মা'আরিফুল হাদীস
معارف الحديث
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৩২১ টি
হাদীস নং: ১০৯০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قرآن کی تلاوت قلب کا صیقل
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “بنی آدم کے قلوب پر اسی طرح زنگ چڑھ جاتا ہے جس طرح پانی لگ جانے سے لوہے پر زنگ آ جاتا ہے ۔ عرض کیا گیا کہ : “حضور (ﷺ) دلوں کے اس زنگ کے دور کرنے کا ذریعہ کیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا کہ : “موت کو زیادہ یاد کرنا ، اور قرآن مجید کی تلاوت” ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
قلب کا زنگ یہ ہے کہ وہ اللہ سے اور آخرت کے انجام سے غافل اور بےفکر ہو جائے ، یہ سارے چھوٹے بڑے گناہوں کی جڑ بنیاد ہے ۔ اور بلاشبہ اس بیماری کی اکسیر دوا یہی ہے کہ اپنی موت کو بہت زیادہ یاد کیا جائے ، اس کا دھیان اور مراقبہ کیا جائے اور قرآن مجید کی عظمت اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے خاص الخاص نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ادب اور اخلاص کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے اگر یہ تلاوت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے شوق اور تدبر کے ساتھ ہو گی تو ان شاء اللہ قلب کے زنگ کو دور کر کے اس کو نور سے بھر دے گی ۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے ۔ (1)
(1) حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں “ احسان ” کے بیان میں قرآن مجید کی تلاوت پر کلام کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے : “ تلاوت قرآن کی روح یہ ہے کہ شوق و محبت اور انتہائی تعظیم و اجلال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر قرآن پاک کی تلاوت کرے ، اور اس کے مواعظ اور نصائح میں غور اور ان سے اثر لینے کی کوشش کرے ، اور اس کے احکام و ہدایات کی تعمیل اور پیروی کے عزم کے ساتھ تلاوت کرے اور اسم میں بیان ہونے والے قصص اور امثال سے عبرت حاصل کرے ، اور جب اللہ کی صفات کا بیان آئے تو کہے “سبحان اللہ” اور جب ان آیتوں سے گزرے جن میں جنت اور اللہ کی رحمت کا بیان ہے تو اللہ سے فضل و کرم فرمانے کی دُعا کرے اور اپنے لئے جنت اور رحمت کا سوال کرے ۔ اور جب ان آیتوں سے گزرے جن میں دوزخ اور اللہ کے غضب کا بیان ہے تو اللہ سے پناہ مانگے” ۔
بلاشبہ اس طرح کی تلاوت قلب کا خاص الخاص صیقل ہے اور جس بندہ کو کسی درجہ میں بھی ایسی تلاوت نصیب ہو اس پر اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص فضل ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس فضل سے محروم نہ فرمائے ۔ ۱۲
تشریح
قلب کا زنگ یہ ہے کہ وہ اللہ سے اور آخرت کے انجام سے غافل اور بےفکر ہو جائے ، یہ سارے چھوٹے بڑے گناہوں کی جڑ بنیاد ہے ۔ اور بلاشبہ اس بیماری کی اکسیر دوا یہی ہے کہ اپنی موت کو بہت زیادہ یاد کیا جائے ، اس کا دھیان اور مراقبہ کیا جائے اور قرآن مجید کی عظمت اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے خاص الخاص نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ادب اور اخلاص کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے اگر یہ تلاوت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے شوق اور تدبر کے ساتھ ہو گی تو ان شاء اللہ قلب کے زنگ کو دور کر کے اس کو نور سے بھر دے گی ۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے ۔ (1)
(1) حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں “ احسان ” کے بیان میں قرآن مجید کی تلاوت پر کلام کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے : “ تلاوت قرآن کی روح یہ ہے کہ شوق و محبت اور انتہائی تعظیم و اجلال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر قرآن پاک کی تلاوت کرے ، اور اس کے مواعظ اور نصائح میں غور اور ان سے اثر لینے کی کوشش کرے ، اور اس کے احکام و ہدایات کی تعمیل اور پیروی کے عزم کے ساتھ تلاوت کرے اور اسم میں بیان ہونے والے قصص اور امثال سے عبرت حاصل کرے ، اور جب اللہ کی صفات کا بیان آئے تو کہے “سبحان اللہ” اور جب ان آیتوں سے گزرے جن میں جنت اور اللہ کی رحمت کا بیان ہے تو اللہ سے فضل و کرم فرمانے کی دُعا کرے اور اپنے لئے جنت اور رحمت کا سوال کرے ۔ اور جب ان آیتوں سے گزرے جن میں دوزخ اور اللہ کے غضب کا بیان ہے تو اللہ سے پناہ مانگے” ۔
بلاشبہ اس طرح کی تلاوت قلب کا خاص الخاص صیقل ہے اور جس بندہ کو کسی درجہ میں بھی ایسی تلاوت نصیب ہو اس پر اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص فضل ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس فضل سے محروم نہ فرمائے ۔ ۱۲
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ، كَمَا يَصْدَأُ الْحَدِيدُ إِذَا أَصَابَهُ الْمَاءُ " قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا جِلَاؤُهَا؟ قَالَ: " كَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ماہر قرآن کا مقام
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن میں مہارت حاصل کر لی ہو (اور اس کی وجہ سے وہ اس کو ..... حفظ یا ناظرہ ......... بہتر طریقے پر اور بےتکلف رواں پڑھتا ہو وہ معزز اور وفادار و فرمانبردار فرشتوں کے ساتھ ہو گا ۔ اور جو بندہ قرآن پاک (اچھا یاد اور رواں نہ ہونے کی وجہ سے زحمت اور مشقت کے ساتھ) اس طرح پڑھتا ہو کہ اس میں اٹکتا ہو تو اس کو دو اجر ملیں گے (ایک تلاوت کا اور دوسرے زحمت و مشقت کا) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں سفرہ کا جو لفظ ہے اس سے اکثر شارحین نے حامل وحی فرشتے مراد لئے ہیں ، اور بعض حضرات نے اس سے انبیاء و رُسل علیہم السلام مراد لئے ہیں ، اور لفظی معنی میں ان دونوں ہی کی گنجائش ہے ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے جو بندے قرآن کو کلام اللہ یقین کرتے ہوئے اس سے شغف رکھیں اور کثرتِ تلاوت اور اہتمام کی وجہ سے قرآنِ پاک سے ان کو خاص مناسبت اور مہارت حاصل ہو جائے ۔ ان کو انبیاء و رسل کی یا حاملِ وحی فرشتوں کی معیت اور رفاقت حاصل ہو گی ۔ اور جن ایمان والے بندوں کا حال یہ ہو کہ صلاحیت اور مناسبت کی کمی کی وجہ سے وہ قرآن کو رواں نہ پڑھ سکتے ہوں ، بلکہ تکلف کے ساتھ اور اٹک اٹک کے پڑھتے ہوں اور اس کے باوجود اجر و ثواب کی امید پر تلاوت کرتے ہوں ، ان کو تلاوت کے اجر و ثواب کے علاوہ اس زحمت و مشقت کا بھی ثواب ملے گا ، اس لئے ان کو اپنی اس حالت کی وجہ سے شکستہ دل نہ ہونا چاہئے ۔
تشریح
اس حدیث میں سفرہ کا جو لفظ ہے اس سے اکثر شارحین نے حامل وحی فرشتے مراد لئے ہیں ، اور بعض حضرات نے اس سے انبیاء و رُسل علیہم السلام مراد لئے ہیں ، اور لفظی معنی میں ان دونوں ہی کی گنجائش ہے ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے جو بندے قرآن کو کلام اللہ یقین کرتے ہوئے اس سے شغف رکھیں اور کثرتِ تلاوت اور اہتمام کی وجہ سے قرآنِ پاک سے ان کو خاص مناسبت اور مہارت حاصل ہو جائے ۔ ان کو انبیاء و رسل کی یا حاملِ وحی فرشتوں کی معیت اور رفاقت حاصل ہو گی ۔ اور جن ایمان والے بندوں کا حال یہ ہو کہ صلاحیت اور مناسبت کی کمی کی وجہ سے وہ قرآن کو رواں نہ پڑھ سکتے ہوں ، بلکہ تکلف کے ساتھ اور اٹک اٹک کے پڑھتے ہوں اور اس کے باوجود اجر و ثواب کی امید پر تلاوت کرتے ہوں ، ان کو تلاوت کے اجر و ثواب کے علاوہ اس زحمت و مشقت کا بھی ثواب ملے گا ، اس لئے ان کو اپنی اس حالت کی وجہ سے شکستہ دل نہ ہونا چاہئے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ». (رواه البخارى ومسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا انعام
حضرت معاذ جھنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جس نے قرآن پڑھا اور اس میں جو کچھ ہے اس پر عمل کیا ، قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ حسین ہو گی ، جب کہ وہ روشنی دنیا کے گھروں مین ہو اور سورج آسمان سے ہمارے پاس ہی اتر آئے ۔ (اس ک بعد حضور ﷺ نے فرمایا) پھر تمہارا کیا گمان ہے خود اس آدمی کے بارے میں جس نے خود یہ عمل کیا ہو ؟ ” (مسند احمد ، سنن ابی داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ قرآن کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کے والدین کو جب ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی حسین تر ہو گی ، تو سمجھ لو کہ خود اس قرآن پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا عطا فرمایا جائے گا ۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ قرآن کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کے والدین کو جب ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی حسین تر ہو گی ، تو سمجھ لو کہ خود اس قرآن پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا عطا فرمایا جائے گا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ مُعَاذٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ، أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ، فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا؟» (رواه احمد وابوداؤد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قیامت میں قرآنِ پاک کی شفاعت و وکالت
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ : “قرآن پڑھا کرو ، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا شفیع بن کر آئے گا .... (خاص کر) “زہراوین” یعنی اس کی دو اہم نورانی سورتیں البقرۃ اور آل عمران پڑھا کراو ، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کو اپنے سایہ میں لئے اس طرح آئیں گی جیسے کہ وہ اَبر کے ٹکڑے ہیں ، یا سائبان ہیں ، یا صف باندھے پرندوں کے پرے ہیں ۔ یہ دونوں سورتیں قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے مدافعت کریں گی (آپ ﷺ نے فرمایا) پڑھا کرو سورہ بقرہ کیونکہ اس کو حاصل کرنا بڑی برکت والی بات ہے ، اور اس کو چھوڑنا بڑی حسرت اور ندامت کی بات ہے ،ا ور اہلِ بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔” (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ : قرآنِ اپنے “اصحاب” کے لئے بارگاہِ خداوندی میں شفاعت کرے گا ۔ “اصحاب قرآن” وہ سب لوگ ہیں جو قرآنِ پاک پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس سے تعلق اور شغف کو اللہ تعالیی کی رضا اور رحمت کا وسیلہ یقین کرتے ہوئے اس سے خاص نسبت اور لگاؤ رکھیں ، جس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً کثرت سے اس کی تلاوت کریں ، اس میں تدبر اور تفکر اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا اہتمام رکھیں ، یا اس کی تعلیم ہدایت کو عام کرنے اور پھیلانے کی جدوجہد کریں ، ان سب کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے کہ قرآنِ ان کے حق میں شفیع ہو گا ۔ ہاں اخلاص یعنی اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت شرط ہے ۔
اس حدیث میں قرآنِ پاک کی قرأت و تلاوت کی عمومی ترغیب کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی تلاوت و قرأت کی خصوصیت کے ساتھ بھی ترغیب دی ہے ۔ اور فرمایا کہ : قیامت میں اور حشر میں جب ہر شخص سایہ کا بہت ہی محتاج اور ضرورت مند ہو گا ، یہ دونوں سورتیں بادل یا سایہ دار چیز کی طرح یا پرندوں کے پرے کی طرح اپنے اصحاب پر سایہ کئے رہیں گی اور ان کی طرف سے وکالت اور جواب دہی کریں گی ۔ اور آخر میں سورہ بقرہ کے متعلق مزید فرمایا کہ : اس کے سیکھنے اور پڑھنے میں بڑی برکت ہے ، اور اس سے محرومی میں بڑا خسارہ ہے ۔ اور اہلِ بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔
اس حدیث کے بعض راویوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد “ساحرین” ہیں ۔ اور مطلب یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی تلاوت کا معمول رکھنے والے پر کبھی کسی جادو گر کا جودو نہیں چلے گا ۔
سورہ بقرہ کی اس خاصیت اور تاثیر کا اشارہ اس حدیث سے بھی ملتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے شیطان اس گھر سے بھاگنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ (1) بعض شارحین نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ اہل بطالت یعنی ناحق کوش لوگ شورہ بقرہ کی برکات حاصل نہ کر سکیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان برکات کا دورازہ بند کر دیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ : قرآنِ اپنے “اصحاب” کے لئے بارگاہِ خداوندی میں شفاعت کرے گا ۔ “اصحاب قرآن” وہ سب لوگ ہیں جو قرآنِ پاک پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس سے تعلق اور شغف کو اللہ تعالیی کی رضا اور رحمت کا وسیلہ یقین کرتے ہوئے اس سے خاص نسبت اور لگاؤ رکھیں ، جس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً کثرت سے اس کی تلاوت کریں ، اس میں تدبر اور تفکر اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا اہتمام رکھیں ، یا اس کی تعلیم ہدایت کو عام کرنے اور پھیلانے کی جدوجہد کریں ، ان سب کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے کہ قرآنِ ان کے حق میں شفیع ہو گا ۔ ہاں اخلاص یعنی اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت شرط ہے ۔
اس حدیث میں قرآنِ پاک کی قرأت و تلاوت کی عمومی ترغیب کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی تلاوت و قرأت کی خصوصیت کے ساتھ بھی ترغیب دی ہے ۔ اور فرمایا کہ : قیامت میں اور حشر میں جب ہر شخص سایہ کا بہت ہی محتاج اور ضرورت مند ہو گا ، یہ دونوں سورتیں بادل یا سایہ دار چیز کی طرح یا پرندوں کے پرے کی طرح اپنے اصحاب پر سایہ کئے رہیں گی اور ان کی طرف سے وکالت اور جواب دہی کریں گی ۔ اور آخر میں سورہ بقرہ کے متعلق مزید فرمایا کہ : اس کے سیکھنے اور پڑھنے میں بڑی برکت ہے ، اور اس سے محرومی میں بڑا خسارہ ہے ۔ اور اہلِ بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔
اس حدیث کے بعض راویوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد “ساحرین” ہیں ۔ اور مطلب یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی تلاوت کا معمول رکھنے والے پر کبھی کسی جادو گر کا جودو نہیں چلے گا ۔
سورہ بقرہ کی اس خاصیت اور تاثیر کا اشارہ اس حدیث سے بھی ملتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ : جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے شیطان اس گھر سے بھاگنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ (1) بعض شارحین نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ اہل بطالت یعنی ناحق کوش لوگ شورہ بقرہ کی برکات حاصل نہ کر سکیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان برکات کا دورازہ بند کر دیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِىْ أُمَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ، اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ، وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا، اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ». (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ قیامت میں قرآنِ پاک کی شفاعت و وکالت
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ : “قیامت کے دن قرآن کو اور ان قرآن والوں کو لایا جائے گا جو اس پر عامل تھے ۔ سورہ بقرہ اور آل عمران (جو قرآن کی سب سے پہلی سورتیں ہیں) وہ پیش پیش ہوں گی (محسوس ہو گا) گویا کہ وہ بادل کے دو ٹکڑے ہیں ، یا سیاہ رنگ کے دو سائبان ہیں جن میں نور کی چمک ہے ، یا صف باندھے پرندوں کے دو پرے ہین ، اور وہ مدافعت اور وکالت کریں گی اپنے سے تعلق رکھنے والوں کی ”۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث کا مضمون قریب قریب وہی ہے جو حضرت ابو امامہ کی مندرجہ بالا حدیث کا ہے ۔ ذرا تصور کیا جائے قیامت اور میدانِ حشر کی ہولناکیوں کا ۔ کیسے خوش نصیب ہوں گے اللہ کے وہ بندے جو قرآنِ پاک سے خاص تعلق اور شغف اور اس کے احکام کی فرمانبرداری کی برکت سے حشر کے اس پرہول میدان میں اس شان سے آئیں گے کہ اللہ کا کلام پاک ان کا شفیع و وکیل بن کر ان کے ساتھ ہو گ ، اور اس کی پہلی اور اہم نورانی سورتیں بقرہ اور آل عمران اپنے انوار کے ساتھ ان کے سروں پر سایہ فگن ہوں گی ۔ ان احادیث پر مطلع ہو جانے کے بعد بھی جو بندے اس سعادت کے حاصل کرنے میں کوتاہی کریں ، بلاشبہ وہ بڑے محروم ہیں ۔
تشریح
اس حدیث کا مضمون قریب قریب وہی ہے جو حضرت ابو امامہ کی مندرجہ بالا حدیث کا ہے ۔ ذرا تصور کیا جائے قیامت اور میدانِ حشر کی ہولناکیوں کا ۔ کیسے خوش نصیب ہوں گے اللہ کے وہ بندے جو قرآنِ پاک سے خاص تعلق اور شغف اور اس کے احکام کی فرمانبرداری کی برکت سے حشر کے اس پرہول میدان میں اس شان سے آئیں گے کہ اللہ کا کلام پاک ان کا شفیع و وکیل بن کر ان کے ساتھ ہو گ ، اور اس کی پہلی اور اہم نورانی سورتیں بقرہ اور آل عمران اپنے انوار کے ساتھ ان کے سروں پر سایہ فگن ہوں گی ۔ ان احادیث پر مطلع ہو جانے کے بعد بھی جو بندے اس سعادت کے حاصل کرنے میں کوتاہی کریں ، بلاشبہ وہ بڑے محروم ہیں ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، وَآلُ عِمْرَانَ»، كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا» (رواه مسلم)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ خاص خاص سورتوں اور آیتوں کی برکات: سورۃ الفاتحہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ : “کیا تمہاری خواہش ہے کہ میں تم کو قرآن کی وہ سورت سکھاؤں جس کے مرتبہ کی کوئی سورت نہ تورتت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ قرآن ہی میں ؟ ابی نے عرض کیا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ سورت بتا دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نماز میں قرات کس طرح کرتے ہو؟ ابی نے آپ ﷺ کو سورہ فاتحہ پڑھ کر سنائی (کہ میں نماز میں یہ سورت پڑھتا ہوں ، اور اس طرح پڑھتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ توریت، انجیل ، زبورمیں کسی میں اور خود قرآن میں بھی اس جیسی کوئی سورت نازل نہیں ہوئی۔ یہی وہ سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ ہے جو مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔” (جامع ترمذی)
تشریح
بعض حدیثوں میں خاص خاص سورتوں اور آیتوں کے فضائل و برکات بھی بیان فرمائے گئے ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابو امامہ باہلیؓ اور حضرت نواس بن سمعانؓ کی مندرجہ بالا حدیثوں میں پورے قرآن کی فضیلت کے ساتھ خاص طور سے سورہ بقرہ اور آل عمران کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے ۔
اس طرح دوسری بعض سورتوں اور خاص خاص آیتوں کے فضائل و برکات بھی مختلف مواقع پر رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائے ہیں ۔ ذیل میں اس سلسلہ کی بھی چند حدیثیں درج کی جا رہی ہیں ۔
تشریح ..... قرآنِ مجید میں سورہ حجر کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر اپنے خاص الخاص انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : “وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ”(اور ہم نے تم کو سات آیتیں وظیفہ کے طور پر بار بار دہرائی جانے والی عطا کیں اور قرآن عظیم) رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ بالا حدیث میں اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ “سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ” سورہ فاتحہ ہی ہے ۔ اور یہ ایسی عظیم الشان اور عظیم البرکت سورت ہے کہ اس درجہ کی سورت کسی پہلی آسمانی کتاب میں بھی نازل نہیں کی گئی ، اور قرآن میں بھی اس کے درجہ کی کوئی دوسری سورت نہیں ہے ۔ یہ پورے قرآن کے مضامین پر حاوی ہے ۔ اسی لئے اس کو “ام القرآن” بھی کہا جاتا ہے ۔ اور اسی لئے اس کو قرآن کا افتتاحیہ قرار دیا گیا ہے ، اور ہر نماز کی ہر رکعت میں اس کا پڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ اس حدیث کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ جس بندے کو سورہ فاتحہ یاد ہے اور اخلاص کے ساتھ اس کا پڑھنا اس کو نصیب ہوتا ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی دولت اور نعمت نصیب ہے ۔ چاہئے کہ وہ اس کی قدر و عظمت کو محسوس کرے اور اس کا حق ادا کرے ۔
تشریح
بعض حدیثوں میں خاص خاص سورتوں اور آیتوں کے فضائل و برکات بھی بیان فرمائے گئے ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابو امامہ باہلیؓ اور حضرت نواس بن سمعانؓ کی مندرجہ بالا حدیثوں میں پورے قرآن کی فضیلت کے ساتھ خاص طور سے سورہ بقرہ اور آل عمران کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے ۔
اس طرح دوسری بعض سورتوں اور خاص خاص آیتوں کے فضائل و برکات بھی مختلف مواقع پر رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائے ہیں ۔ ذیل میں اس سلسلہ کی بھی چند حدیثیں درج کی جا رہی ہیں ۔
تشریح ..... قرآنِ مجید میں سورہ حجر کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر اپنے خاص الخاص انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : “وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ”(اور ہم نے تم کو سات آیتیں وظیفہ کے طور پر بار بار دہرائی جانے والی عطا کیں اور قرآن عظیم) رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ بالا حدیث میں اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ “سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ” سورہ فاتحہ ہی ہے ۔ اور یہ ایسی عظیم الشان اور عظیم البرکت سورت ہے کہ اس درجہ کی سورت کسی پہلی آسمانی کتاب میں بھی نازل نہیں کی گئی ، اور قرآن میں بھی اس کے درجہ کی کوئی دوسری سورت نہیں ہے ۔ یہ پورے قرآن کے مضامین پر حاوی ہے ۔ اسی لئے اس کو “ام القرآن” بھی کہا جاتا ہے ۔ اور اسی لئے اس کو قرآن کا افتتاحیہ قرار دیا گیا ہے ، اور ہر نماز کی ہر رکعت میں اس کا پڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ اس حدیث کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ جس بندے کو سورہ فاتحہ یاد ہے اور اخلاص کے ساتھ اس کا پڑھنا اس کو نصیب ہوتا ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی دولت اور نعمت نصیب ہے ۔ چاہئے کہ وہ اس کی قدر و عظمت کو محسوس کرے اور اس کا حق ادا کرے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَتُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَكَ سُورَةً لَمْ يَنْزِلْ فِي التَّوْرَاةِ وَلاَ فِي الإِنْجِيلِ وَلاَ فِي الزَّبُورِ وَلاَ فِي القُرْآنِ مِثْلُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ تَقْرَأُ فِي الصَّلاَةِ؟ قَالَ: فَقَرَأَ أُمَّ القُرْآنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلاَ فِي الْإِنْجِيلِ وَلاَ فِي الزَّبُورِ وَلاَ فِي الفُرْقَانِ مِثْلُهَا، وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُهُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورہ بقرہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “ہر چیز کی کوئی چوٹی ہوتی ہے (جو سب سے اوپر اور بالا تر ہوتی ہے) اور قرآن کی چوٹی سورہ بقرہ ہے ، اور اس میں ایک آیت (آیت الکرسی) تمام آیاتِ قرآنی کی گویا سردار ہے ۔” (جامع ترمذی)
تشریح
اسلام کے بنیادی اصول و عقائد اور احکام شریعت کا جتنا تفصیلی بیان سورہ بقرہ میں کیا گیا ، اتنا اور ایسا قرآن پاک کی کسی دوسری سورت میں نہیں کیا گیا ۔ غالباً اسی خصوصیت کی وجہ سے اس کو قرآن مجید میں سب سے مقدر رکھا گیا ہے ، اور غالبا اسی امتیاز کی وجہ سے اس کو اس حدیث میں “سنام القرآن” کا لقب دیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
اسلام کے بنیادی اصول و عقائد اور احکام شریعت کا جتنا تفصیلی بیان سورہ بقرہ میں کیا گیا ، اتنا اور ایسا قرآن پاک کی کسی دوسری سورت میں نہیں کیا گیا ۔ غالباً اسی خصوصیت کی وجہ سے اس کو قرآن مجید میں سب سے مقدر رکھا گیا ہے ، اور غالبا اسی امتیاز کی وجہ سے اس کو اس حدیث میں “سنام القرآن” کا لقب دیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامٌ، وَسَنَامُ القُرْآنِ سُورَةُ البَقَرَةِ وَفِيهَا آيَةٌ هِيَ سَيِّدَةُ آيِ القُرْآنِ، هِيَ آيَةُ الكُرْسِيِّ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورہ بقرہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “اپنے گھروں کو مقبرے نہ بنا لو یعنی جس طرح قبرستانوں میں مُردے ذکر و تلاوت نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے قبرستانوں کی فضا ذِکر و تلاوت کے انوار و آثار سے خالی رہتی ہے ، تم اس طرح اپنے گھروں کو نہ بنا و ، بلکہ گھروں کو ذکر تلاوت سے معمور رکھا کرو) اور جس گھر میں (خاصکر) سورہ بقرہ پڑھی جائے اس گھر میں شیطان نہیں آ سکتا”۔ (جامع ترمذی)
تشریح
بعض سورتوں کے ، اور اسی طرح بعض آیات کے کچھ خواص ہیں ۔ اس حدیث میں سورہ بقرہ کی خاص برکت اور تاثیر یہ بیان فرمائی ہے کہ جس گھر میں اس کی تلاوت کی جائے وہ شیطان کے اثرات اور تسلط سے محفوظ رہے گا ۔
سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی بعض خاص فضیلتوں کا بیان اس سے پہلے بھی بعض حدیثوں میں ضمناً گزر چکا ہے ۔
تشریح
بعض سورتوں کے ، اور اسی طرح بعض آیات کے کچھ خواص ہیں ۔ اس حدیث میں سورہ بقرہ کی خاص برکت اور تاثیر یہ بیان فرمائی ہے کہ جس گھر میں اس کی تلاوت کی جائے وہ شیطان کے اثرات اور تسلط سے محفوظ رہے گا ۔
سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی بعض خاص فضیلتوں کا بیان اس سے پہلے بھی بعض حدیثوں میں ضمناً گزر چکا ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، وَإِنَّ البَيْتَ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ البَقَرَةُ لاَ يَدْخُلُهُ الشَّيْطَانُ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورۃ الکہف
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھے اس کے لئے نور روشن ہو جائے گا دو جمعوں کے درمیان”۔ (دعوات الکبیرللبیہقی)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ کہف کو جمعہ کے دن کے ساتھ کوئی خاص مناسبت ہے جس کی وجہ سے اس دن میں اس کی تلاوت کے لئے رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ ترغیب دی ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن سورہ کہف کے پڑےھنے سے قلب میں ایک خاص نور پیدا ہو گا جس کی روشنی اور برکت اگلے جمعہ تک رہے گی ۔ اس حدیث کو حاکم نے بھی مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا ہے ۔ “(هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه”
ایک دوسری حدیث میں (جس کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے) سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتوں کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ : “جو ان کو یاد کر لے گا اور پڑھے گا وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا” ۔ اس کی توجیہ میں شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ سورہ کہف کے ابتدائی حصہ میں جو تمہیدی مضمون ہے اور اسی کے ساتھ اصحاب کہف کا جو وقعہ بیان فرمایا گیا ہے اس میں ہر دجالی فتنہ کا پورا توڑ موجود ہے اور جس دل کو ان حقائق اور مضامین کا یقین نصیب ہو جائے جو کہف کی ان ابتدائی آیتوں میں میںٰ بیان کئے گئے ہیں وہ دل کسی دجالی فتنہ سے کبھی متاثر نہ ہو گا ۔ اسی طرح اللہ کے جو بندے ان آیتوں کی اس خاصیت اور برکت پر یقین کرتے ہوئے ان کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کریں گے اور ان کی تلاوت کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو بھی دجالی فتنوں سے محفوظ رکھے گا ۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ کہف کو جمعہ کے دن کے ساتھ کوئی خاص مناسبت ہے جس کی وجہ سے اس دن میں اس کی تلاوت کے لئے رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ ترغیب دی ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن سورہ کہف کے پڑےھنے سے قلب میں ایک خاص نور پیدا ہو گا جس کی روشنی اور برکت اگلے جمعہ تک رہے گی ۔ اس حدیث کو حاکم نے بھی مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا ہے ۔ “(هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه”
ایک دوسری حدیث میں (جس کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے) سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتوں کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ : “جو ان کو یاد کر لے گا اور پڑھے گا وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا” ۔ اس کی توجیہ میں شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ سورہ کہف کے ابتدائی حصہ میں جو تمہیدی مضمون ہے اور اسی کے ساتھ اصحاب کہف کا جو وقعہ بیان فرمایا گیا ہے اس میں ہر دجالی فتنہ کا پورا توڑ موجود ہے اور جس دل کو ان حقائق اور مضامین کا یقین نصیب ہو جائے جو کہف کی ان ابتدائی آیتوں میں میںٰ بیان کئے گئے ہیں وہ دل کسی دجالی فتنہ سے کبھی متاثر نہ ہو گا ۔ اسی طرح اللہ کے جو بندے ان آیتوں کی اس خاصیت اور برکت پر یقین کرتے ہوئے ان کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کریں گے اور ان کی تلاوت کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو بھی دجالی فتنوں سے محفوظ رکھے گا ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ أَنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَرَأَ سُوْرَةَ الَْكَهْفِ فِىْ يَوْمَ الجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ النُّوْرُ مَا بَيْنَ الْجُمْعَتَيْنِ. (رواه البيهقى فى الدعوات الكبير)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১০৯৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورہ یٰسین
حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ رضا کے لئے سورہ یٰسین پڑھی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ، لہذا یہ مبارک سورت مرنے والوں کے پاس پڑھا کرو ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
اس حدیث میں مرنے والوں کے پاس (عِنْدَ مَوْتَاكُمْ) یٰسین شریف پڑھنے کے لئے جو فرمایا گیا ہے اس کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ مرنے ولے کے پاس اس کے آخری وقت میں یہ سورت پڑھی جائے ۔ اور اکثر علماء نے یہی سمجھا ہے اور اس لئے یہی معمول ہے لیکن دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مر جانے والے کی قبر پر یہ سورۃ پڑھی جائے تا کہ یہ اس کی مغفرت کا وسیلہ بن جائے ۔
تشریح
اس حدیث میں مرنے والوں کے پاس (عِنْدَ مَوْتَاكُمْ) یٰسین شریف پڑھنے کے لئے جو فرمایا گیا ہے اس کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ مرنے ولے کے پاس اس کے آخری وقت میں یہ سورت پڑھی جائے ۔ اور اکثر علماء نے یہی سمجھا ہے اور اس لئے یہی معمول ہے لیکن دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مر جانے والے کی قبر پر یہ سورۃ پڑھی جائے تا کہ یہ اس کی مغفرت کا وسیلہ بن جائے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَرَأَ يس ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ فَاقْرَءُوهَا عِنْدَ مَوْتَاكُمْ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০০
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورہ یٰسین
عطاء بن ابی رباح تابعی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “جو بندہ دن کے ابتدائی حصے میں یعنی علی الصباح سورہ یٰسین پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجتیں پوری فرمائے گا ۔” (سنن دارمی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَرَأَ يس فِي صَدْرِ النَّهَارِ، قُضِيَتْ حَوَائِجُهُ» (رواه الدارمى مرسلا)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০১
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورہ واقعہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص ہر رات سورہ واقعہ پڑھا کرے اسے کبھی فقر و فاقہ کی نوبت نہیں آئے گی ۔ (نیچے کے راوی بیان کرتے ہیں) کہ خود حضرت ابنِ مسعودؓ کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنی صاحبزادیوں کو اس کی تاکید فرماتے تھے اور وہ ہر رات کو سورہ واقعہ پڑھتی تھیں ۔” (شعب الایمان للبیہقی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْوَاقِعَةِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ لَمْ تُصِبْهُ فَاقَةٌ " وَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَأْمُرُ بَنَاتِهِ يَقْرَأْنَ بها كُلَّ لَيْلَةٍ. (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০২
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورۃ الملک
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “قرآن کی ایک سورت نے جو صرف تیس آیتوں کی ہے اس نے ایک بندے کے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں سفارش کی ، یہاں تک کہ وہ بخش دیا گیا اور وہ سورۃ ہے : تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ. (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ سُورَةً مِنَ القُرْآنِ ثَلاَثُونَ آيَةً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتَّى غُفِرَ لَهُ، وَهِيَ سُورَةُ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد والنسائى وابن ماجه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০৩
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ الم تنزیل
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک کہ الم تَنْزِيلُ اور تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ نہ پڑھ لیتے ۔ (یعنی رات کو سونے سے پہلے یہ دونوں سورتیں پڑھنے کا حضور ﷺ کا معمول تھا) (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن دارمی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لاَ يَنَامُ حَتَّى يَقْرَأَ الْم تَنْزِيلُ، وَتَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ. (رواه احمد والترمذى والدارمى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০৪
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورۃ الاعلیٰ
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ سورۃ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) خاص طور سے محبوب تھی ۔ (مسند احمد)
تشریح
کتاب الصلوٰۃ میں وہ حدیثیں گزر چکی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کی نماز میں اور اسی طرح عیدین کی نماز میں اکثر پہلی رکعت میں “سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى” پڑھتے تھے آپ ﷺ کا یہ معمول اسی لئے تھا کہ یہ سورۃ اپنے خاص مضمون اور پیغام کے لحاظ سے آپ ﷺ کو زیادہ محبوب تھی ۔
تشریح
کتاب الصلوٰۃ میں وہ حدیثیں گزر چکی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کی نماز میں اور اسی طرح عیدین کی نماز میں اکثر پہلی رکعت میں “سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى” پڑھتے تھے آپ ﷺ کا یہ معمول اسی لئے تھا کہ یہ سورۃ اپنے خاص مضمون اور پیغام کے لحاظ سے آپ ﷺ کو زیادہ محبوب تھی ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ هَذِهِ السُّورَةَ: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" (رواه احمد)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০৫
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورۃ التکاثر
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کیا تم میں سے کوئی یہ نہیں کر سکتا کہ روزانہ ایک ہزار آیتیں قرآن پاک کی پڑھ لیا کرے ؟” صحابہؓ نے عرض کیا : “حضور ﷺ ! کس میں یہ طاقت ہے کہ روزانہ ایک ہزار آیتیں پڑھے” (یعنی یہ بات ہماری استطاعت سے باہر ہے) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “کیا تم میں کوئی اتنا نہیں کر سکتا کہ سورہ “أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ” پڑھ لیا کرے” ۔ (شعب الایمان للبیہقی)
تشریح
قرآن مجید کی بعض بہت چھوٹی سورتیں ایسی ہیں جو اپنے مضمون اور پیغام کی اہمیت کی وجہ سے سینکڑوں اور ہزاروں آیتوں کے برابر ہیں ۔ انہی میں سورہ التکاثر بھی ہے ۔ اس میں دنیا پرستی اور آخرت فراموشی پر سخت ضرب لگائی گئی ہے ، اور آخرت کے محاسبہ اور دوزخ کے عذاب کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے کہ اگر دل بالکل مُردہ نہ ہو گیا ہو تو اس میں فکر اور بیداری پیدا ہو جانا لازمی ہے ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے غالباً اسی لحاظ سے اس کے پڑھنے کو ہزار آیتیں پڑھنے کے قائم مقام بتایا ہے ۔ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں میں جن دوسری چھوٹی چھوٹی سورتوں کو نصف قرآن یا تہائی قرآن یا چوتھائی قرآن کے برابر بتایا گیا ہے ، ان کے بارے میں بھی اسی طرح سمجھ لینا چاہئے اور ممکن ہے ان کی تلاوت کا ثواب بھی اسی حساب سے زیادہ عطا فرمایا جائے ۔ اللہ کا خزانہ ہمارے وہم و گمان سے زیادہ وسیع ہے ۔
تشریح
قرآن مجید کی بعض بہت چھوٹی سورتیں ایسی ہیں جو اپنے مضمون اور پیغام کی اہمیت کی وجہ سے سینکڑوں اور ہزاروں آیتوں کے برابر ہیں ۔ انہی میں سورہ التکاثر بھی ہے ۔ اس میں دنیا پرستی اور آخرت فراموشی پر سخت ضرب لگائی گئی ہے ، اور آخرت کے محاسبہ اور دوزخ کے عذاب کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے کہ اگر دل بالکل مُردہ نہ ہو گیا ہو تو اس میں فکر اور بیداری پیدا ہو جانا لازمی ہے ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے غالباً اسی لحاظ سے اس کے پڑھنے کو ہزار آیتیں پڑھنے کے قائم مقام بتایا ہے ۔ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں میں جن دوسری چھوٹی چھوٹی سورتوں کو نصف قرآن یا تہائی قرآن یا چوتھائی قرآن کے برابر بتایا گیا ہے ، ان کے بارے میں بھی اسی طرح سمجھ لینا چاہئے اور ممکن ہے ان کی تلاوت کا ثواب بھی اسی حساب سے زیادہ عطا فرمایا جائے ۔ اللہ کا خزانہ ہمارے وہم و گمان سے زیادہ وسیع ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا يَسْتَطِيعُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ أَلْفَ آيَةٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ؟ " قَالُوا: وَمَنْ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقْرَأَ أَلْفَ آيَةٍ؟ قَالَ: " مَا يَسْتَطِيعُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ؟ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০৬
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت انس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سورہ “اِذَا زُلْزِلَتِ” نصف قرآن کے برابر ہے اور “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” تہائی قرآن کے برابر ہے اور “قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ” چوتھائی قرآن کے برابر ہے ۔ (جامع ترمذی)
تشریح
سورہ “اِذَا زُلْزِلَتِ” میں قیامت کا بیان اور اس کی منظر کشی نہایت ہی مؤثر انداز میں کی گئی ہے اور اسی طرح اس کی آخری آیت : “فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ۰۰۷ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗؒ۰۰۸” میں جزا و سزا کا بیا اختصار کے باوجود ایسے مؤثر پیرایہ میں کیا گیا ہے کہ اگر اس موضوع پر پوری کتاب بھی لکھی جائے تو اس سے زیادہ مؤثر نہ ہو گی ۔ غالباً اس سورت کی اسی خصوصیت کی وجہ سے اس حدیث میں اس کو نصف قرآن کے برابر بتایا گیا ہے ۔ اسی طرح سورہ اخلاص (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ) میں انتہائی اختصار کے ساتھ اللہ کی توحید ، اس کی تنزیہ اور اس کی صفاتی کمال جس معجزانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے وہ بھی اس سورت کی خصوصیت ہے ، اور غالباً اسی کی وجہ سے اس کو تہائی قرآن کے برابر فرمایا گیا ہے ۔ اور “قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ” میں واشگاف طریقے پر شرک اور اہلِ شرک سے براءت ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد ، سنن نسائی)
شرک سے براءت اور بیزاری کا اعلان کر کے جس طرح خالص توحید کی تعلیم دی گئی ہے (جو دین کی جڑ ، بنیاد ہے) وہ اس سورت کی خصوصیت ہے اور غالباً اسی کی وجہ سے اس سورت کو اس حدیث میں چوتھائی قرآن کے برابر کہا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
تشریح
سورہ “اِذَا زُلْزِلَتِ” میں قیامت کا بیان اور اس کی منظر کشی نہایت ہی مؤثر انداز میں کی گئی ہے اور اسی طرح اس کی آخری آیت : “فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ۰۰۷ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗؒ۰۰۸” میں جزا و سزا کا بیا اختصار کے باوجود ایسے مؤثر پیرایہ میں کیا گیا ہے کہ اگر اس موضوع پر پوری کتاب بھی لکھی جائے تو اس سے زیادہ مؤثر نہ ہو گی ۔ غالباً اس سورت کی اسی خصوصیت کی وجہ سے اس حدیث میں اس کو نصف قرآن کے برابر بتایا گیا ہے ۔ اسی طرح سورہ اخلاص (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ) میں انتہائی اختصار کے ساتھ اللہ کی توحید ، اس کی تنزیہ اور اس کی صفاتی کمال جس معجزانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے وہ بھی اس سورت کی خصوصیت ہے ، اور غالباً اسی کی وجہ سے اس کو تہائی قرآن کے برابر فرمایا گیا ہے ۔ اور “قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ” میں واشگاف طریقے پر شرک اور اہلِ شرک سے براءت ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد ، سنن نسائی)
شرک سے براءت اور بیزاری کا اعلان کر کے جس طرح خالص توحید کی تعلیم دی گئی ہے (جو دین کی جڑ ، بنیاد ہے) وہ اس سورت کی خصوصیت ہے اور غالباً اسی کی وجہ سے اس سورت کو اس حدیث میں چوتھائی قرآن کے برابر کہا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الاذکار والدعوات
ثَنَا عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا زُلْزِلَتْ تَعْدِلُ نِصْفَ القُرْآنِ، وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ تَعْدِلُ ثُلُثَ القُرْآنِ، وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ تَعْدِلُ رُبُعَ القُرْآنِ. (رواه الترمذى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০৭
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
فروہ بن نوفل اپنے والد ماجد نوفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا مجھے کوئی ایسی چیز پڑھنے کو بتا دیجئے جس کو میں سوتے وقت بستر پر پڑھ لیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ” پڑھ لیا کرو اس میں شرک سے براءت ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد ، سنن نسائی)
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ فَرْوَةَ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ اَبِيْهِ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَقُولُهُ إِذَا أَوَيْتُ إِلَى فِرَاشِي، قَالَ: اقْرَأْ: قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ فَإِنَّهَا بَرَاءَةٌ مِنَ الشِّرْكِ. (رواه الترمذى وابو داؤد والنسائى)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০৮
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “کیا تم میں سے کوئی اس سے بھی عاجز ہے کہ ایک رات میں تہائی قرآن پڑھ لیا کرے ؟” صحابہ نے عرض کیا کہ ایک رات میں تہائی قرآن کیسے پڑھا جا سکتا ہے ۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” تہائی قرآن کے برابر ہے ” (تو جس نے رات میں وہی پڑھی اس نے گویا تہائی قرآن پڑھ لیا) ۔ (صحیح مسلم)
اور امام بخاریؒ نے یہی حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، اور امام ترمذی نے اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔
اور امام بخاریؒ نے یہی حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، اور امام ترمذی نے اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ فِي لَيْلَةٍ ثُلُثَ الْقُرْآنِ؟» قَالُوا: وَكَيْفَ يَقْرَأْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: «قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ» (رواه مسلم والبخارى عن ابى سعيد وروى الترمذى عن ابي ايوب الانصارى بمعناه)
তাহকীক:
হাদীস নং: ১১০৯
কিতাবুল আযকার ওয়াদ-দাওয়াত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سورہ زلزال ، سورہ کافرون ، سورہ اخلاص
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ :
“حضرت ﷺ! مجھے یہ سورۃ “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” خاص طور سے محبوب ہے ؟ ” آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “اس سورت کے ساتھ تمہاری یہ محبت تم کو جنت میں پہنچا دے گی ” ۔ (جامع ترمذی)
(الفاظ و عبارت کے کچھ فرق کے ساتھ اسی مضمون کی ایک حدیث امام بخارؒ نے بھی روایت کی ہے) ۔
“حضرت ﷺ! مجھے یہ سورۃ “قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” خاص طور سے محبوب ہے ؟ ” آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “اس سورت کے ساتھ تمہاری یہ محبت تم کو جنت میں پہنچا دے گی ” ۔ (جامع ترمذی)
(الفاظ و عبارت کے کچھ فرق کے ساتھ اسی مضمون کی ایک حدیث امام بخارؒ نے بھی روایت کی ہے) ۔
کتاب الاذکار والدعوات
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أُحِبُّ هَذِهِ السُّورَةَ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ. فَقَالَ: إِنَّ حُبَّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الجَنَّةَ. (رواه الترمذى ورى البخارى معناه)
তাহকীক: