মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩২১ টি

হাদীস নং: ১২১০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نیا لباس پہننے کے وقت کی دعا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “جو بندہ نیا کپڑا پہنے اور کہے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے مجھے وہ لباس عطا فرمایا جس سے میں اپنی پردہ داری کرتا ہوں اور زندگی میں وہ میرے لئے سامانِ زینت بنتا ہے) پھر وہ بندہ اپنا وہ لباس جو اس نے پرانا کر کے اتار دیا ہے صدقہ کر دے تو وہ زندگی میں اور مرنے کے بعد اللہ کی حفاظت و نگہہبانی میں رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی پردہ داری فرمائے گا” ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
لباس بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ، اور کھانے پینے ہی کی طرح انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : “جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو نیا کپڑا نصیب فرمائے اور وہ اس کو زیبِ تن کرے تو اللہ تعالیٰ کے احسان کے استحضار کے ساتھ اس کی حمد اور اس کا شکر ادا کرے ، اور جو پہنا ہوا کپڑا اس نے پرانا کر کے اتارا ہے اس کو صدقہ کر دے ۔ ، آپ ﷺ نے بشارت دی کہ ایسا کرنے والے بندے کو زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور پردہ داری نصیب رہے گی” ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ كَانَ فِي كَنَفِ اللَّهِ، وَفِي حِفْظِ اللَّهِ، وَفِي سِتْرِ اللَّهِ حَيًّا وَمَيِّتًا "
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آئینہ دیکھنے کے وقت کی دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپ ﷺ آئینہ دیکھتے تو کہتے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي تا مِنْ غَيْرِي” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے میرے جسم کو برابر موزوں بنایا اور مجھے اچھی شکل و صورت عطا فرمائی اور مجھے اس خوشنمائی سے نوازا جس سے دوسرے بہت سے بندوں کو نہیں نوازا گیا) ۔ (مسند بزار)

تشریح
دوسری اکثر دعاؤں کی طرح اس دعا کی روح بھی یہی ہے کہ بندہ اپنے اندر جو حسن و خوبی اور جو جمال و کمال محسوس کرے وہ اس کو اللہ کی دین یقین کرتے ہوئے اس کی حمد اور اس کا شکر کرے ، اس طرز عمل سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی محبت اور جذبہ عبودیت میں برابر ترقی ہوتی رہے گی اور وہ خود پسندی اور کبر نفس جیسے مہلک امراض سے محفوظ رہے گا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَن أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم إِذَا نَظَرَ فِي الْمِرْآةِ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي سَوَّى خَلْقِي وَأَحْسَنَ صُورَتِي وَأَزَانَ مِنِّي مَا شَانَ مِنْ غَيْرِي. (رواه البزار)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نکاح اور شادی سے متعلق دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ : “جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو اپنے نکاح میں لائے اور بیوی بنائے یا خدمت کے لئے غلام یا باندی خریدے تو یہ دعا کرے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ ” (اے اللہ ! اس مین اور اس کی فطرت مین جو خیر اور بھلائی ہو ۔ میں تجھ سے اس کی استدعا کرتا ہوں ، اور اس میں اور اس کی فطرت میں جو شر اور برائی ہو اس سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
نکاح اور شادی بھی انسانی زندگی کے لوازم میں سے ہے اور بظاہر اس کا تعلق انسان کے صرف ایک بہیمی اور نفسانی تقاضا سے ہے ، اور اس وقت خدافراموشی کا بڑا امکان ہے ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے امت کو ہدایت فرمائی کہ اس موقع پر بھی تمہاری نگاہ خدا پر رہے اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ اس سلسلہ کا خیر و شر بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ، اس سے دعا کیا کرو ، اس طرح آپ ﷺ نے زندگی کے اس شعبہ کو بھی خدا پرستی کے رنگ میں رنگ دیا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا تَزَوَّجَ أَحَدُكُمُ امْرَأَةً أَوِ اشْتَرَى خَادِمًا، فَلْيَقُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ. (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نکاح اور شادی سے متعلق دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شادی کرنے والے آدمی کو ان الفاظ کے ساتھ دعا اور مبارک باد دیا کرتے تھے : “بَارَكَ اللهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ” (اللہ تعالیٰ تمہارے لئے مبارک کرے ، اور تم پر برکتیں نازل کرے ، اور تم دونوں (میاں اور بیوی) کو خیر اور بھلائی پر جوڑے رکھے) یعنی دنیا اور آخرت کی ہر چیز اور بھلائی کے معاملہ میں تم دونوں کے درمیان باہم اتفاق اور تعاون رہے ، اور شیطان کوئی فتنہ انگیزی نہ کر سکے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَّأَ إِنْسَانًا إِذَا تَزَوَّجَ، قَالَ: " بَارَكَ اللهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ " (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مباشرت کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب تم میں سے کوئی بیوی کے پاس جاتے وقت اللہ کے حضور میں یہ عرض کر لیا کرے : “بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا” (بسم اللہ ، اے اللہ ! تو شیطان کے شر سے ہم کو بچا ، اور ہم کو جو اولاد دے اس کو بھی بچا) تو اگر اس مباشرت کے نتیجہ میں ان کے لئے بچہ مقدر ہو گا تو شیطان اس کو کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا اور وہ ہمیشہ شر شیطان سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ : “اس حدیث سے مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مباشرت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا نہ کی (اور خدا کی طرف سے بالکل غافل ہو کر بہائم کی طرح بس اپنے نفس کا تقاضا پورا کر لیا)” تو ایسی مباشرت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد شر شیطان سے محفوظ رہے گی ”۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : “از نیجاست فساد احوال اولاد و تباہ کاری ایشاں” (یعنی اس زمانہ میں پیدا ہونے والی نسل کے احوال ، اخلاق و عادات جو عام طور سے خراب و برباد ہیں تو اس کی خاص بنیاد یہی ہے) ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی ان ہدایات کی قدر شناسی اور ان سے فائدہ اٹھانے کی پوری توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدَّرْ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سفر پر جانے اور واپس آنے کے وقت کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب آپ ﷺ سفر پر جاتے وقت اونٹ پر سوار ہوتے تو پہلے تین دفعہ “اللہ اکبر” کہتے ، اس کے بعد کہتے “سبحان الله تا فى الاهل والمال” (پاک اور مقدس ہے وہ ذات جس نے ہماری سواری کے لئے اپنی اس مخلوق کو مسخر اور ہمارے قابو میں کر دیا ہے ، اور خود ہم میں اس کی طاقت نہ تھی کہ اپنی ذاتی تدبیر و طاقت سے اس طرح قابو یافتہ ہو جاتے (بلکہ اللہ ہی نے اپنے فضل و کرم سے ایسا کر دیا ہے) اور ہم بالآخر اپنے اس مالک کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ اے اللہ ! ہم استدعا کرتے ہیں تجھ سے اپنے سفر میں نیکوکاری اور پرہیزگاری ، اور ان اعمال کی جو تیری رضا کے باعث ہوں ۔ اے اللہ ! اس سفر کو ہم پر آسان کر دے اور اس کی طوالت کو اپنی قدرت و رحمت سے مختصر کر دے ۔ اے اللہ ! بس تو ہی ہمارا رفیق اور ساتھی ہے اس سفر میں (اور سب سے بڑا سہارا تیری ہی رفاقت کا ہے) اور ہمارے پیچھے تو ہی ہمارے اہل و عیال اور مال و جائیداد کی دیکھ بھال اور نگرانی کرنے والا ہے (اس سلسلہ میں بھی ہمارا اعتماد اور بھروسہ بس تجھ ہی پر ہے) اے اللہ ! میں تیری پنام چاہتا ہوں سفر کی مشقت اور زحمت سے اور اس بات سے کہ اس سفر میں کوئی رنج دِہ بات دیکھوں ، اور اس سفر سے لوٹ کر اہل و عیال یا مال و جائیداد میں کوئی بری بات پاؤں) اور جب آپ ﷺ سفر سے واپس ہوتے تب بھی اس کے حضور میں یہی دعا کرتے ۔ اور آخر میں ان کلمات کا اضافہ کرتے “آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ”(ہم واپس لوٹنے والے ہیں ، توبہ کرنے والے ہیں ، عبادت کرنے والے ہیں ، اپنے پروردگار کی حمد و ستائش کرنے والے ہیں) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
دیس سے پردیس جانے والے کے لئے بہت سے خطرات اور طرح طرح کے امکانات ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ : سفر کے لئے روانہ ہوتے وقت اللہ سے کیا کیا مانگنا چاہئے نیز یہ کہ ہر سفر کے موقع پر یقینی پیش آنے والے آخرت کے سب سے اہم سفر کو بھی یاد کرنا چاہئے ، اور اس کی تیاری سے غافل نہ ہونا چاہئے ۔

تشریح ..... اس دعا کا ایک ایک جز اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے ۔ پہلی بات اس حدیث میں یہ بتائی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اونٹ پر سوار ہونے کے بعد سب سے پہلے تین دفعہ “اللہ اکبر” کہتے تھے ۔ اس زمانہ میں خاص کر اونٹ جیسے سواری پر سوار ہونے کے بعد خود سوار کو اپنی بلندی و برتری کا جو احساس یا وسوسہ پیدا ہو سکتا تھے اسی طرح دیکھنے والوں کے دلوں میں اس کی عظمت و بڑائی کا جو خیال آ سکتا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ تین دفعہ “اللہ اکبر” کہہ کے اس پر تین ضربیں لگاتے تھے اور خود اپنے کو اور دوسروں کو جتاتے تھے کہ عظمت و کبریائی بس اللہ کے لئے ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ کہتے تھے : “سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ” (پاک اور مقدس ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اس سواری کو مسخر کر دیا ، ورنہ ہم میں وہ طاقت نہ تھی کہ ایسا کر سکتے) اس میں اس کا مترادت اور اظہار ہے کہ اس سواری کو ہمارے لئے مسخر کر دینا اور ہم کو اس طرح اس کے استعمال کی قدرت دینا بھی اللہ ہی کا کرم ہے ، ہمارا کوئی کمال نہیں ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ فرماتے ہیں : “وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ” (یعنی جس طرح آج ہم یہ سفر کر رہے ہیں اسی طرح ایک دن اس دنیا سے سفر کر کے ہم اپنے خدا کی طرف جائیں گے جو اصل مقصود و مطلوب ہے ، وہی سفر حقیقی سفر ہو گا اور اس کی فکر اور تیاری سے بندے کو کبھی غافل نہ رہنا چاہئے اس کے بعد سب سے پہلی دعا آپ یہ کرتے کہ : “اے اللہ ! اس سفر میں مجھے نیکی اور پرہیزگاری کی اور ان اعمال کی توفیق دے جن سے تو راضی ہو” ۔ بلاشبہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے بندوں کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہی ہے ، اس لئے ان کی اولین دعا یہی ہونی چاہئے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ سفر میں سہولت کی اور سفر جلدی پورا ہو جانے کی دعا کرتے ۔ اس کے بعد آپ اللہ کے حضور میں عرض کرتے : “اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ” (یعنی اے اللہ تو ہی سفر مین میرا حقیقی رفیق و ساتھی ہے اور تریر ہی رفاقت و مدد پر میرا اعتماد ہے اور گھر بار اور اہل و عیال جن کو میں چھوڑ کر جا رہا ہوں ان کا نگہبان اور نگران بھی تو ہی ہے اور تیری ہی نگہبانی پر بھروسہ ہے ۔ ان مثبت دعاؤں کے بعد آپ ﷺ سفر کی مشقت سے یا دورانِ سجر میں یا واپسی پر کسی تکلیف دہ حدثہ کے سامنے آنے سے پناہ مانگتے جس کا حاصل یہی ہے کہ سفر میں بھی تیری رحمت سے عافیت و سہولت نصیب رہے اور واپس آ کر بھی خیر و عافیت دیکھوں) ۔
حدیث کے آخر میں بیان کیا گیا ہے کہ جب واپسی کے لئے آپ ﷺ سفر شروع فرماتے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں آپ ﷺ یہی سب کچھ عرض کتے اور آخر میں یہ کلمات مزید کہتے : “آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ” (یعنی اب ہم واپس ہو رہے ہیں ، اپنے قصوروں اور لغزشوں سے توبہ کرتے ہیں ، ہم اپنے پروردگار اور مالک ومولا کی عبادت اور حمد و ثناء کرتے ہیں) ذرا غور کیا جائے کہ جب سفر کے لئے سواری پر سوار ہوتے وقت رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک کی یہ واردات ہوتی تھیں ، جو ان کلمات ے قالب میں زبانِ مبارک پر جاری ہوتی تھیں ، تو خلوتوں کے خاص اوقات میں کیا حال ہوتا ہو گا ۔
کیسی خوش نصیبی ہے اس امت کی جس کے پاس اس کے نبی کا چھوڑا ہوا ایسا خزانہ محفوظ ہے ، اور کیسی قابلِ عبرت بدنصیبی ہے اس اُمت کے جس کے ۹۹ فیصد افراد یا اس سے بھی زیادہ اس سے بےخبر اور اس لئے اس استفادہ سے محروم ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى بَعِيرِهِ خَارِجًا إِلَى سَفَرٍ، كَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اللهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ»، وَإِذَا رَجَعَ قَالَهُنَّ وَزَادَ فِيهِنَّ: «آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سفر پر جانے اور واپس آنے کے وقت کی دعائیں
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو مسلمان اپنے گھر سے نکلے خواہ بارادہ سفر ہو یا بغیر ارادہ سفر ، گھر سے روانگی کے وقت کہے : “آمَنْتُ بِاللهِ تا لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” (میں اللہ پر ایمان لایا ، میں نے اللہ کو مضبوطی سے تھام لیا ، میں نے اللہ پر بھروسا کر لیا اور میں یقین کرتا ہوں کہ کوئی سعی و حرکت اور کوئی قوت و طاقت کام نہیں کر سکتی اللہ کے حکم کے بغیر) تو اس مسلمان کو گھر سے اس نکلنے کا خیر ضرور حاصل ہو گا ، اور اس کے شر سے وہ محفوظ رکھا جائے گا ۔ (مسند احمد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ، يُرِيدُ سَفَرًا أَوْ غَيْرَهُ، فَقَالَ حِينَ يَخْرُجُ: بِسْمِ اللهِ، آمَنْتُ بِاللهِ، اعْتَصَمْتُ بِاللهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ، لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، إِلَّا رُزِقَ خَيْرَ ذَلِكَ الْمَخْرَجِ، وَصُرِفَ عَنْهُ شَرُّ ذَلِكَ الْمَخْرَجِ " (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سفر میں منزل پر اترنے کے وقت کی دعا
خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے : جو شخص اثنائے سفر میں کسی منزل پر اترے اور اس وقت یہ دعا کرے : “أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ” (میں اللہ کے کلمات تامہ کی پناہ لیتا ہوں اس کی ساری مخلوقات کے شر سے) تو جب تک وہ اس منزل سے روانہ ہو ہو جائے گا اس کو کوئی چیز ضرر نہ پہنچا سکے گی ۔ (صحیح مسلم)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ خَوْلَةَ بِنْتَ حَكِيمٍ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ نَزَلَ مَنْزِلًا ثُمَّ قَالَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ، حَتَّى يَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِهِ. (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی بستی میں داخل ہونے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب وہ بستی دکھائی دیتی جس میں آپ ﷺ جانے کا ارادہ رکھتے تو پہلے تین دفعہ کہتے : “اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهَا” (اے اللہ ہمارے لئے اس بستی کو مبارک کر دے) اس کے بعد یہ دعا فرماتے : “اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا جَنَاهَا تا وَحَبِّبْ صَالِحِي أَهْلِهَا إِلَيْنَا” (اے اللہ ! اس بستی کی اچھی پیداوار کو ہمارا رزق بنا ، اور ہماری محبت اس بستی والوں کے دل میں ڈال دے اور اس میں جو تیرے صالح بندے ہوں ان کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا فرما دے) ۔ (معجم اوسط للطبرانی)

تشریح
کسی نئی بستی میں جانے والے کے لئے سب سے اہم یہی تین باتیں ہو سکتی ہیں ۔ سبحان اللہ ! کتنی مختصر ، برمحل اور جامع دعا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا رَأَى الْقَرْيَةَ يُرِيدُ أَنْ يَدْخُلَهَا قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا جَنَاهَا، وَحَبِّبْنَا إِلَى أَهْلِهَا، وَحَبِّبْ صَالِحِي أَهْلِهَا إِلَيْنَا» (رواه الطبرانى فى الاوسط)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২১৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سفر پر جانے والے کو وصیت اور اس کے لئے دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ : میرا ارادہ سفر کا ہے ، حضور ﷺ مجھے کچھ وصیت اورا نصیحت فرمائیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پہلی وصیت تو یہ ہے کہ اللہ کا خوف اور اس کی ناراضی سے بچنے کی فکر کو لازم پکڑ لو (اس بارے میں ادنیٰ تساہل اور غفلت نہ ہو) اور دوسری بات یاد رکھو کہ اثناءِ سفر میں جب کسی بلندی پر پہنچنا ہو تو “اللہ اکبر” کہو ۔ پھر جب وہ آدمی روانہ ہو گیا تو آپ ﷺ نے دعا دی : “اللَّهُمَّ اطْوِ لَهُ البُعْدَ، وَهَوِّنْ عَلَيْهِ السَّفَرَ” (اے اللہ ! اس کے طولِ مسافت کو سمیٹ کر مختصر کر دے ، اور سفر کو اس کے واسطے آسان فرما دے) ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: إِنَّ رَجُلاً قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُسَافِرَ فَأَوْصِنِي، قَالَ: عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللهِ، وَالتَّكْبِيرِ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ، فَلَمَّا أَنْ وَلَّى الرَّجُلُ، قَالَ: اللَّهُمَّ اطْوِ لَهُ البُعْدَ، وَهَوِّنْ عَلَيْهِ السَّفَرَ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سفر پر جانے والے کو وصیت اور اس کے لئے دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : “یا رسول اللہ! میرا ارادہ سفر کا ہے ، آپ ﷺ مجھے “زاد سفر” عنایت فرما دیجئے ؟ (یعنی ایسی دعائیں کر دیجئے جو سفر میں میرے کام آئیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تقویٰ کو تمہارا زاد سفر بنائے (اور تمہیں پورے سفر میں یہ دولت نصیب رہے) اس شخص نے عرض کیا : حضرت ﷺ ! اس میں اور اضافہ فرمائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اور تمہارے گناہوں کی اللہ مغفرت فرمائے ۔ اس نے پھر عرض کیا : میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان , اس میں اور اجافہ فرمائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اور جہاں بھی تم پہنچو ، اللہ تعالیٰ خیر اور بھلائی تمہارے لئے میسر فرمائے” ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أُرِيدُ سَفَرًا فَزَوِّدْنِي. قَالَ: زَوَّدَكَ اللَّهُ التَّقْوَى، قَالَ: زِدْنِي، قَالَ: وَغَفَرَ ذَنْبَكَ قَالَ: زِدْنِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، قَالَ: وَيَسَّرَ لَكَ الخَيْرَ حَيْثُمَا كُنْتَ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سفر پر جانے والے کو وصیت اور اس کے لئے دعا
حضرت عبداللہ الخطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ لشکر کو رخصت کرتے وقت فرماتے : “أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكُمْ وَأَمَانَتَكُمْ وَخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُمْ” (میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں تمہارے دین کو اور تمہاری صفت امانت کو ، اور تمہارے آخری اعمال کو) ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہاں “امانت” سے مراد انسان کے دل کی وہ خاص صفت اور کیفیت ہے ، جو اس سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اللہ کے اور اس کے بندوں کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے ۔ مختصر لفظوں میں اس کو “بندگی کی ذمہ داریوں کے احساس” سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔
مؤمن کی خاص پونجی اس کی یہ صفت امانت اور اس کا دینی اور اعمال ہیں ، اس لئے رسول اللہ ﷺ لشکر کو رخصت کرتے وقت مجاہدین کی ان چیزوں کو خاص طور سے اللہ کی سپردگی میں دیتے تھے اور دعا فرماتے تھے کہ وہ ان کی حفاظت فرمائے ۔ اسی طرح کسی شخص کو رخصت کرتے وقت بھی آپ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ اس کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیتے اور فرماتے : “أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَآخِرُ عَمَلِكَ” (تمہارے دین تمہارے امانت اور خاتمہ والے اعمال کو میں خدا کے سپرد کرتا ہوں ، وہ ان کی حفاظت فرمائے) ۔ رواہ الترمذی عن ابن عمر ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو رخصت کرنے کے وقت مصافحہ فرمانا بھی آپ ﷺ کا معمول تھا ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْخَطْمِيِّ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَسْتَوْدِعَ الْجَيْشَ قَالَ: «أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكُمْ وَأَمَانَتَكُمْ وَخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُمْ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سخت خطرے کے وقت کی دعا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے غزوہ خندق کے دن رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : حضرتﷺ ! کیا اس نازک وقت کے لئے کوئی خاص دعا ہے ، جو ہم اللہ کے حضور میں عرض کریں ، حالت یہ ہے کہ ہمارے دل مارے دہشت کے اچھل اچھل کے گلوں میں آ رہے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اللہ کے حضور میں یوں عرض کرو : “اللهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا” (اے اللہ ! ہماری پردہ داری فرما اور ہماری گھبراہٹ کو بےخوفی اور اطمینان سے بدل دے) ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : پھر اللہ نے آندھی بھیج کر دشمنوں کے منہ پھیر دئیے اور اس آندھی ہی سے اللہ نے ان کو شکست دی ۔ (مسند احمد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم پر جو سخت سے سخت دن گزرے ہیں ان میں غزوہ خندق کے بعض ایام بھی تھے ، جن کا ذِکر قرآن مجید میں بھی اس طرح کیا گیا ہے :
إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّـهِ الظُّنُونَا ﴿١٠﴾ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (الاحزاب ،۳۳:۱۰،۱۱)
جب آ گئے دشمنوں کے لشکر تمہارے اوپر کی جانب سے اور نیچے کی طرف سے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل مارے دہشت کے گلوں تک پہنچ گئے اور تم خدا کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے اس وقت اہلِ ایمان بڑی آزمائش میں پڑے اور سخت طریقے سے ہلا ڈالے گئے ۔
انہی حالات میں ایک دن حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے وہ درخواست کی تھی جس کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے یہ مختصر دعا تلقین فرمائی تھی : “اللهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا” اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے سارے لشکر کو تِتر بِتر کر دیا ، اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قُلْنَا يَوْمَ الْخَنْدَقِ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ مِنْ شَيْءٍ نَقُولُهُ؟ فَقَدْ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ، قَالَ: " نَعَمْ، اللهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا "، قَالَ: " فَضَرَبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وُجُوهَ أَعْدَائِهِ بِالرِّيحِ، هَزَمَ اللهُ بِالرِّيحِ " (رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سخت خطرے کے وقت کی دعا
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کسی دشمن گروہ کے حملہ کا خطرہ ہوتا تھا تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے :
“اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ”
اے اللہ ! ہم تجھے ان دشمنوں کے مقابلے میں کرتے ہیں تو ان کو دفع فرما ، اور ان کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیحں ۔ (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَافَ قَوْمًا قَالَ: " اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ " (رواه احمد وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ فکر اور پریشانی کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری ہوتے : “لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ تا رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ” (کوئی مالک و معبود نہیں اللہ کے سوا ، وہ بڑی عظمت والا اور حلیم ہے ، کوئی مالک و معبود نہیں اللہ کے سوا ، وہ رب العرش العظیم ہے ، کوئی مالک و معبود نہیں اللہ کے سوا ، وہ رب السمٰوات والارض اور رب العرش الکریم ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ عِنْدَ الْكَرْبِ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ، وَرَبُّ الأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ. (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ فکر اور پریشانی کے وقت کی دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی فکر اور پریشانی لاحق ہوتی تو آپ ﷺ کی یہ دعا ہوتی تھی : “يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ” (اے حی و قیوم ! بس تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں) اور دوسروں سے فرماتے : “أَلِظُّوابِيَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ” (یا ذالجلال والاکرام سے چمٹے رہو) یعنی اس کلمہ کے ذریعہ اللہ سے استغاثہ اور فریاد کرتے رہو ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَس قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَرَبَهُ أَمْرٌ قَالَ: يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ. وقَالَ: أَلِظُّوابِيَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ فکر اور پریشانی کے وقت کی دعا
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : “میں تمہیں ایسے کلمے بتا دوں جو پریشانی اور فکر کے وقت تم کہا کرو ۔ (ان شاء اللہ وہ تمہارے لئے باعث سکون ہوں گے) “اللَّهُ اللَّهُ رَبِّي لاَ أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا” (اللہ اللہ وہی میرا رب ہے ، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی)” ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلاَ أُعَلِّمُكِ كَلِمَاتٍ تَقُولِينَهُنَّ عِنْدَ الْكَرْبِ أَوْ فِي الْكَرْبِ اللَّهُ اللَّهُ رَبِّي لاَ أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا. (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ فکر اور پریشانی کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی کو پریشانی اور فکر زیادہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے حضور میں اوس طرح عرض کرے : “اللهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ تا وَجِلَاءَ هَمِّي وَغَمِّىْ” (اے اللہ ! میں بندہ ہوں تیرا اور بیٹا ہوں تیرے ایک بندے کا اور تیری ایک بندی کا ، اور بالکل تیرے قبضہ میں ہوں اور ہمہ تن تیرے دست قدرت میں ہوں ، نافذ ہے میرے بارے میں تیرا حکم اور عین عدل ہے میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ ، میں تجھ سے تیرے ہر اس اسم پاک کے واسطے سے جس سے تو نے اپنی مقدس ذات کو موسوم کیا ہے یا اپنی کسی کتاب میں اس کو نازل فرمایا ہے ، یا اپنے خاص مخفی خزانہ غیب ہی میں اس کو محفوظ رکھا ہے ۔ استدعا کرتا ہوں کہ قرآنِ عظیم کو میرے دل کی بہار بنا دے ، اور میری فکروں اور میرے غموں کو اس کی برکت سے دور فرما دے) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمای کہ : “جو بندہ بھی ان کلمات کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی فکروں اور پریشانیوں کو دور فرما کر ضرور بالضرور اس کو کشادگی عطا فرما دے گا” ۔ (رزین)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کی تعلیم فرمودہ اس دعا کی ایک ایک کلمہ عبدیت کی کیفیت سے لبریز ہے ۔ سب سے پہلے اپنی اور اپنے ماں باپ کی بندگی اور عبدیت کا اظہار و اعتراف کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں ، میرا باپ بھی تیرا بندہ اور میری ماں بھی تیری بندی تھی یعنی میں تیرا پشیتنی بندہ ہوں ، تو میرا مالک و رب ہے اور میرے ماں باپ کا بھی مالک و رب ہے ۔ اور میں ہمہ تن تیرے قبضہ میں ہوں میرے لیے جو بھی تیرا فیصلہ ہے وہ برحق ہے اور نافذ ہونے والا ہے ، مجھے اور کسی کو بھی چون و چرا کی مجال نہیں ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ میرے پاس کوئی ایسا عمل اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر تجھ سے کچھ مانگنے کا مجھے حق ہو ، اس لئے تیرے ہی ان اسماء پاک کے واسطے سے جن سے تو نے اپنی ذاتِ پاک کو موسوم کیا ہے یا جو تیری کتابوں میں بتائے گئے ہیں یا جو صرف تیرے ہی علم میں ہیں اور جنہیں تیرے سوا کوئی نہیں جانتا ، تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ اپنے قرآنِ پاک کو میرے دل کی بہار بنا دے اور میری فکریں اور پریشانیاں اس کی برکت سے دور فرما دے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : “جب بندہ اس طرح دعا کرے گا تو اس کی فکریں اور پریشانیاں ضرور بالضرور دور فرما دی جائیں گی” ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَثُرَ هَمُّهُ فَلْيَقُلْ "اللهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، وَابْنُ أَمَتِكَ، وَفِىْ قَبْضَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِيْ مَكْنُوْنٍ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ الْعَظِيْمِ رَبِيعَ قَلْبِي، وَجِلَاءَ هَمِّي وَغَمِّىْ مَا قَالَهَا عَبْدٌ قَطُّ إِلَّا أَذْهَبَ اللهُ هَمَّهُ، أَبْدَلَهُ بِهِ فَرَجًا" (رواه ابن رزين)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مصائب اور مشکلات کے وقت کی دعائیں
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “ذوالنون (اللہ کے پیغمبر یونس علیہ السلام) جب سمندر کی ایک مچھلی کا لقمہ بن کر اس کے پیٹ میں پہنچ گئے تھے تو اس وقت اللہ کے حضور میں ان کی دعا اور پکار یہ تھی : “لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ” (میرے مولا تیرے سوا کوئی معبود نہیں جس سے رحم و کرم کی درخواست اور مدد کی التجا کروں تو پاک اور مقدس ہے تیری طرف سے کوئی ظلم و زیادتی نہیں میں ہی ظالم اور پاپی ہوں) جو مسلمان بندہ اپنے کسی معاملہ اور مشکل میں ان کلمات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو قبول ہی فرمائے گا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی)

تشریح
اس دنیا میں انسانوں کو بعض اوقات بڑے مصائب اور مشکلات سے سابقہ پڑتا ہے ، اس میں خیر کا خاص پہلو یہ ہے کہ ان ابتلاءات اور مجاہدات کے ذریعہ اہل ایمان کی تربیت ہوتی ہے اور یہ ان کے لئے انابت الی اللہ اور رتعلق باللہ میں ترقی کا وسیلہ بنتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے مواقع کے لئے جو دعائیں تعلیم فرمائیں ہیں وہ مصائب و مشکلات سے نجات کا وسیلہ بھی ہیں اور قرب خداوندی کا ذریعہ بھی ۔ ان میں سے شند دعائیں ذیل میں پڑھئے۔

تشریح ..... حضرت یونس علیہ السلام کی یہ دعا قرآن مجید (سورہ انبیاء) میں انہی الفاظ میں مذکور ہوئی ہے ۔ بظاہر تو اس مین صرف اللہ کی توحید و تسبیح اور اپنے قصور وار ، خطاکار ہونے کا اعتراف ہے لیکن فی الحقیقت یہ اللہ کے حضور میں اظہارِ ندامت اور استغفار و انابت کا بہترین انداز ہے ، اور اس میں اللہ کی رحمت کو کھینچ لینے کی خاص تاثیر ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْوَةُ ذِي النُّونِ الَّذِىْ دَعَا وَهُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ. فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلاَّ اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ. (رواه احمد والترمذى والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২২৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مصائب اور مشکلات کے وقت کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب کوئی بھاری اور بہت مشکل معاملہ پیش آ جائے تو کہو “حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ” (اور وہی سب کام سپرد کرنے کے لیے اچھا ہے) ۔ (ابن مردویہ)

تشریح
یہ بھی قرآن مجید کا خاص کلمہ ہے ۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب ان کی قوم کے بت پرستوں نے آگ کے ڈھیر میں ڈالا تو ان کی زبانِ مبارک پر یہی کلمہ تھا : “حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ” مصائب و مشکلات کے موقع پر ہر بندہ مومن کا یہی نعرہ ہونا چاہئے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا وَقَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ الْعَظِيْمِ فَقُوْلُوْا: حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ. (رواه ابن مردويه)
tahqiq

তাহকীক: