মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩২১ টি
হাদীস নং: ১১৭০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مختلف اوقات و احوال کی دعائیں: صبح و شام کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ : “مجھے ذکر و دعا کے وہ کلمے تعلیم فرما دیجئے جن کو میں صبح و شام کہہ لیا کروں” ، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کرو ۔ “اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ تا شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ” (اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے ، غیب و شہود کا پورا علم رکھنے والے ، ہر چیز کے مالک و پروردگار ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی قابلِ پرستش نہیں ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اور اس کے شرک سے (یعنی اس بات سے کہ مجھے شرک میں مبتلا کرے دے ۔) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اے ابو بکر ! تم اللہ سے یہ دعا کیا کرو صبح کو اور شام کو اور سونے کے لئے بست پر لیٹتے وقت ۔”) ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
تشریح
مختلف اوقات و احوال کی دعائیں
اب تک جو دعائیں مذکور ہوئیں وہ سب نماز کے اندر کی یا نماز کے بعد کی تھیں ، اور نماز چونکہ اپنی روح و حقیقت کے لحاظ سے خود دعا و مناجات بلکہ اس کی مکمل ترین صورت ہے ، اور اس کا موضوع ہی اللہ تعالیٰ کے حضور میں اظہارِ عجز و نیاز اور دعاو و سوال ہے ، اس لئے اس میں اس طرح کی دعائیں کامل معرفت اور کمالِ عبدیت کی علامت ہونے کے باوجود کوئی عجوبہ نہیں ۔ لیکن جو دعائیں رسول اللہ ﷺ نے دوسرے اوقات خاص کر کھانے پینے ، سونے جاگنے اور دوسرے بشری و حیوانی تقاضوں والے اعمال و اشغال کے اوقات کے لئے تعلیم فرمائی ہیں جن کے ذریعہ یہ اعمال و اشغال بھی سراسر روحانی و نورانی اور اللہ تعالیٰ کے تقریب کا وسیلہ بن جاتے ہیں ، وہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم کا خاص الخاص معجزہ ہے ذیل میں انہی دعاؤں کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے ۔
صبح و شام کی دعائیں
ہر آدمی کے لئے رات کے بعد صبح ہوتی ہے اور دن ختم ہونے پر شام آتی ہے ، گویا ہر صبح اور ہر شام زندگی کی ایک منزل طے ہو کر اگلی منزل شروع ہو جاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات اور اپنے عملی نمونہ سے امت کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہر صبح و شام اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو تازہ و مستحکم کرے ، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے ، اپنے قصورون کے اعتراف کے ساتھ معافی مانگے ، اور سائل و بھکاری بن کر رب کریم سے مناسب وقت دعائیں کرے ۔
تشریح
مختلف اوقات و احوال کی دعائیں
اب تک جو دعائیں مذکور ہوئیں وہ سب نماز کے اندر کی یا نماز کے بعد کی تھیں ، اور نماز چونکہ اپنی روح و حقیقت کے لحاظ سے خود دعا و مناجات بلکہ اس کی مکمل ترین صورت ہے ، اور اس کا موضوع ہی اللہ تعالیٰ کے حضور میں اظہارِ عجز و نیاز اور دعاو و سوال ہے ، اس لئے اس میں اس طرح کی دعائیں کامل معرفت اور کمالِ عبدیت کی علامت ہونے کے باوجود کوئی عجوبہ نہیں ۔ لیکن جو دعائیں رسول اللہ ﷺ نے دوسرے اوقات خاص کر کھانے پینے ، سونے جاگنے اور دوسرے بشری و حیوانی تقاضوں والے اعمال و اشغال کے اوقات کے لئے تعلیم فرمائی ہیں جن کے ذریعہ یہ اعمال و اشغال بھی سراسر روحانی و نورانی اور اللہ تعالیٰ کے تقریب کا وسیلہ بن جاتے ہیں ، وہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم کا خاص الخاص معجزہ ہے ذیل میں انہی دعاؤں کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے ۔
صبح و شام کی دعائیں
ہر آدمی کے لئے رات کے بعد صبح ہوتی ہے اور دن ختم ہونے پر شام آتی ہے ، گویا ہر صبح اور ہر شام زندگی کی ایک منزل طے ہو کر اگلی منزل شروع ہو جاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات اور اپنے عملی نمونہ سے امت کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہر صبح و شام اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو تازہ و مستحکم کرے ، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے ، اپنے قصورون کے اعتراف کے ساتھ معافی مانگے ، اور سائل و بھکاری بن کر رب کریم سے مناسب وقت دعائیں کرے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مُرْنِي بِكَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ إِذَا أَصْبَحْتُ، وَإِذَا أَمْسَيْتُ، قَالَ: " قُلْ: اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ «قَالَ» قُلْهَا إِذَا أَصْبَحْتَ، وَإِذَا أَمْسَيْتَ، وَإِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ " (رواه ابوداؤد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صبح و شام کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کو تلقین فرماتے تھے کہ جب رات ختم ہو کر تمہاری صبح ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کرو : “اللَّهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ أَمْسَيْنَا تا وَإِلَيْكَ النُّشُورُ” (اے اللہ ! تیرے ہی حکم سے ہماری صبح ہوتی ہے ، اور تیرے ہی حکم سے ہماری شام ، تیرے ہی فیصلہ سے ہم زندہ ہیں ،ا ور رتیرے ہی حکم سے ہم وقت آ جانے پر مریں گے ، اور پھر تیری ہی طرف لوٹ کر جائیں گے) اسی طرح جب شام ہو تو عرض کرو : “اللَّهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ أَمْسَيْنَا تا وَإِلَيْكَ النُّشُورُ” (اے اللہ ! تیرے ہی حکم سے ہماری شام ہوتی ہے ، اور تیرے ہی حکم سے ہماری صبح ، تیرے ہی فیصلہ سے ہم زندہ ہیں ،ا ور رتیرے ہی فیصلہ سے مریں گے ، اور پھر اُٹھ کر تیرے ہی حضور حاضر ہوں گے) ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
تشریح
رات کے اندھیرے کے بعد صبح کے اجالے کا نمودار ہونا اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ انسان عموماً دن ہی میں اپنے سارے کام کاج کرتے ہیں ، اگر رات کے بعد صبح نہ ہو تو گویا قیامت ہو جائے ۔ اسی طرح دن کے ختم پر شام کا آنا اور رات کا شروع ہونا بھی بڑی نعمت ہے ، شام آ کر کاموں سے چھٹی دلاتی ہے اور آرام و راحت کا پیام لاتی ہے ، اگر ایک دن شام نہ آئے ، تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانون پر کیا گزر جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ہدایت فرمائی ہے کہ جب صبح یا شام ہو تو اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا احساس و اعتراف کیا جائے ۔ اسی کے ساتھ اس کو بھی یاد کیا جائے کہ جس طرح اللہ کے حکم سے دن کی عمر ختم ہو کر رات آتی ہے اور رات کی عمر ختم ہو کر دن نکلتا ہے ۔ اسی طرح اس کے حکم سے ہماری زندگی چل رہی ہے ، اور اس کے حکم سے مقررہ وقت پر موت آ جائے گی اور پھر اللہ کے حضور میں پیشی ہو گی ۔ الغرض روزانہ صبح و شام اللہ کی نعمت کا اعتراف اور موت اور آخرت کو یاد کیا جائے ۔ نہ صبح کو اس سے غفلت ہو نہ شام کو ۔
تشریح
رات کے اندھیرے کے بعد صبح کے اجالے کا نمودار ہونا اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ انسان عموماً دن ہی میں اپنے سارے کام کاج کرتے ہیں ، اگر رات کے بعد صبح نہ ہو تو گویا قیامت ہو جائے ۔ اسی طرح دن کے ختم پر شام کا آنا اور رات کا شروع ہونا بھی بڑی نعمت ہے ، شام آ کر کاموں سے چھٹی دلاتی ہے اور آرام و راحت کا پیام لاتی ہے ، اگر ایک دن شام نہ آئے ، تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانون پر کیا گزر جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ہدایت فرمائی ہے کہ جب صبح یا شام ہو تو اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا احساس و اعتراف کیا جائے ۔ اسی کے ساتھ اس کو بھی یاد کیا جائے کہ جس طرح اللہ کے حکم سے دن کی عمر ختم ہو کر رات آتی ہے اور رات کی عمر ختم ہو کر دن نکلتا ہے ۔ اسی طرح اس کے حکم سے ہماری زندگی چل رہی ہے ، اور اس کے حکم سے مقررہ وقت پر موت آ جائے گی اور پھر اللہ کے حضور میں پیشی ہو گی ۔ الغرض روزانہ صبح و شام اللہ کی نعمت کا اعتراف اور موت اور آخرت کو یاد کیا جائے ۔ نہ صبح کو اس سے غفلت ہو نہ شام کو ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُ أَصْحَابَهُ يَقُولُ: إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا، وَبِكَ أَمْسَيْنَا، وَبِكَ نَحْيَا وَبِكَ نَمُوتُ وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ، وَإِذَا أَمْسَى فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ بِكَ أَمْسَيْنَا وَبِكَ أَصْبَحْنَا وَبِكَ نَحْيَا وَبِكَ نَمُوتُ وَإِلَيْكَ النُّشُورُ. (رواه ابوداؤد والترمذى واللفظ له)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صبح و شام کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شام ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے : “أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ الخ” (یہ شام اس حال میں ہو رہی ہے کہ ہم اور ساری کائنات اللہ ہی کے ہیں ۔ ساری حمد و ستائش اسی اللہ کے لئے ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا کوئی شریک ساجھی نہیں ، راج اور ملک اسی کا ہے ، وہی لائق حمد و ثنا ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اے اللہ ! یہ آنے والی رات اور جو کچھ اس رات میں ہونے والا ہے میں اس کے خیر کا تجھ سے سائل ہوں ، اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ پروردگار ! تیری پناہ سستی اور کاہلی سے (جو اُمورِ خیر سے محرومی کا سبب بنتی ہے) تیری پناہ بالکلک نکما کر دینے والے بڑھاپے سے ، اور کبر سنی سے بُرے اثرات سے ، تیری پناہ دُنیا کے ہر فتنہ سے (اور یہاں کی ہر آزمائش سے) تیری پناہ قبر کے عذاب سے ۔ اور جب صبح ہوتی ہے تو رسول اللہ ﷺ بس ایک لفظ کی تبدیلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرتے : “وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ الخ” (ہماری صبح اس حال میں ہو رہی ہے کہ ہم اور یہ ساری کائنات اللہ ہی کے ہیں الخ ۔) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس دعا میں اپنی ذات اور ساری کائنات کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ملکیت کا اقرار اور اس کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی توحید کا اعلان ہے ۔ پھر رات یا دن میں جو خیر اور برکتیں ہوں ان کا سوال ہے ، اور جو کمزوریاں خیر و سعادت سے محرورمی کا سبب بن جاتی ہیں ان سے پناہ طلبی ہے ۔ اور آخر میں دنیا کے ہر فتنہ اور عذابِ قبر سے پناہ مانگی گئی ہے ۔ سبحان اللہ ! کیسی جامع دُعا ہے اور اس میں اپنی بندگی اور نیاز مندی کا کیسا اظہار ہے ۔
تشریح
اس دعا میں اپنی ذات اور ساری کائنات کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ملکیت کا اقرار اور اس کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی توحید کا اعلان ہے ۔ پھر رات یا دن میں جو خیر اور برکتیں ہوں ان کا سوال ہے ، اور جو کمزوریاں خیر و سعادت سے محرورمی کا سبب بن جاتی ہیں ان سے پناہ طلبی ہے ۔ اور آخر میں دنیا کے ہر فتنہ اور عذابِ قبر سے پناہ مانگی گئی ہے ۔ سبحان اللہ ! کیسی جامع دُعا ہے اور اس میں اپنی بندگی اور نیاز مندی کا کیسا اظہار ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَمْسَى قَالَ: «أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ اللَّيْلَةِ، وَخَيْرِ مَا فِيهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِيهَا، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَالْهَرَمِ، وَسُوءِ الْكِبَرِ، وَفِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ»وَإِذَا أَصْبَحَ قَالَ ذَلِكَ أَيْضًا: «أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ الخ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صبح و شام کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شام یا صبح ہوتی تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا ضرور کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ الخ” (اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت کا طالب و سائل ہوں ۔ اے میرے اللہ ! میں اپنے دین اور دنیا اور اپنے اہل و عیال اور مال کے بارے میں معافی اور عافیت کا طلب گار ہوں ۔ اے اللہ ! میری شرم و عار والی باتوں کی پردہ داری فرما ۔ میرے دل کی گھبراہٹ اور تشویشات دور فرما کر مجھے امن و اطمینان نصیب فرما ۔ اے اللہ ! میری حفاظت فرما میرے آگے سے اور پیچھے سے اور میرے دائیں بائیں اور میری اوپر کی جانب سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ اس بات سے کہ نیچے کی جانب سے مجھ پر کوئی آفت آئے ، مجھے ہمیشہ اس سے محفوظ رکھ ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
رسول اللہ ﷺ کی صبح شام کی دعاؤں میں یہ دعا بھی بڑی جامع ہے ، انسانی ضرورت کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ان چند الفاظ میں نہ آ گیا ہو ۔ اللہ تعالیٰ قدر شناسی عطا فرمائے اور عمل کی توفیق دے ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ کی صبح شام کی دعاؤں میں یہ دعا بھی بڑی جامع ہے ، انسانی ضرورت کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ان چند الفاظ میں نہ آ گیا ہو ۔ اللہ تعالیٰ قدر شناسی عطا فرمائے اور عمل کی توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ ابْنَ عُمَرَ قَالَ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَعُ هَؤُلَاءِ الدَّعَوَاتِ، حِينَ يُمْسِي، وَحِينَ يُصْبِحُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صبح و شام کی دعائیں
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان بندہ صبح اور شام تین دفعہ کہے : “رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا” (میں راضی ہوں اللہ کو اپنا مالک و پروردگار مان کر اور اسلام کو اپنا دین بنا کر اور محمدﷺ کو نبی مان کر) تو اللہ نے اس بندے کے لئے اپنے ذمہ کر لیا ہے کہ قیامت کے دن اس کو ضرور خوش کر دے گا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی)
تشریح
سبحان اللہ! کتنی عظیم بشارت ہے کہ جو مومن و مسلم بندہ اس مختصر کلمہ کو صبح شام تین تین دفعہ کہہ کے اللہ و رسول ﷺ اور ان کے دین کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ اور مستحکم کرے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ ہے کہ میں قیامت کے دن اس کو راضی اور خوش کر دوں گا ۔ اس بشارت کے معلوم ہو جانے کے بعد اس دولت کو حاصل کرنے سے غافل رہنا کتنا عظیم خسارہ اور کتنی بڑی محرومی ہو گی ۔
تشریح
سبحان اللہ! کتنی عظیم بشارت ہے کہ جو مومن و مسلم بندہ اس مختصر کلمہ کو صبح شام تین تین دفعہ کہہ کے اللہ و رسول ﷺ اور ان کے دین کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ اور مستحکم کرے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ ہے کہ میں قیامت کے دن اس کو راضی اور خوش کر دوں گا ۔ اس بشارت کے معلوم ہو جانے کے بعد اس دولت کو حاصل کرنے سے غافل رہنا کتنا عظیم خسارہ اور کتنی بڑی محرومی ہو گی ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَقُولُ اِذَا أَمْسَي وَاِذَا أَصْبَح ثَلَاثًا رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُرْضِيَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " (رواه احمد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صبح و شام کی دعائیں
عبداللہ بن غنام بیاضی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو بندہ صبح ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرے کہ : “اللَّهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِعْمَةٍ الخ” (اے میرے اللہ ! اس صبح جو بھی نعمت مجھے نصیب ہے یا تیری مخلوق میں سے کسی کو بھی میسر ہے وہ تنہا تیرے ہی کرم کا نتیجہ ہے ، تیرا کوئی شریک ساجھی نہیں ، تیرے ہی لئے ساری حمد و ثنا اور اے کریم تیرا ہی شکر ہے) تو اس نے اس دن کی ساری نعمتوں کا شکر ادا کر دیا ، اور جس نے شام ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور میں اسی طرح عرض کیا تو اس نے پوری رات کی نعمتوں کا شکر اد اکر دیا ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
حق یہ ہے کہ بندہ اللہ کی نعمتوں کا کسی طرح شکر ادا نہیں کر سکتا ۔ یہ رب کریم کا صرف کرم ہے کہ ایسے حقیر سے شکر کو بھی وہ کافی قرار دیتا ہے ۔ منقول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ : “اے پروردگار ! تیری نعمتیں بےشمار ہیں میں کیسے ان کا شکر ادا کروں ” ۔ ارشاد ہوا کہ : “تمہارا یہ محسوس کرنا کہ وہ نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں ، بس یہی شکر کافی ہے ۔ ” لك الحمد ولك الشكر ۔
تشریح
حق یہ ہے کہ بندہ اللہ کی نعمتوں کا کسی طرح شکر ادا نہیں کر سکتا ۔ یہ رب کریم کا صرف کرم ہے کہ ایسے حقیر سے شکر کو بھی وہ کافی قرار دیتا ہے ۔ منقول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ : “اے پروردگار ! تیری نعمتیں بےشمار ہیں میں کیسے ان کا شکر ادا کروں ” ۔ ارشاد ہوا کہ : “تمہارا یہ محسوس کرنا کہ وہ نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں ، بس یہی شکر کافی ہے ۔ ” لك الحمد ولك الشكر ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَنَّامٍ الْبَيَاضِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ اللَّهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنْكَ وَحْدَكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، فَلَكَ الْحَمْدُ، وَلَكَ الشُّكْرُ، فَقَدْ أَدَّى شُكْرَ يَوْمِهِ، وَمَنْ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ حِينَ يُمْسِي فَقَدْ أَدَّى شُكْرَ لَيْلَتِهِ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صبح و شام کی دعائیں
حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب صبح ہو تو کہو : “أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِيهِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهُ” (صبح اس حالت میں ہوئی کہ ہم اور ساری کائنات اللہ رب العالمین کی ملک اور اس کے قبضہ میں ہیں ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے اس دن کی خیر اور فتح و نصرت ، نور و برکت اور ہدایت کا سائل ہوں اور اس دن اور اس کے بعد کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں) پھر جب شام ہو تو اسی طرح کہو ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ هَذَا الْيَوْمِ فَتْحَهُ، وَنَصْرَهُ، وَنُورَهُ، وَبَرَكَتَهُ، وَهُدَاهُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِيهِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهُ، ثُمَّ إِذَا أَمْسَى فَلْيَقُلْ مِثْلَ ذَلِكَ " (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صبح و شام کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “جو کوئی (سورہ روم کی یہ تین آیتیں) صبح ہونے پر تلاوت کرے وہ اس دن کی وہ ساری خیر اور برکتیں پا لے گا جو اس سے فوت ہوئی ہوں گی ۔ اور اسی طرح جو کوئی شام آنے پر یہ تین آیتیں تلاوت کرے وہ اس رات کی وہ ساری خیر و برکت پا لے گا جو اس سے فوت ہوئی ہوں گی ۔ وہ آیات یہ ہیں :
فَسُبْحَانَ اللَّـهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ ﴿١٧﴾ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ ﴿١٨﴾ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ
اللہ کی پاکی بیان کرو جب تمہارئے لئے صبح ہو اور جب شام آئے ۔ اور زمین و آسمان میں ہر وقت اس کی حمد و ثناء ہوتی ہے ۔ اور چوتھے پہر اور دوپہر کے وقت بھی اس کی پاکی بیان کرو ، وہی قادرِ مطلق زندہ کر مُردہ سے اور مُردہ کو زندہ سے برآمد کرتا ہے اور زمین پر مردگی طاری ہو جانے کے بعد اپنی رحمت سے اسے حیاتِ تازہ بخشتا ہے ۔ اور تم بھی اسی طرح مرنے کے بعد زندہ کر دئیے جاؤ گے ۔ (سنن ابی داؤد)
فَسُبْحَانَ اللَّـهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ ﴿١٧﴾ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ ﴿١٨﴾ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ
اللہ کی پاکی بیان کرو جب تمہارئے لئے صبح ہو اور جب شام آئے ۔ اور زمین و آسمان میں ہر وقت اس کی حمد و ثناء ہوتی ہے ۔ اور چوتھے پہر اور دوپہر کے وقت بھی اس کی پاکی بیان کرو ، وہی قادرِ مطلق زندہ کر مُردہ سے اور مُردہ کو زندہ سے برآمد کرتا ہے اور زمین پر مردگی طاری ہو جانے کے بعد اپنی رحمت سے اسے حیاتِ تازہ بخشتا ہے ۔ اور تم بھی اسی طرح مرنے کے بعد زندہ کر دئیے جاؤ گے ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ {فَسُبْحَانَ اللَّـهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ ﴿١٧﴾ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ ﴿١٨﴾ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ } أَدْرَكَ مَا فَاتَهُ فِي يَوْمِهِ ذَلِكَ، وَمَنْ قَالَهُنَّ حِينَ يُمْسِي أَدْرَكَ مَا فَاتَهُ فِي لَيْلَتِهِ " (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صبح و شام کی دعائیں
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص ہر دن کی صبح اور ہر رات کی شام کو تین دفعہ یہ دعا پڑھ لیا کرے اسے کوئی مضرت نہیں پہنچے گی اور وہ کسی حادثہ سے دوچار نہیں ہو گا ۔ دعا یہ ہے : بِسْمِ اللهِ الَّذِي لاَ يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ العَلِيمُ (جامع ترمذی)
اس اللہ کے نام کے ساتھ زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی ضرر نہیں پہنچا سکتی اور وہ سب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
تشریح
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے ر اوی ان کے صاحبزادے ابان ہیں ۔ ان پر فالج کا حملہ ہو گیا تھا جس سے ان کا جسم متاثر تھا ۔ ایک دفعہ جب وہ یہ حدیث بیان کر رہے تھے ایک آدمی خاص طرح کی نظر سے ان کی طرف دیکھنے لگا ، وہ سمجھ گئے کہ اس کے دل میں یہ اعتراض پید اہو رہا ہے کہ جب آپ یہ حدیث اپنے والد ماجد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سن چکے تھے تو پھر آپ پر فالج کا حملہ کیسے ہو گیا ، اس حدیث میں تو اس دعا کے صبح و شام پڑھنے والے کے لئے ہر حادثہ سے حفاظت کی ضمانت بتائی گئی ہے ۔ ابان نے اس آدمی سے کہا : “میاں دیکھتے کیا ہو ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں نہ حضرت عثمانؓ نے مجھ سے غلب طیان کیا تھا ۔ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس میں جو وعدہ ہے وہ بھی برحق ہے ، اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ کسی معاملہ کی وجہ سے مجھے سخت غصہ تھا ، اس غصہ کی حالت میں اس دن وقت پر دعا پڑھنا بھول گیا ، اسی دن یہ فالج کا حملہ ہوا ۔ چونکہ تقدیر الہی میں فالج ہونا مقرر تھا اس لئے اس دن بھلا دیا گیا ۔ حضرت ابان کا یہ بیان بھی حدیث کے ساتھ سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی میں مروی ہے ۔ صبح شام تین دفعہ اس دعا کا پڑھنا اللہ کے نیک بندوں کے معمولات میں سے ہے ، اور بلاشبہ اس میں آفاتِ ارضی و سماوی سے حفاظت کی ضمانت ہے ۔
اس اللہ کے نام کے ساتھ زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی ضرر نہیں پہنچا سکتی اور وہ سب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
تشریح
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے ر اوی ان کے صاحبزادے ابان ہیں ۔ ان پر فالج کا حملہ ہو گیا تھا جس سے ان کا جسم متاثر تھا ۔ ایک دفعہ جب وہ یہ حدیث بیان کر رہے تھے ایک آدمی خاص طرح کی نظر سے ان کی طرف دیکھنے لگا ، وہ سمجھ گئے کہ اس کے دل میں یہ اعتراض پید اہو رہا ہے کہ جب آپ یہ حدیث اپنے والد ماجد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سن چکے تھے تو پھر آپ پر فالج کا حملہ کیسے ہو گیا ، اس حدیث میں تو اس دعا کے صبح و شام پڑھنے والے کے لئے ہر حادثہ سے حفاظت کی ضمانت بتائی گئی ہے ۔ ابان نے اس آدمی سے کہا : “میاں دیکھتے کیا ہو ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں نہ حضرت عثمانؓ نے مجھ سے غلب طیان کیا تھا ۔ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس میں جو وعدہ ہے وہ بھی برحق ہے ، اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ کسی معاملہ کی وجہ سے مجھے سخت غصہ تھا ، اس غصہ کی حالت میں اس دن وقت پر دعا پڑھنا بھول گیا ، اسی دن یہ فالج کا حملہ ہوا ۔ چونکہ تقدیر الہی میں فالج ہونا مقرر تھا اس لئے اس دن بھلا دیا گیا ۔ حضرت ابان کا یہ بیان بھی حدیث کے ساتھ سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی میں مروی ہے ۔ صبح شام تین دفعہ اس دعا کا پڑھنا اللہ کے نیک بندوں کے معمولات میں سے ہے ، اور بلاشبہ اس میں آفاتِ ارضی و سماوی سے حفاظت کی ضمانت ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عُثْمَانَ ابْنَ عَفَّانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ عَبْدٍ يَقُولُ فِي صَبَاحِ كُلِّ يَوْمٍ وَمَسَاءِ كُلِّ لَيْلَةٍ: بِسْمِ اللهِ الَّذِي لاَ يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ العَلِيمُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَلَايَضُرَّهُ شَيْءٌ. (رواه ابوداؤد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৭৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صبح و شام کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ و قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ تین بار پڑھ لیا کرو ۔ یہ ہر چیز کے واسطے تمہارے لئے کافی ہوں گی ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اور معوذتین قرآن مجید کی بہت چھوٹی سورتوں میں ہیں ، لیکن اپنے مضمون کے لحاظ سے بہت فائق اور بالاتر ہیں ، جیسا کہ فضائل تلاوتِ قرآن کے سلسلہ میں کچھ ہی پہلے بیان بھی کیا جا چکا ہے ۔ حدیث کا مفاد یہ ہے کہ جو لوگ اور زیادہ نہ پڑھ سکیں وہ صبح و شام کم از کم یہی تین سورتیں پڑھ لیا کریں ، جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے ، یہی ان شاء اللہ کافی ہوں گی ، ہر مسلمان کو یہ یاد بھی ہوتی ہیں ۔
تشریح
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اور معوذتین قرآن مجید کی بہت چھوٹی سورتوں میں ہیں ، لیکن اپنے مضمون کے لحاظ سے بہت فائق اور بالاتر ہیں ، جیسا کہ فضائل تلاوتِ قرآن کے سلسلہ میں کچھ ہی پہلے بیان بھی کیا جا چکا ہے ۔ حدیث کا مفاد یہ ہے کہ جو لوگ اور زیادہ نہ پڑھ سکیں وہ صبح و شام کم از کم یہی تین سورتیں پڑھ لیا کریں ، جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے ، یہی ان شاء اللہ کافی ہوں گی ، ہر مسلمان کو یہ یاد بھی ہوتی ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ قَالَ: قَالَ لِىْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِقْرَأْ «قُلْ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِينَ تُمْسِي، وَحِينَ تُصْبِحُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو بتایا کہ جب تم سونے کے لئے بستر پر لیٹ جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کرو : “اللهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي تا أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ الْعَافِيَةَ ” (اے میرے اللہ ! تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور تو ہی جب چاہے گا میری روح قبض کر لے گا ، میرا مرنا اور جینا تیرے ہی اختیار میں ہے ، اگر تو مجھے زندہ رکھے تو (ہربلا اور گناہ سے اور شر و فتنہ کی بہر بات سے) میری حفاظت فرما ، اور اگر تیرا فیصلہ میری موت کا ہو تو میری مغفرت فرما اور مجھے بخش دے ، اے میرے اللہ ! مین تجھ سے معافی اور عافیت کا وسائل ہوں (تو میرے لئے معافی کا اور دنیا و آخرت میں عافیت کا فیصلہ فرما) حضرت عبداللہ بن عمر نے جب یہ دعا تلقین فرمائی تو کسی نے انؓ سے کہا کہ : “یہ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت عمرؓ سے سنی ہو گی ؟” انہوں نے فرمایا : “میں نے اس ہستی سے سنا ہے جو حضرت عمرؓ سے بھی بہتر تھی ، میں نے یہ دعا براہِ راست رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ۔” (صحیح مسلم)
تشریح
نیند کو موت سے بہت مشابہت ہے ۔ سونے والا مُردے ہی کی طرح دنیا ومافیہا سے بےخبر ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے نیند ، بیداری اور موت کے درمیان کی ایک حالت ہے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ تاکید کے ساتھ ہدایت فرماتے تھے کہ جب سونے لگو تو اس سے پہلے دھیان اور اہتمام سے اللہ کو یاد کرو ، گناہوں سے معافی مانگو اور اس سے مناسب وقت دعائیں کرو ۔ اس سلسلہ میں جو دعائیں آپ ﷺ نے تلقین فرمائیں اور جو آپ ﷺ کے معمولات میں سے تھیں وہ ذیل میں پڑھی جائیں ۔
تشریح ..... یہ مختصر دعا عبدیت کے جذبات سے بھرپور ہے اور اللہ کے حضور میں عبدیت و نیاز مندی اور اظہارِ عاجزی و بےبسی ہی سب سے زیادہ اس کی رحمت کو کھینچنے والی چیز ہے ۔ خاص کر سوتے وقت کسی بندے کو اس طرح کی دعا کی توفیق ملنا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص نظرِ عنایت و کرم اس کی طرف متوجہ ہے ۔
تشریح
نیند کو موت سے بہت مشابہت ہے ۔ سونے والا مُردے ہی کی طرح دنیا ومافیہا سے بےخبر ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے نیند ، بیداری اور موت کے درمیان کی ایک حالت ہے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ تاکید کے ساتھ ہدایت فرماتے تھے کہ جب سونے لگو تو اس سے پہلے دھیان اور اہتمام سے اللہ کو یاد کرو ، گناہوں سے معافی مانگو اور اس سے مناسب وقت دعائیں کرو ۔ اس سلسلہ میں جو دعائیں آپ ﷺ نے تلقین فرمائیں اور جو آپ ﷺ کے معمولات میں سے تھیں وہ ذیل میں پڑھی جائیں ۔
تشریح ..... یہ مختصر دعا عبدیت کے جذبات سے بھرپور ہے اور اللہ کے حضور میں عبدیت و نیاز مندی اور اظہارِ عاجزی و بےبسی ہی سب سے زیادہ اس کی رحمت کو کھینچنے والی چیز ہے ۔ خاص کر سوتے وقت کسی بندے کو اس طرح کی دعا کی توفیق ملنا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص نظرِ عنایت و کرم اس کی طرف متوجہ ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ أَمَرَ رَجُلًا قَالَ: إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ «اللهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا، لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا، إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا، وَإِنْ أَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا، اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ الْعَافِيَةَ» فَقِيْلَ لَهُ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ عُمَرَ؟ قَالَ: مِنْ خَيْرٍ مِنْ عُمَرَ، مِنْ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب آرام کے لئے بستر پر تشریف لاتے تو اس طرح اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي تا وَلَا مُؤْوِيَ لَهُ” (اس اللہ کی حمد اور اس کا شکر جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور ہماری پوری ضرورتیں عطا فرمائیں اور آرام کے لئے ہمیں ٹھکانہ دیا ، کتنے ہی ایسے بندے ہیں جن کی نہ کوئی ضروریات پوری کرنے والا ہے نہ کوئی انہیں ٹھکانا دینے والا ہے) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہم جو کھاتے پیتے ہیں ار جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ سب رب کریم کا عطیہ ہے ۔ ہمارے کسی ہنر اور کرتب کو اس میں دخل نہیں ، اس لیے وہی لائقِ حمد و شکر ہے ۔ جس نے سوتے وقت یہ دعا کی اس نے کھانے پینے اور ان سب نعمتوں کا جن سے اس نے فائد اٹھایا شکر ادا کر دیا ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہم جو کھاتے پیتے ہیں ار جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ سب رب کریم کا عطیہ ہے ۔ ہمارے کسی ہنر اور کرتب کو اس میں دخل نہیں ، اس لیے وہی لائقِ حمد و شکر ہے ۔ جس نے سوتے وقت یہ دعا کی اس نے کھانے پینے اور ان سب نعمتوں کا جن سے اس نے فائد اٹھایا شکر ادا کر دیا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ، قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، وَكَفَانَا وَآوَانَا، فَكَمْ مِمَّنْ لَا كَافِيَ لَهُ وَلَا مُؤْوِيَ لَهُ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو آرام فرمانے کے لئے بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیتے (یعنی داہنا ہاتھ داہنے رخسار کے نیچے رکھ کر داہنی کروٹ پر قبلہ رو لیٹ جاتے ، جیسا کہ دوسری احادیث میں تفصیل ہے) اور پھر اللہ کے حضور میں عرض کرتے “اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا” (اے اللہ ! تیرے ہی نام پہ مجھے مرنا اور تیرے ہی نام پر مجھے جینا ہے) اور جب سو کر اٹھتے تو اللہ کا شکر اس طرح ادا کرتے ۔ “الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ” (حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے موت طاری کرنے کے بعد ہم کو جلایا اور بالآخر ہمیں اسی کے پاس جانا ہے) ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
چونکہ نیند میں بہت کچھ مشابہت موت کی ہے اس لئے اس دعا میں نیند کو مرنے اور بیدار ہونے کو زندہ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور اس طرح روزمرہ کے سونے جاگنے کو حیات بعد الموت کی یاد دہانی اور اس کی تیاری کی فکر کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔ سونے اور جاگنے کے وقت کی دعاؤں میں سے یہ دعا بہت مختصر ہے اور اس کا یاد کرنا بہت آسان ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو توفیق عطا فرمائے ۔
تشریح
چونکہ نیند میں بہت کچھ مشابہت موت کی ہے اس لئے اس دعا میں نیند کو مرنے اور بیدار ہونے کو زندہ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور اس طرح روزمرہ کے سونے جاگنے کو حیات بعد الموت کی یاد دہانی اور اس کی تیاری کی فکر کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔ سونے اور جاگنے کے وقت کی دعاؤں میں سے یہ دعا بہت مختصر ہے اور اس کا یاد کرنا بہت آسان ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو توفیق عطا فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ مِنَ اللَّيْلِ، وَضَعَ يَدَهُ تَحْتَ خَدِّهِ، ثُمَّ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا» وَإِذَا اسْتَيْقَظَ قَالَ: «الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ» (رواه البخارى ورواه مسلم عن البراء بن عازب)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : “جب تم بستر پر سونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو کرو (جس طرح نماز کے لئے وضو کرتے ہو) پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرو : “اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَتا وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ” (اے اللہ ! میں نے اپنی ہستی کو بالکل تیرے سپرد کر دیا اور اپنے سب امور تیرے حوالہ کر دئیے اور تجھ ہی کو اپنا پشت بناہ بنا دیا ، یا تیرے جلال سے ڈرتے ہوئے اور تیرے رحم و کرم کی طلب و امید کرتے ہوئے میرے مولا تیرے سوا کوئی جائے پناہ اور بچاؤ کی جگہ نہیں ، میں ایمان لایا تیری مقدس کتاب پر جو توے نازل فرمائی اور تیرے نبیﷺ پاک پر جن کو تو نے پیغمبر بنا کر بھیجا) آپ نے یہ دعا تلقین فرمانے کے بعد براء بن عازب سے ارشاد فرمایا کہ “رات کو سونے سے پہلے یہ دعا تمہارا آخری بول ہو ، یعنی اس دعا کے بعد کوئی بات نہ کرو اور بس سو جاؤ ، اگر اللہ کے حکم سے اسی حال میں تم کو موت آ گئی تو تمہاری موت بڑی مبارک اور دین فطرت پر ہو گی ۔ براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ میں حضور کے سامنے ہی اس دعا کو یاد کرنے لگا تو میں نے آخری جملہ میں “نَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ” کی جگہ “بِرَسُوْلِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ” کہا (جو بالکل اس کے ہم معنی تھا ، صرف ایک لفظ کا فرق تھا) تو آپ ﷺ نے فرمایا : “نَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ” کہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس دعا میں اللہ پر اعتماد اور تسلیم و تفویض کی روح بھری ہوئی ہے ، اور ساتھ ہی ایمان کی تجدید بھی ہے ۔ اس مضمون کے لئے دنیا کا بڑے سے بڑا ادیب بھی اس سے بہتر الفاظ تلاش نہیں کر سکتا ۔ بلاشبہ یہ دعا بھی رسول اللہ ﷺ کی معجزانہ دعاؤں میں سے ہے ۔
تشریح
اس دعا میں اللہ پر اعتماد اور تسلیم و تفویض کی روح بھری ہوئی ہے ، اور ساتھ ہی ایمان کی تجدید بھی ہے ۔ اس مضمون کے لئے دنیا کا بڑے سے بڑا ادیب بھی اس سے بہتر الفاظ تلاش نہیں کر سکتا ۔ بلاشبہ یہ دعا بھی رسول اللہ ﷺ کی معجزانہ دعاؤں میں سے ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ لِىْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ، فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الأَيْمَنِ، ثُمَّ قُلْ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ، فَأَنْتَ عَلَى الفِطْرَةِ، وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَكَلَّمُ بِهِ ". قَالَ: فَرَدَّدْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ: اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، قُلْتُ: وَرَسُولِكَ، قَالَ: «لاَ، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو ہدایت فرماتے تھے کہ جب ہم میں کوئی سونے کا ارادہ کرے تو اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے اور اللہ سے یوں دعا کرے : “اللهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ تا وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ” (اے میرے اللہ ! آسمان و زمین کے مالک اور عرش عظیم کے مالک ، ہمارے اور ہر چیز کے مالک ، دانے اور گھٹلی کو اپنی قدرت سے پھاڑ کر اس سے پودا نکالنے ولے ، تورات و انجیل اور قرآن کے نازل فرمانے والے ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں زمین میں چلنے یا رینگنے والی تیری ہر مخلوق سے شر سے جس پر تیرا مکمل قابو ہے ۔ اے اللہ ! تو ہی اول (سب سے پہلا) ہے ، کوئی چیز تجھ سے پہلی نہیں ، تو ہی آخر (سب کے بعد باقی رہنے والا) ہے ، کوئی چیز نہیں جو تیرے بعد ہو (اے مالک کل اور قادرِ مطلق اور اول و آخر) مجھ پر جو قرض ہے اسے ادا کرا دے ، اور فقر و محتاجی دور فرما کر مجھے غنی اور خوشحال کر دے) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں بھی سونے کے لئے داہنی کروٹ پر لیٹنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور خود حضور ﷺ کا بھی یہی معمول تھا ۔ اس کروٹ پر لیٹنے کی صورت میں قلب جو بائیں پہلو میں ہے اوپر معلق رہتا ہے ، اور اللہ والوں کا تجربہ ہے کہ لیٹتے وقت ذکر و دعا اور توجہ الی اللہ کے لئے یہی شکل زیادہ مناسب ہوتی ہے ۔ یہ دعا اُن بندگانِ خدا کے زیادہ حسب حال ہے جو مقروض اور معاشی پریشانیوں میں مبتلا ہوں ۔ بندہ یہ دعا کر کے سوئے اور رب کریم سے امید رکھے کہ وہ رزق میں کشائش کی کوئی صورت پیدا فرمائے گا ۔
تشریح
اس حدیث میں بھی سونے کے لئے داہنی کروٹ پر لیٹنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور خود حضور ﷺ کا بھی یہی معمول تھا ۔ اس کروٹ پر لیٹنے کی صورت میں قلب جو بائیں پہلو میں ہے اوپر معلق رہتا ہے ، اور اللہ والوں کا تجربہ ہے کہ لیٹتے وقت ذکر و دعا اور توجہ الی اللہ کے لئے یہی شکل زیادہ مناسب ہوتی ہے ۔ یہ دعا اُن بندگانِ خدا کے زیادہ حسب حال ہے جو مقروض اور معاشی پریشانیوں میں مبتلا ہوں ۔ بندہ یہ دعا کر کے سوئے اور رب کریم سے امید رکھے کہ وہ رزق میں کشائش کی کوئی صورت پیدا فرمائے گا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا، إِذَا أَرَادَ أَحَدُنَا أَنْ يَنَامَ، أَنْ يَضْطَجِعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ يَقُولُ: «اللهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى، وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ، اللهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ، وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپ ﷺ سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنا داہنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتے اور تین دفعہ یہ دعا کرتے : “اللَّهُمَّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ، عِبَادَكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ” (اے میرے اللہ ! مجھے اپنے عذاب سے بچا قیامت کے دن جب کہ سارے بندے دوبارہ زندہ کئے جائیں گے) ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
خاص سوتے وقت اس دعا کی ایک کھلی وجہ تو یہی ہے کہ سونے کو موت سے جو ایک خاص مشابہت ہے اس کی وجہ سے آپ ﷺ سونے کے لئے بستر پر لیٹتے وقت موت اور قیامت اور وہاں کے حساب اور ثواب و عذاب کو یاد کرتے تھے ، اور جس بندے کو اللہ کی معرفت حاصل ہو گئی اس کو جب موت و قیامت یاد آئے گی تو قدرتی طور پر اس کی سب سے اہم فکر اور دل کی پکار یہی ہو گی کہ وہاں عذاب سے نجات نصیب ہو ۔
تشریح
خاص سوتے وقت اس دعا کی ایک کھلی وجہ تو یہی ہے کہ سونے کو موت سے جو ایک خاص مشابہت ہے اس کی وجہ سے آپ ﷺ سونے کے لئے بستر پر لیٹتے وقت موت اور قیامت اور وہاں کے حساب اور ثواب و عذاب کو یاد کرتے تھے ، اور جس بندے کو اللہ کی معرفت حاصل ہو گئی اس کو جب موت و قیامت یاد آئے گی تو قدرتی طور پر اس کی سب سے اہم فکر اور دل کی پکار یہی ہو گی کہ وہاں عذاب سے نجات نصیب ہو ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ حَفْصَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْقُدَ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى تَحْتَ خَدِّهِ ثُمَّ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ، عِبَادَكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص سونے کے لئے بستر پر لیٹتے وقت اللہ کے حضور میں اس طرح توبہ و استغفار کرے ، اور تین دفعہ عرض کرے : “أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيَّ القَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ” (میں مغفرت و بخشش چاہتا ہوں اس اللہ سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور وہ حی و قیوم ہے ہمیشہ رہنے والا اور سب کا کارساز ہے ، اور اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں) تو اس کے سب گناہ بخش دئیے جائیں گے ، اگرچہ وہ درختوں کے پتوں اور مشہور ریگستان عالج کے ذروں اور دنیا کے دِنوں کی طرح بےشمار ہوں ۔” (جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں سوتے وقت مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ توبہ و استغفار کرنے پر سارے گناہ بخش دئیے جانے کا مژدہ جانفرا سنایا گیا ہے ۔ کتنی بڑی محرومی ہو گی اگر حضور ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کا اہتمام نہ کیا جائے ۔ ہاں یہ استغفار و توبہ سچے دل سے ہونا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال دیکھنے والا ہے ، اس کو زبان سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا ۔
تشریح
اس حدیث میں سوتے وقت مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ توبہ و استغفار کرنے پر سارے گناہ بخش دئیے جانے کا مژدہ جانفرا سنایا گیا ہے ۔ کتنی بڑی محرومی ہو گی اگر حضور ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کا اہتمام نہ کیا جائے ۔ ہاں یہ استغفار و توبہ سچے دل سے ہونا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال دیکھنے والا ہے ، اس کو زبان سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ حِينَ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيَّ القَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، غَفَرَ اللَّهُ ذُنُوبَهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ البَحْرِ، وَإِنْ كَانَتْ عَدَدَ وَرَقِ الشَّجَرِ، وَإِنْ كَانَتْ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ، وَإِنْ كَانَتْ عَدَدَ أَيَّامِ الدُّنْيَا. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص سونے کے وقت کی دعائیں
فروہ بنت نوفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے والد نوفل سے فرمایا کہ : جب تم سونے کا ارادہ کرو تو سورہ “قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ” پڑھ لیا کرو ، اس کے بعد سو جایا کرو ، اس سورت کے مضمون میں شرک سے پوری براءت ہے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
تشریح
ترمذی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ نوفل نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ مجھے کوئی چیز بتا دیجئے جو میں سوتے وقت پڑھ لیا کروں ، اس کے جواب میں آپ ﷺ نے ان کو یہ بتلایا کہ : “قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ” پڑھ لیا کرو ۔
تشریح
ترمذی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ نوفل نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ مجھے کوئی چیز بتا دیجئے جو میں سوتے وقت پڑھ لیا کروں ، اس کے جواب میں آپ ﷺ نے ان کو یہ بتلایا کہ : “قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ” پڑھ لیا کرو ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ فَرْوَةَ بْنِ نَوْفَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَن لِاَبِىْ: «اقْرَأْ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ثُمَّ نَمْ، عَلَى خَاتِمَتِهَا، فَإِنَّهَا بَرَاءَةٌ مِنَ الشِّرْكِ» (رواه ابوداؤد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص سونے کے وقت کی دعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دوامی معمول تھا کہ جب رات کو سونے کے لئے لیٹتے تو “قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ” و “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ” اور “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ” یہ تینوں سورتیں پڑھ کے دونوں پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرتے ، اور جہاں تک آپ ﷺ کے ہارتھ پہنچ سکتے ان کو جسم مبارک پر پھیرتے ، پہلے سر اور چہرے پر اور جسم کے سامنے کے حصے پر پھیرتے ، تین دفعہ یہ عمل کرتے ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
تشریح
اس حدیث کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ آخری مرض میں جب رسول اللہ ﷺ کو تکلیف زیادہ ہو گئی تو آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اسی طرح تینوں سورتیں پڑھ کے اور اپنے ہاتھوں پر دم کر کے آپ ﷺ کے جسمِ مبارک پر پھیروں ، اور میں ایسا ہی کرتی تھی ۔
فائدہ ..... ممکن ہے بعض لوگوں کے لئے سونے کے وقت کی بعض دوسری ماثورہ دعائیں یاد کرنا مشکل ہوں ، وہ کم از کم “قُلْ يَآيُّهَا الْكَافِرُوْنَ ، قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ” تو پڑھ ہی سکتے ہیں ، ان کے لئے یہی سب کچھ ہے ۔ کم از کم یہ معمول تو مقرر ہی کر لینا چاہئے ، جو اتنا بھی اہتما نہ کر سکے اس کی محرومی قابلِ عبرت ہے ۔
تشریح
اس حدیث کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ آخری مرض میں جب رسول اللہ ﷺ کو تکلیف زیادہ ہو گئی تو آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اسی طرح تینوں سورتیں پڑھ کے اور اپنے ہاتھوں پر دم کر کے آپ ﷺ کے جسمِ مبارک پر پھیروں ، اور میں ایسا ہی کرتی تھی ۔
فائدہ ..... ممکن ہے بعض لوگوں کے لئے سونے کے وقت کی بعض دوسری ماثورہ دعائیں یاد کرنا مشکل ہوں ، وہ کم از کم “قُلْ يَآيُّهَا الْكَافِرُوْنَ ، قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ” تو پڑھ ہی سکتے ہیں ، ان کے لئے یہی سب کچھ ہے ۔ کم از کم یہ معمول تو مقرر ہی کر لینا چاہئے ، جو اتنا بھی اہتما نہ کر سکے اس کی محرومی قابلِ عبرت ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا، وَقَرَأَ فِيهِمَا قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ: يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ، يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ " (رواه ابوداؤد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৮৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نیند نہ آنے کی شکایت کی دعا
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خالد بن ولیدؓ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ مجھے رات کو نیند نہیں آتی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب تم بستر پر لیٹو تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر لیا کرو ، “اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ تا لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ” (اے اللہ ! ساتوں آسمانوں کے اور ان سب چیزوں کے مالک جو اس کے نیچے واقع ہیں ، اور شیاطین اور ان کی گمراہ کن سرگرمیوں کے مالک ، اپنی ساری مخلوق کے شر سے مجھے اپنی پناہ اور حفاظت میں لے لے ، کوئی مجھ پر زیادتی اور ظلم نہ کر پائے ۔ باعزت اور محفوظ ہے وہ جس کو تیری پناہ حاصل ہے ۔ تیری حمد و ثنا کا مقام بلند ہے ، تیرے سوا کوئی لائق پرستش نہیں ، بس تو ہی معبود برحق ہے ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: شَكَا خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ الْمَخْزُومِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ لَا يَنَامُ اللَّيْلَ مِنَ الأَرَقِ، فَقَالَ: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَقُلْ: اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظَلَّتْ، وَرَبَّ الأَرَضِينَ وَمَا أَقَلَّتْ، وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضَلَّتْ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِكَ كُلِّهِمْ جَمِيعًا أَنْ يَفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَوْ أَنْ يَبْغِيَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ. (رواه الترمذى)
তাহকীক: