কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
زکوۃ کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৬২ টি
হাদীস নং: ১৮০৩
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گائے بیل کی زکوة
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن بھیجا، اور حکم دیا کہ ہر چالیس گائے میں ایک مسنة لوں، اور ٣٠ تیس گائے میں ایک تبیع یا تبیعہ لوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٧٧) ، سنن الترمذی/الزکاة ٥ (٦٢٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٨ (٢٤٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١٢ (٢٤) ، مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٣، ٢٤٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٥ (١٦٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسنة ایسی گائے جو دو سال پورے کر کے تیسرے میں داخل ہوگئی ہو۔ اور اس کے سامنے والے دانت گر کر دوبارہ نکل آئے ہوں۔ ٢ ؎:تبیع گائے کا وہ بچھڑا جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں داخل ہوگیا ہو۔ ٣ ؎: تبیعہ گائے کی وہ بچھڑی جو ایک سال پورے کر کے دوسرے میں داخل ہوگئی ہو۔
حدیث نمبر: 1803 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عِيسَى الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً، وَمِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا، أَوْ تَبِيعَةً .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮০৪
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گائے بیل کی زکوة
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تیس گائے میں ایک تبیع یا ایک تبیعہ اور چالیس میں ایک مسنة ہے تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٥ (٦٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١١) (صحیح )
حدیث نمبر: 1804 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خَصِيفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فِي ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعٌ، أَوْ تَبِيعَةٌ، وَفِي أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮০৫
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بکر یوں کی زکوة
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم نے ایک تحریر پڑھائی جو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کے سلسلے میں اپنی وفات سے پہلے لکھوائی تھی، اس تحریر میں میں نے لکھا پایا : چالیس سے ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ١٢٠ سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو اس میں دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر ٢٠٠ سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو اس میں ٣٠٠ تک تین بکریاں ہیں، اور اگر اس سے بھی زیادہ ہو تو ہر سو میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور میں نے اس میں یہ بھی پایا : متفرق مال اکٹھا نہ کیا جائے، اور اکٹھا مال متفرق نہ کیا جائے ، اور اس میں یہ بھی پایا : زکاۃ میں جفتی کے لیے مخصوص بکرا، بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٦٨) ، سنن الترمذی/الزکاة ٤ (٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٣٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١١ (٢٣) ، مسند احمد (٢/١٤، ١٥) ، سنن الدارمی/الزکاة ٤ (١٦٦٦) (صحیح )
حدیث نمبر: 1805 حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَقْرَأَنِي سَالِمٌ كِتَابًا كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّدَقَاتِ قَبْلَ أَنْ يَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَوَجَدْتُ فِيهِ فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ، إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِذَا كَثُرَتْ، فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، وَوَجَدْتُ فِيهِ لَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَوَجَدْتُ فِيهِ لَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ تَيْسٌ، وَلَا هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮০৬
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بکر یوں کی زکوة
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کی زکاۃ ان کے پانی پلانے کی جگہوں میں لی جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٦٧٣٤، ومصباح الزجاجة : ٦٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٤) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٧٧٩ ) وضاحت : ١ ؎: ہر ایک اپنے جانوروں کو اپنی بستی میں پانی پلاتا ہے تو مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کرنے والا ان کی بستیوں میں جا کر زکاۃ وصول کرے گا یہ نہ ہوگا کہ وہ اپنی بستیوں کے باہر زکاۃ دینے کے لئے بلائے جائیں، یہ بھی رعایا پر ایک شفقت ہے، پانی کے گھاٹ پر جانوروں کے زکاۃ وصول کرنے کا محصل کو فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہاں تمام ریوڑ اور ہر ریوڑ کے تمام جانور پانی پینے کے لیے جمع ہوتے ہیں، گنتی میں آسانی رہتی ہے، جب کہ چراگاہوں میں جانور بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور وہاں ان کا شمار کرنا مشکل ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 1806 حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تُؤْخَذُ صَدَقَاتُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى مِيَاهِهِمْ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮০৭
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بکر یوں کی زکوة
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چالیس سے لے کر ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ایک سو بیس سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر دو سو سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو تین سو تک تین بکریاں ہیں، اور اگر تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری ہے، اور جو جانور اکٹھے ہوں انہیں زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ نہ کیا جائے، اور نہ ہی جو الگ الگ ہوں انہیں اکٹھا کیا جائے، اور اگر مال میں دو شخص شریک ہوں تو دونوں اپنے اپنے حصہ کے موافق زکاۃ پوری کریں ١ ؎، اور زکاۃ میں عامل زکاۃ کو بوڑھا، عیب دار اور جفتی کا مخصوص بکرا نہ دیا جائے، الا یہ کہ عامل زکاۃ خود ہی لینا چاہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٥٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں، اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ہیں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں، زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں، اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جن میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ٢٥ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی، اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا، اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے دس بکریاں لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ ادا کرے گا۔ ٢ ؎: یعنی جب کسی مصلحت کی وجہ سے محصل (زکاۃ وصول کرنے والا) کسی عیب دار یا بوڑھے یا نر جانور کو لینا چاہے تو صاحب مال پر کوئی زور نہیں کہ وہ دے ہی دے اور محصل کی مرضی کے بغیر اس قسم کے جانور کو زکاۃ میں دینا منع ہے، مصلحت یہ ہے کہ مثلاً عیب دار جانور قوی اور موٹا ہو، دودھ کی زیادہ توقع ہو، یا زکاۃ کے جانور سب مادہ ہوں، ان میں نر کی ضرورت ہو تو نر قبول کرے یا بوڑھا جانور ہو لیکن عمدہ نسل کا ہو تو اس کو قبول کرے۔ واللہ اعلم۔
حدیث نمبر: 1807 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِنْ زَادَتْ، فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، لَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَكُلُّ خَلِيطَيْنِ يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَيْسَ لِلْمُصَدِّقِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَيْسٌ، إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮০৮
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زکوة وصول کرنے والوں کے احکا م
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زکاۃ لینے میں زیادتی کرنے والا زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٨٥) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٩ (٦٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٧) (حسن) (ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ١٤١٣ )
حدیث نمبر: 1808 حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِهَا .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮০৯
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زکوة وصول کرنے والوں کے احکا م
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : حق و انصاف کے ساتھ زکاۃ وصول کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، جب تک کہ لوٹ کر اپنے گھر واپس نہ آجائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخراج والإمارة ٧ (٢٩٣٦) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٨ (٦٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤٣، ٤٦٥، ٤/١٤٣) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٢٦٠٤ ) وضاحت : ١ ؎: حق و انصاف سے کام لے یعنی شرع کے موافق رحم، شفقت اور رضامندی کے ساتھ زکاۃ کی وصولی کرے۔
حدیث نمبر: 1809 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، وَيُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: الْعَامِلُ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ كَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১০
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زکوة وصول کرنے والوں کے احکا م
عبداللہ بن انیس (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اور عمر بن خطاب (رض) نے ایک دن زکاۃ کے بارے میں آپس میں بات کی تو عمر (رض) نے کہا : کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے جس وقت آپ زکاۃ میں خیانت کا ذکر کر رہے تھے یہ نہیں سنا : جس نے زکاۃ کے مال سے ایک اونٹ یا ایک بکری چرا لی تو وہ قیامت کے دن اسے اٹھائے ہوئے لے کر آئے گا ؟ عبداللہ بن انیس (رض) نے کہا : کیوں نہیں (ہاں، میں نے سنا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٨١، ومصباح الزجاجة : ٦٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٣/٤٩٨) (صحیح) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ٢٣٥٤ )
حدیث نمبر: 1810 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ مُوسَى بْنَ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ، أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحُبَابِ الْأَنْصَارِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُنَيْسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ تَذَاكَرَ هُوَ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمًا الصَّدَقَةَ، فَقَالَ عُمَرُ: أَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَذْكُرُ غُلُولَ الصَّدَقَةِ، أَنَّهُ مَنْ غَلَّ مِنْهَا بَعِيرًا، أَوْ شَاةً، أُتِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ؟ ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ: بَلَى.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১১
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زکوة وصول کرنے والوں کے احکا م
عمران (رض) کے غلام عطا بیان کرتے ہیں کہ عمران بن حصین (رض) زکاۃ پہ عامل بنائے گئے، جب لوٹ کر آئے تو ان سے پوچھا گیا : مال کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا : آپ نے مجھے مال لانے کے لیے بھیجا تھا ؟ ہم نے زکاۃ ان لوگوں سے لی جن سے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لیا کرتے تھے، اور پھر اس کو ان مقامات میں خرچ ڈالا جہاں ہم خرچ کیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٢ (١٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کر کے آپ کے پاس لانا ضروری نہ تھا، بلکہ زکاۃ جن لوگوں سے لی جائے انہی کے فقراء و مساکین میں بانٹ دینا بہتر ہے، البتہ اگر دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند اور محتاج ہوں تو ان کو دینا چاہیے، پس میں نے سنت کے موافق جن لوگوں سے زکاۃ لینی چاہی تھی، ان سے لی اور وہیں فقیروں اور محتاجوں کو بانٹ دی، آپ کے پاس کیا لاتا ؟ کیا آپ نے مجھ کو مال کے یہاں اپنے پاس لانے پر مقرر کیا تھا ؟۔
حدیث نمبر: 1811 حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَطَاءٍ مَوْلَى عِمْرَانَ، حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ الْحُصَيْنِ، اسْتُعْمِلَ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا رَجَعَ، قِيلَ لَهُ، أَيْنَ الْمَالُ؟، قَالَ: وَلِلْمَالِ أَرْسَلْتَنِي، أَخَذْنَاهُ مِنْ حَيْثُ كُنَّا نَأْخُذُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعْنَاهُ حَيْثُ كُنَّا نَضَعُهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১২
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گھوڑوں اور لونڈیوں کی زکوة کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام میں زکاۃ نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٥ (١٤٦٣) ، ٤٦ (١٤٦٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢ (٩٨٢) ، سنن ابی داود/الزکاة ١١ (١٥٩٤، ١٥٩٥) ، سنن الترمذی/الزکاة ٨ (٦٢٨) ، سنن النسائی/الزکاة ١٦ (٢٣٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٢٣ (٣٧) ، مسند احمد (٢/٢٤٢، ٢٤٩، ٢٥٤، ٢٧٩، ٤١٠، ٤٢٠، ٤٣٢، ٤٥٤، ٤٦٩، ٤٧٠) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٠ (١٦٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو غلام، لونڈی اور گھوڑوں میں زکاۃ کو واجب نہیں کہتے، اور بعضوں نے کہا : اس حدیث میں گھوڑوں سے مراد غازی اور مجاہد کا گھوڑا ہے، جیسے زید بن ثابت (رض) سے منقول ہے، اور بعض نے کہا : اگر گھوڑے جنگل میں چرتے ہوں اور ان میں نر اور مادہ دونوں ہوں تو ان کے مالک کو اختیار ہے خواہ ہر گھوڑے کے بدلے ایک دینار زکاۃ دے یا جملہ گھوڑوں کی قیمت لگا کر اس کا چالیسواں حصہ دے، ایسا ہی عمر (رض) سے منقول ہے، امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے، لیکن صاحبین اور جمہور علماء اور ائمہ اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ گھوڑے، غلام اور لونڈی میں مطلقاً زکاۃ نہیں ہے اور یہی صحیح ہے۔
حدیث نمبر: 1812 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْعِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَلَا فِي فَرَسِهِ صَدَقَةٌ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১৩
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گھوڑوں اور لونڈیوں کی زکوة کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے تم سے گھوڑوں، غلام اور لونڈیوں کی زکاۃ معاف کردی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٥٥) (صحیح )
حدیث نمبر: 1813 حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَجَوَّزْتُ لَكُمْ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ، وَالرَّقِيقِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১৪
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اموال زکوة
معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن بھیجا اور فرمایا : (زکاۃ میں) غلہ میں سے غلہ، بکریوں میں سے بکری، اونٹوں میں سے اونٹ، اور گایوں میں سے گائے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١١ (١٥٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٤٨) (ضعیف) (عطاء بن یسار اور معاذ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٣٥٤٤ )
حدیث نمبر: 1814 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ، وَقَالَ لَهُ: خُذْ الْحَبَّ مِنَ الْحَبِّ، وَالشَّاةَ مِنَ الْغَنَمِ، وَالْبَعِيرَ مِنَ الْإِبِلِ، وَالْبَقَرَةَ مِنَ الْبَقَرِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১৫
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اموال زکوة
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان پانچ چیزوں میں زکاۃ مقرر کی ہے : گیہوں، جو، کھجور، انگور اور مکئی میں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٥، ومصباح الزجاجة : ٦٤٧) (ضعیف جدا) (محمد بن عبید اللہ متروک ہے، لیکن لفظ الأربعة کے ساتھ یہ صحیح ہے، ہاں الذُّرَةِ کا ذکر منکر ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ٨٠١ )
حدیث نمبر: 1815 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: إِنَّمَا سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ فِي هَذِهِ الْخَمْسَةِ فِي الْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ، وَالزَّبِيبِ، وَالذُّرَةِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১৬
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھیتی اور پھلوں کی زکوة
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو غلہ بارش یا چشمہ کے پانی سے پیدا ہوتا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ کا ہے، اور جو غلہ پانی سینچ کر پیدا ہو اس میں بیسواں حصہ زکاۃ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ١٤ (٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٨، ١٣٤٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اوپر کی حدیث میں آیا ہے کہ زکاۃ پانچ چیزوں میں ہے : گیہوں، جو، کھجور، انگور اور مکئی، اس میں مزید آسانی یہ ہے کہ یہ (عشر اور نصف عشر) دسواں اور بیسواں حصہ بھی صرف انہیں پانچ چیزوں سے لیا جائے گا جن کا ذکر اوپر ہوا، باقی تمام غلے اور میوہ جات، پھل پھول اور سبزیاں و ترکاریاں وغیرہ وغیرہ میں زکاۃ معاف ہے، اور ایک شرط یہ بھی ہے یہ پانچ چیزیں بھی پانچ وسق یعنی ( ٧٥٠ ) کلو گرام اور بقول شیخ عبداللہ البسام ( ٩٠٠ کلو گرام) سے کم نہ ہوں، ورنہ ان میں بھی زکاۃ معاف ہوگی، لیکن امام ابوحنیفہ اس حدیث سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ جملہ پیداوار میں دسواں اور بیسواں حصہ ہے کیونکہ ماسقت السماء کا لفظ عام ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں : احادیث میں تطبیق دینا ضروری ہے اور جب غور سے دیکھو تو کوئی تعارض نہیں ہے، اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ بارش سے ہونے والی زراعت (کھیتی) میں دسواں حصہ ہے، کنویں اور نہر سے سینچی جانے والی زراعت میں بیسواں حصہ، (اس لیے کہ اس میں آدمی کو پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور محنت بھی) لیکن اس میں اموال زکاۃ اور مقدار نصاب کی تصریح نہیں ہے، یہ تصریح دوسری احادیث میں وارد ہے کہ زکاۃ صرف پانچ چیزوں میں ہے اور پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں ہے تو یہ عام اسی خاص پر محمول ہوگا۔
حدیث نمبر: 1816 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১৭
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھیتی اور پھلوں کی زکوة
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو غلہ اور پھل بارش، نہر، چشمہ یا زمین کی تری (سیرابی) سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے جانوروں کے ذریعہ سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٥ (١٤٨٣) ، سنن ابی داود/الزکا ة ١١ (١٥٩٦) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٤ (٦٤٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٥ (٢٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 1817 حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْمِصْرِيُّ أَبُو جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَالْأَنْهَارُ، وَالْعُيُونُ، أَوْ كَانَ بَعْلًا الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي نِصْفُ الْعُشْرِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১৮
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھیتی اور پھلوں کی زکوة
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن بھیجا، اور حکم دیا کہ جو پیداوار بارش کے پانی سے ہو اور جو زمین کی تری سے ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ لوں، اور جو چرخی کے پانی سے ہو اس میں بیسواں حصہ لوں۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں : بعل، عثری اور عذی وہ زراعت (کھیتی) ہے جو بارش کے پانی سے سیراب کی جائے، اور عثری اس زراعت کو کہتے ہیں : جو خاص بارش کے پانی سے ہی بوئی جائے اور دوسرا پانی اسے نہ پہنچے، اور بعل وہ انگور ہے جس کی جڑیں زمین کے اندر پانی تک چلی گئی ہوں اور اوپر سے پانچ چھ سال تک پانی دینے کی حاجت نہ ہو، بغیر سینچائی کے کام چل جائے، اور سیل کہتے ہیں وادی کے بہتے پانی کو، اور غیل کہتے ہیں چھوٹے سیل کو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الزکاة ٢٥ (٢٤٩٢) ، مسند احمد (٥/٢٣٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٩ (١٧٠٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سیل اور غیل دونوں کو اسی لئے بیان کیا کہ بعض روایتوں میں غیل کی جگہ سیل ہے، مطلب یہ ہے کہ جو زراعت سیل (سیلاب) کے پانی سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ لازم ہوگا کیونکہ وہ بارش والے پانی کی زراعت کے مثل ہے۔
حدیث نمبر: 1818 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِمَّا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَمَا سُقِيَ بَعْلًا الْعُشْرَ، وَمَا سُقِيَ بِالدَّوَالِي نِصْفَ الْعُشْرِ ، قَالَ يَحْيَى بْنُ آدَمَ: الْبَعْلُ، وَالْعَثَرِيُّ، وَالْعَذْيُ هُوَ الَّذِي يُسْقَى بِمَاءِ السَّمَاءِ، وَالْعَثَرِيُّ مَا يُزْرَعُ لِلسَّحَابِ، وَلِلمَطَرِ خَاصَّةً لَيْسَ يُصِيبُهُ إِلَّا مَاءُ الْمَطَرِ، وَالْبَعْلُ مَا كَانَ مِنَ الْكُرُومِ قَدْ ذَهَبَتْ عُرُوقُهُ فِي الْأَرْضِ إِلَى الْمَاءِ، فَلَا يَحْتَاجُ إِلَى السَّقْيِ الْخَمْسَ سِنِينَ، وَالسِّتَّ يَحْتَمِلُ تَرْكَ السَّقْيِ فَهَذَا الْبَعْلُ، وَالسَّيْلُ مَاءُ الْوَادِي إِذَا سَالَ، وَالْغَيْلُ سَيْلٌ دُونَ سَيْلٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮১৯
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھجور اور انگور کا تخمینہ
عتاب بن اسید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں کے پاس ایک شخص کو بھیجتے جو ان کے انگوروں اور پھلوں کا اندازہ لگاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٣ (١٦٠٣، ١٦٠٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٧ (٦٤٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١٠٠ (٢٦١٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٤٨) (ضعیف) (سعید بن مسیب اور عتاب (رض) کے درمیان سند میں انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎: خرص کا مطلب تخمینہ اور اندازہ لگانے کے ہیں یعنی کھجور وغیرہ کے درخت پر پھلوں کا اندازہ کرنا کہ اس درخت میں اتنا پھل نکلے گا، اور اندازے کے بعد رعایا کو اجازت دے دی جاتی ہے کہ وہ پھل توڑ لیں، پھر اندازہ کے موافق ان سے دسواں یا بیسواں حصہ لے لیا جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 1819 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ التَّمَّارُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يَبْعَثُ عَلَى النَّاسِ مَنْ يَخْرُصُ عَلَيْهِمْ كُرُومَهُمْ وَثِمَارَهُمْ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮২০
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھجور اور انگور کا تخمینہ
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب خیبر فتح کیا، تو آپ نے ان سے شرط لے لی کہ زمین آپ کی ہوگی، اور ہر صفراء اور بیضاء یعنی سونا و چاندی بھی آپ ہی کا ہوگا، اور آپ سے خیبر والوں نے کہا : ہم یہاں کی زمین کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہیں، لہٰذا آپ ہمیں یہ دے دیجئیے، ہم اس میں کھیتی کریں گے، اور جو پھل پیدا ہوگا وہ آدھا آدھا کرلیں گے، اسی شرط پر آپ ﷺ نے خیبر کی زمین ان کے حوالے کردی، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا، تو آپ ﷺ نے عبداللہ بن رواحہ (رض) کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے کھجور کا تخمینہ لگایا، جس کو اہل مدینہ خرص کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا : اس میں اتنا اور اتنا پھل ہے، یہودی یہ سن کر بولے : اے ابن رواحہ ! آپ نے تو بہت بڑھا کر بتایا، ابن رواحہ (رض) نے کہا : ٹھیک ہے میں کھجوریں اتروا کر انہیں جمع کرلیتا ہوں اور جو اندازہ میں نے کیا ہے اس کا آدھا تم کو دے دیتا ہوں، یہودی کہنے لگے : یہی حق ہے، اور اسی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہیں، ہم آپ کے اندازے کے مطابق حصہ لینے پر راضی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٥ (٣٤١٠، ٣٤١١) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ یہودیوں نے عبداللہ بن رواحہ (رض) کو رشوت دینا اور اپنے سے ملانا چاہا کہ کھجور کا تخمینہ کمی کے ساتھ لگا دیں، لیکن وہ نہ مانے اور ٹھیک ٹھیک تخمینہ لگایا، اس وقت یہودیوں نے کہا : ایسے ہی لوگوں سے آسمان اور زمین قائم ہے، سبحان اللہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ غربت و افلاس اور پریشانی و مصیبت کی حالت میں بھی سچائی اور ایمان داری کو نہیں چھوڑتے تھے، جب ہی تو اسلام کو یہ ترقی حاصل ہوئی، اور آج اسلامی عقائد و اقدار اور تعلیمات کو چھوڑ کر مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔
حدیث نمبر: 1820 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ اشْتَرَطَ عَلَيْهِمْ أَنَّ لَهُ الْأَرْضَ، وَكُلَّ صَفْرَاءَ، وَبَيْضَاءَ يَعْنِي الذَّهَبَ، وَالْفِضَّةَ ، وَقَالَ لَهُ أَهْلُ خَيْبَرَ: نَحْنُ أَعْلَمُ بِالْأَرْضِ، فَأَعْطِنَاهَا عَلَى أَنْ نَعْمَلَهَا وَيَكُونَ لَنَا نِصْفُ الثَّمَرَةِ، وَلَكُمْ نِصْفُهَا، فَزَعَمَ أَنَّهُ أَعْطَاهُمْ عَلَى ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ حِينَ يُصْرَمُ النَّخْلُ، بَعَثَ إِلَيْهِمُ ابْنَ رَوَاحَةَ فَحَزَرَ النَّخْلَ، وَهُوَ الَّذِي يَدْعُونَهُ أَهْلُ الْمَدِينَةِ الْخَرْصَ، فَقَالَ: فِي ذَا كَذَا، وَكَذَا، فَقَالُوا: أَكْثَرْتَ عَلَيْنَا يَا ابْنَ رَوَاحَةَ، فَقَالَ: فَأَنَا أَحْزِرُ النَّخْلَ، وَأُعْطِيكُمْ نِصْفَ الَّذِي قُلْتُ، قَالَ: فَقَالُوا: هَذَا الْحَقُّ وَبِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، فَقَالُوا: قَدْ رَضِينَا أَنْ نَأْخُذَ بِالَّذِي قُلْتَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮২১
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زکوة میں برا مال نکالنے کی ممانعت
عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے، اور ایک شخص نے کھجور کے کچھ خوشے مسجد میں لٹکا دئیے تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ ﷺ اس خوشہ میں اس چھڑی سے کھٹ کھٹ مارتے جاتے، اور فرماتے : اگر یہ زکاۃ دینے والا چاہتا تو اس سے بہتر زکاۃ دیتا، یہ زکاۃ والا قیامت کے دن خراب ہی کھجور کھائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٦ (١٦٠٨) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٧ (٢٤٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣، ٢٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جیسا دیا ویسا پائے گا، اللہ تعالیٰ غنی و بےپرواہ ہے، اس کے نام پر تو بہت عمدہ مال دینا چاہیے، وہ نیت کو دیکھتا ہے۔
حدیث نمبر: 1821 حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ أَبِي عَرِيبٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ عَلَّقَ رَجُلٌ أَقْنَاءَ، أَوْ قِنْوًا، وَبِيَدِهِ عَصًا فَجَعَلَ يَطْعَنُ بِذَلِكَ، يُدَقْدِقُ فِي ذَلِكَ الْقِنْوِ، وَيَقُولُ: لَوْ شَاءَ رَبُّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ تَصَدَّقَ بِأَطْيَبَ مِنْهَا، إِنَّ رَبَّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ يَأْكُلُ الْحَشَفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ১৮২২
زکوۃ کا بیان
পরিচ্ছেদঃ زکوة میں برا مال نکالنے کی ممانعت
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں آیت کریمہ : ومما أخرجنا لکم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون (سورة التوبة : 267) انصار کے بارے میں نازل ہوئی، جب باغات سے کھجور توڑنے کا وقت آتا تو وہ اپنے باغات سے کھجور کے چند خوشے (صدقے کے طور پر) نکالتے، اور مسجد نبوی میں دونوں ستونوں کے درمیان رسی باندھ کر لٹکا دیتے، پھر فقراء مہاجرین اس میں سے کھاتے، انصار میں سے کوئی یہ کرتا کہ ان خوشوں میں خراب کھجور کا خوشہ شامل کردیتا، اور یہ سمجھتا کہ بہت سارے خوشوں میں ایک خراب خوشہ رکھ دینا جائز ہے، تو انہیں لوگوں کے سلسلہ میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون قصد نہ کرو خراب کا اس میں سے کہ اسے خرچ کرو اور تم اسے خود ہرگز لینے والے نہیں ہو، الا یہ کہ چشم پوشی سے کام لو، اگر تمہیں کوئی ایسے خراب مال سے تحفہ بھیجے تو تم کبھی بھی اس کو قبول نہ کرو گے مگر شرم کی وجہ سے، اور دل میں غصہ ہو کر کہ اس نے تمہارے پاس ایسی چیز بھیجی ہے جو تمہارے کام کی نہیں ہے، اور تم جان لو کہ اللہ تمہارے صدقات سے بےنیاز ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨، ومصباح الزجاجة : ٦٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٣ (٢٩٨٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 1822 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ، عَنِالسُّدِّيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، فِي قَوْلِهِ سُبْحَانَهُ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ سورة البقرة آية 267، قَالَ: نَزَلَتْ فِي الْأَنْصَارِ، كَانَتْ الْأَنْصَارُ تُخْرِجُ إِذَا كَانَ جِدَادُ النَّخْلِ مِنْ حِيطَانِهَا أَقْنَاءَ الْبُسْرِ، فَيُعَلِّقُونَهُ عَلَى حَبْلٍ بَيْنَ أُسْطُوَانَتَيْنِ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْكُلُ مِنْهُ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ، فَيَعْمِدُ أَحَدُهُمْ فَيُدْخِلُ قِنْوًا فِيهِ الْحَشَفُ، يَظُنُّ أَنَّهُ جَائِزٌ فِي كَثْرَةِ مَا يُوضَعُ مِنَ الْأَقْنَاءِ، فَنَزَلَ فِيمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ سورة البقرة آية 267، يَقُولُ: لَا تَعْمِدُوا لِلْحَشَفِ مِنْهُ تُنْفِقُونَ، وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ، يَقُولُ: لَوْ أُهْدِيَ لَكُمْ مَا قَبِلْتُمُوهُ إِلَّا عَلَى اسْتِحْيَاءٍ مِنْ صَاحِبِهِ غَيْظًا، أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْكُمْ مَا لَمْ يَكُنْ لَكُمْ فِيهِ حَاجَةٌ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْ صَدَقَاتِكُمْ .
তাহকীক: