মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
کتاب المعاملات - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৮১ টি
হাদীস নং: ১০০৯
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ طواف میں ذکر اور دعا
حضرت عبداللہ بن السائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (طواف کی حالت میں) رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان (کی مسافت میں) یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا : رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ . (سنن ابنی داؤد)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : « مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ » (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১০
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ طواف میں ذکر اور دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جو ہر اس بندے کی دعا پر آمین کہتے ہیں جو اس کے پاس یہ دعا کرے کہ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. (اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت مانگتا ہوں ۔ اے پروردگار ! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچا !)
عَنْ أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " وُكِلَ بِهِ سَبْعُونَ مَلَكًا (يعنى الركن اليمانى) ، فَمَنْ قَالَ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ، قَالُوا : آمِينَ " (رواه ابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১১
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ وقوف عرفہ کی اہمیت اور فضیلت
حضرت عبدالرحمن بن یعمر دئلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : حج (کا خاص الخاص رکن جس پر حج کا دار و مدار ہے) وقووف عرفہ ہے ، جو حاجی مزدلفہ والی رات میں (یعنی ۹ اور ۱۰ ذی الحجہ کی درمیانی شب میں) بھی صبح صادق سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے تو اس نے حج پا لیا اور اس کا حج ہو گیا ...... (یوم النحر یعنی ۱۰ ذی الحجہ کے بعد) منیٰ میں قیام کے عین دن میں (جن میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳ ذی الحجہ) اگر کوئی آدمی صرف دو دن میں یعنی (۱۱ ، ۱۲ کو رمی کر کے) جلدی منیٰ سے چل دے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے ، اور اگر کوئی ایک دن مزید ٹھہر کے (۱۳ ذی الحجہ کی رمی کر کے) وہاں سے جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ اور الزام نہیں ہے (دونوں باتیں جائز ہیں) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)
تشریح
حج کا سب سے اہم رکن نویں ذی الحجہ کو میدان عرفات کا وقوف ہے ، اگر یہ ایک لحظہ کے لیے بھی نصیب ہو گیا تو حج نصیب ہو گیا ، اور اگر کسی وجہ سے حاجی ۹ ذی الحجہ کے دن ، اور اس کے بعد والی رات کے کسی حصے میں بھی عرفات میں نہ پہنچ سکا تو اس کا حج فوت ہو گیا ۔ حج کے دوسرے ارکان و مناسک طواف ، سعی ، رمی ، جمرات وغیرہ اگر کسی وجہ سے فوت ہو جائیں تو ان کا کوئی نہ کوئی کفارہ اور تدارک ہے ، لیکن اگر وقوف عرفہ فوت ہو جائے تو اس کا کوئی تدارک نہیں ہے ۔
چونکہ وقوف عرفات پر حج کا دار و مدار ہے اس لیے اس میں اتنی وسعت رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی آدمی نویں ذی الحجہ کے دن میں عرفات نہ پہنچ سکے (جو وقوف کا اصلی وقت ہے) وہ اگر اگلی رات کے کسی حصے میں بھی وہاں پہنچ جائے تو اس کا وقوف ادا ہو جائے گا اور وہ حج سے محروم نہ سمجھا جائے گا ۔
یوم العرفہ کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو یوم النحر ہے جس میں ایک جمرہ کی رمی اور قربانی اور حلق وغیرہ کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں اور اسی دن مکہ جا کر طواف زیارت کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد منیٰ میں زیادہ سے زیادہ تین دن اور کم سے کم دو دن ٹھہر کر تینوں جمروں پر کنکریاں مارنا مناسک میں سے ہے ....... پس اگر کوئی شخص صرف دو دن ۱۱ ، ۱۲ ذی الحجہ کو رمی جمرات کر کے منیٰ سے چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ، اور اگر کوئی ۱۳ ذی الھجہ کو بھی ٹھہرے ، اور رمی کر لے ، تو یہ بھی جائز ہے ۔
تشریح
حج کا سب سے اہم رکن نویں ذی الحجہ کو میدان عرفات کا وقوف ہے ، اگر یہ ایک لحظہ کے لیے بھی نصیب ہو گیا تو حج نصیب ہو گیا ، اور اگر کسی وجہ سے حاجی ۹ ذی الحجہ کے دن ، اور اس کے بعد والی رات کے کسی حصے میں بھی عرفات میں نہ پہنچ سکا تو اس کا حج فوت ہو گیا ۔ حج کے دوسرے ارکان و مناسک طواف ، سعی ، رمی ، جمرات وغیرہ اگر کسی وجہ سے فوت ہو جائیں تو ان کا کوئی نہ کوئی کفارہ اور تدارک ہے ، لیکن اگر وقوف عرفہ فوت ہو جائے تو اس کا کوئی تدارک نہیں ہے ۔
چونکہ وقوف عرفات پر حج کا دار و مدار ہے اس لیے اس میں اتنی وسعت رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی آدمی نویں ذی الحجہ کے دن میں عرفات نہ پہنچ سکے (جو وقوف کا اصلی وقت ہے) وہ اگر اگلی رات کے کسی حصے میں بھی وہاں پہنچ جائے تو اس کا وقوف ادا ہو جائے گا اور وہ حج سے محروم نہ سمجھا جائے گا ۔
یوم العرفہ کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو یوم النحر ہے جس میں ایک جمرہ کی رمی اور قربانی اور حلق وغیرہ کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں اور اسی دن مکہ جا کر طواف زیارت کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد منیٰ میں زیادہ سے زیادہ تین دن اور کم سے کم دو دن ٹھہر کر تینوں جمروں پر کنکریاں مارنا مناسک میں سے ہے ....... پس اگر کوئی شخص صرف دو دن ۱۱ ، ۱۲ ذی الحجہ کو رمی جمرات کر کے منیٰ سے چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ، اور اگر کوئی ۱۳ ذی الھجہ کو بھی ٹھہرے ، اور رمی کر لے ، تو یہ بھی جائز ہے ۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَُرَ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ : الحَجُّ عَرَفَةٌ ، وَمَنْ أَدْرَكَ عَرَفَةَ قَبْلَ طُلُوْعِ الفَجْرِ فَقَدْ أَدْرَكَ الحَجَّ ..... أَيَّامُ مِنًى ثَلاَثَةٌ {فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ....}. (رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى وابن ماجه والدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১২
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ وقوف عرفہ کی اہمیت اور فضیلت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ اپنے بندوں کے لیے جہنم سے آزادی اور رہائی کا فیصلہ کرتا ہو (یعنی گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم سے آزادی کا سب سے بڑے اور وسیع پیمانے پر فیصلہ سال کے ۳۶۰ دنوں میں سے ایک دن یوم العرفہ میں ہوتا ہے) اس دن اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمت اور رافت کے ساتھ (عرفات میں جمع ہونے والے) اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہو جاتا ہے اور ان پر فخر کرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا ہے کہ : مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ دیکھتے ہو ! میرے یہ بندے کس مقصد سے یہاں آئے ہیں ؟ (صحیح مسلم)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ ، فَيَقُولُ : مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟ " (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৩
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ وقوف عرفہ کی اہمیت اور فضیلت
طلحہ بن عبیداللہ بن کریز (تابعی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : شیطان کسی دن بھی اتنا ذلیل خوار ، اتنا دھتکارا اور پھٹکارا ہوا اور اتنا جلا بھنا ہوا نہیں دیکھا گیا جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ذلیل و خوار رو سیاہ اور جلا بھنا دیکھا جاتا ہے اور یہ صرف اس لیے کہ وہ اس دن کی رحمت کو (موسلا دھار) برستے ہوئے اور بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا فیصلہ ہوتے ہوئے دیکھتا ہے (اور یہ اس لعین کے لیے ناقابل برداشت ہے) ۔ (موطا امام مالک مرسلاً)
تشریح
عرفات کے مبارک میدان میں ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو ، جو رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا خاص دن ہے جب ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں اللہ کے بندے فقیروں ، محتاجوں کی صورت بنا کر جمع ہوتے ہین اور اس کے حضور میں اپنے اور دوسروں کے لیے مغفرت اور رحمت کے لیے دعائیں اور آہ و زاری کرتے ہین اور اس کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے ہیں تو لا محالہ ارحم الراحمین کی رحمت کا اتھاہ سمندر جوش میں آ جاتا ہے ، اور پھر وہ اپنی شان کریمی کے مطابق گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم سے رہائی و آزادی کے وہ عظیم فیصلے فرماتا ہے کہ شیطان بس جل بھن کے رہ جاتا ہے اور اپنا سر پیٹ لیتا ہے ۔
تشریح
عرفات کے مبارک میدان میں ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو ، جو رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا خاص دن ہے جب ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں اللہ کے بندے فقیروں ، محتاجوں کی صورت بنا کر جمع ہوتے ہین اور اس کے حضور میں اپنے اور دوسروں کے لیے مغفرت اور رحمت کے لیے دعائیں اور آہ و زاری کرتے ہین اور اس کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے ہیں تو لا محالہ ارحم الراحمین کی رحمت کا اتھاہ سمندر جوش میں آ جاتا ہے ، اور پھر وہ اپنی شان کریمی کے مطابق گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم سے رہائی و آزادی کے وہ عظیم فیصلے فرماتا ہے کہ شیطان بس جل بھن کے رہ جاتا ہے اور اپنا سر پیٹ لیتا ہے ۔
عَنْ طَلْحَةَ بن عبيد الله بن كريز أن رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا رَأَى الشَّيْطَانُ يَوْمًا هُوَ فِيهِ أَصْغَرُ ، وَلَا أَدْحَرُ ، وَلَا أَحْقَرُوَلَا أَغْيَظُ مِنْهُ فِىْ يَوْمِ عَرَفَةَ ، وَمَا ذَاكَ اِلَّا لِمَا يَرَى مِنْ تَنَزُّلِ الرَّحْمَةِ وَتَجَاوُزِ اللهِ عَنِ الذُّنُوبِ الْعِظَامِ. (رواه مالك مرسلا)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৪
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ رمی جمرات
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جمرات پر کنکریاں پھینکنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا اور پھیرے لگانا (لہو و لعب کی باتیں نہیں ہیں ، بلکہ) یہ ذکر اللہ کی گرم بازاری کے وسائل ہیں ..... (جامع ترمذی ، سنن دارمی)
تشریح
منیٰ میں کافی کافی فاصلے سے تین جگہوں پر تین ستون بنے ہوئے ہیں ۔ انہی ستونوں کو جمرات کہا جاتا ہے ، ان جمرات پر کنکریاں پھینکنا بھی حج کے اعمال اور مناسک میں سے ہے ، دسویں ذی الحجہ کو صرف ایک جمرہ پر سات کنکریاں پھینکی جاتی ہیں ، اور ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳ ذی الحجہ کو تینوں جمروں پر سات سات کنکریاں پھینکی جاتی ہیں ..... ظاہر بات ہے کہ کنکریاں پھینکنا بذات خود کوئی نیک عمل نہیں ہے ، لیکن اللہ کے حکم سے ہر عمل میں عبادت کی شان پیدا ہو جاتی ہے ، اور بندگی یہی ہے کہ بے چوں و چرا اللہ کے حکم کی تعمیل کی جائے ، علاوہ ازیں اللہ کے بندے جب اللہ کے حکم سے اس کے جلال و جبروت کا دھیان کرتے ہوئے اور اس کی کبریائی کا نعرہ لگاتے ہوئے شیطانی خیالات و عادات اور نفسانی خواہشات و معصیات کو عالم تصور میں نشانہ بنا کر ان جمروں پر کنکریاں مارتے ہیں ، اور اس طرح گمراہی اور معصیت کو سنگسار کرتے ہیں تو ان کے قلوب کی اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے اور ان کے ایمان والے سینوں کو جو انشراح اور سرور و انبساط اس سے نصیب ہوتا ہے اس کا ذائقہ بس وہی جانتے ہیں ..... بہر حال اللہ کے حکم سے اور اس کا حکم نام لے کر جمروں پر کنکریاں پھینکنا بھی اہل بصیرت کی نگاہ میں ایک ایمان افروز عمل ہے ۔
تشریح
منیٰ میں کافی کافی فاصلے سے تین جگہوں پر تین ستون بنے ہوئے ہیں ۔ انہی ستونوں کو جمرات کہا جاتا ہے ، ان جمرات پر کنکریاں پھینکنا بھی حج کے اعمال اور مناسک میں سے ہے ، دسویں ذی الحجہ کو صرف ایک جمرہ پر سات کنکریاں پھینکی جاتی ہیں ، اور ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳ ذی الحجہ کو تینوں جمروں پر سات سات کنکریاں پھینکی جاتی ہیں ..... ظاہر بات ہے کہ کنکریاں پھینکنا بذات خود کوئی نیک عمل نہیں ہے ، لیکن اللہ کے حکم سے ہر عمل میں عبادت کی شان پیدا ہو جاتی ہے ، اور بندگی یہی ہے کہ بے چوں و چرا اللہ کے حکم کی تعمیل کی جائے ، علاوہ ازیں اللہ کے بندے جب اللہ کے حکم سے اس کے جلال و جبروت کا دھیان کرتے ہوئے اور اس کی کبریائی کا نعرہ لگاتے ہوئے شیطانی خیالات و عادات اور نفسانی خواہشات و معصیات کو عالم تصور میں نشانہ بنا کر ان جمروں پر کنکریاں مارتے ہیں ، اور اس طرح گمراہی اور معصیت کو سنگسار کرتے ہیں تو ان کے قلوب کی اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے اور ان کے ایمان والے سینوں کو جو انشراح اور سرور و انبساط اس سے نصیب ہوتا ہے اس کا ذائقہ بس وہی جانتے ہیں ..... بہر حال اللہ کے حکم سے اور اس کا حکم نام لے کر جمروں پر کنکریاں پھینکنا بھی اہل بصیرت کی نگاہ میں ایک ایمان افروز عمل ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّمَا جُعِلَ رَمْيُ الجِمَارِ ، وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ. (رواه الترمذى والدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৫
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ رمی جمرات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی چاشت کے وقت فرمائی اور اس کے بعد ایام تشریق میں جمرات کی رمی آپ نے زوال آفتاب کے بعد کی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہی سنت ہے کہ ۱۰ ذی الحجہ کو جمرۃ العقبہ کی رمی دوپہر سے پہلے کر لی جائے اور بعد کے دنوں میں زول کے بعد ۔
تشریح
یہی سنت ہے کہ ۱۰ ذی الحجہ کو جمرۃ العقبہ کی رمی دوپہر سے پہلے کر لی جائے اور بعد کے دنوں میں زول کے بعد ۔
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : « رَمَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى ، وَأَمَّا بَعْدَ ذَالِكَ فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ » (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৬
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ رمی جمرات
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رمی کے لیے جمرہ کبریٰ کے پاس پہنچے ، پھر اس طرح اس کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوئے کہ بیت اللہ (یعنی مکہ) اس کے بائیں جانب تھا اور منیٰ داہنی جانب ۔ اس کے بعد انہوں نے جمرہ پر سات کنکریاں ماریں ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے ۔ اس کے بعد فرمایا کہ : اسی طرح رمی کی تھی اس مقدس ہستی نے جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی (جس میں حج کے احکام اور مناسک کا بیان ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رمی کرنے کے طریقے کو تفصیل سے یاد رکھا تھا ، اور اسی کے مطابق عمل کر کے لوگوں کو دکھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر اللہ نے حج کے احکام نازل کئے گھے اسی طرح رمی کیا کرتے تھے ۔
تشریح
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رمی کرنے کے طریقے کو تفصیل سے یاد رکھا تھا ، اور اسی کے مطابق عمل کر کے لوگوں کو دکھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر اللہ نے حج کے احکام نازل کئے گھے اسی طرح رمی کیا کرتے تھے ۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ اَنَّهُ اِنْتَهَى اِلَى الْجَمْرَةِ الكُبْرَى فَجَعَلَ البَيْتَ عَنْ يَسَارِهِ وَمِنًى عَنْ يَمِينِهِ وَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا رَمَى الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ البَقَرَةِ » (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৭
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ رمی جمرات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (۱۰ ذی الحجہ کو) اپنی ناقہ پر سے رمی کرتے ہوئے دیکھا ، آپ اس وقت فرما رہے تھے کہ تم مجھ سے اپنے مناسک سیکھ لو ، میں نہیں جانتا کہ شاید اس حج کے بعد میں کوئی اور حج نہ کروں (اور پھر تمہیں اس کا موقع نہ ملے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
دسویں ذی الحجہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر مزدلفہ سے روانہ ہو کر منیٰ پہنچے تو اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقہ پر سوار ہونے ہی کی حالت میں جمرہ عقبہ کی رمی کی ، تا کہ سب لوگ آپ کو رمی کرتا ہوا دیکھ کر رمی کا طریقہ سیکھ لیں اور آسانی سے مسائل اور مناسک پوچھ سکیں ، لیکن دوسرے اور تیسرے دن آپ نے رمی پاپیادہ کی ...... بہر حال رمی سوار ہو کر بھی جائز ہے اور پا پیادہ بھی ۔
یہ اشارہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ : اہل ایمان مجھ سے مناسب اور دین و شریعت کے احکام سیکھ لیں ، شاید اب اس دنیا میں میرا قیام بہت زیادہ نہیں ہے ۔
تشریح
دسویں ذی الحجہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر مزدلفہ سے روانہ ہو کر منیٰ پہنچے تو اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقہ پر سوار ہونے ہی کی حالت میں جمرہ عقبہ کی رمی کی ، تا کہ سب لوگ آپ کو رمی کرتا ہوا دیکھ کر رمی کا طریقہ سیکھ لیں اور آسانی سے مسائل اور مناسک پوچھ سکیں ، لیکن دوسرے اور تیسرے دن آپ نے رمی پاپیادہ کی ...... بہر حال رمی سوار ہو کر بھی جائز ہے اور پا پیادہ بھی ۔
یہ اشارہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ : اہل ایمان مجھ سے مناسب اور دین و شریعت کے احکام سیکھ لیں ، شاید اب اس دنیا میں میرا قیام بہت زیادہ نہیں ہے ۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ : " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي عَلَى رَاحِلَتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ ، وَيَقُولُ : « لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ » (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৮
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ رمی جمرات
سالم بن عبداللہ اپنے والد ماجد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رمی جمرات کے بارے میں ان کا معمول اور دستور تھا کہ وہ پہلے جمرہ پر سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے ، اس کے بعد اگے نشیب میں اتر کر قبلہ رو کھڑے ہوتے اور ہاتھ اٹھا کے دیر تک دعا کرتے ، پھر درمیان والے جمرہ پر بھی اسی طرح سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر تکبیر کہتے ، پھر بائیں جانب نشیب میں اتر کر قبلہ ر کھڑے ہوتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کے دعا کرتے ، پھر آخری جمرہ (جمرۃ العقبہ) پر بطن وادی سے سات کنکریاں مارتے اور کے ساتھ اللہ اکبر کہتے اور اس جمرہ کے پاس کھڑے نہ ہوتے بلکہ واپس ہو جاتے ، اور بتاتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اور دوسرے جمروں کی رمی کے بعد قریب میں قبلہ رو کھڑے ہو کر دیر تک دعا کرتے تھے اور آخری جمرہ کی رمی کے بعد بغیر کھڑے ہوئے اور دعاکئے واپس ہو جاتے تھے ، یہی سنت ہے ۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں اس سنت پر عمل کرنے والے بلکہ اس کے جاننے والے بھی بہت کم ہیں ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اور دوسرے جمروں کی رمی کے بعد قریب میں قبلہ رو کھڑے ہو کر دیر تک دعا کرتے تھے اور آخری جمرہ کی رمی کے بعد بغیر کھڑے ہوئے اور دعاکئے واپس ہو جاتے تھے ، یہی سنت ہے ۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں اس سنت پر عمل کرنے والے بلکہ اس کے جاننے والے بھی بہت کم ہیں ۔
عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَرْمِي الجَمْرَةَ الدُّنْيَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ ، يُكَبِّرُ عَلَى إِثْرِ كُلِّ حَصَاةٍ ، ثُمَّ يَتَقَدَّمُ حَتَّى يُسْهِلَ ، فَيَقُومَ مُسْتَقْبِلَ القِبْلَةِ ، طَوِيلًا ، وَيَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ ، ثُمَّ يَرْمِي الوُسْطَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ ، يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحِصَاةٍ ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِذَاتِ الشِّمَالِ فََيُسْهَلُ ، وَيَقُومُ مُسْتَقْبِلَ القِبْلَةِ ، ثُمَّ يَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ ، وَيَقُومُ طَوِيلًا ، ثُمَّ يَرْمِي جَمْرَةَ ذَاتِ العَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ ، يُكَبِّرُ عِنْدَ كُلِّ حِصَاةٍ ، وَلاَ يَقِفُ عِنْدَهَا ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ ، فَيَقُولُ « هَكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ » (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০১৯
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ قربانی
عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن یوم النحر (قربانی کا دن یعنی ۱۰ ذی الحجہ کا دن) ہے (یعنی یوم العرفہ کی طرح یوم النحر بھی بڑی عظمت والا دن ہے) اس کے بعد اس سے اگلا دن یوم القر (۱۱ ذی الحجہ) کا درجہ ہے (اس لیے قربانی جہاں تک ہو سکے ۱۰ ذی الحجہ کو کر لی جائے) اور کسی وجہ سے ۱۰ ذی الحجہ کو نہ کی جا سکے تو ۱۱ کو ضرور کر لی جائے ۔ اس کے بعد (یعنی ۱۲ ذی الحجہ کو) اگر کی جائے تو ادا تو ہو جائے گی لیکن فضیلت کا کوئی درجہ ہاتھ نہ آئے گا) حدیث کے راوی عبداللہ بن قرط (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد اپنا یہ عجیب و غریب مشاہدہ) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ پانچ یا چھ اونٹ قربانی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لائے گئے تو ان میں سے ہر ایک آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا ، تا کہ پہلے اسی کو آپ ذبح کریں ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
قربانی کی عام فضیلت اور اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام ہدایات “ کتاب الصلوٰۃ ” میں عیدالاضحیٰ کے بیان میں ذکر کی جا چکی ہیں ، اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے ۶۳ اونٹوں کی ، اور آپ کے حکم پر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ۳۷ اونٹوں کی جو قربانی کی تھی ، اس کا ذکر حجۃ الوداع کے بیان میں گزر چکا ہے ، یہاں قربانی کے بارے میں صرف دو تین حدیثیں اور پڑھ لی جائیں ۔
تشریح ..... اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ وہ جانوروں میں ، بلکہ مٹی ، پتھر جیسے جمادات میں حقائق جکا شعور پیدا کر دے ۔ یہ ۵ ، ۶ اونٹ جو قربانی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کئے گئے تھے ان میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ شعور پیدا فرما دیا تھا کہ اللہ کی راہ میں اس کے محبوب اور برگزیدہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے قربان ہونا ان کی کتنی بڑی خوش بختی ہے اس لیے ان میں سے ہر ایک اس خواہش کے ساتھ آپ سے قریب ہونا چاہتا تھا کہ پہلے آپ اسی کو ذبح کریں ؎
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ اُمید آنکہ روزے بہ شکار خواہی آمد
تشریح
قربانی کی عام فضیلت اور اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام ہدایات “ کتاب الصلوٰۃ ” میں عیدالاضحیٰ کے بیان میں ذکر کی جا چکی ہیں ، اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے ۶۳ اونٹوں کی ، اور آپ کے حکم پر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ۳۷ اونٹوں کی جو قربانی کی تھی ، اس کا ذکر حجۃ الوداع کے بیان میں گزر چکا ہے ، یہاں قربانی کے بارے میں صرف دو تین حدیثیں اور پڑھ لی جائیں ۔
تشریح ..... اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ وہ جانوروں میں ، بلکہ مٹی ، پتھر جیسے جمادات میں حقائق جکا شعور پیدا کر دے ۔ یہ ۵ ، ۶ اونٹ جو قربانی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کئے گئے تھے ان میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ شعور پیدا فرما دیا تھا کہ اللہ کی راہ میں اس کے محبوب اور برگزیدہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے قربان ہونا ان کی کتنی بڑی خوش بختی ہے اس لیے ان میں سے ہر ایک اس خواہش کے ساتھ آپ سے قریب ہونا چاہتا تھا کہ پہلے آپ اسی کو ذبح کریں ؎
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ اُمید آنکہ روزے بہ شکار خواہی آمد
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرْطٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : « إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمُ النَّحْرِ ، ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ » . (قَالَ ثَوْرٌ وَهُوَ الْيَوْمُ الثَّانِي) قَالَ : وَقُرِّبَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَنَاتٌ خَمْسٌ أَوْ سِتٌّ فَطَفِقْنَ يَزْدَلِفْنَ إِلَيْهِ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২০
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ قربانی
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر) ہدایت فرمائی کہ تم میں سے جو کوئی قربانی کرے تو (اس کا گوشت بس تین دن تک کھا سکتا ہے) تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں اس قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہنا چاہیے ..... پھر جب اگلا سال آیا تو لوگوں نے دریافت کیا : کیا ہم اس سال بھی ایسا کریں جیسا کہ گزشتہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہم نے کیا تھا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (نہیں ! اس سال تین دن والی وہ پابندی نہیں ہے بلکہ اجازت ہے کہ جب تک چاہو) کھاؤ ، کھلاؤ اور محفوظ رکھو ۔ گزشتہ سال وہ ہدایت اس لیے دی گئی تھی کہ عوام کو (غذا کی کمی اور تنگدستی کی وجہ سے) کھانے پینے کی تکلیف تھی اس لیے میں نے چاہا کہ قربانی کے گوشت سے تم ان کی پوری مدد کرو (اس لیے میں نے عارضی اور وقتی طور پر وہ حکم دیا تھا ، اب جب کہ وہ ضرورت باقی نہیں رہی تمہارے لیے کھانے کھلانے اور محفوظ رکھنے کی پوری گنجائش ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلاَ يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَفِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ » فَلَمَّا كَانَ العَامُ المُقْبِلُ ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِي؟ قَالَ : « كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا ، فَإِنَّ ذَلِكَ العَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهِمْ » (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২১
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ قربانی
نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عیدالاضحیٰ کے موقع پر فرمایا) پہلے ہم نے قربانیوں کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے کی ممانعت کر دی تھی ، اور یہ پابندی اس لیے لگائی گئی تھی کہ سب لوگوں کو گوشت اچھی طرح مل جائے ، اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے (وہ تنگدستی اور فقر و فاقہ والی بات اب نہیں رہی ہے بلکہ) اللہ کے کرم سے لوگ اب خوشحال ہیں ، اس لیے (اب وہ پابندی نہیں ہے) اجازت ہے ، لوگ کھائیں اور محفوظ رکھیں ، اور قربانی کا ثواب بھی حاصل کریں ..... یہ دن کھانے پینے کے اور اللہ کی یاد کے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
جیسا کہ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا قربانی کے گوشت کے بارے میں اجازت ہے کہ جب تک چاہیں کھائیں اور رکھیں ۔ اور آخری حدیث کے آخری جملہ سے معلوم ہوا کہ ایام تشریق میں بندوں کا کھانا پینا بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ، گویا یہ دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی ضیافت کے دن ہیں ، لیکن اس کھانے پینے کے ساتھ اللہ کی یاد اور اس کی تکبیر و تمجید تقدیس و توحید سے بھی زبان تر رہنی چاہیے ..... اس کی آمیزش کے بغیر اللہ کے بندوں کے لیے ہر چیز بے ذائقہ ہے ۔
اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
تشریح
جیسا کہ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا قربانی کے گوشت کے بارے میں اجازت ہے کہ جب تک چاہیں کھائیں اور رکھیں ۔ اور آخری حدیث کے آخری جملہ سے معلوم ہوا کہ ایام تشریق میں بندوں کا کھانا پینا بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ، گویا یہ دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی ضیافت کے دن ہیں ، لیکن اس کھانے پینے کے ساتھ اللہ کی یاد اور اس کی تکبیر و تمجید تقدیس و توحید سے بھی زبان تر رہنی چاہیے ..... اس کی آمیزش کے بغیر اللہ کے بندوں کے لیے ہر چیز بے ذائقہ ہے ۔
اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
عَنْ نُبَيْشَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّا كُنَّا نَهَيْنَاكُمْ عَنْ لُحُومِهَا أَنْ تَأْكُلُوهَا فَوْقَ ثَلَاثٍ لِكَيْ تَسَعَكُمْ ، فَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالسَّعَةِ فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَاتَّجِرُوا ، أَلَا وَإِنَّ هَذِهِ الْأَيَّامَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْرِ اللَّهِ » (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২২
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت کے سات چکروں میں رمل نہیں کیا (یعنی پورا طواف عادی رفتار سے کیا) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
حج کے اعمال و مناسک اور ان کی ترتیب سے جیسا کہ سمجھا جا سکتا ہے اس کا اہم مقصد بیت اللہ کی تعظیم و تکریم اور اس کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار ہے جو ملت ابراہیمیؑ کا خاص شعار ہے ...... اس لیے جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے مکہ معظمہ میں حاضری کے بعد حج کا سب سے پہلا عمل طواف ہی کرنا ہوتا ہے ، یہاں تکک کہ مسجد حرام میں داخل ہو کر پہلے تحیۃ المسجد بھی نہیں پڑھی جاتی ، بلکہ طواف پہلے کیا جاتا ہے ، اور دوگانہ طواف اس کے بعد پڑھا جاتا ہے ...... حاجی کے اس پہلے طواف کا معروف اصطلاحی نام ہی “ طواف قدوم ” ہے ، (یعنی حاضری کا طواف) ۔ اس کے متعلق احادیث پہلے گزر چکی ہیں ۔
اس کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی اور حلق سے فارغ ہونے کے بعد ایک طواف کا حکم ہے ، اس کا معروف اصطلاحی نام “ طواف زیارۃ ” ہے ۔ یہ وقوف عرفات کے بعد حج سب سے اہم رکن ہے ..... پھر حج سے فارغ ہونے کے بعد جب حاجی مکہ معظمہ سے اپنے وطن واپس ہونے لگے تو حکم ہے کہ وہ آخری وداعی کر کے واپس ہو ، اور اس کے سفر حج کا آخری عمل بھی طواف ہی ہو ، اس کا معروف اصلاحی نام طواف وداع اور طواف رخصت ہے ..... ان دونوں طوافوں سے متعلق چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے !
تشریح ..... پہلے گزر چکا ہے کہ حاجی جب مکہ معظمہ حاضر ہو کر پہلا طواف کرے (جس کے بعد اس کو صفا و مروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہو گی) تو اس طواف کے پہلے تین چکروں میں وہ رمل کرے گا ۔ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ نے ایسا ہی کیا تھا ، اس کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ سے مکہ معظمہ آ کر طواف کیا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل نہیں کیا ، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں تصریح ہے ۔
تشریح
حج کے اعمال و مناسک اور ان کی ترتیب سے جیسا کہ سمجھا جا سکتا ہے اس کا اہم مقصد بیت اللہ کی تعظیم و تکریم اور اس کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار ہے جو ملت ابراہیمیؑ کا خاص شعار ہے ...... اس لیے جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے مکہ معظمہ میں حاضری کے بعد حج کا سب سے پہلا عمل طواف ہی کرنا ہوتا ہے ، یہاں تکک کہ مسجد حرام میں داخل ہو کر پہلے تحیۃ المسجد بھی نہیں پڑھی جاتی ، بلکہ طواف پہلے کیا جاتا ہے ، اور دوگانہ طواف اس کے بعد پڑھا جاتا ہے ...... حاجی کے اس پہلے طواف کا معروف اصطلاحی نام ہی “ طواف قدوم ” ہے ، (یعنی حاضری کا طواف) ۔ اس کے متعلق احادیث پہلے گزر چکی ہیں ۔
اس کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی اور حلق سے فارغ ہونے کے بعد ایک طواف کا حکم ہے ، اس کا معروف اصطلاحی نام “ طواف زیارۃ ” ہے ۔ یہ وقوف عرفات کے بعد حج سب سے اہم رکن ہے ..... پھر حج سے فارغ ہونے کے بعد جب حاجی مکہ معظمہ سے اپنے وطن واپس ہونے لگے تو حکم ہے کہ وہ آخری وداعی کر کے واپس ہو ، اور اس کے سفر حج کا آخری عمل بھی طواف ہی ہو ، اس کا معروف اصلاحی نام طواف وداع اور طواف رخصت ہے ..... ان دونوں طوافوں سے متعلق چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے !
تشریح ..... پہلے گزر چکا ہے کہ حاجی جب مکہ معظمہ حاضر ہو کر پہلا طواف کرے (جس کے بعد اس کو صفا و مروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہو گی) تو اس طواف کے پہلے تین چکروں میں وہ رمل کرے گا ۔ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ نے ایسا ہی کیا تھا ، اس کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ سے مکہ معظمہ آ کر طواف کیا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل نہیں کیا ، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں تصریح ہے ۔
عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « لَمْ يَرْمُلْ فِي السَّبْعِ ، الَّذِي أَفَاضَ فِيهِ » (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৩
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت کو موخر کیا (یعنی اس کی تاخیر کی اجازت دے دی) دسویں ذی الحجہ کی رات تک ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طواف زیارت کے لیے افضل دن یوم النحر (عیدالاضحیٰ) کا دن ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے کہ اس دن کے ختم ہونے کے بعد رات میں بھی وہ کیا جا سکتا ہے اور اس رات کا طواف بھی افضلیت کے لحاظ سے ۱۰ ذی الحجہ ہی کا طواف شمار ہو گا .... عام عربی قاعدے کے مطابق رات کی تاریخ اگلے دن والی تاریخ ہوتی ہے اور ہر رات اگلے دن کے ساتھ لگتی ہے ، لیکن حج کے مناسک اور احکام میں بندوں کی سہولت کے لیے اس کے برعکس قاعدہ مقرر کیا گیا ہے اور ہر دن کے بعد والی رات کو اس دن کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ، اسی بناء پر جو طواف ۱۰ ذی الحجہ کا دن گزرنے کے بعد رات میں کیا جائے گا وہ ۱۰ ذی الحجہ ہی میں شمار ہو گا ، اگرچہ عام قاعدے کے لحاظ سے وہ ۱۱ ذی الحجہ کی رات ہے ۔
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طواف زیارت کے لیے افضل دن یوم النحر (عیدالاضحیٰ) کا دن ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے کہ اس دن کے ختم ہونے کے بعد رات میں بھی وہ کیا جا سکتا ہے اور اس رات کا طواف بھی افضلیت کے لحاظ سے ۱۰ ذی الحجہ ہی کا طواف شمار ہو گا .... عام عربی قاعدے کے مطابق رات کی تاریخ اگلے دن والی تاریخ ہوتی ہے اور ہر رات اگلے دن کے ساتھ لگتی ہے ، لیکن حج کے مناسک اور احکام میں بندوں کی سہولت کے لیے اس کے برعکس قاعدہ مقرر کیا گیا ہے اور ہر دن کے بعد والی رات کو اس دن کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ، اسی بناء پر جو طواف ۱۰ ذی الحجہ کا دن گزرنے کے بعد رات میں کیا جائے گا وہ ۱۰ ذی الحجہ ہی میں شمار ہو گا ، اگرچہ عام قاعدے کے لحاظ سے وہ ۱۱ ذی الحجہ کی رات ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَخَّرَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ ، إِلَى اللَّيْلِ » (رواه الترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৪
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ (حج کرنے کے بعد) اپنے اپنے وطنوں کے رخ پر چل دیتے تھے (طواف وداع کا اہتمام نہیں کرتے تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک وطن کی طرف کوچ نہ کرے جب تک کہ اس کی آخری حاضری بیت اللہ پر نہ ہو (یعنی جب تک کہ طواف وداع نہ کر لے) البتہ جو عورت خاص ایام کے عذر کی وجہ سے طواف سے معذور ہو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے (اس کو طواف وداع معاف ہے) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
جیسا کہ اس حدیث میں صراحۃً مذکور ہے ۔ پہلے لوگ طواف وداع کا اہتمام اور پابندی نہیں کرتے تھے ۔ ۱۲ یا ٍ۱۳ ذی الحجہ تک منیٰ میں قیام کر کے اور رمی جمرات وغیرہ وہاں کے مناسک ادا کر کے اپنے اپنے وطنوں کو چل دیتے تھے ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس کے وجوب اور اہمیت کا اعلان فرمایا ۔ چنانچہ فقہاء نے طواف وداع کوواجب قرار دیا ہے ، البتہ حدیث کی تصریح کے مطابق وہ مستورات جو اپنے خاص ایام کی وجہ سے طواف سے معذور ہوں ، وہ اگر طواف زیارت کر چکی ہوں تو بغیر طواف وداع کیے مکہ معظمہ سے وطن رخصت ہو سکتی ہیں ....... ان کے علاوہ ہر بیرونی حاجی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کی طرف روانہ ہونے سے پہلے وداع اور رخصت ہی کی نیت سے آخری طواف کرے اور یہی حج کے سلسلے کا آخری عمل ہو ۔
تشریح
جیسا کہ اس حدیث میں صراحۃً مذکور ہے ۔ پہلے لوگ طواف وداع کا اہتمام اور پابندی نہیں کرتے تھے ۔ ۱۲ یا ٍ۱۳ ذی الحجہ تک منیٰ میں قیام کر کے اور رمی جمرات وغیرہ وہاں کے مناسک ادا کر کے اپنے اپنے وطنوں کو چل دیتے تھے ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس کے وجوب اور اہمیت کا اعلان فرمایا ۔ چنانچہ فقہاء نے طواف وداع کوواجب قرار دیا ہے ، البتہ حدیث کی تصریح کے مطابق وہ مستورات جو اپنے خاص ایام کی وجہ سے طواف سے معذور ہوں ، وہ اگر طواف زیارت کر چکی ہوں تو بغیر طواف وداع کیے مکہ معظمہ سے وطن رخصت ہو سکتی ہیں ....... ان کے علاوہ ہر بیرونی حاجی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کی طرف روانہ ہونے سے پہلے وداع اور رخصت ہی کی نیت سے آخری طواف کرے اور یہی حج کے سلسلے کا آخری عمل ہو ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ فِي كُلِّ وَجْهٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا يَنْفِرُ أَحَدُكُمْ ، حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ ، إِلَّا أَنَّهُ خُفِّفَ عَنِ الحَائِضِ » (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৫
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص حج یا عمرہ کرے تو چاہئے کہ اس کی آخری حاضری بیت اللہ پر ہو اور آخری عمل طواف ہو ۔ (مسند احمد)
عَنِ الْحَارِثِ الثَّقَفِىِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ ، فَلْيَكُنْ آخِرَ عَهْدِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ » (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৬
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ طوافِ زیارت اور طوافِ وداع
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں قیام مکہ کی اس آخری رات میں جس میں مدینہ کی طرف واپسی ہونے والی تھی) میں نے مقام تنعیم جا کر عمرہ کا احرام باندھا ، اور عمرہ کے ارکان (طواف ، سعی وغیرہ) ادا کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (منیٰ اور مکہ کی درمیان) مقام ابطح میں میرا انتظار فرمایا ۔ جب میں عمرہ سے فارغ ہو چکی تو آپ نے لوگوں کو کوچ کرنے کا حکم دیا اور آپ طواف وداع کے لیے بیت اللہ کے پاس آئے اور طواف کیا ، اور اسی وقت مکہ سے مدینہ کی طرف چل دئیے ۔
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب حجۃ الوداع کے سفر میں مدینہ سے روانہ ہوئی تھیں تو آ نے تمتع کا ارادہ کیا تھا اور اس وجہ سے عمرہ کا احرام باندھا تھا لیکن جب مکہ معظمہ کے قریب پہنچیں ، تو (جیسا کہ پہلے گزر چکاہے) خاص ایام شروع ہو گئے جس کی وجہ سے وہ عمرہ کا طواف وغیرہ کچھ بھی نہ کر سکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق آپ نے عمرہ ترک کر کے ۸ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ لیا ، اور آپ کے ساتھ پورا حج کیا ۔ ۱۳ ذی الحجہ کو جمرات کی رمی کر کے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منی سے واپس ہوئے تو آ نے ابطح میں قیام فرمایا اور رات وہیں بسر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اسی رات میں آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ بھیجا کہ حدود حرم سے باہر تنعیم جا کر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھیں ار عمرہ سے فارغ ہو کر آ جائیں ، اس حدیث میں اس واقعہ کا ذکر ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب عمرہ سے فارغ ہو کے آئیں تو آپ نے قافلے کو کوچ کرنے کا حکم دیا ، قافہ ابطح سے مسجد حرام آیا ، آپ نے اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے سحر میں طواف وداع کیا اور اسی وقت مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمرہ اس عمرہ کی قضا تھا جو احرام باندھنے کے باوجود نہ کر سکی تھیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طواف وداع مکہ معظمہ سے روانگی ہی کے وقت کیا جائے ۔
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب حجۃ الوداع کے سفر میں مدینہ سے روانہ ہوئی تھیں تو آ نے تمتع کا ارادہ کیا تھا اور اس وجہ سے عمرہ کا احرام باندھا تھا لیکن جب مکہ معظمہ کے قریب پہنچیں ، تو (جیسا کہ پہلے گزر چکاہے) خاص ایام شروع ہو گئے جس کی وجہ سے وہ عمرہ کا طواف وغیرہ کچھ بھی نہ کر سکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق آپ نے عمرہ ترک کر کے ۸ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ لیا ، اور آپ کے ساتھ پورا حج کیا ۔ ۱۳ ذی الحجہ کو جمرات کی رمی کر کے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منی سے واپس ہوئے تو آ نے ابطح میں قیام فرمایا اور رات وہیں بسر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اسی رات میں آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ بھیجا کہ حدود حرم سے باہر تنعیم جا کر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھیں ار عمرہ سے فارغ ہو کر آ جائیں ، اس حدیث میں اس واقعہ کا ذکر ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب عمرہ سے فارغ ہو کے آئیں تو آپ نے قافلے کو کوچ کرنے کا حکم دیا ، قافہ ابطح سے مسجد حرام آیا ، آپ نے اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے سحر میں طواف وداع کیا اور اسی وقت مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمرہ اس عمرہ کی قضا تھا جو احرام باندھنے کے باوجود نہ کر سکی تھیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طواف وداع مکہ معظمہ سے روانگی ہی کے وقت کیا جائے ۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : « أَحْرَمْتُ مِنَ التَّنْعِيمِ بِعُمْرَةٍ فَدَخَلْتُ فَقَضَيْتُ عُمْرَتِي وَانْتَظَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَبْطَحِ حَتَّى فَرَغْتُ ، وَأَمَرَ النَّاسَ بِالرَّحِيلِ » ، قَالَتْ : « وَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ ثُمَّ خَرَجَ » (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৭
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ طواف کے بعد ملتزم سے چمٹنا اور دعا کرنا
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کر رہا تھا ، میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ بیت اللہ سے چمٹ رہے ہیں تو میں نے اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ) سے عرض کیا کہ ہم کو یہاں لے چلئے ان لوگوں کے ساتھ ہم بھی ان کی طرح بیت اللہ سے چمٹ جائیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ : میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں مردود شیطان سے (مطلب غالباً یہ تھا کہ اگر میں طواف کے درمیان ان لوگوں کی طرح ملتزم کی خاص جگہ کا لحاظ کئے بغیر بیت اللہ کی کسی دیوار سے چمٹ جاؤں تو یہ خلاف سنت اور غلط کام ہو گا اور اس سے خدا راضی نہیں ہو گا بلکہ شیطان راضی ہو گا اور میں اس مردود سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ..... شعیب کہتے ہیں کہ) پھر جب میرے دادا طواف سے فارغ ہو گئے تو دیوار کعبہ کے خاص اس حصہ پر آئے جو باب کعبہ اور حجر اسود کے درمیان ہے (جس کو ملتزم کہتے ہیں) اور مجھ سے فرمایا : خدا کی قسم ! یہی وہ جگہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چمٹ گئے تھے ۔ (سنن بیہقی)
تشریح
خانہ کعبہ کی دیوار کا قریباًٍ دو گز کا جو حصہ حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے ۔ حج کے مسنون اعمال میں سے یہ بھی ہے کہ اگر موقع ملے تو طواف کے بعد اس ملتزم سے چمٹ کر دعا کی جائے ۔ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ایسا ہی کیا تھا :
اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ملتزم سے اس طرح چمٹ گئے کہ اپنا سینہ اور اپنا چہرہ اس سے لگا دیا اور ہاتھ بھی پوری طرح پھیلا کے اس پہ رکھ دئیے ، اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔
تشریح ..... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ملتزم سے چمٹنے والا یہ عمل طواف کے بعد ہونا چاہیے اور اس کی خاص جگہ ملتزم ہی ہے ۔ اللہ کے دیوانوں کو اس میں جو کیفیت نصیب ہوتی ہے وہ بس انہی کا حصہ ہے اور حج کی خاص الخاص کیفیات میں سے ہے ۔
تشریح
خانہ کعبہ کی دیوار کا قریباًٍ دو گز کا جو حصہ حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے ۔ حج کے مسنون اعمال میں سے یہ بھی ہے کہ اگر موقع ملے تو طواف کے بعد اس ملتزم سے چمٹ کر دعا کی جائے ۔ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ایسا ہی کیا تھا :
اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ملتزم سے اس طرح چمٹ گئے کہ اپنا سینہ اور اپنا چہرہ اس سے لگا دیا اور ہاتھ بھی پوری طرح پھیلا کے اس پہ رکھ دئیے ، اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔
تشریح ..... اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ملتزم سے چمٹنے والا یہ عمل طواف کے بعد ہونا چاہیے اور اس کی خاص جگہ ملتزم ہی ہے ۔ اللہ کے دیوانوں کو اس میں جو کیفیت نصیب ہوتی ہے وہ بس انہی کا حصہ ہے اور حج کی خاص الخاص کیفیات میں سے ہے ۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ : " كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ أَبِي عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَرَأَيْتُ قَوْمًا قَدِ الْتَزَمُوا الْبَيْتَ , فَقُلْتُ لَهُ : انْطَلِقْ بِنَا نَلْتَزِمِ الْبَيْتَ مَعَ هَؤُلَاءِ , فَقَالَ : أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ , فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ الْتَزَمَ مَا بَيْنَ الْبَابِ وَالْحَجَرِ , قَالَ : هَذَا وَاللهِ الْمَكَانُ الَّذِي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْتَزَمَهُ " (رواه البيهقى بهذا اللفظ)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০২৮
کتاب المعاملات
পরিচ্ছেদঃ فضائل حرمین: حرم مکہ کی عظمت
عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت جب تک اس حرم مقدس کا پورا احترام کرتی رہے گی اور اس کی حرمت و تعظیم کا حق ادا کرے گی خیریت سے رہے گی اور جب اس میں یہ بات باقی نہ رہے گی برباد ہو جائے گی ۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
ٍمحدثین کرام کا دستور ہے کہ کتاب الحج ہی میں حرمین پاک کے فضائل کی حدیثیں بھی درج کرتے ہیں ، اسی دستور کی پیروی میں حرم مکہ اور حرم مدینہ کے فضائل کی احادیث یہاں درج کی جا رہی ہیں ۔
حرم مکہ کی عظمت
خانہ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مقدس بیت (گھر) قرار دیا ہے ، اور اسی نسبت سے شہر مکہ کو جس میں بیت اللہ واقع ہے بلد اللہ الحرام قرار دیا گیا ہے ، گویا جس طرح دنیا بھر کے گھروں میں کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ معظمہ کو اللہ تعالیٰ کی نسبت کا خاص شرف حاصل ہے ۔ پھر اسی نسبت سے اس کی ہر سمت میں کئی کئی میل کے علاقہ کو حرم (یعنی واجب الاحترام) قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کئے گئے ہیں اور ادب و احترام ہی کی بنیاد پر بہت سی ان باتوں کی بھی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا مین اجازت ہے ۔ مثلاً ان حدود میں کسی کو شکار کی اجازت نہیں ، جنگ اور قتال کی اجازت نہیں ، درخت کاٹنے اور درختوں کے پتے جھاڑنے کی اجازت نہیں ۔ اس محترم علاقہ میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے ۔
اس علاقہ حرم کی حدود پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے معین کی تھیں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد میں انہی کی تجدید فرمائی اور اب وہ حدود معلوم و معروف ہیں ، گویا یہ پورا علاقہ بلد اللہ الحرام کا صحن ہے اور اس کا وہی ادب و احترام ہے جو اللہ کے مقدس شہر مکہ معظمہ کا .... اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث ذیل میں پڑھئے ۔
تشریح ..... گویا بیت اللہ اور بلد اللہ الحرام (مکہ معظمہ) اور پورے علاقہ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت اور نشانی ہے ۔ جب تک یہ چیز اجتماعی حیثیت سے امت میں باقی رہے گی اللہ تعالیٰ اس مات کی نگہبانی فرمائے گا اور وہ دنیا میں سلامتی اور عزت کے ساتھ رہے گی اور جب امت کا رویہ بحیثیت مجموعی اس بارے میں بدل جائے گا اور خانہ کعبہ اور حرم مقدس کی حرمت و تعظیم کے بارے میں اس میں تقصیر آ جائے گی تو پھر یہ امت اللہ تعالیٰ کی حمایت و نگہبانی کا استحقاق کھو دے گی ، اور اس کے نتیجہ میں تباہیاں اور بربادیاں اس پر مسلط ہوں گی ۔
ہمارے اس زمانہ میں سجر کی سہولتوں کی وجہ سے اور بعض دوسری وجوہ سے بھی اگرچہ حج کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے لیکن وہاں ساری دنیا کے جو مسلمان آتے ہیں ان کا طرز عمل بتاتا ہے کہ بیت اللہ اور حرم مقدس کے ادب و احترام کے لحاظ سے امت میں بحیثیت مجموعی بہت بڑی تقصیر آ گئی ہے اور بلا شبہ یہ بھی ان اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے جن کی وجہ سے امت مشرق و مغرب میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور نگہبانی سے محروم کر دی گئی ہے ۔ اللَّهُمَّ عَافِنَا ، وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَعَامِلَنَا بِمَا اَنْتَ اَهْلُهُ وَلَا تُعَامِلْنَا بِمَا نَحْنُ اَهْلُهُ.
تشریح
ٍمحدثین کرام کا دستور ہے کہ کتاب الحج ہی میں حرمین پاک کے فضائل کی حدیثیں بھی درج کرتے ہیں ، اسی دستور کی پیروی میں حرم مکہ اور حرم مدینہ کے فضائل کی احادیث یہاں درج کی جا رہی ہیں ۔
حرم مکہ کی عظمت
خانہ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مقدس بیت (گھر) قرار دیا ہے ، اور اسی نسبت سے شہر مکہ کو جس میں بیت اللہ واقع ہے بلد اللہ الحرام قرار دیا گیا ہے ، گویا جس طرح دنیا بھر کے گھروں میں کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ معظمہ کو اللہ تعالیٰ کی نسبت کا خاص شرف حاصل ہے ۔ پھر اسی نسبت سے اس کی ہر سمت میں کئی کئی میل کے علاقہ کو حرم (یعنی واجب الاحترام) قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کئے گئے ہیں اور ادب و احترام ہی کی بنیاد پر بہت سی ان باتوں کی بھی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا مین اجازت ہے ۔ مثلاً ان حدود میں کسی کو شکار کی اجازت نہیں ، جنگ اور قتال کی اجازت نہیں ، درخت کاٹنے اور درختوں کے پتے جھاڑنے کی اجازت نہیں ۔ اس محترم علاقہ میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے ۔
اس علاقہ حرم کی حدود پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے معین کی تھیں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد میں انہی کی تجدید فرمائی اور اب وہ حدود معلوم و معروف ہیں ، گویا یہ پورا علاقہ بلد اللہ الحرام کا صحن ہے اور اس کا وہی ادب و احترام ہے جو اللہ کے مقدس شہر مکہ معظمہ کا .... اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث ذیل میں پڑھئے ۔
تشریح ..... گویا بیت اللہ اور بلد اللہ الحرام (مکہ معظمہ) اور پورے علاقہ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت اور نشانی ہے ۔ جب تک یہ چیز اجتماعی حیثیت سے امت میں باقی رہے گی اللہ تعالیٰ اس مات کی نگہبانی فرمائے گا اور وہ دنیا میں سلامتی اور عزت کے ساتھ رہے گی اور جب امت کا رویہ بحیثیت مجموعی اس بارے میں بدل جائے گا اور خانہ کعبہ اور حرم مقدس کی حرمت و تعظیم کے بارے میں اس میں تقصیر آ جائے گی تو پھر یہ امت اللہ تعالیٰ کی حمایت و نگہبانی کا استحقاق کھو دے گی ، اور اس کے نتیجہ میں تباہیاں اور بربادیاں اس پر مسلط ہوں گی ۔
ہمارے اس زمانہ میں سجر کی سہولتوں کی وجہ سے اور بعض دوسری وجوہ سے بھی اگرچہ حج کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے لیکن وہاں ساری دنیا کے جو مسلمان آتے ہیں ان کا طرز عمل بتاتا ہے کہ بیت اللہ اور حرم مقدس کے ادب و احترام کے لحاظ سے امت میں بحیثیت مجموعی بہت بڑی تقصیر آ گئی ہے اور بلا شبہ یہ بھی ان اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے جن کی وجہ سے امت مشرق و مغرب میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور نگہبانی سے محروم کر دی گئی ہے ۔ اللَّهُمَّ عَافِنَا ، وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَعَامِلَنَا بِمَا اَنْتَ اَهْلُهُ وَلَا تُعَامِلْنَا بِمَا نَحْنُ اَهْلُهُ.
عَنْ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا تَزَالُ هَذِهِ الْأُمَّةُ بِخَيْرٍ ، مَا عَظَّمُوا هَذِهِ الْحُرْمَةَ ، حَقَّ تَعْظِيمِهَا ، فَإِذَا ضَيَّعُوا ذَلِكَ ، هَلَكُوا » (رواه ابن ماجه)
তাহকীক: