মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
کتاب المعاملات - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৮১ টি
হাদীস নং: ১০২৯
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حرم مکہ کی عظمت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب ہجرت کا حکم نہیں رہا لیکن جہاد ہے ، اور نیت ! تو جب تم سے راہ خدا میں کوچ کرنے کو کہا جائے تو چل دو ..... اور اسی فتح مکہ کے دن آپ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ : یہ شہر مکہ اللہ نے اس کو اسی دن سے محترم قرار دیا ہے جس دن کہ زمین و آسمان ک ی تخلیق ہوئی (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اسی وقت زمین کے اس قطعہ کو جس پر مکہ معظمہ آباد ہے ، اور اس کے آس پاس کے علاقہ احرام کو واجب الاحترام قرار دیا ، لہذا اللہ کے اس حکم سے قیامت تک کے لیے اس کا ادب و احترام واجب ہے) اور مجھ سے پہلے اللہ نے اپنے کسی بندے کو یہاں قتال فی سبیل اللہ کی بھی اجازت نہیں دی ، اور مجھے بھی دن کے تھوڑے وقت کے لیے اس کی عارضی اور وقتی اجازت دی گئی تھی اور وہ وقت ختم ہو جانے کے بعد اب قیامت تک کے لیے یہاں قتال اور ہر وہ اقدام اور عمل جو اس مقدس جگہ کے ادب و احترام کے خلاف ہو حرام ہے ، اس علاقہ کے خاردار جھاڑ بھی نہ کاٹے چھانٹے جائیں ۔ یہاں کے کسی قابل شکار جانور کو پریشان بھی نہ کیا جائے اور اگر کوئی گری پڑی چیز نظر پڑے تو اس کو وہی اٹھائے جو قاعدے کے مطابق اس کا اعلان اور تشہیر کرتا رہے ، اور یہاں کی سبز گھاس بھی نہ کاٹی اکھاڑی جائے ..... (اس پر آپ کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : “ اذخر گھاس کو مستثنیٰ قرار دیا جائے ، کیوں کہ یہاں کے لوہار اس کو استعمال کرتے ہیں اور گھروں کی چھتوں کے لیے بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اس عرض کرنے پر اذخر گھاس کو مستثنیٰ فرما دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو اعلانوں کا ذکر ہے ، جو آپ نے فتح مکہ کے دن خاص طور سے فرمائے تھے ..... پہلا اعلان یہ تھا کہ : اب ہجرت کا حکم نہیں رہا ..... اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جب مکہ پر ان اہل کفر و شرک کا اقتدار تھا جو اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھا ، اور مکہ میں رہ کر کسی مسلمان کے لیے اسلامی زندگی گذارنا گویا ناممکن تھا تو حکم یہ تھا کہ مکہ میں اللہ کا جو بندہ اسلام قبول کرے اس کے لیے اگر ممکن ہو تو وہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر جائے جو اس وقت اسلامی مرکز اور روئے زمین پر اسلامی زندگی کی واحد تعلیم گاہ اور تربیت گاہ تھی ۔ بہرحال ان کاص حالات میں یہ ہجرت فرض تھی اور اس کی بڑی فضیلت اور اہمیت تھی ..... لیکن جب ۸ھ میں اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ پر بھی اسلامی اقتدار قائم کرا دیا تو پھر ہجرت کی ضرورت ختم ہو گئی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ ہی کے دن اعلان فرما دیا کہ : اب ہجرت کا وہ حکم اٹھا لیا گیا ..... اس سے قدرتی طور پر ان لوگوں کو بڑی حسرت اور مایوسی ہوئی ہو گی جن کو اب اسلام کی توفیق ملی تھی اور ہجرت کی عظیم فضیلت کا دروازہ بند ہو جانے کی وجہ سے وہ اس سعادت سے محروم رہ گئے تھے ..... ان کی اس حسرت کا مداوا فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہجرت کی فضیلت و سعادت کا دروازہ اگرچہ بند ہو گیا ہے لیکن جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اور اللہ تعالیٰ کے سارے اوامر کی اطاعت کی نیت اور بالخصوص اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں ہر قربانی کے لیے دلی عزم و آمادگی کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، اور برٰ سے بڑی سعادت اور فضیلت ان راہوں سے اللہ کا ہر بندہ حاصل کر سکتا ہے ۔
دوسرا اعلان فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ : یہ شہر جس کی عظمت و حرمت دور قدیم سے مسلم چلی آ رہی ہے یہ مضح رسم و رواج یا کسی فرد یا پنچائیت کی تجویز نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ازلی حکم سے ہے اور قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کا خاص ادب و احترام کیا جائے ، یہاں تک کہ اللہ کے لیے جہاد و قتال جو ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت اور بڑے درجہ کی سعادت ہے یہاں اس کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ مجھ سے پہلے کسی بندہ کو اس کی اجازت وقتی طور پر بھی نہیں دی گئی ۔ مجھے بھی بہت تھوڑے سے وقت کے لیے اس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی تھی اور وہ بھی وقت ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو گئی ۔ اب قیامت تک کے لیے کسی بندے کو یہاں قتال کی اجازت نہیں ہے .... جس طرح مخصوص سرکاری علاقوں کے خاص قوانین ہوتے ہیں اسی طرح یہاں کے خاص آداب اور قوانین ہیں ، اور وہ وہی ہیں جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اعلان فرمایا .... قریب قریب اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو اعلانوں کا ذکر ہے ، جو آپ نے فتح مکہ کے دن خاص طور سے فرمائے تھے ..... پہلا اعلان یہ تھا کہ : اب ہجرت کا حکم نہیں رہا ..... اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جب مکہ پر ان اہل کفر و شرک کا اقتدار تھا جو اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھا ، اور مکہ میں رہ کر کسی مسلمان کے لیے اسلامی زندگی گذارنا گویا ناممکن تھا تو حکم یہ تھا کہ مکہ میں اللہ کا جو بندہ اسلام قبول کرے اس کے لیے اگر ممکن ہو تو وہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر جائے جو اس وقت اسلامی مرکز اور روئے زمین پر اسلامی زندگی کی واحد تعلیم گاہ اور تربیت گاہ تھی ۔ بہرحال ان کاص حالات میں یہ ہجرت فرض تھی اور اس کی بڑی فضیلت اور اہمیت تھی ..... لیکن جب ۸ھ میں اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ پر بھی اسلامی اقتدار قائم کرا دیا تو پھر ہجرت کی ضرورت ختم ہو گئی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ ہی کے دن اعلان فرما دیا کہ : اب ہجرت کا وہ حکم اٹھا لیا گیا ..... اس سے قدرتی طور پر ان لوگوں کو بڑی حسرت اور مایوسی ہوئی ہو گی جن کو اب اسلام کی توفیق ملی تھی اور ہجرت کی عظیم فضیلت کا دروازہ بند ہو جانے کی وجہ سے وہ اس سعادت سے محروم رہ گئے تھے ..... ان کی اس حسرت کا مداوا فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہجرت کی فضیلت و سعادت کا دروازہ اگرچہ بند ہو گیا ہے لیکن جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اور اللہ تعالیٰ کے سارے اوامر کی اطاعت کی نیت اور بالخصوص اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں ہر قربانی کے لیے دلی عزم و آمادگی کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، اور برٰ سے بڑی سعادت اور فضیلت ان راہوں سے اللہ کا ہر بندہ حاصل کر سکتا ہے ۔
دوسرا اعلان فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ : یہ شہر جس کی عظمت و حرمت دور قدیم سے مسلم چلی آ رہی ہے یہ مضح رسم و رواج یا کسی فرد یا پنچائیت کی تجویز نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ازلی حکم سے ہے اور قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کا خاص ادب و احترام کیا جائے ، یہاں تک کہ اللہ کے لیے جہاد و قتال جو ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت اور بڑے درجہ کی سعادت ہے یہاں اس کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ مجھ سے پہلے کسی بندہ کو اس کی اجازت وقتی طور پر بھی نہیں دی گئی ۔ مجھے بھی بہت تھوڑے سے وقت کے لیے اس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی تھی اور وہ بھی وقت ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو گئی ۔ اب قیامت تک کے لیے کسی بندے کو یہاں قتال کی اجازت نہیں ہے .... جس طرح مخصوص سرکاری علاقوں کے خاص قوانین ہوتے ہیں اسی طرح یہاں کے خاص آداب اور قوانین ہیں ، اور وہ وہی ہیں جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اعلان فرمایا .... قریب قریب اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ : « لاَ هِجْرَةَ ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ ، فَانْفِرُوا » وَقَالَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ : « إِنَّ هَذَا البَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ القِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي ، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ ، لاَ يُعْضَدُ شَوْكُهُ ، وَلاَ يُنَفَّرُ صَيْدُهُ ، وَلاَ يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا ، وَلاَ يُخْتَلَى خَلاَهُ » قَالَ العَبَّاسُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِلَّا الإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ ، فَقَالَ : « إِلَّا الإِذْخِرَ » (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩০
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حرم مکہ کی عظمت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
جمہور علماء امت کے نزدید اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ اور حدود حرم میں کسی مسلمان کو دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانا اور اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ، یہ اس مقام مقدس کے ادب و احترام کے خلاف ہے ۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کو ہتھیار ہاتھ میں لینے کی اجازت ہی نہ ہو ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
جمہور علماء امت کے نزدید اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ اور حدود حرم میں کسی مسلمان کو دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانا اور اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ، یہ اس مقام مقدس کے ادب و احترام کے خلاف ہے ۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کو ہتھیار ہاتھ میں لینے کی اجازت ہی نہ ہو ۔ واللہ اعلم ۔
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : « لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَحْمِلَ بِمَكَّةَ السِّلَاحَ » (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩১
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حرم مکہ کی عظمت
ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا ، جب کہ وہ (یزید کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا اور اس کے حکم سے عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف) مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے لشکر تیار کر کے روانہ کر رہا تھا کہ اے امیر ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان بیان کروں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن (مکہ میں) ارشاد فرمایا تھا ۔ میں نے اپنے کانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان خود سنا تھا اور میرے ذہن نے اس کو یاد کر لیا تھا اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے وہ فرمان صادر ہو رہا تھا اس وقت میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی ، اس کے بعد فرمایا تھا کہ : اور اس کے ماحو کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی حرمت کا فیصلہ انسانوں سے نہیں کیا ہے ، اس لیے جو آدمی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے حرام ہے کہ وہ یہاں خونریزی کرے بلکہ یہاں کے درختوں کا کاٹنا بھی منع ہے ۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور اگر کوئی شخص میرے قتال کو سند بنا کر اپنے لیے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دی تھی ، تجھے اجازت نہیں دی ہے ، اور مجھے بھی اللہ نے ایک دن کے تھوڑے سے وقت کے لیے عارضی اور وقتی طور پر اجازت دی تھی ، اور اس وقت کے ختم ہونے کے بعد وہ حرمت لوٹ آئی ، اور اب قیامت تک کسی کے لیے اس کا جواز نہیں ہے ..... (اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ) جو لوگ یہاں موجود ہیں اور جنہوں نے میری یہ بات سنی ہے وہ دوسرے لوگوں کو یہ بات پہنچا دیں (اس لیے اے امیر ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تم کو پہنچایا ہے) ..... ابو شریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے کیا جواب دیا ، انہوں نے بتلایا کہ اس نے کہا کہ : ابو شریح ! مین یہ باتیں تم سے زیادہ جانتا ہوں ، حرم کسی نافرمان کو یا ایسے آدمی کو جو کسی کا ناحق خون کر کے یا کوئی نقصان کر کے بھاگ گیا ہو پناہ نہیں دیتا (یعنی ایسے لوگوں کے خلاف حرم میں بھی کاروائی کی جائے گی) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اسلام کی پہلی ہی صدی میں سیاسی اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے اسلام کے ساتھ جو معاملہ کیا اور اس کے احکام کو اپنی اغراض کے لیے جس طرح توڑا مروڑا وہ تاریخ اسلام کا نہایت تکلیف دہ باب ہے ۔ ابو شریح عدوی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے ، انہوں اموی حاکم عمرو بن سعید کے سامنے بروقت کلمہ حق کہہ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا کر اپنا فرض ادا کر دیا .... صحیحین کی اس روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ عمرو بن سعید نے جو بات کہی ، ابو شریح نے اس کے جواب میں کچھ کہا یا نہیں ۔ لیکن مسند احمد کی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :
قَدْ كُنْتُ شَاهِدًا ، وَكُنْتَ غَائِبًا وَقَدْ أَمَرَنَا أَنْ يُبَلِّغَ شَاهِدُنَا غَائِبَنَا ، وَقَدْ بَلَّغْتُكَ
فتح مکہ کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی مین اس وقت وہاں حاضر اور موجود تھا اور تم وہاں نہیں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ جو یہاں موجود ہے وہ میری یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں ..... میں نے اس حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کر دی اور تم کو یہ بات پہنچا دی ۔
ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ کے اس جواب میں یہ بھی مضمر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد و منشاء سمجھنے کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہیں جن کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ، اور جنہوں نے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ۔
تشریح
اسلام کی پہلی ہی صدی میں سیاسی اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے اسلام کے ساتھ جو معاملہ کیا اور اس کے احکام کو اپنی اغراض کے لیے جس طرح توڑا مروڑا وہ تاریخ اسلام کا نہایت تکلیف دہ باب ہے ۔ ابو شریح عدوی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے ، انہوں اموی حاکم عمرو بن سعید کے سامنے بروقت کلمہ حق کہہ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا کر اپنا فرض ادا کر دیا .... صحیحین کی اس روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ عمرو بن سعید نے جو بات کہی ، ابو شریح نے اس کے جواب میں کچھ کہا یا نہیں ۔ لیکن مسند احمد کی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :
قَدْ كُنْتُ شَاهِدًا ، وَكُنْتَ غَائِبًا وَقَدْ أَمَرَنَا أَنْ يُبَلِّغَ شَاهِدُنَا غَائِبَنَا ، وَقَدْ بَلَّغْتُكَ
فتح مکہ کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی مین اس وقت وہاں حاضر اور موجود تھا اور تم وہاں نہیں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ جو یہاں موجود ہے وہ میری یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں ..... میں نے اس حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کر دی اور تم کو یہ بات پہنچا دی ۔
ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ کے اس جواب میں یہ بھی مضمر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد و منشاء سمجھنے کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہیں جن کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ، اور جنہوں نے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ۔
عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ : - وَهُوَ يَبْعَثُ البُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الأَمِيرُ ، أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الغَدَ مِنْ يَوْمِ الفَتْحِ ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي ، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ : حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : " إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ ، فَلاَ يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا ، وَلاَ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً ، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا ، فَقُولُوا : إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ، ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا اليَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالأَمْسِ ، وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ " فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ مَا قَالَ عَمْرٌو قَالَ : أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ لاَ يُعِيذُ عَاصِيًا وَلاَ فَارًّا بِدَمٍ وَلاَ فَارًّا بِخَرْبَةٍ. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩২
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حرم مکہ کی عظمت
عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مکہ میں حزورہ (ایک ٹیلے) پر کھڑے تھے اور مکہ سے مخاطب ہو کر فرما رہے تھے : خدا کی قسم ! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر جگہ ہے ، اور اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے ، اور اگر مجھے یہاں سے نکلنے اور ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا گیا ہوتا ، تو میں ہرگز تجھے چھوڑ کے نہ جاتا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
اس حدیث میں اس کی تصریح ہے کہ مکہ معظمہ تمام روئے زمیں میں سب سے افضل اور باعظمت اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین جگہ ہے ، اور ہونا بھی یہی چاہئے ، کیوں کہ اس میں کعبۃ اللہ ہے جو حق تعالیٰ کی خاص الخاص تجلی گاہ اور قیامت تک کے لیے اہل ایمان کا قبلہ ہے ، جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی طواف کرتے تھے ، اور اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے ..... اسی مضمون کی حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے :
تشریح
اس حدیث میں اس کی تصریح ہے کہ مکہ معظمہ تمام روئے زمیں میں سب سے افضل اور باعظمت اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین جگہ ہے ، اور ہونا بھی یہی چاہئے ، کیوں کہ اس میں کعبۃ اللہ ہے جو حق تعالیٰ کی خاص الخاص تجلی گاہ اور قیامت تک کے لیے اہل ایمان کا قبلہ ہے ، جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی طواف کرتے تھے ، اور اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے ..... اسی مضمون کی حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے :
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ حَمْرَاءَ ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا عَلَى الحَزْوَرَةِ فَقَالَ : وَاللَّهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ ، وَلَوْلاَ أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ. (رواه الترمذى وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৩
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حرم مکہ کی عظمت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : تو کس قدر پاکیزہ اور دل پسند شہر ہے ، اور تو مجھے کتنا محبوب ہے ، اور اگر میری قوم نے مجھے نکالا نہ ہوتا تو میں تجھے چھوڑ کے کسی اور جگہ نہ بستا .... (جامع ترمذی)
تشریح
ان دونوں حدیثوں میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ یہ بات آپ نے کس موقع پر فرمائی ۔ شارحین نے حضرت عبداللہ بن عباس والی اس حدیث کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے یہ بات فتح مکہ کے سفر میں مکہ سے واپس ہونے کے وقت فرمائی تھی ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
ان دونوں حدیثوں میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ یہ بات آپ نے کس موقع پر فرمائی ۔ شارحین نے حضرت عبداللہ بن عباس والی اس حدیث کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے یہ بات فتح مکہ کے سفر میں مکہ سے واپس ہونے کے وقت فرمائی تھی ۔ واللہ اعلم ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَّةَ : مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ ، وَأَحَبَّكِ إِلَيَّ ، وَلَوْلاَ أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৪
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : اللہ تعالیٰنے مدینہ کا نام “ طابہ ” رکھا ہے ۔ (و صحیح مسلم)
تشریح
اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی مؤلفات میں حج و عمرہ سے متعلق حدیثوں کے ساتھ “ باب فضل مکہ ” کے تحت مکہ معظمہ کی عظمت و فضیلت کی حدیثیں ، اور انہی کے ساتھ “ باب فضل مدینہ ” کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت کی حدیثیں بھی درج کرتے ہیں ۔ اس طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے یہاں بھی پہلے مکہ معظمہ سے متعلق احادیث درج کی گئی ہیں اور اب مدینہ طیبہ سے متعلق درج کی جا رہی ہیں ۔
تشریح ..... طابہ ، طیبہ ، اور طیّبہ ان تینوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام رکھا اور اس کو ایسا ہی کر دیا ، اس میں روحون کے لیے جو خوشگواری ، جو سکون و اطمینان اور جو پاکیزگی ہے وہ بس اسی کا حصہ ہے ۔
تشریح
اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی مؤلفات میں حج و عمرہ سے متعلق حدیثوں کے ساتھ “ باب فضل مکہ ” کے تحت مکہ معظمہ کی عظمت و فضیلت کی حدیثیں ، اور انہی کے ساتھ “ باب فضل مدینہ ” کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت کی حدیثیں بھی درج کرتے ہیں ۔ اس طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے یہاں بھی پہلے مکہ معظمہ سے متعلق احادیث درج کی گئی ہیں اور اب مدینہ طیبہ سے متعلق درج کی جا رہی ہیں ۔
تشریح ..... طابہ ، طیبہ ، اور طیّبہ ان تینوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام رکھا اور اس کو ایسا ہی کر دیا ، اس میں روحون کے لیے جو خوشگواری ، جو سکون و اطمینان اور جو پاکیزگی ہے وہ بس اسی کا حصہ ہے ۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : « إِنَّ اللهَ تَعَالَى سَمَّى الْمَدِينَةَ طَابَةَ » (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৫
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : حضرت ابراہیمؑ نے مکہ کے “ حرم ” ہونے کا اعلان کیا تھا (اور اس کے خاص آداب و احکام بتائے تھے) اور میں مدینہ کے “ حرم ” قرار دئیے جانے کا اعلان کرتا ہوں ، اس کے دونوں طرف کے دروں کے درمیان پورا رقبہ واجب الاحترام ہے ، اس میں خوں ریزی نہ کی جائے ، کسی کے خلاف ہتھیار نہ اٹھایا جائے (یعنی اسلحہ کا استعمال نہ کیا جائے) اور جانورون کے چارے کی ضرورت کے سوا درختوں کے پتے بھی نہ جھاڑے جائیں ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ، مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقہ کی طرح واجب الاحترام ہے ، اور وہاں ہر وہ عمل اور اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے خلاف ہو ، لیکن اس کے احکام بالکل وہ نہیں ہیں جو حرم مکہ کے ہیں ۔ خود اسی حدیث مین اس کا اشارہ موجود ہے ، اس میں جانوروں کے چارہ کے لیے وہاں کے درختوں کے پتے توڑنے اور جھاڑنے کی اجازت دی گئی ہے ، جب کہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں ہے ۔
تشریح
جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ، مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقہ کی طرح واجب الاحترام ہے ، اور وہاں ہر وہ عمل اور اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے خلاف ہو ، لیکن اس کے احکام بالکل وہ نہیں ہیں جو حرم مکہ کے ہیں ۔ خود اسی حدیث مین اس کا اشارہ موجود ہے ، اس میں جانوروں کے چارہ کے لیے وہاں کے درختوں کے پتے توڑنے اور جھاڑنے کی اجازت دی گئی ہے ، جب کہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں ہے ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ فَجَعَلَهَا حَرَامًا ، وَّإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ حَرَامًا مَا بَيْنَ مَأْزِمَيْهَا ، أَنْ لَا يُهْرَاقَ فِيهَا دَمٌ ، وَلَا يُحْمَلَ فِيهَا سِلَاحٌ ، وَلَا يُخْبَطَ فِيهَا شَجَرَةٌ إِلَّا لِعَلْفٍ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৬
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں حرم قرار دیتا ہوں مدینہ کے دونوں طرف کے سنکتانی کناروں کے درمیان کے علاقہ کو (یعنی اس کےواجب الاحترام ہونے کا اعلان کرتا ہوں ، اور حکم دیتا ہوں کہ) اس کے خاردار درخت کاٹے نہ جائیں اور اس میں رہنے والے جانوروں کو شکار نہ کیا جائے .... اسی سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : کہ (بعض اشیاء کی کمی اور بعض تکلیفوں کے باوجود) مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے ، اگر وہ اس کی خیر و برکت کو جانتے (تو کسی تنگی اور پریشانی کی وجہ سے اور کسی لالچ میں اس کو نہ چھوڑتے) جو کوئی اپنی پسند اور خواہش سے اس کو چھوڑ کے جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اپنے کسی ایسے بندے کو بھیج دے گا جو اس سے بہتر اور افضل ہو گا (یعنی کسی کے اس طرح چلے جانے سے مدینہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ وہ جانے والا ہی اس کی برکات سے محروم ہو کر جائے گا) اور جو بندہ مدینہ کی تکلیفوں ، تنگیوں اور مشقتوں پر صبر کر کے وہاں پڑا رہے گا میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا یا اس کے حق میں شہادت دوں گا ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
سفارش اس کی کہ اس کے قصور اور اس کی خطائیں معاف کر دی جائیں اور اس کو بخش دیا جائے ۔ اور شہادت اس کے ایمان اور اعمال صالحہ کی اور اس بات کی کہ یہ بندہ تنگیوں تکلیفوں پر صبر کئے ہوئے مدینہ ہی میں پڑا رہا ۔
تشریح
سفارش اس کی کہ اس کے قصور اور اس کی خطائیں معاف کر دی جائیں اور اس کو بخش دیا جائے ۔ اور شہادت اس کے ایمان اور اعمال صالحہ کی اور اس بات کی کہ یہ بندہ تنگیوں تکلیفوں پر صبر کئے ہوئے مدینہ ہی میں پڑا رہا ۔
عَنِ بْنُ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا ، أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا » ، وَقَالَ : « الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ، لَا يَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَبْدَلَ اللهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ ، وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا ، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ » (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৭
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرا جو امتی مدینہ کی تکلیفوں اور سختیوں پر صبر کر کے وہاں رہے گا ، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت اور سفارش کروں گا ۔ (صحیح مسلم)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا يَصْبِرُ عَلَى لَأْوَاءِ الْمَدِينَةِ وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي ، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৮
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ جب وہ درخت پر نیا پھل دیکھتے تو اس کو لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ، آپ اس کو قبول فرما کر اس طرح دعا فرماتے : اے اللہ ! ہمارے پھلوں میں اور پیداوار میں برکت دے ، اور ہمارے شہر مدینہ میں برکت دے ، اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت دے ! الہٰی ! ابراہیمؑ تیرے خاص بندے ار تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے ، اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی تھی ، اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ اتنی ہی مزید ....... پھر آپ کسی چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ نیا پھل اس کو دے دیتے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
پھلوں اور پیداوار میں برکت کا مطلب تو ظاہر ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار ہو اور فصل بھرپور ہو ۔ اور شہر مدینہ میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خوب آباد ہو ، اور اس کے رہنے والوں پر اللہ کا فضل ہو .... اور صاع اور مد دو پیمانے ہیں ۔ اس زمانہ میں غلہ وغیرہ کی خرید و فروخت ان پیمانوں ہی سے ہوتی تھی ، ان میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ ایک صاع ایک مد جتنے آدمیوں کے لیے یا جتنے دنوں کے لیے کافی ہوتا ہے اس سے زیادہ کے لیے کافی ہو ۔
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جو آپ نے اپنی بیوی بچے کو مکہ کی غیر آباد اور بے آب و گیاہ وادی میں بسا کر اللہ سے ان کے لیے کی تھی ، کہ : “ اے اللہ ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و مودت ڈال دے ، اور ان کو ان کی ضرورت کا رزق اور پھل وغیرہ پہنچا ، اور یہاں کے لیے امن اور سلامتی مقدر فرما ! ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطور نظیر اس ابراہیمیؑ دعا کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ سے مدینہ کے لیے وہی دعا ، بلکہ مزید اضافے کے ساتھ کرتے تھے ..... اس دعا کا یہ ثمرہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا بھر کے جن ایمان والے بندوں کو مکہ سے محبت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے بھی محبت ہے ، اور اس محبوبیت میں تو اس کا حصہ مکہ سے یقیناً زیادہ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کا بندہ ، اس کا نبی اور خلیل کہا ، اور اپنے کو صرف بندہ اور نبی کہا ، حبیب ہونے کا ذکر نہیں کیا ۔ یہ تواضع اور کسر نفسی آپ کا مستقل مزاج تھا ۔
بالکل نیا اور درخت کا پہلا پھل چھوٹے بچے کو بلا کر دینے میں یہ سبق ہے کہ ایسے مواقعوں پر چھوٹے معصوم بچوں کو مقدم رکھنا چاہئے ۔ اس کے علاوہ نئے پھل اور کمسن بچے کی مناسبت بھی ظاہر ہے ۔
تشریح
پھلوں اور پیداوار میں برکت کا مطلب تو ظاہر ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار ہو اور فصل بھرپور ہو ۔ اور شہر مدینہ میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خوب آباد ہو ، اور اس کے رہنے والوں پر اللہ کا فضل ہو .... اور صاع اور مد دو پیمانے ہیں ۔ اس زمانہ میں غلہ وغیرہ کی خرید و فروخت ان پیمانوں ہی سے ہوتی تھی ، ان میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ ایک صاع ایک مد جتنے آدمیوں کے لیے یا جتنے دنوں کے لیے کافی ہوتا ہے اس سے زیادہ کے لیے کافی ہو ۔
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جو آپ نے اپنی بیوی بچے کو مکہ کی غیر آباد اور بے آب و گیاہ وادی میں بسا کر اللہ سے ان کے لیے کی تھی ، کہ : “ اے اللہ ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و مودت ڈال دے ، اور ان کو ان کی ضرورت کا رزق اور پھل وغیرہ پہنچا ، اور یہاں کے لیے امن اور سلامتی مقدر فرما ! ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطور نظیر اس ابراہیمیؑ دعا کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ سے مدینہ کے لیے وہی دعا ، بلکہ مزید اضافے کے ساتھ کرتے تھے ..... اس دعا کا یہ ثمرہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا بھر کے جن ایمان والے بندوں کو مکہ سے محبت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے بھی محبت ہے ، اور اس محبوبیت میں تو اس کا حصہ مکہ سے یقیناً زیادہ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کا بندہ ، اس کا نبی اور خلیل کہا ، اور اپنے کو صرف بندہ اور نبی کہا ، حبیب ہونے کا ذکر نہیں کیا ۔ یہ تواضع اور کسر نفسی آپ کا مستقل مزاج تھا ۔
بالکل نیا اور درخت کا پہلا پھل چھوٹے بچے کو بلا کر دینے میں یہ سبق ہے کہ ایسے مواقعوں پر چھوٹے معصوم بچوں کو مقدم رکھنا چاہئے ۔ اس کے علاوہ نئے پھل اور کمسن بچے کی مناسبت بھی ظاہر ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ كَانَ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا أَوَّلَ الثَّمَرِ جَاءُوا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَإِذَا أَخَذَهُ قَالَ : اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا ، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا ، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا اللهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ ، وَإِنِّي عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ ، وَمِثْلِهِ مَعَهُ » ، قَالَ : ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ لَهُ فَيُعْطِيهِ ذَلِكَ الثَّمَرَ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৩৯
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مدینہ اپنے فاسد اور خراب عناصر کو اس طرح باہر نہ پھینک دے گا جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یعنی قیامت آنے سے پہلے مدینہ کی آبادی کو ایسے خراب عناصر سے پاک صاف کر دیا جائے گا جو عقائد و افکار اور اعمال و اخلاق کے لحاظ سے گندے ہوں گے ۔
تشریح
یعنی قیامت آنے سے پہلے مدینہ کی آبادی کو ایسے خراب عناصر سے پاک صاف کر دیا جائے گا جو عقائد و افکار اور اعمال و اخلاق کے لحاظ سے گندے ہوں گے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَنْفِيَ الْمَدِينَةُ شِرَارَهَا ، كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪০
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں ، اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتا ۔ ” (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
صحیحین ہی کی بعض دوسری حدیثوں میں مدینہ طیبہ کے ساتھ مکہ معظمہ کی بھی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ دجال اس میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ غالباً ان دعاؤں کی برکات میں سے ہے جو اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں مقدس و مبارک شہروں کے لیے کی تھیں ۔
تشریح
صحیحین ہی کی بعض دوسری حدیثوں میں مدینہ طیبہ کے ساتھ مکہ معظمہ کی بھی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ دجال اس میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔ یہ غالباً ان دعاؤں کی برکات میں سے ہے جو اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں مقدس و مبارک شہروں کے لیے کی تھیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، « عَلَى أَنْقَابِ المَدِينَةِ مَلاَئِكَةٌ لاَ يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ ، وَلاَ الدَّجَّالُ » (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪১
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو اس کی کوشش کر سکے کہ مدینہ میں اس کی موت ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ (اس کی کوشش کرے ، اور) مدینہ میں مرے ۔ میں ان لوگوں کی ضرور شفاعت کروں گا جو مدینہ میں مریں گے (اور وہاں دفن ہوں گے) ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی)
تشریح
ظاہر ہے کہ یہ بات کہ موت فلاں جگہ آئے ، کسی کے اختیار میں نہیں ہے ۔ تاہم بندہ اس کی آرزو اور دعا کر سکتا ہے اور کسی درجہ میں اس کی کوشش بھی کر سکتا ہے ۔ مثلاً یہ کہ جس جگہ مرنا چاہے وہیں جا کر پڑ جائے ، اگر قضا و قدر کا فیصلہ خلاف نہیں ہے ، تو موت وہیں آئے گی ....... بہر حال حدیث کا مدعا یہی ہے کہ جو شخص یہ سعادت حاصل کرنا چاہے ، وہ اس کے لیے اپنے امکان کی حد تک کوشش کرے ، اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ بھی مدد کرتا ہے ۔
تشریح
ظاہر ہے کہ یہ بات کہ موت فلاں جگہ آئے ، کسی کے اختیار میں نہیں ہے ۔ تاہم بندہ اس کی آرزو اور دعا کر سکتا ہے اور کسی درجہ میں اس کی کوشش بھی کر سکتا ہے ۔ مثلاً یہ کہ جس جگہ مرنا چاہے وہیں جا کر پڑ جائے ، اگر قضا و قدر کا فیصلہ خلاف نہیں ہے ، تو موت وہیں آئے گی ....... بہر حال حدیث کا مدعا یہی ہے کہ جو شخص یہ سعادت حاصل کرنا چاہے ، وہ اس کے لیے اپنے امکان کی حد تک کوشش کرے ، اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ بھی مدد کرتا ہے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يَمُوتَ بِالمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا ، فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوتُ بِهَا. (رواه احمد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪২
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
یحییٰ بن سعید انصاری تابعی سے بطریق ارسال روایت ہے (یعنی وہ صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کے قبرستان میں) تشریف فرما تھے اور (کسی میت کی) قبر کھودی جا رہی تھی ۔ ایک صاحب نے قبر میں جھانک کر دیکھا اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسلمان کے لیے یہ اچھی آرام گاہ نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تمہاری زبان سے بہت بری بات نکلی ۔ (ایک مسلمان کو مدینہ میں موت اور قبر نصیب ہوئی اور تم کہتے ہو کہ مسلمان کے لیے یہ آرام گاہ اچھی نہیں) ۔ ان صاحب نے (بطور معذرت) عرض کیا : حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرا مطلب یہ نہیں تھا (کہ مدینہ میں موت اور قبر اچھی نہیں) بلکہ میرا مقصد راہ خدا میں شہادت سے تھا (یعنی میں یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ یہ مرنے والے بھائی اگر بستر پر مرنے اور اس قبر میں دفن ہونے کے بجائے جہاد کے کسی میدان میں شہید ہوتے ، اور ان کی لاش وہاں خاک و خون میں پڑپتی تو اس قبر میں دفن ہونے سے یہ زیادہ اچھا ہوتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : راہ خدا میں شہید ہونے کے برابر تو نہیں (یعنی شہادت کا مقام تو بے شک بلند ہے ، لیکن مدینہ میں مرنا اور اس کی خاک میں دفن ہونا بھی بڑی سعادت اور خوش نصیبی ہے) روئے زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اپنی قبر کا ہونا مجھے مدینہ سے زیادہ محبوب ہو ..... یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔ (موطا امام مالک)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ شہادت فی سبیل اللہ کی فضیلت و عظمت بے شک مسلم ہے اور بستر پر مرنا اور میدان جہاد میں اللہ کے لیے سر کٹانا برابر نہیں ، لیکن مدینہ میں مرنا اور یہاں دفن ہونا بھی بڑی خوش بختی ہے ، جس کی خود مجھے بھی چاہت اور آرزو ہے ۔
امام بخاریؒ نے اپنی جامع صحیح بخاری میں کتاب الحج کے بالکل آخر میں مدینہ طیبہ کے فضائل کے سلسلہ کی حدیثیں ذکر کرنے کے بعد اس بیان کا خاتمہ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی اس مشہور دعا پر کیا ہے کہ :
اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ
اے اللہ ! مجھے اپنی راہ میں شہادت بھی دے اور اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک شہر (مدینہ) میں مرنا اور دفن ہونا بھی نصیب فرما !
اس دعا کا واقعہ ابن سعد نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت کیا ہے کہ عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے ہیں ۔ انہوں نے یہ خواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑی حسرت سے کہا :
أَنَّى لِيْ بِالشَّهَادَةِ وَأَنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَزِيْرَةِ الْعَرَبِ لَسْتُ أَغْزُوْ وَالنَّاسُ حَوْلِيْ مجھے شہادت فی سبیل اللہ کیسے نصیب ہو سکتی ہے جب کہ میں جزیرۃ العرب کے درمیان مقیم ہوں (اور وہ سب دارالاسلام بن چکا) اور میں خود جہاد نہیں کرتا ، اور اللہ کے بندے ہر وقت میرے آس پاس رہتے ہیں ۔
پھر خود ہی کہا :
بَلَى يَاْتِىْ بِهَا اللهُ اِنْ شَاءَ (فتح البارى بحواله ابن سعد)
مجھے شہادت کیوں نہیں نصیب ہو سکتی ، اگر اللہ چاہے تو انہی حالات میں مجھے شہادت سے نوازے گا ۔
اس کے بعد آپ نے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جو اوپر درج کی گئی ہے ۔ اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ آپ کی زبان سے یہ دعا سن کر آپ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ : “ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ راہِ خدا میں شہید ہوں ، اور موت مدینہ میں بھی ہو ؟ ” آپ نے فرمایا : “ اللہ چاہے گا تو یہ دونوں باتیں ہو جائیں گی ۔ ”
اس سلسلہ کی روایات میں یہ بھی ہے کہ لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس عجیب و غریب بلکہ بظاہر ناممکن سی دعا سے تعجب ہوا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دونوں باتیں کس طرح ہو سکتی ہیں ۔ جو ابو لؤلو نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی محراب میں آپ کو زخمی کیا ، تب سب نے سمجھا کہ دعا کی قبولیت اس طرح مقدر تھی ۔بے شک جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو اس چیز کو واقع کر کے دکھا دیتا ہے جس کے امکان میں بھی انسانی عقلیں شبہ کریں ۔ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ شہادت فی سبیل اللہ کی فضیلت و عظمت بے شک مسلم ہے اور بستر پر مرنا اور میدان جہاد میں اللہ کے لیے سر کٹانا برابر نہیں ، لیکن مدینہ میں مرنا اور یہاں دفن ہونا بھی بڑی خوش بختی ہے ، جس کی خود مجھے بھی چاہت اور آرزو ہے ۔
امام بخاریؒ نے اپنی جامع صحیح بخاری میں کتاب الحج کے بالکل آخر میں مدینہ طیبہ کے فضائل کے سلسلہ کی حدیثیں ذکر کرنے کے بعد اس بیان کا خاتمہ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی اس مشہور دعا پر کیا ہے کہ :
اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ
اے اللہ ! مجھے اپنی راہ میں شہادت بھی دے اور اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک شہر (مدینہ) میں مرنا اور دفن ہونا بھی نصیب فرما !
اس دعا کا واقعہ ابن سعد نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت کیا ہے کہ عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے ہیں ۔ انہوں نے یہ خواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑی حسرت سے کہا :
أَنَّى لِيْ بِالشَّهَادَةِ وَأَنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَزِيْرَةِ الْعَرَبِ لَسْتُ أَغْزُوْ وَالنَّاسُ حَوْلِيْ مجھے شہادت فی سبیل اللہ کیسے نصیب ہو سکتی ہے جب کہ میں جزیرۃ العرب کے درمیان مقیم ہوں (اور وہ سب دارالاسلام بن چکا) اور میں خود جہاد نہیں کرتا ، اور اللہ کے بندے ہر وقت میرے آس پاس رہتے ہیں ۔
پھر خود ہی کہا :
بَلَى يَاْتِىْ بِهَا اللهُ اِنْ شَاءَ (فتح البارى بحواله ابن سعد)
مجھے شہادت کیوں نہیں نصیب ہو سکتی ، اگر اللہ چاہے تو انہی حالات میں مجھے شہادت سے نوازے گا ۔
اس کے بعد آپ نے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جو اوپر درج کی گئی ہے ۔ اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ آپ کی زبان سے یہ دعا سن کر آپ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ : “ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ راہِ خدا میں شہید ہوں ، اور موت مدینہ میں بھی ہو ؟ ” آپ نے فرمایا : “ اللہ چاہے گا تو یہ دونوں باتیں ہو جائیں گی ۔ ”
اس سلسلہ کی روایات میں یہ بھی ہے کہ لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس عجیب و غریب بلکہ بظاہر ناممکن سی دعا سے تعجب ہوا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دونوں باتیں کس طرح ہو سکتی ہیں ۔ جو ابو لؤلو نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی محراب میں آپ کو زخمی کیا ، تب سب نے سمجھا کہ دعا کی قبولیت اس طرح مقدر تھی ۔بے شک جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو اس چیز کو واقع کر کے دکھا دیتا ہے جس کے امکان میں بھی انسانی عقلیں شبہ کریں ۔ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.
عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم جَالِساً. وَقَبْرٌ يُحْفَرُ بِالْمَدِينَةِ. فَاطَّلَعَ رَجُلٌ فِي الْقَبْرِ. فَقَالَ : بِئْسَ مَضْجَعُ الْمُؤْمِنِ.فَقَالَ : رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « بِئْسَ مَا قُلْتَ » .قَالَ الرَّجُلُ : إِنِّي لَمْ أُرِدْ هذَا ، إِنَّمَا أَرَدْتُ الْقَتْلَ فِي سَبِيلِ اللهِ.فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : « لاَ مِثْلَ لِلْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللهِ. مَا عَلَى الْأَرْضِ بُقْعَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَكُونَ قَبْرِي فِيْهَا ، مِنْهَا. ثَلاَثَ مَرَّاتٍ » (رواه مالك مرسلا)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৩
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اس مسجد میں (یعنی مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی میں) ایک نماز ، دوسری تمام مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے ، سوائے مسجد خرم کے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں رکھی ، پھر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر نمازیں پڑھیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری دینی سرگرمیوں ، تعلیم و تربیت ، ہدایت و ارشاد اور دعوت و جہاد کا مرکز بنی رہی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے مقدس بیت خانہ کعبہ اور مسجد حرام کے ما سوا دنیا کے سارے معبدوں پر عظمت و فضیلت بخشی ہے ۔ صحیح احادیث میں ہے کہ اس کی ایک نماز اجر و ثواب میں دوسری عام مساجد کی ہزار نمازوں سے بڑھ کر ہے ۔
اس حدیث میں مسجد نبوی کی نماز کو مکہ معظمہ اور مسجد حرام کے علاوہ دوسری عام مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر بتلایا گیا ہے لیکن مسجد حرام کے درجہ سے یہ حدیث ساکت ہے ، مگر دوسری مندرجہ ذیل حدیث میں اس کی بھی وضاحت فرما دی گئی ہے ۔
تشریح
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں رکھی ، پھر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر نمازیں پڑھیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری دینی سرگرمیوں ، تعلیم و تربیت ، ہدایت و ارشاد اور دعوت و جہاد کا مرکز بنی رہی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے مقدس بیت خانہ کعبہ اور مسجد حرام کے ما سوا دنیا کے سارے معبدوں پر عظمت و فضیلت بخشی ہے ۔ صحیح احادیث میں ہے کہ اس کی ایک نماز اجر و ثواب میں دوسری عام مساجد کی ہزار نمازوں سے بڑھ کر ہے ۔
اس حدیث میں مسجد نبوی کی نماز کو مکہ معظمہ اور مسجد حرام کے علاوہ دوسری عام مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر بتلایا گیا ہے لیکن مسجد حرام کے درجہ سے یہ حدیث ساکت ہے ، مگر دوسری مندرجہ ذیل حدیث میں اس کی بھی وضاحت فرما دی گئی ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « صَلاَةٌ فِي مَسْجِدِي هذَا ، خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلاَةٍ فِيمَا سِوَاهُ. إِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ » (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৪
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نمازوں سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے ، اور مسجد حرام کی ایک نماز میری اس مسجد کی سو نمازوں سے افضل ہے ۔ (مسند احمد)
تشریح
اس حدیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا کی عام مسجدوں کے مقابلہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کا ثواب ہزار گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور مسجد حرام کی نماز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے بھی سو درجہ افضل ہے ، یعنی عام مساجد کے مقابلہ میں مسجد حرام میں نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔
تشریح
اس حدیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا کی عام مسجدوں کے مقابلہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کا ثواب ہزار گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور مسجد حرام کی نماز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے بھی سو درجہ افضل ہے ، یعنی عام مساجد کے مقابلہ میں مسجد حرام میں نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ صَلَاةٍ فِي هَذَا " (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৫
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری مسجد میں مسلسل ۴۰ نمازیں پڑھیں ایک نماز بھی فوت نہیں ہوئی اس کے لیے لکھ دی جائے گی نجات اور براءت دوزخ سے اور اسی طرح براءت نفاق سے ۔ (مسند احمد ، معجم للطبرانی)
تشریح
بعض اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی خاص مقبولیت اور محبوبیت کی وجہ سے بڑے بڑے فیصلوں کا باعث بن جاتے ہین ۔ اس حدیث میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلسل ۴۰ نمازیں ادا کرنے پر بشارت سنائی گئی ہے کہ ایسے شخص کے بارے میں فرمان الٰہی ہو جائے گا کہ یہ بندہ نفاق کی نجاست سے بالکل پاک ہے ، اور دوزخ اور ہر قسم کے عذاب سے اس کو نجات اور چھٹی ہے ۔
تشریح
بعض اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی خاص مقبولیت اور محبوبیت کی وجہ سے بڑے بڑے فیصلوں کا باعث بن جاتے ہین ۔ اس حدیث میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلسل ۴۰ نمازیں ادا کرنے پر بشارت سنائی گئی ہے کہ ایسے شخص کے بارے میں فرمان الٰہی ہو جائے گا کہ یہ بندہ نفاق کی نجاست سے بالکل پاک ہے ، اور دوزخ اور ہر قسم کے عذاب سے اس کو نجات اور چھٹی ہے ۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ صَلَّى فِي مَسْجِدِي أَرْبَعِينَ صَلَاةً ، لَا تَفُوتُهُ صَلَاةٌ ، كُتِبَ لَهُ بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ ، وَبَرَاءَةٌ مِنَ الْعَذَابِ ، وَبَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ " (رواه احمد والطبرانى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৬
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے ، اور میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر مبارک تھا جس پر رونق افروز ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبات دیتے تھے (اور وہ جگہ اب بھی معلوم اور متعین ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ منبر کی اس جگہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ شریفہ کے درمیان جو قطعہ زمین ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کا خاص مورد اور محل ہے
اور اس کی وجہ سے وہ گویا جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور اس لیے اس کا مستحق ہے کہ اللہ کی رحمت اور جنت کے طالبوں کو اس کے ساتھ جنت کی سی دلچسپی ہو ۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کا جو بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ اللہ کی رحمت اور جنت کا طالب بن کر اس قطعہ ارض میں آیا وہ گویا جنت کے ایک باغیچہ میں آ گیا اور آخرت میں وہ اپنے کو جنت کے ایک باغیچہ ہی میں پائے گا ۔
حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے ” اس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ آخرت میں حوض کوثر پر میرا منبر ہو گا اور جس طرح اس دنیا میں اس منبر سے میں اللہ کے بندوں کو اس کی ہدایت پہنچاتا ہوں اور پیغام سناتا ہوں اسی طرح آخرت میں اس منبر پر جو حوض کوثر پر میرا نصب ہو گا اس خداوندی ہدایت کے قبول کرنے والوں کو رحمت کے جام پلاؤں گا ، پس جو کوئی قیامت کے دن کے لیے آب کوثر کا طالب ہو وہ آگے بڑھ کر اس منبر پر سے دئیے جانے والے پیغام ہدایت کو قبول کرے اور اس دنیا میں اس کو اپنی روحانی غذا بنائے ۔
تشریح
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر مبارک تھا جس پر رونق افروز ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبات دیتے تھے (اور وہ جگہ اب بھی معلوم اور متعین ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ منبر کی اس جگہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ شریفہ کے درمیان جو قطعہ زمین ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کا خاص مورد اور محل ہے
اور اس کی وجہ سے وہ گویا جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور اس لیے اس کا مستحق ہے کہ اللہ کی رحمت اور جنت کے طالبوں کو اس کے ساتھ جنت کی سی دلچسپی ہو ۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کا جو بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ اللہ کی رحمت اور جنت کا طالب بن کر اس قطعہ ارض میں آیا وہ گویا جنت کے ایک باغیچہ میں آ گیا اور آخرت میں وہ اپنے کو جنت کے ایک باغیچہ ہی میں پائے گا ۔
حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے ” اس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ آخرت میں حوض کوثر پر میرا منبر ہو گا اور جس طرح اس دنیا میں اس منبر سے میں اللہ کے بندوں کو اس کی ہدایت پہنچاتا ہوں اور پیغام سناتا ہوں اسی طرح آخرت میں اس منبر پر جو حوض کوثر پر میرا نصب ہو گا اس خداوندی ہدایت کے قبول کرنے والوں کو رحمت کے جام پلاؤں گا ، پس جو کوئی قیامت کے دن کے لیے آب کوثر کا طالب ہو وہ آگے بڑھ کر اس منبر پر سے دئیے جانے والے پیغام ہدایت کو قبول کرے اور اس دنیا میں اس کو اپنی روحانی غذا بنائے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي ، رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ. وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي » . (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৭
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و فضیلت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : دنیا میں صرف تین مسجدیں ہیں ، ان کے سوا کسی مسجد کے لیے رخت سفر نہ باندھا جائے ۔ مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) اور میری یہ مسجد (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ عظمت و شرف صرف ان تین مسجدوں کو حاصل ہے کہ ان میں اللہ کی عبادت کرنے کے لیے سفر کرنا درست ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا کا باعث ہے ۔ ان کے علاوہ کسی مسجد کو یہ درجہ اور شرف حاصل نہیں ہے ، بلکہ ان کے لیے سفر کرنے کی ممانعت ہے ۔
ظاہر ہے کہ اس حدیث کا تعلق صرف مساجد سے ہے ، اور بلا شبہ اس حدیث کی رو سے مسجد حرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد اقصیٰ کے سوا دنیا کی کسی بھی مسجد میں عبادت کے لیے سفر کرنا ممنوع ہے ، لیکن دوسرے جائز دنیوی و دینی مقاصد مثلاً تجارت ، تحصیل دین ، صحبت صلحاء اور تبلیغ و دعوت وغیرہ کے لیے سفر کرنے سے اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ عظمت و شرف صرف ان تین مسجدوں کو حاصل ہے کہ ان میں اللہ کی عبادت کرنے کے لیے سفر کرنا درست ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا کا باعث ہے ۔ ان کے علاوہ کسی مسجد کو یہ درجہ اور شرف حاصل نہیں ہے ، بلکہ ان کے لیے سفر کرنے کی ممانعت ہے ۔
ظاہر ہے کہ اس حدیث کا تعلق صرف مساجد سے ہے ، اور بلا شبہ اس حدیث کی رو سے مسجد حرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد اقصیٰ کے سوا دنیا کی کسی بھی مسجد میں عبادت کے لیے سفر کرنا ممنوع ہے ، لیکن دوسرے جائز دنیوی و دینی مقاصد مثلاً تجارت ، تحصیل دین ، صحبت صلحاء اور تبلیغ و دعوت وغیرہ کے لیے سفر کرنے سے اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ۔
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا لِثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : مَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَمَسْجِدِي هَذَا ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى " (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৪৮
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ زیارتِ روضہ مطہرہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے حج کیا اور اس کے بعد میری قبر کی زیارت میری وفات کے بعد ، تو وہ (زیارت کی سعادت حاصل کرنے میں) انہی لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی ۔ (شعب الایمان للبیہقی ، معجم کبیر و اوسط للطبرانی)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں بلکہ تمام انبیااء علیہم السلام کا اپنی منور قبور میں زندہ ہونا جمہور امت کے مسلمات میں سے ہے ، اگرچہ حیات کی نوعیت میں اختلاف ہے اور روایات اور خواص امت کے تجربات سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو امتی قبر پر حاضر ہو کر سلام عرض کرتے ہیں آپ ان کا سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ، ایسی صورت میں بعد وفات آپ کی قبر پر حاضر ہونا اور سلام عرض کرنا ایک طرح سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور بالمشافہ سلام کا شرف حاصل کرنے ہی کی ایک صورت ہے ، اور بلا شبہ ایسی سعادت ہے کہ اہل ایمان ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔
اگرچہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت حج کا کوئی رکن یا جز نہیں ہے ، لیکن قدیم سے امت کا یہ تعامل چلا آ رہا ہے کہ خاص کر دور دراز علاقوں کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں تو روضہ پاک کی زیارت اور وہاں صلوٰۃ و سلام کی سعادت بھی ضرور حاصل کرتے ہیں ۔ اسی لیے حدیث کے بہت سے مجموعوں میں کتاب الحج کے آخر میں زیارتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی درج کی گئی ہیں ، اسی دستور کی پیروی کرتے ہوئے کتاب الحج کے اس سلسلہ کو ہم بھی زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیثوں پر ختم کرتے ہیں۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں بلکہ تمام انبیااء علیہم السلام کا اپنی منور قبور میں زندہ ہونا جمہور امت کے مسلمات میں سے ہے ، اگرچہ حیات کی نوعیت میں اختلاف ہے اور روایات اور خواص امت کے تجربات سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو امتی قبر پر حاضر ہو کر سلام عرض کرتے ہیں آپ ان کا سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ، ایسی صورت میں بعد وفات آپ کی قبر پر حاضر ہونا اور سلام عرض کرنا ایک طرح سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور بالمشافہ سلام کا شرف حاصل کرنے ہی کی ایک صورت ہے ، اور بلا شبہ ایسی سعادت ہے کہ اہل ایمان ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔
اگرچہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت حج کا کوئی رکن یا جز نہیں ہے ، لیکن قدیم سے امت کا یہ تعامل چلا آ رہا ہے کہ خاص کر دور دراز علاقوں کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں تو روضہ پاک کی زیارت اور وہاں صلوٰۃ و سلام کی سعادت بھی ضرور حاصل کرتے ہیں ۔ اسی لیے حدیث کے بہت سے مجموعوں میں کتاب الحج کے آخر میں زیارتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی درج کی گئی ہیں ، اسی دستور کی پیروی کرتے ہوئے کتاب الحج کے اس سلسلہ کو ہم بھی زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیثوں پر ختم کرتے ہیں۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِي كَانَ كَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي ". (رواه البيهقى فى شعب الايمان والطبرانى فى الكبير والاوسط)
তাহকীক: