মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩২১ টি
হাদীস নং: ১২৩০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مصائب اور مشکلات کے وقت کی دعائیں
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ (کسی سخت مشکل اور پریشانی میں مبتلا ہو اور) اللہ کے حضور میں عرض کرے : “اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، اكْفِنِي كُلَّ هَمٍّ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ، وَكَيْفَ شِئْتَ، وَمِنْ أَيْنَ شِئْتَ” (اے میرے اللہ ! ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کے مالک ! میری مہمات و مشکلات حل کرنے کے لئے تو کافی ہو جا اور حل کر دے جس طرح تو چاہے اور جہاں سے تو چاہے) تو اللہ اس کی مشکل کو حل کر کے پریشانی سے اس کو نجات عطا فرما دے گا ۔ (مکارم الاخلاق خرائطی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا قَالَ عَبْدٌ: اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، اكْفِنِي كُلَّ هَمٍّ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ، وَكَيْفَ شِئْتَ، وَمِنْ أَيْنَ شِئْتَ، إِلَّا أَذْهَبَ اللَّهُ تَعَالَى هَمَّهُ " (رواه الخرائطي في مكارم الأخلاق)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৩১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مصائب اور مشکلات کے وقت کی دعائیں
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : اے علیؓ ! جب تمہیں کسی پریشانی اور مصیبت کا سامنا ہو تو اللہ سے اس طرح دعا کرو : “اللَّهُمَّ احرسني بِعَيْنِك الَّتِي تا فِي نحور الْأَعْدَاء والجبارين” (اے اللہ ! اپنی اس آنکھ سے میری نگہبانی فرما جو کبھی نیند اور اونگھ سے آشنا نہیں ہوتی ، اور مجھے اپنی اس حفاظت میں لے لے جس کے قریب جانے کا بھی کوئی ارادہ نہیں کر سکتا ، اور مجھ مسکین و گناہگار بندے پر تجھے جو قدرت اور دسترس حاصل ہے اس کے صدقہ میں تو میرے گناہ معاف فرما دے کہ میں ہلاکت و بربادی سے بچ جاؤں تو ہی میری امیدوں کا مرکز ہے ۔ اے میرے مالک و پروردگار ! تو نے مجھے کتنی ہی ایسی نعمتوں سے نوازا جن کا شکر مجھ سے بہت ہی کم ادا ہو سکا ، اور کتنی ہی آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا اور ان آزمائشوں کے وقت مجھ سے صبر میں بڑی کمی اور کوتاہی ہوئی ۔ پس اے میرے وہ کریم رب ، جس کی نعمتں کا شکر ادا کرنے میں میں نے کوتاہی کی وت اس نے مجھے نعمتوں سے محروم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا (بلکہ میری اس کوتاہی کے باوجود اپنی نعمتیں مجھ پر انڈیلتا رہا) اور آزمائشوں میں صبر سے میرے قاصر رہنے کے باوجود اس نے مجھے اپنی نگاہِ کرم سے نہیں گرایا (بلکہ میری بےصبری کے باوجود مجھ پر کرم فرماتا رہا) اور اے میرے وہ کریم رب جس نے مجھے معصیتیں کرتے ہوئے خود دیکھا مگر اپنی مخلوق کے سامنے مجھے رسوا نہیں کیا (بلکہ مجھ گنہگار کی پردہ داری فرمائی) اے ہمیشہ اور تا ابد احسان و کرم فرمانے والے اور بےشمار و بےحساب نعمتوں سے نوازنے والے پروردگار ! میں تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ اپنے بندے اور پیغمبر حضرت محمدﷺ پر اور ان کے خاص متعلقین پر اپنی رحمتیں نازل فرما ۔ خداوندا ! میں تیرے ہی زور پر اور تیرے ہی بھروسہ پر مقابلہ میں آتا ہوں دشمنوں اور جباروں کے ۔ (مسند فردوس دیلمی)
تشریح
رسول اللہ ﷺ کی تعلیم فرمائی ہوئی اس دعا کے ایک ایک کلمہ میں غور کیا جائے ، اس کا ہر جملہ عبدیت کی روح سے لبریز ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم اور ان کی قدر اور نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
تشریح
رسول اللہ ﷺ کی تعلیم فرمائی ہوئی اس دعا کے ایک ایک کلمہ میں غور کیا جائے ، اس کا ہر جملہ عبدیت کی روح سے لبریز ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم اور ان کی قدر اور نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ لِىْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَلِىُّ: اللَّهُمَّ احرسني بِعَيْنِك الَّتِي لَا تنام واكنفني بركنك الَّذِي لَا يرام واغفر لي بقدرتك عَليّ فَلَا أهلك وَأَنت رجائي رب كم من نعْمَة أَنْعَمت بهَا عَليّ قل لَك عِنْدهَا شكري وَكم من بلية ابتليتني بهَا قل عِنْد لَك عِنْدهَا صبري فيا من قل نعْمَته شكري فَلم يحرمني وَيَا من قل عِنْد بليته صبري فَلم يخذلني وَيَا من رَآنِي على الْخَطَايَا فَلم يفضحني يَا ذَا الْمَعْرُوف الَّذِي لَا ينقضني أبدا وَيَا ذَا النعماء الَّتِي لَا تحصى أبدا أَسأَلك أَن تصلي على مُحَمَّد وعَلى آل مُحَمَّد بك أدرأ فِي نحور الْأَعْدَاء والجبارين. (رواه الديلمى فى مسند الفردوس)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৩২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ حاکم وقت کے ظلم سے حفاظت کی دعا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو حاکمِ وقت کے ظلم و عدوان کا خطرہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ سے یوں دعا کرے : “اللهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ تا وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ” (اے اللہ ! ہفت افلاک اور عرشِ عظیم کے مالک ! فلاں ابن فلاں (حاکم) کے شر سے اور سارے شریر انسانوں اور جنوں اور ان کے چیلوں کے شر سے میری حفاظت فرما ، اور مجھے اپنی پناہ میں لے ، کہ ان میں سے کوئی مجھ پر ظلم و زیادتی نہ کر سکے ۔ جو تیری پناہ میں ہے وہ باعزت ہے ، تیری ثناء و صفت باعظمت ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، صرف تو ہی معبودِ برحق ہے) ۔ (معجم کبیر طبرانی)
تشریح
بسا اوقات انسان خاص کر حق پرست انسان کو ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ وہ وقت کے اربابِ اقتدار کے غصہ اور ناراضی کا نشانہ بن جاتا ہے ، اور ان کے ظلم و عدوان کا خطرہ فطری طور پر اس کے لئے فکر و پریشانی کا باعث ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے مستقل طور سے دعا تعلیم فرمائی ۔
تشریح
بسا اوقات انسان خاص کر حق پرست انسان کو ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ وہ وقت کے اربابِ اقتدار کے غصہ اور ناراضی کا نشانہ بن جاتا ہے ، اور ان کے ظلم و عدوان کا خطرہ فطری طور پر اس کے لئے فکر و پریشانی کا باعث ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے مستقل طور سے دعا تعلیم فرمائی ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَخَوَّفَ أَحَدُكُمُ السُّلْطَانَ فَلْيَقُلِ: اللهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ وَشَرِّ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَأَتْبَاعِهِمْ، أَنْ يَفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৩৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قرض اور تنگ حالی سے نجات کی دعا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو ایک انصاری کو (جن کا نام ابو امامہ تھا) آپ ﷺ نے مسجد میں بیٹھے دیکھا ، آپ ﷺ نے انؓ سے فرمایا : کیا بات ہے کہ تم اس وقت جب کہ کسی نماز کا وقت نہیں ہے مسجد میں بیٹھے ہو ؟ انہوںؓ نے عرض کیا : حضرتﷺ مجھ پر بہت سے قرضوں کا بوجھ ہے اور فکروں نے مجھے گھیر رکھا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں ایسا دعائیہ کلمہ بتا دوں جس کے ذریعے دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں ساری فکروں سے نجات دے دے اور تمہارے قرضے بھی ادا کر دے ؟ (ابو امامہؓ نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا : حضرتﷺ ! ضرور بتا دیں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : تم صبح و شام اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کرو : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ تا وَقَهْرِ الرِّجَالِ” (اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے اور نکمے پن اور ٹھول پنے سے ، اور سستی و کاہلی سے ، اور بزدلی و کنجوسی سے ، اور پناہ مانگتا ہوں قرضے کے بار کے غالب آ جانے سے اور لوگوں کے دباؤ سے) ابو امامہؓ نے بیان کیا ککہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کیا (اور اس دعا کو اپنا صبح و شام کا معمول بنا لیا) تو خدا کے فضل سے میری ساری فکریں ختم ہو گئیں ، اور میرا قرض بھی ادا ہو گیا ۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
یہ صاحب واقعہ ابو امامہ مشہور صحابی ابو امامہ باہلیؓ کے علاوہ دوسرے صحابی ہیں ۔
تشریح
یہ صاحب واقعہ ابو امامہ مشہور صحابی ابو امامہ باہلیؓ کے علاوہ دوسرے صحابی ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ الْمَسْجِدَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو أُمَامَةَ فَقَالَ: يَا أَبَا أُمَامَةَ مَا لِي أَرَاكَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فِي غَيْرِ وَقْتِ الصَّلاَةِ. قَالَ هُمُومٌ لَزِمَتْنِي وَدُيُونٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: أَفَلاَ أُعَلِّمُكَ كَلاَمًا إِذَا أَنْتَ قُلْتَهُ أَذْهَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَمَّكَ وَقَضَى عَنْكَ دَيْنَكَ. قَالَ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: قُلْ إِذَا أَصْبَحْتَ وَإِذَا أَمْسَيْتَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ. قَالَ فَفَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَذْهَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَمِّي وَقَضَى عَنِّي دَيْنِي.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৩৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قرض اور تنگ حالی سے نجات کی دعا
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ : میں زرِ کتابت ادا کرنے سے عاجز ہو رہا ہوں آپ اوس میں میری مدد کر دیجئے ؟ آپ نے فرمایا : میں تم کو وہ دعائیہ کلمات نہ بتا دوں جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے تعلیم فرمائے تھے ، اگر تم پر کسی بڑے پہاڑ کے برابر بھی قرضہ ہو گا تو اس دعا کی برکت سے اور اللہ کے حکم سے وہ ادا ہو جائے گا (وہ مختصر دعا یہ ہے) : “اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ” (اے میرے اللہ ! مجھے حلال طریقے سے اتنی روزی دے جو میرے لئے کافی ہو اور حرام کی ضرورت نہ ہو ، اور اپنے فضل و کرم سے مجھے اپنے ماسوا سے بےنیاز کر دے) ۔ (جامع ترمذی ، دعوات کبیر للبیہقی)
تشریح
“مکاتب” اس غلام کو کہا جاتا ہے جس کے آقا نے اس کے بارے میں طے کر دیا ہو کہ تم اتنی رقم ادا کر دو تو آزاد ہو ، ایسا غلام جب وہ معینہ رقم ادا کر دے گا تو آزاد ہو جائے گا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت م یں اسی طرح کوئی بےچارہ مکاتب آیا تھا جو زرِ کتابت ادا کرنے سے عاجز ہو رہا تھا ، آپؓ اس وقت رقم سے تو اس کی کوئی مدد نہیں کر سکے لیکن اسی مقصد کے لئے ایک خاص دعا آپؓ نے اس کو تعلیم فرما دی جو رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو تعلیم فرمائی تھی ۔ معلوم ہوا کہ ضرورت مند سائل کی اگر روپیہ پیسہ سے کسی وقت مدد نہ کی جا سکے تو اس کو اس طرح کی دعا ہی کی طرف رہنمائی کر دی جائے ، یہ بھی اعانت اور خدمت کی ایک صورت ہے ۔
تشریح
“مکاتب” اس غلام کو کہا جاتا ہے جس کے آقا نے اس کے بارے میں طے کر دیا ہو کہ تم اتنی رقم ادا کر دو تو آزاد ہو ، ایسا غلام جب وہ معینہ رقم ادا کر دے گا تو آزاد ہو جائے گا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت م یں اسی طرح کوئی بےچارہ مکاتب آیا تھا جو زرِ کتابت ادا کرنے سے عاجز ہو رہا تھا ، آپؓ اس وقت رقم سے تو اس کی کوئی مدد نہیں کر سکے لیکن اسی مقصد کے لئے ایک خاص دعا آپؓ نے اس کو تعلیم فرما دی جو رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو تعلیم فرمائی تھی ۔ معلوم ہوا کہ ضرورت مند سائل کی اگر روپیہ پیسہ سے کسی وقت مدد نہ کی جا سکے تو اس کو اس طرح کی دعا ہی کی طرف رہنمائی کر دی جائے ، یہ بھی اعانت اور خدمت کی ایک صورت ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ جَاءَهُ مُكَاتَبٌ فَقَالَ إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ كِتَابَتِي فَأَعِنِّي. قَالَ أَلاَ أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ صِيرٍ دَيْنًا أَدَّاهُ اللَّهُ عَنْكَ قَالَ: قُلِ اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ. (رواه الترمذى والبيهقى فى الدعوات الكبير)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৩৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خوشی اور غم کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی ایسی بات دیکھتے جس سے آپ ﷺ کو مسرت اور خوشی ہوتی تو کہتے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ” (حمد و ستائش اس اللہ کے لئے جس کے فضل و احسان سے اچھائیاں تکمیل پاتی ہیں) اور جب کوئی ایسی بات دیکھتے جو آپ ﷺ کو ناپسند اور ناگوار ہوتی تو کہتے : “الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” (ہر حال میں اللہ کی حمد اور اس کا شکر) ۔ (ابن النجار)
تشریح
اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے چاہے اس میں ہمارے لئے مسرت اور خوشی کا سامان ہو یا رنج و غم کا وہ سب بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے حکم سے ہوتا ہے ، اور وہ حکیم مطلق ہے اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ، اس لئے وہ ہر حال میں حمد و ستائش کا مستحق ہے ۔
تشریح
اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے چاہے اس میں ہمارے لئے مسرت اور خوشی کا سامان ہو یا رنج و غم کا وہ سب بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے حکم سے ہوتا ہے ، اور وہ حکیم مطلق ہے اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ، اس لئے وہ ہر حال میں حمد و ستائش کا مستحق ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ: إِذَا رَأَى مَا يَسُرُّ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ» ، وَإِذَا رَأَى شَيْئًا مِمَّا يَكْرَهُ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ» (رواه ابن النجار)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৩৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ غصہ کے وقت کی دعا
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں دو آدمیوں کے درمیان کچھ سخت کلامی ہو گئی ، یہاں تک کہ ان میں سے ایک کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں جانتا ہوں ایک دعائیہ کلمہ ، اگر یہ آدمی اس وقت وہ کہہ لے تو اس کا غصہ ٹھنڈا پڑ جائے گا ، وہ کلمہ ہے ۔ “أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم” ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
بلاشبہ اگر آدمی شعور اور دعا کی کیفیت کے ساتھ غصہ کی حالت میں بھی یہ کلمہ کہے اور اللہ سے پناہ طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کر دے گا ، اور وہ غصہ کے نتائج بد سے محفوظ رہے گا ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۖإِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور اگر (کسی وقت شیطان کی طرف سے وسوسہ اندازی ہو (اور اس سے تمہارے اندر غصہ کی آگ بھڑک اٹھے) تو اللہ کی پناہ مانگو ، وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے (وہ تمہیں پناہ دے گا) ۔
لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ غصہ کی بحرانی کیفیت میں جب آدمی سنجیدگی اور توازن اور اچھائی برائی کا احساس کھو بیٹھتا ہے تو بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ باتیں اسے یاد آئیں ۔ ایسے وقت میں خیر خواہوں کو چاہئے کہ وہ حکمت سے اس کو اس طرف متوجہ کریں اور رسول اللہ ﷺ کی یہ زریں ہدایت یاد دلائیں ۔
تشریح
بلاشبہ اگر آدمی شعور اور دعا کی کیفیت کے ساتھ غصہ کی حالت میں بھی یہ کلمہ کہے اور اللہ سے پناہ طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کر دے گا ، اور وہ غصہ کے نتائج بد سے محفوظ رہے گا ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۖإِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور اگر (کسی وقت شیطان کی طرف سے وسوسہ اندازی ہو (اور اس سے تمہارے اندر غصہ کی آگ بھڑک اٹھے) تو اللہ کی پناہ مانگو ، وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے (وہ تمہیں پناہ دے گا) ۔
لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ غصہ کی بحرانی کیفیت میں جب آدمی سنجیدگی اور توازن اور اچھائی برائی کا احساس کھو بیٹھتا ہے تو بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ باتیں اسے یاد آئیں ۔ ایسے وقت میں خیر خواہوں کو چاہئے کہ وہ حکمت سے اس کو اس طرف متوجہ کریں اور رسول اللہ ﷺ کی یہ زریں ہدایت یاد دلائیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ اسْتَبَّ رَجُلاَنِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِ أَحَدِهِمَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي لأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ غَضَبُهُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৩৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عیادت کے وقت کی دعائیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ہم میں سے کوئی آدمی بیمار ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اپنا داہنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے : “أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ الخ” (اے سب آدمیوں کے پروردگار ! اس بندے کی تکلیف دور فرما دے اور شفا عطا فرما دے ، تو ہی شفا دینے والا ہے ، بس تیری ہی شفا شفا ہے ، ایسی کامل شفا عطا فرما جو بیماری کا اثر بالکل نہ چھوڑے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
بیماروں کی عیادت اور خدمت کو رسول اللہ ﷺ نے اونچے درجہ کی نیکی اور ایک طرح کی مقبول ترین عبادت قرار دیا ہے اور اس کی بڑی ترغیب دی ہے ، نیز اپنے عمل اور ارشادات سے اس کی تعلیم دی ہے کہ جب کسی مریض کی عیادت کی جائے تو اس کے لئے دعائے صحت بھی کی جائے ۔ ظاہر ہے کہ اس سے اس کو تسلی بھی ہو گی اسی سلسلہ معارف الحدیث کی تیسری جلد میں “کتاب الجنائز” کے ذیل میں اس سلسلہ کی متعدد حدیثیں درج کی جا چکی ہیں یہاں کتاب الدعوات میں بھی بعض حدیثوں کے اضافہ کے ساتھ ان کو درج کیا جا رہا ہے ۔
تشریح
بیماروں کی عیادت اور خدمت کو رسول اللہ ﷺ نے اونچے درجہ کی نیکی اور ایک طرح کی مقبول ترین عبادت قرار دیا ہے اور اس کی بڑی ترغیب دی ہے ، نیز اپنے عمل اور ارشادات سے اس کی تعلیم دی ہے کہ جب کسی مریض کی عیادت کی جائے تو اس کے لئے دعائے صحت بھی کی جائے ۔ ظاہر ہے کہ اس سے اس کو تسلی بھی ہو گی اسی سلسلہ معارف الحدیث کی تیسری جلد میں “کتاب الجنائز” کے ذیل میں اس سلسلہ کی متعدد حدیثیں درج کی جا چکی ہیں یہاں کتاب الدعوات میں بھی بعض حدیثوں کے اضافہ کے ساتھ ان کو درج کیا جا رہا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى مِنَّا إِنْسَانٌ مَسَحَهُ بِيَمِينِهِ ثُمَّ قَالَ: أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لاَ شِفَاءَ إِلاَّ شِفَاؤُكَ شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৩৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عیادت کے وقت کی دعائیں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ کچھ بیمار ہوئے تو) جبرئیل امینؑ نے یہ دعا پڑھ کے جھاڑا : “بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شيء يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ” (میں اللہ کے نام سے تمہیں جھاڑتا ہوں ، ہر اس چیز سے جو تمہیں ایذا پہنچائے ، اور ہر نفس اور ھاسد کے شر سے اللہ تم کو شفا دے ، میں اللہ کے نام سے تمہیں جھاڑتا پھونکتا ہوں) ۔ (صحیح مسلم)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ: إِنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ اشْتَكَيْتَ فَقَالَ: ((نَعَمْ)). قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شيء يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ. (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৩৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عیادت کے وقت کی دعائیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب خود بیمار ہوتے تو معوذاب پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے اور خود اپنا دستِ مبارک اپنے جسم پر پھیرتے پھر جب آپ ﷺ کو وہ بیماریی لاحق ہوئی جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی تو میں وہی معوذات پڑھ کر آپ پر دم کرتی جن کو پڑھ کر آپ ﷺ دم کیا کرتے تھے ، اور آپ ﷺ کا دستِ مبارک آپ ﷺ کے جسم پر پھیرتی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں “معوذات” سے مراد بظاہر سورہ “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ” اور “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ” ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دعائیں مراد ہوں جن میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی جاتی ہے اور جو آپ ﷺ بیماروں پر پڑھ کر اکثر دم کیا کرتے تھے ۔ اس طرح کی بعض دعائیں اوپر بھی بعض حدیثوں میں آ چکی ہیں ۔
تشریح
اس حدیث میں “معوذات” سے مراد بظاہر سورہ “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ” اور “قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ” ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دعائیں مراد ہوں جن میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی جاتی ہے اور جو آپ ﷺ بیماروں پر پڑھ کر اکثر دم کیا کرتے تھے ۔ اس طرح کی بعض دعائیں اوپر بھی بعض حدیثوں میں آ چکی ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ رَضِي الله عَنهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى نَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ، فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، كُنْتُ أَنْفِثُ عَلَيْهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ، وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینک آنے کے وقت کی دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اس کو چاہئے کہ کہے : “الحمدلله” (اللہ کی حمد اور اس کا شکر) اور جو بھائی اس کے پاس ہوں ، انہیں جواب میں کہنا چاہئے : “يَرْحَمُكَ اللهُ” (تم پر اللہ کی رحمت ہو) اور جب وہ یہ کہیں تو چھینکنے والے کو چاہئے کہ وہ جواب الجواب کے طور پر کہے : “يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ” (اللہ تم کو صحیح راہ پر چلائے اور تمہارا حال درست فرمائے) ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
آدمی کو چھیک آ جانے کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس موقع کے لئے بھی دعا تلقین فرمائی ، اور اس کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھانے کا ذریعہ بنا دیا ۔
چھینک اگر زکام وغیرہ کسی بیماری کی وجہ سے نہ ہو تو دماغ کی صفائی اور اس کے ہلکے ہونے کا ذریعہ ہے ۔ جو مادہ چھینک کے ذریعہ خارج ہوتا ہے اگر وہ خارج نہ ہو تو طرح طرح کی دماغی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں ، اس لئے بندے کو چاہئے کہ چھینک آنے پر اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرے ، اور کم از کم الحمدللہ کہے ۔ بعض روایات میں اس موقع کے لئے “الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” اور بعض دوسری روایات میں “الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ” بھی وارد ہوا ہے ۔ اس لئے ان میں سے ہر کلمہ کہا جا سکتا ہے ۔
سننے والوں کو اس کے جواب میں “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہنا چاہئے ۔ یہ چھینکنے والے کے حق میں دُعائے خیر ہو گی ، اس کا جواب چھینکنے والے کو بھی دعائے خیر سے دینا چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے “يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ” تعلیم فرمایا ۔ قربان اس تعلیم کے ، ایک چھینک کو خود چھینکنے والے کے لئے اور اس کے پاس والوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو تازہ کرنے کا اور بڑھانے کا کیسا ذریعہ بنایا ۔
اگر کسی کو نزلہ اور زکام کی وجہ سے مسلسل چھینکیں آتی ہوں تو اس صورت میں نہ چھینکنے والا ہر دفعہ “الْحَمْدُ لِلَّهِ” کہنے کا مکلف ہے ، نہ سننے والے کو ہر دفعہ “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہنے کا حکم ہے ۔
تشریح
آدمی کو چھیک آ جانے کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس موقع کے لئے بھی دعا تلقین فرمائی ، اور اس کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھانے کا ذریعہ بنا دیا ۔
چھینک اگر زکام وغیرہ کسی بیماری کی وجہ سے نہ ہو تو دماغ کی صفائی اور اس کے ہلکے ہونے کا ذریعہ ہے ۔ جو مادہ چھینک کے ذریعہ خارج ہوتا ہے اگر وہ خارج نہ ہو تو طرح طرح کی دماغی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں ، اس لئے بندے کو چاہئے کہ چھینک آنے پر اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرے ، اور کم از کم الحمدللہ کہے ۔ بعض روایات میں اس موقع کے لئے “الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” اور بعض دوسری روایات میں “الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ” بھی وارد ہوا ہے ۔ اس لئے ان میں سے ہر کلمہ کہا جا سکتا ہے ۔
سننے والوں کو اس کے جواب میں “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہنا چاہئے ۔ یہ چھینکنے والے کے حق میں دُعائے خیر ہو گی ، اس کا جواب چھینکنے والے کو بھی دعائے خیر سے دینا چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے “يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ” تعلیم فرمایا ۔ قربان اس تعلیم کے ، ایک چھینک کو خود چھینکنے والے کے لئے اور اس کے پاس والوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو تازہ کرنے کا اور بڑھانے کا کیسا ذریعہ بنایا ۔
اگر کسی کو نزلہ اور زکام کی وجہ سے مسلسل چھینکیں آتی ہوں تو اس صورت میں نہ چھینکنے والا ہر دفعہ “الْحَمْدُ لِلَّهِ” کہنے کا مکلف ہے ، نہ سننے والے کو ہر دفعہ “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” کہنے کا حکم ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ. وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ. فَإِذَا قَالَ لَهُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ. فَلْيَقُلْ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ. (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینک آنے کے وقت کی دعا
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے چھینک آئی تو آپ ﷺ نے “يَرْحَمُكَ اللَّهُ” فرمایا ۔ وہ پھر چھینکا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس آدمی کو زکام ہے (اس لئے ہر دفعہ يَرْحَمُكَ اللَّهُ کہنا ضروری نہیں) ۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اور جامع ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ یہ بات حضور ﷺ نے اس وقت فرمائی جب اس آدمی کو تیسری دفعہ چھینک آئی ۔
ایک دوسرے صحابی عبید ابن ابی رفاعہ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے ۔
شَمِّتِ العَاطِسُ ثَلَاثًا، فَمَا زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا
چھینکنے والے کو تین دفعہ تک تو یرحمک اللہ کہو اس کے آگے کہو چاہے نہ کہو ۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی)
تشریح
اور جامع ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ یہ بات حضور ﷺ نے اس وقت فرمائی جب اس آدمی کو تیسری دفعہ چھینک آئی ۔
ایک دوسرے صحابی عبید ابن ابی رفاعہ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے ۔
شَمِّتِ العَاطِسُ ثَلَاثًا، فَمَا زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا
چھینکنے والے کو تین دفعہ تک تو یرحمک اللہ کہو اس کے آگے کہو چاہے نہ کہو ۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ سَلَمَةُ بْنِ الأَكْوَعِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ: ((يَرْحَمُكَ اللَّهُ)). ثُمَّ عَطَسَ أُخْرَى فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الرَّجُلُ مَزْكُومٌ. (رواه مسلم وفى رواية للترمذى انه قال له فى الثالثة انه مزكوم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ چھینک آنے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمر کے خادم نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا ، اسے چھینک آئی تو اس نے کہا : “الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ” تو حضرت ابن عمر نے فرمایا : میں بھی کہتا ہوں “الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ” یعنی یہ کلمہ فی نفسہ بڑا مبارک ہے ، اس میں اللہ کی حمد ہے اور رسول اللہ ﷺ پر سلام ہے ، لیکن اس موقع پر یہ کہنا صحیح نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع کے لئے ہمیں تعلیم دی ہے کہ “الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ” کہیں ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد ایک بڑی اہم اور اصولی بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے خاص مواقع کے لئے جو اذکار تعلیم فرمائے ہیں ان میں صلوٰۃ و سلام کا اضافہ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ اگرچہ وہ فی نفسہ بہت مبارک ہے ۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کی پوری قدر شناسی و احسان مندی اور کامل اتباع نصیب فرمائے ۔
تشریح
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد ایک بڑی اہم اور اصولی بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے خاص مواقع کے لئے جو اذکار تعلیم فرمائے ہیں ان میں صلوٰۃ و سلام کا اضافہ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ اگرچہ وہ فی نفسہ بہت مبارک ہے ۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کی پوری قدر شناسی و احسان مندی اور کامل اتباع نصیب فرمائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلاً عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بادل گرجنے اور بجلی چمکنے کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک سنتے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے : “اللَّهُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلاَ تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ” (اے اللہ ! ہمیں اپنے غضب سے ختم نہ کر ، اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کر ، اور ہمیں اس سے پہلے عافیت دے) ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی)
تشریح
بلاشبہ بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک اور چمک اللہ تعالیٰ کے جلال کے مظہر ہیں ، اور جب خدا پرست بندہ ان سے دوچار ہو تو پوری عاجزی کے ساتھ اس کو اللہ تعالیٰ سے رحم و کرم اور عافیت کی دعا کرنی چاہئے ۔ یہی رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے ۔
تشریح
بلاشبہ بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک اور چمک اللہ تعالیٰ کے جلال کے مظہر ہیں ، اور جب خدا پرست بندہ ان سے دوچار ہو تو پوری عاجزی کے ساتھ اس کو اللہ تعالیٰ سے رحم و کرم اور عافیت کی دعا کرنی چاہئے ۔ یہی رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَمِعَ صَوْتَ الرَّعْدِ وَالصَّوَاعِقِ قَالَ: اللَّهُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلاَ تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ. (رواه احمد والترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آندھی اور تیز و تند ہوا کے وقت کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کبھی تیز ہوا چلتی تھی تو رسول اللہ ﷺ اپنے زانوؤں کے بل اللہ تعالیٰ کے حضور میں جھک جاتے اور دعا کرتے تھے کہ : “اے اللہ ! یہ ہوا ہمارے حق میں رحمت اور سامانِ حیات ہو ، عذاب اور سامانِ ہلاکت نہ ہو ۔ یہ وہ نہ ہو جس کو قرآن نے “ریح” کہا ہے ، وہ ہو جس کو “ریاح” کہا ہے” ۔ (مسند شافعی والبیہقی فی الدعوات الکبیر)
تشریح
تیز و تند ہوائیں اور آندھیاں کبھی عذاب بن کر آتی ہیں اور کبھی رحمت الٰہی (یعنی بارش کا مقدمہ بن کر ، اس لئے خداشناس اور خدا پرست بندوں کو چاہئے کہ جب اس طرح کی ہوائیں چلیں تو وہ جلالِ خداوندی کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے دعا کریں کہ یہ ہوائیں شر اور ہلاکت کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ رحمت کا وسیلہ بنیں ۔ یہی رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا ۔
قرآن مجید کی بعض آیات میں اس ہوا کو جو کسی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی “ریح” کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ، اور بعض دوسری آیات میں ان ہواؤں کے لئے جو رحمت بن کر آتی ہیں “ریاح” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ تیز ہوا کے وقت یہ دعا بھی فرماتے تھے کہ ۔ “اے اللہ ! یہ “ریح” یعنی عذاب والی ہوا نہ ہو بلکہ “ریاح” یعنی رحمت والی ہوا ہو” ۔
تشریح
تیز و تند ہوائیں اور آندھیاں کبھی عذاب بن کر آتی ہیں اور کبھی رحمت الٰہی (یعنی بارش کا مقدمہ بن کر ، اس لئے خداشناس اور خدا پرست بندوں کو چاہئے کہ جب اس طرح کی ہوائیں چلیں تو وہ جلالِ خداوندی کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے دعا کریں کہ یہ ہوائیں شر اور ہلاکت کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ رحمت کا وسیلہ بنیں ۔ یہی رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا ۔
قرآن مجید کی بعض آیات میں اس ہوا کو جو کسی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی “ریح” کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ، اور بعض دوسری آیات میں ان ہواؤں کے لئے جو رحمت بن کر آتی ہیں “ریاح” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ تیز ہوا کے وقت یہ دعا بھی فرماتے تھے کہ ۔ “اے اللہ ! یہ “ریح” یعنی عذاب والی ہوا نہ ہو بلکہ “ریاح” یعنی رحمت والی ہوا ہو” ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَا هَبَّتْ رِيحٌ قَطُّ إِلَّا جَثَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَقَالَ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا رَحْمَةً وَلَا تَجْعَلْهَا عَذَابًا، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا رِيَاحًا وَلَا تَجْعَلْهَا رِيحًا» (رواه الشافعى والبيهقى فى الدعوات الكبير)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ آندھی اور تیز و تند ہوا کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا جب تیز و تند ہوا چلتی اور آندھی کی کیفیت ہوتی تو اس طرح دعا کرتے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس ہوا کی خیر و برکت اور اس ہوا میں جو کچھ مضمر ہے اور جس کے ساتھ وہ بھیجی جا رہی ہے اس کی خیر و برکت اور میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے اس ہوا کے شر سے اور جو کچھ اس میں مضمر ہے اور جس کے ساتھ وہ بھیجی گئی ہے اس کے شر اور برے اثرات سے) اور جب آسمان پر ابر گھر کے آتا (جس میں خیر و شر اور رحمت و عذاب کے دونوں پہلو ہو سکتے ہیں) تو اللہ کے قہر و جلال کے خوف سے رسول اللہ ﷺ کا یہ حال ہو جاتا کہ آپ ﷺ کا رنگ بدل جاتا ، کبھی باہر جاتے کبھی اندر آتے ، کبھی آگے بڑھتے کبھی پیچھے ہٹتے ۔ پھر جب خیریت سے بارش ہو جاتی تو آپ ﷺ کی یہ کیفیت ختم ہوتی ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کیفیت کو محسوس کیا تو آپ ﷺ سے پوچھا کہ : “آپ ﷺ کا یہ حال کیوں ہو جاتا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “آسمان پر ابر دیکھ کے مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ اس قسم کا اَبر نہ ہو جسے اپنی وادیوں کی طرف بڑھتا دیکھ کر قومِ عاد نے کہا تھا کہ یہ بادل ہمارے علاقے پر برس کے ہماری کھیتیوں کو شاداب کرے گا (حالانکہ وہ عذاب کا بادل تھا جو ان کی مکمل تباہی و بربادی کا سامان لے کر آیا تھا)” ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَصَفَتِ الرِّيحُ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا فِيهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ. قَالَتْ وَإِذَا تَخَيَّلَتِ السَّمَاءُ تَغَيَّرَ لَوْنُهُ وَخَرَجَ وَدَخَلَ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ فَإِذَا مَطَرَتْ سُرِّيَ عَنْهُ فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ. قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: لَعَلَّهُ يَا عَائِشَةُ كَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ: فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا. (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بادل اور بارش کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ہم لوگ آسمان پر بادل چڑھتا دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ کا حال یہ ہو جاتا کہ جس کام میں آپ ﷺ مشغول ہوتے اس کو چھوڑ کے بادل کی طرف رخ کر لیتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِيهِ” (اے اللہ ! اس بادل میں جو شر ہو اس سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں) پھر اگر وہ بادل گھٹ کر آسمان صاف ہو جاتا تو آپ ﷺ اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے ، اور اگر وہ بادل برستے لگتا تو دعا فرماتے کہ : “اللَّهُمَّ سَقْيًا نَافِعًا” (اے اللہ ! اس بارش سے پوری سیرابی کر دے ، اور اس کو نفع مند بنا) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مسند شافعی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَبْصَرْنَا شَيْئًا فِي السَّمَاءِ، تَعْنِي السَّحَابَ، تَرَكَ عَمَلُهُ، وَاسْتَقْبَلَهُ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِيهِ» فَإِنْ كَشَفَهُ اللَّهُ حَمِدَ اللَّهَ، وَإِنْ مَطَرَتْ قَالَ: «اللَّهُمَّ سَقْيًا نَافِعًا» (رواه ابوداؤد والنسائى وابن ماجه والشافعى واللفظ له)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بادل اور بارش کے وقت کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش ہوتی دیکھتے تو اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے : “اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا” (اے اللہ ! بھرپور اور نفع مند بارش ہو) ۔ (صحیح بخاری)
تشریح
بارش کا حال بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعہ تباہیاں اور بربادیاں بھی آتی ہیں اور مخلوق کے لئے وہ سامانِ حیات بن کر بھی برستی ہے ، اس لئے جب بارش ہو تو خدا پر ایمان رکھنے والے بندوں کو دعا کرنی چاہئے کہ بارش نفع مند ارو رحمت بن کر بَرسے ۔ رسول اللہ ﷺ جب بارش کی ضرورت محسوس کر کے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے جب بھی آپ ﷺ کی دعا یہی ہوتی ۔
تشریح
بارش کا حال بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعہ تباہیاں اور بربادیاں بھی آتی ہیں اور مخلوق کے لئے وہ سامانِ حیات بن کر بھی برستی ہے ، اس لئے جب بارش ہو تو خدا پر ایمان رکھنے والے بندوں کو دعا کرنی چاہئے کہ بارش نفع مند ارو رحمت بن کر بَرسے ۔ رسول اللہ ﷺ جب بارش کی ضرورت محسوس کر کے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے جب بھی آپ ﷺ کی دعا یہی ہوتی ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْمَطَرَ قَالَ: اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا. (رواه البخارى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بارش کے لئے دعا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک دفعہ ہاتھ اٹھائے بارش کے لئے اس طرح دعا کرتے ہوئے دیکھا ، آپ ﷺ بارگاہِ خداوندی میں عرض کر رہے تھے : “اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا، مَرِيئًا مَرِيعًا، نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ، عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ” (اے اللہ ! ہم پر ایسی بھرپور بارش نازل فرما جو زمین کے لئے موافق اور سازگار ہو ، کھیتوں میں سرسبزی اور شادابی لائے ۔ اس سے نفع ہی نفع ہو نقصان بالکل نہ ہو ۔ اے اللہ ! جلدی نازل فرما دیر نہ ہو) حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے دعا کرتے کرتے آسمان پر گھٹا چھا گئی اور بھرپور بارش ہوئی ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ جَابِرِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَوَاكِي، فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا، مَرِيئًا مَرِيعًا، نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ، عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ»، قَالَ: فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ. (رواه ابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১২৪৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بارش کے لئے دعا
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش کے لئے دعا فرماتے تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح عرض کرتے : “اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ، وَبَهِيْمَتَكَ، وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ” (اے اللہ ! اپنے بندوں اور اپنے پیدا کئے ہوئے بےزبان چوپایوں اور جانوروں کو سیراب فرما ، اپنی رحمت بھیج اور تیری جو بستیاں بارش نہ ہونے کی وجہ سے مُردہ ہو گئی ہیں بارش نازل فرما کر ان میں جان ڈال دے) ۔ (موطا امام مالک ، سنن ابی داؤد)
تشریح
غور کیا جائے اس دعا میں کیسی اپیل ہے ، اور رحمت الٰہی کو متوجہ کرنے کی کتنی طاقت ہے ۔
تشریح
غور کیا جائے اس دعا میں کیسی اپیل ہے ، اور رحمت الٰہی کو متوجہ کرنے کی کتنی طاقت ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَسْقَى، قَالَ: «اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ، وَبَهِيْمَتَكَ، وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ» (رواه مالك وابوداؤد)
তাহকীক: