কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
نکاح کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৭২ টি
হাদীস নং: ২০০৪
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بچہ ہمیشہ باپ کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے تو (فقط) پتھر ہی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد (رض) دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ (رض) نے کہا : وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم ﷺ نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا : عبد بن زمعہ ! وہ بچہ تمہارا بھائی ہے (گرچہ مشابہت سے عتبہ کا معلوم ہوتا ہے) بچہ صاحب فراش (شوہر یا مالک) کا ہوتا ہے ١ ؎، سودہ تم اس سے پردہ کرو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣ (٢٠٥٣) ، ١٠٠ (٢٢١٨) ، الخصومات ٦ (٢٤٢١) ، العتق ٨ (٢٥٣٣) ، الوصایا ٤ (٢٧٤٥) ، المغازي ٥٣ (٤٣٠٣) ، الفرائض ١٨ (٦٧٤٩) ، ٢٨ (٦٧٦٥) ، الحدود ٢٣ (٦٨١٧) ، الأحکام ٢٩ (٧١٨٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٧) ، سنن ابی داود/الطلاق ٣٤ (٢٢٧٣) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٩ (٣٥١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٢١ (٢٠) مسند احمد (٦/١٢٩، ٢٠٠، ٢٧٣) ، سنن الدارمی/النکاح ٤١ (٢٢٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زانی کا بچہ نہیں کہلائے گا، گو اس کے نطفہ سے پیدا ہو، بلکہ بچہ عورت کے شوہر یا مالک کا ہوگا اگر عورت لونڈی ہو۔ ٢ ؎: ام المؤمنین سودہ (رض) زمعہ کی بیٹی تھیں، تو یہ بچہ جب زمعہ کا ٹھہرا، تو سودہ کا بھائی ہوا، لیکن چونکہ اس کی مشابہت عتبہ سے پائی گئی، اس لیے احتیاطاً آپ ﷺ نے ام المؤمنین سودہ (رض) کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
حدیث نمبر: 2004 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ عَبْدَ بْنَ زَمْعَةَ وَسَعْدًا اخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْصَانِي أَخِي إِذَا قَدِمْتُ مَكَّةَ أَنْ أَنْظُرَ إِلَى ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ فَأَقْبِضَهُ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي وَابْنُ أَمَةِ أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي، فَرَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهَهُ بِعُتْبَةَ، فَقَالَ: هُوَ لَكَ يَا عَبْدَ بْنَ زَمْعَةَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي عَنْهُ يَا سَوْدَةُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০৫
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بچہ ہمیشہ باپ کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے تو (فقط) پتھر ہی ہے۔
عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صاحب فراش کے لیے بچے کا فیصلہ کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فراش سے مراد صاحب فراش یعنی شوہر یا مولیٰ ہے کیونکہ یہ دونوں عورت کو بستر پر لٹاتے اور اس کے ساتھ سوتے ہیں وللعاهرالحجر یعنی زانی کے لیے ناکامی و نامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حجر (پتھر) سے مراد یہ ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ سنگسار صرف شادی شدہ زانی کو کیا جائے گا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تو وہ جس کی بیوی یا لونڈی ہوگی اسی کی طرف بچے کے نسب کا الحاق ہوگا اور وہ اسی کا بچہ شمار کیا جائے گا، میراث اور ولادت کے دیگر احکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ ارتکاب زنا کا دعویٰ کرے، اور یہ بھی دعوی کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہوا ہے، اس بچے کی مشابہت بھی اسی کے ساتھ ہو، اور صاحب فراش کے مشابہ نہ ہو، اس ساری صورتحال کے باوجود بچے کا الحاق صاحب فراش کے ساتھ کیا جائے گا، اس میں زانی کا کوئی حق نہیں ہوگا، اور یہ اس صورت میں ہے جب صاحب فراش اس کی نفی نہ کرے اور اگر اس نے اس کی نفی کردی تو پھر بچے کا الحاق ماں کے ساتھ ہوگا، اور وہ بچہ ماں کے ساتھ منسوب ہوگا، زانی سے منسوب نہیں ہوگا۔
حدیث نمبر: 2005 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالْوَلَدِ لِلْفِرَاشِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০৬
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بچہ ہمیشہ باپ کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے تو (فقط) پتھر ہی ہے۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٨) ، سنن الترمذی/الرضاع ٨ (١١٥٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٨ (٣٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الفرائض ١٨ (٦٧٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٨٠، ٣٨٦، ٤٠٩، ٤٦٦، ٤٧٥، ٤٩٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤١ (٢٢٨١) (صحیح )
حدیث نمبر: 2006 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০৭
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بچہ ہمیشہ باپ کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے تو (فقط) پتھر ہی ہے۔
ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : بچہ صاحب فراش کا ہے، اور زانی کے لیے پتھر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٥، ومصباح الزجاجة : ٧١٣) (صحیح) (سند میں سابقہ شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس میں اسماعیل بن عیاش اور شرجیل بن مسلم کی وجہ سے کچھ کلام ہے ) وضاحت : ١ ؎: وللعاهرالحجر یعنی زانی کے لیے ناکامی و نامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حجر (پتھر) سے مراد یہ ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ سنگسار صرف شادی شدہ زانی کو کیا جائے گا۔
حدیث نمبر: 2007 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০৮
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اگرزوجین میں سے کوئی پہلے اسلام قبول کرلے ؟
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر اسلام قبول کیا، اور اس سے ایک شخص نے نکاح کرلیا، پھر اس کا پہلا شوہر آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میں اپنی عورت کے ساتھ ہی مسلمان ہوا تھا، اور اس کو میرا مسلمان ہونا معلوم تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کو دوسرے شوہر سے چھین کر پہلے شوہر کے حوالے کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٣ (٢٢٣٨، ٢٢٣٩) ، سنن الترمذی/النکاح ٤٢ (١١٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٢، ٣٢٣) (ضعیف) (سند میں حفص بن جمیع ضعیف راوی ہیں، اور سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے )
حدیث نمبر: 2008 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ جُمَيْعٍ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ عِكرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَتْ فَتَزَوَّجَهَا رَجُلٌ، قَالَ: فَجَاءَ زَوْجُهَا الْأَوَّلُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَسْلَمْتُ مَعَهَا وَعَلِمَتْ بِإِسْلَامِي، قَالَ: فَانْتَزَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَوْجِهَا الْآخَرِ وَرَدَّهَا إِلَى زَوْجِهَا الْأَوَّلِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০৯
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اگرزوجین میں سے کوئی پہلے اسلام قبول کرلے ؟
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی زینب (رض) کو ابوالعاص بن ربیع (رض) کے پاس دو سال کے بعد اسی پہلے نکاح پر بھیج دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٤ (٢٢٤٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٤٢ (١١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٧، ٢٦١، ٣٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ ابوالعاص بن ربیع (رض) نے صلح حدیبیہ (سن ٦ ہجری) سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا اس لیے زینب (رض) کی واپسی کے لیے نئے نکاح کی ضرورت نہیں پڑی، مشرکین پر مسلمان عورتوں کو حرام قرار دینے کا ذکر صلح حدیبیہ کے مکمل ہونے کے بعد نازل ہونے والی آیت میں کیا گیا ہے، لہذا اس مدت کے دوران نکاح فسخ نہیں ہوا کیونکہ اس بارے میں کوئی شرعی حکم تھا ہی نہیں، اور جب نکاح فسخ نہیں ہوا تو نئے نکاح کی ضرورت پڑے گی ہی نہیں، رہی عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ والی روایت جو آگے آرہی ہے تو وہ ابن عباس (رض) کی اس حدیث کا معارضہ نہیں کرسکتی کیونکہ وہ حجاج بن أرطاۃ کی وجہ سے ضعیف ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ زینب (رض) نے ٢ ھ میں یا ٣ ھ کی ابتداء میں ہجرت کی، اور ان کی وفات ٨ ھ کے شروع میں ہوئی ہے، اس طرح ان کی ہجرت اور وفات کے درمیان کل پانچ برس چند ماہ کا وقفہ ہے، لہذا ابوالعاص بن ربیع (رض) کا قبول اسلام اور زینب (رض) کی ان کو واپسی اسی مدت کے دوران عمل میں آئی، اور صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قبول اسلام صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے، رہا یہ مسئلہ کہ زینب کی واپسی کتنے سال بعد ہوئی تو اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، بعض میں دو سال، بعض میں تین سال اور بعض میں چھ سال کا ذکر ہے، لیکن صحیح ترین روایت یہ ہے کہ ان کی واپسی تین سال بعد ہوئی تھی، تین سال مکمل تھے اور کچھ مہینے مزید گزرے تھے۔
حدیث نمبر: 2009 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ بَعْدَ سَنَتَيْنِ بِنِكَاحِهَا الْأَوَّلِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১০
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اگرزوجین میں سے کوئی پہلے اسلام قبول کرلے ؟
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی زینب (رض) کو ابوالعاص بن ربیع (رض) کے پاس نئے نکاح پر بھیج دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٤٢ (١١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٠٧) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: صحیح یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کو پہلے نکاح پر برقرار رکھا، اور دارقطنی نے کہا کہ یہ حدیث ثابت نہیں ہے، اور صواب ابن عباس (رض) کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے زینب (رض) کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح ہی سے لوٹا دیا۔ اور امام ترمذی کتاب العلم میں کہتے ہیں کہ میں نے بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا کہ اس باب میں ابن عباس کی حدیث عمرو بن شعیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں : تعجب ہے کہ اس ضعیف حدیث کو اصل بنادیں اور اس سے صحیح حدیث کو رد کردیں اور کہیں کہ وہ اصول کے خلاف ہے۔ ابن عباس (رض) کی حدیث کی طرف صحابہ کی ایک جماعت گئی ہے ومن بعدہم، ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اسلام قبول کرنے والے آدمی اور اس کے ساتھ اس کی اسلام نہ لانے والی بیوی کے درمیان جدائی نہ کراتے، بلکہ جب دوسرا اسلام لاتا تو نکاح اپنے حال پر رہتا، جب تک وہ عورت دوسرا نکاح نہ کرلے، اور یہ سنت معلومہ اور مشہورہ ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ابوسفیان نے مرالظہران میں جو خزاعہ کا علاقہ ہے، اسلام قبول کیا، اور وہاں فتح مکہ سے پہلے مسلمان تھے، تو وہ دارالاسلام ٹھہرا، اور ابوسفیان مکہ واپس چلے گئے، اور ان کی بیوی ہندہ جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، مکہ میں تھی، اس نے ابوسفیان کی داڑھی پکڑ کر کہا اس بوڑھے گمراہ کو قتل کر دو ، پھر اس کے کافی دنوں بعد ہندہ نے اسلام قبول کیا، وہ دارالحرب میں مقیم تھی، اور کافر تھی، جب کہ ابوسفیان مسلمان تھے، اور عدت گزر جانے کے بعد ہندہ مسلمان ہوئی، لیکن دونوں کا نکاح قائم رہا، کیونکہ درحقیقت اس کی عدت نہیں گزری، یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگئی، اور اسی طرح حکیم بن حزام کا حال گزرا، صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابوجہل دونوں کی بیویاں مکہ میں مسلمان ہوئیں اور مکہ دارالاسلام ہوگیا، اور نبی کریم ﷺ کی حکومت وہاں قائم ہوگئی، اور عکرمہ یمن کی طرف بھاگے وہ دارالحرب تھا، اور صفوان بھی دارالحرب چل دیئے، پھر صفوان مکہ میں لوٹے تو وہ دارالاسلام تھا، اور جنگ حنین میں حاضر ہوئے، لیکن اس وقت تک کافر تھے، اس کے بعد مسلمان ہوئے اور ان کی بیوی پہلے ہی نکاح سے ان کے پاس رہیں، کیونکہ درحقیقت ان کی عدت نہیں گزری تھی، اور اہل مغازی نے لکھا ہے کہ ایک انصاری عورت مکہ میں ایک شخص کے پاس تھی، پھر وہ مسلمان ہوگئی اور اس نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، اس کے بعد اس کا شوہر آیا وہ عدت میں تھی، تو اپنے پرانے نکاح ہی پر شوہر سے جا ملی۔ (الروضہ الندیہ) ۔
حدیث نمبر: 2010 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১১
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دودھ پلانے کی حالت میں جماع کرنا؟
جدامہ بنت وہب اسدیہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میں نے ارادہ کیا کہ بچہ کو دودھ پلانے والی بیوی سے جماع کرنے کو منع کر دوں، پھر میں نے دیکھا کہ فارس اور روم کے لوگ ایسا کر رہے ہیں، اور ان کی اولاد نہیں مرتی اور جس وقت آپ ﷺ سے عزل کے متعلق پوچھا گیا تھا، تو میں نے آپ کو فرماتے سنا : وہ تو وأدخفی (خفیہ طور زندہ گاڑ دینا) ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢٤ (١٤٤٢) ، سنن ابی داود/الطب ١٦ (٣٨٨٢) ، سنن الترمذی/الطب ٢٧ (٢٠٧٦، ٢٠٧٧) ، سنن النسائی/النکاح ٥٤ (٣٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الرضاع ٣ (١٦) ، مسند احمد (/٣٦١، ٤٣٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٣ (٢٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زمانہ رضاعت میں بیوی سے جماع کرنے کا نام غیل ہے، عربوں کا عقیدہ تھا کہ یہ بچے کے لیے نقصان دہ ہے، اس سے اس کے اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے، اور یہ نقص اس میں پوری زندگی رہتا ہے، جس کے نتیجہ میں بسا اوقات انسان گھوڑے سے نیچے گرپڑتا ہے، اور گھوڑے کی پیٹھ پر ثابت نہیں رہ پاتا، اس حدیث میں عربوں کے اسی عقیدے کا ابطال ہے۔ عزل یہ ہے مرد عورت سے جماع کرے اور جب انزال کے قریب پہنچے تو عضو تناسل کو عورت کی شرمگاہ سے باہر نکال کر انزال کرے۔ وأدخفی کا مطلب یہ ہے کہ یہ حقیقۃً تو قبر میں نہیں دفناتا لیکن اس کے مشابہ ہے کیونکہ اس میں بھی حمل کو روکنے اور ضائع کرنے کی کوشش ہوتی ہے، لیکن چونکہ یہ حقیقی زندہ بچے کو نہیں مارتا اس لیے یہ حقیقی طور پر زندہ گاڑنا نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 2011 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ جُدَامَةَ بِنْتِ وَهْبٍ الْأَسَدِيَّةِ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَدْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْهَى عَنِ الْغِيَالِ فَإِذَا فَارِسُ وَالرُّومُ يُغِيلُونَ فَلَا يَقْتُلُونَ أَوْلَادَهُمْ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: وَسُئِلَ عَنِ الْعَزْلِ، فَقَالَ: هُوَ الْوَأْدُ الْخَفِيُّ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১২
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ دودھ پلانے کی حالت میں جماع کرنا؟
اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اپنی اولاد کو خفیہ طور پر قتل نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے غیل سوار کو گھوڑے کی پیٹھ پر سے گرا دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ١٦ (٣٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥٣، ٤٥، ٤٥٨) (حسن) (المشکاة و تراجع الألبانی : رقم : ٣٩٧ و صحیح ابن ماجہ : ١٦٤٨ )
حدیث نمبر: 2012 حدثنا هشام بن عمار حدثنا يحيى بن حمزة عن عمرو بن مهاجر أنه سمع أباه المهاجر بن أبي مسلم يحدث عن أسماء بنت يزيد بن السكن وكانت مولاته أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا تقتلوا أولادكم سرا فوالذي نفسي بيده إن الغيل ليدرك الفارس على ظهر فرسه حتى يصرعه».
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১৩
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جوخاتون اپنے شوہر کو تکلیف پہنچائے۔
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ دو بچے تھے، ایک کو وہ گود میں اٹھائے ہوئی تھی اور دوسرے کو کھینچ رہی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بچوں کو اٹھانے والی، انہیں جننے والی، اور ان پر شفقت کرنے والی عورتیں اگر اپنے شوہروں کو تکلیف نہ دیتیں تو جو ان میں سے نماز کی پابند ہیں جنت میں جاتیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٨٦٥، ومصباح الزجاجة : ٧١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٢، ٢٥٧، ٢٦٨) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے کیونکہ سالم بن ابی جعد کا سماع أبی امامہ سے ثابت نہیں ہے )
حدیث نمبر: 2013 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مَعَهَا صَبِيَّانِ لَهَا قَدْ حَمَلَتْ أَحَدَهُمَا وَهِيَ تَقُودُ الْآخَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَامِلَاتٌ وَالِدَاتٌ رَحِيمَاتٌ لَوْلَا مَا يَأْتِينَ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ دَخَلَ مُصَلِّيَاتُهُنَّ الْجَنَّةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১৪
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جوخاتون اپنے شوہر کو تکلیف پہنچائے۔
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی عورت اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو حورعین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے : اللہ تجھے ہلاک کرے، اسے تکلیف نہ دے، وہ تیرے پاس چند روز کا مہمان ہے، عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آجائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرضاع ١٩ (١١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سچ ہے دنیا کی قرابت اور رشتہ داری سب چند روزہ ہے، حقیقت میں ہماری بیوی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے جنت میں ہمارے لئے رکھی ہے۔
حدیث نمبر: 2014 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْكَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا، إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُهُ: مِنَ الْحُورِ الْعِينِ لَا تُؤْذِيهِ قَاتَلَكِ اللَّهُ، فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكِ دَخِيلٌ أَوْشَكَ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০১৫
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ حرام حلال کو حرام نہیں کرتا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حرام کام حلال کو حرام نہیں کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٧٣٦، ومصباح الزجاجة : ٧١٥) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : ا لضعیفہ : ٣٨٥ - ٣٨٨ )
حدیث نمبر: 2015 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُعَلَّى بْنِ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ.
তাহকীক: