهُ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا، فَقَالَ: صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى الشَّعْبِيُّ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১২৭
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عقد نکاح کے وقت شرائط
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ پوری کیے جانے کی مستحق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے تم نے شرمگاہیں حلال کی ہوں ۔
حدیث نمبر: 1127 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَى بِهَا مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১২৮
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اسلام لاتے وقت دس بیویاں ہوں تو کیا حکم ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ١ ؎ ثقفی نے اسلام قبول کیا، جاہلیت میں ان کی دس بیویاں تھیں، وہ سب بھی ان کے ساتھ اسلام لے آئیں، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے کسی چار کو منتخب کرلیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اسی طرح اسے معمر نے بسند «الزهري عن سالم بن عبدالله عن ابن عمر» روایت کیا ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے۔ اور صحیح وہ ہے جو شعیب بن ابی حمزہ وغیرہ نے بسند «الزهري عن محمد بن سويد الثقفي» روایت کی ہے کہ غیلان بن سلمہ نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس دس بیویاں تھیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ ثقیف کے ایک شخص نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو عمر نے اس سے کہا : تم اپنی بیویوں سے رجوع کرلو ورنہ میں تمہاری قبر کو پتھر ماروں گا جیسے ابورغال ٣ ؎ کی قبر کو پتھر مارے گئے تھے۔ ٤- ہمارے اصحاب جن میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی شامل ہیں کے نزدیک غیلان بن سلمہ کی حدیث پر عمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٠ (١٩٥٣) ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٤٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : غیلان بن سلمہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے ، فتح طائف کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چار سے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا جائز نہیں ، لیکن اس حکم سے نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی مستثنیٰ ہے ، آپ کے حرم میں بیک وقت نو بیویاں تھیں ، یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی اور اس میں بہت سی دینی ، سیاسی ، مصلحتیں کار فرما تھیں آپ کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں۔ ٣ ؎ : ابورغال کے بارے میں دو مختلف روایتیں ہیں ، پہلی روایت یہ ہے کہ یہ طائف کے قبیلہ ثقیف کا یک شخص تھا جس نے ابرہہ کی مکہ کی جانب رہبری کی تھی وہ مغمس کے مقام پر مرا اور وہیں دفن کیا گیا اور اس کی قبر پر پتھراؤ کرنا عام رسم بن گئی ، دوسری روایت ہے کہ ابورغال قوم ثمود کا وہ واحد شخص تھا جو ہلاکت سے بچ گیا تھا ، ثمود کی تباہی کے وقت وہ مکیّ میں مقیم تھا اور اس جگہ کی حرمت کے باعث محفوظ رہا تاہم مکیّ سے نکلنے کے فوراً بعد مرگیا ، رسول اللہ ﷺ جب اپنی فوج کے ساتھ الحجر کے مقام سے گزر رہے تھے تو آپ نے یہ بات بیان فرمائی تھی ، الأغانی کی ایک حکایت میں ابورغال کو طائف کا بادشاہ اور بنو ثقیف کا جدا مجد بھی بیان کیا گیا ہے ، اس کے معاملے میں حافظ ابن قتیبہ اور مسعودی ایسے مصنف ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ بنو ثقیف ہی نے ابورغال کو جو ایک ظالم اور بےانصاف شخص تھا قتل کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1953) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1128
حدیث نمبر: 1128 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ، وَلَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَأَسْلَمْنَ مَعَهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَخَيَّرَ أَرْبَعًا مِنْهُنَّ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَغَيْرُهُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ، أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ أَسْلَمَ، وَعِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَإِنَّمَا حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ ثَقِيفٍ طَلَّقَ نِسَاءَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَتُرَاجِعَنَّ نِسَاءَكَ أَوْ لَأَرْجُمَنَّ قَبْرَكَ كَمَا رُجِمَ قَبْرُ أَبِي رِغَالٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ غَيْلَانَ بْنِ سَلَمَةَ عِنْدَ أَصْحَابِنَا، مِنْهُمْ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১২৯
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نومسلم کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو کیا حکم ہے
فیروز دیلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ان دونوں میں سے جسے چاہو منتخب کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطلاق ٢٥ (٢٢٤٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٩ (١٩٥١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٠٦١) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1951) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1129
حدیث نمبر: 1129 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ: قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩০
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ شخص جو حاملہ لونڈی خریدے
فیروز دیلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اسلام قبول کیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں میں سے جسے چاہو، منتخب کرلو ۔ (اور دوسرے کو طلاق دے دو ) امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1130
حدیث نمبر: 1130 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، قَالَ: اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ . هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو وَهْبٍ الْجَيْشَانِيُّ اسْمُهُ: الدَّيْلَمُ بْنُ هَوْشَعَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩১
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ شخص جو حاملہ لونڈی خریدے
رویفع بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی (منی) کسی غیر کے بچے کو نہ پلائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یہ اور بھی کئی طرق سے رویفع بن ثابت (رض) سے روایت کی گئی ہے، ٣- اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ یہ لوگ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں سمجھتے کہ وہ جب کوئی حاملہ لونڈی خریدے تو وہ اس سے صحبت کرے جب تک کہ اسے وضع حمل نہ ہوجائے، ٤- اس باب میں ابو الدرداء، ابن عباس، عرباض بن ساریہ اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٤٥ (٢١٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦١٥) ، مسند احمد (٤/١٠٨) ، سنن الدارمی/السیر ٣٧ (٢٥٢٠) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو لونڈی کسی اور سے حاملہ ہو پھر وہ اسے خریدے تو اس سے صحبت نہ کرے جب تک کہ اسے وضع حمل نہ ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الإرواء (2137) ، صحيح أبي داود (1874) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1131
حدیث نمبر: 1131 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْقِ مَاءَهُ وَلَدَ غَيْرِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا يَرَوْنَ لِلرَّجُلِ إِذَا اشْتَرَى جَارِيَةً وَهِيَ حَامِلٌ أَنْ يَطَأَهَا حَتَّى تَضَعَ، وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩২
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اگر شادی شدہ لونڈی قیدی بن کر آئے تو اس سے جماع کیا جائے یا نہیں
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے جنگ اوطاس کے دن کچھ عورتیں قید کیں۔ اور ان کی قوم میں ان عورتوں کے شوہر موجود تھے، لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو یہ آیت نازل ہوئی «والمحصنات من النساء إلا ما ملکت أيمانکم» تم پر شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں الا یہ کہ وہ تمہاری ملکیت میں آ گئی ہوں (النساء : ٢٤) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اسی طرح سے اسے ثوری نے بطریق : «عثمان البتي عن أبي الخليل عن أبي سعيد» روایت کیا ہے - تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ٩ (١٤٥٦) ، والمؤلف في تفسیر النساء (٣٠١٧) ، وانظر الحدیث الآتي ( تحفة الأشراف : ٤٠٧٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (1871) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1132
حدیث نمبر: 1132 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ وَلَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 24. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهَكَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ: صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ،
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩৩
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زنا کی اجرت حرام ہے
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت ١ ؎، زانیہ کی کمائی ٢ ؎ اور کاہن کی مٹھائی ٣ ؎ سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابومسعود انصاری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں رافع بن خدیج، ابوجحیفہ، ابوہریرہ، اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٣ (٢٢٣٧) ، والاجارة ٢٠ (٢٢٨٢) ، والطلاق ٥١ (٥٣٤٦) ، والطب ٤٦ (٥٧٦١) ، صحیح مسلم/المساقاة ٩ (البیوع ٣٠) ، (١٥٦٧) ، سنن ابی داود/ البیوع ٤١ (٣٤٢٨) ، و ٦٥ (٣٤٨١) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ١٥ (٤٢٩٧) ، البیوع ٩١ (٤٦٧٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٩ (٢١٥٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠١٠ و موطا امام مالک/البیوع ٢٩ (٦٨) ، مسند احمد (١/١١٨، ١٢٠، ١٤٠، ١٤١) ویأتي عند المؤلف في البیوع ٤٦ (١٢٧٦) ، والطب ٢٤ (٢٠٧١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کتا نجس ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی ، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے ، اسی سبب سے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے ، الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ ٢ ؎ : چونکہ زنا کبیرہ گناہ اور فحش امور میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔ ٣ ؎ : علم غیب اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے ، اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے ، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2590) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1133
حدیث نمبر: 1133 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩৪
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کسی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجا جائے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سمرہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- مالک بن انس کہتے ہیں : آدمی کے اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے کسی عورت کو پیغام دیا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہوگئی ہو، تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے، ٤- شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کہ آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب آدمی نے کسی عورت کو پیغام بھیجا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہوگئی ہو اور اس کی طرف مائل ہوگئی ہو تو ایسی صورت میں کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ اس کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے، لیکن اس کی رضا مندی اور اس کا میلان معلوم ہونے سے پہلے اگر وہ اسے پیغام دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی دلیل فاطمہ بنت قیس (رض) کی یہ حدیث ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر ذکر کیا کہ ابوجہم بن حذیفہ اور معاویہ بن ابی سفیان نے انہیں نکاح کا پیغام دیا ہے تو آپ نے فرمایا : ابوجہم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا ڈنڈا عورتوں سے نہیں اٹھاتے (یعنی عورتوں کو بہت مارتے ہیں ) رہے معاویہ تو وہ غریب آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے، لہٰذا تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو ۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کا مفہوم (اور اللہ بہتر جانتا ہے) یہ ہے کہ فاطمہ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اپنی رضا مندی کا اظہار نہیں کیا تھا اور اگر وہ اس کا اظہار کر دیتیں تو اسے چھوڑ کر آپ انہیں اسامہ (رض) سے نکاح کا مشورہ نہ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣) ، سنن ابی داود/ النکاح ١٨ (٢٠٨٠) ، سنن النسائی/النکاح ٢٠ (٣٢٤١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٠ (١٨٦٧) ، والتجارات ١٣ (٢١٧٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الشروط ٨ (٢٧٢٣) ، والنکاح ٤٥ (٥١٤٤) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٤٩٦) ، و ٢١ (٤٥١٠) ، مسند احمد (٢/٢٧٤، ٣١١، ٣١٨، ٣٩٤، ٤١١، ٤٢٧، ٤٥٧، ٤٨٧، ٤٨٩، ٥٠٨، ٥١٦، ٥٢٩) ، سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢١) ، (وانظر إیضا الارقام : ١١٩٠ و ١٢٢٢ و ١٣٠٤) من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2172) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1134
حدیث نمبر: 1134 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَحْمَدُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ وَلَا يَخْطُبُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: إِنَّمَا مَعْنَى كَرَاهِيَةِ أَنْ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ: إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِهِ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَى خِطْبَتِهِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ لَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ: هَذَا عِنْدَنَا إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِهِ وَرَكَنَتْ إِلَيْهِ، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَى خِطْبَتِهِ، فَأَمَّا قَبْلَ أَنْ يَعْلَمَ رِضَاهَا أَوْ رُكُونَهَا إِلَيْهِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَخْطُبَهَا، وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ حَدِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، حَيْثُ جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ لَهُ، أَنَّ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ، وَمُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ خَطَبَاهَا، فَقَالَ: أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ لَا يَرْفَعُ عَصَاهُ عَنِ النِّسَاءِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ، وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ فَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّ فَاطِمَةَ لَمْ تُخْبِرْهُ بِرِضَاهَا بِوَاحِدٍ مِنْهُمَا، وَلَوْ أَخْبَرَتْهُ لَمْ يُشِرْ عَلَيْهَا بِغَيْرِ الَّذِي ذَكَرَتْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩৫
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کسی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ بھیجا جائے
ابوبکر بن ابی جہم کہتے ہیں کہ میں اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن دونوں فاطمہ بنت قیس (رض) کے پاس آئے انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی اور نہ ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا اور نہ کھانے پینے کا۔ اور انہوں نے میرے لیے دس بوری غلہ، پانچ بوری جو کے اور پانچ گیہوں کے اپنے چچا زاد بھائی کے پاس رکھ دیں، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا : انہوں نے ٹھیک کیا، اور مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ام شریک کے گھر میں عدت گزاروں ، پھر مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ام شریک کے گھر مہاجرین آتے جاتے رہتے ہیں۔ تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو ۔ وہاں یہ بھی سہولت رہے گی کہ تم (سر وغیرہ سے) کپڑے اتارو گی تو تمہیں وہ نہیں دیکھ پائیں گے، پھر جب تمہاری عدت پوری ہوجائے اور کوئی تمہارے پاس پیغام نکاح لے کر آئے تو مجھے بتانا، چناچہ جب میری عدت پوری ہوگئی تو ابوجہم اور معاویہ نے مجھے پیغام بھیجا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : معاویہ تو ایسے آدمی ہیں کہ ان کے پاس مال نہیں، اور ابوجہم عورتوں کے لیے سخت واقع ہوئے ہیں ۔ پھر مجھے اسامہ بن زید (رض) نے پیغام بھیجا اور مجھ سے شادی کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے اسامہ میں مجھے برکت عطا فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث صحیح ہے، ٢- اسے سفیان ثوری نے بھی ابوبکر بن ابی جہم سے اسی حدیث کی طرح روایت کیا ہے، اور اس میں انہوں نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اسامہ سے نکاح کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن النسائی/الطلاق ١٥ (٣٤٤٧) ، و ٧٢ (٣٥٨١) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٠ (٢٠٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٣٧) (صحیح) و أخرجہ کل من : صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ الطلاق ٣٩ (٢٢٨٤) ، سنن النسائی/النکاح ٨ (٣٢٢٤) ، و ٢١ (٣٢٤٦) ، والطلاق ٤ (٢٠٢٤) ، و ٩ ٢٠٣٢) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢٣ (٦٧) ، مسند احمد (٦/٤١٤، ٤١٥) سنن الدارمی/النکاح ٧ (٢٢٢٣) ، والطلاق ١٠ (٢٣٢٠) من غیر ہذا الوجہ وانظر ما یأتي عند المؤلف برقم : ١١٨٠ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء // 1804 // (6 / 209) ، صحيح أبي داود (1976) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1135
حدیث نمبر: 1135 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الْجَهْمِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، فَحَدَّثَتْنَا أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا وَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا سُكْنَى وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: وَوَضَعَ لِي عَشَرَةَ أَقْفِزَةٍ عِنْدَ ابْنِ عَمٍّ لَهُ خَمْسَةً شَعِيرًا وَخَمْسَةً بُرًّا، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَتْ: فَقَالَ: صَدَقَ، قَالَتْ: فَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ، ثُمَّ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ بَيْتَ أُمِّ شَرِيكٍ بَيْتٌ يَغْشَاهُ الْمُهَاجِرُونَ، وَلَكِنْ اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَعَسَى أَنْ تُلْقِي ثِيَابَكِ وَلَا يَرَاكِ، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُكِ فَجَاءَ أَحَدٌ يَخْطُبُكِ فَآذِنِينِي، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي خَطَبَنِي أَبُو جَهْمٍ، وَمُعَاوِيَةُ، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ شَدِيدٌ عَلَى النِّسَاءِ، قَالَتْ: فَخَطَبَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَتَزَوَّجَنِي، فَبَارَكَ اللَّهُ لِي فِي أُسَامَةَ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَزَادَ فِيهِ، فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْكِحِي أُسَامَةَ. حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بِهَذَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩৬
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عزل کے بارے میں
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ عزل ١ ؎ کرتے تھے، تو یہودیوں نے کہا : قبر میں زندہ دفن کرنے کی یہ ایک چھوٹی صورت ہے۔ آپ نے فرمایا : یہودیوں نے جھوٹ کہا۔ اللہ جب اسے پیدا کرنا چاہے گا تو اسے کوئی روک نہیں سکے گا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عمر، براء اور ابوہریرہ، ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عشرة النساء (في الکبری) ( تحفة الأشراف : ٢٥٨٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ عزل یہ ہے کہ جماع کے وقت انزال قریب ہو تو آدمی اپنا عضو تناسل شرمگاہ سے باہر نکال کر منی باہر نکال دے تاکہ عورت حاملہ نہ ہو۔ ٢ ؎ : اس حدیث میں صرف اس بات کا بیان ہے کہ یہودیوں کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ عزل کے باوجود جس نفس کی اس مرد و عورت سے تخلیق اللہ کو مقصود ہوتی ہے اس کی تخلیق ہو ہی جاتی ہے ، جیسا کہ ایک صحابی نے لونڈی سے عزل کیا اس کے باوجود حمل ٹھہر گیا۔ اس لیے یہ «مودودۃ صغریٰ» نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الآداب (52) ، صحيح أبي داود (1887) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1136
حدیث نمبر: 1136 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا نَعْزِلُ فَزَعَمَتْ الْيَهُودُ أَنَّهَا الْمَوْءُودَةُ الصُّغْرَى، فَقَالَ: كَذَبَتْ الْيَهُودُ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَهُ فَلَمْ يَمْنَعْهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَالْبَرَاءِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩৭
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عزل کے بارے میں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم عزل کرتے تھے اور قرآن اتر رہا تھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ حدیث اور بھی کئی طرق سے ان سے مروی ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کی اجازت دی ہے۔ مالک بن انس کا قول ہے کہ آزاد عورت سے عزل کی اجازت لی جائے گی اور لونڈی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٩٦ (٥٢٠٨، ٥٢٠٩) ، صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٤٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٠ (١٩٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ٢٤٦٨) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/النکاح ٩٦ (٥٢٠٧) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر عزل منع ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کی ممانعت نازل کردیتا ، البتہ آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل درست نہیں ہے ، جیسا کہ امام مالک نے کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1927) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1137
حدیث نمبر: 1137 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنُ يَنْزِلُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي الْعَزْلِ، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: تُسْتَأْمَرُ الْحُرَّةُ فِي الْعَزْلِ وَلَا تُسْتَأْمَرُ الْأَمَةُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩৮
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عزل کی کراہت
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے ؟ ۔ ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے : اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے ، اور ان دونوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا ہے کہ جس جان کو بھی اللہ کو پیدا کرنا ہے وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابو سعید خدری (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہ اس کے علاوہ اور بھی طرق سے ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے، ٣- اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کو مکروہ قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ١٨ (تعلیقا عقب الحدیث رقم : ٧٤٠٩) ، صحیح مسلم/النکاح ٢٢ (١٤٣٨) ، سنن ابی داود/ النکاح ٤٩ (٢١٧٠) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ١٠٩ (٢٢٢٩) ، و العتق ١٣ (٢٥٤٢) ، والمغازي ٣٢ (٤١٣٨) ، والنکاح ٩٦ (٥٢١٠) ، و القدر ٦ (٦٦٠٣) ، والتوحید ١٨ (٧٤٠٩) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣٤ (٩٥) ، مسند احمد (٣/٢٢، ٢٦، ٤٧، ٤٩، ٥١، ٥٣، ٥٩، ٨٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٦ (٢٢٦٩) من غیر ہذا الوجہ وبعضہم بتغیر یسیر في السیاق۔ وضاحت : ١ ؎ : عزل کے جواز اور عدم جواز کی بابت حتمی بات یہ ہے کہ یہ ہے تو جائز مگر نامناسب کام ہے ، خصوصا جب عزل کے باوجود کبھی نطفہ رحم کے اندر چلا ہی جاتا ہے ، اور حمل ٹھہر جاتا ہے۔ تو کیوں خواہ مخواہ یہ عمل کیا جائے۔ «واللہ اعلم» قال الشيخ الألباني : صحيح الآداب (54 - 55) ، صحيح أبي داود (1886) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1138
حدیث نمبر: 1138 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ قَزَعَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: ذُكِرَ الْعَزْلُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لِمَ يَفْعَلُ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: زَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِيثِهِ وَلَمْ يَقُلْ: لَا يَفْعَلْ ذَاكَ أَحَدُكُمْ، قَالَا فِي حَدِيثِهِمَا: فَإِنَّهَا لَيْسَتْ نَفْسٌ مَخْلُوقَةٌ إِلَّا اللَّهُ خَالِقُهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَقَدْ كَرِهَ الْعَزْلَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৩৯
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کنواری اور بیوہ کے لئے رات کی تقسیم
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو کہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا : سنت ١ ؎ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات رات ٹھہرے، اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین رات ٹھہرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسے محمد بن اسحاق نے مرفوع کیا ہے، انہوں نے بسند «ایوب عن ابی قلابہ عن انس» روایت کی ہے اور بعض نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ٣- اس باب میں ام سلمہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٤- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی اور کنواری سے شادی کرے، تو اس کے پاس سات رات ٹھہرے، پھر اس کے بعد ان کے درمیان باری تقسیم کرے، اور پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے جب کسی غیر کنواری (بیوہ یا مطلقہ) سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات ٹھہرے۔ مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ٥- تابعین میں سے بعض اہل علم نے کہا کہ جب کوئی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو وہ اس کے پاس تین رات ٹھہرے اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں دو رات ٹھہرے۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٠٠ (٥٢١٣) ، و ١٠١ (٥٢١٤) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٢ (١٤٦١) سنن ابی داود/ النکاح ٣٥ (٢١٢٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٦ (١٩١٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٧ (٢٢٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحابی کا سنت یہ ہے کہنا بھی حدیث کے مرفوع ہونے کا اشارہ ہے ، تمام ائمہ کا یہی قول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1916) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1139
حدیث نمبر: 1139 حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أَقُولَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّهُ قَالَ: السُّنَّةُ إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْبِكْرَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَفَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَرْفَعْهُ بَعْضُهُمْ، قَالَ: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَأَةً بِكْرًا عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا، ثُمَّ قَسَمَ بَيْنَهُمَا بَعْدُ بِالْعَدْلِ، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ: إِذَا تَزَوَّجَ الْبِكْرَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ أَقَامَ عِنْدَهَا لَيْلَتَيْنِ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
তাহকীক: