মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩২১ টি
হাদীস নং: ১১৫০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان فرماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے کہ : “رات میں ایک خاص وقت ہے جو مومن بندہ اس وقت میں اللہ تعالیٰ سے دنیا یا آخرت کی کوئی خیر اور بھلائی مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرما دے گا ۔ اور اس میں کسی خاص رات کی خصوصیت نہیں بلکہ اللہ کا یہ کرم ہر رات میں ہوتا ہے ،” (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث (معارف الحدیث کی جلد سوم میں) تہجد کے بیان میں صحیحین کے حوالہ سے ذکر کی جا چکی ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سماء دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور خود ان کی طرف سے پکار ہوتی ہے کہ کوئی ہے مانگنے والا کہ میں اس کو عطا کروں ، کوئی ہے بخشش چاہنے والا کہ میں اس کی بخشش کا فیصلہ کروں ، کوئی ہے مجھ رات کا آخری حصہ ہے ۔ واللہ اعلم ۔
مندجہ بالا حدیثوں سے دعا کی قبولیت کے جو خاص احوال و اوقات معلوم ہوئے ہیں وہ یہ ہیں :
فرض نمازوں کے بعد ، ختم قرآن کے بعد ، اذان اور اقامت کے درمیان ، میدانِ جہاد میں جنگ کے وقت ، بارانِ رحمت کے نزول کے وقت ، جس وقت کعبۃ اللہ آنکھوں کے سامنے ہو ، ایسے جنگل بیابان میں نماز پڑھ کے جہاں خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہ ہو ، میدانِ جہاد میں ، جب کمزور ساتھیوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہو ، اور رات کے آخری حصے میں ۔
وہ حدیثیں اپنے موقع پر پہلے ذِکر کی جا چکی ہیں جن میں شبِ قدر میں اور عرفہ کے دن میدانِ عرفات میں اور جمعہ کی خاص ساعت میں اور روزہ کے افطار کے وقت ، اور سفرِ حج اور سفر جہاد میں اور بیماری اور مسافری کی حالت میں دعاؤں کی قبولیت کی خاص توقع دلائی گئی ہے ۔
لیکن یہ بات برابر ملحوظ رہنی چاہئے کہ دعا کا مطلب دعا کے الفاظ اور صرف اس کی صورت نہیں ہے بلکہ اس کی وہ حقیقت ہے جو پہلے ذکر کی جا چکی ہے ، پودا اسی دانے سے اگتا ہے جس میں مغز ہو ۔ اسی طرح آگے درج ہونے والی احادیث سے دعا کی قبولیت کا مطلب بھی سمجھ لینا چاہئے ۔
تشریح
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث (معارف الحدیث کی جلد سوم میں) تہجد کے بیان میں صحیحین کے حوالہ سے ذکر کی جا چکی ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سماء دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور خود ان کی طرف سے پکار ہوتی ہے کہ کوئی ہے مانگنے والا کہ میں اس کو عطا کروں ، کوئی ہے بخشش چاہنے والا کہ میں اس کی بخشش کا فیصلہ کروں ، کوئی ہے مجھ رات کا آخری حصہ ہے ۔ واللہ اعلم ۔
مندجہ بالا حدیثوں سے دعا کی قبولیت کے جو خاص احوال و اوقات معلوم ہوئے ہیں وہ یہ ہیں :
فرض نمازوں کے بعد ، ختم قرآن کے بعد ، اذان اور اقامت کے درمیان ، میدانِ جہاد میں جنگ کے وقت ، بارانِ رحمت کے نزول کے وقت ، جس وقت کعبۃ اللہ آنکھوں کے سامنے ہو ، ایسے جنگل بیابان میں نماز پڑھ کے جہاں خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہ ہو ، میدانِ جہاد میں ، جب کمزور ساتھیوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہو ، اور رات کے آخری حصے میں ۔
وہ حدیثیں اپنے موقع پر پہلے ذِکر کی جا چکی ہیں جن میں شبِ قدر میں اور عرفہ کے دن میدانِ عرفات میں اور جمعہ کی خاص ساعت میں اور روزہ کے افطار کے وقت ، اور سفرِ حج اور سفر جہاد میں اور بیماری اور مسافری کی حالت میں دعاؤں کی قبولیت کی خاص توقع دلائی گئی ہے ۔
لیکن یہ بات برابر ملحوظ رہنی چاہئے کہ دعا کا مطلب دعا کے الفاظ اور صرف اس کی صورت نہیں ہے بلکہ اس کی وہ حقیقت ہے جو پہلے ذکر کی جا چکی ہے ، پودا اسی دانے سے اگتا ہے جس میں مغز ہو ۔ اسی طرح آگے درج ہونے والی احادیث سے دعا کی قبولیت کا مطلب بھی سمجھ لینا چاہئے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ فِي اللَّيْلِ لَسَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ، يَسْأَلُ اللهَ خَيْرًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৫১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعا قبول ہونے کا مطلب اور اس کی صورتیں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو مومن بندہ کوئی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ کی بات نہ ہو اور نہ قطع رحمی ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور عطا ہوتی ہے : یا تو جو اس نے مانگا ہے وہی اس کو ہوہاتھ کے ہاتھ عطا فرما دیا جاتا ہے ، یا اس کی دعا کو آخرت میں اس کا ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے یا آنے والی کوئی مصیبت اور تکلیف اس دعا کے حساب میں روک دی جاتی ہے ۔ صحابہؓ نے عرض کیا : جب بات یہ ہے (کہ ہر دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے) تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے پاس اس سے بھی زیادہ ہے ۔ (مسند احمد)
تشریح
بہت سے لوگ ناواقفیت سے قبولیتِ دعا کا مطلب صرف یہ سمجھتے ہیں کہ بندہ اللہ سے جو کچھ مانگے وہ اس کو مل جائے اور اگر وہ نہیں ملتا تو سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی ۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ بندے کا علم بےحد ناقص ہے ، بلکہ اپنی خلقت کے لحاظ سے وہ ظلوم و جہول ہے ۔ بہت سے بندے ہیں جن کے لئے دولتمندی نعمت ہے ، اور بہت سے ہیں جن کے لئے دولت فتنہ ہے ۔ بہت سے بندے ہیں جن کے لئے حکومت اور اقتدار قربِ خداوندی کا وسیلہ ہے ۔ اور حجاج اور ابنِ زیاد کی طرح بہت سے ہیں جن کے لئے حکومتی اقتدار خدا سے دوری اور اس کے غضب کا سبب بن جاتا ہے ۔ بندہ نہیں جانتا کہ کیا میرے لئے بہتر ہے اور کیا مریے لئے فتنہ اور زہر ہے ۔ اس لئے بسا اوقات وہ ایسی چیز اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے جو اس کے لئے بہتر نہیں ہوتی ، یا اس کا عطا کرنا حکمتِ الہی کے خلاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ جو حکیم و دانا ہے ، یہ بات اس کے علم و حکم کے خلاف ہے کہ ہر بندہ جا مانگے وہ اس کو ضرور عطا فرما دے ۔ دوسری طرف اس کی کریمی کا یہ تقاضا ہے کہ جب اس کا بندہ ایک محتاج اور مسکین کی طرح اس کے حضور میں ہاتھ پھیلائے اور دعا کرے تو وہ اس کو خالی ہاتھ نہ لوٹائے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ وہ دعا کرنے والے بندے کو محروم نہیں لوٹاتا کبھی تو اس کو وہی عطا فرما دیتا ہے جو دعا میں اس نے مانگا اور کبھی اس کی دعا کے عوض آخرت کی بیش بہا نعمتوں کا فیصلہ فرما دیتا ہے اور اس طرح اس کی یہ دعا اس کے لئے ذخیرہ آخرت بن جاتی ہے ، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اسباب و مسببات کا جو سلسلہ ہے اس کے حساب سے اس دعا کرنے والے بندے پر کئی آفت اور مصیبت نازل ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اس دعا کے نتیجے میں اس آنے والی بلا اور مصیبت کو روک دیتا ہے ۔ بہرحال دعا کے قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دعا رائیگاں نہیں جاتی ، اور دعا کرنے والا محروم نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کے مطابق مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی نہ کسی طرح اس کو ضرور نوازتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے ۔
تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ اللہ کا خزانہ لا انتہا اور غیر فانی ہے اگر سارے بندے ہر وقت اس سے مانگیں اور وہ ہر ایک کے لئے عطا فرمانے کا فیصلہ کرے تو اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔ مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک ھدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : اللہ تعالیٰ جب اس بندے کو جس نے دنیا میں بہت سی ایسی دعائیں کی ہوں گی جو بظاہر دنیا میں قبول نہیں ہوئی ہوں گی ان دعاؤں کے حساب میں جمع شدہ ذخیرہ آخرت میں عطا فرمائیں گے تو بندے کی زبان سے نکلے گا :
يَالَيْتَهُ لَمْ يُعَجَّلْ لَهُ شَيْئٌ مِنْ دِعَائِهِ. (كنز العمال : ص 57 ، جلد 2)
اے کاش ! میری کوئی بھی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہوتی اور ہر دعا کا پھل مجھے یہیں ملتا ۔
تشریح
بہت سے لوگ ناواقفیت سے قبولیتِ دعا کا مطلب صرف یہ سمجھتے ہیں کہ بندہ اللہ سے جو کچھ مانگے وہ اس کو مل جائے اور اگر وہ نہیں ملتا تو سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی ۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ بندے کا علم بےحد ناقص ہے ، بلکہ اپنی خلقت کے لحاظ سے وہ ظلوم و جہول ہے ۔ بہت سے بندے ہیں جن کے لئے دولتمندی نعمت ہے ، اور بہت سے ہیں جن کے لئے دولت فتنہ ہے ۔ بہت سے بندے ہیں جن کے لئے حکومت اور اقتدار قربِ خداوندی کا وسیلہ ہے ۔ اور حجاج اور ابنِ زیاد کی طرح بہت سے ہیں جن کے لئے حکومتی اقتدار خدا سے دوری اور اس کے غضب کا سبب بن جاتا ہے ۔ بندہ نہیں جانتا کہ کیا میرے لئے بہتر ہے اور کیا مریے لئے فتنہ اور زہر ہے ۔ اس لئے بسا اوقات وہ ایسی چیز اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے جو اس کے لئے بہتر نہیں ہوتی ، یا اس کا عطا کرنا حکمتِ الہی کے خلاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ جو حکیم و دانا ہے ، یہ بات اس کے علم و حکم کے خلاف ہے کہ ہر بندہ جا مانگے وہ اس کو ضرور عطا فرما دے ۔ دوسری طرف اس کی کریمی کا یہ تقاضا ہے کہ جب اس کا بندہ ایک محتاج اور مسکین کی طرح اس کے حضور میں ہاتھ پھیلائے اور دعا کرے تو وہ اس کو خالی ہاتھ نہ لوٹائے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ وہ دعا کرنے والے بندے کو محروم نہیں لوٹاتا کبھی تو اس کو وہی عطا فرما دیتا ہے جو دعا میں اس نے مانگا اور کبھی اس کی دعا کے عوض آخرت کی بیش بہا نعمتوں کا فیصلہ فرما دیتا ہے اور اس طرح اس کی یہ دعا اس کے لئے ذخیرہ آخرت بن جاتی ہے ، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اسباب و مسببات کا جو سلسلہ ہے اس کے حساب سے اس دعا کرنے والے بندے پر کئی آفت اور مصیبت نازل ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اس دعا کے نتیجے میں اس آنے والی بلا اور مصیبت کو روک دیتا ہے ۔ بہرحال دعا کے قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دعا رائیگاں نہیں جاتی ، اور دعا کرنے والا محروم نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کے مطابق مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی نہ کسی طرح اس کو ضرور نوازتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے ۔
تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ اللہ کا خزانہ لا انتہا اور غیر فانی ہے اگر سارے بندے ہر وقت اس سے مانگیں اور وہ ہر ایک کے لئے عطا فرمانے کا فیصلہ کرے تو اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔ مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک ھدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : اللہ تعالیٰ جب اس بندے کو جس نے دنیا میں بہت سی ایسی دعائیں کی ہوں گی جو بظاہر دنیا میں قبول نہیں ہوئی ہوں گی ان دعاؤں کے حساب میں جمع شدہ ذخیرہ آخرت میں عطا فرمائیں گے تو بندے کی زبان سے نکلے گا :
يَالَيْتَهُ لَمْ يُعَجَّلْ لَهُ شَيْئٌ مِنْ دِعَائِهِ. (كنز العمال : ص 57 ، جلد 2)
اے کاش ! میری کوئی بھی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہوتی اور ہر دعا کا پھل مجھے یہیں ملتا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ إِحْدَى ثَلَاثٍ، إِمَّا يُعَجِّلُ لَهُ دَعْوَتَهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَدْفَعَ عَنْهُ مِنَ السَّوْءِ مِثْلَهَا "قَالُوْا اِذَا نُكْثِرُ قَالَ اللهُ اَكْثَرُ. (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৫২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رسول اللہ ﷺ کی دعائیں: تکبیرِ تحریمہ کے بعد کی بعض افتتاحی دُعائیں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے ، پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرتے : “میری نماز اور میری ہر عبادت اور میرا جینا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو رب العالمین ہے اس کا کوئی شریک ساجھی نہیں ، مجھے اسی کا حکم ہے اور میں سب سے پہلے اس کی فرمانبرداری کرنے والا ہوں ، اے میرے اللہ ! مجھے بہترین اعمال و اخلاق کی ہدایت فرما ، یہ ہدایت صرف تجھ ہی سے مل سکتی ہے ، اور برے اعمال و اخلاق سے مجھے بچا اور میری حفاظت فرما ، یہ حفاظت بھی تو ہی فرما سکتا ہے ۔ (سنن نسائی)
تشریح
دعا سے متعلق جو حدیثیں یہاں تک مذکور ہوئیں ان میں یا تو دعا کی ترغیب اور اس کی عظمت و برکات کا بیان تھا یا دعا کے آداب اور اس سے متعلق ہدایات اور موجبات قبولیت بیان فرمائے گئے تھے ۔ یہ سب مضامین گویا تمہیدی تھے ۔ اب رسول اللہ ﷺ کی وہ اصل دعائیں اور سوز و گداز سے بھری ہوئی بارگاہِ خداوندی میں آپ ﷺ کی وہ مناجاتیں پڑھئے جو آپ کے مقامِ معرفت اور قلبی کیفیات و واردات کو ممکن حد تک جاننے کا بہترین وسیلہ اور امت کے لئے آپ ﷺ کا عظیم ترین ورثہ ہیں اور جن کو پورے ذخیرہ حدیث کا بجا طور پر گل سرسبد کہا جا سکتا ہے ۔ نبوی ﷺ دعاؤں کے اس پورے ذخیرے کو تین حصوں میں تقسم کیا جا سکتا ہے ۔
ایک وہ جن کا تعلق خاص اوقات اور مخصوص حالات سے ہے مثلاً صبح نمودار ہونے کے وقت کی دعا ، شام کے وقت کی سونے کے وقت کی دعا ، نیند سے بیدار ہونے کے وقت کی دعاو ، آندھی یا بارش کے وقت کی دعا ، کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت کی دعا وغیرہ وغیرہ ۔
ٍدوسری وہ دعائیں جو عام نوعیت کی ہیں ، کسی خاص وقت اور مخصوص حالات سے ان کا تعلق نہیں ۔ یہ دعائیں اکثر جا مع قسم کی ہیں ۔
تیسری قسم کی دعائیں وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ نماز میں یہا نماز سے فارغ ہو کر یعنی سلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں کیا کرتے تھے ۔ یہاں پہلے یہی تیسری قسم کی نماز والی دعائیں درج کی جا رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے اس عظیم ترین اور بیش بہا ورثہ کی شایانِ شان قدر اور اس سے فائدہ اٹھانے کی پوری توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
تشریح ..... اس دعا میں شروع میں تو جیسا کہ چاہئے توحید کی شہادت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کئے حضور میں اپنی بندگی و نیاز مندی اور مخلصانہ فدویت و وفاداری کا اقرار و اظہار ہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ سے اچھے اعمال و اخلاق کی ہدایت توفیق اور برے اعمال و اخلاق سے حفاظت اور بچاؤ کی التجا اور استدعا کی گئی ہے ، اور دراصل اسی ہدایت اور حفاظت پر انسان کی سعادت اور فلاح کا دار ومدار ہے ۔ معارف الحدیث جلد سوم میں (صفحہ .... سے ...... تک) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث صحیح مسلم کے حوالہ سے درج کی جا چکی ہے ، اس میں تکبیر تحریمہ کے بعد یہی افتتاحی دعا کافی اضافہ کے ساتھ مذکور ہو چکی ہے اور وہ اضافہ بڑا دلگداز ہے ۔ نیز اس میں اس افتتاحی دعا کے علاوہ رکوع اور قومہ اور سجدہ ، اور پھر جلسہ اور قعدہ اخیرہ کی خاص پرسوز دعائیں بھی ذکر کی گئی ہیں ۔ اور بلاشبہ نماز کی دعاؤں کے بار میں وہ بڑی جامع حدیث ہے ۔ اس کی تشریح میں یہ بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس قسم کی دعائیں زیادہ تر رات کے نوافل میں پڑھتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی جو دعائیں تفصیل سے ذکر کی ہیں ان میں آپ ﷺ کی نماز کی باطنی کیفیات کا عکس ممکن حد تک دیکھا جا سکتا ہے ۔ حدیث کے زیادہ طویل ہونے کی وجہ سے یہاں اس کو مکرر درج نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ان چیزوں کا ذوق و شوق رکھنے والے حضرات اس کو معارف الحدیث جلد سوم میں پڑھ لیں ۔
تشریح
دعا سے متعلق جو حدیثیں یہاں تک مذکور ہوئیں ان میں یا تو دعا کی ترغیب اور اس کی عظمت و برکات کا بیان تھا یا دعا کے آداب اور اس سے متعلق ہدایات اور موجبات قبولیت بیان فرمائے گئے تھے ۔ یہ سب مضامین گویا تمہیدی تھے ۔ اب رسول اللہ ﷺ کی وہ اصل دعائیں اور سوز و گداز سے بھری ہوئی بارگاہِ خداوندی میں آپ ﷺ کی وہ مناجاتیں پڑھئے جو آپ کے مقامِ معرفت اور قلبی کیفیات و واردات کو ممکن حد تک جاننے کا بہترین وسیلہ اور امت کے لئے آپ ﷺ کا عظیم ترین ورثہ ہیں اور جن کو پورے ذخیرہ حدیث کا بجا طور پر گل سرسبد کہا جا سکتا ہے ۔ نبوی ﷺ دعاؤں کے اس پورے ذخیرے کو تین حصوں میں تقسم کیا جا سکتا ہے ۔
ایک وہ جن کا تعلق خاص اوقات اور مخصوص حالات سے ہے مثلاً صبح نمودار ہونے کے وقت کی دعا ، شام کے وقت کی سونے کے وقت کی دعا ، نیند سے بیدار ہونے کے وقت کی دعاو ، آندھی یا بارش کے وقت کی دعا ، کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت کی دعا وغیرہ وغیرہ ۔
ٍدوسری وہ دعائیں جو عام نوعیت کی ہیں ، کسی خاص وقت اور مخصوص حالات سے ان کا تعلق نہیں ۔ یہ دعائیں اکثر جا مع قسم کی ہیں ۔
تیسری قسم کی دعائیں وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ نماز میں یہا نماز سے فارغ ہو کر یعنی سلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں کیا کرتے تھے ۔ یہاں پہلے یہی تیسری قسم کی نماز والی دعائیں درج کی جا رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے اس عظیم ترین اور بیش بہا ورثہ کی شایانِ شان قدر اور اس سے فائدہ اٹھانے کی پوری توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
تشریح ..... اس دعا میں شروع میں تو جیسا کہ چاہئے توحید کی شہادت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کئے حضور میں اپنی بندگی و نیاز مندی اور مخلصانہ فدویت و وفاداری کا اقرار و اظہار ہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ سے اچھے اعمال و اخلاق کی ہدایت توفیق اور برے اعمال و اخلاق سے حفاظت اور بچاؤ کی التجا اور استدعا کی گئی ہے ، اور دراصل اسی ہدایت اور حفاظت پر انسان کی سعادت اور فلاح کا دار ومدار ہے ۔ معارف الحدیث جلد سوم میں (صفحہ .... سے ...... تک) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث صحیح مسلم کے حوالہ سے درج کی جا چکی ہے ، اس میں تکبیر تحریمہ کے بعد یہی افتتاحی دعا کافی اضافہ کے ساتھ مذکور ہو چکی ہے اور وہ اضافہ بڑا دلگداز ہے ۔ نیز اس میں اس افتتاحی دعا کے علاوہ رکوع اور قومہ اور سجدہ ، اور پھر جلسہ اور قعدہ اخیرہ کی خاص پرسوز دعائیں بھی ذکر کی گئی ہیں ۔ اور بلاشبہ نماز کی دعاؤں کے بار میں وہ بڑی جامع حدیث ہے ۔ اس کی تشریح میں یہ بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس قسم کی دعائیں زیادہ تر رات کے نوافل میں پڑھتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی جو دعائیں تفصیل سے ذکر کی ہیں ان میں آپ ﷺ کی نماز کی باطنی کیفیات کا عکس ممکن حد تک دیکھا جا سکتا ہے ۔ حدیث کے زیادہ طویل ہونے کی وجہ سے یہاں اس کو مکرر درج نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ان چیزوں کا ذوق و شوق رکھنے والے حضرات اس کو معارف الحدیث جلد سوم میں پڑھ لیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ كَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ. اَللَّهُمَّ اهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَعْمَالِ وَأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَقِنِي سَيِّئَ الْأَعْمَالِ وَسَيِّئَ الْأَخْلَاقِ لَا يَقِي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ» (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৫৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ تکبیرِ تحریمہ کے بعد کی بعض افتتاحی دُعائیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو تہجد پڑھنے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے : “اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ الخ” (اے میرے اللہ ! ساری حمد و ستائش تیرے ہی لئے ہے اور تو ہی اس کا مستحق ہے ، تو ہی قائم رکھنے والا ہے زمین و آسمان کا اور ان سب چیزوں کا جو ان میں ہیں (یعنی سارے عالم علوی اور سفلی کا وجود تیرے ہی ارادہ سے قائم ہے) مولا ! ساری حمد و ستائش کا تو ہی مستحق ہے ، تو ہی نور ہے زمین و آسمان کا اور ان سب کا جو زمین و آسمان میں ہیں (یعنی سارے عالم میں جہاں بھی نور کی کوئی کرن ہے وہ تیرے ہی نور سے ہے) اور ساری حمد و ستائش تیرے ہی لئے ہے ، تو فرمانروا ہے زمین و آسمان اور اس ساری کائنات کا جو زمین و آسمان میں ہے ، ساری حمد و ستائش تیرے ہی لئے سزاوار ہے ، تو حق ہے تیرا وعدہ حق ہے ، مرنے کے بعد تیرے حضور حاضری اور تیری ملاقات حق ہے ، اور تیرا فرمان حق ہے اور جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے اور سارے نبی برحق ہیں اور محمد ﷺ بھی برحق ہیں اور قیامت کا آنا برحق ہے ، اے اللہ ! میں نے اپنے کو تیرے سپرد کر دیا اور میں تجھ پر ایمان لایا اور میں نے تیرا سہارا پکڑ لیا اور پورا بھروسہ تجھ پر کر لیا اور اپنا رخ تیری طرف کر دیا اور (مخالفین حق سے) تیری ہی مدد سے میری ٹکر ہے ، اور میں نے اپنا مقدمہ فیصلے کے لئے تیری ہی بارگاہ میں پیش کر دیا ہے ، پس اے میرے اللہ ! بخش دے میرے وہ سب قصور جو مجھ سے پہلے سرزد ہوئے اور جو پیچھے ہوئے اور جو میں نے پوشیدہ کئے اور جو اعلانیہ کئے اور جن کے بارے میں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ، تو جسے چاہے آگے بڑھانے والا ہے اور جسے چاہے پیچھے ڈال دینے والا ہے ، تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ۔ صرف تو ہی معبود برحق ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی ان دعاؤں میں سے ہے جن سے آپ ﷺ کے مقامِ معرفت اور آپ ﷺ کی باطنی کیفیات و واردات کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
تشریح
یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی ان دعاؤں میں سے ہے جن سے آپ ﷺ کے مقامِ معرفت اور آپ ﷺ کی باطنی کیفیات و واردات کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ قَالَ: " اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الحَمْدُ أَنْتَ الحَقُّ وَوَعْدُكَ الحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ المُقَدِّمُ، وَأَنْتَ المُؤَخِّرُ، لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ " (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৫৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ تکبیرِ تحریمہ کے بعد کی بعض افتتاحی دُعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو نمازِ تہجد کے لئے کھڑے ہوتے تو بالکل شروع میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے : “اللهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ الخ” اے امیرے اللہ ! جبرائیل و میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار ! زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے غیب اور شہود کو یکساں جاننے والے ، تو ہی فیصلہ فرمائے گا بندوں کے درمیان ان کے اختلافات کے بارے میں ، مجھے اپنی خاص توفیق سے اس راہِ حق و ہدایت پر چلا جس کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہو گیا ہے ، تو ہی جسے چاہے گا سیدھے راستہ پر چلائے گا ۔ (صحیح مسلم)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَهُ: «اللهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৫৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رکوع و سجود کی دعائیں
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو گیا ۔ جب آپ ﷺ رکوع میں گئے تو آپ ﷺ نے اتنی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے ۔ اس رکوع میں آپ ﷺ کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری تھے :
«سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ»
پاک ہے اللہ زور و قوت اور فرمانروائی والا ، اور عظمت و کبریائی والا ۔ (سنن نسائی)
تشریح
معارف الحدیث جلد سوم میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عام معمول رکوع میں “سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ” اور سجدے میں “سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى” پڑھنے کا تھا ، اور آپ ﷺ نے اسی کی تعلیم فرمائی ۔ لیکن کبھی کبھی ان کے علاوہ دوسرے تسبیح و تقدیس کے کلمات اور دوسری دعائیں بھی آپ ﷺ رکوع و سجود میں کرتے تھے ۔ اس سلسلہ کی متعدد اھادیث وہاں ذکر کی جا چکی ہیں ۔ نیز یہ بھی وہاں ذکر کیا جا چکا ہے کہ آپ ﷺ نفل نماز میں خاص کر رات کے نوافل میں کبھی کبھی طویل رکوع و سجود بھی کرتے تھے ۔ یہ نماز جس میں عوف بن مالکؓ حضور ﷺ کے شریک ہو گئے اور جس میں آپ ﷺ نے بقدر سورہ بقرہ کے طویل رکوع کیا یہ نفلی نماز تھی ۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو کوئی ذرہ اس کیفیت کا نصیب فرمائے جو اس رکوع میں آپ ﷺ کے قلبِ مبارک پر طاری رہی ہو گی ۔
«سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ»
پاک ہے اللہ زور و قوت اور فرمانروائی والا ، اور عظمت و کبریائی والا ۔ (سنن نسائی)
تشریح
معارف الحدیث جلد سوم میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عام معمول رکوع میں “سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ” اور سجدے میں “سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى” پڑھنے کا تھا ، اور آپ ﷺ نے اسی کی تعلیم فرمائی ۔ لیکن کبھی کبھی ان کے علاوہ دوسرے تسبیح و تقدیس کے کلمات اور دوسری دعائیں بھی آپ ﷺ رکوع و سجود میں کرتے تھے ۔ اس سلسلہ کی متعدد اھادیث وہاں ذکر کی جا چکی ہیں ۔ نیز یہ بھی وہاں ذکر کیا جا چکا ہے کہ آپ ﷺ نفل نماز میں خاص کر رات کے نوافل میں کبھی کبھی طویل رکوع و سجود بھی کرتے تھے ۔ یہ نماز جس میں عوف بن مالکؓ حضور ﷺ کے شریک ہو گئے اور جس میں آپ ﷺ نے بقدر سورہ بقرہ کے طویل رکوع کیا یہ نفلی نماز تھی ۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو کوئی ذرہ اس کیفیت کا نصیب فرمائے جو اس رکوع میں آپ ﷺ کے قلبِ مبارک پر طاری رہی ہو گی ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَوْفِ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: قُمْتُ مَعَ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَكَعَ مَكَثَ قَدْرَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ» (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৫৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رکوع و سجود کی دعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات کو (میری آنکھ کھلی تو) میں نے رسول اللہ ﷺ کو بستر پر نہ پایا ، پس میں (اندھیرے میں) آپ ﷺ کو ٹٹولنے لگی تو میرا ہاتھ آپ کے پاؤں کے تلوؤں پر پڑا ، اس وقت آپ ﷺ سجدے میں تھے اور آپ ﷺ کے دونوں پاؤں کھڑے تھے (جیسے کہ سجدے کی حالت میں ہوتے ہیں) اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کر رہے تھے : “اللهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ الخ” (اے میرے اللہ ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضامندی کی پناہ لیتا ہوں ، اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ لیتا ہوں اور تیری پکڑ سے تیری پناہ لیتا ہوں ، میں تیری ثنا و صفت پوری طرح بیا نہیں کر سکتا (بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ) تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی ذاتِ اقدس کے بارے میں بتلایا ہے ۔ (صحیح مسلم)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى بَطْنِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَهُوَ يَقُولُ: «اللهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৫৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ رکوع و سجود کی دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سجدے میں (کبھی کبھی) یہ دعا بھی کرتے تھے : “اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ الخ” (اے میرے اللہ ! میرے سارے گناہ بخش دے ، چھوٹے بھی ، بڑے بھی ، پہلے بھی ، پچھلے بھی ، کھلے بھی اور ڈھکے چھپے بھی) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت عائشہؓ کی یہ دونوں حدیثیں معارف الحدیث جلد سوم میں بھی ذکر کی جا چکی ہیں ۔
تشریح
حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت عائشہؓ کی یہ دونوں حدیثیں معارف الحدیث جلد سوم میں بھی ذکر کی جا چکی ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي الله عَنهُ قَالَ كَانَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «فِي سُجُودِهِ اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ دِقَّهُ، وَجِلَّهُ، وَأَوَّلَهُ وَآخِرَهُ وَعَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৫৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قعدہ اخیرہ کی بعض دعائیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نما زمیں یہ دعا بھی کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ الخ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں قبر کے عذاب سے اور دجال کے فتنہ سے اور زندگی اور موت کے سارے فتنوں سے اور گناہ کے ہر کام سے اور قرضہ کے بار سے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے ساتھ متصلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد عذابِ نار ، عذابِ قبر ، فتنہ دجال اور زندگی اور موت کے سارے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہ بات متعین ہو گئی کہ یہ دعا آخری قعدہ میں سلام سے پہلے کی جائے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی یہ حدیث صحیح مسلم ہی کے حوالہ سے معارف جلد سوم میں ذکر کی جا چکی ہے ۔
تشریح
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے ساتھ متصلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد عذابِ نار ، عذابِ قبر ، فتنہ دجال اور زندگی اور موت کے سارے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہ بات متعین ہو گئی کہ یہ دعا آخری قعدہ میں سلام سے پہلے کی جائے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی یہ حدیث صحیح مسلم ہی کے حوالہ سے معارف جلد سوم میں ذکر کی جا چکی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلاَةِ يَقُوْلُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا، وَفِتْنَةِ المَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ المَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ " (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৫৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قعدہ اخیرہ کی بعض دعائیں
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ الخ” (اے میرے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں دین مین ثابت قدمی اور حق و ہدایت پر استواری و مضبوطی اور تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری نعمتوں کی شکر گزاری کا اور اچھی طرح تیری عبادت گزاری کا ، اور مانگتا ہوں تجھ سے وہ دل جس میں روگ نہ ہو اور وہ زبان جو صداقت شعار ہو ، اور تجھ سے سائل ہوں اس خیر اور بھلائی کا جو تیرے علم میں ہے ، اور پناہ چاہتا ہوں اس شر اور برائی سے جس کا تجھے علم ہے ، اور معافی اور مغفرت مانگتا ہوں ان گناہوں کے لئے جو تجھے معلوم ہیں ۔ (سنن نسائی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي صَلَاتِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ، وَالْعَزِيمَةَ عَلَى الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ، وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ قَلْبًا سَلِيمًا، وَلِسَانًا صَادِقًا، وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا تَعْلَمُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا تَعْلَمُ " (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قعدہ اخیرہ کی بعض دعائیں
قیس بن عباد (تابعی) سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے کچھ ہلکی اور مختصر نماز پڑھائی تو لوگوں نے اس پر کچھ چہ میگوئیاں کیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : “کیا بات ہے ؟ کیا میں نے رکوع اور سجدے (اور دوسرے ارکان) پوری طرح ادا نہیں کئے ؟” لوگوں نے کہا : “یہ بات تو نہیں ، لیکن ہم نے محسوس یہی کیا کہ آپ نے (اس وقت) بہت ہلکی نماز پڑھی ۔” حضرت عمارؓ نے فرمایا : “میں نے تو رکوع و سجود اور دوسرے ارکان پوری طرح ادا کرنے کے علاوہ نماز میں (اچھی خاصی طویل) وہ خاص دعا بھی کی تھی جو رسول اللہ ﷺ کبھی کبھی کیا کرتے تھے (اور وہ یہ ہے): “اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ الخ” (اے میرے اللہ ! تو عالم الغیب ہے ، اور تجھے اپنی مخلوق پر پوری قدرت حاصل ہے ۔ تو اپنے اس علم غیب اور اس قدرت مطلقہ سے مجھے اس وقت تک دنیا میں رکھ جب تک تیرے علم میں میری زندگی میرے لئے باعث خیر ہو اور مجھے اس وقت دنیا سے اٹھا لے جب اٹھایا جانا میرے لئے بہتر ہو ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں تیرا خوف اور تیری خشیت خلوت میں اور جلوت میں ، اور مانگتا ہوں تجھ سے بےلاگ اور خدا لگتی مخلصانہ بات کرنے کی توفیق رضامندی کی حالت میں اور سخت ناراضی کی حالت میں (یعنی مجھے توفیق دے کہ کسی کی رضامندی یا ناراضی کی وجہ سے حق و انصاف کے خلاف کوئی بات نہ کہوں) اور اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں میانہ روی ، تنگدستی میں اور خوش حالی میں اور میں سائل ہوں رضا بالقضا کی صفت کا ، اور سوال کرتا ہوں تجھ سے آخرت کے جاودانی عیش و آرام کا اور آنکھووں کی اس ٹھنڈک کا جو کبھی منقطع نہ ہو ، اور تجھ سے مانگتا ہوں مرنے کے بعد ٹھنڈی اور چین و سکون کی زندگی اور تیرے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کا اشتیاق ، بغیر اس کے کہ کوئی ضرر رساں کیفیت پیدا ہو ، اور بغیر اس کے کہ کسی گمراہ کن فتنہ میں ابتلا ہو ۔ اے میرے اللہ ! ہم کو ایمان کی زینت سے آراستہ فرما اور ہمیں ہدایت یافتہ اور دوسرے کے لئے ذریعہ ہدایت بنا ۔ (سنن نسائی)
تشریح
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعائیں نماز میں کس موقع پر کرتے تھے لیکن دوسری حدیثوں کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ یہ دعائیں نماز کے آخری قعدہ میں سلام سے پہلے کرتے تھے ، نماز میں اس قسم کی دعاؤں کا خاص موقع و محل یہی ہے ۔ اس موقع کے لئے رسول اللہ ﷺ نے حضرت صدیق اکبرؓ کی درخواست پر جو دعا ان کو تعلیم فرمائی تھی : “اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا الخ” وہ معارف الحدیث کی جلد سوم میں ذکر کی جا چکی ہے اور اسی کی تشریح میں وہ دلائل اور قرائن لکھے جا چکے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دعاؤں کا موقع اور محل تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے ہے ۔
تشریح
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعائیں نماز میں کس موقع پر کرتے تھے لیکن دوسری حدیثوں کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ یہ دعائیں نماز کے آخری قعدہ میں سلام سے پہلے کرتے تھے ، نماز میں اس قسم کی دعاؤں کا خاص موقع و محل یہی ہے ۔ اس موقع کے لئے رسول اللہ ﷺ نے حضرت صدیق اکبرؓ کی درخواست پر جو دعا ان کو تعلیم فرمائی تھی : “اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا الخ” وہ معارف الحدیث کی جلد سوم میں ذکر کی جا چکی ہے اور اسی کی تشریح میں وہ دلائل اور قرائن لکھے جا چکے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دعاؤں کا موقع اور محل تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: صَلَّى عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ بِالْقَوْمِ صَلَاةً أَخَفَّهَا، فَكَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوهَا، فَقَالَ: أَلَمْ أُتِمَّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: أَمَا إِنِّي دَعَوْتُ فِيهَا بِدُعَاءٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو بِهِ: «اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي، وَأَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَكَلِمَةَ الْإِخْلَاصِ فِي الرِّضَا وَالْغَضَبِ، وَأَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَنْفَدُ، وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْقَطِعُ، وَأَسْأَلُكَ الرِّضَاءَ بِالْقَضَاءِ، وَبَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَلَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ، وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ، وَفِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ، اللَّهُمَّ زَيِّنَّا بِزِينَةِ الْإِيمَانِ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُهْتَدِينَ» (رواه النسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قعدہ اخیرہ کی بعض دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو تشہد کے بعد یہ دعا سکھایا کرتے تھے : “أَلِّفْ اللَّهُمَّ عَلَى الْخَيْرِ بَيْنَ قُلُوبِنَا الخ” (اے اللہ ! خیر اور بھلائی پر ہمارے دلوں کو جوڑ دے اور ہمارے باہمی تعلقات کو درست کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا اور ہمیں اندھیروں سے نکال کے روشنی کی فضا میں لا اور ظاہر و باطن کی ساری گندگیوں سے ہمیں بچا اور دور رکھ ۔ اور ہمارے کانوں ، ہماری آنکھوں اور ہماری بیویوں اور ہماری نسل میں برکت دے اور ہم پر عنایت فرما ، تو بڑا عنایت فرما اور مہربان ہے ، اور ہمیں تو اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا اور شایانِ شان طریقے پر ان کا استقبال کرنے والا بنا اور نعمتوں کا ہم پر اتمام فرمای ، یعنی اپنی نعمتیں بھرپور عطا فرما ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا بَعْدَ التَّشَهُّدَ: « أَلِّفْ اللَّهُمَّ عَلَى الْخَيْرِ بَيْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَيْنَا، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ، مُثْنِينَ بِهَا، قَابِلِيهَا وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد کرتے تھے : “اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ الخ” (اے میرے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! اور ہر چیز کے پروردگار ! میں گواہی دیتا ہوں کہ صرف تو ہی اکیلا تو مالک اور پروردگار ہے ، تیرا کوئی شریک ساجھی نہیں ۔ اے میرے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! اور ہر چیز کے پروردگار ! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ تیرا بندہ اور تیرا رسول ہے ۔ اے میرے اللہ ! اے میرے پروردگار ! اور ہر چیز کے پروردگار ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سارے بندے (بندگی کے رشتے سے) بھائی بھائی ہیں ۔ اے میرے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! اور ہر چیز کے پروردگار ! مجھے اور میرے گھر والوں کو ہمیشہ کے لئے دنیا اور آخرت کی ایک ایک ساعت کے لئے اپنا مخلص اور وفادار بندہ بنا لے ۔ اے ذو الجلال والاکرام میری التجا سن لے ، میری دعا قبول فرما لے ، اللہ ہی سب سے بڑا ہے ، وہی بزرگ و برتر ہے ، اللہ زمین و آسما کا نور ہے (سارا جہان اسی کے نور سے قائم ہے اور منور ہے) اللہ ہی سب سے بڑا ہے وہی بزرگ و برتر ہے ، میرا اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا میرا سہارا اور بھروسا ہے ۔ اللہ ہی سب سے بڑا ہے ، وہی بزرگ و برتر ہے) ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
دعائیں دو قسم کی ہوتی ہیں : ایک وہ جن میں اللہ تعالیٰ سے دنیا یا آخرت کی کوئی چیز طلب کی جائے ، یا کسی شر اور بلا سے اس کی پناہ مانگی جائے ۔ اور دوسری وہ جن میں بندہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اس کے جلال و جبروت اور بے نہایت احسانات کو یاد کر کے اس کے حضور میں اپنی بندگی و نیازمندی اور مخلصانہ وفاداری و ممنونیت کا مظاہرہ کرے اور اس طرح اس کی رحمت و عنایت اور اس کا قرب چاہے ۔ نماز کے بعد کی حضور ﷺ کی یہ دعا جو حضرت زید بن ارقمؓ کی روایت سے یہاں مذکور ہوئی اسی دوسری قسم کی ہے ۔ اس سے پہلے جو دعائیں درج ہو چکی ہیں ان میں سے اکثر میں بھی یہی عنصر غالب ہے ۔
تشریح
دعائیں دو قسم کی ہوتی ہیں : ایک وہ جن میں اللہ تعالیٰ سے دنیا یا آخرت کی کوئی چیز طلب کی جائے ، یا کسی شر اور بلا سے اس کی پناہ مانگی جائے ۔ اور دوسری وہ جن میں بندہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اس کے جلال و جبروت اور بے نہایت احسانات کو یاد کر کے اس کے حضور میں اپنی بندگی و نیازمندی اور مخلصانہ وفاداری و ممنونیت کا مظاہرہ کرے اور اس طرح اس کی رحمت و عنایت اور اس کا قرب چاہے ۔ نماز کے بعد کی حضور ﷺ کی یہ دعا جو حضرت زید بن ارقمؓ کی روایت سے یہاں مذکور ہوئی اسی دوسری قسم کی ہے ۔ اس سے پہلے جو دعائیں درج ہو چکی ہیں ان میں سے اکثر میں بھی یہی عنصر غالب ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ فِي دُبُرِ صَلَاتِهِ: «اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، أَنَا شَهِيدٌ أَنَّكَ أَنْتَ الرَّبُّ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ الْعِبَادَ كُلَّهُمْ إِخْوَةٌ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، اجْعَلْنِي مُخْلِصًا لَكَ وَأَهْلِي فِي كُلِّ سَاعَةٍ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ اسْمَعْ وَاسْتَجِبْ، اللَّهُ أَكْبَرُ الْأَكْبَرُ، اللَّهُمَّ نُورَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ»، قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ: «رَبَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، اللَّهُ أَكْبَرُ الْأَكْبَرُ، حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، اللَّهُ أَكْبَرُ الْأَكْبَرُ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جب رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم یہ چاہا کرتے تھے کہ آپ ﷺ کے داہنی جانت کھڑے ہوں آپ ﷺ (نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہماری طرف رخ فرماتے تھے تو میں نے سنا آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہے تھے : “رَبِّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ” (اے پروردگار ! مجھے اپنے عذاب سے بچا اس دن جس دن کہ تو بندوں کو اٹھائے اور دوبارہ ان کو زندہ کرے) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت براءؓ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد داہنی جانب رخ کر کے بیٹھتے تھے ۔ اور حضرت سمرہ بن جندبؓ کی ایک روایت سے جس کو امام بخاریؒ نے بھی روایت کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سلام کے بعد مقتدیوں کی جانب رخ کر کے بیٹھتے تھے ۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ مقتدیوں کی طرف رخ کر کے اس طرح بیٹھتے تھے کہ کسی قدر داہنی جانب کو بھی آپ ﷺ کا رخ ہوتا تھا ، اس بناء پر یہ دونوں بیان بجائے خود صحی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
حضرت براءؓ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد داہنی جانب رخ کر کے بیٹھتے تھے ۔ اور حضرت سمرہ بن جندبؓ کی ایک روایت سے جس کو امام بخاریؒ نے بھی روایت کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سلام کے بعد مقتدیوں کی جانب رخ کر کے بیٹھتے تھے ۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ مقتدیوں کی طرف رخ کر کے اس طرح بیٹھتے تھے کہ کسی قدر داہنی جانب کو بھی آپ ﷺ کا رخ ہوتا تھا ، اس بناء پر یہ دونوں بیان بجائے خود صحی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحْبَبْنَا أَنْ نَكُونَ عَنْ يَمِينِهِ، يُقْبِلُ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «رَبِّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ». (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد دعا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ، وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ” (اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں کفر سے ، اور فقر و فاقہ سے اور قبر کے عذاب سے) ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي بَكَرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ، وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ» (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد یہ دعا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ الخ” (اے اللہ ! میرے سارے گناہ معاف فرما دے جو میں نے پہلے جئے اور جو بعد میں کئے اور جو چھپا کے کئے اور جو اعلانیہ کئے اور جو بھی میں نے یادتی کی ، اور وہ گناہ بھی معاف فرما دے جن کا تجھ کو مجھ سے زیادہ علم ہے ، تو آگے بڑھانے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے ، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں) ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ» (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے بعد (کبھی کبھی) یہ دعا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا” (اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس علم کا جو نفع مند ہو ، اور ایسے اعمال کا جو تیری نگاہ میں قابل قبول ہوں ، اور تجھ سے سائل ہوں حلال طیب روزی کا ۔) (جامع زرین)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: فِي دُبُرِ الْفَجْرِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا» (رواه ابورزين)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت مسلم بن الحارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو خصوصیت کے ساتھ تلقین فرمائی کہ جب تم مغرب کی نماز ختم کرو تو کسی آدمی سے بات کرنے سے پہلے سات دفعہ یہ دعا کرو : “اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ” (اے اللہ ! مجھے دوزخ سے پناہ دے) تم نے مغرب کے بعد اگر یہ دعا کی اور اسی رات میں تم کو موت آ گئی تو دوزخ سے تمہارے بچاؤ کا فیصلہ کر دیا جائے گا ، اور اسی طرح جب تم صبح کی نماز پڑھو تو کسی آدمی سے بات کرنے سے پہلے سات دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرو: “اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ” (اے اللہ ! مجھے دوزخ سے پناہ دے) اگر اس دن تمہاری موت مقدر ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو دوزخ سے بچانے کا حکم ہو گا ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ مُسْلِمِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسَرَّ إِلَيْهِ فَقَالَ: " إِذَا انْصَرَفْتَ مِنْ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ فَقُلْ: اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ سَبْعَ مَرَّاتٍ قَبْلَ اَنْ تَكَلَّمَ اَحَدًا، فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ ذَلِكَ ثُمَّ مِتَّ فِي لَيْلَتِكَ كُتِبَ لَكَ جِوَارٌ مِنْهَا، وَإِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ فَقُلْ ذَلِكَ، فَإِنَّكَ إِنْ مِتَّ فِي يَوْمِكَ كُتِبَ لَكَ جِوَارٌ مِنْهَا " (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ نماز کے بعد کی دعائیں
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کے فرمایا : “اے معاذ ! مجھے تجھ سے محبت ہے ، میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا ضرور کیا کر : “اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ” (اے اللہ ! میری مدد فرما اور مجھے توفیق دے اپنے ذکر کی ، اپنے شکر کی اور اپنی اچھی عبادت کی) ” (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
تشریح
نہایت مختصر ہونے کے باوجود یہ بڑی عظیم اور اہم دعا ہے ۔ اس کی عظمت اور اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو اپنی محبت کا واسطہ دے کر تاکید کے ساتھ اس کی وصیت اور تلقین فرمائی ۔ اسی طرح اس سے پہلی حدیث کی دعا “اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ” کی تلقین بھی آپ ﷺ نے مسلم بن الحارثؓ کو خصوصیت اور اہتمام سے فرمائی تھی اور وہ بھی نہایت مختصر ہے ۔ اس غیر معمولی اہتمام کے ساتھ حضور ﷺ کی تعلیم و تلقین کے بعد ان دعاؤں کا اہتمام نہ کرنا بڑی ناقدری اور کم نصیبی کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔
تشریح
نہایت مختصر ہونے کے باوجود یہ بڑی عظیم اور اہم دعا ہے ۔ اس کی عظمت اور اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو اپنی محبت کا واسطہ دے کر تاکید کے ساتھ اس کی وصیت اور تلقین فرمائی ۔ اسی طرح اس سے پہلی حدیث کی دعا “اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ” کی تلقین بھی آپ ﷺ نے مسلم بن الحارثؓ کو خصوصیت اور اہتمام سے فرمائی تھی اور وہ بھی نہایت مختصر ہے ۔ اس غیر معمولی اہتمام کے ساتھ حضور ﷺ کی تعلیم و تلقین کے بعد ان دعاؤں کا اہتمام نہ کرنا بڑی ناقدری اور کم نصیبی کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: أَخَذَ بِيَدِىْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: يَا مُعَاذُ، وَاللَّهِ لَأُحِبُّكَ أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لَا تَدَعَهُنَّ فِي كُلِّ صَلَاةٍ اَنْ تَقُولُ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ " (رواه ابوداؤد والنسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১৬৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ختم تہجد پر آپ ﷺ کی ایک نہایت جامع دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات نمازِ تہجد سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ ﷺ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِكَ تَهْدِي بِهَا قَلْبِي الخ” (اے اللہ !میں تجھ سے دعا اور التجا کرتا ہوں تو محض اپنے فضل و کرم سے مجھ پر ایسی وسیع اور ہمہ گیر رحمت فرما جس سے میرا قلب تیری ہدایت سے بہرہ یاب ہو اور اپنے سارے معاملات میں مجھے تیری اس رحمت سے جمیعت نصیب ہو اور میری ظاہری و باطنی پراگندگی اور ابتری دور ہو اور مجھ سے تعلق رکھنے والی جو چیزیں میرے پاس نہیں دور اور غائب ہیں تیری رحمت سے ان کو صلاح و فلاح حاصل ہو اور جو میرے پاس حاضر و موجود ہیں ان کو تیری رحمت سے رفعت اور قدر افزائی نصیب ہو اور خود میرے اعمال کا تیری اس رحمت سے تزکیہ ہو اور تیری طرف سے میرے قلب میں وہی ڈالا جائے جو میرے لئے صحیح اور مناسب ہو اور جس چیز سے مجھے رغبت اور الفت ہو وہ مجھے تیری اس رحمت سے عطا ہو اور ہر برائی سے تو میری حفاظت فرما ۔ اے میرے اللہ ! میرے دل کو وہ یقین عطا فرما جس کے بعد کسی درجہ کا بھی کفر نہ ہو (یعنی کوئی بات بھی مجھ سے ایمان کے خلاف سرزد نہ ہو) اور مجھے اپنی اس رحمت سے نواز جس کے طفیل دنیا اور آخرت میں مجھے عزت و شرف کا مقام حاصل ہو ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے التجا کرتا ہوں قضا و قدر کے فیصلوں میں کامیابی کی اور تجھ سے مانگتا ہوں تیرے شہید بندوں والا اعزاز ، اور تیرے نیک بخت بندوں والی زندگی اور دشمنوں کے مقابلے میں تیری حمایت اور مدد ۔ اے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں اپنی حاجتیں لے کر حاضر ہوا ہوں ، اگرچہ میری عقل و رائے کوتاہ اور میرا عمل اور جدو جہد ضعیف ہے ۔ اے رحیم و کریم ! میں تیری رحمت کا محتاج ہوں پس اے سارے اُمور کا فیصلہ فرمانے والے اور قلوب کے روگ دور کر کے ان کو شفا بخشنے والے مالک و مولا ! جس طرح تو نے اپنی قدرتِ کاملہ سے (ایک سارھ بہنے والے) سمندروں کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا ہے (کہ کھاری شیریں سے الگ رہتا ہے اور شیریں کھاری سے) اسی طرح تو مجھے آتش دوزخ سے اور اس عذاب سے جدا اور دور رکھ جس کو دیکھ کے آدمی موت کی دعا مانگے گا ۔ اور اسی طرح مجھے عذابِ قبر سے بچا ۔ اے میرے اللہ ! تو نے جس خیر اور نعمت کا اپنے بندے کے لئے وعدہ فرمایا ہو ، یا جو چیز اور نعمت تو کسی کو بغیر وعدے کے عطا فرمانے والا ہوا اور میری عقل و رائے اس کے شعور اور اس کی طلب سے قاصر رہی ہو اور میری نیت بھی اس تک نہ پہنچتی ہو اور میں نے تجھ سے اس کی استدعا بھی نہ کی ہو تو اے میرے اللہ ! تیری رحمت سے میں اس کی بھی تجھ سے التجا کرتا ہوں ، اور تیرے کرم کے بھروسے اس کا طالب اور شائق ہوں ، تو اپنے رحم و کرم سے وہ خیر و نعمت بھی مجھے عطا فرما ۔ اے میرے وہ اللہ ! جس کا رشتہ مضبوط و محکم ہے اور جس کا ہر حکم اور کام صحیح اور درست ہے ، میں تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ “یوم الوعید” یعنی قیامت کے دن مجھے امن و چین عطا فرما ، اور “یوم الخلود” یعنی آخرت میں میرے لئے جنت کا فیصلہ فرما اپنے ان بندوں کے ساتھ جو تیرے مقرب اور تیری بارگاہ کے حاضر باش ہیں اور رکوع و سجود یعنی نماز و عبادت میں مشغور رہنا جن کا وظیفہ حیات ہے اور وفائے عہد جن کی خاص صفت ہے ۔ اے میرے اللہ ! تو بڑا مہربان اور بڑی عنایت و محبت فرمانے والا ہے اور “فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ” تیری شان ہے ۔ اے اللہ ! ہمیں ایسا کر دے کہ ہم دوسروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنیں ، اور خود ہدایت یاب ہوں ۔ نہ خود گم کردہ راہ ہوں اور نہ دوسروں کے لئے گمراہ کن ۔ تیرے دوستوں سے ہماری صلح ہو ، تیرے دشمنوں کے ہم دشمن ہوں ، جو کوئی تجھ سے محبت رکھے ہم تیری اس محبت کی وجہ سے اس سے محبت کریں اور جو تیرے خلاف چلے اور عداوت کی راہ اختیار کرے ، تیری عداوت کی وجہ سے ہم بھی اس سے عداوت اور بغض رکھیں ۔ اے اللہ ! یہ میری دعا ہے ، اور قبول فرمانا تیرے ذمہ ہے ، اور یہ میری حقیر کوشش ہے ، اور اعتماد و بھروسہ اپنی کوشش اور دعا پر نہیں بلکہ صرف تیرے کرم پر ہے ۔ اے اللہ ! میرے قلب میں نور پیدا فرما ، اور میری قبر کو نورانی کر دے ، اور منور کر دے میرے آگے اور میرے پیچھے اور میرے دائیں اور میرے بائیں اور میرے اوپر اور میرے نیچے (یعنی میرے ہر طرف تیرا نور ہی نور ہو) اور اے اللہ ! میرے نور کو بڑھا اور مجھے نور عطا فرما ، اور نور کو میرا اور میرے ساتھ کر دے ۔ پاک ہے وہ پروردگار جس نے عزت و جلال کی چادر اوڑھ لی ہے اور مجد و کرم اس کا لباس و شعار ہے ، پاک ہے وہ رب قدوس جس کے سوا کسی کو تسبیح سزاوار نہیں ، پاک ہے بندوں پر فضل و انعام فرمانے والا ، پاک ہے جس کی خاص صفت عظمت و کرم ہے ، پاک ہے رب ذوالجلال والاکرام ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
سبحان اللہ ! کتنی بلند اور کس قدر جامع ہے یہ دُعا ، تنہا اسی ای دعا سے (اور اس سے پہلے جو دعائیں درج ہوئیں ان سے بھی) اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے شُنُنون و صفات کی کتنی معرفت حاصل تھی ، اور عبدیت جو بندے کا سب سے بڑا کمال ہے اس میں آپ ﷺ کا کیا مقام تھا ، اور سید العالمین ﷺ اور محبوب رب العالمین ﷺ ہونے کے باوجود اپنے کو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے کرم کا کتنا محتاج سمجھتے تھے ، اور بندگی و نیاز مندی کی کس فقیرانہ شان کے ساتھ اس سے اپنی حاجتیں مانگتے تھے ، نیز یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دعا کے وقت آپ ﷺ کے قلب مبارک کی کیا کیفیت ہوتی تھی ، اور اللہ تعالیٰ نے انسانی حاجتوں کا کتنا تفصیلی اور عمیق احساس آپ ﷺ کو عطا فرمایا تھا ۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جیسے رؤف اور رحیم و کریم ہیں اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان دعاؤں کے ایک ایک فقرے پر اللہ تعالیٰ کے دریارئے رحمت میں کیسا تلاطم اور دعا مانگنے والے پر کتنا پیار آتا ہو گا ۔
پہلے لکھا جا چکا ہے کہ حضور ﷺ کی دعائیں امت کے لئے آپ کا عظیم ترین ورثہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس ورثہ کی قدر و قیمت سمجھیں اور اس سے پورا حصہ لینے کی کوشش کریں ۔
تشریح
سبحان اللہ ! کتنی بلند اور کس قدر جامع ہے یہ دُعا ، تنہا اسی ای دعا سے (اور اس سے پہلے جو دعائیں درج ہوئیں ان سے بھی) اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے شُنُنون و صفات کی کتنی معرفت حاصل تھی ، اور عبدیت جو بندے کا سب سے بڑا کمال ہے اس میں آپ ﷺ کا کیا مقام تھا ، اور سید العالمین ﷺ اور محبوب رب العالمین ﷺ ہونے کے باوجود اپنے کو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے کرم کا کتنا محتاج سمجھتے تھے ، اور بندگی و نیاز مندی کی کس فقیرانہ شان کے ساتھ اس سے اپنی حاجتیں مانگتے تھے ، نیز یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دعا کے وقت آپ ﷺ کے قلب مبارک کی کیا کیفیت ہوتی تھی ، اور اللہ تعالیٰ نے انسانی حاجتوں کا کتنا تفصیلی اور عمیق احساس آپ ﷺ کو عطا فرمایا تھا ۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جیسے رؤف اور رحیم و کریم ہیں اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان دعاؤں کے ایک ایک فقرے پر اللہ تعالیٰ کے دریارئے رحمت میں کیسا تلاطم اور دعا مانگنے والے پر کتنا پیار آتا ہو گا ۔
پہلے لکھا جا چکا ہے کہ حضور ﷺ کی دعائیں امت کے لئے آپ کا عظیم ترین ورثہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس ورثہ کی قدر و قیمت سمجھیں اور اس سے پورا حصہ لینے کی کوشش کریں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْلَةً حِينَ فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِكَ تَهْدِي بِهَا قَلْبِي، وَتَجْمَعُ بِهَا أَمْرِي، وَتَلُمُّ بِهَا شَعَثِي، وَتُصْلِحُ بِهَا غَائِبِي، وَتَرْفَعُ بِهَا شَاهِدِي، وَتُزَكِّي بِهَا عَمَلِي، وَتُلْهِمُنِي بِهَا رُشْدِي، وَتَرُدُّ بِهَا أُلْفَتِي، وَتَعْصِمُنِي بِهَا مِنْ كُلِّ سُوءٍ، اللَّهُمَّ أَعْطِنِي إِيمَانًا وَيَقِينًا لَيْسَ بَعْدَهُ كُفْرٌ، وَرَحْمَةً أَنَالُ بِهَا شَرَفَ كَرَامَتِكَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الفَوْزَ فِي الْقَضَاءِ، وَنُزُلَ الشُّهَدَاءِ، وَعَيْشَ السُّعَدَاءِ، وَالنَّصْرَ عَلَى الأَعْدَاءِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أُنْزِلُ بِكَ حَاجَتِي، وَإِنْ قَصُرَ رَأْيِي وَضَعُفَ عَمَلِي، افْتَقَرْتُ إِلَى رَحْمَتِكَ، فَأَسْأَلُكَ يَا قَاضِيَ الأُمُورِ، وَيَا شَافِيَ الصُّدُورِ، كَمَا تُجِيرُ بَيْنَ البُحُورِ أَنْ تُجِيرَنِي مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ، وَمِنْ دَعْوَةِ الثُّبُورِ، وَمِنْ فِتْنَةِ القُبُورِ، اللَّهُمَّ مَا قَصُرَ عَنْهُ رَأْيِي، وَلَمْ تَبْلُغْهُ نِيَّتِي، وَلَمْ تَبْلُغْهُ مَسْأَلَتِي مِنْ خَيْرٍ وَعَدْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ خَيْرٍ أَنْتَ مُعْطِيهِ أَحَدًا مِنْ عِبَادِكَ، فَإِنِّي أَرْغَبُ إِلَيْكَ فِيهِ، وَأَسْأَلُكَهُ بِرَحْمَتِكَ رَبَّ العَالَمِينَ، اللَّهُمَّ ذَا الحَبْلِ الشَّدِيدِ، وَالأَمْرِ الرَّشِيدِ، أَسْأَلُكَ الأَمْنَ يَوْمَ الوَعِيدِ، وَالجَنَّةَ يَوْمَ الخُلُودِ، مَعَ الْمُقَرَّبِينَ الشُّهُودِ الرُّكَّعِ، السُّجُودِ الْمُوفِينَ بِالعُهُودِ، إِنَّكَ رَحِيمٌ وَدُودٌ، وإِنَّكَ تَفْعَلُ مَا تُرِيدُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا هَادِينَ مُهْتَدِينَ، غَيْرَ ضَالِّينَ وَلاَ مُضِلِّينَ، سِلْمًا لأَوْلِيَائِكَ، وَعَدُوًّا لأَعْدَائِكَ، نُحِبُّ بِحُبِّكَ مَنْ أَحَبَّكَ، وَنُعَادِي بِعَدَاوَتِكَ مَنْ خَالَفَكَ، اللَّهُمَّ هَذَا الدُّعَاءُ وَعَلَيْكَ الإِجَابَةُ، وَهَذَا الجُهْدُ وَعَلَيْكَ التُّكْلاَنُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي نُورًا فِي قَلْبِي، وَنُورًا فِي قَبْرِي، وَنُورًا مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَنُورًا مِنْ خَلْفِي، وَنُورًا عَنْ يَمِينِي، وَنُورًا عَنْ شِمَالِي، وَنُورًا مِنْ فَوْقِي، وَنُورًا مِنْ تَحْتِي، وَنُورًا فِي سَمْعِي، وَنُورًا فِي بَصَرِي، وَنُورًا فِي شَعْرِي، وَنُورًا فِي بَشَرِي، وَنُورًا فِي لَحْمِي، وَنُورًا فِي دَمِي، وَنُورًا فِي عِظَامِي، اللَّهُمَّ أَعْظِمْ لِي نُورًا، وَأَعْطِنِي نُورًا، وَاجْعَلْ لِي نُورًا، سُبْحَانَ الَّذِي تَعَطَّفَ العِزَّ وَقَالَ بِهِ، سُبْحَانَ الَّذِي لَبِسَ الْمَجْدَ وَتَكَرَّمَ بِهِ، سُبْحَانَ الَّذِي لاَ يَنْبَغِي التَّسْبِيحُ إِلاَّ لَهُ، سُبْحَانَ ذِي الفَضْلِ وَالنِّعَمِ، سُبْحَانَ ذِي الْمَجْدِ وَالكَرَمِ، سُبْحَانَ ذِي الجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ. (رواه الترمذى)
তাহকীক: