আল জামিউস সহীহ- ইমাম বুখারী রহঃ (উর্দু)
الجامع الصحيح للبخاري
توحید کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৮৭ টি
হাদীস নং: ৭৫১৭
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے بات کی۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سنا انہوں نے وہ واقعہ بیان کیا جس رات رسول اللہ ﷺ کو مسجد کعبہ سے معراج کے لیے لے جایا گیا کہ وحی آنے سے پہلے آپ کے پاس فرشتے آئے۔ نبی کریم ﷺ مسجد الحرام میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہ وہ کون ہیں ؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں تیسرے نے کہا کہ ان میں جو سب سے بہتر ہیں انہیں لے لو۔ اس رات کو بس اتنا ہی واقعہ پیش آیا اور نبی کریم ﷺ نے اس کے بعد انہیں نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے جب کہ آپ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں۔ لیکن دل نہیں سو رہا تھا۔ انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے۔ چناچہ انہوں نے آپ سے بات نہیں کی۔ بلکہ آپ کو اٹھا کر زمزم کے کنویں کے پاس لائے۔ یہاں جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کا کام سنبھالا اور آپ کے گلے سے دل کے نیچے تک سینہ چاک کیا اور سینے اور پیٹ کو پاک کر کے زمزم کے پانی سے اسے اپنے ہاتھ سے دھویا یہاں تک کہ آپ کا پیٹ صاف ہوگیا۔ پھر آپ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک برتن ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے آپ کے سینے اور حلق کی رگوں کو سیا اور اسے برابر کردیا۔ پھر آپ کو لے کر آسمان دنیا پر چڑھے اور اس کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر دستک دی۔ آسمان والوں نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل انہوں نے پوچھا اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا : کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ جواب دیا کہ ہاں۔ آسمان والوں نے کہا خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ آسمان والے اس سے خوش ہوئے۔ ان میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ زمین میں کیا کرنا چاہتا ہے جب تک وہ انہیں بتا نہ دے۔ نبی کریم ﷺ نے آسمان دنیا پر آدم (علیہ السلام) کو پایا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ سے کہا کہ یہ آپ کے بزرگ ترین دادا آدم ہیں آپ انہیں سلام کیجئے۔ آدم (علیہ السلام) نے سلام کا جواب دیا۔ کہا کہ خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ مبارک ہو اپنے بیٹے کو، آپ کیا ہی اچھے بیٹے ہیں۔ آپ نے آسمان دنیا میں دو نہریں دیکھیں جو بہہ رہی تھیں۔ پوچھا اے جبرائیل ! یہ نہریں کیسی ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ نیل اور فرات کا منبع ہے۔ پھر آپ آسمان پر اور چلے تو دیکھا کہ ایک دوسری نہر ہے جس کے اوپر موتی اور زبرجد کا محل ہے۔ اس پر اپنا ہاتھ مارا تو وہ مشک ہے۔ پوچھا : جبرائیل ! یہ کیا ہے ؟ جواب دیا کہ یہ کوثر ہے جسے اللہ نے آپ کے لیے محفوظ رکھا ہے۔ پھر آپ دوسرے آسمان پر چڑھے۔ فرشتوں نے یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے آسمان پر کیا تھا۔ کون ہیں ؟ کہا : جبرائیل۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا محمد ﷺ ۔ پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ فرشتے بولے انہیں مرحبا اور بشارت ہو۔ پھر آپ کو لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے اور دوسرے آسمان پر کیا تھا۔ پھر چوتھے آسمان پر لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر پانچویں آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا پھر چھٹے آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر آپ کو لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ ہر آسمان پر انبیاء ہیں جن کے نام آپ نے لیے۔ مجھے یہ یاد ہے کہ ادریس (علیہ السلام) دوسرے آسمان پر، ہارون (علیہ السلام) چوتھے آسمان پر، اور دوسرے نبی پانچویں آسمان پر۔ جن کے نام مجھے یاد نہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) چھٹے آسمان پر اور موسیٰ (علیہ السلام) ساتویں آسمان پر۔ یہ انہیں اللہ تعالیٰ نے شرف ہم کلامی کی وجہ سے فضیلت ملی تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میرے رب ! میرا خیال نہیں تھا کہ کسی کو مجھ سے بڑھایا جائے گا۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی۔ پھر آپ اترے اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو روک لیا اور پوچھا : اے محمد ! آپ کے رب نے آپ سے کیا عہد لیا ہے ؟ فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے دن اور رات میں پچاس نمازوں کا عہد لیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں۔ واپس جائیے اور اپنی اور اپنی امت کی طرف سے کمی کی درخواست کیجئے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے بھی اشارہ کیا کہ ہاں اگر چاہیں تو بہتر ہے۔ چناچہ آپ پھر انہیں لے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے مقام پر کھڑے ہو کر عرض کیا : اے رب ! ہم سے کمی کر دے کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے دس نمازوں کی کمی کردی۔ پھر آپ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو روکا۔ موسیٰ (علیہ السلام) آپ کو اسی طرح برابر اللہ رب العزت کے پاس واپس کرتے رہے۔ یہاں تک کہ پانچ نمازیں ہوگئیں۔ پانچ نمازوں پر بھی انہوں نے نبی کریم ﷺ کو روکا اور کہا : اے محمد ! میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کا تجربہ اس سے کم پر کیا ہے وہ ناتواں ثابت ہوئے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ آپ کی امت تو جسم، دل، بدن، نظر اور کان ہر اعتبار سے کمزور ہے، آپ واپس جائیے اور اللہ رب العزت اس میں بھی کمی کر دے گا۔ ہر مرتبہ نبی کریم ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوتے تھے تاکہ ان سے مشورہ لیں اور جبرائیل (علیہ السلام) اسے ناپسند نہیں کرتے تھے۔ جب وہ آپ کو پانچویں مرتبہ بھی لے گئے تو عرض کیا : اے میرے رب ! میری امت جسم، دل، نگاہ اور بند ہر حیثیت سے کمزور ہے، پس ہم سے اور کمی کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا کہ وہ قول میرے یہاں بدلا نہیں جاتا جیسا کہ میں نے تم پر ام الکتاب میں فرض کیا ہے۔ اور فرمایا کہ ہر نیکی کا ثواب دس گناہ ہے پس یہ ام الکتاب میں پچاس نمازیں ہیں لیکن تم پر فرض پانچ ہی ہیں۔ چناچہ آپ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آئے اور انہوں نے پوچھا : کیا ہوا ؟ آپ نے کہا کہ ہم سے یہ تخفیف کی کہ ہر نیکی کے بدلے دس کا ثواب ملے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں نے بنی اسرائیل کو اس سے کم پر آزمایا ہے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ پس آپ واپس جائیے اور مزید کمی کرائیے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر کہا : اے موسیٰ ، واللہ ! مجھے اپنے رب سے اب شرم آتی ہے کیونکہ باربار آ جا چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اللہ کا نام لے کر اتر جاؤ۔ پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسجد الحرام میں تھے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ مسجد الحرام ہی میں تھے کہ جاگ اٹھے، جاگ اٹھنے سے یہ مراد ہے کہ وہ حالت معراج کی جاتی رہی اور آپ اپنی حالت میں آگئے۔
حدیث نمبر: 7517 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ أَنَّهُ جَاءَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، فَقَالَ: أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ، فَقَالَ: أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ، فَقَالَ: آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ، فَكَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَى فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ، وَتَنَامُ عَيْنُهُ، وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ، وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ، فَلَمْ يُكَلِّمُوهُ حَتَّى احْتَمَلُوهُ فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ، فَتَوَلَّاهُ مِنْهُمْ جِبْرِيلُ، فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَى لَبَّتِهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَدْرِهِ وَجَوْفِهِ، فَغَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ بِيَدِهِ حَتَّى أَنْقَى جَوْفَهُ، ثُمَّ أُتِيَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ تَوْرٌ مِنْ ذَهَبٍ مَحْشُوًّا إِيمَانًا وَحِكْمَةً، فَحَشَا بِهِ صَدْرَهُ وَلَغَادِيدَهُ يَعْنِي عُرُوقَ حَلْقِهِ ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَضَرَبَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِهَا، فَنَادَاهُ أَهْلُ السَّمَاءِ مَنْ هَذَا، فَقَالَ جِبْرِيلُ: قَالُوا: وَمَنْ مَعَكَ ؟، قَالَ: مَعِيَ مُحَمَّدٌ، قَالَ: وَقَدْ بُعِثَ ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: فَمَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا، فَيَسْتَبْشِرُ بِهِ أَهْلُ السَّمَاءِ لَا يَعْلَمُ أَهْلُ السَّمَاءِ بِمَا يُرِيدُ اللَّهُ بِهِ فِي الْأَرْضِ حَتَّى يُعْلِمَهُمْ، فَوَجَدَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا آدَمَ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ: هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَرَدَّ عَلَيْهِ آدَمُ، وَقَالَ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا بِابْنِي نِعْمَ الِابْنُ أَنْتَ فَإِذَا هُوَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِنَهَرَيْنِ يَطَّرِدَانِ، فَقَالَ: مَا هَذَانِ النَّهَرَانِ يَا جِبْرِيلُ ؟، قَالَ: هَذَا النِّيلُ وَالْفُرَاتُ عُنْصُرُهُمَا، ثُمَّ مَضَى بِهِ فِي السَّمَاءِ، فَإِذَا هُوَ بِنَهَرٍ آخَرَ عَلَيْهِ قَصْرٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ، فَضَرَبَ يَدَهُ، فَإِذَا هُوَ مِسْكٌ أَذْفَرُ، قَالَ: مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ ؟، قَالَ: هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي خَبَأَ لَكَ رَبُّكَ، ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ، فَقَالَتِ الْمَلَائِكَةُ لَهُ: مِثْلَ مَا قَالَتْ لَهُ الْأُولَى مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ: قَالُوا وَمَنْ مَعَكَ ؟، قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: مَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا، ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، وَقَالُوا لَهُ: مِثْلَ مَا قَالَتِ الْأُولَى وَالثَّانِيَةُ، ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى الرَّابِعَةِ، فَقَالُوا لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، ثُم عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ، فَقَالُوا: مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، فَقَالُوا لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَقَالُوا لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ كُلُّ سَمَاءٍ فِيهَا أَنْبِيَاءُ قَدْ سَمَّاهُمْ، فَأَوْعَيْتُ مِنْهُمْ إِدْرِيسَ فِي الثَّانِيَةِ، وَهَارُونَ فِي الرَّابِعَةِ، وَآخَرَ فِي الْخَامِسَةِ، لَمْ أَحْفَظْ اسْمَهُ، وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ، وَمُوسَى فِي السَّابِعَةِ، بِتَفْضِيلِ كَلَامِ اللَّهِ، فَقَالَ مُوسَى: رَبِّ لَمْ أَظُنَّ أَنْ يُرْفَعَ عَلَيَّ أَحَدٌ، ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَتَدَلَّى، حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى، فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، ثُمَّ هَبَطَ حَتَّى بَلَغَ مُوسَى، فَاحْتَبَسَهُ مُوسَى، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: مَاذَا عَهِدَ إِلَيْكَ رَبُّكَ، قَالَ: عَهِدَ إِلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ فَارْجِعْ، فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ رَبُّكَ وَعَنْهُمْ، فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ كَأَنَّهُ يَسْتَشِيرُهُ فِي ذَلِكَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ، أَنْ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَعَلَا بِهِ إِلَى الْجَبَّارِ، فَقَالَ وَهُوَ مَكَانَهُ: يَا رَبِّ، خَفِّفْ عَنَّا فَإِنَّ أُمَّتِي لَا تَسْتَطِيعُ هَذَا فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُوسَى، فَاحْتَبَسَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُرَدِّدُهُ مُوسَى إِلَى رَبِّهِ حَتَّى صَارَتْ إِلَى خَمْسِ صَلَوَاتٍ، ثُمَّ احْتَبَسَهُ مُوسَى عِنْدَ الْخَمْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، وَاللَّهِ لَقَدْ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَوْمِي عَلَى أَدْنَى مِنْ هَذَا، فَضَعُفُوا، فَتَرَكُوهُ، فَأُمَّتُكَ أَضْعَفُ أَجْسَادًا وَقُلُوبًا وَأَبْدَانًا وَأَبْصَارًا وَأَسْمَاعًا، فَارْجِعْ، فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ رَبُّكَ كُلَّ ذَلِكَ يَلْتَفِتُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ لِيُشِيرَ عَلَيْهِ وَلَا يَكْرَهُ ذَلِكَ جِبْرِيلُ، فَرَفَعَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ، فَقَالَ: يَا رَبِّ، إِنَّ أُمَّتِي ضُعَفَاءُ أَجْسَادُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ وَأَسْمَاعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَأَبْدَانُهُمْ، فَخَفِّفْ عَنَّا، فَقَالَ الْجَبَّارُ: يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ كَمَا فَرَضْتُهُ عَلَيْكَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ، قَالَ: فَكُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا فَهِيَ خَمْسُونَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ وَهِيَ خَمْسٌ عَلَيْكَ، فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: كَيْفَ فَعَلْتَ ؟، فَقَالَ: خَفَّفَ عَنَّا أَعْطَانَا بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا، قَالَ مُوسَى: قَدْ وَاللَّهِ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ، فَتَرَكُوهُ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ أَيْضًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مُوسَى، قَدْ وَاللَّهِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي مِمَّا اخْتَلَفْتُ إِلَيْهِ، قَالَ: فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ، قَالَ: وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫১৮
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جنت والوں سے اللہ کے کلام کرنے کا بیان
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ جنت والوں سے کہے گا : اے جنت والو ! وہ بولیں گے حاضر تیری خدمت کے لیے مستعد، ساری بھلائی تیرے دونوں ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا : کیا تم خوش ہو ؟ وہ جواب دیں گے کیوں نہیں ہم خوش ہوں گے، اے رب ! اور تو نے ہمیں وہ چیزیں عطا کی ہیں جو کسی مخلوق کو نہیں عطا کیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں تمہیں اس سے افضل انعام نہ دوں ؟ جنتی پوچھیں گے : اے رب ! اس سے افضل کیا چیز ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں اپنی خوشی تم پر اتارتا ہوں اور اب کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔
حدیث نمبر: 7518 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُونَ: لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، فَيَقُولُ هَلْ رَضِيتُمْ ؟، فَيَقُولُونَ: وَمَا لَنَا لَا نَرْضَى يَا رَبِّ، وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، فَيَقُولُ: أَلَا أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ ؟، فَيَقُولُونَ: يَا رَبِّ، وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ ؟، فَيَقُولُ: أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫১৯
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب
باب : اللہ اپنے بندوں کو حکم کر کے یاد کرتا ہے اور بندے اس سے دعا اور عاجزی کر کے اور اللہ کا پیغام دوسروں کو پہنچا کر اس کی یاد کرتے ہیں جیسا کہ (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا فاذکروني أذكركم تم میری یاد کرو میں تمہاری یاد کروں گا اور (سورۃ یونس میں) فرمایا اے پیغمبر ! ان کو نوح کا قصہ سنا جب اس نے اپنی قوم سے کہا۔ بھائیو ! اگر میرا رہنا تم میں اور اللہ کی آیات پڑھ کر سنانا تم پر گراں گزرتا ہے تو میں نے اللہ پر اپنا کام چھوڑ دیا (اس پر بھروسہ کیا) تم بھی اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر (میرے قتل یا اخراج کی) ٹھہرا لو۔ پھر اس تجویز کے پورا کرنے میں کچھ فکر نہ کرو بےتامل کر ڈالو۔ مجھ کو بھی فرصت نہ دو ، اگر تم میری باتیں نہ مانو تو خیر میں تم سے کچھ دنیا کی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت تو اللہ ہی پر ہے اس کی طرف سے مجھ کو اس کے تابعداروں میں شریک رہنے کا حکم ملا ہے۔ غمة کا معنی غم اور تنگی۔ مجاہد نے کہا اقضوا إلى کا معنی یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو پورا کر ڈالو، قصہ تمام کرو۔ عرب لوگ کہتے ہیں افرق یعنی فیصلہ کر دے اور مجاہد نے اس آیت کی تفسیر میں وإن أحد من المشرکين استجارک فأجره حتى يسمع کلام الله الخ، (سورۃ التوبہ میں) کہا یعنی اگر کوئی کافر نبی کریم ﷺ کے پاس اللہ کا کلام اور جو آپ پر اترا اس کو سننے کے لیے آئے تو اس کو امن ہے جب تک وہ اس طرح آتا اور اللہ کا کلام سنتا رہے اور جب تک وہ اس امن کی جگہ نہ پہنچ جائے جہاں سے وہ آیا تھا اور (سورۃ نبا میں) لنبأ العظيم سے قرآن مراد ہے اور اس سورة میں جو صوابا ہے تو صواب سے حق بات کہنا اور پر اس پر عمل کرنا مراد ہے۔
39- بَابُ ذِكْرِ اللَّهِ بِالأَمْرِ وَذِكْرِ الْعِبَادِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ وَالرِّسَالَةِ وَالإِبْلاَغِ: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ سورة البقرة آية 152 وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلا تُنْظِرُونِ 71 فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلا عَلَى اللَّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ سورة يونس آية 71 - 72 غُمَّةٌ هَمٌّ وَضِيقٌ قَالَ مُجَاهِدٌ اقْضُوا إِلَيَّ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ يُقَالُ افْرُقْ اقْضِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ سورة التوبة آية 6 إِنْسَانٌ يَأْتِيهِ فَيَسْتَمِعُ مَا يَقُولُ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ فَهُوَ آمِنٌ حَتَّى يَأْتِيَهُ فَيَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ وَحَتَّى يَبْلُغَ مَأْمَنَهُ حَيْثُ جَاءَهُ النَّبَأُ الْعَظِيمُ الْقُرْآنُ صَوَابًا حَقًّا فِي الدُّنْيَا وَعَمَلٌ بِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২০
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ ٰکا قول کہ ”اللہ کا شر یک نہ بناﺅ “ اور اللہ عز وجل کا قول کہ ” اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے ”اور تمہاری طرف اور ان کی طرف جو تم سے پہلے تھے وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضا ئع ہوجائے گا اور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاﺅ گے بلکہ اللہ کی عبادت کرو اور شکر کرنے والوں ہو جاﺅ اور عکرمہ نے کہا کہ و ما یؤمن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون کی تفسیر یہ ہے کہ اگر تم ان سے سوال کرو کہ کس نے ان کو پیدا کیا اور کس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تو وہ یقینا کہیں گے کہ اللہ نے، تو یہ ان کا ایمان ہے اور وہ لوگ عبادت غیر اللہ کی کرتے ہیں (یہ ان کا شرک ہے) اور بندوں کے افعال اور کسب کے مخلوق ہونے کا بیان اس لئے اللہ نے فرمایا کہ اس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور اس کا اندازہ مقرر کیا اور مجاہد نے کہا کہ ما تنزل الملئکة الا بالحق میں حق سے مراد رسالت اور عذاب لیسئال الصادقین عن صدقھم میں صادقین سے مراد پیغمبر ہیں جو اللہ کا حکم پہنچانے والے ہیں اور ادا کرنے والے ہیں۔ وانا لہ لحافظون سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمارے پاس اور والذی جاء باالصدق میں صدق سے مراد قرآن ہے اور” صدق بہ “ سے مراد مومن ہیں یہ قیامت کے دن کہیں گے کہ یہی وہ چیز ہے جو تو نے مجھے دی تھی اور جو اس میں احکام تھے میں نے ان پر عمل کیا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابو وائل نے، ان سے عمرو بن شرجیل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے عرض کیا : پھر کون سا ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔
حدیث نمبر: 7520 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ ؟، قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ، قُلْتُ: إِنَّ ذَلِكَ لَعَظِيمٌ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ ؟، قَالَ: ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخَافُ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ ؟، قَالَ: ثُمَّ أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২১
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کا قول کہ تم اپنے گناہ کو اس خوف سے نہیں چھپاتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں تمہاری خلاف گواہی دیں گے بلکہ تم نے گمان کیا تھا کہ اللہ کو تمہارے اکثر اعمال کی خبر نہیں ہے۔
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے منصور نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے بیان کیا، ان سے ابومعمر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ خانہ کعبہ کے پاس دو ثقفی اور ایک قریشی یا (یہ کہا کہ) دو قریشی اور ایک ثقفی جمع ہوئے جن کے پیٹ کی چربی بہت تھی (توند بڑی تھی) اور جن میں سوجھ بوجھ کی بڑی کمی تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ تمہارا خیال ہے کہ اللہ وہ سب کچھ سنتا ہے جو ہم کہتے ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ جب ہم زور سے بولتے ہیں تو سنتا ہے لیکن اگر ہم آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل کی وما کنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعکم ولا أبصارکم ولا جلودکم تم جو دنیا میں چھپ کر گناہ کرتے تھے تو اس ڈر سے نہیں کہ تیرے کان تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے تمہارے خلاف قیامت کے دن گواہی دیں گے آخر تک۔
حدیث نمبر: 7521 حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَيْتِ ثَقَفِيَّانِ، وَقُرَشِيٌّ، أَوْ قُرَشِيَّانِ، وَثَقَفِيٌّ كَثِيرَةٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ قَلِيلَةٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتَرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ ؟، قَالَ الْآخَرُ: يَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا وَلَا يَسْمَعُ إِنْ أَخْفَيْنَا، وَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا فَإِنَّهُ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ وَلا جُلُودُكُمْ سورة فصلت آية 22.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২২
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہر روز ایک نئے کام میں ہے اور ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی بات نہیں آتی اللہ تعالیٰ کا قول بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد کوئی نئی بات پیدا کرے اور اس کا نئی بات کرنا مخلوق کے نئی بات کرنے کے مشابہ نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے اور ابن مسعود نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کوئی نیا حکم چاہتا ہے دے دیتا ہے اور ان نئے حکموں میں ایک یہ ہے کہ تم نماز میں کلام نہ کرو۔
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن وردان نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ تم اہل کتاب سے ان کی کتابوں کے مسائل کے بارے میں کیونکر سوال کرتے ہو، تمہارے پاس خود اللہ کی کتاب موجود ہے جو زمانہ کے اعتبار سے بھی تم سے سب سے زیادہ قریب ہے، تم اسے پڑھتے ہو، وہ خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔
حدیث نمبر: 7522 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ كُتُبِهِمْ، وَعِنْدَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ أَقْرَبُ الْكُتُبِ عَهْدًا بِاللَّهِ تَقْرَءُونَهُ مَحْضًا لَمْ يُشَبْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২৩
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہر روز ایک نئے کام میں ہے اور ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی بات نہیں آتی اللہ تعالیٰ کا قول بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد کوئی نئی بات پیدا کرے اور اس کا نئی بات کرنا مخلوق کے نئی بات کرنے کے مشابہ نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے اور ابن مسعود نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کوئی نیا حکم چاہتا ہے دے دیتا ہے اور ان نئے حکموں میں ایک یہ ہے کہ تم نماز میں کلام نہ کرو۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ اے مسلمانو ! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ میں کیوں پوچھتے ہو۔ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ پر نازل کی ہے وہ اللہ کے یہاں سے بالکل تازہ آئی ہے، خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمہیں بتادیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو بدل ڈالا۔ وہ ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے اور دعویٰ کرتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی پونچی حاصل کریں، تم کو جو اللہ نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہے کیا وہ تم کو اس سے منع نہیں کرتا کہ تم دین کی باتیں اہل کتاب سے پوچھو۔ اللہ کی قسم ! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہوا ہے اس کے متعلق وہ تم سے پوچھتے ہوں۔
حدیث نمبر: 7523 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَيْءٍ ؟ وَكِتَابُكُمُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ الْأَخْبَارِ بِاللَّهِ مَحْضًا لَمْ يُشَبْ، وَقَدْ حَدَّثَكُمُ اللَّهُ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ بَدَّلُوا مِنْ كُتُبِ اللَّهِ وَغَيَّرُوا، فَكَتَبُوا بِأَيْدِيهِمُ الْكُتُبَ، قَالُوا: هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِذَلِكَ ثَمَنًا قَلِيلًا، أَوَلَا يَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ مَسْأَلَتِهِمْ فَلَا وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا رَجُلًا مِنْهُمْ يَسْأَلُكُمْ عَنِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْكُمْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২৪
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کا قول کہ اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو اور وحی اترتے وقت آنحضرت ﷺ کے ایسا کرنے کا بیان۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب تک کہ وہ میری یاد کرتا ہے اور اس کے دونوں ہونٹ میری یاد میں ہل رہے ہوں
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس (رض) نے (سورۃ القیامہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد لا تحرک به لسانک کے متعلق کہ وحی نازل ہوتی ہے تو نبی کریم ﷺ پر اس کا بہت بار پڑتا ہے اور آپ اپنے ہونٹ ہلاتے۔ مجھ سے ابن عباس (رض) نے کہا کہ میں تمہیں ہلا کے دکھاتا ہوں جس طرح نبی کریم ﷺ ہلاتے تھے۔ سعید نے کہا کہ جس طرح ابن عباس (رض) ہونٹ ہلا کردکھاتے تھے، میں تمہارے سامنے اسی طرح ہلاتا ہوں۔ چناچہ انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی لا تحرک به لسانک لتعجل به * إن علينا جمعه وقرآنه یعنی تمہارے سینے میں قرآن کا جما دینا اور اس کو پڑھا دینا ہمارا کام ہے جب ہم (جبرائیل (علیہ السلام) کی زبان پر) اس کو پڑھ چکیں اس وقت تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ مطلب یہ ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) کے پڑھتے وقت کان لگا کر سنتے رہو اور خاموش رہو، یہ ہمارا ذمہ ہے کہ ہم تم سے ویسا ہی پڑھوا دیں گے۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ اس آیت کے اترنے کے بعد جب جبرائیل (علیہ السلام) آتے (قرآن سناتے) تو آپ کان لگا کر سنتے۔ جب جبرائیل (علیہ السلام) چلے جاتے تو آپ لوگوں کو اسی طرح پڑھ کر سنا دیتے جیسے جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو پڑھ کر سنایا تھا۔
حدیث نمبر: 7524 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً وَكَانَ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، فَقَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَنَا أُحَرِّكُهُمَا لَكَ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهُمَا، فَقَالَ سَعِيدٌ: أَنَا أُحَرِّكُهُمَا كَمَا كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُحَرِّكُهُمَا، فَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ 16 إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ 17 سورة القيامة آية 16-17، قَالَ: جَمْعُهُ فِي صَدْرِكَ، ثُمَّ تَقْرَؤُهُ: فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18، قَالَ: فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام اسْتَمَعَ، فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا أَقْرَأَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২৫
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کا قول کہ تم اپنی بات آہستہ آہستہ کرو یا زور سے بے شک اللہ دل کی باتوں کا جاننے والا ہے۔ کیا وہ ان چیزوں کو نہیں جانتا جو اس نے پیدا کیں وہ باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے اور یتخافتون کے معنی ہیں کہ وہ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں
مجھ سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، ان سے ہشیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور انہیں عبداللہ بن عباس (رض) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ولا تجهر بصلاتک ولا تخافت بها کے بارے میں کہ یہ آیت جب نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ مکہ میں چھپ کر (اعمال اسلام ادا کرتے تھے) لیکن جب اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتے تو قرآن مجید بلند آواز سے پڑھتے، جب مشرکین سنتے تو قرآن مجید کو، اس کے اتارنے والے کو اور اسے لے کر آنے والے کو گالی دیتے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے کہا کہ اپنی قرآت میں آواز بلند نہ کریں کہ مشرکین سنین اور پھر قرآن کو گالی دیں اور نہ اتنا آہستہ ہی پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان کا راستہ اختیار کریں۔
حدیث نمبر: 7525 حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ ، عَنْ هُشَيْمٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَ: نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مختف بمكة، فكان إذا صلى بأصحابه رفع صوته بالقرآن، فإذا سمعه المشركون سبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به، فقال الله لنبيه صلى الله عليه وسلم: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أي بقراءتك فيسمع المشركون فيسبوا القرآن وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ فَلَا تُسْمِعُهُمْ وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২৬
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کا قول کہ تم اپنی بات آہستہ آہستہ کرو یا زور سے بے شک اللہ دل کی باتوں کا جاننے والا ہے۔ کیا وہ ان چیزوں کو نہیں جانتا جو اس نے پیدا کیں وہ باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے اور یتخافتون کے معنی ہیں کہ وہ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ آیت ولا تجهر بصلاتک ولا تخافت بها دعا کے بارے میں نازل ہوئی، یعنی دعا نہ بہت چلا کر مانگ نہ آہستہ بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کر۔
حدیث نمبر: 7526 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 فِي الدُّعَاءِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২৭
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کا قول کہ تم اپنی بات آہستہ آہستہ کرو یا زور سے بے شک اللہ دل کی باتوں کا جاننے والا ہے۔ کیا وہ ان چیزوں کو نہیں جانتا جو اس نے پیدا کیں وہ باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے اور یتخافتون کے معنی ہیں کہ وہ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو خوش آوازی سے قرآن نہیں پڑھتا وہ ہم مسلمانوں کے طریق پر نہیں ہے۔ اور ابوہریرہ (رض) کے سوا دوسرے لوگوں نے اس حدیث میں اتنا زیادہ کیا ہے یعنی اس کو پکار کر نہ پڑھے۔
حدیث نمبر: 7527 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِوَزَادَ غَيْرُهُ يَجْهَرُ بِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২৮
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی ﷺ کا ارشاد کہ ایک شخص جس کو اللہ نے قرآن دیا اور وہ اس کو رات دن پڑھتا رہتا ہے۔ دوسرا شخص اس کو دیکھ کر کہتا ہے کاش مجھے بھی وہ ملتا جواسے ملا ہے میں بھی ایسا ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے تو اللہ نے بیان کردیا کہ اس کا کتاب کو پڑھنا اس کا فعل ہے اور فرمایا کہ آسمان وزمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف اس کی نشانیوں میں سے ہے اور اللہ بزرگ وبرتر نے فرمایا کہ بھلائی کرو تاکہ تم فلاح پاؤ
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رشک صرف دو آدمیوں پر کیا جاسکتا ہے، ایک اس پر جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا اور وہ اس کی تلاوت رات دن کرتا ہے تو ایک دیکھنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اسی جیسا قرآن کا علم ہوتا تو میں بھی اس کی طرح تلاوت کرتا رہتا اور دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے اس کے حق میں خرچ کرتا ہے جسے دیکھنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اللہ اتنا مال دیتا تو میں بھی اسی طرح خرچ کرتا جیسے یہ کرتا ہے۔
حدیث نمبر: 7528 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَحَاسُدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا لَفَعَلْتُ كَمَا يَفْعَلُ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ فِي حَقِّهِ، فَيَقُولُ: لَوْ أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ عَمِلْتُ فِيهِ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫২৯
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی ﷺ کا ارشاد کہ ایک شخص جس کو اللہ نے قرآن دیا اور وہ اس کو رات دن پڑھتا رہتا ہے۔ دوسرا شخص اس کو دیکھ کر کہتا ہے کاش مجھے بھی وہ ملتا جواسے ملا ہے میں بھی ایسا ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے تو اللہ نے بیان کردیا کہ اس کا کتاب کو پڑھنا اس کا فعل ہے اور فرمایا کہ آسمان وزمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف اس کی نشانیوں میں سے ہے اور اللہ بزرگ وبرتر نے فرمایا کہ بھلائی کرو تاکہ تم فلاح پاؤ
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے قرآن دیا اور وہ اس کی تلاوت رات دن کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے رات و دن خرچ کرتا رہا۔ علی بن عبداللہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے کئی بار سنی أخبرنا کے لفظوں کے ساتھ انہیں کہتا سنا باوجود اس کے ان کی یہ حدیث صحیح اور متصل ہے۔
حدیث نمبر: 7529 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، سَمِعْتُ سُفْيَانَ مِرَارًا لَمْ أَسْمَعْهُ يَذْكُرُ الْخَبَرَ، وَهُوَ مِنْ صَحِيحِ حَدِيثِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৩০
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کا قول کہ رسول پہنچا دیجئے جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا، اور زہری نے کہا کہ اللہ کی طرف سے پیغام پہنچتا ہے اور رسول اللہ ﷺ پر پہنچانا ہے اور ہم پر اس کا تسلیم کرنا ہے اور اللہ نے فرمایا کہ جان لے کہ ان لوگوں نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچا دیا اور فرمایا کہ میں تمہارے پاس اپنے رب کے پیغام کو پہنچاتا ہوں اور کعب بن مالک نے جبکہ وہ غزوہ تبوک میں نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے کہا کہ عنقریب اللہ اور اس کے رسول تمہارے کام دیکھیں گے اور حضرت عائشہ سے کہا کہ جب تم کو کسی کا عمل پسند ہو تو کہو عمل کرو عنقریب اللہ اور اسکے رسول اور ایماندار تمہارے کام دیکھیں گے اور تم کو کوئی فریب نہ ڈا لے اور معمر نے کہا کہ ذالک الکتاب سے مراد ھذا لقرآن ہے ھدی المتقین (ہدایت متقین کے لئے) میں ھدی سے مراد بیان ہے اور دلالت ہے جسا کہ اللہ کا قول ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اس میں کوئی ریب یعنی شک نہیں تلک آیات سے مراد ھذہ اعلام القرآن ہے اور اس کی مثال آیت حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم ہے جس میں جرین بھم سے مراد جرین بکم ہے اور انس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کہ ان کے ماموں حرام کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تو انہوں نے جا کر کہا تم مجھ پر ایمان لاتے ہو کہ میں آنحضرت ﷺ کا پیغام پہنچاتا ہوں پھر ان سے باتیں کرنے لگے
ہم سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن جعفر الرقی نے بیان کیا، ان سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے سعید بن عبیداللہ ثقفی نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی اور زیاد بن جبیر بن حیہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ (رض) نے (ایران کی فوج کے سامنے) کہا کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں اپنے رب کے پیغامات میں سے یہ پیغام پہنچایا کہ ہم میں سے جو (فی سبیل اللہ) قتل کیا جائے گا وہ جنت میں جائے گا۔
حدیث نمبر: 7530 حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بنُ عبْد اللهِ المُزَنيُّ ، وَزِيَادُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ ، قَالَ الْمُغِيرَةُ : أَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا، أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الْجَنَّةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৩১
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کا قول کہ رسول پہنچا دیجئے جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے اتا را گیا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا، اور زہری نے کہا کہ اللہ کی طرف سے پیغام پہنچتا ہے اور رسول اللہ ﷺ پر پہنچانا ہے اور ہم پر اس کا تسلیم کرنا ہے اور اللہ نے فرمایا کہ جان لے کہ ان لوگوں نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچا دیا اور فرمایا کہ میں تمہارے پاس اپنے رب کے پیغام کو پہنچاتا ہوں اور کعب بن مالک نے جبکہ وہ غزوہ تبوک میں نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے کہا کہ عنقریب اللہ اور اس کے رسول تمہارے کام دیکھیں گے اور حضرت عائشہ سے کہا کہ جب تم کو کسی کا عمل پسند ہو تو کہو عمل کرو عنقریب اللہ اور اسکے رسول اور ایماندار تمہارے کام دیکھیں گے اور تم کو کوئی فریب نہ ڈا لے اور معمر نے کہا کہ ذالک الکتاب سے مراد ھذا لقرآن ہے ھدی المتقین (ہدایت متقین کے لئے) میں ھدی سے مراد بیان ہے اور دلالت ہے جیسا کہ اللہ کا قول ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اس میں کوئی ریب یعنی شک نہیں تلک آیات سے مراد ھذہ اعلام القرآن ہے اور اس کی مثال آیت حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم ہے جس میں جرین بھم سے مراد جرین بکم ہے اور انس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کہ ان کے ماموں حرام کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تو انہوں نے جا کر کہا تم مجھ پر ایمان لاتے ہو کہ میں آنحضرت ﷺ کا پیغام پہنچاتا ہوں پھر ان سے باتیں کرنے لگے
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے، ان سے شعبی نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ اگر کوئی تم سے یہ بیان کرتا ہے کہ محمد ﷺ نے کوئی چیز چھپائی، (اور دوسری سند) اور محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے شعبی نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ اگر تم سے کوئی یہ بیان کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وحی میں کچھ چھپالیا تو اس کی تصدیق نہ کرنا (وہ جھوٹا ہے) کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربک وإن لم تفعل فما بلغت رسالته کہ اے رسول ! پہنچا دیجئیے وہ پیغام جو آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اگر آپ نے یہ نہیں کیا تو آپ اپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا۔
حدیث نمبر: 7531 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَمَ شَيْئًا، وَقَالَ مُحَمَّدٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَمَ شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ فَلَا تُصَدِّقْهُ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ سورة المائدة آية 67.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৩২
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کا قول کہ رسول پہنچا دیجئے جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے اتا را گیا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا، اور زہری نے کہا کہ اللہ کی طرف سے پیغام پہنچتا ہے اور رسول اللہ ﷺ پر پہنچانا ہے اور ہم پر اس کا تسلیم کرنا ہے اور اللہ نے فرمایا کہ جان لے کہ ان لوگوں نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچا دیا اور فرمایا کہ میں تمہارے پاس اپنے رب کے پیغام کو پہنچاتا ہوں اور کعب بن مالک نے جبکہ وہ غزوہ تبوک میں نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے کہا کہ عنقریب اللہ اور اس کے رسول تمہارے کام دیکھیں گے اور حضرت عائشہ سے کہا کہ جب تم کو کسی کا عمل پسند ہو تو کہو عمل کرو عنقریب اللہ اور اسکے رسول اور ایماندار تمہارے کام دیکھیں گے اور تم کو کوئی فریب نہ ڈا لے اور معمر نے کہا کہ ذالک الکتاب سے مراد ھذا لقرآن ہے ھدی المتقین (ہدایت متقین کے لئے) میں ھدی سے مراد بیان ہے اور دلالت ہے جیسا کہ اللہ کا قول ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اس میں کوئی ریب یعنی شک نہیں تلک آیات سے مراد ھذہ اعلام القرآن ہے اور اس کی مثال آیت حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم ہے جس میں جرین بھم سے مراد جرین بکم ہے اور انس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کہ ان کے ماموں حرام کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تو انہوں نے جا کر کہا تم مجھ پر ایمان لاتے ہو کہ میں آنحضرت ﷺ کا پیغام پہنچاتا ہوں پھر ان سے باتیں کرنے لگے
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے، ان سے عمرو بن شرجیل نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت میں کسی کو بھی ساجھی بناؤ حالانکہ تمہیں اللہ نے پیدا کیا ہے۔ پوچھا پھر کون سا ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ پوچھا پھر کون سا ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الفرقان میں) اس کی تصدیق میں قرآن نازل فرمایا والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود باطل کو نہیں پکارتے اور جو کسی ایسے کی جان نہیں لیتے جسے اللہ نے حرام کیا ہے سوا حق کے اور جو زنا نہیں کرتے اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ گناہ سے بھڑ جائے گا۔
حدیث نمبر: 7532 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الذَّنْبِ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ ؟، قَالَ: أَنْ تَدْعُوَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ، قَالَ: ثُمَّ أَيْ ؟، قَالَ: ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مَخَافَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ، قَالَ: ثُمَّ أَيْ ؟، قَالَ: أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَهَا: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا 68 يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ سورة الفرقان آية 68-69.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৩৩
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ تعالیٰ کا قول کہ آپ کہہ دیجئے کہ تورا ة لاؤ اور اسے پڑھو، نبی ﷺ کا قول کہ تو رات والوں کو تورات دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا اور تم لوگوں کو قرآن دیا گیا تو تم لوگوں نے اس پر عمل کیا، ابو رزین نے کہا کہ ’ یتلونہ‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں اور جیسا کہ عمل کرنا چاہیے اس پر عمل کرتے ہیں اور ”یتلی “ بول کر یہ مراد لیتے ہیں کہ پڑھا جاتا ہے، قرآن کے اچھی طرح پڑھنے اور تلاوت کرنے کو کہتے ہیں ،’ لا یمسہ ’ کے معنی ہیں کہ اس کا مزہ وہی پائیں جو قرآن پر ایمان لائیں اور اس کو اس کے حق کے ساتھ وہی اٹھائے گا جو یقین رکھے لہذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن پر تورات کی ذمہ داری تھی انہوں نے اسے ادا نہیں کیا تو ان کی مثال گدے کی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں، اس قوم کی بری مثال ہے جس نے اللہ کی آیت کو جھٹلا یا اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا نبی ﷺ نے اسلام اور ایمان کو عمل فرمایا۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ نبی ﷺ نے بلال سے فرمایا کہ مجھ کو وہ عمل بتاؤ جو تم حالت اسلام میں بہت زیادہ امید کا کیا ہو انہوں نے کہا کیا میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو میرے نزدیک بہت امید کا ہو بجز اس کے کہ میں نے پاکی ہی کی حالت میں نماز پڑھی ہے اور آپ سے کسی نے پوچھا کہ کو نسا عمل سب سے اچھا ہے، آپ نے فرمایا اللہ اور اس کو رسول پر ایمان لانا، پھر جہاد کرنا، پھر حج قبول ہے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گذشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمہارا وجود ایسا ہے جیسے عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت، اہل توریت کو توریت دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہوگیا اور وہ عاجز ہوگئے۔ پھر انہیں ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا، انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہوگیا، تمہیں دو دو قیراط دئیے گئے، اس پر کتاب نے کہا کہ یہ ہم سے عمل میں کم ہیں اور اجر میں زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں نے تمہارا حق دینے میں کوئی ظلم کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔
حدیث نمبر: 7533 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَنْ سَلَفَ مِنَ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ، فَعَمِلُوا بِهَا حَتَّى انْتَصَفَ النَّهَارُ ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلَ، فَعَمِلُوا بِهِ حَتَّى صُلِّيَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيتُمُ الْقُرْآنَ فَعَمِلْتُمْ بِهِ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأُعْطِيتُمْ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ: هَؤُلَاءِ أَقَلُّ مِنَّا عَمَلًا وَأَكْثَرُ أَجْرًا، قَالَ اللَّهُ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৩৪
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اس امر کا بیان کہ نبی صلی اللہ وسلم نے نماز کو عمل فرمایا۔ اور فرمایا کہ اس شخص کی نماز (کامل) نہ ہوگی جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی۔
مجھ سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے ولید بن عیزار نے (دوسری سند) اور امام بخاری (رح) نے کہا کہ مجھ سے عباد بن یعقوب اسدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عباد بن العوام نے خبر دی، انہیں شیبانی نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا : کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ ﷺ فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا اور والدین کے ساتھ نیک معاملہ کرنا، پھر اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔
حدیث نمبر: 7534 حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْوَلِيدِ . ح وحَدَّثَنِي عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَسَدِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْالشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟، قَالَ: الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا، وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ، ثُمَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৩৫
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اللہ کا قول کہ انسان بہت ہی گھبراہٹ والا پیدا کیا گیا۔ جب اسے کوئی مصیبت آتی ہے تو گریہ و زاری کرنے لگتا ہے اور جب اسے کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو نیک کاموں سے رک جاتا ہے۔ ھلوعا بمعنی ضجورا ہے (گھیرنے والا)
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے عمرو بن تغلب (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس مال آیا اور آپ نے اس میں سے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہیں دیا۔ پھر نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ اس پر کچھ لوگ ناراض ہوئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرے کو نہیں دیتا اور جسے نہیں دیتا وہ مجھے اس سے زیادہ عزیز ہوتا ہے جسے دیتا ہوں۔ میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں گھبراہٹ اور بےچینی ہے اور دوسرے لوگوں پر اعتماد کرتا ہوں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو بےنیازی اور بھلائی عطا فرمائی ہے۔ انہیں میں سے عمرو بن تغلب بھی ہیں۔ عمرو (رض) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے اس کلمہ کے مقابلہ میں مجھے لال لال اونٹ ملتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔
حدیث نمبر: 7535 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالٌ، فَأَعْطَى قَوْمًا وَمَنَعَ آخَرِينَ، فَبَلَغَهُ أَنَّهُمْ عَتَبُوا، فَقَالَ: إِنِّي أُعْطِي الرَّجُلَ وَأَدَعُ الرَّجُلَ، وَالَّذِي أَدَعُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الَّذِي أُعْطِي، أُعْطِي أَقْوَامًا لِمَا فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْهَلَعِ، وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الْغِنَى وَالْخَيْرِ مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ، فَقَالَ عَمْرٌو: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৭৫৩৬
توحید کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نبی پاک صلی اللہ وسلم کا اپنے پروردگار سے ذکر و روایت کرنے کا بیان۔
مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوزید بن ربیع ہروی نے، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے رب سے روایت کیا کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ جب بندہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس سے قریب ہوتا ہوں اور جب بندہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جب وہ میرے پاس پیدل چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آجاتا ہوں۔
حدیث نمبر: 7536 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ الْهَرَوِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّهِ، قَالَ: إِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِذَا تَقَرَّبَ مِنِّي ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا، وَإِذَا أَتَانِي مَشْيًا أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً.
তাহকীক: