কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
نکاح کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১৭২ টি
হাদীস নং: ১৯৮৪
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کو مارنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ کسی خادم کو اپنے ہاتھ سے مارا، نہ کسی عورت کو، اور نہ کسی بھی چیز کو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٠ (٢٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٦٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأدب ٥ (٤٧٨٦) ، مسند احمد (٦/٢٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٤ (٢٢٦٤) (صحیح )
حدیث نمبر: 1984 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَادِمًا لَهُ، وَلَا امْرَأَةً، وَلَا ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৮৫
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کو مارنا
ایاس بن عبداللہ بن ابی ذباب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی بندیوں کو نہ مارو ، تو عمر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! عورتیں اپنے شوہروں پہ دلیر ہوگئی ہیں، لہٰذا انہیں مارنے کی اجازت دیجئیے (چنانچہ آپ ﷺ نے اجازت دے دی) تو ان کو مار پڑی، اب بہت ساری عورتیں محمد ﷺ کے گھرانے کا چکر کاٹنے لگیں، جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : آل محمد کے گھر آج رات ستر عورتیں آئیں، ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھی، تو تم انہیں (زیادہ مارنے والے مردوں کو) بہتر لوگ نہ پاؤ گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٤٣ (٢١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/النکاح ٣٤ (٢٦٦٥) (حسن) (تراجع الألبانی : رقم : ٢٣٤ )
حدیث نمبر: 1985 أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَضْرِبُوا إِمَاءَ اللَّهِ، فَجَاءَ عُمَرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ ذَئِرَ النِّسَاءُ عَلَى أَزْوَاجِهِنَّفَأْمُرْ بِضَرْبِهِنَّ، فَضُرِبْنَ فَطَافَ بِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَائِفُ نِسَاءٍ كَثِيرٍ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: لَقَدْ طَافَ اللَّيْلَةَ بِآلِ مُحَمَّدٍ سَبْعُونَ امْرَأَةً كُلُّ امْرَأَةٍ تَشْتَكِي زَوْجَهَا، فَلَا تَجِدُونَ أُولَئِكَ خِيَارَكُمْ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৮৬
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بیویوں کو مارنا
اشعث بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک رات عمر (رض) کا مہمان ہوا، جب آدھی رات ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو مارنے لگے، تو میں ان دونوں کے بیچ حائل ہوگیا، جب وہ اپنے بستر پہ جانے لگے تو مجھ سے کہا : اشعث ! وہ بات جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تم اسے یاد کرلو : شوہر اپنی بیوی کو مارے تو قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال نہیں کیا جائے گا، اور وتر پڑھے بغیر نہ سوؤ اور تیسری چیز آپ نے کیا کہی میں بھول گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٤٣ (٢١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠) (ضعیف) (یہ سند عبدالرحمن مسلمی کی وجہ سے ضعیف ہے، جو اس حدیث کے علاوہ کی دوسری حدیث کی روایت میں غیر معروف ہیں، اور داود بن عبد اللہ اودی روایت میں منفرد ہیں ) اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
حدیث نمبر: 1986 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، والْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ الطَّحَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُسْلِيِّ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: ضِفْتُ عُمَرَ لَيْلَةً، فَلَمَّا كَانَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى امْرَأَتِهِ يَضْرِبُهَا، فَحَجَزْتُ بَيْنَهُمَا، فَلَمَّا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ، قَالَ لِي: يَا أَشْعَثُ احْفَظْ عَنِّي شَيْئًا سَمِعْتُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ، وَلَا تَنَمْ إِلَّا عَلَى وِتْرٍ، وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৮৭
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بالوں میں جوڑا لگانا اور گودنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بالوں کو جوڑنے اور جڑوانے والی، گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي أسامہ تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٨٧٤) ، وحدیث عبد اللہ بن نمیر أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٣ (٥٩٣٧) ، ٨٥ (٥٩٤٠) ، ٨٧ (٥٩٤٧) ، سنن ابی داود/الترجل ٥ (٤١٦٨) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٥ (١٧٥٩) ، الأدب ٣٣ (٢٧٨٤) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ١٧ (٥٢٥٣) ، مسند احمد (٢/٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بال جوڑنے سے مراد یہ ہے کہ پرانے بال لے کر اپنے سر کے بالوں میں لگائے، جیسا بعض عورتوں کی عادت ہوتی ہے، اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سر کے بال زیادہ معلوم ہوں، امام نووی کہتے ہیں : ظاہر احادیث سے اس کی حرمت نکلتی ہے، اور بعضوں نے اس کو مکروہ کہا ہے، بعضوں نے شوہر کی اجازت سے جائز رکھا ہے اور گودنا بالاتفاق حرام ہے۔
حدیث نمبر: 1987 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَأَنَّهُ لَعَنَ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৮৮
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بالوں میں جوڑا لگانا اور گودنا کیسا ہے؟
اسماء (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری بیٹی دلہن ہے، اور اسے چیچک کا عارضہ ہوا جس سے اس کے بال جھڑ گئے، کیا میں اس کے بال میں جوڑ لگا دوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے بالوں کو جوڑنے والی اور جو ڑوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٣ (٥٩٤١) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٢) ، سنن النسائی/الزینة ٢٢ (٥٠٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١١، ٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٣) (صحیح )
حدیث نمبر: 1988 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَتِي عُرَيِّسٌ، وَقَدْ أَصَابَتْهَا الْحَصْبَةُ، فَتَمَرَّقَ شَعْرُهَا فَأَصِلُ لَهَا فِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৮৯
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بالوں میں جوڑا لگانا اور گودنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں، بال اکھیڑنے والیوں، خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں، اور اللہ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے، قبیلہ بنو اسد کی ام یعقوب نامی ایک عورت کو یہ حدیث پہنچی تو وہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہنے لگی : مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ ایسا ایسا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے، اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے، وہ کہنے لگی : میں پورا قرآن پڑھتی ہوں، لیکن اس میں مجھے یہ نہ ملا، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اگر تم پڑھتی ہوتی تو ضرور پاتی، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی : وما آتاکم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا رسول تمہیں جو دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے باز آ جاؤ اس عورت نے کہا : ضرور پڑھی ہے تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع کیا ہے، وہ عورت بولی : میرا خیال ہے کہ تمہاری بیوی بھی ایسا کرتی ہوگی، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : جاؤ دیکھو، چناچہ وہ اسے دیکھنے کے لیے گئی تو اس نے کوئی بات اپنے خیال کے مطابق نہیں پائی، تب کہنے لگی : میں نے تمہاری بیوی کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہی تھیں تو وہ کبھی میرے ساتھ نہ رہتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورةالحشر ٤ (٤٨٨٦) ، اللباس ٨٢ (٥٩٣١) ، ٨٤ (٥٩٣٩) ، ٨٥ (٥٩٤٣) ، ٨٦ (٥٩٤٤) ، ٨٧ (٥٩٤٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٥) ، سنن ابی داود/الترجل ٥ (٤١٦٩) ، سنن الترمذی/الادب ٣٣ (٢٧٨٢) ، سنن النسائی/الزینة ٢٤ (٥١٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٩، ٤١٥، ٤٢٤، ٤٤٨، ٤٥٤، ٤٦٢، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/الاستذان ١٩ (٢٦٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تو وہ کبھی میرے ساتھ نہ رہتی کا مطلب ہے کہ میں اسے طلاق دے دیتا۔
حدیث نمبر: 1989 حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ لِخَلْقِ اللَّهِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ، يُقَالُ لَهَا: أُمُّ يَعْقُوبَ، فَجَاءَتْ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: بَلَغَنِي عَنْكَ، أَنَّكَ قُلْتَ: كَيْتَ وَكَيْتَ، قَالَ: وَمَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، قَالَتْ: إِنِّي لَأَقْرَأُ مَا بَيْنَ لَوْحَيْهِ، فَمَا وَجَدْتُهُ، قَالَ: إِنْ كُنْتِ قَرَأْتِهِ فَقَدْ وَجَدْتِهِ أَمَا قَرَأْتِ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا سورة الحشر آية 7، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْهُ، قَالَتْ: فَإِنِّي لَأَظُنُّ أَهْلَكَ يَفْعَلُونَ، قَالَ: اذْهَبِي فَانْظُرِي، فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ، فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولِينَ مَا جَامَعَتْنَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯০
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کن دنوں میں اپنی ازواج سے صحبت کرنا مستحب ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے شوال میں شادی کی اور شوال ہی میں ملن بھی کیا، پھر کون سی بیوی آپ کے پاس مجھ سے زیادہ نصیب والی تھی، اور عائشہ (رض) اپنے یہاں کی عورتوں کو شوال میں (ان کے شوہروں کے پاس) بھیجنا پسند کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١١ (١٤٢٣) ، سنن الترمذی/النکاح ٩ (١٠٩٣) ، سنن النسائی/النکاح ١٨ (٣٢٣٨) ، ٧٧ (٣٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٤، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٢٨ (٢٢٥٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 1990 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ، فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِي شَوَّالٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯১
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کن دنوں میں اپنی ازواج سے صحبت کرنا مستحب ہے۔
ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے شوال میں شادی کی اور ان سے شوال ہی میں ملن بھی کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٢٨٢، ١٨٢٣٠، ومصباح الزجاجة : ٧٠٦) (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ سند میں ارسال ہے، عبدالملک بن الحارث+بن+ہشام یہ عبدالملک+بن+ابی+بکر بن الحارث+بن+ہشام المخزومی ہیں جیسا کہ طبقات ابن+سعد میں ہے، ٨ /٩٤-٩٥، اور یہ ثقہ تابعی ہیں، اسی طرح ابوبکر ثقہ تابعی ہیں، اور یہ حدیث ابوبکر کی ہے، نہ کہ ان کے دادا حارث+بن+ہشام کی، اور عبداللہ+بن+ابی+بکر یہ ابن+محمد عمرو+بن+حزم الانصاری ہیں، جو اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، اور ان سے ابن+اسحاق روایت کرتے ہیں، ابوبکر کی وفات 120 ھ میں ہوئی، اور ان کے شیخ عبدالملک کی وفات 125 ھ میں ہوئی، اس لیے یہ حدیث ابوبکر عبدالرحمٰن بن الحارث+بن+ہشام سے مرسلاً روایت ہے، ان کے دادا حارث+بن+ہشام سے نہیں، اس میں امام مزی وغیرہ کو وہم ہوا ہے، نیز سند میں ابن+اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن ابن سعد کی روایت میں تحدیث کی تصریح ہے، اور موطا امام+مالک میں ( ٢ / ٦٥٠) میں ثابت ہے کہ ابوبکر+بن+عبدالرحمٰن نے اس حدیث کو ام+سلمہ رضی+اللہ+عنہا سے لیا ہے، اس لیے یہ حدیث صحیح ہے، اسی وجہ سے شیخ البانی نے تفصیلی تحقیق کے بعد اس حدیث کو الضعیفہ ( ٤٣٥٠ ) سے منتقل کرنے کی بات کہی ہے، ، فالحدیث صحیح ینقل الی الکتاب الأخر ۔ ١٩٩ وضاحت : ١ ؎: شوال کا مہینہ عید اور خوشی کا مہینہ ہے، اس وجہ سے اس میں نکاح کرنا بہتر ہے، عہد جاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے، رسول اکرم ﷺ نے ان کے خیال کو غلط ٹھہرایا اور اس مہینہ میں نکاح کیا، اور دخول بھی اسی مہینے میں کیا، گو ہر ماہ میں نکاح جائز ہے مگر جس مہینہ کو عوام بغیر دلیل شرعی کے عورتوں کی تقلید سے یا کافروں اور فاسقوں کی تقلید سے منحوس سمجھیں اس میں نکاح کرنا چاہیے، تاکہ عوام کے دل سے یہ غلط عقیدہ نکل جائے، شرع کی رو سے شوال، محرم یا صفر کا مہینہ کوئی منحوس نہیں ہے، اس لیے بےکھٹکے ان مہینوں میں نکاح کرنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 1991 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَةَ فِي شَوَّالٍ وَجَمَعَهَا إِلَيْهِ فِي شَوَّالٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯২
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ مرد اپنی بیوی سے کوئی چیز دینے سے قبل دخول کرے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے پاس اس کی بیوی کو بھیج دیں اس سے پہلے کہ شوہر نے اس کو کوئی چیز دی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٦ (٢١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٩) (ضعیف) (سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی ضعیف ہیں، اور خیثمہ کا ام المؤمنین عائشہ (رض) سے سماع بھی محل نظر ہے، ملاحظہ ہو : تہذیب التہذیب ٣ / ١٧٩ )
حدیث نمبر: 1992 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مَنْصُورٍ أًظَنَّهُ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْعَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهَا أَنْ تُدْخِلَ عَلَى رَجُلٍ امْرَأَتَهُ قَبْلَ أَنْ يُعْطِيَهَا شَيْئًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯৩
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کونسی چیز منحوس ہے اور کونسی مبارک ہوتی ہے؟
مخمر بن معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : نحوست کوئی چیز نہیں، تین چیزوں میں برکت ہوتی ہے : عورت، گھوڑا اور گھر میں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٣، ومصباح الزجاجة : ٧٠٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 1993 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُلَيْمٍ الْكَلْبِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ، عَنْحَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَمِّهِ مِخْمَرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا شُؤْمَ وَقَدْ يَكُونُ الْيُمْنُ فِي ثَلَاثَةٍ فِي الْمَرْأَةِ، وَالْفَرَسِ وَالدَّارِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯৪
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کونسی چیز منحوس ہے اور کونسی مبارک ہوتی ہے؟
سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ (یعنی نحوست) ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٧ (٢٨٦٠) ، النکاح ١٨ (٥٠٩٥) ، صحیح مسلم/السلام ٣٤ (٢٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الإستئذان ٨ (٢١) ، مسند احمد (٥/٣٣٥، ٣٣٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 1994 حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنْ كَانَ فَفِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالْمَسْكَنِ يَعْنِي الشُّؤْمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯৫
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کونسی چیز منحوس ہے اور کونسی مبارک ہوتی ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نحوست تین چیزوں میں ہے : گھوڑے، عورت اور گھر میں ١ ؎۔ زہری کہتے ہیں : مجھ سے ابوعبیدہ نے بیان کیا کہ ان کی دادی زینب نے ان سے بیان کیا، اور وہ ام سلمہ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ وہ ان تین چیزوں کو گن کر بتاتی تھیں اور ان کے ساتھ تلوار کا اضافہ کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد اللہ بن عمر أخرجہ : صحیح مسلم/الطب ٣٤ (٢٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٦٤) ، وحدیث أم سلمةٰ ، تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٤٧ (٢٨٥٨) ، النکاح ١٧ (٥٠٩٣) ، الطب ٤٣ (٥٧٥٣) ، سنن ابی داود/الطب ٢٤ (٣٩٢٢) ، سنن النسائی/الخیل ٥ (٣٥٩٩) ، سنن الترمذی/الادب ٥٨ (٢٨٢٤) ، موطا امام مالک/الإستئذان ٨ (٢٢) ، مسند احمد (٢/٨، ٣٦، ١١٥، ١٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: الشوم فى ثلاث (نحوست کے تین چیزوں میں متحقق ہونے) سے متعلق احادیث کے مقابلہ میں إن کان الشؤم (اگر نحوست ہوتی تو تین چیزوں میں ہوتی) کا لفظ کثرت روایت اور معنی کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے، اس لئے کہ اسلام میں کوئی چیز شؤم ونحوست کی نہیں، اس لئے البانی صاحب نے الشؤم فى ثلاثة والی احادیث کو شاذ قرار دیا ہے، اور شرط کے ساتھ وارد متعدد احادیث کو روایت اور معنی کے اعتبار سے صحیح قرار دیا ہے : (ملاحظہ ہو : الصحیحۃ : ٤ /٤٥٠-٤٥١ )
حدیث نمبر: 1995 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثٍ فِي الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالدَّارِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَحَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، أَنَّ جَدَّتَهُ زَيْنَبَ حَدَّثَتْهُ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَعُدُّ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةَ، وَتَزِيدُ مَعَهُنَّ السَّيْف.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯৬
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ غیرت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بعض غیرت اللہ کو پسند ہے اور بعض ناپسند، جو غیرت اللہ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ شک و تہمت کے مقام میں غیرت کرے، اور جو غیرت ناپسند ہے وہ غیر تہمت و شک کے مقام میں غیرت کرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٨، ومصباح الزجاجة : ٧٠٩) (صحیح) (اس کی سند میں أبی سھم مجہول ہے لیکن یہ حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : ابوداود : ٢٦٥٩ و نسائی و احمد : ٥ /٤٤٥ - ٤٤٦ و الإرواء : ١٩٩٩ ) وضاحت : ١ ؎: یہ وقت ایسا ہے کہ اللہ کی پناہ، بدمعاش لوگ کسی نیک بخت عورت کی نسبت ایک جھوٹی تہمت لگا دیتے ہیں تاکہ اس کا شوہر غیرت میں آ کر کوئی کام کر بیٹھے، اس کا گھر تباہ و برباد ہو، حسد کرنے والوں کو اس میں خوشی ہوتی ہے، یہ وقت بڑے تحمل اور استقلال کا ہے، انسان کو اس میں سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیے، جلدی ہرگز نہ کرنی چاہیے، اور شریعت کے مطابق گواہی لینی چاہیے، اگر ایسے سچے اور نیک گواہوں کی گواہی نہ ملے تو سمجھ لے کہ یہ حاسدوں اور دشمنوں کا فریب ہے، جو اس کا گھر تباہ کرنا چاہتے تھے، اللہ پاک حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے بچائے، نبی اکرم ﷺ کو بھی ایذادہی سے نہ چھوڑا، ام المؤمنین عائشہ (رض) پر جھوٹی تہمت باندھی، طوفان اٹھایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو جھٹلایا اور ام المؤمنین عائشہ (رض) کی براءت ان کے سامنے نازل کی جس کی تلاوت قیامت تک کی جاتی رہے گی۔
حدیث نمبر: 1996 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَيْبَانَ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَهْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ، وَمِنْهَا مَا يَكْرَهُ اللَّهُ، فَأَمَّا مَا يُحِبُّ، فَالْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ، وَأَمَّا مَا يَكْرَهُ، فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯৭
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ غیرت کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے جتنی غیرت خدیجہ (رض) پر کی اتنی کسی عورت پر نہیں کی کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ اکثر ان کا ذکر کیا کرتے تھے، اور آپ ﷺ کے رب نے آپ کو حکم دیا کہ انہیں جنت میں موتیوں کے ایک مکان کی بشارت دے دیں، یعنی سونے کے مکان کی، یہ تشریح ابن ماجہ نے کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف : ١٧٠٩٦) ، وقد أخر جہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٠ (٣٨١٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٢ (٢٤٣٤) ، سنن الترمذی/البروالصلة ٧٠ (٢٠١٧) ، المناقب ٦٢ (٣٨٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نہ اس میں غل ہے نہ شور، جیسے دوسری روایت میں ہے کہ ام المؤمنین خدیجہ (رض) آپ ﷺ کی سب سے پہلی بیوی تھیں، آپ ﷺ کی تمام اولاد سوائے ابراہیم کے انہی کے مبارک بطن سے ہوئی، اور انہوں نے اپنا سارا مال و اسباب آپ ﷺ پر نثار کیا، اور سب سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لائیں، ان کے فضائل بہت ہیں، وہ آپ ﷺ کی ساری بیویوں میں سب سے افضل ہیں، اور سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء (رض) کی والدہ ہیں۔
حدیث نمبر: 1997 حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ قَطُّ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ مِمَّا رَأَيْتُ مِنْ ذِكْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا، وَلَقَدْ أَمَرَهُ رَبُّهُ، أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ يَعْنِي مِنْ ذَهَبٍ، قَالَهُ ابْن مَاجَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯৮
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ غیرت کا بیان
مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب (رض) سے کردیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ علی بن ابی طالب (رض) میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٥ (٣١١١) ، المناقب ١٢ (٣٧١٤) ، النکاح ١٠٩ (٥٢٣٠) ، الطلاق ١٣ (٥٢٧٨) صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٧ (٢٤٤٩) ، سنن ابی داود/النکاح ١٣ (٢٠٧١) ، سنن الترمذی/المناقب ٦١ (٣٨٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٣، ٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علی (رض) نے فاطمہ (رض) کے موجود ہوتے ہوئے، ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنی چاہی تو آپ ﷺ نے یہ فرمایا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی، رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ نہیں رہ سکتیں یہ سن کر علی (رض) نے یہ شادی نہیں کی، اور فاطمہ (رض) کی زندگی تک کسی اور عورت سے شادی نہیں کی، ان کی وفات کے بعد ابوجہل کی بیٹی سے اور دوسری کئی عورتوں سے شادی کی۔
حدیث نمبر: 1998 حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي، أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَلَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ إِلَّا، أَنْ يُرِيدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ، فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيبُنِي مَا رَابَهَا، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৯৯৯
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ غیرت کا بیان
مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب (رض) نے ابوجہل کی بیٹی کو پیغام دیا جب کہ ان کے عقد میں نبی اکرم ﷺ کی صاحب زادی فاطمہ (رض) موجود تھیں، فاطمہ (رض) نے یہ خبر سنی تو نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : آپ کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا، اب علی (رض) ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ مسور کہتے ہیں : یہ خبر سن کر نبی اکرم ﷺ (منبر پر) کھڑے ہوئے، جس وقت آپ نے خطبہ پڑھا میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا : امابعد، میں نے اپنی بیٹی زینب کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کیا، انہوں نے جو بات کہی تھی اس کو سچ کر دکھایا ١ ؎ میری بیٹی فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، اور مجھے ناپسند ہے کہ تم لوگ اسے فتنے میں ڈالو، قسم اللہ کی، اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی دونوں ایک شخص کے نکاح میں کبھی اکٹھی نہ ہوں گی، یہ سن کر علی (رض) شادی کے پیغام سے باز آگئے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کفر کے باوجود انہوں نے زینب (رض) کو بھیجنے کا وعدہ کیا تھا پھر بھیج دیا۔ ٢ ؎: یعنی علی (رض) نے یہ شادی نہیں کی، اور شادی کیوں کرتے آپ تو نبی اکرم ﷺ کے جاں نثار اور آپ کی مرضی کے تابع تھے، اس واقعہ کی وجہ سے علی (رض) پر کوئی طعن نہیں ہوسکتا جیسے خوارج کیا کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے لاعلمی میں یہ خیال کر کے کہ ہر مرد کو چار شادی کا حق ہے، یہ پیغام دیا تھا، جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ رسول اکرم ﷺ کی مرضی کے خلاف ہے تو فوراً اس سے رک گئے۔
حدیث نمبر: 1999 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ وَعِنْدَهُ فَاطِمَةُ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ قَوْمَكَ يَتَحَدَّثُونَ، أَنَّكَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ، وَهَذَا عَلِيٌّ نَاكِحًا ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، قَالَ الْمِسْوَرُ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي قَدْ أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ، فَحَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَإِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ بَضْعَةٌ مِنِّي وَأَنَا أَكْرَهُ أَنْ تَفْتِنُوهَا، وَإِنَّهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا، قَالَ: فَنَزَلَ عَلِيٌّ عَنِ الْخِطْبَةِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০০
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس نے اپنا نفس (جان) ہبہ کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی تھیں کیا عورت اس بات سے نہیں شرماتی کہ وہ اپنے آپ کو نبی اکرم ﷺ کے لیے ہبہ کر دے ؟ ! تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء جس کو تو چاہے اپنی عورتوں میں سے اپنے سے جدا کر دے اور جس کو چاہے اپنے پاس رکھے (سورة الأحزاب : 51) تب میں نے کہا : آپ کا رب آپ کی خواہش پر حکم نازل کرنے میں جلدی کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الأحزاب (٤٧٨٨) ، النکاح ٢٩ (٥١١٣) تعلیقاً ، صحیح مسلم/الرضاع ١٤ (١٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/النکاح ٦٩ (٣٣٦١) ، مسند احمد (٦/١٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ام المؤمنین عائشہ (رض) کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ عورتیں شرم کریں، اور اپنے آپ کو رسول اکرم ﷺ کو ہبہ نہ کریں اس لئے کہ آپ ﷺ کی بیویاں بہت ہوجائیں گی تو باری ہر ایک کی دیر میں آئے گی، اب اختلاف ہے کہ جس عورت نے اپنے آپ کو آپ ﷺ پر ہبہ کردیا تھا، اس کا نام کیا تھا، بعض کہتے ہیں میمونہ، بعض ام شریک، بعض زینب بنت خزیمہ، بعض خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہن واللہ اعلم
حدیث نمبر: 2000 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ، تَقُولُ: أَمَا تَسْتَحِي الْمَرْأَةُ أَنْ تَهَبَ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ سورة الأحزاب آية 51، قَالَتْ: فَقُلْتُ: إِنَّ رَبَّكَ لَيُسَارِعُ فِي هَوَاكَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০১
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس نے اپنا نفس (جان) ہبہ کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔
ثابت کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک (رض) کے ساتھ بیٹھے تھے، ان کے پاس ان کی ایک بیٹی تھی، انس (رض) نے کہا : ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور خود کو آپ پر پیش کیا اور بولی : کیا آپ کو میری حاجت ہے ؟ یہ سن کر انس (رض) کی بیٹی بولی : اس کو کتنی کم حیاء ہے ! اس پر انس (رض) نے کہا : وہ تجھ سے بہتر ہے، اس نے رسول اللہ ﷺ میں رغبت کی، اس لیے خود کو آپ پر پیش کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٣٢ (٥١٢٠) ، الأدب ٧٩ (٦١٢٣) ، سنن النسائی/النکاح ٢٥ (٣٢٥١) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 2001 حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَعِنْدَهُ ابْنَةٌ لَهُ، فَقَالَ أَنَسٌ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِيَّ حَاجَةٌ؟، فَقَالَتِ ابْنَتُهُ: مَا أَقَلَّ حَيَاءَهَا، قَالَ: هِيَ خَيْرٌ مِنْكِ رَغِبَتْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَيْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০২
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کسی شخص کا اپنا لڑکے (نسب) میں شک کرنا۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا بچہ جنا ہے ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے رنگ کیا ہیں ؟ اس نے کہا : سرخ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، ان میں خاکی رنگ کے بھی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں خاکی رنگ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا : کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا : یہاں بھی (تیرے لڑکے میں) کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہوگا ١ ؎۔ یہ الفاظ محمد بن صباح کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٥٠٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٨ (٢٢٦٠) ، سنن الترمذی/الولاء ٤ (٢١٢٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٤٦ (٣٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢٦ (٥٣٠٥) ، الحدود ٤١ (٦٨٤٧) ، الاعتصام ١٢ (٧٣١٤) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٢٣٩، ٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ اونٹوں کی قدیم نسل میں کوئی دوسرے رنگ کا ہوگا، پھر یہی رنگ کئی پشت کے بعد ان کی نئی نسل میں ظاہر ہوا، اب موجودہ اونٹ جو پرانی نسل کے ہیں وہ خالص سرخ تھے، چت کبرے نہ تھے، پس اسی طرح ہوسکتا ہے کہ انسان کی اولاد میں بھی ماں باپ کے خلاف دوسرا رنگ ظاہر ہو، اور اس کی وجہ یہ ہو کہ ماں باپ کے دادا پردادا میں کوئی کالا بھی ہو اور وہ رنگ اب ظاہر ہوا ہو، حاصل یہ ہے کہ بچے کے گورے یا کالے رنگ یا نقشے کے اختلاف کی وجہ سے یہ شبہ نہ کرنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 2002 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَلْوَانُهَا؟، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ، قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: فَأَنَّى أَتَاهَا ذَلِكَ، قَالَ: عَسَى عِرْقٌ نَزَعَهَا، قَالَ: وَهَذَا لَعَلَّ عِرْقًا نَزَعَهُ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الصَّبَّاحِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০০৩
نکاح کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کسی شخص کا اپنا لڑکے (نسب) میں شک کرنا۔
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک بدوی (دیہاتی) نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا لڑکا جنا ہے، اور ہم ایک ایسے گھرانے کے ہیں جس میں کبھی کوئی کالا نہیں ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے پوچھا : ان کے رنگ کیا ہیں ؟ اس نے کہا : سرخ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں کوئی سیاہ بھی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا : ہوسکتا ہے کہ اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو آپ ﷺ نے فرمایا : پھر شاید تمہارے اس بچے کا بھی یہی حال ہو کہ اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٦٤٣، ومصباح الزجاجة : ١١٧) (حسن صحیح )
حدیث نمبر: 2003 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ كُلَيْبٍ اللَّيْثِيُّ أَبُو غَسَّانَ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَر، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ عَلَى فِرَاشِي غُلَامًا أَسْوَدَ، وَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ لَمْ يَكُنْ فِينَا أَسْوَدُ قَطُّ، قَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَلْوَانُهَا، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: هَلْ فِيهَا أَسْوَدُ، قَالَ: لَا، قَالَ: فِيهَا أَوْرَقُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنَّى كَانَ ذَلِكَ، قَالَ: عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ: فَلَعَلَّ ابْنَكَ هَذَا نَزَعَهُ عِرْقٌ.
তাহকীক: