কানযুল উম্মাল (উর্দু)
كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال
نماز کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৪৭০২ টি
হাদীস নং: ২৩১৩৯
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23139 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن زید انصاری (رض) کہتے ہیں مجھے خواب میں اذان سکھائی گئی صبح ہوتی ہی میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کلمات بلال (رض) کو بتاؤ چنانچہ میں نے حضرت بلال (رض) کو اذان بتائی انھوں نے اذان دی پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اقامت کہو ۔ (رواہ ابوالشیخ)
23139- عن عبد الله بن زيد الأنصاري قال: "أريت النداء فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ألقه على بلال فألقيته على بلال، فأذن فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أقم إن شئت". (أبو الشيخ) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪০
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23140 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن زید انصاری (رض) کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں سو رہا تھا ۔ اچانک میں نے (خواب میں) ایک آدمی کو دیکھا اس کے پاس دو لکڑیاں تھیں ۔ میں نے اس سے کہا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دو لکڑیوں کو خریدنا چاہتے ہیں انھیں ناقوس کے طور پر استعمال کریں گے اور نماز کے لے بلائیں گے لکڑیوں والے نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا : کیا میں تجھے ان لکڑیوں سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ چنانچہ عبداللہ بن زید (رض) بیدار ہوئے جب کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا لیکن عبداللہ (رض) سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے پہلے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ کھڑے ہوجاؤ اور اذان دو عرض کہا : یا رسول اللہ ! میری آواز اونچی نہیں ہے۔ حکم ہوا کہ یہ کلمات بلال (رض) کو سکھا دو چنانچہ عبداللہ (رض) نے اذان کے کلمات بلال (رض) کو سکھائے اس کے بعد حضرت بلال (رض) اذان دیتے تھے ۔ (رواہ عبدالرزاق)
23140- (أيضا) بينا أنا نائم إذ رأيت رجلا معه خشبتان، فقلت له في المنام: إن النبي صلى الله عليه وسلم يريد أن يشتري هذين العودين يجعلهما ناقوسا يضرب به للصلاة، فالتفت إلى صاحب العودين برأسه فقال: أنا أدلكم على ما هو خير من هذا؟ فاستيقظ عبد الله بن زيد ورأى عمر مثل رؤيا عبد الله بن زيد فسبقه عبد الله بن زيد إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره بذلك: فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: قم فأذن، فقال: يا رسول الله إني قطيع الصوت، قال: "فعلم بلالا ما رأيت فعلمه فكان بلال يؤذن". (عب) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪১
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23141 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن زید (رض) ہی کی روایت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (نماز کے اعلان کے لیے ) نرسنگھا کا ارادہ کیا اور پھر ناقوس بجانے کا حکم دیا : چنانچہ ناقوس بنایا گیا اسی دوران میں نے خواب دیکھا کہ ایک آدمی ہے اور اس پر دو سبز رنگ کے کپڑے ہیں اس نے ہاتھ میں ناقوس اٹھایا ہوا ہے ، میں نے کہا : اے اللہ کے بندے ! کیا یہ ناقوس تو بیچتا ہے ؟ اس نے کہا تم اسے کیا کرو گے ؟ میں نے کہا : اس کے ذریعے ہم نماز کے لیے اعلان کریں گے ، کہا : کیا میں اس سے بہتر چیز تمہیں نہ بتادوں ؟ میں نے کہا : ضرور بتاؤ وہ آدمی بولا : تم یہ کلمات کہو ۔ للہ اکبر اللہ اکبر ، اشھد ان الا الہ الا اللہ اشھد ان الا الہ الا اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ ، حی علی الصلاۃ ، حی الصلاۃ حی علی الفلاح حی علی الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ “۔ پھر وہ آدمی پر سکون چل پڑا اور جاتے جاتے پھر بولا : تم یہ کلمات بھی کہو۔ للہ اکبر اللہ اکبر ، اشھد ان الا الہ الا اللہ اشھد ان الا الہ الا اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ ، حی علی الصلاۃ ، حی الصلاۃ حی علی الفلاح حی علی الفلاح اللہ قد قامت الصلوۃ قد قامت الصلوۃ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ “۔ میں بیدار ہوتے ہی رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہہ سنایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو مخاطب کرکے فرمایا : تمہارے بھائی نے خواب دیکھا ہے (پھر مجھے حکم دیا کہ) تم بلال کے ساتھ مسجد میں جاؤ اور اسے یہ کلمات بتاتے رہو تاکہ ان کلمات کے ساتھ وہ صدا بلند کرے ، سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے سنا تو وہ بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا قسم اس ذات کی جس نے آپ ک برحق مبعوث کیا ہے ہے ! میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا ہے (رواہ ابو الشیخ فی الاذان)
23141- (أيضا) كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد هم بالبوق وأمر بناقوس فنحت فأري عبد الله بن زيد في المنام، قال: "رأيت رجلا عليه ثوبان أخضران يحمل في يده ناقوسا فقلت: يا عبد الله أتبيع هذا الناقوس؟ " قال: "وما تصنع به؟ قلت: ننادي للصلاة،" قال: "أفلا أدلك على ما هو خير من ذلك؟ فقلت: بلى،" قال تقول: "الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة حي على الصلاة، حي على الفلاح حي على الفلاح، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله، ثم مشى هنيهة" ثم قال تقول: "الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة حي على الصلاة، حي على الفلاح حي على الفلاح، قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة، الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، فلما استيقظت أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته، فقال: إن أخاكم قد رأى رؤيا فاخرج مع بلال إلى المسجد فألقها عليه وليناد بها بلال، فسمع عمر بن الخطاب فخرج فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: والذي بعثك بالحق لقد رأيت مثل الذي رأى". (أبو الشيخ في الأذان) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪২
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23142 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن زید (رض) کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذان کا اردہ کیا حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو حکم دینا چاہا کہ ٹیلوں پر کھڑ ہو کر لوگوں کو نماز کی طرف اشارہ کریں ۔ یہاں تک کہ میں نے جواب دیکھا کہ ایک آدمی ہے اس پر سبز رنگ کے دو کپڑے ہیں اور مسجد کی حدود میں کھڑا یہ کلمات کہہ رہا ہے (اللہ اکبر اللہ اکبر چار مرتبہ اشھدان لا الہ الا اللہ دو مرتبہ اشھدان محمدا رسول اللہ دو مرتبہ حی علی الصلوۃ دو مرتبہ حی علی الفلاح دو مرتبہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ اللہ ۔ وہ آدمی پھر کھڑا ہو اور پھر یہی کلمات دہرائے اور ان کے آخر میں یہ کلمات کہے ” قدقامت الصلوۃ قد قامت الصلوۃ “ چنانچہ صبح ہوتے ہی میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو اور سارا واقعہ کہہ سنا یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کلمات بلال سے بیان کرو میں نے ایسا ہی کیا کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ دوڑتے ہوئے آرہے ہیں اور انھیں معلوم نہیں کہ یہ کیا معمہ ہے حتی کہ بلال اذان سے فارغ ہوگئے اتنے میں حضرت عمر (رض) تشریف لائے اور فرمایا : اگر عبداللہ بن زید مجھ پر سبقت نہ لے جاتا تو میں آپ کو اس کی خبر دیتا کہ میں نے بھی اسی جیسا دیکھا ہے (رواہ ابو الشیخ )
23142- (أيضا) كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد همه الأذان حتى هم أن يأمر رجالا فيقومون على الآطام فيرفعون ويشيرون إلى الناس بالصلاة حتى رأيت فيما يرى النائم كأن رجلا عليه ثوبان أخضران على سور المسجد يقول: الله أكبر الله أكبر، أربعا، أشهد أن لا إله إلا الله، مرتين، أشهد أن محمدا رسول الله، مرتين، حي على الصلاة، مرتين، حي على الفلاح، مرتين، الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، ثم قام فقال مثلها، وقال في آخرها: "قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة، فأخبرت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: اذهب فقصها على بلال ففعلت، فأقبل الناس سراعا ولا يدرون إلا أنه فرغ فأقبل عمر بن الخطاب" وقال: "لولا ما سبقني به لأخبرتك أنه قد طاف بي الذي طاف به". (أبو الشيخ) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪৩
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23143 ۔۔۔ ” ایضا “ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاہا کہ کسی طرح سے نماز کا اعلان کیا جائے چنانچہ جب نماز کا وقت ہوجاتا تو کوئی آدمی کسی ٹیلے پر چڑھ جاتا اور ہاتھ سے اشارہ کرتا جا دیکھ لیتا نماز کے لیے حاضر ہوجاتا اور جو نہ دیکھتا اسے نماز کا علم ہی نہ ہوتا ۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے لیے اعلان کی شدت سے ضرورت محسوس کی حتی کہ بعض لوگوں نے کہا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ ناقوس بجانے کا حکم دے دیں ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ نصرانیوں کا فعل ہے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اگر آپ نر سنگھے کا حکم دیں تاکہ اس میں پھونک مار کر نماز کا اعلان کیا جائے فرمایا یہ یہودیوں کی نقل ہے چنانچہ میں اپنے گھر واپس لوٹ آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درد کو شدت سے محسوس کررہا تھا اور سخت غمزدہ تھا حتی کہ رات جاگتے جاگتے گزاری اور فجر سے تھوڑی دیر قبل میری آنکھ لگ گئی ۔ میں (خواب میں ) دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی ہے اس پر دو سبز رنگ کے کپڑے ہیں درآنحالیکہ میں نیندوبیداری کی درمیانی حالت میں ہوں چنانچہ وہ آدمی مسجد کی چھت پر کھڑا ہوا اس نے اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں اور پھر صدا بلند کی (رواہ ابو الشیخ )
23143- (أيضا) اهتم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأذان بالصلاة وكان إذا جاء وقت الصلاة صعد برجل فيشير بيده فمن رآه جاء، ومن لم يره لم يعلم بالصلاة، فاهتم لذلك هما شديدا فقال له بعض القوم: يا رسول الله لو أمرت بالناقوس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فعل النصارى لا، فقالوا: لو أمرت بالبوق فنفخ فيه، فقال: فعل اليهود لا فرجعت إلى أهلي وأنا مغتم لما رأيت من اهتمام رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاله حتى إذا كان الليل قبل الفجر غشيني النعاس فرأيت رجلا عليه ثوبان أخضران وأنا بين النائم واليقظان فقام على سطح المسجد فجعل أصبعيه في أذنيه ونادى. (أبو الشيخ) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪৪
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23144 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں ک اسلام میں سب سے پہلی اذان حضرت بلال (رض) نے دی ہے اور سب سے پہلی اقامت حضرت عبداللہ بن زید (رض) نے کہی ہے چنانچہ جب بلال (رض) نے اذان دی اور اقامت کہنے لگے تو عبداللہ بن زید (رض) بول پڑے ۔ میں ہی تو وہ ہوں جس نے خواب دیکھا ہے بلال نے اذان دی ہے اور اب اقامت بھی کہنا چاہتے ہیں۔ بلال (رض) نے کہا : چلو تم ہی اقامت کہہ دو ۔ (رواہ ابو الشیخ فی الاذان )
23144- عن ابن عباس قال: "كان أول من أذن في الإسلام بلال وأول من أقام عبد الله بن زيد، فلما أذن بلال أراد أن يقيم فقال عبد الله ابن زيد: أنا الذي رأيت الرؤيا فأذن بلال ويقيم أيضا" قال: "فأقم أنت". (أبو الشيخ في الأذان) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪৫
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23145 ۔۔۔ ابو عمیر بن انس کہتے ہیں ک مجھے میری ایک انصار یہ پھوپھی نے خبر دی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمزدہ ہوگئے کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے جمع کیا جائے ۔ چنانچہ کسی نے یہ رائے دی کہ نماز کا وقت ہوجانے پر آپ ایک جھنڈا لہرائیں لوگ اسے دیکھ کر ایک دوسرے کو بتادیں گے اور نماز کے لیے حاضر ہوجائیں گے مگر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ طریقہ اچھا نہ لگا ۔ کسی نے نرسنگھا بجانے کی رائے دی لیکن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ طریقہ بھی اچھا نہ لگا اور فرمایا : یہ یہودیوں کا طریقہ ہے۔ پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ناقوس کا تذکرہ کیا گیا لیکن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے من کو یہ بھی نہ بھایا اور فرمایا یہ نصاری کا طریقہ ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زید (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غم میں غمزدی ہو کر گھر چل پڑے اور انھیں خواب میں اذان دکھائی گئی اور صبح ہوتے ہی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا کہ اچانک ایک آنے والا آیا اور مجھے اذان سمجھاتا گیا حالانکہ حضرت عمر (رض) نے بیس (20) دن پہلے خواب میں اذان دیکھ لی تھی لیکن اسے چھپائے رکھا اور پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر کی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آپ نے مجھے پہلے خبر کیوں نہیں کہ ؟ عرض کیا چونکہ عبداللہ بن زید مجھ پر سبقت لے گئے اور پھر مجھے حیاء آنے لگی : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا کہ کھڑے ہوجاؤ اور عبداللہ بن زید تمہیں حکم کرتا رہے وہ بجا لاتے رہو چنانچہ بلال (رض) نے اذان دی ابو عمر (رض) کہتے ہیں۔ انصار کا گمان ہے کہ اس دن اگر عبداللہ بن زید (رض) بیمار نہ ہوتے تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں موذن مقرر فرماتے ۔ مرواہ سعید بن المنصور)
23145- عن أبي عمير بن أنس قال: "أخبرني عمومة لي من الأنصار" قال: "اهتم النبي صلى الله عليه وسلم بالصلاة كيف يجمع الناس لها فقيل له: انصب راية عند حضور الصلاة فإذا رآها الناس أخبر بعضهم بعضا فلم يعجبه ذلك وذكر له القنع ، فلم يعجبه ذلك" وقال: "إنه من أمر اليهود، وذكر له الناقوس، فلم يعجبه ذلك" وقال: "هو من أمر النصارى، فانصرف عبد الله بن يزيد وهو مهتم بهم النبي صلى الله عليه وسلم، فأري الأذان في منامه فغدا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره فقال: يا رسول الله إني لبين اليقظان والنائم إذ أتاني آت فأراني الأذان، وكان عمر بن الخطاب رأى قبل ذلك فكتم عشرين ليلة، ثم أخبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ما منعك أن تخبرني بذلك؟ فقال: سبقني عبد الله بن زيد فاستحييت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لبلال: قم فما يأمرك به عبد الله بن زيد فافعله فأذن بلال،" قال أبو عمير: "إن الأنصار تزعم أن ابن زيد لولا أنه كان يومئذ مريضا لجعله رسول الله صلى الله عليه وسلم مؤذنا". (ص) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪৬
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23146 ۔۔۔ عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ ہمیں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) نے حدیث سنائی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید انصاری (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک آدمی دیوار کے ایک کونے پر کھڑا ہے اور اس پر دو سبز رنگ کی چادریں ہیں چنانچہ اس نے اذان دی او اذان کے کلمات کو دو دو مرتبہ کہا پھر اقامت کہی اور اس کے کلمات بھی دو دو مرتبہ کہے اور پھر توڑی دیر کے لیے بیٹھ گیا بلال (رض) نے خواب سنا تو اذان دینے کے لیے کھڑے ہوگئے اور کلمات دو دو مرتبہ کہے اور اقامت کہی اس کے کلمات بھی دو دو مرتبہ کہے اور پھر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گئے (ابن ابی شیبہ وابو الشیخ فی الاذان )
23146- عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: "حدثنا أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أن عبد الله بن زيد الأنصاري جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله رأيت في المنام كأن رجلا قائم وعليه بردان أخضران على جذمة حائط فأذن مثنى وأقام مثنى وقعد قعدة، فسمع بذلك بلال فقام فأذن مثنى وأقام مثنى وقعد قعدة. (ش وأبو الشيخ في الأذان) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪৭
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23147 ۔۔۔ ابن ابی یعلی روایت نقل کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارے ساتھیوں نے حدیث سنائی ہے کہ ایک انصاری حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو جب میں گھر واپس لوٹا تو میں بھی آپ کے غم میں غمزدہ تھا میں نے خواب دیکھا کہ ایک آدمی مسجد پر کھڑا ہے اور اس پر سبز رنگ کے دو کپڑے ہیں چنانچہ اس نے اذان دی اور پھر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گیا پڑھ کھڑا ہو اور پہلے کی طرح کلمات دھرائے صرف اس کلمہ کا اس نے اضافہ کیا ” قد قامت الصلوۃ “ اگر تم لوگ میرا مذاق نہ اڑاؤ تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں خیر ہی خیر دکھائی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں نے بھی اسی جیسا خواب دیکھا ہے الایہ کہ انصاری مجھ پر سبقت لے گیا پھر مجھے حیاء آنے لگی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بلال کو حکم دو تاکہ اذان دے ۔ مرواہ ابن ابی شیبہ )
23147- عن ابن أبي ليلى قال: "حدثنا أصحابنا أن رجلا من الأنصار جاء فقال: يا رسول الله إني لما رجعت البارحة ورأيت من اهتمامك رأيت كأن رجلا قائما على المسجد عليه ثوبان أخضران فأذن، ثم قعد قعدة، ثم قام فقال: مثلها غير أنه" قال: "قد قامت الصلاة ولولا أن تقولوا لقلت: إني كنت يقظانا غير نائم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لقد أراك الله خيرا فقال عمر: أما إني رأيت مثل الذي رأى غير أني لما سبقت استحييت فقال النبي صلى الله عليه وسلم: مروا بلالا فليؤذن". (ش) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪৮
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23148 ۔۔۔” مسند عبداللہ بن عمر (رض) “ مسلمان جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو اکٹھے ہوجاتے اور نماز کا انتظار کرتے رہے اور کوئی بھی نماز کے لیے صدا بلند نہیں کرتا تھا ۔ چنانچہ ایک دن سب نے اس مسئلہ پر گفٹ و شنید کی بعض نے کہا نصرانیوں کی طرح ناقوس بجانا چاہے بعض نے کہا یہودیوں کی طرح نرسنگھا بجانا چاہے حضرت عمر (رض) نے کہا : کیا تم کسی آدمی کو نہیں بھیجتے جو نماز کے لیے صدا بلند کرے اس پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بلال کھڑے ہوجاؤ اور نماز کے لیے اذان دو (رواہ عبدالرزاق وابو الشیخ )
23148- (مسند عبد الله بن عمر) كان المسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلاة ليس ينادي بها أحد، فتكلموا يوما في ذلك فقال بعضهم: اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى، وقال بعضهم: "بل بوقا مثل بوق اليهود فقال عمر: أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا بلال قم فأذن بالصلاة". (عب وأبو الشيخ في الأذان) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৪৯
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23149 ۔۔۔ زہری سالم کے واسطہ سے حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) کی روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں سے مشورہ لیا کہ نماز کے لی کیسے جمع ہوا جائے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے سرسنگھے کا مشورہ دیا لیکن آپ نے اسے یہودیوں کی وجہ سے مکروہ سمجھا پھرنا قوس کا ذکر کیا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بھی نصرانیوں کی وجہ سے مکروہ سمجھا چنانچہ اسی رات نے انصاری کو خواب میں اذان دکھائی گئی اس (انصاری) کو عبداللہ بن زید کے نام سے پکارا جاتا تھا ، اسی طرح کا خواب سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے بھی دیکھا لیکن انصاری صبح ہوتے ہی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) کو اذان کجا حکم دیا ۔ زہری کہتے : حضرت بلال (رض) نے فجر کی نماز میں ” الصلوۃ خیر من النوم “ کا اضافہ کیا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تقریر (توثیق) فرمائی ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : بہرحال میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا تھا لیکن انصاری مجھ پر سبقت لے گیا ۔ (رواہ ابوالشیخ فی الاذان وسندہ علی شرط مسلم)
23149- عن الزهري عن سالم عن أبيه قال: "استشار النبي صلى الله عليه وسلم المسلمين فيما يجمعهم على الصلاة فقالوا: البوق فكرهه من أجل اليهود، ثم ذكر الناقوس فكرهه من أجل النصارى، فأري تلك الليلة النداء رجل من الأنصار يقال له عبد الله بن زيد وعمر بن الخطاب، وطرق الأنصاري رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا فأمر رسول الله بلالا فأذن به،" قال الزهري: "وزاد بلال في نداء صلاة الفجر: الصلاة خير من النوم فأقرها النبي صلى الله عليه وسلم فقال عمر: أما إني قد رأيت مثل الذي رأى ولكنه سبقني". (أبو الشيخ في كتاب الأذان - وسنده على شرط 23149- عن الزهري عن سالم عن أبيه قال: "استشار النبي صلى الله عليه وسلم المسلمين فيما يجمعهم على الصلاة فقالوا: البوق فكرهه من أجل اليهود، ثم ذكر الناقوس فكرهه من أجل النصارى، فأري تلك الليلة النداء رجل من الأنصار يقال له عبد الله بن زيد وعمر بن الخطاب، وطرق الأنصاري رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا فأمر رسول الله بلالا فأذن به،" قال الزهري: "وزاد بلال في نداء صلاة الفجر: الصلاة خير من النوم فأقرها النبي صلى الله عليه وسلم فقال عمر: أما إني قد رأيت مثل الذي رأى ولكنه سبقني". (أبو الشيخ في كتاب الأذان - وسنده على شرط(م)
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৫০
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23150 ۔۔۔ عبداللہ بن نافع (رض) اپنے والد کے واسطہ سے حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت بلال (رض) نے شروع میں جب اذان دی تو یوں کہتے تھے ” اشھد ان لا الہ الا اللہ حی علی الصلوۃ “۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا ” اشھد ان لاالہ الا اللہ “۔ کے بعد ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ کہو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کی تائید کی اور فرمایا : اے بلال عمر تمہیں جیسے حکم دیتے ہیں ایسے ہی کہو ، (رواہ ابوالشیخ) کلام : ۔۔۔ عبداللہ بن نافع ضعیف ہے دیکھئے ذخیرۃ الحفاظ 1086 ۔
23150- عن عبد الله بن نافع عن أبيه عن ابن عمر أن بلالا كان يقول أول ما أذن أشهد أن لا إله إلا الله حي على الصلاة فقال: قل في أثرها: أشهد أن محمدا رسول الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: قل كما أمرك عمر. (أبو الشيخ وعبد الله بن نافع ضعيف) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৫১
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23151 ۔۔۔ امام شعبی (رح) روایت کرتے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے اعلان کے بارے میں شدید غمزدہ ہوئے چونکہ اعلان نماز کے لیے ناقوس کا مشورہ دیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے نصاری اپناتے ہیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاہا کہ کچھ لوگوں کو بھیجدیں جو راستوں میں نماز کا اعلان کریں لیکن فرمایا کہ مجھے پسند نہیں کہ کچھ لوگ دوسروں کی نماز کے لیے اپنی نماز سے غافل رہیں چنانچہ حضرت عبداللہ بن زید (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے غم کو لیے ہوئے گھر واپس لوٹے رات کو سوئے خواب دیکھا کہ ایک آدمی آیا اور بولا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ کسی آدمی کو حکم دیں جو نماز کے وقت اذان دے اور اذان میں یہ کلمات کہے : للہ اکبر اللہ اکبر اشھد ان لا الہ الا اللہ “۔ س کلمہ شھادت کو پھر دھرائے : ’ اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ ’ اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ ، حی علی الصلوۃ حی الصلوۃ حی علی الفلاح حی الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ “۔ پھر (مؤذن) توقف کرے حتی کہ سویا ہوا آدمی بیدار ہوجائے اور وضو کرنے والا وضو کرلے پھر اذان کے یہی کلمات کہے اور جب ” حی الفلاح حی علی الفلاح “۔ پر پہنچے تو کہے ” قد قامت الصلوۃ قد قامت الصلوۃ اللہ اکبر اللہ اکبر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : میں نے بھی اسی جیسا خواب دیکھا لیکن عبداللہ بن زید مجھ پر سبقت لے گئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا کہ عبداللہ بن زید (رض) تمہیں جو کچھ کہے وہی کرو ۔ (رواہ الضیاء المقدسی)
23151- عن الشعبي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اهتم بالصلاة اهتماما شديدا تبين ذلك فيه، وكان مما اهتم به من أمر الصلاة أن ذكر الناقوس فقال: هو من أمر النصارى، ثم أراد أن يبعث رجالا يؤذنون الناس بالصلاة في الطرق، ثم قال: "أكره أن أشغل رجالا عن صلاتهم بصلاة غيرهم، فانصرف عبد الله بن زيد مهتما بهم النبي صلى الله عليه وسلم فأتاه آت فيما يرى النائم فقال له: ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم فمره فليأمر رجلا فليؤذن عند حضور الصلاة يقول: الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله، ثم يعيد الشهادة، أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة، حي على الفلاح حي على الفلاح، الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، تم يمهل حتى يستيقظ النائم ويتوضأ من أراد أن يتوضأ، ثم يقول مثل ما أذن حتى إذا بلغ حي على الفلاح حي على الفلاح" قال: "قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر، فقال عمر ابن الخطاب: أنا قد أتاني مثل الذي قد أتاه ولكن سبقني عبد الله بن زيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا بلال انظر ما يأمرك به عبد الله بن زيد فاصنعه". (ض) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৫২
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23152 ۔۔۔ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غم گین ہوئے کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے جمع کیا جائے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے چاہا ہے کہ میں کچھ لوگوں کو بھیجوں جو مدینے کے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر ہر قریب والے کو نماز کا بتائیں لیکن مجھے یہ طریقہ اچھا نہ لگا ، لوگوں نے ناقوس کا مشورہ دیا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ بھی پسند نہ آیا چنانچہ عبداللہ بن زید (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غم میں غم گین گھر واپس لوٹے انھوں نے رات کو خواب میں اذان دیکھی صبح ہوتے ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں خواب میں ایک آدمی کو مسجد کی چھت پر کھڑا دیکھا اس پر سبز رنگ کے دو کپڑے تھے اس نے صدائے اذان بلند کی اور اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہے پھر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گیا اور پھر اذان کی طرح کلمات کہے اور جب ” حی علی الفلاح حی علی الفلاح پر پہنچا تو اس نے یہ کلمات کہے ” قد قامت الصلوۃ ، قدقامت الصلوۃ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ “۔ اتنے میں سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) حاضر ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو میرے پاس بھی (خواب میں) اسی طرح ایک آدمی آیا ہے جس طرح کہ اس کے پاس آیا ہے حکم ہوا : پھر تم نے ہمیں خبر کیوں نہیں کی ؟ عرض کیا : چونکہ عبداللہ بن زید (رض) مجھ پر سبقت لے گیا اور مجھے حیاء آگئی نماز کے لیے اعلان کا یہی طریقہ مسلمانوں کو اچھا لگا اور اس کے بعد یہی طریقہ مقرر ہوا حضرت بلال (رض) کو حکم دیا اور انھوں نے اذان دی (رواہ سعید بن المنصور)
23152- عن عبد الرحمن بن أبي ليلى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اهتم للصلاة كيما يجمع الناس لها فقال: لقد هممت أن أبعث رجالا فيقوم كل رجل منهم على أطم من آطام المدينة فيؤذن كل منهم من يليه فلم عجبه ذلك، فذكروا الناقوس فلم يعجبه فانصرف عبد الله بن زيد مهتما لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فرأى الأذان في منامه، فلما أصبح غدا فقال يا رسول الله رأيت رجلا على سقف المسجد وعليه ثوبان أخضران ينادي بالأذان، فسمع فزعم أنه أذن مثنى مثنى الأذان، فلما فرغ قعد قعدة، ثم عاد فقال مثل قوله الأول، فلما بلغ حي على الفلاح حي على الفلاح، قال: "قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة، الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، فجاء عمر بن الخطاب فقال: يا رسول الله لقد أطاف بي الليلة مثل الذي أطاف به، فقال: ما منعك أن تخبرنا؟ " قال: "سبقني عبد الله بن زيد فاستحييت فأعجب ذلك المسلمين، وكانت سنة بعد، وأمر بلالا فأذن". (ص) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৫৩
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ فصل ۔۔۔ اذان کے بیان میں اذان کا سبب :
23153 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کوئی ایک آدمی راستے میں نکلتا اور الصلوۃ الصلوۃ کہہ کر نماز کے لیے بلاتا لیکن یہ طریقہ لوگوں پر کافی گراں گزرتا ، اس لیے بعض لوگوں نے ناقوس بجانے کا مشورہ دیا لیکن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ناقوس بجانا نصرانیوں کا طریقہ کار ہے بعض نے نرسنگھا بجانے کا مشورہ دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نرسنگھا یہودیوں کا ہے۔ بعض نے کہا نماز کے لیے ہم آگ روشن کرکے بلند کردیا کریں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آگ جلانا مجوسیوں کا شعار ہے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال (رض) کو حکم دیا کہ اذان کے کلمات کو دو دو مرتبہ کہو اور اقامت کے کلمات کو ایک ایک مرتبہ کہو ۔ (رواہ ابوالشیخ فی الاذان)
23153- عن أنس قال: "كانت الصلاة إذا حضرت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم سعى رجل في الطريق فنادى: الصلاة الصلاة، فاشتد ذلك على الناس وقالوا: لو اتخذنا ناقوسا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ذلك للنصارى، فقالوا: لو اتخذنا بوقا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ذلك لليهود فقالوا: لو رفعنا نارا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ذلك للمجوس، فأمر بلالا أن يشفع الأذان وأن يوتر الإقامة". (أبو الشيخ في الأذان) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৫৪
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اذان کی حقیقت اور اس کی کیفیت :
23154 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں حضرت بلال (رض) اذان دیتے تھے اور اذان یوں دیتے تھے ” اللہ اکبر اللہ اکبر اشھدان لا الہ اللہ اشھدان لا الہ الا اللہ “ پھر قبلہ رو سے دائیں طرف رخ موڑ کر کہتے ”’ اشھد ان محمدا رسول اللہ “ ’ اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ پھر قبلہ کی مخالفت سمت مڑ جاتے اور کہتے ” حی الصلوۃ حی علی الصلوۃ “ پھر بائیں طرف مڑ جاتے اور کہتے ” حی علی الفلاح حی علی الفلاح “ پھر قبلہ رو ہو کر کہتے ” اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ لا اللہ “ حضرت بلال (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں اقامت بھی کہتے تھے اور اقامت کے کلمات ایک ایک (منفرد) مرتبہ کہتے تھے جو کہ یہ ہے ” اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھدان محمدا رسول اللہ حی علی الصلوۃ حی علی الفلاح قد قامت الصلوۃ قد قامت الصلۃ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ “ مرواہ الطبرانی )
23154- كان بلال يؤذن للنبي صلى الله عليه وسلم وكان يؤذن الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله، ثم ينحرف عن يمين القبلة فيقول: أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله، ثم ينحرف فيستقبل خلف القبلة فيقول: حي على الصلاة حي على الصلاة ثم ينحرف عن يساره فيقول: حي على الفلاح حي على الفلاح، ثم يستقبل القبلة فيقول: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، وكان يقيم للنبي صلى الله عليه وسلم فيفرد الإقامة يقول: الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله. (طب) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৫৫
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اذان کی فضیلت اور اس کے احکام وآداب :
23155 ۔۔۔ ثوری (رح) اپنے کسی شیخ سے حضرت عمر (رض) کی روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ (رض) نے فرمایا موذنین کا گوشت پوست جہنم کی آگ پر حرام ہے ثوری (رح) کہتے ہیں : میں نے سنا ہے کہ اہل آسمان اہل زمین کی صرف : ان ہی سنتے ہیں (رواہ عبدالرزاق )
23155- عن الثوري عن شيخ لهم عن عمر قال: "لحوم محرمة على النار، ثم ذكر المؤذنين" قال الثوري: "سمعت من ذكر أن أهل السموات لا يسمعون من أهل الأرض إلا الأذان". (عب) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৫৬
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اذان کی فضیلت اور اس کے احکام وآداب :
23156 ۔۔۔ بیت المقدس کے موذن ابو زبیر کہتے ہیں حضرت عمر بن خطاب (رض) ہمارے پاس تشریف لائے اور حکم دیا کہ اذان آہستہ آہستہ دیا کرو اور اقامت جلدی جلدی کہا کرو (رواہ الدار قطنی والبیھقی) کلام :۔۔۔ یہ حدیث ضعیف ہے دیکھے تذکرۃ الموضوعات 35 والجامع المصنف 302 ۔
23156- عن أبي الزبير، مؤذن بيت المقدس قال: "جاءنا عمر بن الخطاب فقال: إذا أذنت فترسل، وإذا أقمت فاحدر". (قط ق) .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৫৭
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اذان کی فضیلت اور اس کے احکام وآداب :
23157 ۔۔۔ ابو معشر کہتے ہیں کہ مجھے حدیث پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کا فرمان ہے اگر میں موذن ہوتا تو مجھے کچھ پروا نہ ہوتی کہ میں حج کروں یا نہ کروں عمرہ کروں یا نہ کروں سواء حج اسلام کے (چونکہ وہ فرض ہے ) نیز فرشتوں کے نازل ہونے کا غلبہ جو اذان کے وقت ہوتا ہے وہ کہیں نہیں ہوتا (رواہ ابن زنجویہ )
23157- عن أبي معشر قال: "بلغني أن عمر بن الخطاب" قال: "لو كنت مؤذنا لم أبال أن لا أحج ولا أعتمر إلا حجة الإسلام، ولو كانت الملائكة نزولا ما غلبهم أحد على الأذان". (ابن زنجويه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩১৫৮
نماز کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اذان کی فضیلت اور اس کے احکام وآداب :
23158 ۔۔۔ مطر حسن بصری (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن وقاص (رض) نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں قیامت کے دن مؤذنین کا حصہ مجاہدین کے حصہ کے برابر ہوگا اور موذنین کی اذان و اقامت میں مثال ایسی ہے جیسے کوئی مجاہد اللہ کی راہ میں خون میں لت پت ہو۔ حسن کہتے ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا فرمان ہے : اگر میں موذن ہوتا تو مجھے حج عمرہ اور جہاد کرنے کی کچھ پروا نہ ہوتی ۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ : اگر میں موذن ہوتا تو میرا معاملہ مکمل ہوچکا ہوتا پھر مجھے راتوں کے قیام اور دن کے روزوں کی کچھ پر وہ نہ ہوتی چونکہ میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے ہمیں چھوڑ دیا ہم تو اذان کے لیے تلواروں سے جھگڑیں گے ارشاد ہو ان اے عمر ! ہرگز ایسا نہیں ہوگا عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اذان کی ذمہ داری معاشرہ کے ضعیف (نچلے درجہ کے ) لوگوں کے سپرد ہوگی حالانکہ موذنین کے گوشت پوست کو اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کردیا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں ک موذنین کی شان میں یہ آیت ہے۔ ” ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین “۔ س آدمی سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف بلاتا ہو اور نیک عمل کرتا ہوں اور کہتا ہو کہ میں بلاشبہ مسلمان ہوں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں اس آیت کا مصداق موذن ہے چنانچہ جب وہ ” حی علی الصوۃ “ کہتا ہے تو گویا اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف آنے کی دعوت دی اور جب وہ نماز پڑھ لیتا ہے تو اس نے نیک عمل کرلیا اور جب وہ ”’ اشھد ان لا الہ الا اللہ “۔ کہتا ہے تو اس نے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرلیا (رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
23158- عن مطر عن الحسن عن أبي الوقاص قال: "سهام المؤذنين عند الله يوم القيامة كسهام المجاهدين وهم فيما بين الأذان والإقامة كالمتشحط في دمه في سبيل الله،" وقال عبد الله بن مسعود: "لو كنت مؤذنا ما باليت أن لا أحج ولا أعتمر ولا أجاهد،" قال: وقال عمر بن الخطاب: "لو كنت مؤذنا لكمل أمري وما باليت أن لا أنتصب لقيام الليل ولا صيام النهار سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: اللهم اغفر للمؤذنين اللهم اغفر للمؤذنين، فقلت: تركتنا يا رسول الله ونحن نجتلد على الأذان بالسيوف؟ " قال: "كلا يا عمر إنه سيأتي على الناس زمان يتركون الأذان على ضعفائهم، وتلك لحوم حرمها الله على النار لحوم المؤذنين" قال: "وقالت عائشة لهم هذه الآية: {وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ} قالت: هو المؤذن، فإذا قال حي على الصلاة، فقد دعا إلى الله، وإذا صلى فقد عمل صالحا،" وإذا قال: "أشهد أن لا إله إلا الله فهو من المسلمين". (هب) .
তাহকীক: