মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

کتاب المعاملات - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৮১ টি

হাদীস নং: ৯৮৯
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے (حجۃ الوداع کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے) بتلایا کہ اس سفر میں ہماری نیت (اصلاً) صرف حج کی تھی (مقصد سفر کی حیثیت سے) عمرہ ہمارے ذہن میں نہیں تھا ، یہاں تک کہ جب ہم سفر پورا کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ پر پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے حجر اسود کا استلام کیا (یعنی قاعدے کے مطابق اس پر ہاتھ رکھ کر اس کو چوما ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف شروع کیا) جس میں تین چکروں میں آپ نے رمل کیا (یعنی وہ خاص چال چلے جس میں قوت اور شجاعت کا اظہار ہوتا ہے) اور باقی چار چکروں میں اپنی عادت کے مطابق چلے پھر (طواف کے سات چکر پورے کر کے) آپ مقام ابراہیمؑ کی طرف بڑھے ، اور یہ آیت تلاوت فرمائی : وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى (اور مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کرو) پھر اس طرح کھڑے ہو کر کہ مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا آپ نے نماز پڑھی (یعنی دو گانہ طواف ادا کیا ۔) حدی کے راوی امام جعفر صادق بیان کرتے ہیں کہ : میرے والد ذکر کرتے تھے کہ ان دو رکعتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ کی قراءت کی ۔ اس کے بعد آپ پھر حجر اسود کی طرف واپس آئے اور پھر اس کا استلام (1) کیا ، پھر ایک دروازہ سے (سعی کے لیے) صفا پہاڑی کی طرف چلے گئے اور اس کے بالکل قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : إِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ (بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں جن کے درمیان سعی کا حکم ہے) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ میں اسی صفا سے سعی شروع کرتا ہوں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے کیا ہے ۔ چنانچہ آپ پہلے صفا پر آئے اور اس حد تک اس کی بلندی پر چڑھے کہ بیت اللہ آپ کی نظر کے سامنے آ گیا ، اس وقت آپ قبلہ کی رخ ، رخ کر کے کھڑے ہو گئے اور اللہ کی توحید اور تکبیر اور تمجید میں مصروف ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ (اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پرستش کے لائز نہیں ، وہی تنہا معبود مالک ہے کوئی اس کا شریک ساجھی نہین ، ساری کائنات پر اسی کی فرماں روائی ہے ، اور حمد و ستائش اسی کا حق ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے ، وہی تنہا مالک و معبود ہے ۔ اس نے (مکہ پر اور سارے عرب پر اقتدار بخشنے اور اپنے دین کو سربلند کرنے کا) اپنا وعدہ پورا فرمایا ، اپنے بندے کی اس نے بھرپور مدد فرمائی ، اور کفر و شرک کے لشکروں کو اس نے تنہاء اسی نے شکست دی) ..... آپ نے تین دفعہ یہ کلمات فرمائے اور ان کے درمیان دعا مانگی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر مروہ کی طرف چلے ، یہاں تک کہ جب آپ کے قدم وادی کے نشیب میں پہنچے تو آپ کچھ دوڑ کے چلے پھر جب آپ نشیب سے اوپر آ گئے تو پھر اپنی عام رفتار کے مطابق چلے ، یہاں تک کہ مروہ پہاڑی پر آ گئے اور یہاں آپ نے بالکل وہی کیا جو صفا پر کیا تھا ۔ یہاں تک کہ جب آپ آخری پھیرا پورا کر کے مروہ پر پہنچے ، آپ نے اپنے رفقاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا ..... اگر پہلے سے میرے خیال میں وہ بات آ جاتی جو بعد میں آئی تو میں قربانی کے جانور مدینہ سے ساتھ نہ لاتا اور اسی طواف و سعی کو جو میں نے کیا ہے عمرہ بنا دیتا ..... تو اب میں تم لوگوں سے کہتا ہوں کہ تم میں سے جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں آئے ہیں وہ اپنا احرام ختم کر دیں اور اب تک جو طواف و سعی انہوں نے کی ان کو عمرہ بنا دیں ..... آپ کا یہ ارشاد سن کر سراقہ بن مالک نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا یہ حکم کہ اشہر حج (حج کے مہینوں) میں عمرہ کیا جائے خاص اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے حکم ہے ..... آپ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر فرمایا کہ : دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ (عمرہ حج میں داخل ہو گیا ، خاص اسی سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے) ۔

تشریح
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ کے خاتمہ پر جو یہ بات فرمائی کی “ جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے ہیں وہ اپنے طواف و سعی کو عمرہ قرار دے دیں ، اور میں بھی اگر قربانی کے جانور ساتھ نہ لایا ہوتا تو ایسا ہی کرتا ” ..... اس کا مطلب اور اس کی حقیقت سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ زمانہ جاہلیت میں حج اور عمرہ کے سلسلہ میں جو اعتقادی اور عملی غلطیاں اور رواج پر کر دلوں میں راسخ ہو چکی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ شوال ، ذی قعدہ ، ذی الحجہ جو “ اشهر الحج ” (یعنی حج کے مہینے) کہلاتے ہیں (کیوں کہ حج کا سفر انہی مہینوں میں ہوتا ہے) ان مہینوں میں عمرہ کرنا سکٹ گناہ سمجھا جاتا تھا ، حالانکہ یہ بات بالکل غلط اور من گھڑت تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع سفر ہی میں وجاحت کے ساتھ لوگوں کو یہ بات بتا دی تھی کہ جس کا جی چاہے صرف حج کا احرام باندھے (جس کو اصطلاح مین افراد کہتے ہیں) اور جس کا جی چاہے شروع میں صرف عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ معظمہ میں عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد حج کے لیے دوسرا احرام باندھے (جس کو تمتع کہتے ہیں) اور جس کا جی چاہے حج و عمرہ دونوں کا مشترک احرام باندھے اور ایک ہی احرام سے دونوں کو ادا کرنے کی نیت کرے ۔ (جس کو قران کہتے ہیں) ..... آپ کا یہ ارشاد سننے کے بعد صحابہ کرام مین سے غالباً چند ہی نے اپنے کاص حالات سے تمتع کا رادہ کیا ، اور انہوں نے ذو الحلیفہ میں صرف عمرہ کا احرام باندھا ..... ان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ ورنہ زیادہ تر صحابہ نے صرف حج کا یا حج و عمرہ دونوں کا مشترک احرام باندھا ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کا احرام باندھا ، یعنی (قِران) اختیار فرمایا ۔ اس کے علاوہ اپنی قربانی کے جانور (اونٹ) بھی آپ مدینہ طیبہ ہی سے ساتھ لے کر چلے ، اور جو حاجی قربانی کے جانور ساتھ لے کر چلے وہ اس وقت تک احرام ختم نہیں کر سکتا جب تک دسویں ذی الحجہ کو قربانی نہ کر دے ۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنی قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے حج سے پہلے (یعنی ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی کرنے سے پہلے) احرام سے باہر نہیں آ سکتے تھے ، لیکن جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے تھے ان کے واسطے یہ شرعی مجبوری نہیں تھی ۔
مکہ معظمہ پہنچ کر آپ کو اس کا حساس زیادہ ہوا کہ یہ جو جاہلانہ بات لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا سخت گناہ ہے اس کی تردید اور بیخ کنی کے لیے اور دماغوں سے اس کے جراثیم ختم کرنے اور دلوں سے اس کے اثرات کو دھونے کے لیے ضروری ہے کہ وسیع پیمانے پر ان کے خلاف عمل کر کے دکھایا جائے ، اور اس کی ممکن صورت یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ جو آپ کے ساتھ طواف اور سعی کر چکے تھے ، اس طواف اور سعی کو عمرہ قرار دے کے احرام ختم کر دیں اور حلال ہو جائین اور حج کے لیے اس کے وقت پر دوسرا احرام باندھیں ، اور خود آپ چونکہ قربانی کے جانور ساتھ لے کے آئے تھے اس لیے آپ کے لیے اس کی گنجائش نہیں تھی ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : “ اگر شروع میں مجھے اس بات کا احساس ہو جاتا جس کا احساس بعد میں ہوا تو میں اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہ لاتا ، اور جو طواف و سعی میں نے کی ہے اس کو مستقل عمرہ قرار دے کر یہ احرام ختم کر دیتا (لیکن میں تو قربانی کے جانور لانے کی وجہ سے ایسا کرنے سے مجبور ہوں ، اس لیے آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ) آپ میں سے جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے ہیں وہ اپنے اس طواف و سعی کو مستقل عمرہ قرار دے دیں اور اپنا احرام ختم کر کے حلال ہو جائیں ” .... آپ کا یہ ارشاد سن کر سراقہ (1) بن مالک کھڑے ہو گئے ، چونکہ وہ اب تک یہی جانتے تھے کہ حج کے مہینوں میں مستقل عمرہ کرنا سخت گناہ کی بات ہے ، اس لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : ان دنوں میں مستقل عمرہ کرنے کا یہ حکم کیا صرف اسی سال کے لیے ہے ، یا اب ہمیشہ کے لیے مسئلہ یہی ہے کہ اشہر حج میں مستقل عمرہ کیا جا سکتا ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اچھی طرح سمجھانے اور ان کو ذہن نشین کرنے کے لیے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں مین ڈال کر فرمایا : دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ (حج میں عمرہ اس طرح داخل ہو گیا) یعنی حج کے مہینوں میں اور ایام حج کے بالکل قریب بھی عمرہ کیا جا سکتا ہے ، اور اس کو گناہ سمجھنے والی بات بالکل غلط ارو جاہلانہ ہے ، اور یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے ۔
قَالَ جَابِرٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ : لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ ، لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ ، اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ، ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ فَقَرَأَ : {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ ، فَكَانَ أَبِي يَقُولُ وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ : {إِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ} « أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللهُ بِهِ » فَبَدَأَ بِالصَّفَا ، فَرَقِيَ عَلَيْهِ ، حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَوَحَّدَ اللهَ وَكَبَّرَهُ ، وَقَالَ : « لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ » ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ ، قَالَ : مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ ، فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا ، حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ ، نَادَى وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ وَالنَّاسُ تَحْتَهُ فَقَالَ : « لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقِ الْهَدْيَ ، وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ ، وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً » ، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ وَاحِدَةً فِي الْأُخْرَى ، وَقَالَ : « دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ » مَرَّتَيْنِ « لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ »
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯০
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ (جو زکوٰۃ اور دوسرے مطالبات کی وصولی وغیرہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یمن گئے ہوئے تھے) وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے لیے مزید جانور لے کر مکہ معظمہ پہنچے ، انہوں نے اپنی بیوی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ احرام ختم کر کے حلال ہو چکی ہیں ، اور رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ بھی استعمال کیا ہے ، تو انہوں نے ان کے اس رویہ کو بہت غلط سمجھا اور ناگواری کا اظہار کیا (اور ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ : تم کو کس نے یہ کہا تھا کہ تم احرام ختم کرکے حلال ہو جاؤ) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہ کہ : مجھے ابا جان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ حکم دیا تھا (میں نے اس کی تعمیل میں ایسا کیا ہے) ..... پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ : جب تم نے حج کی نیت کی اور تلبیہ کہہ کے احرام باندھا تو اس وقت تم نے کیا کہا تھا ؟ (یعنی افراد کے طریقے پر صرف حج کی نیت کی تھی یا تمتع کے طریقے پر صرف عمرہ کی یا قِران کے طریقے پر دونوں کی ساتھ ساتھ نیت کی تھی ؟) انہوں نے عرض کیا کہ : میں نے نیت اس طرح کی تھی کہ : اللهُمَّ ، إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ (سے اللہ ! میں احرام باندھتا ہوں اس چیز کا جس کا احرام باندھا ہو تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں چونکہ قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں (اور اس کی وجہ سے اب حج سے پہلے احرام ختم کرنے کی میرے لیے گنجائش نہیں ہے ، اور تم نے میرے جیسے احرام کی نیت کی ہے) اس لیے تم بھی میری طرح احرام ہی کی حالت میں رہو ...... آگے حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قربانی کے جو جانور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے کے آئے تھے اور جو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لے کر آئے ان کی مجموعی تعداد سو تھی (بعض روایات سے تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۶۳ اونٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے تھے اور ۳۷ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے) حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آگے بیان کیا ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق تمام ان صحابہ نے احرام ختم کر دیا جو قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے تھے اور صفا مروہ کی سعی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے سروں کے بال ترشوا کر وہ سب حلال ہو گئے اور جو طواف و سعی انہوں نے کی تھی اس کو مستقل عمرہ قرار دے دیا ۔ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ صحابہؓ حالت احرام مین رہے جو اپنی قربانیاں ساتھ لائے تھے ۔

تشریح
جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی ہدایت اور حکم کے مطابق اپنا احرام ختم کیا انہوں نے اس موقع پر بال منڈوائے نہیں بلکہ صرف ترشوائے ، ایسا انہوں نے غالباً اس لیے کیا کہ منڈوانے کی فضیلت حج کے احرام کے خاتمہ پر حاصل کر سکیں ۔ واللہ اعلم ۔
وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَوَجَدَ فَاطِمَةَ مِمَّنْ حَلَّ ، وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا ، وَاكْتَحَلَتْ ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا ، فَقَالَتْ : إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي بِهَذَا ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا مَاذَا قُلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟ » قَالَ قُلْتُ : اللهُمَّ ، إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ ، قَالَ : « فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحِلُّ » قَالَ : فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً ، قَالَ : فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا ، إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ ،
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯১
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
پھر جب یوم الترویہ (یعنی ۸ ذی الحجہ کا دن) ہوا تو سب لوگ منیٰ جانے لگے (اور صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صفا مروہ کی سعی کر کے اپنا احرام ختم کر چکے اور حلال ہو گئے تھے) انہوں نے حج کا احرام باندھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر سوار ہو کر منیٰ کو چلے ، پھر وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مسجد خیف میں) ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر پانچوں نمازیں پڑھیں ، پھر فجر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر آپ منیٰ میں اور ٹھہرے ، یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ صوف کا بنا ہوا خیمہ آپ کے لیے نمرہ میں نصب کیا جائے ۔
نمرہ دراصل وہ جگہ ہے جہاں سے آگے عرفات کا میدان شروع ہوتا ہے) آپ کے خاندان قریش کے لوگوں کو اس کا یقین تھا اور اس کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا کہ آپ “ مشعر احرام ” کے پاس قیام کریں گے ، جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے (لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا بلکہ) آپ مشعر حرام کے حدود سے آگے بڑھ کر عرفہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ (آپ کی ہدایت کے مطابق) نمرہ میں آپ کا خیمہ نصب کر دیا گیا ہے تو آپ اس خیمہ میں اتر گئے ۔

تشریح
حج کی خاص نقل و حرکت کا سلسلہ ۸ ذی الحجہ سے شرع ہوتا ہے جس کو “ یوم الترویہ ” کہا جاتا ہے ۔ اس دن صبح کو حجاج منیٰ کے لیے روانہ ہوتے ہیں ، افراد یا قران کے طریقے پر حج کرنے والے تو پہلے سے احرام کی حالت میں ہوتے ہیں ، ان کے علاوہ اور حجاج اسی دن یعنی ۸ ذی الحجہ کو احرام باندھ کر منیٰ کو جاتے ہیں اور نویں کی صبح تک وہیں قیام کرتے ہیں ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے استھ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم جو اپنی قربانیاں اپنے ساتھ لائے تھے وہ تو احرام کی حالت میں تھے باقی صحابہ جنہوں نے عمرہ کر کے احرام ختم کر دیا تھا ان سب نے آٹھویں کی صبح کو حج کا احرم باندھا اور حج کا قافلہ منیٰ کو روانہ ہو گیا ، اور اس دن وہیں قیام کیا ، اور پھر نویں کی صبح کو سورج نکلنے کے بعد عرفات کے روانگی ہوئی ۔ عرفات منیٰ سے قریباً ۶ میل اور مکہ سے قریباً ۹ میل ہے ، اور یہ حدود حرم سے باہر ہے ، بلکہ اس جانب میں حرم کی سرحد جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے عرفات کا علاقہ شروع ہوتا ہے ..... عرب کے عام قبائل جو حج کے لیے آتے تھے وہ سب نویں ذی الحجہ کو حدود حرم سے باہر نکل کے عرفات میں وقوف کرتے تھے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے یعنی قریش جو اپنے کو کعبہ کا مجاور و متولی اور “ اہل حرم اللہ ” کہتے تھے وہ وقوف کے لیے بھی حدود حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے ، بلکہ اس کی حد کے اندر ہی مزدلفہ کے علاقہ میں مشعر حرام پہاڑی کے پاس وقوف کرتے تھے اور اس کو اپنا امتیاز سمجھتے تھے ۔ اپنے اس پرانے خاندانی دستور کی بنناء پر قریش کو یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشعر حرام کے پاس ہی وقوف کریں گے ، لیکن چونکہ ان کا یہ طریقہ غلط تھا اور وقوف کی صحیح جگہ عرفات ہی ہے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ سے چلتے وقت ہی اپنے لوگوں کو ہدایت فرما دی تھی کہ : آپ کے قیام کے لیے خیمہ نمزہ (1) میں نصب کیا جائے ۔ چنانچہ اس ہدایت کے مطابق وادی نمرہ ہی میں آپ کے لیے خیمہ نصب کیا گیا ، اور آپ وہیں جا کر اترے ، اور اس خیمہ میں قیام فرمایا :
فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى ، فَأَهَلُّوا بِالْحَجِّ ، وَرَكِبَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ ، فَسَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ، كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ ، فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ ، فَنَزَلَ بِهَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯২
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ نے اپنی ناقہ قصواء پر کجاوا کسنے کا حکم دیا ، چنانچہ اس پر کجاوا کس دیا گیا ، آپ اس پر سوار ہو کر وادی (وادی عرنہ) کے درمیان آئے ، اور آپ نے اونٹنی کی پشت پر ہی سے لوگوں کو خطبہ دیا جس میں فرمایا : “ لوگوں ! تمہارے خون اور تمہارا مال تم پر حرام ہیں (یعنی ناحق کسی کا خون کرنا اور ناجائز طریقے پر کسی کا مال لینا تمہارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے) بالکل اسی طرح جس طرح کہ آج یوم العرفہ کے دن ذی الحجہ کے اس مبارک مہینہ میں ، اپنے اس مقدس شہر میں (تم ناحق کسی کا خون کرنا اور کسی کا مال لینا حرام جانتے ہو) ..... کوب ذہن نشین کر لو کہ جاہلیت کی ساری چیزیں (یعنی اسلام کی روشنی کے دور سے پہلے تاریکی اور گمراہی کے زمانہ کی ساری باتیں اور سارے قصے ختم ہیں) میرے دونوں دقدموں کے نیچے دفن اور پامال ہیں (میں اس کے خاتمہ اور منسوخی کا اعلان کرتا ہوں) اور زمانہ جاہلیت کے خون بھی ختم ہیں معاف ہیں (یعنی اب کوئی مسلمان زمانہ جاہلیت کے کسی خون کا بدلہ نہیں لے گا) ، اور سب سے پہلے میں اپنے گھرانے کے ایک خون ربیعہ ابن الحارث بن عبدالمطلب کے فرزند کے خون کے ختم اور معاف کئے جانے کا اعلان کرتا ہوں جو قبیلہ بنی سعد کے ایک گھر میں دودھ پینے کے لیے رہتے تھے اور ان کو قبیلہ ہذیل کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا ۔ (1) (ہذیل سے اس خون کا بدلہ لینا ابھی بھی باقی تھا لیکن اب میں اپنے خاندان کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ اب یہ قصہ ختم ، بدلہ نہیں لیا جائے گا) اور زمانہ جاہلیت کے سارے سودی مطالبات (جو کسی کے کسی کے ذمہ باقی ہیں وہ سب بھی) ختم اور سوخت ہیں (اب کوئی مسلمان کسی سے اپنا سودی مطالبہ وصول نہیں کرے گا) اور اس باب میں بھی سب سے پہلے اپنے خاندان کے سودی مطالبات میں سے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے سودی مطالبات کے ختم اور سوخت ہونے کا اعلان کرتا ہوں (اب وہ کسی سے اپنا سودی مطالبہ وصول نہیں کریں گے) ان کے سارے سودی مطالبات آج ختم کر دئیے گئے ..... اور اے لوگو ! عورتوں کے حقوق اور ان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں خدا سے ڈرو ، اس لئے کہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ کے حکم اور اس کے قانون سے اس کے ساتھ تمتع تمہارے لئے حلال ہوا ہے ، اور تمہارا خاص حق ان پر یہ ہے کہ جس آدمی کا گھر میں آنا اور تمہاری جگہ تمہارے بستر پر بیٹھنا تم کو پسند نہ ہو وہ ا س کو اس کا موقع نہ دیں ..... لیکن اگر وہ یہ غلطی کریں تو تم (تنبیہ اور آئندہ سد باب کے لیے اگر کچھ سزا دینا مناسب اور مفید سمجھو) ان کو کوئی خفیف سی سزا دے سکتے ہو .... اور ان کا خاص حق تم پر یہ ہے کہ اپنے مقدور اور حیثیت کے مطابق ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرو ..... اور میں تمہارے لیے وہ سامان ہدایت چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس سے وابستہ رہے اور اس کی پیروی کرتے رہے تو پھر کبھی تم گمراہ نہ ہو ..... وہ ہے “ کتاب اللہ ” .... اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا (کہ میں نے تم کو اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام پہنچائے یا نہیں) ۔ تو بتاؤ ! کہ وہاں تم کیا کہو گے اور کیا جواب دو گے ؟ ..... حاضرین نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں اور قیامت کے دن بھی گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اور اس کے احکام ہم کو پہنچا دئیے اور رہنمائی اور تبلیغ کا حق ادا کر دیا اور نصیحت و خیر خواہی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا .... اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کے مجمع کی طرف اس سے اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا : اللهُمَّ ، اشْهَدْ ، اللهُمَّ ، اشْهَدْ اللهُمَّ ، اشْهَدْ ! ! ! یعنی اے اللہ ! تو گواہ رہ ، کہ میں نے تیرا پیام اور تیرے احکام تیرے بندوں تک پہنچا دئیے اور تیرے بندے اقرار کر رہے ہیں ..... اس کے بعد (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے) حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی ، پھر اقامت کہی ، اور ظہر کی نماز پڑھائی ، اس کے بعد پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی ۔

تشریح
یہ معلوم ہے کہ اس دن (یعنی اس سال وقوف عرفہ کے دن) جمعہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال آفتاب کے بعد پہلے مندرجہ بالا خطبہ دیا ، اس کے بعد ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں (ظہر ہی کے وقت میں) ساتھ ساتھ بلا فصل پڑھیں ۔ حدیث میں صاف ظہر کا ذکر ہے ، جس سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن جمعہ کی نماز نہیں پڑھی ، بلکہ اس کے بجائے ظہر پڑھی اور جو خطبہ آپ نے دیا وہ جمعہ کا خطبہ نہیں تھا بلکہ یوم العرفات کا خطبہ تھا ..... جمعہ نہ پڑھنے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ عرفات کوئی آبادی اور بستی نہیں ہے ، بلکہ ایک وادی اور صحرا ہے ، اور جمعہ بستیوں اور آبادیوں میں پڑھا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
یوم العرفہ کے اس خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات دیں اس وقت اور اس مجمع میں انہی چیزوں کا اعلان اور تبلیغ و تلقین ضروری اور اہم تھی .... خطبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر ایک ساتھ ظہر ہی کے وقت ادا فرمائیں اور درمیان میں سنت یا نفل کی دو رکعتیں بھی نہیں پڑھیں .... امت کا اس پر اتفاق ہے کہ وقوف عرفات کے دن یہ دونوں نمازیں اسی طرح پڑھی جائیں گی ، اور اسی طرح مغرب و عشاء اس دن مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے وقت میں ایک ساتھ پڑھی جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا جیسا کہ آگے معلوم ہو گا .....

اس دن ان نمازوں کا صحیح طریقہ اور ان کے صحیح اوقات یہی ہیں ..... اس کی ایک حکمت تو یہی ہو سکتی ہے کہ اس دن کا یہ امتیاز ہر خاص و عام کو معلوم ہو جائے کہ آج کے دن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نمازوں کے اوقات میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے .... اور دوسری حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس دن کا اصل وظیفہ جو ذکر اور دعا ہے اس کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ بندہ فارغ رہے ، اور ظہر سے مغرب تک بلکہ عشاء تک نماز کی بھی فکر نہ ہو ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم العرفات کے اس خطبہ میں جو اپنے موقع اور محل کے لحاظ سے آپ کی حیات طیبہ کا سب سے اہم خطبہ کہا جا سکتا ہے ۔ سب سے آخری بات اپنی وفات ار جدائی کے قرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ فرمائی کہ : “ میں تمہارے لیے ہدایت و روشنی کا وہ کامل و مکمل سامان چھوڑ کر جاؤں گا جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے بشرطیکہ تم اس سے وابستہ رہے اور اس کی روشنی میں چلتے رہے ، اور وہ اللہ کی مقدس کتاب قرآ ن مجید ” ..... اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مرض وفات کے آخری دنوں میں جب کہ شدت مرض کی وجہ سے آپ کو سخت تکلیف تھی آپ نے بطور وصیت کے ایک تحریر لکھانے کا جو خیال ظاہر کیا تھا جس کے بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : “ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو گے ” ۔ اس میں آپ کیا لکھانا چاہتے تھے ۔ حجۃ الوداع کے اس اہم خطبہ سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کتاب اللہ سے وابستگی اور اس کی پیروی کی وصیت لکھانا چاہتے تھے ۔ آپ اس اہم خطبہ میں بھی بتا چکے تھے یہ شان کتا اللہ کی ہے ، اور چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس حقیقت سے آشنا تھے اور اللہ نے موقع پر بات کہنے کی جبرؤت بھی دی تھی اس لیے انہوں نے اس موقع پر یہ رائے ظاہر کی کہ آپ کی مسلسل تعلیم و تربیت سے ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ حیثیت کتاب اللہ کی ہے اس لیے اس سخت تکلیف کی حالت میں وصیت لکھنے لکھانے کی زحمت کیوں فرمائی جائے ، ہمیں آپ کا پڑھایا ہواسبق یاد ہے اور یاد رہے گا ۔ حسبنا كتاب الله.
حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ ، فَرُحِلَتْ لَهُ ، فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي ، فَخَطَبَ النَّاسَ وَقَالَ : « إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا ، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا ، أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ ، فَاتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ [ص : 890] ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ ، كِتَابُ اللهِ ، وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي ، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟ » قَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ ، فَقَالَ : بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ ، يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ « اللهُمَّ ، اشْهَدْ ، اللهُمَّ ، اشْهَدْ » ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ أَذَّنَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯৩
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
پھر (جب آپ ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ بلا فصل پڑھ چکے تو اپنی ناقہ پر سوار ہو کر آپ میدان عرفات مین خاص وقوف کی جگہ پر تشریف لائے اور اپنی ناقہ قصواء کا رخ آپ نے اس طرف کر دیا جدھر پتھر کی بڑی بڑی چٹانیں ہیں اور پیدل مجمع آپ نے اپنے سامنے کر لیا اور آپ قبلہ رو ہو گئے اور وہیں کھڑے رہے یہاں تک کہ غروب آفتاب کا وقت آ گیا ، اور (شام کے آخری وقت میں فصا جو زرد ہوتی ہے وہ) زردی بھی ختم ہو گئی ، اور آفتاب بالکل ڈودب گیا ، تو آپ (عرفات سے مزدلفہ کے لیے) روزنہ ہوئے ، اور اسامہ بن زید کو آپ نے اپنی ناقہ پر اپنے پیچھے سوار کر لیا تھا یہاں تک کہ آپ مزدلفہ آ گئے (جو عرفات سے قریباً تین میل ہے) یہاں پہنچ کر آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں ، اور ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ (یعنی اذان ایک ہی دفعہ کہی گئی اور اقامت مغرب کے لیے الگ کہی گئی اور عشاء کے لیے الگ کہی گئی) اور ان دونوں نمازوں کے درمیان بھی آپ نے سنت یا نفل کی رکعتیں بالکل نہیں پڑھیں ، اس کے بعد آپ لیٹ گئے ، اور لیٹے رہے ، یہاں تک کہ صبح صادق ہو گئی اور فجر کا وقت آ گیا ، تو آپ نے صبح صادق کے ظاہر ہوتے ہی اذان اور اقامت کے ساتھ نماز فجر ادا کی ، اس کے بعد آپ مشعر حرام کے پاس آئے (راجح قول کے مطابق یہ ایک بلند ٹیلہ سا تھا مزدلفہ کے حدود میں ، اب بھی یہی صورت ہے اور وہاں نشانی کے طور پر ایک عمارت بنا دی گئی ہے) یہاں آ کر آپ قبلہ رو کھڑے ہوئے اور دعا اور اللہ کی تکبیر و تہلیل اور توحید و تمجید میں مشغول رہے ، یہاں تک کہ خوب اجالا ہو گیا ۔ پھر طلوع آفتاب سے ذرا پہلے آپ وہاں سے منیٰ کے لیے روانہ ہو گئے اور اس وقت آپ نے اپنی ناقہ کے پیچھے فضل بن عباس کو سوار کر لیا اور چل دئیے ، یہاں تک کہ جب وادی محسر کے درمیان پہنچے تو آپ نے اونٹنی کی رفتار کچھ تیز کر دی ، پھر اس سے نکل کر اس درمیان والے راستہ سے چلے جو بڑے جمرہ پر پہنچتا ہے ، پھر اس جمرہ کے پاس پہنچ کر جو درخت کے پاس ہے آپ نے اس پر رمی کی ، سات سنگ ریزے اس پر پھینک کر مارے جن مین سے ہر ایک کے ساتھ آپ تکبیر کہتے تھے ، یہ سنگ ریزے “ خذف کے سنگریزوں ” کی طرح کے تھے (یعنی چھوٹے چھوٹے تھے جیسے کہ انگلیوں میں رکھ کر پھینکے جاتے ہین جو قریباً چنے اور مٹر کے دانے کے برابر ہوتے ہیں) آپ نے جمرہ پر یہ سنگ ریزے (جمرہ کے قریب والی) نشیبی جگہ سے پھینک کر مارے ، اور اس رمی سے فارغ ہو کر قربان گاہ کی طرف تشریف لے گئے ، وہاں آپ نے تریسٹھ (۶۳) اونٹوں کی قربانی اپنے ہاتھ سے کی ، پھر جو باقی رہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ فرما دئیے ۔ ان سب کی قربانی انہوں نے کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی قربانی میں شریک فرمایا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ قربانی کے ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک پارچہ لے لیا جائے ، یہ سارے پارچے ایک دیگ مین ڈال کر پکائے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور شوربا پیا ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور شوربا پیا ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر سوار ہو کر طواف زیارت کے لیے بیت اللہ کی طرف چل دئیے اور ظہر کی نماز آپ نے مکہ میں جا کر پڑھی ، نماز سے فارغ ہو کے (اپنے اہل خاندان) بنی عبدالمطلب کے پاس آئے جو زمزم سے پانی کھینچ کھینچ کر لوگوں کو پلا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ : اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ دوسرے لوگ غالب آ کر تم سے یہ خدمت چھین لیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ ڈول کھینچتا ۔ ان لوگوں نے آپ کو بھر کے ایک ڈول زمزم کا دیا تو آپ نے اس میں سے نوش فرمایا ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حج کے سلسلہ کا سب سے بڑا عمل اور رکن اعظم “ وقوف عرفہ ” ہے یعنی ۹ ذی الحجہ کو بعد زوال ظہر و عصر کی نماز پڑھ کر میدان عرفات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہونا ۔ اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وقوف کتنا طویل فرمایا تھا .... ظہر و عصر کی نماز آپ نے ظہر کے شروع وقت ہی میں پڑھ لی تھی اور اس وقت سے لے کر غروب آفتاب تک آپ نے وقوف فرمایا اور اس کے بعد سیدھے مزدلفہ چل دئیے اور مغرب و عشاء آپ نے وہاں پہنچ کر ایک ساتھ ادا فرمائیں اور جیسا کہ گرز چکا یہی اس دن کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔
مزدلفہ کی اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء سے فارغ ہو کر فجر تک آرام فرمایا ، اور اس رات تہجد یکسر ناغہ کیا ، دو رکعتیں بھی نہیں پڑھیں (حالانکہ تہجد آپ سفر میں بھی ناغہ نہیں کرتے تھے) اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ نویں کے پورے دن آپ سخت مشغول رہے تھے ۔ صبح کو منیٰ سے چل کر عرفات پہنچے ، جہاں پہلے خطبہ دیا ، پھر ظہر و عصر کی نماز پڑھی اور اس کے بعد وسے مغرب تک مسلسل وقوف فرمایا ، پھر اسی وقت عرفات سے مزدلفہ تک کی مسافت طے کی ، گویا فجر سے لے کر عشاء تک مسلسل حرکت اور مشقت ، اور اگلے دن ۱۰ ذی الحجہ کو بھی اسی طرح مشغول رہنا تھا ، یعنی صبح کو مزدلفہ سے چل کر منیٰ پہنچنا ، وہاں جا کر پہلے رمی کرنا ، اس کے بعد صرف ایک یا دو یا دس بیس نہیں بلکہ ساٹھ سے بھی اوپر اونٹوں کی قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا ، اس کے بعد طواف زیارت کے لیے منیٰ سے مکہ جانا اور وہاں سے پھر منیٰ واپس آنا ۔ بہر حال نویں اور دسویں ذی الحجہ کا پروگرام چونکہ اس قدر بھرا ہوا اور پر مشقت تھا ، اس لیے ان دونوں کی مزدلفہ والی درمیانی رات میں پوری طرح آرام فرمانا ضروری تھا ۔ جسم اور جسمانی قوتوں کے لیے بھی کچھ حقوق ہین اور ان کی رعایت خاص کر ایسے مجمعوں میں ضروری ہے ، تا کہ سہولت اور رعایت کا پہلو بھی عوام کے علم میں آئے اور وہ شریعت کے صحیح اور معتدل مزاج کو سمجھ سکیں ۔ واللہ اعلم ۔
اس حدیث میں صراحۃً مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (۶۳) اونٹ اپنے ہاتھ سے قربان کئے ۔ یہ غالباً وہی تریسٹھ (۶۳) اونٹ تھے جو آپ مدینہ طیبہ سے اپنے ساتھ قربانی کے لیے لائے تھے ، باقی سینتیس اونٹ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے وہ آپ نے انہی کے ہاتھ سے قربان کرائے ، تریسٹھ کے عدد کی یہ حکمت بالکل کھلی ہوئی ہے کہ آپ کی عمر تریسٹھ سال تھی ، گویا زندگی کے ہر سال کے شکر میں آپ نے ایک اونٹ قربان کیا ۔ واللہ اعلم ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی قربانی کے اونٹوں کا گوشت پکوا کے کھایا ، اور شوربا پیا ، اس سے یہ بات سب کو معلوم ہو گئی کہ قربانی کرنے والا اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور اپنے اعزہ کو بھی کھلا سکتا ہے ۔
۱۰ ذی الحجہ کو قربانی سے فارغ ہونے کے بعد آپ طواف زیارت کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے ۔ مسنون اور بہتر یہی ہے کہ طواف زیارت قربانی سے فارغ ہونے کے بعد ۱۰ ذی الحجہ ہی کو کر لیا جائے ، اگرچہ تاخیر کی بھی اس میں گنجائش ہے ۔
زمزم کا پانی کھینچ کھینچ کر حجاج کو پلانا یہ خدمت اور سعادت زمانہ قدیم سے آپ کے گھرانے بنی عبدالمطلب ہے کے حصے میں تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت سے فارغ ہونے کے بعد زمزم پر تشریف لائے ، وہاں آپ کے اہل خاندان ڈول کھینچ کھینچ کر لوگوں کو اس کا پانی پلا رہے تھے ۔ آپ کا بھی جی چاہا کہ اس خدمت میں کچھ حصہ لیں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صحیح سوچا کہ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کے اتباع اور تقلید میں آپ کے سارے رفقاء بھی اس سعادت میں حصہ لینا چاہیں گے ک ، اور پھر بنی عبدالمطلب جن کا یہ قدیمی حق ہے وہ محروم ہو جائیں گے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خاندان کی دلداری اور اظہار تعلق کے لیے اپنی دلی خواہش کا اظہار تو فرما دیا ، مگر ساتھ ہی وہ مصلحت بھی بیان فرما دی جس کی وجہ سے آپ نے اپنی اس دلی خواہش کے قربان کر دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔
جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا تھا ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حجۃ الوداع کے بیان میں سب سے طویل اور مفصل حدیث ہے ، لیکن پھر بھی بہت سے واقعات کا ذکر اس سے چھوٹ گیا ہے ، یہاں تک کہ حلق اور دسویں تاریخ کے خطبہ کا بھی اس میں ذکر نہیں آیا ہے جو دوسری حدیثوں میں مذکور ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے بعد راویوں نے اسی حدیث میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ :
نَحَرْتُ هَاهُنَا ، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ ، فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ (رواه مسلم)
میں نے قربانی اس جگہ کی ہے لیکن منیٰ کا سارا علاقہ قربانی کی جگہ ہے اس لیے تم سب لوگ اپنی اپنی جگہ قربانی کر سکتے ہو ، اور میں نے عرفات میں وقوف (پتھر کی بڑی بڑی چٹانوں کے قریب کیا ہے) اور سارا عرفات وقوف کی جگہ ہے (اس کے جس حصہ میں بھی وقوف کیا جائے صحیح ہے) اور میں نے مزدلفہ میں یہاں (مشعر حرام کے قریب) قیام کیا اور سارا مزدلفہ موقف ہے (اس کے جس حصے میں بھی اس رات میں قیام کیا جائے صحیح ہے) ۔
ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا ، حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ ، وَدَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ ، حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى « أَيُّهَا النَّاسُ ، السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ » كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا ، حَتَّى تَصْعَدَ ، حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ ، فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ ، وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ، ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ ، وَصَلَّى الْفَجْرَ ، حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ ، بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ ، حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا ، فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ ، وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا ، فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ ظُعُنٌ يَجْرِينَ ، فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ ، فَحَوَّلَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ ، فَحَوَّلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ ، يَصْرِفُ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ ، حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرٍ ، فَحَرَّكَ قَلِيلًا ، ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى ، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ ، فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا ، مِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ ، رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ ، فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ ، ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا ، فَنَحَرَ مَا غَبَرَ ، وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ ، فَطُبِخَتْ ، فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ ، فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ ، فَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ ، فَقَالَ : « انْزِعُوا ، بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ » فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯৪
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج میں اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائئی ۔ (صحیح مسلم)
عَنْ جَابِرٍ « نَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنْ نِسَائِهِ بَقَرَةً فِي حَجَّتِهِ » (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯৫
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ آپ کی قربانیوں کا انتظام و انصرام کروں اور ان کا گوشت اور کھالیں اور جھولیں صدقہ کر دوں اور قصاب کو (بطور اجرت اور حق المحنت کے) ان میں سے کوئی چیز نہ دوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہم ان کو اجرت الگ اپنے پاس سے دیں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : « أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ ، وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِهَا وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا ، وَأَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا » ، قَالَ : « نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯৬
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (۱۰ ذی الحجہ کو صبح مزدلفہ سے) منیٰ تشریف لائے تو پہلے جمرۃ العقبیٰ پر پہنچ کر اس کی رمی کی ۔ پھر آپ اپنے خیمہ پر تشریف لائے اور قربانی کے جانوروں کی قربانی کی ، پھر آپ نے حجام کو طلب فرمایا اور پہلے اپنے سر مبارک کی داہنی جانت اس کے سامنے کی ، اس نے اس جانب کے بال مونڈے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ انصاری کو طلب فرمایا اور وہ بال ان کے حوالے کر دئیے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کی بائیں جانب حجام کے سامنے کی اور فرمایا کہ اب میں اس کو بھی مونڈو ، اس نے اس جانب کو بھی مونڈ دیا ، تو آپ نے وہ بال بھی ابو طلحہ ہی کے حوالے فرما دئیے اور ارشاد فرمایا کہ ان بالوں کو لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا مفصل حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر منڈوانے کا یہواقعہ ذکر سے چھوٹ فیا ہے ، حالانکہ یہ حج کے سلسلے کے دسویں ذی الحجہ کے خاص اعمال اور مناسک میں سے ہے ۔
جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا ، حلق (سر منڈوانے) کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ داہنی جانب کے بال صاف کرائے جائیں اور پھر بائیں جانب کے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اپنے بال او طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے ۔ یہ ابو طلحہ آپ کے خاص محبین اور فدائیوں میں سے تھے ۔ غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں کے حملے سے بچانے کے لیے انہوں نے اپنا جسم تیروں سے چھلنی کرا لیا تھا ، اس کے علاوہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راحت و آرام اور آپ کے ہاں آنے والے مہمانوں کا بھی یہ بڑا خیال رکھتے تھے ۔ الغرض اس قسم کی خدمتوں میں ان کا اور ان کی بیوی ام سلیم (والدہ انس رضی اللہ عنہ) کا ایک خاص مقام تھا ۔ غالباً ان کی انہی خصوصی خدمات کی وجہ سے آپ نے سر مبارک کے بال ان کو مرحمت فرمائے اور دوسروں کو بھی انہی کے ہاتھوں تقسیم کرائے ..... یہ حدیث اہل اللہ اور صالحین کے تبرکات کے لیے بھی واضح اصل اور بنیاد ہے ۔ بہت سے مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو “ موئے مبارک ” بتائے جاتے ہیں ان مین سے جن کے بارے میں قابل اعتماد تاریخی ثبوت اور سند موجود ہے ، غالب گمان یہ ہے کہ وہ حجۃ الوداع کے تقسیم کئے ہوئے انہی بالوں میں سے ہوں گے ....... بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک ایک دو دو بال تقسیم کئے تھے ، اس طرح ظاہر ہے کہ وہ ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس پہنچے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے ، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے اخلاف نے اس مقدس تبرک کی حفاظت کا کافی اہتمام کیا ہو گا ، اس لئے ان میں سے بہت سے اگر اب تک بھی کہیں کہیں محفوظ ہوں وت کوئی تعجب کی بات نہیں ..... لیکن قابل اعتماد تاریخی ثبوت اور سند کے بغیر کسی بال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا “ موئے مبارک ” قرار دینا بڑی سنگین بات اور گناہ عظیم ہے ، اور بہر حال (اصلی ہو یا فرضی) اسکو اور اس کی زیارت کو ذریعہ تجارت بنانا جیسا کہ بہت سی جگہوں پر ہوتا ہے بدترین جرم ہے ۔
عَنْ أَنَسٍ « أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى مِنًى ، فَأَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ، ثُمَّ أَتَى مَنْزِلَهُ بِمِنًى وَنَحَرَ نُسُكُهُ ، ثُمَّ دَعَا باِلْحَلَّاقِ وَنَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْأَيْسَرَ » ، فَقَالَ : « احْلِقْ فَحَلَقَهُ ، فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ » ، فَقَالَ : « اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯৭
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا : “ اللہ کی رحمت ہو ان پر جنہوں نے یہاں اپنا سر منڈوایا ۔ ” حاضرین نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! رحمت کی یہی دعا بال ترشوانے والوں کے لیے بھی فرما دیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ : “ اللہ کی رحمت ہو سر منڈوانے والوں پر ۔ ” ان لوگوں نے پھر وہی عرض کیا : تو تیسری دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : “ اور ان لوگوں پر بھی اللہ کی رحمت ہو جنہوں نے یہاں بال ترشوائے ۔ ”

تشریح
عادت یا ضرورت کے طور پر بال منڈوانا یا ترشوانا کوئی عبادت نہیں ہے ، لیکن حج و عمرہ میں جو بال منڈوائے یا ترشوائے جاتے ہیں یہ بندہ کی طرف سے عبدیت ارو تذلل کا ایک اظہار ہے اس لیے خاص عبادت ہے ، اور اسی نیت سے منڈوانا یا ترشوانا چاہئے اور چونکہ عبدیت اور تذلل کا اظہار سر منڈوانے میں زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہی افضل ہے ، اور اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے رحمت میں اس کو ترجیح دی ۔ واللہ اعلم ۔
عَنِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : فِىْ حَجَّةِ الْوِدَاعِ « اللَّهُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِينَ » قَالُوا : وَالمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : « اللَّهُمَّ ارْحَمِ المُحَلِّقِينَ » قَالُوا : وَالمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : « وَالمُقَصِّرِينَ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯৮
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخصتی حج
حضرت ابو بکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع) میں دسویں ذی الحجہ کو خطبہ دیا ۔ جس مین فرمایا : زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس اصلی ہیئت پر آ گیا ہے جس پر وہ زمین و آسمان کی تخلیق کےک وقت تھا .... سال پورے بارہ مہینہ کا ہوتا ہے ، ا ن میں سے ۴ مہینے خاص طور سے قابل احترام ہیں ۔ تین مہینے تو مسلسل ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور چوتھا وہ رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے اور جس کو قبیلہ مضر زیادہ مانتا ہے ..... اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بتاؤ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ : اللہ و رسول کو ہی زیادہ علم ہے ۔ اس کے بعد کچھ دیر آپ خاموش رہے ، یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ اب آپ اس مہینہ کا کوئی اور نام مقرر کریں گے ۔ (لیکن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ “ ذی الحجہ ” کا مہینہ نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا : بے شک یہ ذی الحجہ ہی ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بتلاؤ یہ کونسا شہر ہے ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ : اللہ و رسول ہی کو زیادہ علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے ، یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ اب آپ اس شہر کا نام مقرر کریں گے ۔ (لیکن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ “ بلدہ ” کا نہیں ہے ؟ (مکہ کے معروف ناموں مین ایک “ بلدہ ” تھا) ہم نے عرض کیا : بے شک ایسا ہی ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کون سا دن ہے ؟ ہم عرض کیا کہ : اللہ و رسول ہی کو زیادہ علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آج “ یوم النحر ” نہیں ہے ؟ (یعنی ۱۰ ذی الحجہ جس میں قربانی کی جاتی ہے) ۔ ہم نے عرض کیا : بے شک یہ آج یوم النحر ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے خون اور تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں حرام ہیں تم پر (یعنی کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ ناحق کسی کا خون کرے ، یا کسی کے مال پر یا اس کی آبرو پر دست درازی کرے ۔ یہ سب تم پر ہمیشہ کے لیے حرام ہیں جیسا کہ آج کے مبارک اور مقدس دن میں خاص اس شہر اور اس مہینہ میں تم کسی کی جان لینا یا اس کا مال یا اس کی آبرو لوٹنا حرام سمجھتے ہو (بالکل اسی طرح یہ باتیں تمہارے واسطے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں) ..... اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور عنقریب (مرنے کے بعد آخرت میں) اپنے پروردگار کے سامنے تمہاری پیشی ہو گی ، اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا ۔ دیکھو ، میں خبردار کرتا ہوں کہ تم میرے بعد ایسے گمراہ نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردنیں مارنے لگیں ...... (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :) بتاؤ کیا میں نے اللہ کا پیام تم کو پہنچا دیا ؟ سب نے عرض کیا : بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا حق ادا فرما دیا ۔ (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر کہا) : اللَّهُمَّ اشْهَدْ (اے اللہ ! تو گواہ رہ) (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے فرمایا) : جو لوگ یہاں حاضر اور موجود ہیں (اور انہوں نے میری بات سنی ہے) وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ۔ بہت سے وہ لوگ جن کو کسی سننے والے سے بات پہنچے اس سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں (اور وہ اس علم کی امانت کا حق ادا کرتے ہیں) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس خطبہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی حصے میں زمانہ کے گھوم پھر کے اپنے اصلی ابتدائی ہیئت پر آ جانے کا جو ذکر ہے اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جاہلیت میں اہل عرب کا ایک گمراہانہ دستور اور طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی خاص مصلحتوں کے تحت کبھی کبھی سال تیرہ مہینے کا قرار دے دیتے تھے اور اس کے لیے ایک مہینہ کو مکرر مان لیتے تھے ۔ اس کا لازی نتیجہ یہ تھا کہ مہینوں کا سارا نظام غلط اور حقیقت کے خلاف تھا ، اس لے حج جو ان کے حساب سے ذی الحجہ میں ہوتا تھا دراصل ذی الحجہ میں نہیں ہوتا بلکہ جاہلیت کے پچاسوں اور سینکڑوں برس کے چکر کے بعد ایسا ہوا کہ ان اہل عرب کے حساب سے مثلاً جو محرم کا مہینہ تھا وہی اصل آسمانی حساب سے بھی محرم کا مہینہ تھا ، اسی طرح جو اہل عرب کے حساب سے ذی الحجہ کا مہینہ تھا وہی اصل آسمانی حساب سے ذی الحجہ کا مہینہ تھقا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے ابتدائی حصے میں یہی بات فرمائی ہے ، اور یہ بتلایا ہے کہ یہ ذی الحجہ جس میں یہ حج ادا ہو رہا ہے اصل آسمانی حساب سے بھی ذی الحجہ ہی ہے اور سال بارہ ہی مہینہ کا ہوتا ہے ، اور آئندہ صرف یہی اصلی اور حقیقی نظام چلے گا ۔
خطبہ کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص وصیت و ہدایت امت کو یہ فرمائی کہ میرے بعد باہم جدال و قتال اور خانہ جنگی میں مبتلا نہ ہو جانا ، اگر ایسا ہوا تو یہ انتہائی گمراہی کی بات ہو گی ..... اسی خطبے کی بعض روایات میں “ ضلالاً ” کے بجائے “ کفارا ” کا لفظ آیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ باہم جدال و قتال اور خانہ جنگی اسلام کے مقاصد اور اس کی روح کے بالکل خلاف کافرانہ رویہ ہو گا ، اور اگر امت اس میں مبتلا ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے اسلام رویہ کے بجائے کافرانہ طرز عمل اختیار کر لیا ۔
امت کو یہ آگاہی آپ نے بہت سے اہم خطبوں میں دی تھی اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ پر کسی درجہ پر منکشف ہو چکا تھا کہ شیطان اس امت کے مختلف طبقوں کو باہم لڑانے اور بھڑکانے میں بہت کامیاب ہو گا ..... وَكَانَ ذَالِكَ قَدَرًا مَّقْدُورًا
عَنْ أَبِي بَكَرَةَ قَالَ : خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ "إِنَّ الزَّمَانَ اسْتَدَارَ كَهَيْئَةِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ : ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ : ذُو القَعْدَةِ ، وَذُو الحِجَّةِ ، وَالمُحَرَّمُ ، وَرَجَبُ مُضَرَ ، الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ ، وَقَالَ أَيُّ شَهْرٍ هَذَا " ، فَقُلْنَا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ ، قَالَ : « أَلَيْسَ ذَا الحِجَّةِ » ، قُلْنَا : بَلَى ، قَالَ : « أَيُّ بَلَدٍ هَذَا » . قُلْنَا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ ، قَالَ : « أَلَيْسَ البَلْدَةَ » . قُلْنَا : بَلَى ، قَالَ : « فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا » . قُلْنَا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ ، قَالَ : « أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ » . قُلْنَا : بَلَى ، قَالَ : " فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ ، وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا ، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا ، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ ، فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ ، أَلاَ فَلاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي ضُلَّالًا ، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ، أَلاَ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوْا نَعَمْ قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ" (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৯৯৯
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے خادم نافع سے روایت ہے کہ : عبداللہ بن عمر جب بھی مکہ آتے تو اس میں داخلہ سے پہلے رات ذی طویٰ میں گذارتے (جو مکہ کے قریب ایک بستی تھی) یہاں تک کہ صبح ہونے پر غسل کرتے اور نماز پڑھتے ، اور اس کے بعد دن کے وقت میں مکہ معظمہ میں داخل ہوتے ، اور جب مکہ معظمہ سے واپس لوٹتے تو بھی ذی طویٰ میں رات گذار کر صبح کو وہاں سے روانہ ہوتے ، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور بھی یہی تھا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حجۃ الوداع کے سلسلہ میں حج کے قریباً سارے ہی اعمال و مناسک کا ذکر واقعہ کی شکل میں آ چکا ہے ، اب الگ الگ س کے اہم افعال و ارکان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور آپ کا طرز عمل معلوم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے ۔

مکہ معظمہ کو اللہ تعالیٰ نے کعبہ مکرمہ کی نسبت سے جو خاص شرف بخشا ہے اور اس کی بلد اللہ الحرام اور مرکز حج قرار دیا ہے اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس میں داخلہ اہتمام اور احترام کے ساتھ ہو ، اور اس کے بعد کعبہ مقدسہ کا حق ہے کہ سب سے پہلے اس کا طواف کیا جائے اور پھر اسی کعبہ کے ایک گوشہ میں جو ایک خاص مبارک پتھر (حجر اسود) لگا ہوا ہے (جس کو اللہ تعالیٰ سے اور جنت سے خاص نسبت ہے) اس کا حق ہے کہ طواف کا آغاز ادب اور محبت کے ساتھ اس کے استلام سے کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے یہی سکھایا تھا ۔
عَنْ نَافِعٍ قَالَ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ : « كَانَ لَا يَقْدَمُ مَكَّةَ إِلَّا بَاتَ بِذِي طَوًى ، حَتَّى يُصْبِحَ وَيَغْتَسِلَ فَيَدْخُلُ مَكَّةَ نَهَارًا ، وَإِذَا نَفَرَ مِنْهَا مَرَّ بِذِىْ طُوًى وَبَاتَ بِهَا حَتَّى يُصْبِحَ وَيَذْكُرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ فَعَلَهُ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০০০
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو سب سے پہلے حجر اسود پر آئے اور اس کا استلام کیا ، پھر آپ نے داہنی طرف طواف کیا ، جس میں پہلے تین چکروں میں آپ نے رمل کیا ، اور اس کے بعد چار چکروں میں آپ چار چکروں میں آپ اپنی عادی رفتار سے چلے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
ہر طواف حجر اسود کے استلام سے شروع ہوتا ہے ، استلام کا مطلب ہے حجر اسود کو چومنا یا اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر یا ہاتھ اس کی طرف کر کے اپنے اس ہاتھ ہی کو چوم لینا ۔ بس یہ استلام کر کے طواف شروع کیا جاتا ہے ، اور ہر طواف میں خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے جاتے ہیں ۔
رمل ایک خاص انداز کی چال کو کہتے ہیں جس میں طاقت و قوت کا اظہار ہوتا ہے ۔ روایات میں ہے کہ ۷؁ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ عمرہ کے لیے مکہ معظمہ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپس میں کہا کہ یثرب یعنی مدینہ کی آب و ہوا کی خرابی اور بخار وغیرہ وہاں کی بیماریوں نے ان لوگوں کو کمزور اور دبلا پتلا کر دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کی چال چلی جائے ، اور اس طرح طاقت و قوت کا مظاہرہ کیا جائے ، چنانچہ اسی پر عمل کیا گیا ..... لیکن اللہ تعالیٰ کو اس وقت کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اس کو مستقل سنت قرار دے دیا گیا ۔ اب یہی طریقہ جاری ہے کہ حج یا عمرہ کرنے والا جو پہلا طواف کرتا ہے جس کے بعد اس کو صفا ، مروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہوتی ہے ۔ اس کے پہلے تین چکروں مین رمل کیا جاتا ہے ، اور باقی چار چکر اپنی عادی رفتار سے کئے جاتے ہیں ۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ : « أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ أَتَى الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ ، ثُمَّ مَشَى عَلَى يَمِينِهِ ، فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا »
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০০১
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تو مکہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے حجر اسود کے قریب پہنچ کر آپ نے اس کا استلام کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا ، پھر صفا پہاڑی پر آئے اور اس کے اتنے اوپر چڑھ گئے کہ بیت اللہ نظر آنے لگا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے (جس طرح دعا میں اٹھائے جاتے ہیں) اور پھر جتنی دیر تک آپ نے چاہا آپ اللہ کے ذکر و دعا میں مشغول رہے ۔ (سنن ابی داؤد)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : « أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ مَكَّةَ فَأَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ ثُمَّ أَتَى الصَّفَا فَعَلَاهُ حَتَّى يَنْظُرُ إِلَى الْبَيْتِ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَذْكُرُ اللَّهَ مَا شَاءَ وَيَدْعُوهُ » (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০০২
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک خمدار چھڑی تھی اسی سے آپ حجر اسود کا استلام کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اوپر صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طواف کے بارے میں یہ صریح الفاظ ہیں : ثُمَّ مَشَى عَلَى يَمِينِهِ ، فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کا استلام کرنے کے بعد داہنی جانب کو چلے (اور طواف شروع کیا ۔ پھر تین چکروں میں تو آپ نے رمل کیا اور چار چکر آپ نے اپنی عادی رفتار سے لگائے) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف اپنے پاؤں پر چل کر کیا تھا ۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کا تذکرہ ہے ۔ لیکن ان دونوں بیانوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں مکہ معظمہ پہنچنے کے بعد پہلا طواف پیادہ پا کیا تھا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اسی کا ذکر کیا ہے ، اور اس کے بعد دسویں ذی الحجہ کو منیٰ سے مکہ آ کر جو طواف کیا تھا وہ اونٹ پر کیا تھا ، تا کہ سوالات کرنے والے آپ سے سوالات کر سکیں ، گویا آپ کی اونٹنی اس وقت آپ کے لیے منبر بنی ہوئی تھی ، اور غالباًٍ اپنے عمل سے اس کا اظہار بھی مقصود تھا کہ خاص حالات میں سواری پر بھی طواف کیا جا سکتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : طَافَ النَّبِيُّ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ ، عَلَى بَعِيرٍ ، يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ ، بِمِحْجَنٍ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০০৩
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (حجۃ الوداع میں) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : مجھے بیماری کی تکلیف ہے (میں طواف کیسے کروں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے پیچھے طواف کر لو ، تو میں نے اسی طرح طواف کیا ، اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پہلو میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ، اور اس میں سورہ طور تلاوت فرما رہے تھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ : شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَشْتَكِي فَقَالَ : « طُوفِي مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ رَاكِبَةٌ » فَطُفْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جَنْبِ البَيْتِ يَقْرَأُ بِالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০০৪
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم لوگ (حجۃ الوداع والے سفر میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے چلے ۔ ہماری زبانوں پر بس حج ہی کا ذکر تھا ، یہاں تک کہ جب (مکہ کے بالکل قریب) مقام سرف پر پہنچے (جہاں سے مکہ صرف ایک منزل رہ جاتا ہے) تو میرے وہ دن شروع ہو گئے جو عورتوں کو ہر مہینے آتے ہیں ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ) میں تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ میں بیٹھی رو رہی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شاید تمہارے ماہواری ایام شروع ہو گئے ہیں ؟ .... میں نے عرض کیا کہ : ہاں ! یہی بات ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (رونے کی کیا بات ہے) یہ تو ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدمؑ کی بیٹیوں (یعنی سب عورتوں) کے ساتھ لازم کر دی ہے ، تم وہ سارے عمل کرتی رہو جو حاجیوں کو کرنے ہوتے ہیں سوائے اس کے کہ بیت اللہ کا طواف اس وقت تک نہ کرو جب تک اس سے پاک صاف نہ ہو جاؤ ..... (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ نَذْكُرُ إِلَّا الحَجَّ ، فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ طَمِثْتُ ، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي ، فَقَالَ : « لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟ » قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : « فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০০৫
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : بیت اللہ کا طواف نماز کی طرح کی عبادت ہے ، بس یہ فرق ہے کہ طواف میں تم کو باتیں کرنے کی اجازت ہے ، تو جو کوئی طواف کی حالت میں کسی سے بات کرے تو نیکی اور بھلائی ہی کی بات کرے (لغو و فضول یا ناجائز باتوں سے طواف کو مکدر نہ کرے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن دارمی)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الطَّوَافُ حَوْلَ البَيْتِ مِثْلُ الصَّلاَةِ ، إِلاَّ أَنَّكُمْ تَتَكَلَّمُونَ فِيهِ ، فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ فَلاَ يَتَكَلَّمَنَّ إِلاَّ بِخَيْرٍ. (رواه الترمذى والنسائى والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০০৬
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حج کے اہم افعال و ارکان: مکہ میں داخلہ اور پہلا طواف
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ : حجر اسود اور رکن کمانی ان دونوں پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : جس نے اللہ کے اس گھر کا سات بار طواف کیا اور اہتمام اور فکر کے ساتھ کیا (یعنی سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ کیا) تو اس کا یہ عمل ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہو گا ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : بندہ طواف کرتے ہوئے جب ایک قدم رکھے گا اور دوسرا قدم اٹھائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ ایک گناہ معاف کرے گا اور ایک نیکی کا ثواب اس کے لیے لکھا جائے گا ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حدیث کے لفظ “ مَنْ طَافَ بِهَذَا البَيْتِ أُسْبُوعًا ” کا ترجمہ ہم نے سات بار طواف کرنا کیا ہے ۔ شارحین نے لکھا ہے کہ اس میں تین احتمال ہیں : اول طواف کے سات چکر (یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ ایک طواف میں بیت اللہ کے ساتھ چکر کئے جاتے ہیں) اور دوسرا احتمال ہے پورے ساتھ طواف جس کے انچاس چکر ہوں گے اور تیسرا احتمال ہے بلا ناغہ سات دن طواف ........ لیکن بظاہر پہلا راجح ہے ۔ واللہ اعلم ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ مَسْحَهُمَا (الْحَجَرِ الْاَسْوَدِ وَالرُّكْنُ الْيَمَانِىْ) كَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا وَسَمِعْتُهُ ، يَقُولُ : مَنْ طَافَ بِهَذَا البَيْتِ أُسْبُوعًا فَأَحْصَاهُ كَانَ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : لاَ يَضَعُ قَدَمًا وَلاَ يَرْفَعُ أُخْرَى إِلاَّ حَطَّ اللَّهُ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً وَكَتَبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةً. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০০৭
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجر اسود
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا : خدا کی قسم ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو نئی زندگی دے کر اس طرح اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا ، اور زبان ہو گی جس سے وہ بولے گا ، اور جن بندوں نے اس کا استلام کیا ہو گا ان کے حق میں سچی شہادت دے گا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)

تشریح
حجر اسود دیکھنے میں پتھر کا ایک ٹکڑا ہے ، لیکن اس میں ایک روحانیت ہے اور وہ ہر اس شخص کو پہچانتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نسبت سے ادب اور محبت کے ساتھ اس کو بلا واسطہ یا بالواسطہ چومتا ہے اور اس کا استلام کرتا ہے ، قیامت میں اللہ تعالیٰ اوس کو ایک دیکھنے اور بولنے والی ہستی بنا کر کھڑا کرے گا اور وہ ان بندوں کے حق میں شہادت دے گا جو اللہ کے حکم کے مطابق عاشقانہ اور نیاز مندانہ شان کے ساتھ اس کا استلام کرتے تھے ۔
عَنِ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَيَأْتِيَنَّ هَذَا الْحَجَرُ ، يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا ، وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ ، يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ ، بِحَقٍّ » (رواه الترمذى وابن ماجه والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১০০৮
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ حجر اسود
عابس بن ربیۃ تابعی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اور کہتے تھے میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے (تیرے اندر کوئی خدائی صفت نہیں ہے) نہ تو کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقسان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا ، تو میں تجھے نہ چومتا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات بالاعلان اور علی رؤس الاشہاد اس لیے کہی کہ کوئی ناتربیت یافتہ نیا مسلمان حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے اکابر مسلمین کا حجر اسود کو چومنا دیکھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اس پتھر میں کوئی خدائی کرشمہ اور خدائی صفت اور بناؤ بگاڑ کی کوئی طاقت ہے ، اور اس لیے اس کو چوما جا رہا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے ایک اصولی اور بنیادی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی چیز کی جو تعظیم و تکریم اس نظریہ سے کی جائے کہ اللہ و رسول کا حکم ہے ۔ وہ تعظیم برحق ہے ، لیکن اگر کسی مخلوق کو نافع اور ضار اور بناؤ بگاڑ کا مختار یقین کر کے اس کی تعظیم کی جائے تو وہ شرک کا ایک شعبہ ہے ، اور اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ۔
عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ ، وَيَقُولُ : « إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ ، مَاتَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ » (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক: