কানযুল উম্মাল (উর্দু)
كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال
خرید وفروخت کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৯৬৩ টি
হাদীস নং: ৯৮৯৪
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مختلف ممنوعہ کمائیاں
9890 ۔۔۔ قسم بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حساب کو اجرت کے بدلے مکروہ قرار دیا (طبرانی)
9894- "عن القاسم بن عبد الرحمن أن عمر بن الخطاب كره حساب المقاسيم بالأجر". "طب".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৯৫
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مختلف ممنوعہ کمائیاں
9891 ۔۔۔ حضرت علقمہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ حضرت عمر (رض) یکایک کھڑے ہوگئے، ان کے ہاتھ میں کوڑا تھا، حضرت عمر (رض) جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع (رض) کے پاس سے گزرے، آپ (رض) لوہار تھے اور اپنے ہتھوڑے سے کام کررہے تھے، حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا، اے ابورافع، میں تین بار کہوں گا، ابورافع نے دریافت کیا۔ اے امیر المومنین تین مرتبہ کیوں ؟ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا ، تباہی ہو لوہار کے لئے، تباہی ہو تاجر کے لئے، نہیں خدا کی قسم میری تباہی ہو، خدا کی قسم، اے تاجروں کے گروہ ! بیشک تجارت میں قسمیں بہت کھائی جاتی ہیں لہٰذا اس کے ساتھ صدقہ وغیرہ ملا لیا کرو، سنو ! ہر جھوٹی قسم سے برکت ختم ہوجاتی ہے اور مال کو ہلاک کردیتی ہے۔ سوڈرو نہیں خدا کی قسم، میری تباہی ہو خدا کی قسم بیشک یہ تو قسم ہے ہی ناراضگی “۔ (ابن جریر)
9895- "عن علقمة قال: بينما نحن مع عمر بن الخطاب في أحفل ما يكون المجلس، إذ نهض وبيده الدرة، فمر بأبي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو صائغ يضرب بمطرقته، فقال عمر: يا أبا رافع أقول ثلاث مرار، فقال أبو رافع: يا أمير المؤمنين ولم ثلاث مرار؟ فقال: ويل للصائغ، وويل للتاجر من: لا والله، وبلى والله، يا معشر التجار إن التجارة تحضرها الأيمان فشوبوها بالصدقة، ألا إن كل يمين فاجرة تذهب بالبركة، وتنبت الذهب فاتقوا: لا، والله، وبلى والله، فإنها يمين سخطة". "ابن جرير".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৯৬
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مختلف ممنوعہ کمائیاں
9892 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ کوئی ہے تم میں سے جو مدینہ آئے اور کوئی بت توڑے بغیر نہ چھوڑے، اور کوئی تصویر مٹائے بغیر نہ چھوڑے اور کوئی قبر برابر کئے بغیر نہ چھوڑے ؟ چنانچہ قوم میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ کام میں کروں گا، اور ادانہ ہوگا، لہٰذا (یوں معلوم ہوا) گویا کہ وہ مدینہ کی عزت عظمت کرتا ہے چنانچہ وہ واپس آگیا، پھر میں روانہ ہوا، پھر واپس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کے پاس کیا آیا کہ میں مدینہ میں کوئی بت توڑے بغیر نہ چھوڑو، کوئی قبر برابر کئے بغیر نہ چھوڑوں اور کوئی تصویر مٹائے بغیر نہ چھوڑوں ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی نے ان میں سے کسی چیز کے بنانے سے دشمنی کی تو اس نے صحیح بات کی اور فرمایا اے علی ! نہ بننا، نہ مغرور ، نہ خیانت کرنے والے اور نہ تاجر بننا، لیکن بھلائی والا تاجر، کیونکہ، یہی وہ لوگ ہیں جن سے عمل میں سبقت کی گئی ہے “۔ (طبرانی، مسند ابی یعلی، ابن جریر وصححہ الدورقی)
9896- عن علي قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة، فقال: "أيكم يأتي المدينة فلا يدع فيها وثنا إلا كسره ولا صورة إلا لطخها ولا قبرا إلا سواه؟ فقام رجل من القوم فقال: أنا يا رسول الله، فانطلق الرجل فكأنه هاب المدينة فرجع، فانطلقت، ثم رجعت فقلت ما أتيتك يا رسول الله حتى لم أدع فيها وثنا إلا كسرته، ولا قبرا إلا سويته، ولا صورة إلا لطختها، فقال: من عاد لصنعة شيء منها، فقال قولا سديدا، وقال: يا علي لا تكن قتاتا ولا مختالا ولا خائنا ولا تاجرا إلا تاجر خير، فإن أولاءك 1 المسبوقون في العمل". "ط ع وابن جرير وصححه والدورقي".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৯৭
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مختلف ممنوعہ کمائیاں
9893 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ تاجر گناہ گار ہے علاوہ اس تاجر کے جس نے حق لیا اور حق دیا “ (ابن سعد اور ابن جریر)
9897- عن علي قال: "التاجر فاجر إلا من أخذ الحق وأعطاه"."مسدد وابن جرير".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৯৮
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مختلف ممنوعہ کمائیاں
9894 ۔۔۔ حضرت براء بن عازب (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ مذکر جانور کرائے پر دینا حلال نہیں ہے “۔ (مصنف عبدالرزاق)
9898- عن البراء بن عازب قال: لا يحل عسب الفحل. "عب".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৮৯৯
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مختلف ممنوعہ کمائیاں
9895 ۔۔۔ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پچھنے لگوائے اور پچھنے لگانے والے کو اس کی اجرت دی اور فرمایا کہ اس سے اس اونٹ کو گھاس پھوس کھلا دینا جس پر سیرابی کے لیے پانی لایا جاتا ہے “۔
9899- "احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم. وأعطى الحجام أجره وقال: اعلفوه الناضح". " ... .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০০
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بازار میں ابلیس کا جھنڈا
9896 ۔۔۔ حضرت صحابہ (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ابلیس جھنڈا لے کر ساتھ آتا ہے اور اسے بازار میں رکھ دیتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کا عرش ہلنے لگتا ہے ان باتوں سے جنہیں اللہ جانتا ہے اور جن کی اللہ گواہی دیتا ہے وہ باتیں جو ابلیس نہیں جانتا “۔ (ابن حبان)
9900- عن مجاهد قال: "يأتي إبليس بقيروان فيضعه في السوق، فلا يزال العرش يهتز مما يعلم الله ويشهد الله ما لم يشهد". "حب".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০১
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بازار میں ابلیس کا جھنڈا
9897 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پچھنے لگوائے، جب پچھنے لگانے والی کی اجرت ادا کی تو فرمایا تو نے اپنی کمائی لے لی ؟ اس نے کہا جی ہاں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اسے خود نہ کھانا، بلکہ اونٹ کو کھلا دینا جو سیراب کرنے کے لیے پانی لانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (ابن النجار)
9901- عن أنس قال: "احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أعطاه كراءه قال له: أخذت كراءك؟ قال: نعم، قال: فلا تأكله، وأطعمه الناضح". "ابن النجار".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০২
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بازار میں ابلیس کا جھنڈا
9898 ۔۔۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے تین باتیں شروع کردیں جن پر پہلے اجرت نہ لی جاتی تھی۔
1 ۔۔۔ نرجانور کا کرایہ۔ 2 ۔۔۔ مال تقسیم کرنے کی اجرت۔ 3 ۔۔۔ بچوں کو پڑھانے کی اجرت “۔ (مصنف عبدالرزاق)
1 ۔۔۔ نرجانور کا کرایہ۔ 2 ۔۔۔ مال تقسیم کرنے کی اجرت۔ 3 ۔۔۔ بچوں کو پڑھانے کی اجرت “۔ (مصنف عبدالرزاق)
9902- عن قتادة قال: "أحدث الناس ثلاثة أشياء لم يكن يؤخذ عليهن أجر: ضراب الفحل، وقسمة الأموال، وتعليم الغلمان". "عب".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০৩
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بازار میں ابلیس کا جھنڈا
9899 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنجری کے معاوضے اور کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔ (مصنف عبدالرزاق)
9903- عن أبي هريرة قال: "نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن مهر البغي وثمن الكلب". "ش".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০৪
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بازار میں ابلیس کا جھنڈا
9900 ۔۔۔ علی بن یزید الھلامی قاسم بن عبدالرحمن کے حوالے سے، اور وہ حضرت ابوامامۃ (رض) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ جھٹلانے والے اور رد کرنے والے یہودی تھے، چنانچہ ایک مرتبہ ان کے علماء کی ایک جماعت ۔۔۔ اور کہا، اے محمد ! آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ (اگر ایسی بات ہے تو) جو بات ہم آپ سے پوچھیں گے آپ ہمیں بتائیں گے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جب بھی کوئی بات پوچھی گئی انھوں نے ضروری بتائی، لہٰذا اگر آپ نبی ہیں تو جو ہم پوچھیں گے وہ آپ کو بتانا ہوگا جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے خلاف اللہ ہی میرا ذمہ دار اور گواہ ہے، اگر میں نے تمہیں بتادیا تو کیا تم اسلام قبول کرلوگے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ (ٹھیک ہے) پھر جو چاہو پوچھو۔
یہودیوں نے سوال کیا کہ کون سی جگہ بری ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، اور فرمایا کہ میں اپنے ساتھی جبرائیل سے پوچھوں گا، چنانچہ تین دن گزرگئے، پھر جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سب کچھ بتایا اور ان سے دریافت فرمایا، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جس سے پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں اپنے رب سے پوچھوں گا، چنانچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، کہ بیشک شہروں میں بدترین جگہیں ان کے بازار ہوتے ہیں اور بہترین جگہ ان شہروں کی مساجد، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور فرمایا اے محمد ! میں اللہ تعالیٰ سے اتنا قریب ہوگیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا قریب نہیں ہوا، میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شہروں میں بدترین جگہیں ان کے بازار ہوتے ہیں اور بہترین جگہیں ، ان شہروں کی مساجد، پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا، اے محمد ! بیشک اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے ایسے ہوتے ہیں جو زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں یہ حفاظت کرنے والے فرشتے نہیں ہوتے جنہیں اپنے اپنے کاموں کی ذمہ داری سونپی گئی ہے (بلکہ) یہ چھوٹے بڑے جھنڈوں کے ساتھ صبح صبح آتے ہیں اور ان جھنڈوں کو مسجدوں کے دروازوں پر گاڑ دیتے ہیں، اور لوگوں کے نام ان کے مرتبوں کے مطابق لکھتے ہیں کہ مسجد میں پہلے داخل ہونے والا کون ہے اور سب سے آخر میں نکلنے والا کون ہے ؟ سو اگر اہل مسجد میں سے یا ان لوگوں میں سے جو اندھیروں میں چل کر مسجدوں کی طرف جاتے ہیں کوئی مصیبت بلا پیش آنی ہو تو اس صبح فرشتے اس کو روک لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اپنے فلاں بندے کی مغفرت فرما دیجئے، فرمایا ” اور ایمان والوں کے لیے معافی مانگتے ہیں “۔ (سورة۔۔۔ آیت 7)
پھر اپنے چھوٹے بڑے جھنڈوں کو مسجد میں لے جاتے ہیں اور جو سب سے آخر میں مسجد سے نکلتا ہے، یہ بھی اس کے ساتھ نکلتے ہیں، ان جھنڈوں کو لے کر اس کے سامنے چلتے ہیں یہاں تک کہ وہ شخص اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے، یہ بھی ان جھنڈوں کو لیے اس شخص کے ساتھ اس کے گھر میں داخل ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ سحر ہوجاتی ہے، پھر یہ ان چھوٹے بڑے جھنڈوں کو لیے اس شخص کے ساتھ سامنے مسجد کی طرف چلتے ہیں جو سب سے پہلے مسجد کی طرف روانہ ہوتا ہے اور مسجد کے دروازے پر جھنڈوں گاڑ دیتے ہیں اور پھر ویسے ہی کرتے ہیں جیسے پہلے کیا تھا۔
اسی طرح ابلیس صبح صبح بلند آواز سے چیختا ہے، ہائے بربادی ہائے بربادی، چنانچہ اس کی اولاد گھبرائی ہوئی اس کے پاس آپہنچتی ہے اور پوچھتی ہے کہ اے ہمارے سردار ! کس بات سے گھبرا گئے ؟ تو ابلیس کہتا ہے ان چھوٹے بڑوں جھنڈوں کو لے جاؤ اور بازاروں اور راستوں میں لوگوں کے کھڑے ہونے کی جگہ گاڑدوا ور لوگوں کے درمیان مصروف ہوجاؤ، ان کو کھینچ لو اور ان کے درمیان فواحش پھیلادو، چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے ہیں، اور شام کے وقت بھی ایسا ہی کہتے ہیں، چنانچہ بازاروں میں آپ صرف گناہ ہی دیکھتے ہیں اور گندی باتیں ہی سنتے ہیں۔
پھر یہ شیاطین اپنے چھوٹے بڑے جھنڈوں کو لیے سب سے آخر میں بازار سے نکلنے والے کے ساتھ نکلتے ہیں اور اس کے
سامنے چلتے ہیں، حتی کہ وہ شخص اپنے گھر میں داخل ہوجاتا ہے سو یہ بھی اس کے ساتھ اس کے گھر میں رات گزارتے ہیں یہاں تک کہ ان کی صبح سے پہلے بازار جانے والے کے ساتھ بازار جاتے ہیں اور اپنے چھوٹے بڑے جھنڈے لیے اس کے سامنے چلتے ہیں اور راستوں میں جمع ہونے کی جگہوں اور بازاروں میں گاڑ دیتے ہیں اور دن بھر اسی طرح رہتے ہیں “۔ (ابن زنجویہ)
مسند احمد میں ذکر کیا ہے کہ علی بن یزید، قاسم بن عبدالرحمن سے عجیب عجیب باتیں روایت کرتے ہیں میرا نہیں خیال کہ یہ قاسم کے علاوہ کسی اور سے ہو “۔
یہودیوں نے سوال کیا کہ کون سی جگہ بری ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، اور فرمایا کہ میں اپنے ساتھی جبرائیل سے پوچھوں گا، چنانچہ تین دن گزرگئے، پھر جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سب کچھ بتایا اور ان سے دریافت فرمایا، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جس سے پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں اپنے رب سے پوچھوں گا، چنانچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، کہ بیشک شہروں میں بدترین جگہیں ان کے بازار ہوتے ہیں اور بہترین جگہ ان شہروں کی مساجد، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور فرمایا اے محمد ! میں اللہ تعالیٰ سے اتنا قریب ہوگیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا قریب نہیں ہوا، میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شہروں میں بدترین جگہیں ان کے بازار ہوتے ہیں اور بہترین جگہیں ، ان شہروں کی مساجد، پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا، اے محمد ! بیشک اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے ایسے ہوتے ہیں جو زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں یہ حفاظت کرنے والے فرشتے نہیں ہوتے جنہیں اپنے اپنے کاموں کی ذمہ داری سونپی گئی ہے (بلکہ) یہ چھوٹے بڑے جھنڈوں کے ساتھ صبح صبح آتے ہیں اور ان جھنڈوں کو مسجدوں کے دروازوں پر گاڑ دیتے ہیں، اور لوگوں کے نام ان کے مرتبوں کے مطابق لکھتے ہیں کہ مسجد میں پہلے داخل ہونے والا کون ہے اور سب سے آخر میں نکلنے والا کون ہے ؟ سو اگر اہل مسجد میں سے یا ان لوگوں میں سے جو اندھیروں میں چل کر مسجدوں کی طرف جاتے ہیں کوئی مصیبت بلا پیش آنی ہو تو اس صبح فرشتے اس کو روک لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اپنے فلاں بندے کی مغفرت فرما دیجئے، فرمایا ” اور ایمان والوں کے لیے معافی مانگتے ہیں “۔ (سورة۔۔۔ آیت 7)
پھر اپنے چھوٹے بڑے جھنڈوں کو مسجد میں لے جاتے ہیں اور جو سب سے آخر میں مسجد سے نکلتا ہے، یہ بھی اس کے ساتھ نکلتے ہیں، ان جھنڈوں کو لے کر اس کے سامنے چلتے ہیں یہاں تک کہ وہ شخص اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے، یہ بھی ان جھنڈوں کو لیے اس شخص کے ساتھ اس کے گھر میں داخل ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ سحر ہوجاتی ہے، پھر یہ ان چھوٹے بڑے جھنڈوں کو لیے اس شخص کے ساتھ سامنے مسجد کی طرف چلتے ہیں جو سب سے پہلے مسجد کی طرف روانہ ہوتا ہے اور مسجد کے دروازے پر جھنڈوں گاڑ دیتے ہیں اور پھر ویسے ہی کرتے ہیں جیسے پہلے کیا تھا۔
اسی طرح ابلیس صبح صبح بلند آواز سے چیختا ہے، ہائے بربادی ہائے بربادی، چنانچہ اس کی اولاد گھبرائی ہوئی اس کے پاس آپہنچتی ہے اور پوچھتی ہے کہ اے ہمارے سردار ! کس بات سے گھبرا گئے ؟ تو ابلیس کہتا ہے ان چھوٹے بڑوں جھنڈوں کو لے جاؤ اور بازاروں اور راستوں میں لوگوں کے کھڑے ہونے کی جگہ گاڑدوا ور لوگوں کے درمیان مصروف ہوجاؤ، ان کو کھینچ لو اور ان کے درمیان فواحش پھیلادو، چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے ہیں، اور شام کے وقت بھی ایسا ہی کہتے ہیں، چنانچہ بازاروں میں آپ صرف گناہ ہی دیکھتے ہیں اور گندی باتیں ہی سنتے ہیں۔
پھر یہ شیاطین اپنے چھوٹے بڑے جھنڈوں کو لیے سب سے آخر میں بازار سے نکلنے والے کے ساتھ نکلتے ہیں اور اس کے
سامنے چلتے ہیں، حتی کہ وہ شخص اپنے گھر میں داخل ہوجاتا ہے سو یہ بھی اس کے ساتھ اس کے گھر میں رات گزارتے ہیں یہاں تک کہ ان کی صبح سے پہلے بازار جانے والے کے ساتھ بازار جاتے ہیں اور اپنے چھوٹے بڑے جھنڈے لیے اس کے سامنے چلتے ہیں اور راستوں میں جمع ہونے کی جگہوں اور بازاروں میں گاڑ دیتے ہیں اور دن بھر اسی طرح رہتے ہیں “۔ (ابن زنجویہ)
مسند احمد میں ذکر کیا ہے کہ علی بن یزید، قاسم بن عبدالرحمن سے عجیب عجیب باتیں روایت کرتے ہیں میرا نہیں خیال کہ یہ قاسم کے علاوہ کسی اور سے ہو “۔
9904- عن علي بن يزيد الهلالي عن القاسم بن عبد الرجمن، عن أبي أمامة قال: "كان من أشد الناس تكذيبا لرسول الله صلى الله عليه وسلم وأكثرهم ردا عليه اليهود، وأنه أقبل إليه ناس من أحبارهم، فقالوا: يا محمد إنك تزعم أن الله بعثك، فأخبرنا عن شيء نسألك عنه، فإن موسى لم يكن أحد يسأله عن شيء إلا حدثه، فإن كنت نبيا فأخبرنا عن شيء نسألك عنه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: فالله عليكم كفيل شهيد لئن أخبرتكم لتسلمن؟ قالوا: نعم، قال: فسلوني عما شئتم. قالوا: أي البقاع شر فسكت،وقال: أسأل صاحبي جبريل، فمكث ثلاثا، ثم جاءه جبريل فأخبره فسأله، فقال: ما المسؤل بأعلم بها من السائل، ولكن أسأل ربي، فسأل ربه، فقال: إن شر البلاد أسواقها، وخير البقاع مساجدها، فهبط جبريل فقال: يا محمد لقد دنوت من الله دنوا ما دنوت مثله قط، فكان بيني وبينه سبعون الف حجاب من نور، فقال: إن شر البلاد أسواقها، وخير البقاع مساجدها، ثم قال جبريل: يا محمد إن لله ملائكة سياحين في الأرض، ليسوا بالحفظة الذين وكلوا بأعمالهم يغدون بلواء ورايات فيركزونها على أبواب المساجد فيكتبون الناس على منازلهم أول داخل وآخر خارج من المسجد، فإذا كان واحد من أهل الدلج وأهل المساجد عرض له بلاء أو مرض حبسه تلك الغداة تقول الملائكة: اللهم اغفر لعبدك فلان، قال: {وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا} ثم يدخلون راياتهم ولواءهم المسجد، فيمكثون فيه حتى يصلوا صلاة العشاء، ثم يخرجون بها مع آخر خارج منهم، يسيرون بها بين يديه، حتى يدخل بيته فيدخلون بها معه في بيته، حتى يكون من السحر، ثم يغدون بها مع أول غاد إلى المسجد بين يديه، حتى يركزوها على باب المسجد كنحو ما فعلوا، قال: ويغدو إبليس بكرة فيصيح بأعلى صوته: يا ويله يا ويله فيفزع له مراد ذريته فيقولون: يا سيدنا ما أفزعك؟ فيقول:انطلقوا بهذا اللواء وهذه الرايات حتى تركزوها في الأسواق ومجامع الطرق، ثم أكبوا بين الناس وانزغوهم فألقوا بينهم بالفواحش، فينطلقون حتى يركزوها كذلك، ويقولون ذلك حين يمسون فلا ترى في الأسواق إلا المنكرات ولا تسمع إلا الفواحش، ثم يروحون بها مع آخر منقلب من السوق يسيرون بها بين يديه بلوائهم وراياتهم، حتى يدخلوها بيته، فيبيتونها معه في بيته، حتى يغدوا بها مع أول غاد إلى السوق يسيرون بها بين يديه حتى يركزوها في مجامع الطرق والأسواق فهم على ذلك كل يوم. "ابن زنجويه" قال حم: القاسم بن عبد الرحمن حدث عنه علي بن يزيد بأعاجيب ما أراها إلا من قبل القاسم. أكبوا بين الناس، قال في القاموس: كبى النار تكبية ألقى عليها رمادا وتكبى على المجمرة أكب عليها بثوبه وأكبى وجهه غيره اهـ. ح.
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০৫
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب۔۔۔ خریدو فروخت کے احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
9901 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ بیع تو ایک سودے سے ہوتی ہے یا اختیار سے، اور مسلمان کے پاس اپنی شرط ہے۔ (مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن بی شیبہ متفق علیہ)
9905- عن عمر قال: "إنما البيع عن صفقة، أو خيار، والمسلم عند شرطه". "عب ش ق".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০৬
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب۔۔۔ خریدو فروخت کے احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
9902 ۔۔۔ حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنے باپ کی باندی بیچ دی اور اس کا باپ موجود نہ تھا چنانچہ جب اس کا باپ آیا تو اس نے باندی کی بیع کو برقرار رکھنے سے انکار کردیا، حالانکہ وہ خریدار کے بچے کی ماں بھی بن چکی تھی، چنانچہ یہ دونوں اپنا فیصلہ لے کر حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے چنانچہ حضرت عمر (رض) نے فیصلہ کیا کہ باندی تو اسی شخص کے حوالے کی جس کی تھی تھی اور خریدار سے کہا اپنی بیع کو ختم کردے تو اس نے لڑکے کو پکڑ لیا تو بیچنے والے کا باپ کہنے لگا کہ اسے حکم دیجئے کہ میرے بیٹے کا راستہ چھوڑدے، حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا کہ اور تو اس کے بیٹے کو چھوڑدے۔ سنن سعید بن منصور، سنن کبری بیھقی)
9906- عن الحسن "أن رجلا باع جارية لأبيه، وأبوه غائب، فلما قدم أبوه أبى عن أن يجيز بيعه، وقد ولدت من المشتري، فاختصموا إلى عمر بن الخطاب، فقضى للرجل جاريته، وأمر المشتري أن يأخذ بيعه بالخلاص فلزمه، فقال أبو البائع: مره فليخل عن ابني، فقال عمر: وأنت فخل عن ابنه". "ص هق". كما في المنتخب [2/231] .
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০৭
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب۔۔۔ خریدو فروخت کے احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
9903 ۔۔۔ حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں یہودیوں کے ایک قبیلے بنو قینقاع سے کھجوریں خریدا کرتا تھا اور فائدے کے ساتھ بیچ دیا کرتا تھا جب یہ بات جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اے عثمان ! جب خریدو توناپ لیا کرو اور جب بیچو تو بھی ناپ لیا کرو “۔ (مسند احمد، مسند عبد بن حمید، ابن ماجہ، طحاوی، دارقطنی متفق علیہ)
9907- عن عثمان قال: "كنت ابتاع التمر من بطن من اليهود يقال لهم بنو قينقاع وأبيعه بربح، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا عثمان إذا اشتريت فاكتل، وإذا بعت فكل". "حم وعبد بن حميد" "هـ 1 والطحاوي قط ق".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০৮
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب۔۔۔ خریدو فروخت کے احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
9904 ۔۔۔ حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں بنو قینقاع کے بازار میں کھجوریں بیچا کرتا تھا، میں کچھ وسق (بیچنے) میں اتنی اتنی مقدار ناپی ہے، پھر میرے دل میں کچھ کھٹکا پیدا ہوا تو میں جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب لو تو اس کو ناپ لیا کرو “۔
9908- عن عثمان كنت أبيع التمر في سوق بني قينقاع، فأكيل أوساقا فأقول: "كلت في وسقي كيت وكيت فدخلني شيء من ذلك، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إذا سميت كيلا فكله". "العدني".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯০৯
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ باب۔۔۔ خریدو فروخت کے احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
آداب اور ممنوعات کے بیان میں۔۔۔ احکام
9905 ۔۔۔ حضرت علی (رض) ایک مرتبہ ایک باندی کے پاس گزرے جو قصائی سے گوشت خریدرہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کچھ اضافہ کرو تو حضرت علی (رض) سے بھی فرمایا کہ کچھ اضافہ کرو کیونکہ یہ بیع کے لیے زیادہ باعث برکت ہے “۔ (مصنف عبد الرزاق)
9909- "عن علي أنه مر بجارية تشتري لحما من قصاب، وهي تقول: زدني فقال علي: زدها فإنه أبرك للبيع". "عب".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯১০
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جھکا کر تولنا باعث برکت ہے
9906 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) اپنا اونٹ بیچنے آیا، حضرت عمر (رض) اس کے پاس آئے اور بھاؤ تاؤ کرنے لگے، اسی دوران حضرت عمر (رض) اپنے پیر سے آہستہ آہستہ مار کر اونٹ کو دیکھنے گئے تاکہ اچھی طرح جانچ پڑتا کرسکیں، اعرابی کہنے لگا، میرے اونٹ کا پیچھا چھوڑدو، تیرا باپ نہ رہے، لیکن حضرت عمر (رض) نے اس کی باتوں پر کان نہ دھرا اور اپنے کام میں لگے رہے، (یہ دیکھ کر) اعرابی کہنے لگا میں تمہیں کوئی اچھا انسان نہیں سمجھتا، حضرت عمر (رض) جب فارغ ہوئے تو اونٹ کو خرید لیا اور کہا اس کو چلاؤ اور اس کی قیمت وصول کرلو، اعرابی بولا ہاں لیکن ذرا میں اس کی جھول وغیرہ اتارلوں تو حضرت عمر (رض) بولے کہ میں نے تواونٹ وان سب چیزوں سمیت خریدا ہے چنانچہ جس طرح اونٹ میرا ہے یہ چیزیں بھی میری ہیں، اعرابی بولا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اچھا آدمی نہیں ہے ، ابھی یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ حضرت علی (رض) پہنچے، حضرت عمر (رض) نے اعرابی سے کہا کہ اگر ہم اس شخص سے فیصلہ کروالیں گے تو تم راضی ہوگے، وہ بولا ہاں، چنانچہ دونوں نے اپنے واقعہ کی تفصیلات حضرت علی (رض) سے بیان کیں تو حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا کہ اے امیر المومنین ! اگر آپ نے جھول وغیرہ کی شرط پہلے ہی لگالی تھی تو یہ آپ کی ہیں شرط کے مطابق ورنہ پھر کوئی بھی شخص اپنے سامان کو اس کی قیمت سے زیادہ سجاتا سنوارتا ہی ہے، چنانچہ اونٹ سے جھول وغیرہ اتارلی گئیں اور اعرابی کے حوالے کردی گئیں اور حضرت عمر (رض) نے اونٹ کی قیمت اعرابی کو ادا کردی “۔
9910- عن أنس بن مالك "أن أعرابيا جاء بإبل له يبيعها، فأتاه عمر يساومه فجعل عمر ينخس بعيرا بعيرا يضربه برجله ليبعث البعير لينظر كيف فؤاده، فجعل الأعرابي يقول: خل إبلي، لا أبالك، فجعل عمر لا ينهاه قول الأعرابي أن يفعل ذلك ببعير بعير، فقال الأعرابي لعمر: إني لأظنك رجل سوء فلما فرغ منها اشتراها، فقال: سقها وخذ أثمانها فقال الأعرابي: حتى أضع عنها أحلاسها وأقتابها، فقال عمر: اشتريتها وهي عليها فهي لي كما اشتريتها، قال الأعرابي أشهد أنك رجل سوء، فبينما يتنازعان إذ أقبل علي، فقال عمر ترضى بهذا الرجل بيني وبينك؟ فقال الأعرابي: نعم، فقصا على علي قصتهما، فقال علي: يا أمير المؤمنين إن كنت اشترطت عليه أحلاسها وأقتابها فهي لك كما اشترطت، وإلا فإن الرجل يزين سلعته بأكثر من ثمنها فوضع عنها أحلاسها وأقتابها، فساقها الأعرابي فدفع إليه عمر الثمن". "عق".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯১১
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جھکا کر تولنا باعث برکت ہے
9907 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) سے پوچھا گیا کہ ایک شخص ہے، جس نے اپنا کچھ قرض کسی سے وصول کرنا ہے کیا یہ اس کے بدلے غلام خرید سکتا ہے ؟ تو حضرت جابر (رض) نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (مصنف عبدالرزاق)
9911- "عن جابر أنه سئل عن الرجل يكون له الدين، أفيبتاع به عبدا؟ قال: لا بأس به". "عب".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯১২
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جھکا کر تولنا باعث برکت ہے
9908 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو کپڑا بیچتا تھا، آیا وہ کپڑے کے بدلے کپڑا لے سکتا ہے، فرمایا کوئی حرج نہیں “۔ (مصنف عبدالرزاق)
9912- "عن ابن عباس أنه سئل عن رجل باع بزا يأخذ مكانه بزا؟ قال: لا بأس به". "عب".
তাহকীক:
হাদীস নং: ৯৯১৩
خرید وفروخت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جھکا کر تولنا باعث برکت ہے
9909 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کہ اگر بکری کے بدلے گوشت بیچا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (مصنف عبدالرزاق)
9913- "عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: لا بأس أن يباع اللحم بالشاة". "عب".
তাহকীক: