মুসান্নাফ ইবনু আবী শাইবাহ (উর্দু)
الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار
امارت اور خلافت کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৮৫ টি
হাদীস নং: ৩১২৫৩
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٥٤) حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے کچھ قصّہ گو تھے، ان کی آپس میں مجلس برخاست کرنے کی علامت یہ تھی کہ وہ ان سے فرماتے کہ ” اب جس وقت تم چاہو “۔
(۳۱۲۵۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَانَ لَہُ سُمَّارٌ ، فَکَانَ عَلاَمَۃُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ أَنْ یَقُولَ لَہُمْ : إذَا شِئْتُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৫৪
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٥٥) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ محمد بن سیرین (رض) کے سامنے جب حضرت ابراہیم کا ذکر ہوتا تو فرماتے کہ میں نے ان کو ایسا جوان دیکھا ہے کہ حضرت علقمہ کو ہر وقت چمٹے رہتے ہیں ان کی آنکھ میں سفیدی تھی، اور شعبی کو بھی میں نے ابن زیاد کے زمانے میں دیکھا ہے۔
(۳۱۲۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ إذَا ذُکِرَ عِنْدَ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَدْ رَأَیْت فَتًی یَغْشَی عَلْقَمَۃَ فِی عَیْنِہِ بَیَاضٌ فَأَمَّا الشَّعْبِیُّ فَقَدْ رَأَیْتہ۔ یَعْنِی : فِی زَمَانِ ابْنِ زِیَادٍ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৫৫
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٥٦) اعمش فرماتے ہیں کہ معاذ جوان مرد تھے، گندم گوں رنگت والے ، چمکتے دندان والے، اور جب وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے ساتھ بیٹھتے تو لوگ دیکھتے کہ ان کو ادھیڑ لوگوں میں مقام حاصل ہوتا تھا۔
(۳۱۲۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : کَانَ مُعَاذُ شَابًّا آدَمَ وَضَّاحَ الثَّنَایَا ، وَکَانَ إذَا جَلَسَ مَعَ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَوْا لَہُ مَا یَرَوْنَ لِلْکَہْلِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৫৬
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٥٧) حضرت عمیر بن سعد فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) جنگ جمل سے واپس ہوئے اور صفّین کی تیاری کرنے لگے تو قبیلہ نخع والے جمع ہو کر اشتر کے پاس پہنچ گئے، آپ نے پوچھا کہ اس گھر میں قبیلہ نخع کے لوگوں کے علاوہ کوئی آدمی نہیں ؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا، آپ نے فرمایا بیشک اس جماعت نے اپنے بہترین آدمی قتل کردیے، اور ہم نے اہل بصرہ کی طرف پیش قدمی کی جن پر ہمارا بیعت کا حق تھا پس ان کی عہد شکنی کے ساتھ ہماری مدد کی گئی، بیشک تم لوگ عنقریب اہل شام کی طرف کوچ کرو گے جن پر تمہیں بیعت کا حق حاصل نہیں ہے، اس لیے ہر آدمی کو چاہیے کہ دیکھ لے اور خوب سوچ لے کہ اپنی تلوار کہاں چلائے گا۔
(۳۱۲۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعَ عَلِیٌّ مِنَ الْجَمَلِ ، وَتَہَیَّأَ إلَی صِفِّینَ اجْتَمَعَتِ النَّخْعُ حَتَّی دَخَلُوا عَلَی الأَشْتَرِ ، فَقَالَ : ہَلْ فِی الْبَیْتِ إلاَّ نَخْعِیٌّ ، قَالُوا : لاَ ، قَالَ : إنَّ ہَذِہِ الأُمَّۃَ عَمَدَتْ إلَی خَیْرِہَا فَقَتَلَتْہُ ، وَسِرْنَا إلَی أَہْلِ الْبَصْرَۃِ قوْمٌ لَنَا عَلَیْہِمْ بَیْعَۃٌ فَنُصِرْنَا عَلَیْہِمْ بِنَکْثِہِمْ ، وَإِنَّکُمْ سَتَسِیرُونَ إلَی أَہْلِ الشَّامِ قَوْمٌ لَیْسَ لَکُمْ عَلَیْہِمْ بَیْعَۃٌ ، فَلْیَنْظُرَ امْرُؤٌ مِنْکُم أَیْنَ یَضَعُ سَیْفَہُ ؟!۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৫৭
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٥٨) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر سے کہا گیا کہ جوانوں کی طرف پیغام لکھ دو آپ نے پوچھا جوان کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ بہترین نوجوان، آپ نے فرمایا : میں بدترین نوجوانوں کو پیغام لکھ دیتا ہوں۔
(۳۱۲۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ قِیلَ لِعُمَرَ : اکْتُبْ إلَی جَوَانَانَ ، قَالَ : وَمَا جَوَانَانُ ، قَالُوا : خَیْرُ الْفِتْیَانِ ، قَالَ : اکْتُبْ إلَی شَرِّ الْفِتْیَانِ۔ (عبدالرزاق ۱۹۸۵۵)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৫৮
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٥٩) اعمش فرماتے ہیں کہ میں نے عبد الرحمن بن ابی لیلی (رض) کو دیکھا کہ حجاج نے ان کو کوڑے لگوا کر مسجد کے دروازے پر کھڑا کیا ہو اتھا، فرماتے ہیں کہ پھر وہ لوگ ان سے کہنے لگے کہ جھوٹوں پر لعنت کرو، وہ فرمانے لگے : اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے جھوٹوں پر، پھر تھوڑا رہ کر فرماتے، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن زبیر اور مختار بن ابی عبید، ان کے خاموش رہنے کے بعد بولنے سے مجھے پتہ چل گیا کہ وہ انھیں مراد نہیں لے رہے۔
(۳۱۲۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ أَبِی لَیْلَی ضَرَبَہُ الْحَجَّاجُ وَأَوْقَفَہُ عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ ، قَالَ : فَجَعَلُوا یَقُولُونَ لَہُ : الْعَنِ الْکَذَّابِینَ ، فَجَعَلَ یَقُولُ : لَعَن اللَّہُ الْکَذَّابِینَ ، ثُمَّ سَکَتَ حِینَ سَکَتَ ، ثُمَّ یَقُولُ : عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ وَالْمُخْتَارُ بْنُ أَبِی عُبَیْدٍ ، فَعَرَفْت حِینَ سَکَتَ ، ثُمَّ ابْتَدَأَہُمْ فَعِرَّفَہُمْ ، أَنَّہُ لَیْسَ یُرِیدُہُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৫৯
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦٠) عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ابو البختری طائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جبکہ حجاج خطبہ دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ حضرت عثمان (رض) کی مثال اللہ کے ساتھ حضرت عیسیٰ بن مریم کی طرح ہے، کہتے ہیں کہ پھر اس نے سر اٹھا کر آہ نکالی پھر کہا {إنِّی مُتَوَفِّیک وَرَافِعُک إلَیَّ } ۔۔۔ { وَجَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوک فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ } ( اور بنانے والا ہوں تیرے متبعین کو کفار پر غالب قیامت کے دن تک) عطاء فرماتے ہیں کہ اس پر ابو البختری نے فرمایا رب کعبہ کی قسم ! یہ کافر ہوگیا۔
(۳۱۲۶۰) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ زِیَادٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِی الْبَخْترِیِّ الطَّائِیِّ وَالْحَجَّاجُ یَخْطُبُ ، فَقَالَ : مَثَلُ عُثْمَانَ عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ، قَالَ : فَرَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ تَأَوَّہَ ، ثُمَّ قَالَ : {إنِّی مُتَوَفِّیک وَرَافِعُک إلَیَّ} إِلَی قَوْلِہ {وَجَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوک فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ} قَالَ : فَقَالَ أَبُو الْبَخْترِیِّ : کَفَرَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬০
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦١) کنانہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت صفیّہ کی سواری چلا رہا تھا تاکہ وہ حضرت عثمان (رض) کی طرف داری کرتے ہوئے ان کا دفاع کریں، کہ اس اثناء میں ان کے سامنے اشتر آگیا اور اس نے ان کے خچر کے چہرے پر مارنا شروع کردیا یہاں تک کہ خچر واپس ہوگیا، اور حضرت صفیہ بھی فرمانے لگیں کہ مجھے واپس کردو کہیں یہ آدمی مجھے رسوا نہ کر دے۔
(۳۱۲۶۱) حَدَّثَنَا مالک بن إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا کِنَانَۃٌ ، قَالَ : کُنْتُ أَقُودُ بِصَفِیَّۃَ لِتَرُدَّ عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : فَلَقِیَہَا الأَشْتَرُ فَضَرَبَ وَجْہَ بَغْلَتِِہَا حَتَّی مَالَتْ وَحَتَّی قَالَتْ : رُدُّونِی لاَ یَفْضَحُنِی ہَذَا۔
(ابن سعد ۱۲۸)
(ابن سعد ۱۲۸)
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬১
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦٢) ربیع بن ابی صالح فرماتے ہیں کہ جب سعید بن جبیر مکہ سے کوفہ آئے تاکہ ان کو واسط میں حجاج کے پاس لے جایا جائے تو ہم تین یا چار آدمی ان کے پاس آئے تو ہم نے ان کو لکڑی کے ایک ڈھیر میں بیٹھا ہوا پایا۔ ہم ان کے پاس بیٹھے تو ہم میں سے ایک آدمی رو پڑا، سعید نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز رلاتی ہے ؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مصیبت پر رو رہا ہوں، آپ نے فرمایا نہ روؤ کیونکہ اللہ کے علم میں پہلے سے یہ بات ہے کہ اس طرح ہوگا، پھر آپ نے پڑھا { مَا أَصَابَ مِنْ مُصِیبَۃٍ فِی الأَرْضِ ، وَلاَ فِی أَنْفُسِکُمْ إلاَّ فِی کِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَہَا إنَّ ذَلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ}(زمین میں اور تمہاری جانوں میں کوئی مصیبت نہیں آتی مگر وہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے ہمارے اس زمین کو پیدا کرنے سے پہلے، بیشک یہ اللہ تعالیٰ پر آسان ہے۔
(۳۱۲۶۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ مِنْ مَکَّۃَ إلَی الْکُوفَۃِ لِیُنْطَلَقَ بِہِ إلَی الْحَجَّاجِ إلَی وَاسِطٍ ، قَالَ : فَأَتَیْنَاہُ وَنَحْنُ ثَلاَثَۃُ نَفَرٍ ، أَوْ أَرْبَعَۃٌ ، فَوَجَدْنَاہُ فِی کُنَاسَۃِ الْخَشَبِ فَجَلَسْنَا إلَیْہِ ، فَبَکَی رَجُلٌ مِنَّا ، فَقَالَ لَہُ سَعِیدٌ : مَا یُبْکِیَک ، قَالَ : أَبْکِی لِلَّذِی نَزَلَ بِکَ مِنَ الأَمْرِ ، قَالَ : فَلاَ تَبْکِ فَإِنَّہُ قَدْ کَانَ سَبَقَ فِی عِلْمِ اللہِ یَکُونُ ہَذَا ، ثُمَّ قَرَأَ : {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِیبَۃٍ فِی الأَرْضِ ، وَلاَ فِی أَنْفُسِکُمْ إلاَّ فِی کِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَہَا إنَّ ذَلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ}۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬২
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦٣) عباد فرماتے ہیں کہ مختار حضرت علی (رض) کے پاس مدائن سے مال لے کر آیا اور مدائن پر اس کے چچا سعد بن مسعود حاکم تھے، راوی کہتے ہیں کہ اس نے ان کے سامنے مال رکھا اس پر سرخ رنگ کی چادر پڑی تھی، اس نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا اور ایک تھیلی اس میں سے نکالی جس میں تقریباً پندرہ سو درہم تھے، کہنے لگا کہ یہ زانیہ عورتوں کی اجرتیں ہیں، حضرت علی (رض) نے فرمایا ہمیں زانیہ عورتوں کی اجرتوں کی کوئی ضرورت نہیں، فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے پھر مدائن کے مال کو بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا اور جب مختار چلا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کو غارت کرے اگر اس کا سینہ چیر کر دیکھا جائے تو لات اور عزّیٰ کی محبت سے بھرا ہوا ملے۔
(۳۱۲۶۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُغِیرَۃُ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ ہُرْمُزَ، عَنْ عَبَّادٍ، قَالَ: أَتَی الْمُخْتَارُ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ بِمَالٍ مِنَ الْمَدَائِنِ وَعَلَیْہَا عَمُّہُ سَعْدُ بْنُ مَسْعُودٍ ، قَالَ : فَوَضَعَ الْمَالَ بَیْنَ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ مُقَطَّعَۃٌ حَمْرَائُ، قَالَ: فَأَدْخَلَ یَدَہُ فَاسْتَخْرَجَ کِیسًا فِیہِ نَحْوٌ مِنْ خَمْسَ عَشْرَۃَ مِئَۃ، قَالَ: ہَذَا مِنْ أُجُورِ الْمُومِسَاتِ قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِی أُجُورِ الْمُومِسَاتِ ، قَالَ : وَأَمَرَ بِمَالِ الْمَدَائِنِ فَرُفِعَ إلَی بَیْتِ الْمَالِ ، قَالَ : فَلَمَّا أَدْبَرَ ، قَالَ لَہُ عَلِیٌّ : قَاتَلَہُ اللہ ، لَوْ شُقَّ عَلَی قَلْبِہِ لَوُجِدَ مَلآنُ مِنْ حُبِّ اللاَّتِ وَالْعُزَّی۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬৩
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦٤) حضرت حسن حضرت زبیر بن عوام (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ { وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لاَ تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّۃً } نازل ہوئی اور ہم یہ نہیں جانتے کہ اس فتنے کا پیچھا کون کرے ؟ راوی کہتے ہیں کہ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبداللہ ! پھر آپ بصرہ کیوں آگئے ؟ آپ نے فرمایا تیرا ناس ہو ہم خوب دیکھتے ہیں لیکن ہم صبر نہیں کر پاتے۔
(۳۱۲۶۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا دَاوُد ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ : فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لاَ تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّۃً} قَالَ لَقَدْ نَزَلَتْ ، وَمَا نَدْرِی مَنْ یَخلُفُ لَہَا ، قَالَ : فَقَالَ بَعْضُہُمْ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، فَلِمَ جِئْت إلَی الْبَصْرَۃِ ؟ قَالَ : وَیْحَک إنَّا نُبْصِرُ وَلَکِنَّا لاَ نَصْبِرُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬৪
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦٥) قدامہ بن عتاب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت علی (رض) خطبہ فرما رہے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا اے امیر المؤمنین ! بکر بن وائل کی مدد کو پہنچو کیونکہ ان کو مقام کُناسہ میں بنو تمیم نے مار ہی ڈالا ہے، حضرت علی (رض) نے آہ لی اور پھر خطبے کی طرف متوجہ ہوگئے، پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے بھی یہی کہا آپ نے بھی آہ کیا، پھر وہ تیسری یا چوتھی مرتبہ آیا اور وہی بات دہرائی تو آپ نے فرمایا کہ اے شداد ! اب تو نے میرے ساتھ سچائی کا برتاؤ کیا، بکر بن وائل اور بنو تمیم کے پاس پہنچو اور ان کے درمیان قرعہ اندازی کردو۔
(۳۱۲۶۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : نَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ قُدَامَۃَ بْنِ عِتَابٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلِیًّا یَخْطُبُ فَأَتَاہُ آتٍ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَدْرِکْ بَکْرَ بْنَ وَائِلٍ فَقَدْ ضَرَبَتْہَا بَنُو تَمِیمٍ بِالْکُنَاسَۃِ ، قَالَ عَلِیٌّ : ہَاہ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی خُطْبَتِہِ ، ثُمَّ أَتَاہُ آخَرُ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ ، فَقَالَ : آہٍ ، ثُمَّ أَتَاہُ الثَّالِثَۃَ ، أَو الرَّابِعَۃَ ، فَقَالَ : أَدْرِکْ بَکْرَ بْنَ وَائِلٍ فَقَدْ ضَرَبَتْہَا بَنُو تَمِیمٍ ہِیَ بِالْکُنَاسَۃِ ، فَقَالَ : الآن صَدَقْتنِی سِن بَکْرِکَ یَا شَدَّادُ ؟ أَدْرِکْ بَکْرَ بْنَ وَائِلٍ وَبَنِی تَمِیمٍ فَأَقْرِعْ بَیْنَہُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬৫
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦٦) ابو وائل فرماتے ہیں کہ میرے پاس حجاج کا پیغام آیا تو میں اس کے پاس اہواز گیا ، اس نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کو کتنا قرآن یاد ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے اتنا یاد ہے کہ اگر میں اس کی پیروی کروں تو میرے لیے کافی ہے، وہ کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے بعض کاموں میں آپ سے مدد لوں، میں نے کہا اگر آپ مجھے اس کام میں جھونک دیں تو میں اتر جاؤں گا، اور اگر آپ میرے ساتھ کسی دوسرے آدمی کو بھی لگائیں گے تو مجھ برے راز دار کا خطرہ رہے گا، کہتے ہیں کہ اس پر حجاج نے کہا : بخدا آپ نے سچ فرمایا بیشک برے رازدان انسان کی بگاڑ کا سبب ہیں، میں نے کہا : میں رات بھر اپنے بستر پر اس بارے میں بےچین رہا کہ کہیں تم مجھے قتل نہ کر ڈالو، کہنے لگا کہ میں تمہیں کیوں قتل کروں گا ؟ بخدا اگر آپ نے یہ کہہ ہی دیا ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں کسی بھی آدمی کو ایسے جرم پر قتل کرتا ہوں کہ مجھ سے پہلے لوگ بھی اس جیسی بات پر قتل کا خوف رکھتے تھے۔
(۳۱۲۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مَوْلَی صُخَیرٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : بَعَثَ إلَیَّ الْحَجَّاجُ فَقَدِمْت عَلَیْہِ الأَہْوَازَ ، قَالَ لِی : مَا مَعَک مِنَ الْقُرْآنِ ، قَالَ : قُلْتُ : مَعِی مَا إنِ اتَّبَعْتہ کَفَانِی ، قَالَ : إنِّی أُرِیدُ أَنْ أَسْتَعِینَ بِکَ عَلَی بَعْضِ عَمَلِی ، قَالَ : قُلْتُ : إنْ تُقْحِمْنِی أَقْتَحِمْ ، وَإِنْ تَجْعَلْ مَعِی غَیْرِی خِفْت بَطَائِنَ السُّوئِ ، قَالَ : فَقَالَ الْحَجَّاجُ : وَاللہِ لَئِنْ قُلْتَ ذَاکَ إنَّ بَطَائِنَ السُّوئِ لَمَفْسَدَۃٌ للرَّجُلِ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا زِلْت أُقَحَّزُ مُنْذُ اللَّیْلَۃَ عَلَی فِرَاشِی مَخَافَۃَ أَنْ تَقْتُلَنِی ، قَالَ : وَعَلاَمَ أَقْتُلُک ؟ أَمَا وَاللہِ لَئِنْ قُلْتَ ذَاکَ ، إنِّی لأقْتُلُ الرَّجُلَ عَلَی أَمْرٍ قَدْ کَانَ مَنْ قَبْلِی یُہَابُ الْقَتْلُ عَلَی مِثْلِہِ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬৬
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦٧) ہلال قرشی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو مروان سے اس وقت یہ فرماتے سنا جبکہ مروان جمعہ کے لیے دیر سے پہنچا تھا، کہ تم فلاں کی بیٹی کے پاس پڑے رہتے ہو جو تمہیں پنکھے جھلتی اور ٹھنڈا پانی پلاتی ہے اور مہاجرین کی اولاد گرمی سے جلتی رہتی ہے میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ ایسا ایسا کروں گا، پھر لوگوں سے فرمایا کہ اپنے امیر کی بات سنو۔
(۳۱۲۶۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ہِلاَلٍ الْقُرَشِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبِی ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ لِمَرْوَانَ وَأَبْطَأَ بِالْجُمُعَۃِ : تَظَلُّ عِنْدَ بِنْتِ فُلاَنٍ تُرَوِّحُک بِالْمَرَاوِحِ وَتَسْقِیک الْمَائَ الْبَارِدَ ، وَأَبْنَائُ الْمُہَاجِرِینَ یُسْلَقُونَ مِنَ الْحَرِ ، لَقَدْ ہَمَمْت أَنِّی أَفْعَلُ وَأَفْعَلُ ، ثُمَّ قَالَ : اسْمَعُوا لأَمِیرِکُمْ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬৭
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦٨) ابو نعامہ عمرو بن عیسیٰ حضرت عائشہ (رض) کا یہ قول نقل فرماتے ہیں : اے اللہ ! عثمان کے بارے میں اپنے وعدے کو پورا کردیجیے ! اور ” مذمّم “ کو قصاص تک پہنچائیے ! اور أَعْیَنْ کے عیوب کو ظاہر فرما دیجیے ! أعین بنو تمیم کا ایک آدمی تھا اور فرزدق کی بیوی کا باپ تھا۔
(۳۱۲۶۸) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حماد بن زید ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو نَعَامَۃَ عَمْرُو بْنُ عِیسَی ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : اللَّہُمَّ أَدْرِکْ خُفْرَتَکَ فِی عُثْمَانَ وَأَبْلِغِ الْقِصَاصَ فِی مُذَمَّمْ وَأَبْدِ عَوْرَۃ أَعْیَن رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ أَبِی امْرَأَۃِ الْفَرَزْدَقَ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬৮
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٦٩) ابو نضرہ روایت کرتے ہیں کہ ربیعہ نے طلحہ (رض) سے مسجدِ بنو سلمہ میں بات کی، اور کہا کہ ہم دشمن سے مقابلہ کر رہے تھے جب ہمیں آپ کی اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کی خبر پہنچی، پھر اب آپ ان سے قتال کر رہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ مجھے ایک تنگ جگہ میں داخل کر کے میری گردن پر تلوار رکھ دی گئی اور مجھ سے کہا گیا بیعت کرو ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے اس لیے میں نے یہ جانتے ہوئے بیعت کی کہ یہ گمراہی کی بیعت ہے۔
ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ ولید بن عبد الملک نے کہا کہ اہل عراق کے ایک منافق جبلہ بن حکیم نے حضرت زبیر سے کہا کہ آپ نے تو بیعت کرلی تھی ؟ حضرت زبیر نے جواب دیا کہ میری گردن پر تلوار رکھ کر مجھے کہا گیا بیعت کرو ورنہ ہم تمہیں قتل کردیں گے، اس لیے میں نے بیعت کرلی۔
ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ ولید بن عبد الملک نے کہا کہ اہل عراق کے ایک منافق جبلہ بن حکیم نے حضرت زبیر سے کہا کہ آپ نے تو بیعت کرلی تھی ؟ حضرت زبیر نے جواب دیا کہ میری گردن پر تلوار رکھ کر مجھے کہا گیا بیعت کرو ورنہ ہم تمہیں قتل کردیں گے، اس لیے میں نے بیعت کرلی۔
(۳۱۲۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو نَضْرَۃَ : أَنَّ رَبِیعَۃَ کَلَّمَت طَلْحَۃَ فِی مَسْجِدِ بَنِی سَلَمَۃَ ، فَقَالَت : کُنَّا فِی نَحْرِ الْعَدُوِّ حِینَ جَائَتْنَا بَیْعَتُک ہَذَا الرَّجُلَ ، ثُمَّ أَنْتَ الآنَ تُقَاتِلُہُ ، أَوْ کَمَا قَالُوا ، فَقَالَ : إنِّی أُدْخِلْت الْحُشَّ وَوُضِعَ عَلَی عُنُقِی اللُّج ، فَقِیلَ : بَایِعْ وَإِلاَّ قَتَلْنَاک ، قَالَ : فَبَایَعْت ، وَعَرَفْتُ أَنَّہَا بَیْعَۃُ ضَلاَلَۃٍ۔ قَالَ التَّیْمِیُّ : وَقَالَ وَلِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ : إنَّ مُنَافِقًا مِنْ مُنَافِقِی أَہْلِ الْعِرَاقِ جَبَلَۃَ بْنَ حَکِیمٍ قَالَ لِلزُّبَیْرِ : فإنَّک قَدْ بَایَعْت ، فَقَالَ الزُّبَیْرُ : إنَّ السَّیْفَ وُضِعَ عَلَی عنقِی فَقِیلَ لِی : بَایِعْ وَإِلاَّ قَتَلْنَاک ، قَالَ : فَبَایَعْت۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৬৯
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٧٠) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ بہت سے لوگ حضرت عائشہ (رض) کے خیمہ کے پاس تھے کہ ادھر سے حضرت عثمان (رض) کا گزر ہوا، میرا خیال ہے کہ یہ مکہ کا واقعہ ہے، ابو سعید فرماتے ہیں کہ میرے علاوہ ان تمام آدمیوں نے حضرت عثمان (رض) پر لعنت کی اور ان کو برا بھلا کہا، ان میں ایک آدمی اہل کوفہ میں سے تھا، حضرت عثمان (رض) نے دوسروں کے مقابلے میں اس کوفی پر زیادہ جرأت دکھائی اور کہا اے کوفہ والے ! کیا تم مجھے گالیاں دیتے ہو ؟ ذرا مدینہ آؤ، یہ بات آپ نے دھمکی کے انداز میں فرمائی، وہ آدمی مدینہ آیا ، اس کو کہا گیا کہ طلحہ (رض) کے ساتھ رہو، کہتے ہیں کہ حضرت طلحہ (رض) اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ حضرت عثمان (رض) کے پاس آئے، عثمان (رض) نے فرمایا : بخدا میں تمہیں سو کوڑے لگاؤں گا، حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم تم اس کو صرف زانی ہونے کی صورت میں ہی سو کوڑے لگا سکتے ہو، آپ نے اس سے فرمایا میں تجھ کو تیرے وظیفے سے محروم کروں گا، حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کو روزی دے دیں گے۔
(۳۱۲۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ : أَنَّ أُنَاسًا کَانُوا عِنْدَ فُسْطَاطِ عَائِشَۃَ ، فَمَرَّ عُثْمَان أُری ذَاکَ بِمَکَّۃَ ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ : فَمَا بَقِیَ أَحَدٌ مِنْہُمْ إلاَّ لَعَنَہُ ، أَوْ سَبَّہُ غَیْرِی، وَکَانَ فِیہِمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، فَکَانَ عُثْمَان عَلَی الْکُوفِیِّ أَجْرَأَ مِنْہُ عَلَی غَیْرِہِ ، فَقَالَ : یَا کُوفِی ، أَتَشْتِمُنِی ؟ اقْدَمِ الْمَدِینَۃَ ، کَأَنَّہُ یَتَہَدَّدُہُ ، قَالَ : فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ ، فَقِیلَ لَہُ : عَلَیْک بِطَلْحَۃِ ، قَالَ : فَانْطَلَقَ مَعَہُ طَلْحَۃُ حَتَّی أَتَی عُثْمَانَ ، قَالَ عُثْمَان : وَاللہِ لاَجْلِدَنَّکَ مِئَۃ ، قَالَ طَلْحَۃُ : وَاللہِ لاَ تَجْلِدُہُ مِئَۃ إلاَّ أَنْ یَکُونَ زَانِیًا ، قَالَ : لأَحْرِمَنَّکَ عَطَائَک ، قَالَ : فَقَالَ طَلْحَۃُ : إنَّ اللَّہَ سَیَرْزُقُہُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৭০
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٧١) احنف بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ ہم مدینہ آئے اور ہم حج کے لیے جانا چاہتے تھے، کہتے ہیں میں چل کر طلحہ (رض) اور زبیر (رض) کے پاس آیا اور کہا کہ تم مجھے کس کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہو اور کس کو میرے لیے پسند کرتے ہو ؟ کیونکہ میرے خیال میں تو یہ صاحب یعنی حضرت عثمان (رض) قتل ہوجائیں گے، فرمانے لگے کہ ہم تمہیں علی (رض) کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہیں، میں نے کہا کیا تم مجھے ان کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہو اور ان کو میرے لیے پسند کرتے ہو ؟ فرمانے لگے جی ہاں ! کہتے ہیں کہ پھر میں حج کو چلا گیا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا ، ہم وہیں تھے کہ ہمیں حضرت عثمان (رض) کے قتل کی خبر پہنچی، اور حضرت عائشہ (رض) بھی وہیں تھیں میں ان سے ملا اور پوچھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم فرماتی ہیں ؟ فرمانے لگیں کہ حضرت علی (رض) کی بیعت کا ، میں نے کہا کیا آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم کرتی ہیں اور ان کو میرے لیے پسند کرتی ہیں ؟ فرمانے لگیں جی ہاں ! اس کے بعد میں مدینہ میں حضرت علی کے پاس سے گزرا تو میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی، پھر میں بصرہ چلا گیا اور میرا خیال تھا کہ معاملہ صاف ہوگیا ہے۔
اس دوران ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ حضرت عائشہ (رض) حضرت طلحہ (رض) اور حضرت زبیر (رض) خُریبہ کے کنارے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں میں نے کہا وہ کس لیے تشریف لائے ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ آپ سے حضرت عثمان (رض) کے خون کے بارے میں مدد لیں، کیونکہ ان کو ظلماً قتل کیا گیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں اتنا گھبرا گیا کہ اس سے پہلے اتنی گھبراہٹ مجھ پر نہیں آئی تھی، اور میں نے سوچا کہ میرا ان حضرات کو چھوڑ دینا جن کے ساتھ ام المؤمنین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ہیں نہایت سخت بات ہے، اور اسی طرح میرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد سے قتال کرنا بعد ازاں کہ یہ حضرات مجھے ان کی بیعت کا حکم بھی فرما چکے ہیں بہت ہی مشکل کام ہے۔
فرماتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس پہنچا تو وہ فرمانے لگے کہ ہم آپ کے پاس آئے ہیں اور ہم آپ سے حضرت عثمان (رض) کے خون کے خلاف مدد لینا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے ام المؤمنین ! میں آپ کو اللہ عزوجل کی قسم دیتا ہوں آپ بتائیں کہ کیا میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ علی کی ، اور پھر میں نے آپ سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا واقعی آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم دیتی اور ان کو میرے لیے پسند کرتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا جی ہاں ! فرمانے لگیں ایسا ہی ہوا ہے لیکن حضرت علی بدل گئے ہیں ، پھر میں نے کہا اے زبیر ! اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ! اے طلحہ ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کیا میں نے تمہیں کہا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا : علی کی، میں نے پوچھا تھا کہ کیا واقعی آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم دیتے اور ان کو میرے لیے پسند کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا جی ہاں ! کہنے لگے کیوں نہیں، ایسا ہی ہے ، لیکن وہ بدل گئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں تمہارے ساتھ قتال نہیں کروں گا کیونکہ تمہارے ساتھ ام المؤمنین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ہیں، اور نہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد ہی سے لڑوں گا جن کی بیعت کا تم نے مجھے حکم دیا ہے۔ میری تین باتوں میں سے ایک قبول کرلو ! یا تو میرے لیے پل کا راستہ کھول دو ، میں عجمیوں کے علاقے میں چلا جاتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں، یا میں مکہ مکرمہ چلا جاؤں اور وہیں رہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرما دیں، یا میں علیحدگی اختیار کر کے قریب ہی کہیں رہنے لگوں، فرمانے لگے کہ ہم مشورہ کرتے ہیں، پھر ہم آپ کے پاس پیغام بھیج دیں گے، چنانچہ انھوں نے مشورہ کیا ، اور فرمایا کہ اگر ہم اس کے لیے پل کا راستہ کھول دیتے ہیں تو جو شخص لشکر سے جدا ہونا چاہے گا یا ناکام اور پسپا ہوجائے گا وہ اس کے پاس چلا جائے گا ، اور اگر اس کو مکہ مکرمہ بھیج دیا جائے تو قریش مکہ سے تمہاری خبریں لیتا رہے گا اور تمہاری خبریں انھیں پہنچاتا رہے گا، یہ کوئی درست فیصلہ نہیں ہے، اس کو یہیں قریب ہی رکھو جہاں تم اس کو اپنے لیے نرم گوش بھی رکھو گے اور اس کی نگرانی بھی کرسکو گے۔
چنانچہ وہ بصرہ سے مقام ” جلحائ “ میں علیحدہ ہوگئے اور ان کے ساتھ چھ ہزار کے لگ بھگ آدمی بھی مل گئے، پھر ان کی مڈبھیڑ ہوئی تو سب سے پہلے قتل ہونے والے حضرت طلحہ اور کعب بن مسور تھے جن کے پاس قرآن کریم کا نسخہ تھا جو دونوں جماعتوں کو نصیحت کر رہے تھے یہاں تک کہ انہی جماعتوں کے درمیان شہید ہوگئے، اور حضرت زبیر بصرہ کے مقام پر سفوان میں پہنچ گئے، اتنا دور جتنا کہ تم سے مقام قادسیہ ہے، چنانچہ ان کو قبیلہ مجاشع کا ایک نعر نامی آدمی ملا اور پوچھا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ! آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ میرے ساتھ آئیے آپ میرے ضمان میں ہیں، آپ تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا، چنانچہ آپ اس کے ساتھ چلے گئے، چنانچہ ایک آدمی احنف کے پاس آیا اور کہا زبیر یہاں سفوان میں پہنچ گئے ہیں، اس نے کہا کہ اب وہ بےخوف کیسے رہ سکتے ہیں جبکہ انھوں نے مسلمانوں کو اس طرح جمع کردیا کہ ان میں سے بعض بعض کے سروں کو مارنے لگے پھر یہ اپنے گھر کو واپس چلے جارہے ہیں۔
یہ بات عمیر بن جرموذ اور بنو تمیم کے بدمعاشوں نے سن لی، اسی طرح فضالہ بن عبید اور نفیع نے بھی، چنانچہ وہ ان کا پیچھا کرنے لگے اور ان کی حضرت زبیر کے ساتھ ملاقات ہوئی جبکہ حضرت زبیر نعر کے ساتھ تھے، عمیر بن جرموذ ان کے پیچھے آیا جبکہ وہ ایک کمزور سے گھوڑے پر سوا ر تھا، اور آ کر ان کو ہلکی سی ضرب لگائی ، حضرت زبیر (رض) نے اس کا پیچھا کیا جبکہ وہ اپنے ذوالخمار نامی گھوڑے پر سوار تھے، جب اس کو یقین ہوگیا کہ وہ حضرت زبیر کی پہنچ میں آگیا ہے تو اپنے ساتھیوں کو آواز لگائی اے نفیع ! اے فضالہ ! چنانچہ انھوں نے حضرت زبیر پر حملہ کیا اور آپ کو قتل کردیا۔
اس دوران ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ حضرت عائشہ (رض) حضرت طلحہ (رض) اور حضرت زبیر (رض) خُریبہ کے کنارے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں میں نے کہا وہ کس لیے تشریف لائے ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ آپ سے حضرت عثمان (رض) کے خون کے بارے میں مدد لیں، کیونکہ ان کو ظلماً قتل کیا گیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں اتنا گھبرا گیا کہ اس سے پہلے اتنی گھبراہٹ مجھ پر نہیں آئی تھی، اور میں نے سوچا کہ میرا ان حضرات کو چھوڑ دینا جن کے ساتھ ام المؤمنین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ہیں نہایت سخت بات ہے، اور اسی طرح میرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد سے قتال کرنا بعد ازاں کہ یہ حضرات مجھے ان کی بیعت کا حکم بھی فرما چکے ہیں بہت ہی مشکل کام ہے۔
فرماتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس پہنچا تو وہ فرمانے لگے کہ ہم آپ کے پاس آئے ہیں اور ہم آپ سے حضرت عثمان (رض) کے خون کے خلاف مدد لینا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے ام المؤمنین ! میں آپ کو اللہ عزوجل کی قسم دیتا ہوں آپ بتائیں کہ کیا میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ علی کی ، اور پھر میں نے آپ سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا واقعی آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم دیتی اور ان کو میرے لیے پسند کرتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا جی ہاں ! فرمانے لگیں ایسا ہی ہوا ہے لیکن حضرت علی بدل گئے ہیں ، پھر میں نے کہا اے زبیر ! اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ! اے طلحہ ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کیا میں نے تمہیں کہا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا : علی کی، میں نے پوچھا تھا کہ کیا واقعی آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم دیتے اور ان کو میرے لیے پسند کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا جی ہاں ! کہنے لگے کیوں نہیں، ایسا ہی ہے ، لیکن وہ بدل گئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں تمہارے ساتھ قتال نہیں کروں گا کیونکہ تمہارے ساتھ ام المؤمنین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ہیں، اور نہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد ہی سے لڑوں گا جن کی بیعت کا تم نے مجھے حکم دیا ہے۔ میری تین باتوں میں سے ایک قبول کرلو ! یا تو میرے لیے پل کا راستہ کھول دو ، میں عجمیوں کے علاقے میں چلا جاتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں، یا میں مکہ مکرمہ چلا جاؤں اور وہیں رہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرما دیں، یا میں علیحدگی اختیار کر کے قریب ہی کہیں رہنے لگوں، فرمانے لگے کہ ہم مشورہ کرتے ہیں، پھر ہم آپ کے پاس پیغام بھیج دیں گے، چنانچہ انھوں نے مشورہ کیا ، اور فرمایا کہ اگر ہم اس کے لیے پل کا راستہ کھول دیتے ہیں تو جو شخص لشکر سے جدا ہونا چاہے گا یا ناکام اور پسپا ہوجائے گا وہ اس کے پاس چلا جائے گا ، اور اگر اس کو مکہ مکرمہ بھیج دیا جائے تو قریش مکہ سے تمہاری خبریں لیتا رہے گا اور تمہاری خبریں انھیں پہنچاتا رہے گا، یہ کوئی درست فیصلہ نہیں ہے، اس کو یہیں قریب ہی رکھو جہاں تم اس کو اپنے لیے نرم گوش بھی رکھو گے اور اس کی نگرانی بھی کرسکو گے۔
چنانچہ وہ بصرہ سے مقام ” جلحائ “ میں علیحدہ ہوگئے اور ان کے ساتھ چھ ہزار کے لگ بھگ آدمی بھی مل گئے، پھر ان کی مڈبھیڑ ہوئی تو سب سے پہلے قتل ہونے والے حضرت طلحہ اور کعب بن مسور تھے جن کے پاس قرآن کریم کا نسخہ تھا جو دونوں جماعتوں کو نصیحت کر رہے تھے یہاں تک کہ انہی جماعتوں کے درمیان شہید ہوگئے، اور حضرت زبیر بصرہ کے مقام پر سفوان میں پہنچ گئے، اتنا دور جتنا کہ تم سے مقام قادسیہ ہے، چنانچہ ان کو قبیلہ مجاشع کا ایک نعر نامی آدمی ملا اور پوچھا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ! آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ میرے ساتھ آئیے آپ میرے ضمان میں ہیں، آپ تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا، چنانچہ آپ اس کے ساتھ چلے گئے، چنانچہ ایک آدمی احنف کے پاس آیا اور کہا زبیر یہاں سفوان میں پہنچ گئے ہیں، اس نے کہا کہ اب وہ بےخوف کیسے رہ سکتے ہیں جبکہ انھوں نے مسلمانوں کو اس طرح جمع کردیا کہ ان میں سے بعض بعض کے سروں کو مارنے لگے پھر یہ اپنے گھر کو واپس چلے جارہے ہیں۔
یہ بات عمیر بن جرموذ اور بنو تمیم کے بدمعاشوں نے سن لی، اسی طرح فضالہ بن عبید اور نفیع نے بھی، چنانچہ وہ ان کا پیچھا کرنے لگے اور ان کی حضرت زبیر کے ساتھ ملاقات ہوئی جبکہ حضرت زبیر نعر کے ساتھ تھے، عمیر بن جرموذ ان کے پیچھے آیا جبکہ وہ ایک کمزور سے گھوڑے پر سوا ر تھا، اور آ کر ان کو ہلکی سی ضرب لگائی ، حضرت زبیر (رض) نے اس کا پیچھا کیا جبکہ وہ اپنے ذوالخمار نامی گھوڑے پر سوار تھے، جب اس کو یقین ہوگیا کہ وہ حضرت زبیر کی پہنچ میں آگیا ہے تو اپنے ساتھیوں کو آواز لگائی اے نفیع ! اے فضالہ ! چنانچہ انھوں نے حضرت زبیر پر حملہ کیا اور آپ کو قتل کردیا۔
(۳۱۲۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ جَاوَانَ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : قدِمْنَا الْمَدِینَۃَ وَنَحْنُ نُرِیدُ الْحَجَّ ، قَالَ الأَحْنَفُ : فَانْطَلَقْتُ فَأَتَیْتُ طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ ، فَقُلْتُ : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ؟ فَإِنِّی مَا أَرَی ہَذَا إلاَّ مَقْتُولاً ، یَعْنِی عُثْمَانَ ، قَالاَ : نَأْمُرُک بِعَلِیّ ، قُلْتُ تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ؟ قَالاَ : نَعَمْ ، قَالَ : ثُمَّ انْطَلَقْت حَاجًّا حَتَّی قَدِمْت مَکَّۃَ ، فَبَیْنَا نَحْنُ بِہَا إذْ أَتَانَا قَتْلُ عُثْمَانَ ، وَبِہَا عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَلَقِیتُہَا ، فَقُلْتُ : مَنْ تَأْمُرِینِی بِہِ أَنْ أُبَایِعَ ؟ قَالَتْ : عَلِی ، قُلْتُ : أَتَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضَیْنَہُ لِی ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، فَمَرَرْت عَلَی عَلِیٍّ بِالْمَدِینَۃِ فَبَایَعْتہ ، ثُمَّ رَجَعْت إلَی الْبَصْرَۃِ وَأَنَا أَرَی أَنَّ الأَمْرَ قَدِ اسْتَقَامَ۔
فَبَیْنَا أَنَا کَذَلِکَ إذْا أَتَانِی آتٍ ، فَقَالَ : ہَذِہِ عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ قَدْ نَزَلُوا جَانِبَ الْخُرَیْبَۃِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : مَا جَائَ بِہِمْ ؟ قَالُوا : أَرْسَلُوا إلَیْک یَسْتَنْصِرُونَک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ ، قُتِلَ مَظْلُومًا ، قَالَ : فَأَتَانِی أَفْظَعُ أَمْرٍ أَتَانِی قَطُّ ، قَالَ : قُلْتُ : إنَّ خِذَلاَنِی ہَؤُلاَئِ وَمَعَہُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَشَدِیدٌ ، وَإِنَّ قِتَالِی ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ أَمَرُونِی بِبَیْعَتِہِ لَشَدِیدٌ۔
قَالَ : فَلَمَّا أَتَیْتہمْ ، قَالوا : جِئْنَا نَسْتَنْصِرُک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُومًا ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، أُنْشِدُک بِاللہِ أَقُلْتُ لَکِ : مَنْ تَأْمُرِینِی فَقُلْتِ : عَلِیّ ، وَقُلْتُ : تَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضِینَہُ لِی ؟ قُلْتُ : نَعَم ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَلَکِنَّہُ بَدَّل ، فَقُلْتُ : یَا زُبَیْرُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَا طَلْحَۃُ ، نَشَدْتُکُمَا بِاللہِ: أَقُلْت لَکُمَا : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ ، فَقُلْتُمَا : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ، فَقُلْتُمَا : نَعَمْ ؟ قَالاَ : بَلَی ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ۔
قَالَ : قُلْتُ : لاَ أُقَاتِلُکُمْ وَمَعَکُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ أُقَاتِلُ ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرْتُمُونِی بِبَیْعَتِہِ ، اخْتَارُوا مِنِّی إِحْدَی ثَلاَثَ خِصَالٍ : إمَّا أَنْ تَفْتَحُوا لِی بَابَ الْجِسْرِ فَأَلْحَقَ بِأَرْضِ الأَعَاجِمِ حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَلْحَقَ بِمَکَّۃَ فَأَکُونَ بِہَا حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَعْتَزِلُ فَأَکُونَ قَرِیبًا ، قَالُوا : نَأْتَمر ، ثُمَّ نُرْسِلُ إلَیْک ، فَأْتَمَرُوا ، فَقَالُوا : نَفْتَحُ لَہُ بَابَ الْجِسْرِ یَلْحَقُ بِہِ الْمُفَارِقُ وَالْخَاذِلُ ، أَوْ یَلْحَقُ بِمَکَّۃَ فَیَتَعَجَّسَکُمْ فِی قُرَیْشٍ وَیُخْبِرُہُمْ بِأَخْبَارِکُمْ ، لَیْسَ ذَلِکَ بِرَأْی ، اجْعَلُوہُ ہَاہُنَا قَرِیبًا حَیْثُ تَطَؤُونَ عَلَی صِمَاخِہِ وَتَنْظُرُونَ إلَیْہِ۔
فَاعْتَزَلَ بِالْجَلْحَائِ مِنَ الْبَصْرَۃِ وَاعْتَزَلَ مَعَہُ زُہَائُ سِتَّۃِ آلاَفٍ ، ثُمَّ الْتَقَی الْقَوْمُ ، فَکَانَ أَوَّلُ قَتِیلٍ طَلْحَۃَ وَکَعْبَ بْنَ سُورٍ وَمَعَہُ الْمُصْحَفُ ، یُذَکِّرُ ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ حَتَّی قُتِلَ بَیْنَہُمْ ، وَبَلَغَ الزُّبَیْرُ سَفَوَانَ مِنَ الْبَصْرَۃِ کَمَکَانِ الْقَادِسِیَّۃِ مِنْکُمْ ، فَلَقِیَہُ النَّعِرُ : رَجُلٌ مِنْ مُجَاشِعٍ ، فَقَالَ : أَیْنَ تَذْہَبُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ إلَیَّ ، فَأَنْتَ فِی ذِمَّتِی لاَ یُوصَلُ إلَیْک ، فَأَقْبَلَ مَعَہُ ، فَأَتَی إنْسَانٌ الأَحْنَفَ ، فَقَالَ : ہَذَا الزُّبَیْرُ قَدْ لَحِقَ بِسَفوَانَ ، قَالَ : فَمَا یَأْمَن ؟ جَمَعَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی ضَرَبَ بَعْضُہُمْ حَوَاجِبَ بَعْضٍ بِالسُّیُوفِ ، ثُمَّ لَحِقَ بِبَیْتہِ وَأَہْلِہِ۔
قَالَ : فَسَمِعَہُ عُمَیْرُ بْنُ جُرْمُوزٍ ، وَغُوَاۃٌ مِنْ غُوَاۃِ بَنِی تَمِیمٍ ، وَفُضَالَۃُ بْنُ حَابِسٍ ، وَنُفَیْعٌ ، فَرَکِبُوا فِی طَلَبِہِ فَلَقُوہُ مَعَ النَّعِرِ ، فَأَتَاہُ عُمَیْرُ بْنُ جُرْمُوزٍ مِنْ خَلْفِہِ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ ضَعِیفَۃ فَطَعَنَہُ طَعْنَۃً خَفِیفَۃً ، وَحَمَلَ عَلَیْہِ الزُّبَیْرُ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ یُقَالَ لَہُ : ذُو الْخِمَارِ ، حَتَّی إذَا ظَنَّ ، أَنَّہُ نَائِلُہُ نَادَی صَاحِبَیْہ یَا نُفَیْعٌ ، یَا فُضَالَۃُ ، فَحَمَلُوا عَلَیْہِ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
فَبَیْنَا أَنَا کَذَلِکَ إذْا أَتَانِی آتٍ ، فَقَالَ : ہَذِہِ عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ قَدْ نَزَلُوا جَانِبَ الْخُرَیْبَۃِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : مَا جَائَ بِہِمْ ؟ قَالُوا : أَرْسَلُوا إلَیْک یَسْتَنْصِرُونَک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ ، قُتِلَ مَظْلُومًا ، قَالَ : فَأَتَانِی أَفْظَعُ أَمْرٍ أَتَانِی قَطُّ ، قَالَ : قُلْتُ : إنَّ خِذَلاَنِی ہَؤُلاَئِ وَمَعَہُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَشَدِیدٌ ، وَإِنَّ قِتَالِی ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ أَمَرُونِی بِبَیْعَتِہِ لَشَدِیدٌ۔
قَالَ : فَلَمَّا أَتَیْتہمْ ، قَالوا : جِئْنَا نَسْتَنْصِرُک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُومًا ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، أُنْشِدُک بِاللہِ أَقُلْتُ لَکِ : مَنْ تَأْمُرِینِی فَقُلْتِ : عَلِیّ ، وَقُلْتُ : تَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضِینَہُ لِی ؟ قُلْتُ : نَعَم ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَلَکِنَّہُ بَدَّل ، فَقُلْتُ : یَا زُبَیْرُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَا طَلْحَۃُ ، نَشَدْتُکُمَا بِاللہِ: أَقُلْت لَکُمَا : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ ، فَقُلْتُمَا : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ، فَقُلْتُمَا : نَعَمْ ؟ قَالاَ : بَلَی ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ۔
قَالَ : قُلْتُ : لاَ أُقَاتِلُکُمْ وَمَعَکُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ أُقَاتِلُ ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرْتُمُونِی بِبَیْعَتِہِ ، اخْتَارُوا مِنِّی إِحْدَی ثَلاَثَ خِصَالٍ : إمَّا أَنْ تَفْتَحُوا لِی بَابَ الْجِسْرِ فَأَلْحَقَ بِأَرْضِ الأَعَاجِمِ حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَلْحَقَ بِمَکَّۃَ فَأَکُونَ بِہَا حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَعْتَزِلُ فَأَکُونَ قَرِیبًا ، قَالُوا : نَأْتَمر ، ثُمَّ نُرْسِلُ إلَیْک ، فَأْتَمَرُوا ، فَقَالُوا : نَفْتَحُ لَہُ بَابَ الْجِسْرِ یَلْحَقُ بِہِ الْمُفَارِقُ وَالْخَاذِلُ ، أَوْ یَلْحَقُ بِمَکَّۃَ فَیَتَعَجَّسَکُمْ فِی قُرَیْشٍ وَیُخْبِرُہُمْ بِأَخْبَارِکُمْ ، لَیْسَ ذَلِکَ بِرَأْی ، اجْعَلُوہُ ہَاہُنَا قَرِیبًا حَیْثُ تَطَؤُونَ عَلَی صِمَاخِہِ وَتَنْظُرُونَ إلَیْہِ۔
فَاعْتَزَلَ بِالْجَلْحَائِ مِنَ الْبَصْرَۃِ وَاعْتَزَلَ مَعَہُ زُہَائُ سِتَّۃِ آلاَفٍ ، ثُمَّ الْتَقَی الْقَوْمُ ، فَکَانَ أَوَّلُ قَتِیلٍ طَلْحَۃَ وَکَعْبَ بْنَ سُورٍ وَمَعَہُ الْمُصْحَفُ ، یُذَکِّرُ ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ حَتَّی قُتِلَ بَیْنَہُمْ ، وَبَلَغَ الزُّبَیْرُ سَفَوَانَ مِنَ الْبَصْرَۃِ کَمَکَانِ الْقَادِسِیَّۃِ مِنْکُمْ ، فَلَقِیَہُ النَّعِرُ : رَجُلٌ مِنْ مُجَاشِعٍ ، فَقَالَ : أَیْنَ تَذْہَبُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ إلَیَّ ، فَأَنْتَ فِی ذِمَّتِی لاَ یُوصَلُ إلَیْک ، فَأَقْبَلَ مَعَہُ ، فَأَتَی إنْسَانٌ الأَحْنَفَ ، فَقَالَ : ہَذَا الزُّبَیْرُ قَدْ لَحِقَ بِسَفوَانَ ، قَالَ : فَمَا یَأْمَن ؟ جَمَعَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی ضَرَبَ بَعْضُہُمْ حَوَاجِبَ بَعْضٍ بِالسُّیُوفِ ، ثُمَّ لَحِقَ بِبَیْتہِ وَأَہْلِہِ۔
قَالَ : فَسَمِعَہُ عُمَیْرُ بْنُ جُرْمُوزٍ ، وَغُوَاۃٌ مِنْ غُوَاۃِ بَنِی تَمِیمٍ ، وَفُضَالَۃُ بْنُ حَابِسٍ ، وَنُفَیْعٌ ، فَرَکِبُوا فِی طَلَبِہِ فَلَقُوہُ مَعَ النَّعِرِ ، فَأَتَاہُ عُمَیْرُ بْنُ جُرْمُوزٍ مِنْ خَلْفِہِ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ ضَعِیفَۃ فَطَعَنَہُ طَعْنَۃً خَفِیفَۃً ، وَحَمَلَ عَلَیْہِ الزُّبَیْرُ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ یُقَالَ لَہُ : ذُو الْخِمَارِ ، حَتَّی إذَا ظَنَّ ، أَنَّہُ نَائِلُہُ نَادَی صَاحِبَیْہ یَا نُفَیْعٌ ، یَا فُضَالَۃُ ، فَحَمَلُوا عَلَیْہِ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৭১
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٧٢) یحییٰ بن عبداللہ بن ابی قتادہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو قتادہ کے ساتھ مزاح فرمایا کہ میں تمہاری زلفیں کاٹ دوں گا انھوں نے فرمایا کہ ان کے بدلے میں آپ کو ایک غلام دیتا ہوں۔ آپ نے بعد میں ان سے فرمایا ان کا خوب خیال رکھو، چنانچہ وہ ان پر خوشبو لگا کر رکھتے تھے۔
(۳۱۲۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِاللہِ بْن أَبِی قَتَادَۃَ، قَالَ: مَازَحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا قَتَادَۃَ، فَقَالَ: لاَجُزَّنَّ جُمَّتَکَ، فَقَالَ لَہُ: لَک مَکَانُہَا أَسِیرٌ، فَقَالَ لَہُ بَعْدَ ذَلِکَ: أَکْرِمْہَا، فَکَانَ یَتَّخِذُ لَہَا السُّک۔
তাহকীক:
হাদীস নং: ৩১২৭২
امارت اور خلافت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ وہ روایات جو امراء کی باتوں اور ان کے درباروں میں داخل ہونے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں
(٣١٢٧٣) حضرت حسن بن حسن روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر (رض) نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور تنہائی میں اس کو نصیحت فرمائی کہ جب تمہیں موت آنے لگے یا دنیا کی کوئی گھبراہٹ میں ڈالنے والی حالت پیش آجائے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے ان الفاظ میں دعا کرنا : لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ۔
حسن بن حسن فرماتے ہیں کہ حجاج نے میرے پاس پیغام بھیجا تو میں نے یہ الفاظ پڑھ لیے، جب میں اس کے سامنے پیش کیا گیا تو کہنے لگا کہ میں نے آپ کو اس لیے بلایا تھا کہ آپ کو قتل کروں، لیکن میرے اوپر آپ کے اہل بیت میں سے آپ کو قتل کرنا سخت دشوار ہو رہا ہے، اس لیے آپ اپنی کوئی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہیں تو بتائیے میں آپ کو دیتا ہوں۔
حسن بن حسن فرماتے ہیں کہ حجاج نے میرے پاس پیغام بھیجا تو میں نے یہ الفاظ پڑھ لیے، جب میں اس کے سامنے پیش کیا گیا تو کہنے لگا کہ میں نے آپ کو اس لیے بلایا تھا کہ آپ کو قتل کروں، لیکن میرے اوپر آپ کے اہل بیت میں سے آپ کو قتل کرنا سخت دشوار ہو رہا ہے، اس لیے آپ اپنی کوئی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہیں تو بتائیے میں آپ کو دیتا ہوں۔
(۳۱۲۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ : أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرٍ زَوَّجَ ابْنَتَہُ فَخَلاَ بِہَا ، فَقَالَ لَہَا : إذَا نَزَلَ بِکَ الْمَوْتُ ، أَوْ أَمْرٌ مِنْ أُمُورِ الدُّنْیَا فَظِیعٌ فَاسْتَقْبِلِیہِ بِأَنْ تَقُولِی لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔
قَالَ الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ : فَبَعَثَ إلَیَّ الْحَجَّاجُ فَقُلْتہنَّ ، فَلَمَّا مَثُلْت بَیْنَ یَدَیْہِ ، قَالَ : لَقَدْ بَعَثْت إلَیْک وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَک ، وَلَقَدْ صِرْت وَمَا مِنْ أَہْلِ بَیْتِکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَیَّ مِنْک ، سَلْنِی حَاجَتَک۔
قَالَ الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ : فَبَعَثَ إلَیَّ الْحَجَّاجُ فَقُلْتہنَّ ، فَلَمَّا مَثُلْت بَیْنَ یَدَیْہِ ، قَالَ : لَقَدْ بَعَثْت إلَیْک وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَک ، وَلَقَدْ صِرْت وَمَا مِنْ أَہْلِ بَیْتِکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَیَّ مِنْک ، سَلْنِی حَاجَتَک۔
তাহকীক: