মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩২১ টি

হাদীস নং: ১১৯০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نیند میں ڈر جانے کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی (ڈراؤنا خواب دیکھ کے) سوتے میں ڈر جائے تو یوں دعا کرے : “أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ تا وَأَنْ يَحْضُرُونِ” (میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کے ذریعہ خود اس کے غضب اور عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیطانی وساوس و اثرات سے اور اس بت سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں اور مجھے ستائیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “پھر شیاطین اس بندے کو کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ۔” (حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے یہ حدیث ان کے صاحبزادے شعیب نے روایت کی ہے) ان کا بیان ہے کہ ہمارے والد ماجد عبداللہ بن عمروؓ کا یہ دستور تھا کہ ان کی اولاد میں جو بڑے اور بالغ ہو جاتے وہ یہ دعا ان کو تلقین فرماتے تا کہ وہ اس کو اپنا معمول بنا لیں ۔اور جو بچے چھوٹے ہوتے تو یہی دعا ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں (بطور تعویذ کے) ڈال دیتے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ڈراؤنے اور پریشان کن خواب شیطانی اثرات سے ہوتے ہیں ، اور اگر اس دعا کو معمول بنا لیا جائے تو ان شاء اللہ ان اثرات سے حفاظت ہو گی ۔ صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے اس عمل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا نام یا اس کا کلام یا کوئی دعا کاغذ پر لکھ کر بطور تعویذ گلے وغیرہ میں ڈال دینا کوئی غلط کام نہیں ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا فَزِعَ أَحَدُكُمْ فِي النَّوْمِ فَلْيَقُلْ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعَذَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ. فَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو، يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ، وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِي صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ. (رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سو کر اٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو نیند سے بیدار ہوتے تو اللہ کے حضور میں عرض کرتے : “لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ تا إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ” (اے اللہ ! تو ہی معبود برحق ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے ، ہر حمد و ثناء کا تو ہی سزاوار ہے ، میں اپنے گناہوں کی تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیری رحمت کا سائل ہوں ، اے میرے اللہ ! میرے علم و معرفت میں اضافہ فرما اور میرے دل کی حفاظت فرما کہ تیری طرف سے ہدایت ملنے کے بعد وہ کج روی اختیار نہ کرے ، اور اپنے کرم سے مجھے اپنی رحمت سے نواز تو بڑا بخشش والا اور بہت عطا فرمانے والا ہے ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہ دعا مختصر ہونے کے باوجود کتنی جامع ہے اور اس کے ایک ایک جز میں عبدیت کی کیسی روح بھری ہوئی ہے ، اس کا کچھ اندازہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو بندہ کے اور اللہ کے تعلق کو کچھ جانتا سمجھتا ہو ۔ بلاشبہ جب بندہ نیند سے بیدار ہو کر اخلاص اور حضور قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ عرض کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و عنایت اور اس کے بڑے پیار کا مستحق ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی اس عنایت و رحمت کی سچی طلب اور اس کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنَ اللَّيْلِ قَالَ: «لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، سُبْحَانَكَ، اللَّهُمَّ أَسْتَغْفِرُكَ لِذَنْبِي، وَأَسْأَلُكَ رَحْمَتَكَ، اللَّهُمَّ زِدْنِي عِلْمًا، وَلَا تُزِغْ قَلْبِي بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِي، وَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سو کر اٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب رات کو سو کر کسی کی آنکھ کھلے اور وہ اس وقت کہے : “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ” اس کے بعد کہے ۔ “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي” (اے اللہ ! میری مغفرت فرما اور مجھے بخش دے) یا کوئی اور دعا کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی یہ دعا و التجا قبول فرمائی جائے گی ۔ اس کے بعد اگر (وہ ہمت کر کے اٹھ اجائے اور) وضو کر کے نماز پڑھے تو اس کی یہ نماز بھی ضرور قبول ہو گی ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
حدیث کا مندرجہ بالا متن صحیح بخاری سے نقل کیا گیا ہے ۔ اس میں کلمہ “الحمدللہ ، سبحان اللہ” سے پہلے ہے ۔ لیکن امام بخاریؒ کے علاوہ امام ابو داؤد اور امام ترمذی وغیرہ جن ائمہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ان سب کی روایات میں “سبحان اللہ” پہلے اور “الحمدللہ” بعد میں ہے ، جیسا کہ کلمہ تمجید میں ہے ۔ اسی لئے حافظ ابن حجرؒ وغیرہ شارحین بخاری نے کہا ہے کہ بخاری کی روایت میں “الحمدللہ” کا مقدم ہو جانا کسی راوی کا تصرف ہے ۔ بہرحال ان شارحین کے نزدیک بھی ان کلمات کی صحیح ترتیب وہی ہے جو سنن ابی داؤد اور ترمذی کی روایت میں ہے ۔ اسی بنا پر ترجمہ میں اسی ترتیب کے مطابق لکھ دیا گیا ہے ۔
اس حدیث میں بشارت سنائی گئی ہے کہ جو بندہ رات کو آنکھ کھلنے پر اللہ تعالیٰ کی توحید تمجید اور تسبیح و تحمید اور اس کی مدد کے بغیر اپنی عاجزی و بےبسی کے اعتراف کے یہ کلمے پڑھے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت و بخشش کی دعا مانگے ، یا کوئی اور دعا کرے تو وہ ضرور قبول فرمائی جائے اسی طرح اس وقت وضو کر کے جو نماز پڑھی جائے گی وہ بھی قبول ہو گی ۔ بعض اکابر کا یہ ارشاد ہے کہ جس بندے کو یہ حدیث پہنچے وہ رسول اللہ ﷺ کا خاص الخاص عطیہ سمجھے اور آپ ﷺ کی اس بشارت پر یقین کرتے ہوئے اس کے مطابق عمل کر کے استغفار و دعا کی قبولیت کی یہ دولت حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے ۔ بلاشبہ حضور ﷺ کے ایسے عطیات کی ناقدری بڑی محرومی ہے ۔ امام بخاریؒ سے صحیح بخاری کو روایت کرنے والے امام ابو عبداللہ فربریؒ فرماتے ہیں کہ : “ایک دن رات کو سوتے سے میری آنکھ کھلی اور میں نے اللہ کی توفیق سے یہ کلمے اپنی زبان سے ادا کئے ۔ اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی میرے پاس آیا اور اس نے یہ آیت تلاوت کی : “وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَىٰ صِرَاطِ الْحَمِيدِ ” (1) (اور ان کو توفیق و ہدایت ملی بہت اچھی بات کی اور وہ لگا دئیے گئے اللہ کے راستے پر) ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، أَوْ دَعَا ، اسْتُجِيبَ لَهُ ، فَإِنْ تَوَضَّأَ قُبِلَتْ صَلاَتُهُ" (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ استنجا کے وقت کی دعائیں
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ قضائے حاجت کے مقامات (شیاطین اور موذی چیزوں کے) اڈے ہیں ، لہذا جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لئے ان میں جانا چاہے تو اللہ کے حضو ر میں پہلے عرض کرے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں خبیثوں سے اور خبیثنیوں سے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
سونے اور کھانے پینے کی طرح بول و براز بھی انسانی زندگی کے لوازم میں سے ہے ، اور بلاشبہ وہ خاص وقت (جب کہ آدمی اس گندگی کے اخراج میں مشغول ہو) ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ کا نام لینا اور اس سے دعا کرنا بےادبی کی بات ہو گی ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ جب کوئی بندہ قضائے حاجت کو جائے تو مشغول ہونے سے پہلے اللہ سے یہ دعا کرے ، اور فارغ ہونے کے بعد اس کے حضور میں یہ عرض کرے :

تشریح ..... جس طرح مکھیاں اور دوسرے غلاظت پسند کیڑے مکوڑے غلاظت پر گرتے ہیں اسی طرح خبیث شیاطین اور بعض دوسری موذی مخلوقات غلاظت کے مقامات سے خاص دلچسپی اور مناسبت رکھتے ہیں ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان مقامات میں جانے کے وقت کے لئے یہ دعا فرمائی اور (صحیح بخاری و صحیح مسلم میں آپ ﷺ کے خادم خاص حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ خود رسول اللہ ﷺرسول اللہ ﷺکا معمول تھا کہ بیت الخلاء جانے کے وقت دعا کرتے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ”
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذِهِ الْحُشُوشَ مُحْتَضَرَةٌ، فَإِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ " (رواه ابوداؤد وابن ماجة)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ استنجا کے وقت کی دعائیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلاء سے باہر آتے تو کہتے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذَى وَعَافَانِي” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے میرے اندر سے گندگی اور تکلیف والی چیز دور فرما دی اور مجھے عافیت و راحت دی) ۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
پیشاب یا پاخانہ خدانخواستہ رک جائے اور فطری طریقے سے خارج نہ ہو تو اللہ کی پناہ ! کیسی تکلیف ہوتی ہے اور اس کے خارج کرنے کے لئے اسپتالوں میں کیا کیا تدبیریں کی جاتی ہیں اگر بندہ اس کا دھیان کرے تو محسوس ہو کرے گا کہ فطری طریقے سے پیشاب یا پاخانہ کا خارج ہونا اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت اور کتنا عظیم احسان ہے ۔ رسول اللہ ﷺ اسی احساس اور دھیان کے تحت اس موقع پر اس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے تھے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذَى وَعَافَانِي” سبحان اللہ ! کیسی برمحل اور کتنی عارفانہ دعا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ، قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذَى وَعَافَانِي» (رواه ابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ گھر سے نکلنے اور گھر میں آنے کے وقت کی دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی آدمی اپنے گھر سے نکلے اور نکلتے وقت کہے : “بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ” (میں اللہ کا نام لے کر نکل رہا ہوں ، اللہ ہی پر میرا بھروسا ہے ، کسی خیر کے حاصل کرنے یا کسی شر سے بچنے میں کامیابی اللہ ہی کے حکم سے ہو سکتی ہے) تو عالمِ غیب میں اس آدمی سے کہا جاتا ہے (یعنی فرشتے کہتے ہیں) : “اللہ کے بندے تیرا یہ عرض کرنا تیرے لئے کافی ہے ، تجھے پوری رہنمائی مل گئی اور تیری حفاظت کا فیصلہ ہو گیا ” اور شیطان مایوس و نامراد ہو کر اس سے دور ہو جاتا ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)

تشریح
آدمی کے لئے صبح و شام کے آنے جانے اور سونے جاگنے کی طرح گھر سے باہر نکلنا اور باہر سے گھر میں آنا بھی زندگی کے لوازم میں سے ہے اور بندہ قدم قدم پر اللہ کے رحم و کرم اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا محتاج ہے ، اس لئے جب گھر سے باہر قدم نکالے یا باہر سے گھر مین آئے تو برکت و استعانت کے لئے خدئے پاک کا نام لے اور اس سے دعا کرے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع کے لئے ذکر و دعا کے جو کلمے تعلیم فرمائے وہ مندرجہ ذیل حدیثوں میں پڑھئے :

تشریح ..... اس مختصر حدیث کا پیغام اور روح یہ ہے کہ جب بندہ گھر سے باہر قدم نکالے تو اپنی ذات کو بالکل عاجز ناتواں اور خدا کی حفاظت و مدد کا محتاج سمجھتے ہوئے اپنے کو اس کی پناہ میں دے دے ۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی پناہ اور حفاظت میں لے لے گا اور شیطان اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، قَالَ: يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ، وَكُفِيتَ، وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ. (رواه ابوداؤد والترمذى واللفظ له)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ گھر سے نکلنے اور گھر میں آنے کے وقت کی دعا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب گھر سے نکلتے تو کہتے : “بِسْمِ اللهِ، تَوَكَّلْتُ تا أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا” (میں اللہ کا نام لے کر نکل رہا ہوں ، اللہ ہی پر میرا بھروسا ہے ۔اے اللہ ! ہم تیری پناہ مانگتے اس سے کہ ہمارے قدم بہکیں اور ہم غلط راہ پر چلیں (یا ہم دوسروں کی گمراہی اور غلط روی کا ذریعہ بنیں) یا ہم کسی پر ظلم و زیادتی کریں ، یا ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے یا ہم کسی کے ساتھ جہالت سے پیش آئیں یا کوئی ہمارے ساتھ جہالت سے پیش آئے) ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی)

تشریح
آدمی جب کسی کام سے گھر سے نکلتا ہے تو مختلف حالات اور مختلف لوگوں سے اس کا سابقہ پڑتا ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق اس کے شامل حال نہ ہو اور اس کی دستگیری اور حفاظت نہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ ظلوم و جہول بہک جائے اور کسی ناکردنی میں مبتلا ہو جائے ، یا کسی دوسرے بندے کی گمراہی اور بےراہ روی کا سبب بن جائے ، یا کسی سے کوئی جھگڑا ہو جائے اور اس میں وہ کوئی ظالمانہ یا جاہلانہ حرکت کر بیٹھے ، یا خود کسی کے ظلم و ستم اور جہل و نادانی کا نشانہ بن جائے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلتے وقت اللہ کا نام پاک لینے اور اس پر اپنا ایمان اور اعتماد و توکل تازہ کرنے کے علاوہ ان سب خطرات سے بھی اس کی پناہ مانگتے تھے اور اپنے عمل سے گویا اس کی شہادت دیتے تھے کہ آپ بھی قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق اور حفاظت و دستگیری کے حاجت مند ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس سے پہلے حدیث میں مختصر کلمہ “لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ” بھی ان سب خطرات سے پناہ جائی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ، اس لئے اس مقصد کے لئے وہ بھی کافی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ، قَالَ: " بِسْمِ اللهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ، أَوْ نَظْلِمَ (2) أَوْ نُظْلَمَ، أَوْ نَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا " (رواه احمد والترمذى والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ گھر سے نکلنے اور گھر میں آنے کے وقت کی دعا
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ عرض کرتا ہوا داخل ہو “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا تَوَكَّلْنَا” (اے خدا میں تجھ سے مانگتا ہوں گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کا خیر(یعنی میرا گھر میں داخل ہونا اور باہر نکلنا میرے واسطے خیر اور بھلائی کا وسیلہ بنے) ہم اللہ کا نام پاک لے کر داخل ہوتے ہیں اور اسی طرح اس کا نام پاک لے کر باہر نکلتے ہیں ، اور اسی پر ہمارا بھروسا ہے ، وہی کارساز ہے) اللہ کے حضور میں یہ عرض کرنے کے بعد داخل ہونے والا آدمی گھر والوں کو سلام کرے اور کہے : “السلام عليكم” (سنن ابی داؤد)

تشریح
اس تعلیم ہدایت کی روح یہی ہے کہ گھر میں آنے اور گھر سے نکلنے کے وقت بھی بندے کے دل کی نگاہ اللہ تعالیٰ پر ہو ، زبان پر اس کا بابرکت نام ہو ، اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہر خیر و برکت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اس سے دعا اور سوال ہو اور اسی کی کریمی و کارسازی کا بھروسا اور اعتماد ہو ۔ پھر گھر کے بڑوں اور چھوٹوں پر سلام ہو ، جو درحقیقت ان کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے خیر اور سلامتی کی دعا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا وَلَجَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ، وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا، وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ عَلَى أَهْلِهِ " (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کے وقت کی دعا
حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرے : “اللهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ” (اے اللہ ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے) اور جب مسجد سے باہر آنے لگے تو عرض کرے : “اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ” (اے اللہ ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
مسجد گویا خانہ خدا اور دربارِ الٰہی ہے ۔ آنے والے وہاں اس لئے آتے ہیں کہ عبادت کے ذریعہ ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت حاصل ہو ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ کوئی بندہ غفلت کے ساتھ نہ مسجد میں جائے اور نہ مسجد سے نکلے ، بلکہ جانے کے وقت بھی اور آنے کے وقت بھی اس کے دل و زبان پر مناسب دعا ہو ۔ اللہ کے دربار کی حاضری کا یہ لازمی ادب ہے ۔

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ “رحمت” کا لفظ خاص طور سے روحانی اور اُخروی نعمتوں کے لئے بولا جاتا ہے ، جیسے کہ نبوت ، ولایت ، مقامِ قرب و رضا اور نعماء جنت وغیرہ ۔ چنانچہ سورہ زخرف میں فرمایا گیا ہے : “وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ” (1) اور “فضل” کا لفظ خصوصیت کے ساتھ دنیوی نعمتوں کے لئے بولا جاتا ہے ، جیسے رزق کی وسعت اور خوشحالی کی زندگی وغیرہ ۔ چنانچہ سورہ جمعہ میں فرمایا گیا ہے : “فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّـهِ ” (2) پس مسجد چونکہ ان اعمال کی مخصوص جگہ ہے جن کے صلہ میں روحانی اور اُخروی نعمتیں ملتی ہیں اس لئے مسجد میں داخل کے وقت کے لئے فتح ابواب رحمت کی اور مسجد سے نکلنے کے وقت کے لئے اللہ سے اس کا فضل مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ، فَلْيَقُلْ: اللهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ، وَإِذَا خَرَجَ، فَلْيَقُلْ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ". (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৯৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی مجلس سے اُٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا جس میں اس سے بہت سی قابلِ مواخذہ فضول و لایعنی باتیں سرزد ہوئیں ، مگر اس نے اس مجلس سے اٹھتے وقت کہا :
“سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ” (اے اللہ ! میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں ، گواہی دیتا ہوں کہ صرف تو ہی معبود برحق ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں اپنے گناہوں کی تجھ سے بخشش چاہتا ہوں ، اور تیرے حضور میں توبہ کرتا ہوں) تو اللہ تعالیٰ اس کی ان سب لغزشوں کو معاف کر دے گا جو اس مجلس میں اس سے سرزد ہوئیں ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
جب آدمی کسی مجلس میں بیٹھتا ہے تو بسا اوقات اس میں ایسی باتیں کہتا یا سنتا ہے جو ایک مومن کے لئے مناسب نہیں ہوتیں ، اور ان پر مواخذہ ہو سکتا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ جب مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح ، شہادتِ توحید اور توبہ و استغفار کا کلمہ پڑھو ، یہ مجلس کی بےاحتیاطیوں کا کفارہ ہو جائے گا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا كَثُرَ فِيهِ لَغَطُهُ، فَقَالَ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ مِنْ مَجْلِسِهِ ذَالِكَ "سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ" إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهُ مَا كَانَ فِىْ مَجْلِسِهِ ذَالِكَ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی مجلس سے اُٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چند مختصر سے کلمے ہیں اگر کوئی بندہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اخلاص سے کہہ لے تو وہ اس مجلس کی ساری لغزشوں کا کفارہ ہو جائیں گے ، اور اگر یہی کلمے کسی مجلس خیر یا مجلس ذکر کے خاتمے پر کہے جائیں تو اس مجلس کی روئداد کے نوشتہ پر ان کلموں کی مہر لگا دی جائے گی ، جس طرح اہم کاغذات اور دستاویزوں پر مہر لگا دی جاتی ہے ، وہ کلمے یہ ہیں : “سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ” (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہ بڑا ہی مختصر اور جامع کلمہ ہے ۔ س میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و حمد بھی ہے ، اس کی توحید کی شہادت بھی ہے ، اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار بھی ہے ۔ اللہ کے بعض مقبول بندوں کو دیکھا کہ ہر تھوڑی دیر کے بعد اور خاص کر ہر سلسلہ کلام کے ختم پر دل کی ایسی گہرائی سے جو اس وقت ان کے چہرے پر اور ان کی آواز میں بھی محسوس کی جاتی تھی یہی کلمے کہتے تھے جس سے سننے والوں کے دل بھی متاثر ہوتے تھے ۔
بلا شبہ یہ کلمہ اپنی معنویت اور خاص ترتیب کے لحاظ سے ایسا ہی ہے کہ جب اخلاص کے ساتھ بندہ اللہ کے حضور میں یہ عرض کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اس کی طرف ضرور بالضرور متوجہ ہو گی ۔ یہ کلمہ بھی رسول اللہ ﷺ کے عطا فرمائے ہوئے خاص تحفوں میں سے ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی قدر اور استفادہ کی توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَلِمَاتٌ لَا يَتَكَلَّمُ بِهِنَّ أَحَدٌ فِي مَجْلِسِهِ عِنْدَ قِيَامِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِلَّا كُفِّرَ بِهِنَّ عَنْهُ، وَلَا يَقُولُهُنَّ فِي مَجْلِسِ خَيْرٍ وَمَجْلِسِ ذِكْرٍ إِلَّا خُتِمَ لَهُ بِهِنَّ عَلَيْهِ كَمَا يُخْتَمُ بِالْخَاتَمِ عَلَى الصَّحِيفَةِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ " (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی مجلس سے اُٹھنے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں : بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کسی مجلس سے اٹھیں اور اپنے ساتھ اپنے اصحاب کے لئے بھی یہ دعا نہ فرمائیں ۔
“اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ تا وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لاَ يَرْحَمُنَا” (اے اللہ ! ہمیں اپنے خوف اور خشیت سے اتنا حصہ دے جو ہمارے درمیان اور تیری نافرمانیوں کے درمیان حائل ہو جائے (یعنی تیرے اس خوف کی وجہ سے ہمارے قدم تیری نافرمانیوں کے لئے نہ اُٹھ سکیں ۔)
اور اپنی طاعت و عبادت سے اتنا حصہ عطا فرما جس سے تو ہمیں اپنی جنت میں پہنچا دے (یعنی جو ہمارے لئے داخلہ جنت کا وسیلہ بن جائے) ۔
اور (قضا و قدر) کے یقین سے اتنا حصہ دے جو ہمارے لئے دنیاوی مصائب کو ہلکا کر دے ، اور جب تک تو ہمیں زندہ رکھے اس لائق رکھ کہ اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں اور اپنی دوسری قوتوں سے کام لیتے رہیں (یعنی مرتے دم تک ہم آنکھ ، کان وغیرہ تیری بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں) اور ان کو ہمارے مرنے کے بعد بھی باقی رکھ (یعنی ان سے ہم کچھ ایسے کام کر جائیں جو ہمارے مرنے کے بعد بھی کام آئیں) ۔
اور اے ہمارے مالک و مولا ! جو کوئی ہم پر (یعنی تیرے ایمان والے بندوں پر) ظلم ڈھائے تو تو اس سے ہمارا بدلہ لے ، اور جو کوئی ہماری دشمنی پر کمر بستہ ہو تو ، تو اس کے مقابلے میں ہماری مدد فرما ، اور ہمیں اس کے مقابلہ میں غالب اور منصور فرما ۔ اور ہمارے دین میں کوئی مصیبت نہ آئے (یعنی دینی مصائب اور فتنوں سے خاص طور پر ہماری حفاظت فرما) اور اے اللہ ایسا نہ ہو کہ دنیا ہمارا مقصدِ اعظم اور ہمارے علم و نظر کا منتہا بن جائے ۔ اور اے اللہ ! ہم پر کبھی بےرحم دشمنوں کو مسلط نہ فرما ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
یہ دعا بھی رسول اللہ ﷺ کی نہایت جامع و بلیغ خاص معجزانہ دعاؤں میں سے ہے ۔ حق یہ ہے کہ اپنے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعہ ان دعاؤں کی قدر و قیمت ظاہر کی جا سکے ۔
اللہ تعالیٰ ان صحابہ کرامؓ اور زمانہ مابعد کے ان سب بزرگوں کی قبروں کو منور فرمائے جنہوں نے اہتمام سے ان دعاؤں کو محفوظ رکھا اور امت کو پہنچایا اور ہمیں قدر و استفادہ کی توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ مِنْ مَجْلِسٍ حَتَّى يَدْعُوَ بِهَؤُلاَءِ الدَّعَوَاتِ لأَصْحَابِهِ: اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ، وَمِنَ اليَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا، وَاجْعَلْهُ الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا، وَلاَ تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا، وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لاَ يَرْحَمُنَا. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بازار جانے کی دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپ بازار جاتے تو کہتے : “بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا صَفْقَةً خَاسِرَةً” (میں اللہ کا نام لے کر بازار جاتا ہوں ۔ اے اللہ ! اس بازار میں اور اس کی چیزوں میں جو خیر اور بھلائی ہو اس کا میں تجھ سے سائل ہوں اور اس میں اور اس کی چیزوں میں جو شر ہو میں اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں ، اور اس بات سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں اس بازار میں کوئی گھاٹے کا سودا کروں) ۔ (دعوات کبیر للبیہقی)

تشریح
انسان اپنی ضروریات اور خرید و فروخت کے لئے بازار بھی جاتا ہے جہاں اس کے لئے نفع اور نقصان دونوں کے امکانات ہیں اور ہر دوسری جگہ سے زیادہ خدا سے غافل کرنے والی چیزیں ہیں اور اسی واسطے اس کو “شر البقاع” (بدترین جگہ) قرار دیا گیا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ جب ضرورت سے بازار تشریف لے جاتے تو اللہ کے ذکر اور اس سے دعا کا خاص اہتمام فرماتے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ السُّوقَ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ هَذِهِ السُّوقِ وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُصِيبَ فِيهَا صَفْقَةً خَاسِرَةً. (رواه البيهقى فى الدعوات الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بازار کی ظلمانی فضاؤں میں اللہ کے ذکر کا غیر معمولی ثواب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بندہ بازار گیا اور اس نے (بازار کی غفلت اور شور و شر سے بھرپور فضا میں دل کے اخلاص سے کہا “لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ تا وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ” تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے ہزاروں ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور ہزاروں ہزار گناہ محو کر دئیے جائیں گے اور ہزاروں ہزار درجے اس کے بلند کر دئیے جائیں گے ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے جنت میں ایک شاندار محل تیار ہو گا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
بازار بلاشبہ غفلت اور معصیات کے مراکز اور شیاطین کے اڈے ہیں ۔ پس اللہ کا جو باتوفیق بندہ وہاں کی ظلمانی اور شیطانی فضاؤں میں ایسے طریقے پر اور ایسے کلمات کے ساتھ اللہ کا ذکر کرے جن کے ذریعہ وہاں کے ظلمتوں کا پورا توڑ ہوتا ہو ، وہ بلاشبہ اس کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس پر بےحد و حساب عنایت ہو ۔ اس کے لئے ہزار نیکیوں کا لکھا جانا ، ہزاروں ہزار گناہوں کا محو کیا جانا ، اور ہزاروں ہزار درجے بلند ہونا ، اور جنت میں ایک شاندار محل عطا ہونا اسی عنایتِ الٰہی کی تفصیلی تعبیر ہے ۔
بازار میں آدمی کی نگاہ کے سامنے طرح طرح کی وہ چیزیں آتی ہیں جن کو دیکھ کر وہ خدا کو اور اپنے اور ساری دنیا کے فانی ہونے کو بھول جاتا ہے ۔ یہ چیزیں اس کے دل کو اپنی طرف کھینچے لگتی ہیں ۔ کسی چیز کو وہ سمجھتا ہے کہ یہ بڑی دلکش اور بڑی حسین ہے ، کسی کو سمجھتا ہے کہ یہ بڑی نفع بخش ہے ، کسی بڑے کامیاب تاجر یا صاحب دولت و حکومت کو دیکھ کر دل میں سوچنے لگتا ہے کہ اگر اس سے تعلق قائم کر لیا جائے تو سارے کام بن جائیں گے ۔ بازار کی فضاؤں میں یہی وہ خیالات و وساوس ہوتے ہیں جو دلوں اور نگاہوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے علاوہ اور تحفظ کے لئے ہدایت فرمائی کہ بازار جاؤ تو یہ کلمہ توحید تمہاری زبانوں پر ہو :
لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ، بِيَدِهِ الخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اللہ کے سوا کوئی قابلِ پرستش نہیں ، اکیلا وہی معبود برحق ہے ، کوئی اس کا شریک اور ساجھی نہیں ، صرف اسی کا راج اور اسی کی فرمانروائی ہے ، وہی حمد ستائش کے لائق ہے سب کی زندگی اور موت اسی کے قبصہ میں ہے اور وہ زندہ جاوید ہے ، اسی کبھی فنا نہیں ، ساری خیر اور بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے اور سب کچھ اسی کی قدرت میں ہے ۔
یہ کلمہ ان گمراہانہ خیالات اور ان شیطانی وسوسوں پر براہِ راست ضرب لگاتا ہے جو بازار میں انسان کے دل و دماغ کو متاثر کرتے ہیں ۔ اس کلمہ میں ان حقائق پر یقین کو تازہ کیا جاتا ہے :
1. الٰہ جو اس کا مستحق ہے کہ اس کو دل و جان سے چاہا جائے ، اس کی عبادت کی جائے اور اپنا مطلوب و مقصودِ حقیقی بنایا جائے صرف اللہ تعالیٰ ہے ، اس استحقاق میں کوئی چیز اور کوئی ہستی اس کی شریک نہیں ۔
2.ساری کائنات میں صرف اسی کی فرمانروائی ہے ، بلاشرکت غیرے اسی کا حکم چلتا ہے ، وہی ساری کائنات کا مالک اور حاکم حقیقی ہے ۔
3. حمد و ستائش کے لائق بھی صرف وہی ہے ، اس کے علاوہ اس کی مخلوق میں جو چیزیں دل یا نگاہ کو اچھی اور قابلِ تعریف نظر آتی ہیں وہ اس کی مخلوقات اور مصنوعات ہیں ، ان کا حسن و جمال اسی کا عطیہ ہے ۔
4.اس کی اور صرف اسی کی شان “حی لا یموت” ہے ، اس کے علاوہ ہر چیز فانی ہے ، اور ہر ایک کی موت و حیات اور فنا و بقاء اسی کے ہاتھ میں ہے ۔
5. ہر خیر اور بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے ، اس کے سوا کسی کے اختیار اور قبضہ میں کچھ نہیں ۔
6.وہ اور صرف وہی قادرِ مطلق ہے ، ہر چیز اور ہر تبدیلی اسی کی قدرت میں ہے ۔ بازارکی فضاؤں میں جو بندہ اللہ کو اس طرح یاد کرتا ہے وہ گویا شیاطین کی سرزمین میں اللہ کے نام کا علم بلند کرتا ہے اور گمراہی کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہدایت کی شمع جلا جاتا ہے ۔ اس لئے بلاشبہ وہ اس غیر معمولی عنایت اور رحمت کا مستحق ہے جس کا اس حدیث پاک میں ذکر کیا گیا ہے ۔
حدیث کے لفظ “الفِ الف” کا ترجمہ ہم نے بجائے دس لاکھ کے “ہزاروں ہزار” کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک ان شارحین کی رائے زیادہ قرینِ قیاس ہے جنہوں نے کہا ہے کہ یہاں یہ لفظ معین عدد کے لئے استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ غیر معمولی کثرت کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ دَخَلَ السُّوقَ، فَقَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ، بِيَدِهِ الخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ، وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ، وَرَفَعَ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ دَرَجَةٍ وبنى له بيتا في الجنة. (رواه الترمذى وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھنے کے وقت کی دُعا
امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی کی نظر کسی مبتلائے مصیبت اور دکھی پر پڑے اور وہ کہے : “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي تا تَفْضِيلًا” (حمد اس اللہ کے لئے جس نے مجھے عافیت دی اور محفوظ رکھا اس بلا اور سے سے جس میں تجھ کو مبتلا کیا گیا اور اپنی بہت سے مخلوقات پر اس نے مجھے فضیلت بخشی) تو وہ اس بلا اور مصیبت سے محفوظ رہے گا خواہ کوئی بھی مصیبت ہو ۔ (جامع ترمذی)
(اور سنن ابن ماجہ میں یہی حدیث حضرت ابنِ عمرؓ سے روایت کی گئی ہے)

تشریح
بسا اوقات ہماری نگاہ اللہ کے ایسے بندوں پر پڑتی ہے جو بےچارے کسی دکھ اور مصیبت میں مبتلا اور برے حال میں ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے وقت کے لئے ہدایت فرمائی کہ بندہ ایسا کوئی منظر دیکھے تو اس بات پر اللہ کی حمد اور اس کا شکر کرے کہ اس نے مجھے اس مصیبت میں مبتلا نہیں کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اس حمد و شکر کی برکت سے وہ اس مصیبت سے محفوظ رکھا جائے گا ۔

تشریح ..... امام ترمذیؒ نے اس حدیث کے ساتھ ہی گویا اس کی تشریح کے طور پر امام زین العابدینؓ کے صاحبزادے امام باقرؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ : “جب بندہ کسی مبتلائے مصیبت کو دیکھے تو پہلے اس مصیبت سے اللہ کی پناہ چاہے اس کے بعد یہ دعا اس طرح آہستہ پڑھے کہ وہ بےچارہ مبتلائے مصیبت سُن نہ سکے ۔ ظاہر ہے کہ اگر سُن لے گا تو اس سے اس کا دل دکھے گا ۔”
حضرت شیخ شبلی علیہ الرحمۃ سے نقل کیا گیا ہے کہ : جب وہ کسی ایسے آدمی کو دیکھتے جو خدا سے غافل اور آخرت سے بےفکر ہو کر دنیا میں پھنسا ہو تو یہی دعا پڑھتے : “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلاَكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلاً”
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ رَجُلٍ رَأَى مُبْتَلًى، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا، عُوفِيَ مِنْ ذَلِكَ الْبَلَاءِ، كَائِنًا مَا كَانَ " (رواه الترمذى وراه ابن ماجه عن ابن عمر)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے وقت کی دعا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کچھ کھاتے پیتے تو کہتے : “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ ” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے ہمیں کھانے اور پینے کو دیا اور (اس سے بھی بڑا کرم یہ فرمایا کہ) ہمیں اپنے مسلم بندوں میں سے بنایا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)

تشریح
کھانا پینا انسان کے لوازمِ حیات میں سے ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کو جب کچھ کھانے یا پینے کو میسر ہوتا تو آپ ﷺ اس کو اللہ کی طرف سے اور اس کا عطیہ یقین کرتے ہوئے اس کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت فرماتے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ قَالَ: الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ. (رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کھانے پینے کے وقت کی دعا
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جو بندہ کھانا کھائے اور پھر کہے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا الطَّعَامَ، وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ” (ساری حمد اس اللہ کے لئے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا ،ا ور میری اپنی سعی و تدبیر اور قوت و طاقت کے بغیر محض اپنے فضل سے مجھے یہ عطا فرمایا) تو اس حمد و چکر کی برکت سے اس کے پہلے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
بعض اعمال بظاہر بڑے چھوٹے سے ہوتے ہیں لیکن اللہ کی نگاہ میں وہ بہت بڑے اور اس کی میزان میں بہت بھاری ہوتے ہیں اور ان کا نتیجہ بڑا غیر معمولی نکلتا ہے ۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جو بندہ کھانے کے بعد صدقِ دل سے یہ اعتراف کرے کہ یہ کھانا مجھے میرے پروردگار اور پالنہار نے عطا فرمایا ، میرے کسی ہنر اور کسی صلاحیت اور استحقاق کو اس میں کوئی دخل نہیں تھا ، جو کچھ عطا فرمایا وہ اس نے صرف اپنے کرم سے عطا فرمایا ، اور وساری حمد و ستائش کا مستحق وہی ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کی اس حمد کی اتنی قدر فرمائے گا کہ اس کے سارے پہلے گناہ اس کی برکت سے بخش دے گا اور سنن ابی داؤد کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جس بندے نے کپڑا پہنا اور پھر اس طرح اللہ کی حمد کی : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي، وَلَا قُوَّةٍ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ.
ساری حمد و ستائش اس اللہ کے لئے جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا ،اور بغیر میری سعی و تدبیر اور قوت و طاقت کے مجھے یہ عطا فرمایا ۔ تو اس کے پہلے اور پچھلے سب گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔
دراصل بندے کا یہ اعتراف و احساس کہ اس کے پاس جو کچھ ہے اس کے رب کا عطیہ ہے وہ خود کسی لائق نہیں ہے ، عبدیت کا جوہر ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے ۔ اور ان اعمال میں سے ہے جن کے صدقہ میں عمر بھر کی خطائیں معاف کر دی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم اور ان پر یقین نصیب فرمائے اور عمل کی توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَكَلَ طَعَامًا ثُمَّ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا الطَّعَامَ، وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ» (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی کے یہاں کھانا کھا کر کھلانے والے کے لئے دعا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو الہیثم بن التیہان نے اپنے ہاں کھانا تیار کرایا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کی دعوت کی جب سب کھانا کھا کے فارغ ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اپنے بھائی کو بدلہ دو ۔ عرض کیا گیا کہ : حضور ﷺ ! ان کو کیا بدلہ دیا جا سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “جب کسی بھائی کے گھر جائیں اور وہاں کھائیں پیئں اور پھر اس کے لئے خیر و برکت کی دعا کریں تو بس یہی بندوں کی طرف سے اس کا بدلہ ہے” ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: صَنَعَ أَبُو الْهَيْثَمِ بْنُ التَّيْهَانِ طَعَامًا فَدَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ فَلَمَّا فَرَغُوا قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَثِيبُوا أَخَاكُمْ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا إِثَابَتُهُ؟ قَالَ «إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا دُخِلَ بَيْتُهُ فَأُكِلَ طَعَامُهُ، وَشُرِبَ شَرَابُهُ، فَدَعَوْا لَهُ فَذَلِكَ إِثَابَتُهُ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی کے یہاں کھانا کھا کر کھلانے والے کے لئے دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاں تشریف لائے انہوںؓ نے آپ ﷺ کی خدمت میں پکی ہوئی روٹی اور روغنِ زیتون پیش کیا ۔ آپ ﷺ نے اس کو تناول فرمایا اور پھر ان کے لئے اس طرح دعا فرمائی :
أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ
اللہ کے روزہ دار بندے تمہارے ہاں افطار کیا کریں اور ابرار و صالحین تمہارے ہاں کھانا کھایا کریں اور اللہ کے فرشتے تمہارے لئے دعائے خیر کیا کریں ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَجَاءَهُ بِخُبْزٍ وَزَيْتٍ، فَأَكَلَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২০৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کسی کے یہاں کھانا کھا کر کھلانے والے کے لئے دعا
عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے والد بسر اسلمی کے مہمان ہوئے تو میرے والد نے آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا اور وطبہ (ایک قسم کا مالیدہ) پیش کیا ۔ آپ ﷺ نے اس میں سے تناول فرمایا ۔ پھر آپ ﷺ کی خدمت میں کھجوریں پیش کی گئیں ، آپ ﷺ ان کو کھاتے تھے اور کلمہ والی انگلی اورا درمیانی انگلی دونوں کو ملا کر کھجور کی گٹھلیاں ان میں لے کر پھینکتے جاتے تھے ۔ پھر آپ ﷺ کی خدمت میں پینے کے لئے کوئی مشروب پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو بھی نوش فرمایا ، پھر آپ ﷺ تشریف لے جانے لگے تو میرے والد نے آپ ﷺ کی سواری کی لگام تھام کے عرض کیا کہ ہمارے لئے دعا فرما دیجئے تو آپ ﷺ نے دعا کی :
«اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ» (صحيح مسلم)
اے اللہ تو نے ان کو روزی کا جو سامان عطا فرمایا ہے اس میں ان کے لئے برکت دے اور ان کو اپنی مغفرت اور رحمت سے نوازا ۔

تشریح
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جس طرح کھانے پینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اسی طرح جب اللہ کا کوئی بندہ کھلائے پلائے تو اس کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں کھانا کھانے کے بعد ان کے لئے جو دعا فرمائی جس کا حضرت انسؓ کی اوپر والی حدیث میں ذکر ہے ، یعنی : “أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ” اور بسر اسلمیؓ کے ہاں کھانے کے بعد ان کے لئے آپ ﷺ نے جو دعا فرمائی جس کا عبداللہ بن بسر والی اس حدیث میں ذکر ہے یعنی : “اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ” ان دعاؤں کے مضمونوں میں فرق غالباً حضرت سعد بن عبادہؓ اور بسر اسلمیؓ کے دینی مقام اور درجہ کے لحاظ سے ہے ۔ حضرت سعد بن عبادہؓ آپ ﷺ کے خاص فیض یافتہ اور صفِ اول کے اصحاب کرامؓ میں سے تھے ، انؓ کو آپ ﷺ نے دعا دی کہ : “اللہ تعالیٰ ایسا کرے کہ ہمیشہ تمہارے ہاں اللہ کے روزہ دار بندے افطار کیا کریں ، اور اس کے صالح اور متقی بندے کھانا کھایا کریں اور فرشتے تمہاے لئے دعائے خیر کریں ، حضرت سعد بن عبادہؓ کے دینی مقام کے لئے ایسی ہی دعا مناسب تھی ۔ اور بسر اسلمیؓ جو اس درجہ کے نہیں تھے ان کے لئے خیر و برکت اور مغفرت و رحمت کی وہی دعا زیادہ مناسب تھی جو آپ ﷺ نے انؓ کو دی” ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ: نَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي، قَالَ: فَقَرَّبْنَا إِلَيْهِ طَعَامًا وَوَطْبَةً، فَأَكَلَ مِنْهَا، ثُمَّ أُتِيَ بِتَمْرٍ فَكَانَ يَأْكُلُهُ وَيُلْقِي النَّوَى بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، وَيَجْمَعُ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى ثُمَّ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ، فَقَالَ أَبِي: وَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِهِ، ادْعُ اللهَ لَنَا، فَقَالَ: «اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক: