মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩২১ টি

হাদীস নং: ১১৩০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دُعا سے متعلق ہدایات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اس طرح نہ کہے کہ : “اے اللہ ! تو اگر چاہے تو مجھے بخش دے اور تو چاہے تو مجھ پر رحمت فرما اور تو چاہے تو مجھے روزی دے ۔” بلکہ اپنی طرف سے عزم اور قطعیت کے ساتھ اللہ کے حضورمیں اپنی مانگ رکھے ۔ بےشک وہ کرے گا وہی جو چاہے گا ۔ کوئی ایسا نہیں جو زور ڈال کر اس سے کرا سکے ۔ ” (صحیح بخاری)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ عاجزی اور محتاجی اور فقیری اور گدائی کا تقاضا یہی ہے کہ بندہ اپنے رب کریم سے بغیر کسی شک اور تذبذب کے اپنی حاجت مانگے ، اس طرح نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو ایسا کر دے ، اس میں استغنا کا شائبہ ہے اور یہ مقامِ عبدیت اور دعا کے منافی ہے ، نیز ایسی دعا کبھی جاندار دعا نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے بندے کو چاہئے کہ اپنی طرف سے اس طرح عرض کرے کہ : “میرے مولا ! میری یہ حاجت تو پوری کر ہی دے ۔ بےشک اللہ تعالیٰ جو کچھ کرے گا وہ اپنے ارادہ اور مشیت سے کرے گا ، کوئی ایسا نہیں ہے جو زور ڈال کر اس کی مشیت کے خلاف اس سے کچھ کرا لے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلَا يَقُلْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ، وَلَكِنْ لِيَعْزِمْ بِالْمَسْأَلَةِ، فَإِنَّهُ لَا مُكْرِهَ لَهُ " (رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৩১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دُعا سے متعلق ہدایات
جو کوئی یہ چاہے کہ پریشانیوں اور تنگیوں کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے ، تو اس کو چاہئے کہ عافیت اور خوشحالی کے زمانہ میں دعا زیادہ کیا کرے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
یہ تجربہ اور واقعہ ہے کہ جو لوگ صرف پریشانی اور مصیبت کے وقت ہی خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسی وقت ان کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھتے ہیں ، ان کا رابطہ اللہ کے ساتھ بہت ضعیف ہوتا ہے ، اور خدا کی رحمت پر ان کو وہ اعتماد نہیں ہوتا جس سے دعا میں روح اور جان پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس جو بندے ہر حال میں اللہ سے مانگنے کے عادی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا رابطہ قوی ہوتا ہے اور اللہ کے کرم اور اس کی رحمت پر ان کو بہت زیادہ اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے ، اس لئے ان کی دعا قدرتی طور پر جاندار رہتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہی ہدایت دی ہے کہ بندوں کو چاہئے کہ عافیت اور خوش حالی کے دنوں میں بھی وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ دعا کیا کریں اور مانگا کریں ، اس سے ان کو وہ مقام حاصل ہو گا کہ پریشانیوں اور تنگیوں کے پیش آنے پر جب وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو ان کی دعا خاص طور سے قبول ہو گی ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ فَلْيُكْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৩২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دُعا میں عجلت طلبی کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “تمہاری دعائیں اس وقت تک قابلِ قبول ہوتی ہیں جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے ۔” (جلد بازی یہ ہے) کہ بندہ کہتے لگے کہ میں نے دُعا کی تھی مگر وہ قبول ہی نہیں ہوئی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ بندہ اس جلد بازی اور مایوسی کی وجہ سے قبولیت کا استحقاق کھو دیتا ہے ، اس لئے چاہئے کہ بندہ ہمیشہ اس کے در کا فقیر بنا رہے اور مانگتا رہے ، یقین کرے کہ ارحم الراحمین کی رحمت دیر سویر ضرور اس کی طرف متوجہ ہو گی ۔ کبھی کبھی بہت سے بندوں کی دعا جو وہ بڑے اخلاص و اضطرار سے کرتے ہیں اس لئے بھی جلدی قبول نہیں کی جاتی کہ اس دعا کا تسلسل ان کے لئے ترقی اور تقرب الی اللہ کا خاص ذریعہ ہوتا ہے ، اگر ان کی منشاء کے مطابق ان کی دعا جلدی قبول کر لی جائے تو اس عظیم نعمت سے وہ محروم رہ جائیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ، فَيَقُولُ: قَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي " (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৩৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حرام کھانے اور پہننے والے کی دُعا قبول نہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک ہی کو قبول کرتا ہے ، اور اس نے اس بارے میں جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے وہی اپنے سب مومن بندوں کو دیا ہے ۔ پیغمبروں کے لئے اس کا ارشاد ہے : “اے رسولو ! تم کھاؤ پاک اور حلال غذا ، اور عمل کرو صالح ، میں خوب جانتا ہوں تمہارے اعمال” ۔ اور اہل ایمان کو مخاطب کر کے اس نے فرمایا ہے کہ : “اے ایمان والو ! تم ہمارے رزق میں سے حلال اور طیب کھاؤ(اور حرام سے بچو)” اس کے بعد حضور ﷺ نے ذکر فرمایا ایک ایسے آدمی کا جو طویل سفر کر کے (کسی مقدس مقام پہ) ایسی حالت میں جاتا ہے کہ اس کے بال پراگندہ ہیں اور جسم اور کپڑوں پر گرد غبار ہے ، اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کے دیا کرتا ہے : “سے میرے رب ! اے میرے پروردگار !” اور حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے ، اس کا پینا حرام ہے ، اس کا لباس بھی حرام ہے ، اور حرام غذا سے اس كا نشوونما ہوا ہے ، تو ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول ہو گی ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
آج بہت سے دعا کرنے والوں کے دلوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب دعا اور اس کی قبولیت برحق ہے اور دعا کرنے والوں کے لئے اللہ کا وعدہ ہے : “ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ”(تم دعا کرو میں قبول کروں گا) تو پھر ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتی ؟ اس حدیث میں اس کا پورا پورا جواب ہے آج دعا کرنے والوں میں کتنے ہیں جن کو اطمینان ہے کہ وہ جو کھا رہے ہیں جو پی رہے ہیں جو پہن ررہے ہیں وہ سب حلال اور طیب ہے اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون: 51] وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة: 172] ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟ " (رواه مسلم عن ابى هريره)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৩৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وہ دُعائیں جن کی ممانعت ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کم کبھی اپنے حق میں یا اپنی اولاد اور مال و جائیداد کے حق میں بد دعا نہ کرو ، مبادا وہ وقت دعا کی قبولیت کا ہو اور تمہاری و دعا اللہ تعالیٰ قبول فرما لے ۔ (جس کے نتیجہ میں خود ت پر یا تمہاری اولاد یا مال و جائیداد پر کوئی آفت آ جائے) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
انسان بےصبر اور جلد گھبرا جانے والا ہے ، اور اس کا علم بھی بہت محدود اور ناقص ہے اس لئے بعض اوقات وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی دعائیں بھی کرنے لگتا ہے جو اگر قبول ہو جائیں تو اس میں خود اسی کا خسارہ ہو ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسی دعاؤں سے منع فرمایا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَوْلَادِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَمْوَالِكُمْ، لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللهِ سَاعَةً يُسْأَلُ فِيهَا عَطَاءٌ، فَيَسْتَجِيبُ لَكُمْ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৩৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وہ دُعائیں جن کی ممانعت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تم میں سے کوئی اپنی موت کی تمنا نہ کرے ، نہ جلدی موت آنے کے لئے اللہ سے دعا کرے ، کیوں کہ جب موت آ جائے گی تو عمل کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا (اور اللہ کی رضا و رحمت حاصل کرنے والال کوئی عمل بندہ نہیں کر سکے گا ، جو عمل بھی کیا جا سکتا ہے جیتے جی ہی کیا جا سکتا ہے) اور بندہ مومن کی عمر تو اس کے لئے خیر ہی میں اضافہ اور ترقی کا وسیلہ ہے (اس لئے موت کی تمنا و دعا کرنا بڑی غلطی ہے) ۔ ” (صحیح مسلم)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَتَمَنَّى أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ، وَلَا يَدْعُ بِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُ، إِنَّهُ إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ، وَإِنَّهُ لَا يَزِيدُ الْمُؤْمِنَ عُمْرُهُ إِلَّا خَيْرًا» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৩৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وہ دُعائیں جن کی ممانعت ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “تم لوگ موت کی دعا اور تمنا نہ کرو ، اور کوئی آدمی ایسی دعا کے لئے مضطر ہی ہو (اور کسی وجہ سے زندگی اس کے لئے دو بھر ہو) تو اللہ کے حضور میں یوں عرض کرے : “اے اللہ ! جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھ ، اور جب میرے لئے موت بہتر ہو تو دنیا سے مجھے اٹھا لے” ۔ (سنن نسائی)

تشریح
ان حدیثوں میں دراصل موت کی اس دعا اور تمنا سے ممانعت فرمائی گئی ہے جو کسی تکلیف اور پریشانی سے تنگ آ کر زبان پر آ جاتی ہے ۔ بعض حدیثوں کے الفاظ میں اس کی صراحت بھی ہے ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : “لاَ يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمُ المَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ” الحدیث (تم میں سے کوئی کسی پیش آ جانے والی تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے)
اس صورت میں موت کی تمنا اور دعا سے ممانعت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ صبر کی صفت کے خلاف ہے اور دوسری اس سے بھی اہم وجہ یہ ہے کہ آدمی جب تک زندہ ہے اس کے لئے توبہ و استغفار کے ذریعہ اپنے کو پاک صاف کرنے کا اور حسنات و طاعات کے ذریعہ اپنے ذخیرہ آخرت میں اضافہ اور اللہ تعالیٰ کا مزید تقرب حاصل کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہے پس موت کی دعا اس کھلے دروازے کو بند کرنے کی دعا ہے ، اور ظاہر ہے کہ اس میں بندہ کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ البتہ اللہ کے خاص مقرب بندے جب ان کا وقتِ موعود قریب آتا ہے تو لقاءِ الٰہی کے غلبہ شوق کی وجہ سے کبھی کبھی ان سے موت کی تمنا اور دعا کا ظہور بھی ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی دُعا : (1) “ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ” اور آخر وقت میں رسول اللہ ﷺ کی دعا : “اللهم الرفيق الاعلى” (اے اللہ ! میں رفیق اعلیٰ کا طالب و سائل ہوں) اسی قبیل سے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَدْعُوا بِالْمَوْتِ وَلَا تَتَمَنَّوْهُ، فَمَنْ كَانَ دَاعِيًا لَا بُدَّ فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي " (رواه النسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৩৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعا کے چند آداب: دوسرے سے پہلے اپنے لئے دعا
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کو یاد فرماتے اور اس کے لئے دعا کرنا چاہتے تو پہلے اپنے لئے مانگتے ، پھر اس شخص کے لئے دعا فرماتے ۔ (جامع ترمذی)
ہاتھ اٹھا کر دُعا کرنا

تشریح
دعا کا ایک ادب یہ ہے کہ جب کسی دوسرے کے لئے دعا کرنی ہو تو پہلے اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے مانگے اس کے بعد دوسرے کے لئے ۔ اگر صرف دوسرے کے لئے مانگے گا تو اس کی حیثیت محتاج سائل کی نہ ہو گی ، بلکہ صرف “سفارشی” کی سی ہو گی اور یہ بات دربارِ الٰہی کے کسی منگتا کے لئے مناسب نہیں ہے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ کا بھی یہی دستور تھا کہ جب آپ کسی دوسرے کے لئے دعا فرمانا چاہتے تو پہلے اپنے لئے مانگتے ۔ عبدیت کاملہ کا تقاضا یہی تھا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا فَدَعَا لَهُ بَدَأَ بِنَفْسِهِ. (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৩৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دوسرے سے پہلے اپنے لئے دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ سے اس طرح ہاتھ اٹھائے مانگا کرو کہ ہتھیلیوں کا رُخ سامنے ہو ہاتھ الٹے کر کے نہ مانگا کرو ، اور جب دُعا کر چکو تو اٹھے ہاتھ چہرے پر پھیر لو ۔ ” (سنن ابی داؤد)

تشریح
دوسری بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب آنے والی اور نازل ہونے والی کسی بلا کو رکوانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تو ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف ہوتی تھی ، اور جب دنیا یا آخرت کی کوئی خیر اور بھلائی مانگتے تھے تو سیدھے ہاتھ پھیلا کے مانگتے تھے جس طرح کسی سائل اور منگتا کو ہاتھ پسار کے اور پھیلا کے مانگنا چاہئے ۔ اس کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو مطلب یہی ہے کہ جب اللہ سے اپنی کوئی حاجت مانگی جائے تو اس کے سامنے فقیروں کی طرح ہاتھ سیدھے پھیلا کے مانگی جائے اور آکر میں وہ پھیلے ہوئے ہاتھ منہ پر پھیر لئے جائیں ۔ اس تصور کے ساتھ کہ یہ پھیلے ہوئے ہاتھ خالی نہیں رہے ہیں ، رب کریم کی رحمت و برکت کا کوئی حصہ ان کو ضرور ملا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنُ عَبَّاسٍ سَلُوا اللَّهَ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ، وَلَا تَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا، فَإِذَا فَرَغْتُمْ، فَامْسَحُوا بِهَا وُجُوهَكُمْ. (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৩৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دوسرے سے پہلے اپنے لئے دعا
سائب بن یزید تابعی اپنے والد یزید بن سعید بن ثمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب آپ ﷺ ہاتھ اٹھا کے دعا مانگتے تو آخر میں اپنے ہاتھ چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد ، دعوات کبیر للبیہقی)

تشریح
دعا میں ہاتھ اُٹھانا اور آخر میں ہاتھ منہ پر پھیرنا رسول اللہ ﷺ سے قریب قریب بتواتر ثابت ہے ۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا ہے ان کو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سے صرف غلط فہمی ہوئی ہے ۔ امام نوویؒ نے شرح مہذب میں قریباً تیس حدیثیں اس کے متعلق یکجا کر دی ہیں اور تفصیل سے ان حضرات کی غلط فہمی کی حقیقت واضح کی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ، مَسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ» (رواه ابوداؤد والبيهقى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دُعا سے پہلے حمد و صلوٰۃ
فضالہ بن عبید راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو سنا اس نے نماز میں دعا کی جس میں نہ اللہ کی حمد کی نہ نبی ﷺ پر درود بھیجا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ : اس آدمی نے دعا میں جلد بازی کی ۔ پھر آپ ﷺ نے اس کو بلایا اور اس سے یا اس کی موجودگی میں دوسرے آدمی کو مخاطب کر کے آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو (دعا کرنے سے پہلے) اس کو چاہئے کہ اللہ کی حمد و ثناء کرے ، پھر اس کے رسول ﷺ پر درود بھیجے ، اس کے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ قَالَ: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو فِي صَلَاتِهِ لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَجِلَ هَذَا»، ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ: - أَوْ لِغَيْرِهِ - «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ، فَلْيَبْدَأْ بِتَمْجِيدِ رَبِّهِ، وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَدْعُو بَعْدُ بِمَا شَاءَ» (رواه الترمذى وابوداؤد و النسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ دعا کے آخر میں “آمین”
ابو زہیر نمیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باہر نکلے ۔ ہمارا گزر اللہ کے ایک نیک بندے پر ہوا جو بڑے الحاح سے اللہ سے مانگ رہا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر اس کی دعا اور اللہ کے حضور میں اس کا مانگنا ، گڑگڑانا سننے لگے ۔ پھر آپ ﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا کہ : “اگر اس نے دعا کا خاتمہ صحیح کیا اور مہر ٹھیک لگائی تو جو اس نے مانگا ہے اس کا اس نے فیصلہ کرا لیا ” ۔ ہم میں سے ایک نے پوچھا کہ : “حضور ﷺ ! صحیح کاتمہ اور مُہر ٹھیک لگانے کا طریقہ کیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “آخر میں آمین کہہ کے دعا ختم کرے ” (تو اگر اس نے ایسا کیا تو بس اللہ سے طے کرا لیا) (سنن ابی داؤد)

تشریح
ختم کے معنی ختم کرنے کے بھی ہیں اور مہر لگانے کے بھی ہیں ، بلکہ یہ دونوں دراصل ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں ، اس لئے ترجمہ میں دونوں ہی لفظوں کو استعمال کیا گیا ہے ۔ حدیث کا اصل سبق یہ ہے کہ ہر دعا کے خاتمہ پر بندے کو آمین کہنا چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! میری یہ دعا قبول فرما ! اسی پر ہر دعا کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔ اس کی حکمت عنقریب ہی پہلے لکھی جا چکی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي زُهَيْرٍ النُّمَيْرِيِّ، خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ قَدْ أَلَحَّ فِي الْمَسْأَلَةِ، فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْتَمِعُ مِنْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوْجَبَ إِنْ خَتَمَ»، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: بِأَيِّ شَيْءٍ يَخْتِمُ؟ قَالَ: «بِآمِينَ، فَإِنَّهُ إِنْ خَتَمَ بِآمِينَ فَقَدْ أَوْجَبَ» (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اپنے چھوٹوں سے بھی دُعا کی درخواست
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان فرماتے ہیں کہ : “ایک دفعہ میں نے عمرہ کرنے کے لئے مکہ معظمہ جانے کی رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی ، تو آپ ﷺ نے مجھے اجازت عطا فرما دی ، اور ارشاد فرمایا : “بھیا ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شامل کرنا اور ہم کو بھول نہ جانا ؟” حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : “آپ ﷺ نے مجھے مخاطب کر کے یہ بھیا کا جو کلمہ کہا ، اگر مجھے اس کے عوض ساری دنیا دے دی جائے تو میں راضی نہ ہوں گا ۔” (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا ایسی چیز ہے جس کی استدعا بڑوں کو بھی اپنے چھوٹوں سے کرنی چاہئے ۔ بالخصوص اس وقت جب کہ وہ کسی ایسے مقبول عمل کے لئے یا ایسے مقدس مقام کو جا رہا ہوں جہاں قبولیت کی خاص امید ہو ۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو “اُخَىَّ” کے لفظ سے خطاب فرمایا جو “أُخَيَّ” کی تصغیر ہے ، اور جس کا لفظی ترجمہ “بھیا” ہے ۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جتنی خوشی ہوئی (جس کا انہوں نے اظہار بھی فرمایا ہے) وہ بالکل برحق ہے ۔ اس کے ساتھ اس حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقام کی رفعت اور بارگاہِ الٰہی میں ان کی مقبولیت کی جو شہادت ملتی ہے وہ بجائے خود بہت بڑی سند ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعُمْرَةِ، فَأَذِنَ لِي، وَقَالَ: «لَا تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ»، فَقَالَ كَلِمَةً مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الدُّنْيَا. (رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وہ دُعائیں جو خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کسی مسلمان کی اپنے بھائی کے لئے غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے ۔ اس کے پاس ایک فرشتہ ہے جس کی یہ ڈیوٹی ہے کہ جب وہ اپنے کسی بھائی کے لئے (غائبانہ) کوئی اچھی دعا کرے تو وہ فرشتہ کہتا ہے کہ : “تیری یہ دعا للہ قبول کرے ، اور تیرے لئے بھی اسی طرح کا خیر عطا فرمائے” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
غائبانہ دعا کی جس خصوصی قبولیت اور برکت کا اس حدیث میں ذکر ہے اس کی خاص وجہ بظاہر یہ ہے کہ ایسی دعا میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ، قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ: آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ " (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وہ دُعائیں جو خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تین دعائیں ہیں جو خاص طور سے قبول ہوتی ہیں ، ان کی قبولیت میں شک ہی نہیں ہے ۔ ایک اولاد کے حق میں ماں باپ کی دعا ۔ دوسرے مسافر اور پردیسی کی دعا ۔ تیسرے مظلوم کی دعا ۔” (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
ان دعاؤں کی مقبولیت کا خاص راز بھی یہی ہے کہ یہ دعائیں اخلاص سے اور دل سے ہوتی ہیں ۔ اولاد کے لئے ماں باپ کا خلوص تو ظاہر ہے ۔ اسی طرح بےچارےپردیسی اور مظلوم کا دل شکستہ ہوتا ہے ، اور دل کی شکستگی میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کھینچنے کی خاص طاقت ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنَّ: دَعْوَةُ الْوَالِدِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ " (رواه الترمذى وابوداؤد وابن ماجة)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ وہ دُعائیں جو خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “پانچ آدمیوں کی دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں ۔ مظلوم کی دعا جب تک وہ بدلہ نہ لے لے ۔ اور حج کرنے والے کی دعا جب تک وہ لوٹ کے اپنے گھر واپس نہ آئے اور راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی دعا جب تک وہ شہید ہو کے دنیا سے لاپتہ نہ ہو جائے ، اور بیمار کی دعا جب تک وہ شفایاب نہ ہو اور ایک بھائی کی دوسرے بھائی کے لئےغائبانہ دُعا ۔ یہ سب بیان فرمانے کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اور ان دعاؤں میں سب سے جلدی قبول ہونے والی دعا کسی بھائی کے لئے غائبانہ دعا ہے ۔ ” (دعوات کبیر للبیہقی)

تشریح
دُعا اگر حقیقۃً دعا ہو اور خود دعا کرنے والے کی ذات اور اس کے اعمال میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو قبولیت میں مانع ہوتی ہے تو دعا عموماً قبول ہی ہوتی ہے لیکن بندہ مومن کے بعض خاص احوال یا اعمال ایسے ہوتی ہیں کہ ان کی وجہ سے رحمتِ الٰہی خصوصیت سے متوجہ ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کا خصوصی استحقاق پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس حدیث میں جن پانچ آدمیوں کی دعاؤں کا ذکر ہے ان میں سے مظلوم کی دعا اور غائبانہ دعا کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور حج اور جہاد ایسے اعمال ہیں کہ جب تک بندہ ان میں مشغول ہو وہ گویا اللہ کی بارگاہ میں ہے اور اس سے قریب تر ہے ۔ اس طرح مرد مومن کی بیماری گناہوں سے اس کی تطہیر کا ذریعہ اور قربِ الہی کی راہ میں اس کی غیرمعمولی ترقی کا وسیلہ ہوتی ہے ۔ اور بیماری کے بستر پر وہ ولایت کی منزلیں طے کرتا ہے اس لئے اس کی دعا بھی خاص طور پر قبول ہوتی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَمْسُ دَعْوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ دَعْوَةُ الْمَظْلُوْمِ حَتَّى يَنْتَصِرَ وَ دَعْوَةُ الْحَاجِّ حَتَّى يَصْدِرَ وَ دَعْوَةُ الْمُجَاهِدِ حَتَّى يُفْقَدَ وَ دَعْوَةُ الْمَرِيْضِ حَتَّى يَبْرَأَ وَ دَعْوَةُ الْأَخِ لِأَخِيْهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ , ثُمَّ قَالَ: وَأَسْرَعُ هَذِهِ الدَّعْوَاتِ إِجَابَةُ دَعْوَةُ الْأَخِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ. (رواه البيهقى فى الدعوات الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت عرباص بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو بندہ فرض نماز پڑھے (اور اس کے بعد دل سے دعا کرے) تو اس کی دعا قبول ہو گی ، اسی طرح جو آدمی قرآن مجید ختم کرے (اور دعا کرے) تو اس کی دعا بھی قبول ہو گی ”۔ (معجم کبیر للطبرانی)

تشریح
دُعا کی قبولیت میں بنیادی دخل تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعا کرنے والے کے تعلق اور اس کی اندرونی کیفیت کو ہوتا ہے جس کو قرآن مجید میں “اضطرار” اور “ابتہال” سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ خاص احوال اور اوقات بھی ایسے ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کی خاص طور سے امید کی جاتی ہے ۔ مندرجہ ذٰل حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے ان احوال و اوقات کی خاص طور سے نشاندہی فرمائی ہے ۔

تشریح ..... نماز اور خاص کر فرض نماز میں اور قرآن پاک کی تلاوت کے وقت بندہ اللہ تعالیٰ سے قریب تر اور اس سے ہم کلام ہوتا ہے ، بشرطیکہ نماز اور تلاوت کی صرف صورت نہ ہو ، بلکہ حقیقت ہو ۔ گویا یہ دونوں عمل بندہ مومن کی معراج ہیں ۔ پس ان دونوں کے ختم پر بندہ اللہ تعالیٰ سے جو دعا کرے وہ اس کی مستحق ہے کہ رحمتِ الٰہی خود آگے بڑھ کے اس کا استقبال کرے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةَ فَرِيضَةٍ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، وَمَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ» (رواه الطبرانى فى الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اذان اور اقامت کے درمیان دعا رَد نہیں ہوتی قبول ہی ہوتی ہے ۔” (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “چار موقعے ہیں جن میں دعا خصوصیت سے قبول ہوتی ہے : راہِ خدا میں جنگ کے وقت ، اور جس وقت آسمان سے بارش ہو رہی ہو (اور رحمت کا سماں ہو) اور نماز کے وقت اور جب کعبۃ اللہ نظر کے سامے ہو ۔” (معجم کبیر طبرانی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي أُمَامةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُفْتَحُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيُسْتَجَابُ الدُّعَاءُ فِي أَرْبَعَةِ مَوَاطِنَ: عِنْدَ الْتِقَاءِ الصُّفُوفِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَعِنْدَ نُزُولِ الْغَيْثِ، وَعِنْدَ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَعِنْدَ رُؤْيَةِ الْكَعْبَةِ " (رواه الطبرانى فى الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১১৪৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت ربیعہ بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تین موقعے ایسے ہیں کہ ان میں دعا کی جائے تو وہ رد نہیں ہو گی (بلکہ لازماً قبول ہی ہو گی) ایک یہ کہ کوئی آدمی ایسے جنگل بیابان میں ہو جہاں خدا کے سوا کوئی اسے دیکھنے والا نہ ہو وہاں وہ خدا کے حضور میں کھڑے ہو کر نماز پڑھے (اور پھر دعا کرے) دوسے یہ کہ کوئی شخص میدانِ جہاد میں (دشمن کی فوج کے سامنے) ہو ، اس کے ساتھی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ہوں ، مگر دشمنوں کے نرغہ میں ثابت قدم رہا ہو (اور اس حال میں دعا کرے) تیسرے وہ آدمی جو رات کے آخری حصہ میں (بستر چھوڑ کے) اللہ کے حضور میں کھڑا ہو (اور پھر دعا کرے تو ان بندوں کی یہ دعائیں ضرور قبول ہوں گی) ۔”
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلاثَةُ مَوَاطِنَ لا تُرَدُّ فِيهَا دَعْوَةٌ: رَجُلٌ يَكُونُ فِي بَرِيَّةٍ حَيْثُ لا يَرَاهُ أَحَدٌ، فَيَقُومُ، وَيُصَلِّي، وَرَجُلٌ تَكُونُ مَعَهُ فِئَةٌ، فَيَفِرُّ عَنْهُ أَصْحَابُهُ فَيَثْبُتُ، وَرَجُلٌ يَقُومُ مِنَ آخِرِ اللَّيْلِ. (رواه ابن منذة فى مسنده)
tahqiq

তাহকীক: