আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)

الجامع الكبير للترمذي

نکاح کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৬৬ টি

হাদীস নং: ১১০০
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کنواری لڑکیوں سے نکاح کرنے کے بیان میں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی پھر میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے پوچھا : جابر ! کیا تم نے شادی کی ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں کی ہے، آپ نے فرمایا : کسی کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے کہا : نہیں، غیر کنواری سے۔ آپ نے فرمایا : کسی (کنواری) لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی، تو اس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے کھیلتی ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! (میرے والد) عبداللہ کا انتقال ہوگیا ہے، اور انہوں نے سات یا نو لڑکیاں چھوڑی ہیں، میں ایسی عورت کو بیاہ کر لایا ہوں جو ان کی دیکھ بھال کرسکے۔ چناچہ آپ نے میرے لیے دعا فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر بن عبداللہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابی بن کعب اور کعب بن عجرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النفقات ١٢ (٥٣٨٧) ، الدعوات ٥٣ (٦٣٨٧) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٦ (٧١٥) سنن النسائی/النکاح ٦ (٣٢٢١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥١٢) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/البیوع ٤٣ (٢٠٩٧) ، والوکالة ٨ (٢٣٠٩) ، والجہاد ١١٣ (٢٩٦٧) ، والمغازي ١٨ (٤٠٥٢) ، والنکاح ١٠ (٥٠٧٩) و ١٢١ (٥٢٤٥) ، و ١٢٢ (٥٢٤٧) ، صحیح مسلم/الرضاع (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ النکاح ٣ (٢٠٤٨) ، مسند احمد (٣/٢٩٤، ٣٠٢، ٣٢٤، ٣٦٢، ٣٧٤، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٢ (٢٢٦٢) ، من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (178) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1100
حدیث نمبر: 1100 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَا بَلْ ثَيِّبًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ مَاتَ وَتَرَكَ سَبْعَ بَنَاتٍ أَوْ تِسْعًا، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُ بِمَنْ يَقُومُ عَلَيْهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَعَا لِي. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১০১
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولی کے بغیر نکاح نہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عائشہ، ابن عباس، ابوہریرہ، عمران بن حصین اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ (ابوموسیٰ اشعری کی حدیث پر مولف کا مفصل کلام اگلے باب میں آ رہا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٢٠ (٢٠٨٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٥ (١٨٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٩١١٥) ، مسند احمد (٤/٤١٣، ٤١٨) ، سنن الدارمی/النکاح ١١ (٢٢٢٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ، جمہور کے نزدیک نکاح کے لیے ولی اور دو گواہ ضروری ہیں ، ولی سے مراد باپ ہے ، باپ کی غیر موجودگی میں دادا پھر بھائی پھر چچا ہے ، اگر کسی کے پاس دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف ہوجائے تو ترجیح قریبی ولی کو حاصل ہوگی اور جس کا کوئی ولی نہ ہو تو ( مسلم ) حاکم اس کا ولی ہوگا ، اور جہاں مسلم حاکم نہ ہو وہاں گاؤں کے باحیثیت مسلمان ولی ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1881) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1101
حدیث نمبر: 1101 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق. وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق. ح وحَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১০২
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اگر اس نے اس سے دخول کرلیا ہے تو اس کی شرمگاہ حلال کرلینے کے عوض اس کے لیے مہر ہے، اور اگر اولیاء میں جھگڑا ہوجائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی حاکم ہوگا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- یحییٰ بن سعید انصاری، یحییٰ بن ایوب، سفیان ثوری، اور کئی حفاظ حدیث نے اسی طرح ابن جریج سے روایت کی ہے، ٣- ابوموسیٰ اشعری (رض) کی (پچھلی) حدیث میں اختلاف ہے، اسے اسرائیل، شریک بن عبداللہ، ابو عوانہ، زہیر بن معاویہ اور قیس بن ربیع نے بسند «أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٤- اور اسباط بن محمد اور زید بن حباب نے بسند «يونس بن أبي إسحق عن أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٥- اور ابوعبیدہ حداد نے بسند «يونس بن أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، اس میں انہوں نے ابواسحاق کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ٦- نیز یہ حدیث یونس بن ابی اسحاق سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے بسند «أبي إسحق عن أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٧- اور شعبہ اور سفیان ثوری بسند «أبي إسحق عن أبي بردة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ، اور سفیان ثوری کے بعض تلامذہ نے بسند «سفيان عن أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسی» روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ان لوگوں کی روایت، جنہوں نے بطریق : «أبي إسحق عن أبي بردة عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے ان لوگوں کا سماع مختلف اوقات میں ہے اگرچہ شعبہ اور ثوری ابواسحاق سے روایت کرنے والے تمام لوگوں سے زیادہ پختہ اور مضبوط حافظہ والے ہیں پھر بھی ان لوگوں (یعنی شعبہ و ثوری کے علاوہ دوسرے رواۃ) کی روایت اشبہ (قریب تر) ہے۔ اس لیے کہ شعبہ اور ثوری دونوں نے یہ حدیث ابواسحاق سے ایک ہی مجلس میں سنی ہے، (اور ان کے علاوہ رواۃ نے مختلف اوقات میں) اس کی دلیل شعبہ کا یہ بیان ہے کہ میں نے سفیان ثوری کو ابواسحاق سے پوچھتے سنا کہ کیا آپ نے ابوبردہ کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولی کے بغیر نکاح نہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں (سنا ہے) ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شعبہ اور ثوری کا مکحول سے اس حدیث کا سماع ایک ہی وقت میں ہے۔ اور ابواسحاق سبیعی سے روایت کرنے میں اسرائیل بہت ہی ثقہ راوی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ مجھ سے ثوری کی روایتوں میں سے جنہیں وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں، کوئی روایت نہیں چھوٹی، مگر جو چھوٹی ہیں وہ صرف اس لیے چھوٹی ہیں کہ میں نے اس سلسلے میں اسرائیل پر بھروسہ کرلیا تھا، اس لیے کہ وہ ابواسحاق کی حدیثوں کو بطریق اتم بیان کرتے تھے۔ اور اس باب میں عائشہ (رض) کی نبی اکرم ﷺ سے حدیث : بغیر ولی کے نکاح نہیں میرے نزدیک حسن ہے۔ یہ حدیث ابن جریج نے بطریق : «سليمان بن موسی، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ، نیز اسے حجاج بن ارطاۃ اور جعفر بن ربیعہ نے بھی بطریق : «الزهري، عن عروة، عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے۔ نیز زہری نے بطریق : «هشام بن عروة، عن أبيه عروة، عن عائشة، عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» اسی کے مثل روایت کی ہے۔ بعض محدثین نے زہری کی روایت میں (جسے انہوں نے بطریق : «عروة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے) کلام کیا ہے، ابن جریج کہتے ہیں : پھر میں زہری سے ملا اور میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اس کی وجہ سے ان لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ ابن جریج سے اس بات کو اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کے علاوہ کسی اور نے نہیں نقل کیا ہے، یحییٰ بن معین کہتے ہیں : اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کا سماع ابن جریج سے نہیں ہے، انہوں نے اپنی کتابوں کی تصحیح عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد کی ان کتابوں سے کی ہے جنہیں عبدالمجید نے ابن جریج سے سنی ہیں۔ یحییٰ بن معین نے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کی روایت کو جسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے ضعیف قرار دیا ہے۔ ٨- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل اس باب میں نبی اکرم ﷺ کی حدیث «لا نکاح إلا بولي» ولی کے بغیر نکاح نہیں پر ہے جن میں عمر، علی، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رض) وغیرہ بھی شامل ہیں، اسی طرح بعض فقہائے تابعین سے مروی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں۔ ان میں سعید بن مسیب، حسن بصری، شریح، ابراہیم نخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ ہیں۔ یہی سفیان ثوری، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٢٠ (٢٠٨٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٥ (١٨٧٩) ، مسند احمد (٦/٦٦، ١٦٦) ، سنن الدارمی/النکاح ١١ (٢٢٣٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً عورت کے دو ولی ہیں ایک کسی کے ساتھ اس کا نکاح کرنا چاہے اور دوسرا کسی دوسرے کے ساتھ اور عورت نابالغ ہو اور یہ اختلاف نکاح ہونے میں اڑے آئے تو ایسی صورت میں یہ فرض کر کے کہ گویا اس کا کوئی ولی نہیں ہے سلطان اس کا ولی ہوگا ، ورنہ ولی کی موجودگی میں سلطان کو ولایت کا حق حاصل نہیں۔ چونکہ ہندوستان میں مسلمان سلطان ( اور اس کے مسلمان نائب ) کا وجود نہیں ہے اس لیے گاؤں کے مسلمان پنچ ولی ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1102
حدیث نمبر: 1102 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا، ‏‏‏‏‏‏فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ نَحْوَ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي مُوسَى حَدِيثٌ فِيهِ اخْتِلَافٌ، ‏‏‏‏‏‏رَوَاهُ إِسْرَائِيلُ، وَشَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبُو عَوَانَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَى أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَزَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَى أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ، عنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاق. وَقَدْ رُوِيَ عن يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عنْ أَبِي إِسْحَاق، عنْ أَبِي بُرْدَةَ، عنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا. وَرَوَى شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ذَكَرَ بَعْضُ أَصْحَابِ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى وَلَا يَصِحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَرِوَايَةُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ رَوَوْا عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏عِنْدِي أَصَحُّ لِأَنَّ سَمَاعَهُمْ مِنْ أَبِي إِسْحَاق فِي أَوْقَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالثَّوْرِيُّ أَحْفَظَ وَأَثْبَتَ مِنْ جَمِيعِ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ رَوَوْا عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رِوَايَةَ هَؤُلَاءِ عِنْدِي أَشْبَهُ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالثَّوْرِيَّ سَمِعَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَبِي إِسْحَاق فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ مَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَسْأَلُ أَبَا إِسْحَاق:‏‏‏‏ أَسَمِعْتَ أَبَا بُرْدَةَ، يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَدَلَّ هَذَا الْحَدِيثُ عَلَى أَنَّ سَمَاعَ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالثَّوْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ وَإِسْرَائِيلُ هُوَ ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثَبْتٌ فِي أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا فَاتَنِي مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق الَّذِي فَاتَنِي، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا لَمَّا اتَّكَلْتُ بِهِ عَلَى إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ كَانَ يَأْتِي بِهِ أَتَمَّ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ عَائِشَةَ فِي هَذَا الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ هُوَ حَدِيثٌ عِنْدِي حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، وَجَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ:‏‏‏‏ ثُمَّ لَقِيتُ الزُّهْرِيَّ فَسَأَلْتُهُ فَأَنْكَرَهُ فَضَعَّفُوا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَجْلِ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ لَمْ يَذْكُرْ هَذَا الْحَرْفَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ إِلَّا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ:‏‏‏‏ وَسَمَاعُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ لَيْسَ بِذَاكَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا صَحَّحَ كُتُبَهُ عَلَى كُتُبِ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، ‏‏‏‏‏‏مَا سَمِعَ مِنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏وَضَعَّفَ يَحْيَى رِوَايَةَ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ فِي هَذَا الْبَابِ عَلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُمْ قَالُوا:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَشُرَيْحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهَذَا يَقُولُ:‏‏‏‏ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১০৩
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : زنا کار ہیں وہ عورتیں جو گواہوں کے بغیر خود نکاح کرلیتی ہیں ۔ یوسف بن حماد کہتے ہیں کہ عبدالاعلی نے اس حدیث کو کتاب التفسیر میں مرفوع بیان کیا ہے اور کتاب الطلاق میں اسے انہوں نے موقوفاً بیان کیا ہے، مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٥٣٨٧) (ضعیف) (مؤلف نے سبب کی وضاحت کر سنن الدارمی/ ہے، مگر دوسرے نصوص سے گواہ کا واجب ہونا ثابت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1862) // ضعيف الجامع الصغير (2375) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1103
حدیث نمبر: 1103 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْبَغَايَا اللَّاتِي يُنْكِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ . قَالَ يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ:‏‏‏‏ رَفَعَ عَبْدُ الْأَعْلَى هَذَا الْحَدِيثَ فِي التَّفْسِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَوْقَفَهُ فِي كِتَابِ الطَّلَاقِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১০৪
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا
اس سند سے بھی سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غیر محفوظ ہے، ٢- ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو سوائے اس کے جو عبدالاعلیٰ سے مروی ہے انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے اور سعید نے قتادہ سے مرفوعاً روایت کی ہے، ٣- اور عبدالاعلیٰ سے سعید بن ابی عروبہ کے واسطے سے یہ موقوفا بھی مروی ہے۔ اور صحیح وہ ہے جو ابن عباس کے قول سے مروی ہے کہ بغیر گواہ کے نکاح نہیں، خود ابن عباس کا قول ہے، ٤- اسی طرح سے اور کئی لوگوں نے بھی سعید بن ابی عروبہ سے اسی طرح کی روایت موقوفاً کی ہے، ٥- اس باب میں عمران بن حصین، انس اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٦- صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں۔ پہلے کے لوگوں میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن متاخرین اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے، ٧- اہل علم میں اس سلسلے میں اختلاف ہے جب ایک دوسرے کے بعد گواہی دے یعنی دونوں بیک وقت مجلس نکاح میں حاضر نہ ہوں تو کوفہ کے اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ نکاح اسی وقت درست ہوگا جب عقد نکاح کے وقت دونوں گواہ ایک ساتھ موجود ہوں، ٨- اور بعض اہل مدینہ کا خیال ہے کہ جب ایک کے بعد دوسرے کو گواہ بنایا گیا ہو تو بھی جائز ہے جب وہ اس کا اعلان کردیں۔ یہ مالک بن انس وغیرہ کا قول ہے۔ اسی طرح کی بات اسحاق بن راہویہ نے بھی کہی ہے جو اہل مدینہ نے کہی ہے، ٩- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نکاح میں ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت جائز ہے، یہ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (سعید بن ابی عروبہ اور قتادہ دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ ہے) قال الشيخ الألباني : ** صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1104
حدیث نمبر: 1104 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَهَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ مَرْفُوعًا، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثُ مَوْقُوفًا، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَوْلُهُ:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا رَوَى أَصْحَابُ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَ هَذَا مَوْقُوفًا، ‏‏‏‏‏‏وَفِي هَذَا الْبَاب:‏‏‏‏ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِشُهُودٍ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَخْتَلِفُوا فِي ذَلِكَ مَنْ مَضَى مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا قَوْمًا مِنَ الْمُتَأَخِّرِينَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا إِذَا شَهِدَ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ:‏‏‏‏ لَا يَجُوزُ النِّكَاحُ حَتَّى يَشْهَدَ الشَّاهِدَانِ مَعًا عِنْدَ عُقْدَةِ النِّكَاحِ وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ:‏‏‏‏ إِذَا أُشْهِدَ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ جَائِزٌ إِذَا أَعْلَنُوا ذَلِكَ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا قَالَ إِسْحَاق فِيمَا حَكَى عَنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ يَجُوزُ شَهَادَةُ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ فِي النِّكَاحِ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১০৫
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز کے تشہد اور حاجت کے تشہد کو (الگ الگ) سکھایا، وہ کہتے ہیں صلاۃ کا تشہد یہ ہے : «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلی عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اے نبی : سلامتی ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اور حاجت کا تشہد یہ ہے : «إن الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا فمن يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں، ہم اپنے دلوں کی شرارتوں اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اور پھر آپ تین آیتیں پڑھتے۔ عبثر (راوی حدیث) کہتے ہیں : تو ہمیں سفیان ثوری نے بتایا کہ وہ تینوں آیتیں یہ تھی : «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون» اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے اور حالت اسلام ہی میں مرو (آل عمران : ١٠٢) ، «واتقوا اللہ الذي تساءلون به والأرحام إن اللہ کان عليكم رقيبا» اللہ سے ڈرو، جس کے نام سے تم سوال کرتے ہو اور جس کے واسطے سے ناطے جوڑتے ہو، بلاشبہ اللہ تمہارا نگہبان ہے (النساء : ١) ، «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سديدا» اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، اور راست اور پکی بات کہو (الأحزاب : ٧٠) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اسے اعمش نے بطریق : «أبي إسحق عن أبي الأحوص عن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے۔ نیز اسے شعبہ نے بطریق : «أبي إسحق عن أبي عبيدة عن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، اور یہ دونوں طریق صحیح ہیں، اس لیے کہ اسرائیل نے دونوں کو جمع کردیا ہے، یعنی «عن أبي إسحق عن أبي الأحوص وأبي عبيدة عن عبد اللہ بن مسعود عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» ، ٣- اس باب میں عدی بن حاتم (رض) سے بھی روایت ہے، ٤- اہل علم نے کہا ہے کہ نکاح بغیر خطبے کے بھی جائز ہے۔ اہل علم میں سے سفیان ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٣٣ (٣١١٨) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٤ (١٤٠٥) ، والنکاح ٣٩ (٣٢٧٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٩ (١٨٩٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٥٠٦) مسند احمد (١/٣٩٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٠ (٢٢٤٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1892) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1105
حدیث نمبر: 1105 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ وَالتَّشَهُّدَ فِي الْحَاجَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ التَّشَهُّدُ فِي الصَّلَاةِ:‏‏‏‏ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّشَهُّدُ فِي الْحَاجَةِ:‏‏‏‏ إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقْرَأُ ثَلَاثَ آيَاتٍ . قَالَ عَبْثَرٌ:‏‏‏‏ فَفَسَّرَهُ لَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ:‏‏‏‏ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا، ‏‏‏‏‏‏اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏رَوَاهُ الْأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ لِأَنَّ إِسْرَائِيلَ جَمَعَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ إِنَّ النِّكَاحَ جَائِزٌ بِغَيْرِ خُطْبَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১০৬
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسے سبھی خطبے جس میں تشہد نہ ہو اس ہاتھ کی طرح ہیں جس میں کوڑھ ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الأدب ٢٢ (٤٨٤١) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٩٧) ، مسند احمد (٢/٣٤٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح الأجوبة الناقصة (48) ، تمام المنة - التحقيق الثاني - صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1106
حدیث نمبر: 1106 حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كُلُّ خُطْبَةٍ لَيْسَ فِيهَا تَشَهُّدٌ فَهِيَ كَالْيَدِ الْجَذْمَاءِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১০৭
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کنواری اور بیوہ کی اجازت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «ثیبہ» (شوہر دیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی رضا مندی ١ ؎ حاصل نہ کرلی جائے، اور کنواری ٢ ؎ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے ٣ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، ابن عباس، عائشہ اور عرس بن عمیرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ «ثیبہ» (شوہر دیدہ) کا نکاح اس کی رضا مندی حاصل کیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی رضا مندی کے بغیر کردی اور اسے وہ ناپسند ہو تو تمام اہل علم کے نزدیک وہ نکاح منسوخ ہوجائے گا، ٤- کنواری لڑکیوں کے باپ ان کی شادی ان کی اجازت کے بغیر کردیں تو اہل علم کا اختلاف ہے۔ کوفہ وغیرہ کے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ باپ اگر کنواری لڑکی کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کر دے اور وہ بالغ ہو اور پھر وہ اپنے والد کی شادی پر راضی نہ ہو تو نکاح منسوخ ہوجائے گا ٤ ؎، ٥- اور بعض اہل مدینہ کہتے ہیں کہ کنواری کی شادی اگر باپ نے کردی ہو تو درست ہے گو وہ اسے ناپسند ہو، یہ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ٥ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤١٩) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١١ (١٨٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٣٨٤) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : رضا مندی کا مطلب اذن صریح ہے۔ ٢ ؎ : کنواری سے مراد بالغہ کنواری ہے۔ ٣ ؎ : اس میں اذن صریح کی ضرورت نہیں خاموشی کافی ہے کیونکہ کنواری بہت شرمیلی ہوتی ہے ، عام طور سے وہ اس طرح کی چیزوں میں بولتی نہیں خاموش ہی رہتی ہے۔ ٤ ؎ : ان لوگوں کی دلیل ابن عباس کی روایت «أن جارية بکراً أتت النبي صلی اللہ عليه وسلم فذکرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي صلی اللہ عليه وسلم» ہے۔ ٥ ؎ : ان لوگوں نے ابن عباس کی حدیث جو آگے آرہی ہے «الایم احق بنفسہا من ولیہا» کے مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے ، اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ باکرہ ( کنواری ) کا ولی اس کے نفس کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1871) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1107
حدیث نمبر: 1107 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذْنُهَا الصُّمُوتُ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعُرْسِ بْنِ عَمِيرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الثَّيِّبَ لَا تُزَوَّجُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ وَإِنْ زَوَّجَهَا الْأَبُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَسْتَأْمِرَهَا فَكَرِهَتْ ذَلِكَ فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الْأَبْكَارِ إِذَا زَوَّجَهُنَّ الْآبَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْأَبَ إِذَا زَوَّجَ الْبِكْرَ وَهِيَ بَالِغَةٌ بِغَيْرِ أَمْرِهَا فَلَمْ تَرْضَ بِتَزْوِيجِ الْأَبِ فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ:‏‏‏‏ تَزْوِيجُ الْأَبِ عَلَى الْبِكْرِ جَائِزٌ وَإِنْ كَرِهَتْ، ‏‏‏‏‏‏ذَلِكَ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১০৮
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کنواری اور بیوہ کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ «ثیبہ» (شوہر دیدہ) عورت اپنے آپ پر اپنے ولی سے زیادہ استحقاق رکھتی ہے ١ ؎ اور کنواری سے بھی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شعبہ اور ثوری نے اسے مالک بن انس سے روایت کیا ہے، ٣- بعض لوگوں نے بغیر ولی کے نکاح کے جواز پر اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔ حالانکہ اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس کی دلیل بنے۔ اس لیے کہ ابن عباس سے کئی اور طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کے بعد ابن عباس نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں، ٤- اور «الأيم أحق بنفسها من وليها» کا مطلب اکثر اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ ولی ثیبہ کا نکاح اس کی رضا مندی اور اس سے مشورہ کے بغیر نہ کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو خنساء بنت خدام کی حدیث کی رو سے نکاح فسح ہوجائے گا۔ ان کے والد نے ان کی شادی کردی، اور وہ شوہر دیدہ عورت تھیں، انہیں یہ شادی ناپسند ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے ان کے نکاح کو فسخ کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٩ (١٤٢١) ، سنن ابی داود/ النکاح ٢٦ (٢٠٩٨، ٢١٠٠) ، سنن النسائی/النکاح ٣١ (٣٢٦٢، ٣٢٦٥) ، و ٣٢ (٣٢٦٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١١ (١٨٧٠) ، موطا امام مالک/النکاح ٢ (٤) ، ( تحفة الأشراف : ٦٥١٧) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٤٣، ٢٧٤، ٢٥٤، ٣٥٥، ٣٦٢) ، سنن الدارمی/النکاح ١٣ (٢٢٣٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : لفظ «أحق» مشارکت کا متقاضی ہے ، گویا غیر کنواری عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدار ہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدار ہے یہ اور بات ہے کہ ولی کی نسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا جب کہ خود اس کی وجہ سے ولی پر جبر کیا جاسکتا ہے ، چناچہ ولی اگر شادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکر ہے تو بواسطہ قاضی ( حاکم ) اس کا نکاح ہوگا ، اس توضیح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ حدیث «لا نکاح إلا بولي» کے منافی نہیں ہے۔ ٢ ؎ : اور اگر منظور نہ ہو تو کھل کر بتادینا چاہیئے کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تاکہ والدین اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1870) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1108
حدیث نمبر: 1108 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا . هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏رَوَاهُ شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ بِغَيْرِ وَلِيٍّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا احْتَجُّوا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَهَكَذَا أَفْتَى بِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ أَنَّ الْوَلِيَّ لَا يُزَوِّجُهَا إِلَّا بِرِضَاهَا وَأَمْرِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ زَوَّجَهَا فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ عَلَى حَدِيثِ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِدَامٍ، ‏‏‏‏‏‏حَيْثُ زَوَّجَهَا أَبُوهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِكَاحَهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১০৯
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ یتیم لڑکی پر نکاح کے لئے زبردستی صحیح نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یتیم لڑکی سے اس کی رضا مندی حاصل کی جائے گی، اگر وہ خاموش رہی تو یہی اس کی رضا مندی ہے، اور اگر اس نے انکار کیا تو اس پر (زبردستی کرنے کا) کوئی جواز نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- اس باب میں ابوموسیٰ ، ابن عمر، اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- یتیم لڑکی کی شادی کے سلسلے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے : یتیم لڑکی کی جب شادی کردی جائے تو نکاح موقوف رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے۔ جب وہ بالغ ہوجائے گی، تو اسے نکاح کو باقی رکھنے یا اسے فسخ کردینے کا اختیار ہوگا۔ یہی بعض تابعین اور دیگر علماء کا بھی قول ہے، ٤- اور بعض کہتے ہیں : یتیم لڑکی کا نکاح جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے، درست نہیں اور نکاح میں «خیار» جائز نہیں، اور اہل علم میں سے سفیان ثوری، شافعی وغیرہم کا یہی قول ہے، ٥- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب یتیم لڑکی نو سال کی ہوجائے اور اس کا نکاح کردیا جائے، اور وہ اس پر راضی ہو تو نکاح درست ہے اور بالغ ہونے کے بعد اسے اختیار نہیں ہوگا۔ ان دونوں نے عائشہ کی اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب ان کے ساتھ شب زفاف منائی، تو وہ نو برس کی تھیں۔ اور عائشہ (رض) کا قول ہے کہ لڑکی جب نو برس کی ہوجائے تو وہ عورت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٥٠٤٥) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من : سنن ابی داود/ النکاح ٢٤ (٢٠٩٣) ، سنن النسائی/النکاح ٣٦ (٣٢٧٠) ، مسند احمد (٢/٢٥٩، ٤٧٥) من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ : یعنی بالغ ہونے کے بعد انکار کرنے پر۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (1834) ، صحيح أبي داود (1825) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1109
حدیث نمبر: 1109 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ صَمَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْهَا . يَعْنِي:‏‏‏‏ إِذَا أَدْرَكَتْ فَرَدَّتْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الْيَتِيمَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْيَتِيمَةَ إِذَا زُوِّجَتْ فَالنِّكَاحُ مَوْقُوفٌ حَتَّى تَبْلُغَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بَلَغَتْ فَلَهَا الْخِيَارُ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ أَوْ فَسْخِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ بَعْضِ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا يَجُوزُ نِكَاحُ الْيَتِيمَةِ حَتَّى تَبْلُغَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَجُوزُ الْخِيَارُ فِي النِّكَاحِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق:‏‏‏‏ إِذَا بَلَغَتِ الْيَتِيمَةُ تِسْعَ سَنِينَ فَزُوِّجَتْ فَرَضِيَتْ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا خِيَارَ لَهَا إِذَا أَدْرَكَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ إِذَا بَلَغَتِ الْجَارِيَةُ تِسْعَ سِنِينَ فَهِيَ امْرَأَةٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১০
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اگر دو ولی دو مختلف جگہ نکاح کردیں تو کیا کیا جائے
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت کی شادی دو ولی الگ الگ جگہ کردیں تو وہ ان میں سے پہلے کے لیے ہوگی، اور جو شخص کوئی چیز دو آدمیوں سے بیچ دے تو وہ بھی ان میں سے پہلے کی ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ دو ولی میں سے ایک ولی جب دوسرے سے پہلے شادی کر دے تو پہلے کا نکاح جائز ہوگا، اور دوسرے کا نکاح فسخ قرار دیا جائے گا، اور جب دونوں نے ایک ساتھ نکاح (دو الگ الگ شخصوں سے) کیا ہو تو دونوں کا نکاح فسخ ہوجائے گا۔ یہی ثوری، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ٢٢ (٢٠٨٨) ، سنن النسائی/البیوع ٩٦ (٤٦٨٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢١ (٢١٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤٥٨٢) ، مسند احمد (٥/٨، ١١) ، سنن الدارمی/النکاح ١٥ (٢٢٣٩) (ضعیف) (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز حسن کے سمرہ (رض) سے حدیث عقیقہ کے علاوہ دیگر احادیث کے سماع میں اختلاف ہے، مگر دیگر نصوص سے مسئلہ ثابت ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1853) ، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2224) ، ضعيف أبي داود (449 / 2088) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1110
حدیث نمبر: 1110 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَوَّجَهَا وَلِيَّانِ فَهِيَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ فَهُوَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا زَوَّجَ أَحَدُ الْوَلِيَّيْنِ قَبْلَ الْآخَرِ فَنِكَاحُ الْأَوَّلِ جَائِزٌ وَنِكَاحُ الْآخَرِ مَفْسُوخٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا زَوَّجَا جَمِيعًا فَنِكَاحُهُمَا جَمِيعًا مَفْسُوخٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১১
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اگر دو ولی دو مختلف جگہ نکاح کردیں تو کیا کیا جائے
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شادی کرلے، وہ زانی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جابر کی حدیث حسن ہے، ٢- بعض نے اس حدیث کو بسند «عبد اللہ بن محمد بن عقيل عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کیا ہے، اور یہ صحیح نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ عبداللہ بن محمد بن عقیل نے جابر سے روایت کی ہے، ٣- اس باب میں ابن عمر (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٤- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر غلام کا نکاح کرنا جائز نہیں۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ النکاح ١٧ (٢٠٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣٢٦) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٧٧، ٣٨٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٠ (٢٢٧٩) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (1959) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1111
حدیث نمبر: 1111 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ فَهُوَ عَاهِرٌ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَصِحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّحِيحُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ نِكَاحَ الْعَبْدِ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ لَا يَجُوزُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرِهِمَا بِلَا اخْتِلَافٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১২
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اگر دو ولی دو مختلف جگہ نکاح کردیں تو کیا کیا جائے
اس سند سے بھی جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی وہ زانی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن انظر ما قبله (1111) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1112
حدیث نمبر: 1112 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْجَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ فَهُوَ عَاهِرٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১৩
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عورتوں کا مہر
عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتی مہر پر نکاح کرلیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : کیا تو اپنی جان و مال سے دو جوتی مہر پر راضی ہے ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں راضی ہوں۔ وہ کہتے ہیں : تو آپ نے اس نکاح کو درست قرار دے دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عامر بن ربیعہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، ابوہریرہ، سہل بن سعد، ابو سعید خدری، انس، عائشہ، جابر اور ابوحدرد اسلمی (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کا مہر کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں : مہر اس قدر ہو کہ جس پر میاں بیوی راضی ہوں۔ یہ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٤- مالک بن انس کہتے ہیں : مہر ایک چوتھائی دینار سے کم نہیں ہونا چاہیئے، ٥- بعض اہل کوفہ کہتے ہیں : مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہیئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧ (١٨٨٨) ، ( تحفة الأشراف :؟ ؟) ، مسند احمد (٣/٤٤٥) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (1888) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (413) ، الإرواء (1926) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1113
حدیث نمبر: 1113 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ بَنِي فَزَارَةَ تَزَوَّجَتْ عَلَى نَعْلَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَرَضِيتِ مِنْ نَفْسِكِ وَمَالِكِ بِنَعْلَيْنِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ. قَالَ:‏‏‏‏ فَأَجَازَهُ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَهْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ الْمَهْرُ عَلَى مَا تَرَاضَوْا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ:‏‏‏‏ لَا يَكُونُ الْمَهْرُ أَقَلَّ مِنْ رُبْعِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ:‏‏‏‏ لَا يَكُونُ الْمَهْرُ أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১৪
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ عورتوں کا مہر
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا کہ میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کردیا۔ پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی (اور آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ کو اس کی حاجت نہ ہو تو اس سے میرا نکاح کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی چیز ہے ؟ ، اس نے عرض کیا : میرے پاس میرے اس تہبند کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اپنا تہبند اسے دے دو گے تو تو بغیر تہبند کے رہ جاؤ گے، تو تم کوئی اور چیز تلاش کرو ، اس نے عرض کیا : میں کوئی چیز نہیں پا رہا ہوں۔ آپ نے (پھر) فرمایا : تم تلاش کرو، بھلے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو ۔ اس نے تلاش کیا لیکن اسے کوئی چیز نہیں ملی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے ؟ ، اس نے کہا : جی ہاں، فلاں، فلاں سورة یاد ہے اور اس نے چند سورتوں کے نام لیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہاری شادی اس عورت سے ان سورتوں کے بدلے کردی جو تمہیں یاد ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- شافعی اسی حدیث کی طرف گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو اور وہ قرآن کی کسی سورة کو مہر بنا کر کسی عورت سے نکاح کرے تو نکاح درست ہے اور وہ اسے قرآن کی وہ سورة سکھائے گا، ٣- بعض اہل علم کہتے ہیں : نکاح جائز ہوگا لیکن اسے مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ یہ اہل کوفہ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوکالة ٩ (٢٣١٠) ، والنکاح ٤٠ (٥١٣٥) ، والتوحید ٢١ (٧٤١٧) ، سنن ابی داود/ النکاح ٣١ (٢١١١) ، سنن النسائی/النکاح ٦٩ (٣٣٦١) ، ( تحفة الأشراف : ٤٧٤٢) ، موطا امام مالک/النکاح ٣ (٨) ، مسند احمد (٥/٣٣٦) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢١ (٥٠٢٩) ، والنکاح ١٤ (٥٠٨٧) ، و ٣٢ (٥١٢١) ، و ٣٥ (٥١٢٦) ، و ٣٧ (٥١٣٢) ، و ٤٤ (٥١٤١) ، و ٥٠ (٥١٤٩) ، و ٥١ (٥١٥٠) ، واللباس ٤٩ (٥٨٧١) ، صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٥) ، سنن النسائی/النکاح ١ (٣٢٠٢) ، و ٤١ (٣٢٨٢) ، و ٦٢ (٣٣٤١) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٧ (١٨٨٩) ، سنن الدارمی/النکاح ١٩ (٢٢٤٧) ، من غیر ہذا الوجہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1889) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1114
حدیث نمبر: 1114 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، قَالَا:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَتْ طَوِيلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَزَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ تَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ تُصْدِقُهَا ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا عِنْدِي إِلَّا إِزَارِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِزَارُكَ إِنْ أَعْطَيْتَهَا جَلَسْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا إِزَارَ لَكَ فَالْتَمِسْ شَيْئًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَجِدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏سُورَةُ كَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ سَمَّاهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ذَهَبَ الشَّافِعِيُّ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَيْءٌ يُصْدِقُهَا فَتَزَوَّجَهَا عَلَى سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَيُعَلِّمُهَا سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ النِّكَاحُ جَائِزٌ وَيَجْعَلُ لَهَا صَدَاقَ مِثْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১৫
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ آزاد کردہ لونڈی سے نکاح کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں صفیہ (رض) سے بھی حدیث آئی ہے، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ٤- اور بعض اہل علم نے اس کی آزادی کو اس کا مہر قرار دینے کو مکروہ کہا ہے، یہاں تک کہ اس کا مہر آزادی کے علاوہ کسی اور چیز کو مقرر کیا جائے۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، سنن ابی داود/ النکاح ٦ (٢٠٥٤) ، سنن النسائی/النکاح ٦٤ (٣٣٤٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٥ (٢٢٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٦٧ و ١٤٢٩) (صحیح) و أخرجہ کل من : صحیح البخاری/الصلاة ١٢ (٣٧١) ، و صلاة الخوف ٦ (٩٤٧) ، والجہاد والمغازي ٣٨ (٤٢٠٠) ، والنکاح ١٣ (٥٠٨٦) و ٦٨ (٥١٦٩) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٢ (١٩٥٧) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١٣٨، ١٦٥، ١٧٠، ١٨١، ١٨٦، ٢٠٣، ٢٣٩، ٢٤٢) من غیر ہذا الوجہ وبعضہم بتغیر یسیر في السیاق۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1957) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1115
حدیث نمبر: 1115 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَ صَفِيَّةَ وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَفِيَّةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُجْعَلَ عِتْقُهَا صَدَاقَهَا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَجْعَلَ لَهَا مَهْرًا سِوَى الْعِتْقِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১৬
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ (آزاد کردہ لونڈی سے) نکاح فضیلت
ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ہیں جنہیں دہرا اجر دیا جاتا ہے : ایک وہ بندہ جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا حق بھی، اسے دہرا اجر دیا جاتا ہے، اور دوسرا وہ شخص جس کی ملکیت میں کوئی خوبصورت لونڈی ہو، وہ اس کی تربیت کرے اور اچھی تربیت کرے پھر اسے آزاد کر دے، پھر اس سے نکاح کرلے اور یہ سب اللہ کی رضا کی طلب میں کرے، تو اسے دہرا اجر دیا جاتا ہے۔ اور تیسرا وہ شخص جو پہلے کتاب (تورات و انجیل) پر ایمان لایا ہو پھر جب دوسری کتاب (قرآن مجید) آئی تو اس پر بھی ایمان لایا تو اسے بھی دہرا اجر دیا جاتا ہے ۔
حدیث نمبر: 1116 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ:‏‏‏‏ عَبْدٌ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ فَذَاكَ يُؤْتَى أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ جَارِيَةٌ وَضِيئَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا ثُمَّ تَزَوَّجَهَا يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ فَذَلِكَ يُؤْتَى أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ،‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ آمَنَ بِالْكِتَابِ الْأَوَّلِ ثُمَّ جَاءَ الْكِتَابُ الْآخَرُ فَآمَنَ بِهِ فَذَلِكَ يُؤْتَى أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ .
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১৭
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جو کسی شخص عورت سے نکاح کرنے کے بعد اس سے صحبت سے پہلے طلاق دے دے تو کیا وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے کہ نہیں۔
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کے ساتھ دخول کیا تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح کرنا درست نہیں ہے، اور اگر اس نے اس کے ساتھ دخول نہیں کیا ہے تو وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے، اور جس مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا تو اس نے اس سے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح کرنا حلال نہیں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے، اسے صرف ابن لہیعہ اور مثنی بن صالح نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا ہے۔ اور مثنی بن صالح اور ابن لہیعہ حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں۔ ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کسی کی ماں سے شادی کرلے اور پھر اسے دخول سے پہلے طلاق دیدے تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح جائز ہے، اور جب آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح کرے اور اسے دخول سے پہلے طلاق دیدے تو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح جائز نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «وأمهات نسائكم» (النساء : ٢٣) ، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٨٧٣٣) (ضعیف) (مؤلف نے وجہ بیان کر سنن الدارمی/ ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، الإرواء (1879) // ضعيف الجامع الصغير (2242) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1117
حدیث نمبر: 1117 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ بِهَا فَلَا يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ ابْنَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِهَا فَلْيَنْكِحْ ابْنَتَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً فَدَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فَلَا يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ أُمِّهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا رَوَاهُ ابْنُ لَهِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ لَهِيعَةَ يضعفان في الحديث، ‏‏‏‏‏‏والعمل على هذا عند أكثر أهل العلم، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَأَةً ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا حَلَّ لَهُ أَنْ يَنْكِحَ ابْنَتَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الِابْنَةَ فَطَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا لَمْ يَحِلَّ لَهُ نِكَاحُ أُمِّهَا، ‏‏‏‏‏‏لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ سورة النساء آية 23 وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১৮
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور اس کے بعد وہ عورت کسی اور سے شادی کرلے لیکن یہ شخص صحبت سے پہلے اسے طلاق دیدے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کرلی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سوا کچھ نہیں ہے ١ ؎، آپ نے فرمایا : تو کیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو ؟ ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم ان (عبدالرحمٰن) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر، انس، رمیصاء، یا غمیصاء اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے پھر وہ کسی اور سے شادی کرلے اور وہ دوسرا شخص دخول سے پہلے اسے طلاق دیدے تو اس کے لیے پہلے شوہر سے نکاح درست نہیں جب تک کہ دوسرے شوہر نے اس سے جماع نہ کرلیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٣ (٢٦٣٩) ، صحیح مسلم/النکاح ١٧ (١٤٣٣) ، سنن النسائی/النکاح ٤٣ (٣٢٨٥) ، والطلاق ١٢ (٣٤٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٤٣٦) ، مسند احمد ٦/٣٧) ، سنن الدارمی/الطلاق ٤ (٢٣١٣) (صحیح) وأخرجہ کل من : صحیح البخاری/الطلاق ٤ (٥٢٦) ، و ٧ (٥٢٦٥) ، و ٣٧ (٥٣١٧) واللباس ٦ ٥٧٩٢) ، والأدب ٦٨ (٦٠٨٤) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/الطلاق ٩ (٣٤٣٧) ، و ١٠ (٢٤٣٨) ، من غیر ہذا الوجہ۔ وضاحت : ١ ؎ یعنی انہیں جماع کی قدرت نہیں ہے۔ ٢ ؎ «حتیٰ تذوقی عسیلتہ ویذوق عسیلتک» سے کنایہ جماع کی طرف ہے اور جماع کو شہد سے تشبیہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ جس طرح شہد کے استعمال سے لذت و حلاوت حاصل ہوتی ہے اسی طرح جماع سے بھی لذت و حلاوت حاصل ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1934) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1118
حدیث نمبر: 1118 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلَاقِي، ‏‏‏‏‏‏فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ وَمَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لَا حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالرُّمَيْصَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ الْغُمَيْصَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ فَطَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا لَا تَحِلُّ لِلزَّوْجِ الْأَوَّلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ جَامَعَ الزَّوْجُ الْآخَرُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১১৯
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حلالہ کرنے اور کرانے والا
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت بھیجی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی اور جابر (رض) کی حدیث معلول ہے، ٢- اسی طرح اشعث بن عبدالرحمٰن نے بسند «مجالد عن عامر هو الشعبي عن الحارث عن علي» روایت کی ہے۔ اور عامر الشعبی نے بسند «جابر بن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، ٣- اس حدیث کی سند کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مجالد بن سعید کو بعض اہل علم نے ضعیف گردانا ہے۔ انہی میں سے احمد بن حنبل ہیں، ٤- نیز عبداللہ بن نمیر نے اس حدیث کو بسند «مجالد عن عامر عن جابر بن عبد اللہ عن علي» روایت کی ہے، اس میں ابن نمیر کو وہم ہوا ہے۔ پہلی حدیث زیادہ صحیح ہے، ٥- اور اسے مغیرہ، ابن ابی خالد اور کئی اور لوگوں نے بسند «الشعبی عن الحارث عن علی» روایت کی ہے، ٦- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف من حدیث جابر، ومن حدیث علی أخرجہ کل من : سنن ابی داود/ النکاح ١٦ (٢٠٧٦) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٣ (١٩٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣٤٨ و ١٠٠٣٤) ، مسند احمد (١/٨٧) (صحیح) شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ جابر کی حدیث میں ” مجاہد “ اور علی (رض) کی حدیث میں ” حارث اعور “ ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : «محلل» وہ شخص ہے جو طلاق دینے کی نیت سے مطلقہ ثلاثہ سے نکاح و مباشرت کرے ، اور «محلل لہ» سے پہلا شوہر مراد ہے جس نے تین طلاقیں دی ہیں ، اور طریقہ سے اپنی عورت سے دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہے یہ حدیث دلیل ہے کہ حلالہ کی نیت سے نکاح باطل اور حرام ہے کیونکہ لعنت حرام فعل ہی پر کی جاتی ہے ، جمہور اس کی حرمت کے قائل ہیں ، حنفیہ اسے جائز کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (1535) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1119
حدیث نمبر: 1119 حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زُبَيْدٍ الْأَيَامِيُّ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَا:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ حَدِيثٌ مَعْلُولٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا رَوَى أَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ هُوَ:‏‏‏‏ الشَّعْبِيُّ، عنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَائِمِ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ مُجَالِدَ بْنَ سَعِيدٍ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا قَدْ وَهِمَ فِيهِ ابْنُ نُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَدِيثُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ مُغِيرَةُ، وَابْنُ أَبِي خَالِدٍ، وغير واحد، ‏‏‏‏‏‏عَنْالشَّعْبِيِّ، عنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ.
tahqiq

তাহকীক: