আলমুসনাদ - ইমাম আহমদ রহঃ (উর্দু)
مسند امام احمد بن حنبل
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ২৯৮ টি
হাদীস নং: ১৯৮
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے دن نبی ﷺ کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں بھی شہید ہے، فلاں بھی شہید ہے، یہاں تک کہ ان کا گذر ایک آدمی پر ہوا، اس کے بارے بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہے، نبی ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں ! میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی، اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب ! جا کر لوگوں میں منادی کردو کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے، چناچہ میں نکل کر یہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے۔
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا فُلَانٌ شَهِيدٌ فُلَانٌ شَهِيدٌ حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ فَقَالُوا فُلَانٌ شَهِيدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَّا إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا أَوْ عَبَاءَةٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
ابوالاسود (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں حضرت عمر فاروق (رض) کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسرا جنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین ! کیا چیز واجب ہوگئی ؟ انہوں نے فرمایا میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ قَالَ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرٌّ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ فَقُلْتُ وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ قَالَ قُلْنَا أَوْ ثَلَاثَةٌ قَالَ أَوْ ثَلَاثَةٌ فَقُلْنَا أَوْ اثْنَانِ قَالَ أَوْ اثْنَانِ ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنْ الْوَاحِدِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کرلیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ أَخْبَرَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ هُبَيْرَةَ يَقُولُ إِنَّهُ سَمِعَ أَبَا تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيَّ يَقُولُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ إِنَّهُ سَمِعَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَوْ أَنَّكُمْ تَتَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا منکرین تقدیر کے ساتھ مت بیٹھا کرو اور گفتگو شروع کرنے میں ان سے پہل نہ کیا کرو۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ الْهُذَلِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ وَلَا تُفَاتِحُوهُمْ وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَرَّةً سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০২
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
ابن سمط کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کے ساتھ ذوالحلیفہ کی طرف روانہ ہوئے، حضرت عمر (رض) نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيِّ أَبِي عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ حَبِيبَ بْنَ عُبَيْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنِ ابْنِ السِّمْطِ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ عُمَرَ إِلَى ذِي الْحُلَيْفَةِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّمَا أَصْنَعُ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৩
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی ﷺ نے قبلہ رخ ہو کر دعاء کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی ﷺ نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعاء کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا الٰہی ! تیرا وعدہ کہاں گیا ؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس طرح آپ ﷺ مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گرگئی، یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر (رض) آگے بڑھے، نبی ﷺ کی چادر کو اٹھا کر نبی ﷺ پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی ﷺ کو چمٹ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی ! آپ نے اپنے رب سے بہت دعاء کرلی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کرلیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چناچہ ان میں سے ستر قتل ہوگئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر (رض) عنہ، حضرت علی (رض) اور حضرت عمر (رض) سے مشورہ کیا، حضرت صدیق اکبر (رض) نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی ! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست وبازو بن جائیں گے۔ نبی ﷺ نے پوچھا ابن خطاب ! تمہاری رائے کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت صدیق اکبر (رض) کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو حضرت عمر (رض) کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کردیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں، آپ عقیل کو حضرت علی (رض) کے حوالے کردیں اور وہ ان کی گردن اڑادیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطاء فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہوجائیں گے تو کفر و شرک اپنی موت آپ مرجائے گا۔ نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر (رض) کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (حضرت صدیق اکبر (رض) رو رہے ہیں ؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آجائیں تو آپ کا ساتھ دوں ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کرلوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آرہا ہے اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں۔۔۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوگئے اور صحابہ کرام (رض) نبی ﷺ کو چھوڑ کر منتشر ہوگئے، نبی ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے، خود کی کڑی نبی ﷺ کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی ﷺ کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوگیا ؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ أَنْبَأَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا قَالَ فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ ثُمَّ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنْ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا فَهَزَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِكِينَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَعَلِيًّا وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ فَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ الْفِدْيَةَ فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلَانٍ قَرِيبًا لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّهُ لَيْسَتْ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ الْفِدَاءِ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَوْلَا كِتَابٌ مِنْ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ مِنْ الْفِدَاءِ ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمْ الْغَنَائِمُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَاءَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا الْآيَةَ بِأَخْذِكُمْ الْفِدَاءَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৪
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، میں نے نبی ﷺ سے کسی چیز کے متعلق تین مرتبہ سوال کیا، لیکن نبی ﷺ نے ایک مرتبہ بھی جواب نہ دیا، میں نے اپنے دل میں کہا ابن خطاب ! تیری ماں تجھے روئے، تو نے نبی ﷺ سے تین مرتبہ ایک چیز کے متعلق دریافت کیا لیکن انہوں نے تجھے کوئی جواب نہ دیا، یہ سوچ کر میں اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے نکل آیا کہ کہیں میرے بارے قرآن کی کوئی آیت نازل نہ ہوجائے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک منادی میرا نام لے کر پکارتا ہوا آیا کہ عمر کہاں ہے ؟ میں یہ سوچتا ہوا واپس لوٹ آیا کہ شاید میرے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل ہوئی ہے، وہاں پہنچا تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا آج رات مجھ پر ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو میرے نزدیک دنیا ومافیہا سے زیادہ پسندیدہ ہے، پھر نبی ﷺ نے سورت الفتح کی پہلی آیت تلاوت فرمائی۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ قَالَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ شَيْءٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ قَالَ فَقُلْتُ لِنَفْسِي ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْكَ قَالَ فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي فَتَقَدَّمْتُ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ قَالَ فَإِذَا أَنَا بِمُنَادٍ يُنَادِي يَا عُمَرُ أَيْنَ عُمَرُ قَالَ فَرَجَعْتُ وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّهُ نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَتْ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ سُورَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৫
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، انہوں نے ایک آدمی کو شرکت کی دعوت دی، اس نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا تم کون سے روزے رکھ رہے ہو ؟ اگر کمی بیشی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہارے سامنے نبی ﷺ کی وہ حدیث بیان کرتا جب ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا، تم ایسا کرو کہ حضرت عمار (رض) کو بلا کر لاؤ۔ جب حضرت عمار (رض) تشریف لائے تو حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اس دن نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک دیہاتی ایک خرگوش لے کر آیا تھا ؟ فرمایا جی ہاں ! میں نے اس پر خون لگا ہوا دیکھا تھا، نبی ﷺ نے فرمایا اسے کھاؤ، وہ کہنے لگا کہ میرا روزہ ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کیسا روزہ ؟ اس نے کہا کہ میں ہر ماہ کی ابتداء اور اختتام پر روزہ رکھتا ہوں، فرمایا اگر تم روزہ رکھنا ہی چاہتے ہو تو نفلی روزے کے لئے مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا انتخاب کیا کرو۔
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنِ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ قَالَ أُتِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِطَعَامٍ فَدَعَا إِلَيْهِ رَجُلًا فَقَالَ إِنِّي صَائِمٌ ثُمَّ قَالَ وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ لَوْلَا كَرَاهِيَةُ أَنْ أَزِيدَ أَوْ أَنْقُصَ لَحَدَّثْتُكُمْ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ وَلَكِنْ أَرْسِلُوا إِلَى عَمَّارٍ فَلَمَّا جَاءَ عَمَّارٌ قَالَ أَشَاهِدٌ أَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ بِهَا دَمًا فَقَالَ كُلُوهَا قَالَ إِنِّي صَائِمٌ قَالَ وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ قَالَ أَوَّلَ الشَّهْرِ وَآخِرَهُ قَالَ إِنْ كُنْتَ صَائِمًا فَصُمْ الثَّلَاثَ عَشْرَةَ وَالْأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَالْخَمْسَ عَشْرَةَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات حضرت فاروق اعظم (رض) سے ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ میں مسروق بن اجدع ہوں، فرمایا میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اجدع شیطان کا نام ہے، اس لئے تمہارا نام مسروق بن عبدالرحمن ہے، عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ان کے رجسٹر میں ان کا نام مسروق بن عبدالرحمن لکھا ہوا دیکھا تو ان سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے میرا یہ نام رکھا تھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا عَامِرٌ عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ قَالَ لَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لِي مَنْ أَنْتَ قُلْتُ مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْأَجْدَعُ شَيْطَانٌ وَلَكِنَّكَ مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ عَامِرٌ فَرَأَيْتُهُ فِي الدِّيوَانِ مَكْتُوبًا مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ مَا هَذَا فَقَالَ هَكَذَا سَمَّانِي عُمَرُ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৭
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْعَزْلِ عَنْ الْحُرَّةِ إِلَّا بِإِذْنِهَا
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৮
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
اسلم جو کہ حضرت عمر فاروق (رض) کے آزاد کردہ غلام تھے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہوگا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کردیا کروں گا جیسا کہ نبی ﷺ نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ لَئِنْ عِشْتُ إِلَى هَذَا الْعَامِ الْمُقْبِلِ لَا يُفْتَحُ لِلنَّاسِ قَرْيَةٌ إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَهُمْ كَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৯
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لا وابی " تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی ﷺ تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ فَحَلَفْتُ لَا وَأَبِي فَهَتَفَ بِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي فَقَالَ لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ فَإِذَا هُوَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২১০
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) نے ارشاد فرمایا اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ جزیرہ عرب سے یہودونصاری کو نکال کر رہوں گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২১১
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২১২
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
سیاربن معرور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو دوران خطبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اس مسجد کی تعمیر نبی ﷺ نے مہاجرین و انصار کے ساتھ مل کر فرمائی ہے، اگر رش زیادہ ہوجائے تو (مسجد کی کمی کو مورد التزام ٹھہرانے کی بجائے) اپنے بھائی کی پشت پر سجدہ کرلیا کرو، اسی طرح ایک مرتبہ حضرت فاروق اعطم (رض) نے کچھ لوگوں کو راستے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھا کرو۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سَلَّامٌ يَعْنِي أَبَا الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سَيَّارِ بْنِ الْمَعْرُورِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَى هَذَا الْمَسْجِدَ وَنَحْنُ مَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ فَإِذَا اشْتَدَّ الزِّحَامُ فَلْيَسْجُدْ الرَّجُلُ مِنْكُمْ عَلَى ظَهْرِ أَخِيهِ وَرَأَى قَوْمًا يُصَلُّونَ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ صَلُّوا فِي الْمَسْجِدِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৩
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ انہیں حضرت فاروق اعظم (رض) کے ساتھ حج کا شرف حاصل ہوا، شام کے کچھ معززین ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے امیرالمومنین ! ہمیں کچھ غلام اور جانور ملے ہیں، آپ ہمارے مال سے زکوٰۃ وصول کرلیجئے تاکہ ہمارا مال پاک ہوجائے اور وہ ہمارے لئے پاکیزگی کا سبب بن جائے، فرمایا یہ کام تو مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو حضرات نے نہیں کیا، میں کیسے کرسکتا ہوں البتہ ٹھہرو ! میں مسلمانوں سے مشورہ کرلیتا ہوں۔
قَالَ قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زُهَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ أَنَّهُ حَجَّ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَتَاهُ أَشْرَافُ أَهْلِ الشَّامِ فَقَالُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّا أَصَبْنَا مِنْ أَمْوَالِنَا رَقِيقًا وَدَوَابَّ فَخُذْ مِنْ أَمْوَالِنَا صَدَقَةً تُطَهِّرُنَا بِهَا وَتَكُونُ لَنَا زَكَاةً فَقَالَ هَذَا شَيْءٌ لَمْ يَفْعَلْهُ اللَّذَانِ كَانَا مِنْ قَبْلِي وَلَكِنْ انْتَظِرُوا حَتَّى أَسْأَلَ الْمُسْلِمِينَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৪
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میں زندہ رہا توجزیرہ عرب سے یہودونصاری کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمان کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔
حَدَّثَنَا رَوْحٌ وَمُؤَمَّلٌ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَئِنْ عِشْتُ لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لَا أَتْرُكَ فِيهَا إِلَّا مُسْلِمًا
তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৫
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا۔
حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَبْد اللَّهِ وَقَدْ بَلَغَ بِهِ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ فَاتَهُ شَيْءٌ مِنْ وِرْدِهِ أَوْ قَالَ مِنْ جُزْئِهِ مِنْ اللَّيْلِ فَقَرَأَهُ مَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ إِلَى الظُّهْرِ فَكَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنْ لَيْلَتِهِ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৬
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی ﷺ نے قبلہ رخ ہو کر دعاء کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی ﷺ نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعاء کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا الٰہی ! تیرا وعدہ کہاں گیا ؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس طرح آپ ﷺ مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گرگئی، یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر (رض) آگے بڑھے، نبی ﷺ کی چادر کو اٹھا کر نبی ﷺ پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی ﷺ کو چمٹ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی ! آپ نے اپنے رب سے بہت دعاء کرلی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کرلیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چناچہ ان میں سے ستر قتل ہوگئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر (رض) عنہ، حضرت علی (رض) اور حضرت عمر (رض) سے مشورہ کیا، حضرت صدیق اکبر (رض) نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی ! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست وبازو بن جائیں گے۔ نبی ﷺ نے پوچھا ابن خطاب ! تمہاری رائے کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت صدیق اکبر (رض) کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو حضرت عمر (رض) کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کردیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں، آپ عقیل کو حضرت علی (رض) کے حوالے کردیں اور وہ ان کی گردن اڑادیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطاء فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہوجائیں گے تو کفروشرک اپنی موت آپ مرجائے گا۔ نبی ﷺ نے حضرت صدیق اکبر (رض) کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (حضرت صدیق اکبر (رض) رو رہے ہیں ؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آجائیں تو آپ کا ساتھ دوں، ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کرلوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آرہا ہے اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں۔۔۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوگئے اور صحابہ کرام (رض) نبی ﷺ کو چھوڑ کر منتشر ہوگئے، نبی ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے، خود کی کڑی نبی ﷺ کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی ﷺ کا روئے انورخون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوگیا ؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَهُ وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا قَالَ فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ ثُمَّ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنْ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا فَهَزَمَ اللَّهُ الْمُشْرِكِينَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَعَلِيًّا وَعُمَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ فَأَنَا أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ وَعَسَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَهْدِيَهُمْ فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلَانٍ قَرِيبٍ لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّهُ لَيْسَ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ فَلَمَّا كَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ الْفِدَاءِ وَلَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ مِنْ الْفِدَاءِ ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمْ الْغَنَائِمُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَاءَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا إِلَى قَوْلِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ بِأَخْذِكُمْ الْفِدَاءَ
তাহকীক:
হাদীস নং: ২১৭
حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
পরিচ্ছেদঃ حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ حضرت عمر فاروق (رض) سے نبی ﷺ کی ان دو ازواج مطہرات کے بارے سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ " اگر تم دونوں توبہ کرلو تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں " لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی، حتیٰ کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں حضرت عمر فاروق (رض) لوگوں سے ہٹ کر چلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور حضرت فاروق اعظم (رض) وضو کرنے لگے۔ اس دوران مجھے موقع مناسب معلوم ہوا، اس لئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین ! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات سے وہ دو عورتیں کون تھیں جن کے بارے اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم توبہ کرلو تو اچھا ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا ابن عباس ! حیرانگی کی بات ہے کہ تمہیں یہ بات معلوم نہیں، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ تھیں اور فرمایا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ منورہ میں آئے تو یہاں کی عورتیں، مردوں پر غالب نظر آئیں، ان کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی ان سے یہ طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے۔ میرا گھر اس وقت عوالی میں بنو امیہ بن زید کے پاس تھا، ایک دن میں نے اپنی پر غصہ کا اظہار کسی وجہ سے کیا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگی کہ میرے جواب دینے پر تو آپ کو تعجب ہو رہا ہے بخدا ! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات بھی انہیں جواب دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان میں سے کوئی سارا دن تک نبی ﷺ سے بات ہی نہیں کرتی۔ یہ سنتے ہی میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ کیا تم نبی ﷺ کے ساتھ تکرار کرتی ہو ؟ انہوں نے اقرار کیا، پھر میں نے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی سارا دن تک نبی ﷺ سے بات ہی نہیں کرتی ؟ انہوں نے اس پر اقرار کیا، میں نے کہا کہ تم میں سے جو یہ کرتا ہے وہ بڑے نقصان اور خسارے میں ہے، کیا تم لوگ اس بات پر مطمئن ہو کہ اپنے پیغمبر کو ناراض دیکھ کر تم میں سے کسی پر اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک ہوجائے۔ میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم دونوں نے باری مقرر کر رکھی تھی، ایک دن وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ایک دن میں، وہ اپنے دن کی خبریں اور وحی مجھے سنا دیتا اور میں اپنی باری کی خبریں اور وحی اسے سنا دیتا ، اس زمانے میں ہم لوگ آپس میں یہ گفتگو ہی کرتے رہتے تھے کہ بنو غسان کے لوگ ہم سے مقابلے کے لئے اپنے گھوڑوں کے نعل ٹھونک رہے ہیں، اس تناظر میں میرا پڑوسی ایک دن عشاء کے وقت میرے گھر آیا اور زور زور سے دروازہ بجایا، پھر مجھے آوازیں دینے لگا، میں جب باہر نکل کر آیا تو وہ کہنے لگا کہ آج تو ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا ہے، میں نے پوچھا کہ کیا بنوغسان نے حملہ کردیا ؟ اس نے کہا نہیں ! اس سے بھی زیادہ اہم واقعہ پیش آیا ہے، نبی ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، میں نے یہ سنتے ہی کہا کہ حفصہ خسارے میں رہ گئی، مجھے پتہ تھا کہ یہ ہو کر رہے گا۔ خیر ! فجر کی نماز پڑھ کر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور سیدھاحفصہ کے پاس پہنچا، وہ رو رہی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے تمہیں طلاق دے دی ہے ؟ انہوں نے کہا مجھے کچھ خبر نہیں، وہ اس بالاخانے میں اکیلے رہ رہے ہیں، میں وہاں پہنچا تو نبی ﷺ کا ایک سیاہ فام غلام ملا، میں نے کہا کہ میرے لئے اندر داخل ہونے کی اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد آکر کہنے لگا کہ میں نے نبی ﷺ سے آپ کا ذکر کردیا تھا لیکن نبی ﷺ خاموش رہے۔ میں وہاں سے آکر منبر کے قریب پہنچا تو وہاں بھی بہت سے لوگوں کو بیٹھے روتا ہوا پایا، میں بھی تھوڑی دیر کے لئے وہاں بیٹھ گیا، لیکن پھر بےچینی مجھ پر غالب آگئی اور میں نے دوبارہ اس غلام سے جا کر کہا کہ میرے لئے اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی آکر کہنے لگا کہ میں نے نبی ﷺ سے آپ کا ذکر کیا لیکن نبی ﷺ خاموش رہے، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد جب میں واپس جانے لگا تو غلام نے مجھے آواز دی کہ آئیے، آپ کو اجازت مل گئی ہے۔ میں نے اندر داخل ہو کر نبی ﷺ کو سلام کیا، دیکھا کہ نبی ﷺ ایک چٹائی سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جس کے نشانات آپ ﷺ کے پہلوئے مبارک پر نظر آرہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ؟ نبی ﷺ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا نہیں ! میں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ذرا دیکھئے تو سہی، ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہتے تھے، جب مدینہ منورہ پہنچے تو یہاں ایسے لوگوں سے پالا پڑا جن پر ان کی عورتیں غالب رہتی ہیں، ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ان کے طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے، چناچہ ایک دن میں اپنی سے کسی بات پر ناراض ہوا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے تعجب ہوا تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو میرے جواب پر تعجب ہو رہا ہے، بخدا ! نبی ﷺ کی ازواج بھی انہیں جواب دیتی ہیں اور سارا سارا دن تک ان سے بات نہیں کرتیں۔ میں نے کہا کہ جو ایسا کرتی ہے وہ نقصان اور خسارے میں ہے، کیا وہ اس بات سے مطمئن رہتی ہیں کہ اگر اپنے پیغمبر کی ناراضگی پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا تو وہ ہلاک نہیں ہوں گی ؟ یہ سن کر نبی ﷺ مسکرائے، میں نے مزید عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کے بعد میں حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ تو اس بات سے دھوکہ میں نہ رہ کہ تیری سہیلی نبی ﷺ کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی ہے، یہ سن کر نبی ﷺ دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں بےتکلف ہوسکتا ہوں ؟ نبی ﷺ نے اجازت دے دی، چناچہ میں نے سر اٹھا کر نبی ﷺ کے کاشانہ اقدس کا جائزہ لینا شروع کردیا، اللہ کی قسم ! مجھے وہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کی طرف باربار نظریں اٹھیں، سوائے تین کچی کھالوں کے، میں نے یہ دیکھ کر عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ سے دعاء کیجئے کہ آپ کی امت پر وسعت اور کشادگی فرمائے، فارس اور روم جو اللہ کی عبادت نہیں کرتے، ان پر تو بڑی فراخی کی گئی ہے، نبی ﷺ یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا ابن خطاب ! کیا تم اب تک شک میں مبتلا ہو ؟ ان لوگوں کو دنیا میں یہ ساری چیزیں دے دی گئی ہیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے لئے بخشش کی دعاء فرما دیجئے، نبی ﷺ نے اصل میں یہ قسم کھالی تھی کہ ایک مہینے تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ نبی ﷺ کو ان پر سخت غصہ اور غم تھا، تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ پر اس سلسلے میں وحی نازل فرمادی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا حَتَّى حَجَّ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِي فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ كَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ عَنْهُ قَالَ هِيَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ قَالَ كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ قَالَ وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي قَالَ فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي فَقَالَتْ مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَ أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ مِنْكِ يُرِيدُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ وَكَانَ لِي جَارٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ قَالَ وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمًا ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً فَضَرَبَ بَابِي ثُمَّ نَادَانِي فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ وَمَاذَا أَجَاءَتْ غَسَّانُ قَالَ لَا بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ طَلَّقَ الرَّسُولُ نِسَاءَهُ فَقُلْتُ قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَا أَدْرِي هُوَ هَذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُ الْمِنْبَرَ فَإِذَا عِنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ فَجَلَسْتُ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَخَرَجْتُ فَجَلَسْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي فَقَالَ ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنَ لَكَ فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ ح و حَدَّثَنَاه يَعْقُوبُ فِي حَدِيثِ صَالِحٍ قَالَ رُمَالِ حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَقُلْتُ أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نِسَاءَكَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَقَالَ لَا فَقُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي فَقَالَتْ مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ فَقُلْتُ قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَا يَغُرُّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ فَتَبَسَّمَ أُخْرَى فَقُلْتُ أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ فَجَلَسْتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ إِلَّا أَهَبَةً ثَلَاثَةً فَقُلْتُ ادْعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ فَقَدْ وُسِّعَ عَلَى فَارِسَ وَالرُّومِ وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاسْتَوَى جَالِسًا ثُمَّ قَالَ أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَقُلْتُ اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حَتَّى عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ
তাহকীক: