মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৩২১ টি

হাদীস নং: ১২৫০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مہینہ کا نیا چاند دیکھنے کے وقت کی دعا
حضرت طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی مہینہ کا چاند دیکھتے تو اس طرح دعا کرتے : “اللهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلامَةِ وَالْإِسْلامِ، رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ” (اے اللہ یہ چاند ہمارے لئے امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کا چاند ہو ۔ اے چاند تیرا رب اور میرا رب اللہ ہے) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
ہر مہینہ زندگی کا ایک مرحلہ ہے ۔ جب ایک مہینہ ختم ہو کے دوسرے مہینے کا چاند آسمان پر نمودار ہوتا ہے تو گویا اعلان ہو جاتا ہے کہ ہر آدمی کی زندگی کا ایک مرحلہ پورا ہو کے آگے کا مرحلہ شروع ہو رہا ہے ، ایسے موقع کے لئے مناسب ترین دعا یہی ہو سکتی ہے کہ : “اے اللہ ! یہ شروع ہونے والا مرحلہ یعنی مہینہ بھی امن و امان اور ایمان و اسلام کے ساتھ گزرے اور تیری فرمانبرداری نصیب رہے” ۔ چونکہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو چاند کو ایک رب اور دیوتا مانتے ہیں ، اس لئے رسول اللہ ﷺ مندرجہ بالا دعا کے ساتھ یہ بھی اعلان فرماتے تھے کہ چاند اللہ کی صرف ایک مخلوق ہے ، اور جس طرح ہمارا رب اللہ ہے اسی طرح اس کا رب بھی اللہ ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلالَ، قَالَ: " اللهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلامَةِ وَالْإِسْلامِ، رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ " (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৫১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مہینہ کا نیا چاند دیکھنے کے وقت کی دعا
قتادہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مہینہ کا نیا چاند دیکھتے تو تین دفعہ کہتے : “هِلَالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ” (خیر و برکت اور رشد و ہدایت کا چاند ہے) پھر تین ہی دفعہ کہتے : “آمَنْتُ بِالَّذِي خَلَقَكَ” (میرا ایمان ہے اس اللہ پر جس نے تجھے پیدا کیا) اس کے بعد فرماتے حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس کے حکم سے فلاں مہینہ ختم ہوا اور فلاں مہینہ شروع ہوا ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
رویت ہلال کے وقت کی یہ دوسری دعا ہے ۔ سمجھنا چاہئے کہ آپ ﷺ نیا چاند دیکھ کے کبھی مندرجہ بالا حدیث والی دعا کرتے تھے اور کبھی یہ دوسری دعا ۔
تین دفعہ “هِلَالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ” کہنے کا منشاء غالبا یہ تھا کہ بہت سے طبقے بعض مہینوں کو منحوس اور نامبارک سمجھتے ہیں ، اس کلمہ سے اس توہم پرستی کلی تردید کر کے یہ بتانا مقصود ہوتا تھا کہ ہر مہینہ خیر و برکت اور رشد و ہدایت کا مہینہ ہے ۔
“آمَنْتُ بِالَّذِي خَلَقَكَ” تین دفعہ کہہ کے آپ ﷺ ان گمراہوں کے مشرکانہ عقیدہ پر ضرب لگاتے تھے جو چاند کو رب اور دیوتا مانتے ہیں ۔
قتادہ ، جو اس حدیث کے راوی ہیں یہ غالبا قتادہ بن وعامہ سدوسی تابعی ہیں ، انہوں نے یہ حدیث کسی صحابی سے سنی ہو گی ، بعض تابعین اور اسی طرح بعض تبع تابعین بھی کبھی درمیانی راوی کا ذکر کئے بغیر اس طرح روایت کرتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے ۔ محدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو بلاغات کہا جاتا ہے ۔ امام مالکؒ کی موطا میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ قَتَادَةُ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلَالَ قَالَ: «هِلَالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ، هِلَالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ، هِلَالُ خَيْرٍ وَرُشْدٍ، آمَنْتُ بِالَّذِي خَلَقَكَ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يَقُولُ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي ذَهَبَ بِشَهْرِ كَذَا، وَجَاءَ بِشَهْرِ كَذَا. (رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৫২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ لیلۃ القدر کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : حضرتﷺ ! اگر میں شبِ قدر کو پا لوں تو کیا دعا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے حضور میں یوں عرض کرو : “اللهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي” (اے اللہ ! تو قصور والوں کو بہت معاف فرمانے والا ہے ، اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے ، پس تو مجھے معاف فرما دے) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
قبولیت دعا کے لحاظ سے شبِ قدر کو جو امتیاز حاصل ہے اس کے بارے میں حدیثیں “معارف الحدیث جلد چہارم” کتاب الصوم میں درج ہو چکی ہیں ۔ اس رات کے لئے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم فرمائی ہوئی ایک مختصر ترین دعا یہاں بھی درج کی جا رہی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ وَافَقْتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ مَا أَدْعُو بِهِ؟ قَالَ: " قَوْلِي: اللهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي " (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৫৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عرفات کی دعا
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عرفہ کے دن کی بہترین دعا اور بہترین کلمہ جو میری زبان سے اور مجھ سے پہلے نبیوں کی زبان سے ادا ہوا یہ کلمہ ہے : “لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ” (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی ایک معبود ہے ، کوئی اس کا ساجھی اور شریک نہیں ، اسی کی فرمانروائی ہے ، صرف اسی کے لئے حمد و ستائش سزاوار ہے اور ہر چیز اس کے زیرِ قدرت ہے) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
۹؍ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں جب اللہ کے خصوصی مہمان ، حجاج بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوتے ہیں تو جیسا کہ کتاب الحج میں درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو چکا ہے اس دن وہاں رحمتِ خداوندی کی موسلا دھار بارش ہوتی ہے ، وہ قبولیت دعا کا خاص الخاص موقع ہے ۔ اس موقع کی جو دعائیں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں وہ ذیل میں پڑھئے :

تشریح ..... اس کلمہ میں اگرچہ بظاہر دعا اور سوال نہیں ہے لیکن یہ کہنا کہ “بس وہی رب اور معبود ہے اور ہر چیز پر اس کو قدرت ہے اور اس کی ا ور صرف اس کی فرمانروائی ہے” ۔ یہ بھی دعا ہی کی ایک صورت ہے اور بڑی بلیغ صورت ہے اور بلاشبہ بعض حیثیتوں سے اور بعض پہلوؤں سے یہی افضل ترین کلمہ ہے ۔ کلماتِ ذکر کے سلسلہ میں جہاں اس کلمہ سے متعلق درج کی گئی ہے وہاں اس کی کچھ وضاحت بھی کی جا چکی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اَفْضَلُ الدُّعَاءِ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَاَفْضَلُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ قَبْلِي: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ " (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৫৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عرفات کی دعا
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرجہ کے دن وقوف کے وقت رسول اللہ ﷺ نے سب سے زیادہ یہ دعا کی : “اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ تا مِنْ شَرِّ مَا يَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ” (اے اللہ ! تیرے ہی لئے ساری حمد و ستائش سزاوار ہے ، اس طرح جس طرح تو فرماتا ہے ، اس سے بہتر جو ہم تیری حمد و ثناء میں کہتے ہیں ! اے اللہ ! میری نماز اور میرا حج اور میری ساری عبادات اور میرا جینا مرنا سب تیرے ہی لئے ہے ، اور مجھے زندگی ختم کر کے تیرے ہی حضور میں واپس جانا ہے ، اور جو کچھ میں چھوڑ کے جاؤں تو ہی اس کا وارث ہے ۔ اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، عذابِ قبر سے اور دل کے وسوسوں سے اور پراگندہ حالی سے اور پناہ مانگتا ہوں ہواؤں کے شر سے اور ان کے برے اثرات اور عواقب سے) ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: أَكْثَرُ مَا دَعَا بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي المَوْقِفِ: «اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ كَالَّذِي نَقُولُ وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ، اللَّهُمَّ لَكَ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي، وَإِلَيْكَ مَآبِي، وَلَكَ رَبِّ تُرَاثِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الأَمْرِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا يَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ» (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৫৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ عرفات کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں عرفہ کی شام کو میدانِ عرفات میں رسول اللہ ﷺ کی خاص دعا یہ تھی : “اے اللہ ! تو میری بات سنتا ہے ، اور میں جہاں اور جس حال میں ہوں تو اس کو دیکھتا ہے ، اور میرے ظاہر و باطن سے تو باخبر ہے ، تجھ سے میری کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ۔ میں دُکھی ہوں ، محتاج ہوں ، فریادی ہوں ، پناہ جو ہوں ، ترساں ہوں ، ہراساں ہوں ، اپنے گناہوں کا اقراری ہوں ۔ تجھ سے سوال کرتا ہوں جیسے کوئی عاجز مسکین بندہ سوال کرتا ہے ۔ تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گنہگار ذلل و خوار گڑگڑاتا ہے ، اور تجھ سے دعا کرتا ہوں جیسے کوئی خوف زدہ آفت زدہ آفت رسیدہ دعا کرتا ہے ۔ اور اس بندے کی طرح مانگتا ہوں جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہوئی ہو اور آنسو بہہ رہے ہوں اور تن بدن سے وہ تیرے آگے فروتنی کئے ہوئے ہو اور اپنی ناک تیرے سامنےرگڑ رہا ہو ۔ اے اللہ ! تو مجھے اس دعا مانگنے میں ناکام اور نامراد نہ رکھ اور میرے حق میں بڑا مہربان نہایت رحیم ہو جا ۔ اے ان سب سے بہتر و برتر جن سے مانگنے والے مانگتے ہیں اور جو مانگنے والوں کو دیتے ہیں” ۔ (معجم کبیر للطبرانی)

تشریح
اس دعا کا ایک ایک لفظ عبدیت کی روح سے لبریز اور کمالِ معرفت کا ترجمان ہے ۔ دنیا بھر کے دینی و مذہبی ادب میں اور کسی بھی زبان کی دعاؤں اور مناجاتوں میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی ۔ اس عاجز کو زندگی میں کئی دفعہ اس کا موقع ملا کہ بعض خدا پرست غیر مسلموں کو میں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا سنائی اور اس کا ترجمہ کر کے بتایا تو وہ اپنا یہ تاثر ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ دعا اسی دل سے نکل سکتی ہے جسے اللہ نے اپنے علم کا خاص حصہ دیا ہو اور اس کو معرفتِ نفس اور معرفتِ رب کا اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اس قیمتی ورثہ کی قدر شناسی اور اس سے استفادہ کی توفیق دے ۔
خاص اوقات و مقامات اور خاص مواقع کی دعاؤں کا سلسلہ یہاں ختم ہوا ۔
وَالْحَمْدُلِلهِ عَلَى ذَالِكَ.
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ «اللهُمَّ إِنَّكَ تَسْمَعُ كَلَامِي، وَتَرَى مَكَانِي، وَتَعْلَمُ سِرِّي وعلانيتِي، لَا يَخْفَى عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ أَمْرِي، أَنَا الْبَائِسُ الْفَقِيرُ الْمُسْتَغِيثُ الْمُسْتَجِيرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنَبِهِ، أَسْأَلُكَ مَسْأَلَةَ الْمستكينِ وأَبْتَهِلُ إِلَيْكَ ابتهالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِيلِ، وَأَدْعُوكَ دُعَاءَ الْخَائِفِ الضَّرِيرِ مَنْ خَضَعَتْ لَكَ رَقَبَتُهُ وَفَاضَتْ لَكَ عَيْنَاهُ وذلَّ جَسَدُهُ وَرَغِمَ أَنْفُهُ لَكَ، اللهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي بدُعائِكَ شَقِيًّا، وَكُنْ بِي دَوْمًا رَحِيمًا، يَا خَيْرَ الْمَسْئُولينَ وَيَا خَيْرَ الْمُعْطِينَ» (رواه الطبرانى فى الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৫৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے : “اللهُمَّ أَصْلِحْ لِي تا رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ ” (اے اللہ ! میری دینی حالت درست فرما دے جس پر میری خیریت اور سلامتی کا دار و مدار ہے اور میری دنیا بھی درست فرما دے جس میں مجھے یہ زندگی گزارنا ہے ، اور میری آخرت بھی درست فرما دے جہاں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور ہمیشہ رہنا ہے ، اور میری زندگی کو خیر اور بھلائی میں اضافہ اور زیادتی کا ذریعہ بنا دے ، اور میری موت کو ہر شر سے راحت اور حفاظت کا وسیلہ بنا دے) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
عرض کیا گیا تھا کہ کتبِ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے جو دعائیں ماثور اور منقول ہیں اگر ان کو مضامین اور موقع محل کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے تو وہ تین قسم کی ہیں : ایک وہ جن کا تعلق نماز سے ہے ، دوسری وہ جن کا تعلق خاص اوقات یا مواقع اور حالات سے ہے تیسری وہ جن کا تعلق نہ نماز سے ہے نہ خاص اوقات یا مواقع سے بلکہ وہ عمومی قسم کی ہیں ۔ پہلی دو قسم کی دعائیں درج کی جا چکیں ، تیسری قسم کی اب پیش کی جا رہی ہے ۔ ان میں زیادہ تر مضامین کے لحاظ سے ہمہ گیر اور جامع قسم کی ہیں ، اسی لئے ائمہ حدیث نے اپنی مؤلفات میں ان دعاؤں کو “جامع الدعوات” کے زیرِ عنوان درج کیا ہے ۔ یہ دعائیں امت کے لئے رسول اللہ ﷺ کا خاص الخاص عطیہ اور بیش بہا تحفہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو قدر شناسی اور تشکر کی اور ان دعاؤں کو اپنے دل کی آواز اور دھڑکن بنا لینے کی توفیق دے ۔ جس بندے کو یہ دولت مل گئی اسے سب کچھ مل گیا ۔
اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی احادیث ذیل میں پڑھئے :

تشریح ..... جیسا کہ ظاہر ہے یہ بہت سی جامع دعا ہے ، اس کا پہلا جز یہ ہے :
اللهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي
اے اللہ ! میری دینی حالت درست فرما دے جس پر میری خیریت اور میری ہر چیز کی سلامتی اور تحفظ کا دار و مدار ہے دراصل دین ہی وہ چیز ہے اگر وہ درست اور سلامت ہو تو آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لعنت اور اس کے غضب و عذاب سے مامون و محفوظ ہو کر اس کے لطف و کرم کا مستحق ہو جاتا ہے اور اسلامی قانون کی رو سے اس کے جان و مال اور عزت و آبرو کو ایک خاص درجہ کی حرمت و عصمت حاصل ہو جاتی ہے اس لئے اسی پر آدمی کی سلامتی ٰخیریت اور صلاح و فلاح کا دار و مدار ہے ۔ اسی چیز کو اس دعاء نبوی ﷺ میں “عِصْمَةُ أَمْرِي” کہا گیا ہے ۔ دین کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ بندے کا ایمان و یقین صحیح ہو ، اس کے افکار و جذبات اور اعمال و اخلاق درست ہوں ، وہ زندگی کے ہر شعبہ میں نفس کی خواہش کے بجائے اللہ کے احکام پر چلنے والا ہو ، اور ظاہر ہے کہ اس کا دار و مدار اللہ کی توفیق پر ہے ، اس لئے ہر بندہ مومن کے دل کی اولین مانگ اور پکار یہی ہونا چاہئے ۔ اس دعا کا دوسرا جز ہے :
وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي
اور میری دنیا درست فرما دے جس میں مجھے یہ زندگی گزارنا ہے ۔
دنیا کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کی رزق وغیرہ کی ضرورتیں حلال اور جائز راستوں سے پوری ہوتی رہیں ۔ بلاشبہ ہر مومن بندے کی دوسری مانگ اللہ تعالیٰ سے یہی ہونا چاہئے ۔ تیسرا جز دعا کا یہ ہے :
وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي
اور میری آخرت اچھی بنا دے ، جہاں مجھے لوٹ کے جانا اور ہمیشہ رہنا ہے ۔
اگرچہ دین کی درستی کا لازمی نتیجہ آخرت کی صلاح و فلاح ہے ، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے مستقل طور سے آخرت کی درستی کی یہ دعا کی ۔ ایک تو غالباً اس لئے کہ آخرت کی غیر معمولی اہمیت کا یہ حق ہے ، دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دینی لحاظ سے اچھی حالت ہونے کے باوجود بندے کو آخرت کے بارے میں مطمئن اور بےفکر نہیں ہونا چاہئے ۔ قرآن مجید میں اچھے بندوں کی شان یہی بتائی گئی ہے : “وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ” (المومنون : ۶۰) (1)
چوتھا اور پانچواں جز دعا کا یہ ہے :
وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ
اور زندگی کو میرے نیکی اور بھلائی میں اضافہ اور زیادتی کا ذریعہ بنا دے ، اور موت کو ہر شر اور برائی سے راحت اور حفاظت کا وسیلہ بنا دے ۔
ہر آدمی کو اس دنیا میں اپنی زندگی کا وقت پورا کر کے مرنا یقینی ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی عمر سے آدمی نیکی بھی کما سکتا ہے اور بدی بھی ، وہ اس کے لئے سعادت میں ترقی کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے اور شقاوت میں اضافہ کا ذریعہ بھی ، اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ دین و دنیا اور آخرت کی صلاح و فلاح کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے تھے کہ اے اللہ ! میری حیات کو خیر اور سعادت میں اضافہ اور ترقی کا وسیلہ بنا دے یعنی مجھے توفیق دے کہ میں عمر کے لمحات اور زندگی کے اوقات کو تیری رضا والے کاموں میں صرف کر کے سعادت کے راستہ میں آگے بڑھتا چلوں ، اور میری موت کو شرور و فتن کی اذیتوں سے راحت کا ذریعہ بنا دے ، یعنی مستقبل کے جو شر اور فتنے میرے لئے اذیت کا باعث ہو سکتے ہیں تیرے حکم سے آنے والی میری موت ان سے میری حفاظت کا ذریعہ بن کر ان سے مجھے راحت دے دے ۔
یہ دعا بھی “جوامع الکلم” اور دریا بکوزہ کی بہترین مثال ہے ، الفاظ کتنے مختصر اور مضامین کتنے وسیع !
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «اللهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي، وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي، وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي، وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৫৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر و بیشتر یہ دعا کیا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ” (اے میرے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما ، اور ہمیں آتشِ دوزخ کے عذاب سے بچا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
سبحان اللہ ! کتنی مختصر اور کتنی جامع دعا ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے اس دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت کی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی میں بھی بھلائی مانگی گئی ہے ۔ ظاہر ہے اس میں دنیا اور آخرت کی ساری ہی اچھی مرغوبات اور مطلوبات آ گئیں ۔ اور آخر میں عذاب دوزخ سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی استدعا کی گئی ہے ۔ الغرض دنیا اور آخرت میں ایک بندے کو جو کچھ چاہئے وہ سب ہی اس مختصر ترین دعا میں مانگ لیا گیا ہے ۔ پھر اس کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ یہ دراصل قرآن مجید کی دعا ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ قرآن پاک مین اس کا پہلا لفظ “رَبَّنَا” ہے اور حدیث میں اس کی جگہ پہلا لفظ “اَللَّهُمَّ” ہے ۔ حاصل ایک ہی ہے ۔
حضرت انسؓ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا بہ کثرت کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو بھی رسول اللہ ﷺ کے اس اکثری معمول کی پیروی کی توفیق دے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» (رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৫৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے : “اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تا وَالْغِنَى” (اے میرے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ہدایت اور تقویٰ اور پاک دامنی اور مخلوق کی نامحتاجی) ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے چار باتوں کا سوال ہے : ایک ہدایت یعنی راہِ حق پر چلنا ، اور استقامت کے ساتھ چلتے رہنا ۔ دوسرے تقویٰ اور پرہیزگاری یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے معاصی و منکرات سے بچنا ۔ تیسرے عفت و پاک دامنی ۔ چوتھے غنی ، یعنی دل کی یہ حالت کہ بندہ اپنے اندر کسی مخلوق کی محتاجی اور درست نگری محسوس نہ کرے ، اپنے مالک کی عطا پر مطمئن ہو ۔ یہ دعا بھی “جوامع الکلم” کی اعلیٰ مثال ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى، وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى» (رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৫৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصِّحَّةَ تا وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ” (اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں صحت و تندرستی اور عفت و پاکدامنی اور امانت کی صفت اور اچھے اخلاق اور راضی بہ تقدیر رہنا) (دعوات کبیر للبیہقی)

تشریح
اس دعا میں رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے صحت مانگی ہے ۔ صحت و تندرستی دین و دنیا دونوں کے لحاظ سے بلاشبہ بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب کسی وقت بندہ اس سے محوررم کر دیا جاتا ہے اور کسی بیماری اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے ، اس وقت اسے معلوم ہوتا ہے کہ صحت کا ایک ایک لمحہ کتنی بڑی دولت اور اللہ تعالیٰ کی کتنی عظیم نعمت ہے ۔ عارفین کو اس کا احساس اس لئے اور بھی زیادہ ہوتا ہے کہ صحت کی خرابی کی حالت میں اکثر و بیشتر عبادت کا نظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے اور توجہ الی اللہ کا ذوق و کیف بھی متاثر ہوتا ہے ، اور یہ چیز ان کے لئے شدید روحانی کرب اور بےچینی کا باعث بنتی ہے ۔
امانت ، قرآنی اور دینی زبان کا نہایت اہم اور وسیع المعنی لفظ ہے اس سے مراد انسان کے اندرون کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اور بندوں کے تعلق سے جو ذمہ داریاں ہیں وہ ان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی فکر اور کوشش کرے ۔ حسن اخلاق اور راضی بہ تقدیر رہنا کسی تشریح کے محتاج نہیں ۔ اس دعا میں رسول اللہ ﷺ نے صحت کے علاوہ عفت ، امانت ، حسن اخلاق اور رضا بالقدر کا سوال کیا ہے یہ سب ایمانی صفات اور ایمان کے اہم شعبے ہیں اور ان سے محرومی بلاشبہ بڑی محرومی ہے ، اور ساری دینی اور دنیوی نعمتوں کی طرح یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا ہی سے کسی کو مل سکتے ہیں ۔؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیستگر نہ بخشد خدائے بخشندہ
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصِّحَّةَ، وَالْعِفَّةَ، وَالْأَمَانَةَ، وَحُسْنَ الْخُلُقِ، وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ» (رواه البيهقى فى الدعوات الكبير)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک دعا تعلیم فرمائی ، اور مجھ سے ارشاد فرمایا : “اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي تا غَيْرِ الضَّالِّ وَلَا المُضِلِّ” (اے اللہ ! میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو بھی اصلاح سے آراستہ فرما دے ۔ اے اللہ! تو اپنے بندوں کو (اپنے فضل و کرم سے) جو ایسے صالح گھر والے ، صالح مال اور صالح اولاد عطا فرماتا ہے جو نہ خود گمراہ ہوں اور نہ دوسروں کے لئے گمراہ ک ہوں ۔ میں بھی تجھ سے ان چیزوں کا سائل ہوں (مجھے بھی اپنے فضل و کرم سے یہ چیزیں عطا فرما) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس دعا کا پہلا جز یہ ہے کہ اے اللہ ! مجھے ایسا بنا دے کہ میرا ظاہر بھی صالح ہو اور میرا باطن بھی صالح ہو ، اور باطن کی حالت ظاہر سے بھی بہتر ہو ۔ اور دوسرا جز یہ ہے کہ میرے اہل خانہ اور میری اولاد اور میرا مال و منال یہ سب بھی صالح ہوں ، نہ خود ان میں ضلال و فساد ہو ، نہ دوسروں کے لئے یہ باعث ضلال و فساد بنیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عُمَرَ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قُلْ: اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي، وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِي النَّاسَ مِنَ المَالِ وَالأَهْلِ وَالوَلَدِ، غَيْرِ الضَّالِّ والْمُضِلِّ " (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دعا رسول اللہ ﷺ سے سن کر یاد کی تھی (وہ دعا میں برابر کیا کرتا ہوں) اس کو میں کبھی نہیں چھوڑتا (وہ یہ ہے) “اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي أُعَظِّمُ شُكْرَكَ تا وَأَحْفَظُ وَصِيَّتَكَ” (اے اللہ ! مجھے ایسا کر دے کہ میں تیری نعمتوں کے شکر کی عظمت و اہمیت کو سمجھوں (تا کہ پھر شکر میں کوتاہی نہ کروں) اور تیرا ذکر کثرت سے کروں اور تیری نصیحتوں کی پیروی کروں اور تیری وصیتوں اور حکموں کو یاد رکھوں (اور ان کی تعمیل سے غفلت نہ بررتوں) ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: دُعَاءٌ حَفِظْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا أَدَعُهُ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي أُعَظِّمُ شُكْرَكَ وَأُكْثِرُ ذِكْرَكَ، وَأَتَّبِعُ نَصِيحَتَكَ، وَأَحْفَظُ وَصِيَّتَكَ» (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے : “رَبِّ أَعِنِّي وَلَا تُعِنْ عَلَيَّ تا وَاسْلُلْ سَخِيمَةَ صَدْرِي” (اے میرے رب ! میری مدد فرما ، میرے خلاف (میرے دشمنوں کی کارروائیوں میں ان کی) مدد نہ فرما ، میری حمایت فرما (میرے مخالفین کی) میرے خلاف حمایت نہ فرما ، اپنی لطیف خفیہ تدبیر میرے حق میں استعمال فرما ، میرے خلاف استعمال نہ فرما ۔ مجھے ٹھیک راستے پر چلا اور صراطِ مستقیم پر چلتے رہنا میرے لئے آسان فرما ، جو کوئی مجھ پر ظلم و زیادتی کرے اس کے مقابلے میں میری مدد فرما ۔ اے پروردگار ! مجھے بنا دے اپنا خوب شکر کرنے والا ، خوب ذکر کرنے والا ، اپنے سے بہت ڈرنے والا ، سراپا اطاعت گزار و فرنبردار ، اپنے حضور میں عاجزری اور نیاز مندی سے جھکنے والا ، نرم دل اور تیری بارگاہِ کرم کی طرف رجوع ہونے اور پلٹنے والا ۔ اے میرے رب ! میری توبہ قبول فرما لے ، میرے گناہوں کے میل کچیل کو دھو دے ، میری دعا قبول فرما ، میرا ایمان (جو آخرت مین میری حجت بننے والا ہے اس کو) مستحکم کر دے ، میری زبان کو ٹھیک چلنے والا بنا دے ، میرے دل کو ہدایت بخش دے اور میرے سینہ کے کینہ کپٹ اور ہر قسم کی کھوٹ نکال دے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس دعا کی جامعیت ظاہر ہے ۔ مندرجہ بالا سب ہی دعاؤں کا خاص قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہر دعا میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح پیش کیا ہے کہ میں زندگی کے ہر معاملہ میں تیرا محتاج ہوں ، خود عاجز اور بےبس ہوں ، یہاں تک کہ اپنے ظاہر و باطن اور زبان و قلب پر بھی میرا اختیار اور قابو نہیں ۔ اپنے اخلاق و جذبات اور اعمال و احوال کی اصلاح میں بھی تیری نظرِ کرم کا محتاج ہوں ۔ میری صحت اور بیماری بھی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ، دشمنوں اور بدخواہوں کے شر سے تو ہی میری حفاظت فرما سکتا ہے ، میں اس معاملہ میں بھی عاجز و بےبس ہوں ، تو کریم رب اور داتا ہے اور میں سائل و منگتا ہوں ۔
یہ رسول اللہ ﷺ کا کمالِ عبدیت ہے ، اور بلاشبہ یہ کمال آپ ﷺ پر ختم ہے ، اور یہ دوسرے تمام کمالات سے بالاتر ہے ۔ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَاَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو يَقُولُ: «رَبِّ أَعِنِّي وَلَا تُعِنْ عَلَيَّ، وَانْصُرْنِي وَلَا تَنْصُرْ عَلَيَّ، وَامْكُرْ لِي وَلَا تَمْكُرْ عَلَيَّ، وَاهْدِنِي وَيَسِّرِ الهُدَى لِي، وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ بَغَى عَلَيَّ، رَبِّ اجْعَلْنِي لَكَ شَكَّارًا، لَكَ ذَكَّارًا، لَكَ رَهَّابًا، لَكَ مِطْوَاعًا، لَكَ مُخْبِتًا، إِلَيْكَ أَوَّاهًا مُنِيبًا، رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِي، وَاغْسِلْ حَوْبَتِي، وَأَجِبْ دَعْوَتِي، وَثَبِّتْ حُجَّتِي، وَسَدِّدْ لِسَانِي، وَاهْدِ قَلْبِي، وَاسْلُلْ سَخِيمَةَ صَدْرِي» (رواه الترمذى وابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ جامع دعا تعلیم فرمائی : “اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ تا كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا” (یعنی اے اللہ ! میں تجھ سے ہر قسم کی خیر اور بھلائی مانگتی ہوں ، دنیا کی خیر بھی اور اخرت کی خیر بھی ، وہ خیر بھی مانگتی ہوںٰ جس کو میں جانتی ہوں اور وہ بھی جس کو میں نہیں جانتی ، اور میں تیری پناہ چاہتی ہوں ہر قسم کے شر اور برائی سے دنیا کے بھی شر سے اور آخرت کے بھی شر سے ، اس شر سے بھی جس کو میں جانتی ہوں اور اس سے بھی جس کو میں نہیں جانتی ۔ اے میرے اللہ ! تیرے خاص بندے اور پیارے نبی ﷺ نے جس جس خیر کا بھی تجھ سے سوال کیا میں تجھ سے اس کی سائل ہوں ، اور جس جس شر سے انہوں نے تیری پناہ چاہی اے اللہ میں بھی اس شر سے تیری پناہ چاہتی ہوں ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتی ہوں اور اس وقول و عمل کی توفیق کی سائل ہوں جو مجھے جنت سے قریب کر دے ، اور میں تجھ سے دوزخ سے پناہ چاہتی ہوں اور ہر اس قول و عمل سے جو دوزخ سے قریب کرنے والا ہو ۔ اور اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتی ہوں کہ جو فیصلہ تو میرے حق میں فرمائے وہ میرے لئے خیر اور بھلائی کا ضامن ہو) ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ و سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس دعا کے ایک ایک جز پر غور کیا جائے ، انسان کو دنیا اور آخرت میں جس چیز کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے یہ اس سب پر حاوی ہے ۔ اسی حدیث کی ایک روایت میں یہ تفصیل بھی بیان کی گئی ہے کہ ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ ﷺ کے گھر پر حاضر ہوئے اور کوئی بات بالکل تنہائی میں کرنا چاہتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس وقت نماز پڑھ رہی تھیں ، اور بہت طویل طویل دعائیں مانگ رہی تھیں ۔ آنحضرت ﷺ نے جلدی تخلیہ کرانے کے لئے ان سے فرمایا کہ : جامع قسم کی دعائیں کر کے جلدی پوری کر لو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ : مجھے ایسی جامع دعا بتا دیجئے ؟ اس وقت آپ ﷺ نے ان کو یہ دعا تلقین فرمائی ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهَا هَذَا الدُّعَاءَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ تِقْضِيْهِ لِي خَيْرًا» (رواه ابن ابى شيبة وابن ماجه)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت سی دعائیں فرمائیں جو ہمیں یاد نہیں رہیں ، تو ہم نے آپ ﷺ نے عرض کیا :
یا رسول اللہ! آپ نے بہت سی دعائیں فرمائی تھیں ان کو ہم یاد نہیں رکھ سکے (اور چاہتے یہ ہیں کہ اللہ سے وہ سب دعائیں مانگیں ، تو کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں ایسی دعا بتائے دیتا ہوں جس میں وہ ساری دعائیں آ جائیں ! الہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرو کہ : “اے اللہ ! ہم تجھ سے وہ سب مانگتے ہیں جو تیرے نبی محمد ﷺ نے تجھ سے مانگا ، اور ہم ان سب چیزوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمدﷺ نے تیری پناہ چاہی ، بس تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جائے اور تیرے ہی کرم پر موقوف ہے مقاصد اور مرادوں تک پہنچنا ۔ اور کسی مقصد کے لئے سعی و حرکت اور اس کو حاصل کرنے کی قوت و طاقت بس اللہ ہی سے مل سکتی ہے”) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
دنیا میں ایسے ہی بندوں کی تعداد زیادہ ہے جو رسول اللہ ﷺ سے منقول شدہ زیادہ دعائیں یاد نہیں رکھ سکتے ۔ ان کے لیے اس حدیث میں نہایت آسان طریقہ بتا دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح مانگا کریں کہ : اے اللہ ! تجھ سے جو کچھ تیرے نبی حضرت محمد ﷺ نے مانگا میں وہ سب تجھ سے مانگتا ہوں ، اور جن چیزوں سے انہوں نے تیری پناہ چاہی میں ان سب چیزوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ ناچیز راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اس میں بھی کوئی خسارہ اور مضائقہ نہیں ہے کہ یہ بات اپنی ہی زبان میں کہی جائے ۔ مگر اللہ تعالیی کے حضور میں دل سے عرض کیا جائے ، دراصل دعا ہی ہے جو دل سے ہو ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: دَعَا النَّبِىُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدُعَاءٍ كَثِيرٍ لَمْ نَحْفَظْ مِنْهُ شَيْئًا، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعَوْتَ بِدُعَاءٍ كَثِيرِ لَمْ نَحْفَظْ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ: " أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَجْمَعُ ذَلِكَ كُلَّهُ، تَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ البَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ " (رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ تا مِنَ النَّارِ” (اے اللہ ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں تیری رحمت کو واجب کر دینے والے ، اور تیری مغفرت کو پکا کر دینے والے اعمال کا اور ہر گناہ سے محفوظ رہنے کا اور ہر نیکی کی توفیق کا اور تجھ سے مانگے ہیں جنت کا حصول اور دوزخ سے نجات) ۔ (مستدرک حاکم)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ مَرْفُوْعًا «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ، وَالنَّجَاةَ مِنَ النَّارِ» (رواه الحاكم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ احْفَظْنِي تا خَزَائِنُهُ بِيَدِكَ” (اے اللہ ! میری حفاظت فرما اسلام کے ساتھ کھڑے ہونے کی حالت مین اور بیٹھے ہانے کی حالت میں اور سونے کی حالت میں (یعنی میں کھڑے ، بیٹھے اور سوتے ہر حال میں ایمان و اسلام کے ساتھ محفوظ رہوں) اور میرے دشمنوں اور حاسدوں کو تیرے کسی فیصلہ سے شماتت کا موقع نہ ملے ۔ اے میرے اللہ! تیرے ہاتھ میں خیر کے جو خزانے ہیں میں تجھ سے ان کو مانگتا ہوں ، اور تیرے قبضہ میں جو شر ہے اس سے میں تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ (مستدرک حاکم)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ مَرْفُوْعًا «اللَّهُمَّ احْفَظْنِي بِالْإِسْلَامِ قَائِمًا، وَاحْفَظْنِي بِالْإِسْلَامِ قَاعِدًا، وَاحْفَظْنِي بِالْإِسْلَامِ رَاقِدًا، وَلَا تُشْمِتْ بِي عَدُوًّا حَاسِدًا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ كُلِّ خَيْرٍ خَزَائِنُهُ بِيَدِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ كُلِّ شَرٍّ خَزَائِنُهُ بِيَدِكَ» (رواه الحاكم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے یہ دعا روایت کی ہے : “اللَّهُمَّ اجْعَلنِي تا كَبِيرا” (اے اللہ ! مجھے اپنا شکر کرنے والا اور صبر کرنے والا بندہ بنا ، اور مجھے اپنی نگاہ میں چھوٹا اور دوسرے لوگوں کی نگاہ میں بڑا بنا دے) ۔ (مسند بزار)

تشریح
اس دعا کا آخری جزو خاص طور سے قابل غور ہے ۔ بندے کو چاہئے کہ اپنے کو وہ چھوٹا اور حقیر و ذلیل سمجھے اور ساتھ ہی اللہ سے دعا کرتا رہے کہ دوسروں کی نگاہ میں وہ ذلیل نہ ہو ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ بُرَيْدَة مَرْفُوْعًا اللَّهُمَّ اجْعَلنِي شكُورًا اللَّهُمَّ اجْعَلنِي صبورا اللَّهُمَّ اجْعَلنِي فِي عَيْني صَغِيرا وَفِي أعين النَّاس كَبِيرا. (رواه البزار)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
امام اوزاعیؒ نے بطریق ارسال رسول اللہ ﷺسے روایت کی ہے : “اللهم إني أسألك تا وحسن الظن بك” (اے اللہ ! میں تجھ سے استدعا کرتا ہوں تو مجھے توفیق دے ان اعمال کی جو تجھے محبوب ہیں ، اور عطا فرما مجھے سچا توکل اور اپنی ذات پاک کے ساتھ حسن ظن) ۔ (حلیہ ابی نعیم)
کتاب الاذکار والدعوات
عن الأوزاعي" مرسلا "اللهم إني أسألك التوفيق لمحابك من الأعمال، وصدق التوكل عليك، وحسن الظن بك" (رواه ابونعيم فى الحلية)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১২৬৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا روایت کی گئی ہے : “اللَّهُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِي تا وَعَمَلًا بِكِتَابِكَ” (اے اللہ ! اپنے ذکر کے لئے اور اپنی نصیحت کے لئے میرے دل کے کان کھول دے ، اور مجھے اپنی فرمانبرداری اور اپنے رسول پاکﷺ کی تابعداری نصیب فرما اور اپنی مقدس کتاب قرآن مجید پر عمل کی توفیق دے) ۔ (معجم اوسط طبرانی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَلِيٍّ مَرْفُوْعًا «اللَّهُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِي لِذِكْرِكَ، وَارْزُقْنِي طَاعَتَكَ وَطَاعَةَ رَسُولِكَ، وَعَمَلًا بِكِتَابِكَ» (رواه الطبرانى فى الاوسط)
tahqiq

তাহকীক: