কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)

كتاب السنن للإمام ابن ماجة

اقامت نماز اور اس کا طریقہ - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৬৩০ টি

হাদীস নং: ১৩২৩
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ دن اور رات میں نماز دو دو رکعت پڑھنا
ام ہانی بنت ابی طالب (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن نماز الضحیٰ (چاشت کی نفل) آٹھ رکعت پڑھی، اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠١ (١٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢١ (٢٨٠) ، الصلاة ٤ (٣٥٧) ، الجزیة ٩ (٣١٧١) ، الأدب ٩٤ (٦١٥٨) ، صحیح مسلم/الحیض ١٦ (٣٣٦) ، المسافرین ١٣ (٣٣٦) ، سنن الترمذی/الوتر ١٥ (٤٧٤) ، الاستئذان ٣٤ (٢٧٣٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٤٣ (٢٢٦) ، موطا امام مالک/صلاةالضحیٰ ٨ (٢٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٤) (صحیح) دون زیادة ثم سلم ۔۔۔ الخ کمارواہ الآخرون والمؤلف برقم : ١٣٧٨ ۔ وضاحت : ١ ؎: نماز الضحیٰ کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلہ میں روایتوں میں اختلاف ہے، دو ، چار، آٹھ اور بارہ رکعات تک کا ذکر ہے، اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ روایتوں کے اختلاف کو گنجائش پر محمول کیا جائے، اور جتنی جس کو توفیق ملے پڑھے اس فرق کے ساتھ کہ آٹھ رکعت تک کا ذکر فعلی حدیثوں میں ہے، اور بارہ کا ذکر قولی حدیث میں ہے، بعض نے اسے بدعت کہا ہے لیکن بدعت کہنا غلط ہے، متعدد احادیث سے اس کا مسنون ہونا ثابت ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے (مصنف ابن ابی شیبہ ٢ /٤٠٥) ۔ اکثر علماء کے نزدیک چاشت اور اشراق کی نماز ایک ہی ہے، جو سورج کے ایک یا دو نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنے پر پڑھی جاتی ہے۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نماز الضحیٰ چاشت کی نماز اشراق کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
حدیث نمبر: 1323 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمْحٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْكُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ:‏‏‏‏ صَلَّى سُبْحَةَ الضُّحَى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏سَلَّمَ مِنْ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৪
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ دن اور رات میں نماز دو دو رکعت پڑھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر دو رکعت پر سلام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٠، ومصباح الزجاجة : ٤٦٦) (ضعیف) (اس کی سند میں ابوسفیان طریف بن شھاب السعدی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٠٢٣ )
حدیث نمبر: 1324 حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني حدثنا محمد بن فضيل عن أبي سفيان السعدي عن أبي نضرة عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «في كل ركعتين تسليمة».
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৫
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ دن اور رات میں نماز دو دو رکعت پڑھنا
مطلب بن ابی وداعہ ١ ؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، اور اللہ کے سامنے اپنی محتاجی و مسکینی ظاہر کرنا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا، اور کہنا ہے کہ اے اللہ ! مجھ کو بخش دے، جو کوئی ایسا نہ کرے (یعنی اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر نہ کرے تو) اس کی نماز ناقص ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٢ (١٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٧) (ضعیف) (اس کے روای عبد اللہ بن نافع بن العمیاء مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: مطلب بن أبی وداعہ وہم ہے، صحیح (المطلب بن ربیعہ ہے) ملاحظہ ہو : تحفۃ الأشراف : ١١٢٨٨ ، تہذیب الکمال، ترجمہ المطلب بن ربیعہ ٢٨؍ ٧٦ ) ۔
حدیث نمبر: 1325 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُطَّلِبِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي وَدَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، ‏‏‏‏‏‏وَتَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَبَاءَسُ، ‏‏‏‏‏‏وَتَمَسْكَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَتُقْنِعُ، ‏‏‏‏‏‏وَتَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৬
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ ماہ رمضان کا قیام ( تر اویح )
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اور (اس کی راتوں میں) قیام کیا، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٨ (٣٧) ، لیلة القدر ١ (٢٠١٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، سنن الترمذی/الصوم ١ (٦٨٣) ، سنن النسائی/الصیام ٣ (٦١٠٤) ، موطا امام مالک/الصلاة في رمضان ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٤١، ٣٨٥، ٤٧٣، ٥٠٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رمضان میں رات کو عبادت کرنا سنت ہے خواہ اخیر رات میں کرے یا شروع رات میں، اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے نماز فجر تک ہے، اور قیام رمضان تہجد پڑھنے سے ادا ہوجاتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ تراویح ہی پڑھے، تہجد کی طرح آٹھ رکعتیں تراویح کی ادا کرے، نبی کریم ﷺ سے یہی ثابت ہے۔ لیکن جو شخص آخری رات میں تہجد پڑھتا ہو یا پڑھ سکتا ہو تو اس کے حق میں یہی زیادہ افضل و بہتر ہے کہ وہ آخری رات میں پڑھے، اور اگر پہلے نماز تراویح با جماعت پڑھنی ہو، اور آخری رات میں آدمی تنہا ہو، تو باجماعت نماز اس کے لئے افضل اور زیادہ بہتر ہے اس لئے کہ باجماعت پڑھنے والے کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔ بیس رکعت کی مروجہ تراویح پر عوام کی محافظت نے صحیح احادیث سے ثابت گیارہ رکعت تراویح کو ترک کردیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ : ١ ۔ نبی اکرم ﷺ نے ( ١١ ) رکعت سے زیادہ نماز تراویح نہیں ادا فرمائی، اور عمر بن الخطاب (رض) نے ابی بن کعب اور تمیم داری (رض) کو سنت صحیحہ کے مطابق لوگوں کو ( ١١ ) رکعت تراویح ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا، واضح رہے کہ عہد فاروقی میں رمضان میں لوگوں کے بیس رکعت تراویح پڑھنے کی روایت شاذ اور ضعیف ہے، اور ثقہ راویوں کی اس روایت کے خلاف ہے کہ یہ ( ١١ ) رکعات تھیں، اور ان کے پڑھانے کا حکم عمر (رض) نے دیا تھا، شاذ روایت (یعنی ثقہ راوی کی روایت جس کی ثقات نے مخالفت کی ہو) اگر صحیح بھی ہوجائے تو ثقات یا زیادہ ثقہ راوی کی صحیح اور محفوظ روایت کو لینا، اور اس پر عمل کرنا اولی اور بہتر ہے، کیونکہ یہ عدد میں سنت نبویہ کے مطابق ہے، نیز اس میں یہ بھی نہیں ہے کہ عمر (رض) نے بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا، بلکہ لوگوں کا فعل تھا جو اس صحیح روایت کے خلاف تھا جس میں ( ١١ ) رکعت تراویح پڑھانے کا حکم موجود ہے، اگر یہ فعل عمر (رض) سے صحیح اور ثابت بھی ہوتا تو اس پر عمل اور مطابق سنت صحیح روایت پر عمل نہ کرنا ایسا امر نہیں تھا کہ عامل بالحدیث جماعت مسلمین کے گروہ سے خارج ہوجائے جیسا کہ تعصب اور جہالت کے شکار لوگ تصور کرتے ہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بات سمجھی جاسکتی ہے وہ بیس رکعات کے جواز کی ہے، لیکن یہ بات قطعی طور سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس فعل کو کیا، اور جس پر مواظبت فرمائی وہ افضل ہے، اور وہ ( ١١ ) رکعت ہے، ام المؤمنین عائشہ (رض) سے آپ ﷺ کی رمضان کی نماز کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نماز (تراویح و تہجد) نہیں پڑھتے تھے، چار رکعتیں تو ایسی ادا فرماتے کہ جس کے طول اور حسن کے متعلق کچھ نہ پوچھو، پھر چار رکعتیں مزید پڑھتے اس کے طول وحسن کو نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں ادا فرماتے (صحیح بخاری، و صحیح مسلم) ۔ ان رکعات میں کمی بھی ممکن ہے، حتی کہ صرف ایک رکعت ہی پڑھ لے تو ایسا کرسکتا ہے، اس پر رسول اکرم ﷺ کی قولی اور فعلی دونوں حدیثیں دلیل ہیں، ام المؤمنین عائشہ (رض) سے استفسار کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کتنی رکعت وتر ادا فرماتے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ چار رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور چھ رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور دس رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور سات رکعات سے کم پر آپ وتر نہیں پڑھتے تھے، اور نہ تیرہ رکعات سے زیادہ پڑھتے تھے (سنن ابی داود، مسند احمد) ، اور تیرہ رکعتیں یوں کہ دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہیں، یا وہ دو ہلکی رکعتیں جن سے نبی اکرم ﷺ تہجد کی نماز کا افتتاح فرماتے تھے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس کو راجح قرار دیا ہے۔ اور رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ وتر حق ہے، جو چاہے پانچ رکعت وتر پڑھے، جو چاہے تین رکعت، جو چاہے ایک ہی رکعت پڑھے، (طحاوی، ومستدرک الحاکم) یہ بھی واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی ( ٢٠ ) رکعت تراویح کا پڑھنا ثابت نہیں ہے، اور بیس رکعت پر اجماع کا جن لوگوں نے دعوی کیا ہے ان کا دعوی باطل ہے، سنت سے ثابت ( ١١ ) رکعت تراویح کی وجہ سے علماء نے اس سے زائد رکعات پر نکیر کی ہے۔
حدیث نمبر: 1326 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৭
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ ماہ رمضان کا قیام ( تر اویح )
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے کسی بھی رات ہمارے ساتھ نماز تراویح نہ ادا فرمائی، یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں، تو ساتویں (یعنی تیئیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ رات تہائی کے قریب گزر گئی، پھر اس کے بعد چھٹی (یعنی چوبیسویں) رات کو جو اس کے بعد آتی ہے، آپ نے قیام نہیں کیا یہاں تک کہ اس کے بعد والی پانچویں یعنی (پچیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ رات آدھی کے قریب گزر گئی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ باقی رات بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے، آپ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے، تو وہ ساری رات کے قیام کے برابر ہے، پھر جب اس کے بعد والی چوتھی (یعنی چھبیسویں) رات آئی تو آپ نے اس میں قیام نہیں کیا، جب اس کے بعد والی تیسری (یعنی ستائیسویں) رات آئی تو آپ ﷺ نے اپنی بیویوں اور گھر والوں کو جمع کیا، اور لوگ بھی جمع ہوئے، ابوذر (رض) نے کہا : تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ہم سے فلاح فوت نہ ہوجائے، ان سے پوچھا گیا : فلاح کیا ہے ؟ کہا : سحری : پھر آپ ﷺ نے ماہ رمضان کے باقی دنوں میں تراویح باجماعت نہیں پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٨١ (٨٠٦) ، سنن النسائی/السہو ١٠٣ (١٣٦٥) ، قیام اللیل ٤ (١٦٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٩، ١٦٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر مہینہ تیس دن کا شمار کیا جائے تو سات راتیں چوبیس سے رہتی ہیں، اور اگر انتیس دن کا مانا جائے تو تیئسویں سے سات راتیں رہتی ہیں اس حساب سے تیئسویں اور پچیسویں اور ستائیسویں رات میں نبی کریم ﷺ نے قیام کیا، یہ راتیں طاق بھی ہیں اور متبرک بھی، غالب یہی ہے کہ لیلۃ القدر بھی انہیں راتوں میں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ستائیسویں رات کا لیلۃ القدر ہونا راجح ہے، لیلۃ القدر کی تعیین میں لوگوں کا بہت اختلاف ہے اور یقینی طور پر کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب ہے، البتہ جو سال بھر تہجد پڑھتا رہے گا وہ لیلۃ القدر بھی ضرور پائے گا، ان شاء اللہ، اس حدیث میں یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف تین راتیں تراویح پڑھیں، دوسری حدیث میں ہے کہ چوتھی رات کو بھی لوگ جمع ہوئے لیکن آپ ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں ڈرا ایسا نہ ہو یہ نماز تم پر فرض ہوجائے، اس حدیث سے تراویح کے باجماعت پڑھنے کی مشروعیت ثابت ہوگئی۔
حدیث نمبر: 1327 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْهُ حَتَّى بَقِيَ سَبْعُ لَيَالٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ بِنَا لَيْلَةَ السَّابِعَةِ حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ ثُلُثِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ كَانَتِ اللَّيْلَةُ السَّادِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَقُمْهَا حَتَّى كَانَتِ الْخَامِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ بِنَا حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يَعْدِلُ قِيَامَ لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ كَانَتِ الرَّابِعَةُ الَّتِي تَلِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَقُمْهَا حَتَّى كَانَتِ الثَّالِثَةُ الَّتِي تَلِيهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَمَعَ نِسَاءَهُ وَأَهْلَهُ وَاجْتَمَعَ النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ وَمَا الْفَلَاحُ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ السُّحُورُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ بَقِيَّةِ الشَّهْرِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৮
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ ماہ رمضان کا قیام ( تر اویح )
نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے ملا اور کہا : آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے، جو آپ نے رمضان سے متعلق اپنے والد سے سنی ہو، ابوسلمہ نے کہا : ہاں، میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا : وہ ایسا مہینہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر اس کے روزے کو فرض قرار دیا ہے، اور میں نے اس کے قیام اللیل کو تمہارے لیے مسنون قرار دیا ہے، لہٰذا جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس مہینے میں روزے رکھے، اور راتوں میں نفل پڑھے، وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے جنا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٢٢ (٢٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩١، ١٩٥) (ضعیف) (نضر بن شیبان لین الحدیث ہے، جس کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، لیکن دوسراٹکڑا فمن صامه وقامه إيمانا واحتسابا شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، کما تقدم، نیز ملاحظہ ہو : التعلیق الرغیب ٢ /٧٣ )
حدیث نمبر: 1328 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيّ، ‏‏‏‏‏‏ وَالْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ كِلَاهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَقِيتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِيكَ يَذْكُرُهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ شَهْرٌ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩২৯
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ رات کا قیام
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص کی گدی پر رات میں شیطان رسی سے تین گرہیں لگا دیتا ہے، اگر وہ بیدار ہوا اور اللہ کو یاد کیا، تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر جب اٹھ کر وضو کیا تو ایک گرہ اور کھل جاتی ہے، پھر جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں، اس طرح وہ چست اور خوش دل ہو کر صبح کرتا ہے، جیسے اس نے بہت ساری بھلائی حاصل کرلی ہو، اور اگر ایسا نہ کیا تو سست اور بری حالت میں صبح کرتا ہے، جیسے اس نے کوئی بھی بھلائی حاصل نہیں کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التہجد ١٢ (١٤٤٢) ، بدأالخلق ١١ (٣٢٦٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٨ (٧٧٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٧ (١٣٠٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥ (١٦٠٨) ، موطا امام مالک/قصرالصلاة ٢٥ (٩٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٣، ٢٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مولف نے اس حدیث سے قیام اللیل مراد لیا ہے، اور ممکن ہے کہ نماز فجر کے لئے اٹھنے سے اور وضو کرنے سے بھی شیطان کی یہ گرہیں کھل جائیں،والعلم عند الله، ہمیں گرہ کی تاویل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، درحقیقت شیطان یہ گرہیں لگاتا ہے اور بعضوں نے تاویل کی اور اس سے غفلت کی رسی مراد لی، اور گرہوں سے اس غفلت کو مضبوط کردینا، اور رات کے لمبی ہونے کا احساس دلا دینا مراد لیا ہے، جب کہ صحیح بخاری کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب وہ اٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو شیطان اس سے کہتا ہے کہ ابھی رات بہت ہے۔
حدیث نمبر: 1329 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَعْقِدُ الشَّيْطَانُ عَلَى قَافِيَةِ رَأْسِ أَحَدِكُمْ بِاللَّيْلِ بِحَبْلٍ فِيهِ ثَلَاثُ عُقَدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللَّهَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قَامَ فَتَوَضَّأَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ انْحَلَّتْ عُقَدُهُ كُلُّهَا، ‏‏‏‏‏‏فَيُصْبِحُ نَشِيطًا طَيِّبَ النَّفْسِ قَدْ أَصَابَ خَيْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ أَصْبَحَ كَسِلًا خَبِيثَ النَّفْسِ لَمْ يُصِبْ خَيْرًا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩০
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ رات کا قیام
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو صبح تک سوتا رہا، آپ نے فرمایا : شیطان نے اس شخص کے کانوں میں پیشاب کردیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١٣ (١١٤٤) ، بدأالخلق ١١ (٣٢٧٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٨ (٧٧٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥ (١٦٠٩، ١٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٧٥، ٤٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کان میں پیشاب کرنا حقیقت ہے گرچہ ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا، اور بعضوں کے نزدیک کنایہ ہے اس بات سے کہ جو شخص سویا رہتا ہے اور رات کو اٹھ کر نماز نہیں پڑھتا تو شیطان اس کے لئے اللہ کی یاد میں رکاوٹ بن جاتا ہے، اسی کو شیطان کے آدمی کے کان میں پیشاب کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حدیث نمبر: 1330 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ نَامَ لَيْلَةً حَتَّى أَصْبَحَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ الشَّيْطَانُ بَالَ فِي أُذُنَيْهِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩১
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ رات کا قیام
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم فلاں شخص کی طرح نہ ہوجانا جو رات میں تہجد پڑھتا تھا، پھر اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١٩ (١١٥٢) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥٠ (١٧٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٠) (صحیح )
حدیث نمبر: 1331 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَكُنْ مِثْلَ فُلَانٍ كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩২
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ رات کا قیام
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلیمان بن داود (علیہما السلام) کی ماں نے سلیمان سے کہا : بیٹے ! تم رات میں زیادہ نہ سویا کرو اس لیے کہ رات میں بہت زیادہ سونا آدمی کو قیامت کے دن فقیر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : (تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٠٩٤، ومصباح الزجاجة : ٤٦٧) (ضعیف) (اس حدیث کو ابن الجوزی نے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور کہا ہے : لایصح عن رسول اللہ، ویوسف لایتابع علی حدیثہ، یہ رسول اللہ ﷺ سے صحیح نہیں ہے، اور یوسف کی حدیث کا کوئی متابع نہیں ہے )
حدیث نمبر: 1332 حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَالْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏ وَالْعَبَّاسُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الْحَدَثَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُنَيْدُ بْنُ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ لِسُلَيْمَانَ:‏‏‏‏ يَا بُنَيَّ، ‏‏‏‏‏‏لَا تُكْثِرِ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ كَثْرَةَ النَّوْمِ بِاللَّيْلِ تَتْرُكُ الرَّجُلَ فَقِيرًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩৩
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ رات کا قیام
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص رات میں زیادہ نمازیں پڑھے گا، دن میں اس کے چہرے سے نور ظاہر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٣٦، ومصباح الزجاجة : ٤٦٨) (موضوع) (ابن الجوزی نے اس حدیث کو باطل کہا ہے، ( ٢ /١٠٩- ١١٠) اس کی سند میں ثابت بن موسیٰ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٤٦٤٤ )
حدیث نمبر: 1333 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّلْحِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ مُوسَى أَبُو يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَرِيكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ كَثُرَتْ صَلَاتُهُ بِاللَّيْلِ حَسُنَ وَجْهُهُ بِالنَّهَارِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩৪
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ رات کا قیام
عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ آئے ہیں، تو لوگوں کے ساتھ آپ کو دیکھنے کے لیے میں بھی آیا، جب میں نے کوشش کر کے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک دیکھا، تو پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے، پہلی بات آپ نے جو کہی وہ یہ تھی کہ لوگو ! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، اور رات کو نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوں، تب تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القیامة ٤٢ (٢٤٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٥١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥٦ (١٥٠١) ، (حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٣٢٥١) (صحیح )
حدیث نمبر: 1334 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏ وعبد الوهاب، ‏‏‏‏‏‏ ومحمد بن جعفر، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقِيلَ:‏‏‏‏ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا اسْتَبَنْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏أَفْشُوا السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩৫
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ رات میں بیوی کو ( نماز تہجد کے لئے) جگا نا
ابوسعید اور ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی رات میں بیدار ہو اور اپنی بیوی کو جگائے، اور دونوں دو رکعت نماز پڑھیں، تو وہ دونوں ذاکرین (اللہ کی یاد کثرت سے کرنے والے) اور ذاکرات (کثرت سے یاد کرنے والیوں) میں سے لکھے جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٧ (١٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٥، ١٢١٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان کی شان میں قرآن میں یہ آیا ہے : والذاکرين الله كثيرا والذاکرات اللہ کی یاد کثرت سے کرنے والے مرد اور عورتیں (الأحزاب :35) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیام اللیل (تہجد) کے لئے دو رکعت بھی کافی ہے، اور سنت آٹھ، دس اور بارہ ہے، اور اس کے بعد وتر، اگر دو رکعت بھی نہ ہو سکیں تو صرف بستر پر ہی رہ کر تھوڑی دیر دعا اور استغفار کرلے، اور اللہ کی یہ یاد بھی غنیمت ہے۔
حدیث نمبر: 1335 حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَغَرِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ مِنَ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّيَا رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏كُتِبَا مِنَ الذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩৬
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ رات میں بیوی کو ( نماز تہجد کے لئے) جگا نا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے، جو رات میں بیدار ہوا، اور نماز پڑھی، اور اپنی بیوی کو بھی جگایا، اس نے نماز پڑھی، اگر نہ اٹھی تو اس کے چہرہ پہ پانی چھڑکا، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم کرے، جو رات میں بیدار ہوئی، پھر اس نے نماز پڑھی اور اپنے شوہر کو جگایا، اس نے بھی نماز پڑھی اگر نہ اٹھا تو اس کے منہ پر پانی چھڑکا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٧ (١٣٠٨) ، ٣٤٨ (١٤٥٠) ، سنن النسائی/ قیام اللیل ٥ (١٦١١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦) (حسن صحیح )
حدیث نمبر: 1336 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجحْدَرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّتْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَبَتْ رَشَّ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَبَى رَشَّتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩৭
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ خوش آوازی سے قرآن پڑھنا
عبدالرحمٰن بن سائب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سعد بن ابی وقاص (رض) آئے، وہ نابینا ہوگئے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا : تم کون ہو ؟ میں نے انہیں (اپنے بارے میں) بتایا : تو انہوں نے کہا : بھتیجے ! تمہیں مبارک ہو، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قرآن اچھی آواز سے پڑھتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : یہ قرآن غم کے ساتھ اترا ہے لہٰذا جب تم قرآن پڑھو، تو رؤو، اگر رو نہ سکو تو بہ تکلف رؤو، اور قرآن پڑھتے وقت اسے اچھی آواز کے ساتھ پڑھو ١ ؎، جو قرآن کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٠، ومصباح الزجاجة : ٤٦٩) وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٩) (ضعیف) (اس میں راوی ابورافع، اسماعیل بن رافع ضعیف ومتروک ہیں، لیکن آخری جملہ وتغنوا به صحیح ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے، (البخاری ١٣ / ٥٠ و مسلم ( ١ /٥٤٥ ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں تغنى کا لفظ ہے، اور تغنى کا معنی گانا ہے، قرآن میں تغنى نہیں ہوسکتی، لہذا تغنى سے یہ مراد ہوگا کہ باریک آواز سے درد کے ساتھ اس کو پڑھنا بایں طور کہ پڑھنے والے پر اور سننے والے سب پر اثر ہو، اور دلوں میں اللہ کا خوف اور خشوع پیدا ہو، اور تجوید کے قواعد کی رعایت باقی رہے، کلمات اور حروف میں کمی اور بیشی نہ ہو، سفیان بن عیینہ نے کہا : تغنی بالقرآن کا یہ معنی ہے کہ قرآن کو دولت لازوال سمجھے، اور دنیا داروں سے غنی یعنی بےپرواہ رہے۔
حدیث نمبر: 1337 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَدِمَ عَلَيْنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَنْتَ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِابْنِ أَخِي، ‏‏‏‏‏‏بَلَغَنِي أَنَّكَ حَسَنُ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قَرَأْتُمُوهُ فَابْكُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا وَتَغَنَّوْا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ فَلَيْسَ مِنَّا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩৮
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ خوش آوازی سے قرآن پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک روز میں نے عشاء کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے میں دیر کردی، جب میں آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم کہاں تھیں ؟ میں نے کہا : آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص کی تلاوت سن رہی تھی، ویسی تلاوت اور ویسی آواز میں نے کسی سے نہیں سنی، یہ سنتے ہی آپ کھڑے ہوئے، اور آپ ﷺ کے ساتھ میں بھی کھڑی ہوئی، آپ نے اس شخص کی قراءت سنی، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے، اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠٣، ومصباح الزجاجة : ٤٧٠) ، ومسند احمد (٦/١٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سالم مولی ابوحذیفہ مشہور قاری اور خوش آواز تھے، یہ دونوں صفات ایک قاری میں بہت کم جمع ہوتی ہیں، اکثر لوگ خوش آواز تو ہوتے ہیں لیکن تجوید یعنی قواعد قراءت سے ناواقف ہوتے ہیں، اور بعض قاری ہوتے ہیں لیکن ان کی آواز اچھی نہیں ہوتی، نیز حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عورت کو اجنبی مرد کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث نمبر: 1338 حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَابِطٍ الْجُمَحِيَّ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَبْطَأْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بَعْدَ الْعِشَاءِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِئْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ كُنْتِ؟، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَسْتَمِعُ قِرَاءَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِكَ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ أَسْمَعْ مِثْلَ قِرَاءَتِهِ وَصَوْتِهِ مِنْ أَحَدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَقُمْتُ مَعَهُ حَتَّى اسْتَمَعَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِي مِثْلَ هَذَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৩৯
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ خوش آوازی سے قرآن پڑھنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے عمدہ آواز میں قرآن پڑھنے والا وہ ہے کہ جب تم اس کی قراءت سنو تو تمہیں ایسا لگے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٦٤٦، ومصباح الزجاجة : ٤٧١) (صحیح) (دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس حدیث کی سند میں دو راوی عبد اللہ بن جعفر اور ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجة : ٤٧٥ ، ب تحقیق عوض الشہری ) وضاحت : ١ ؎: یعنی درد انگیز آواز سے پڑھتا ہو، اور اس پر رقت طاری ہوجاتی ہو۔
حدیث نمبر: 1339 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّرِيرُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَنِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ مُجَمِّعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ الَّذِي إِذَا سَمِعْتُمُوهُ يَقْرَأُ حَسِبْتُمُوهُ يَخْشَى اللَّهَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৪০
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ خوش آوازی سے قرآن پڑھنا
فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خوش الحان شخص کا قرآن اس سے زیادہ متوجہ ہو کر سنتا ہے جتنا کہ گانا سننے والا اپنی توجہ گانے والی کی طرف لگاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٤٠، ومصباح الزجاجة : ٤٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٩، ٢٠) (ضعیف) (ولید بن مسلم کثیر التدلیس والتسویہ اور میسرہ لین الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی : ٢٩٥١ )
حدیث نمبر: 1340 حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ الرَّمْلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَيْسَرَةَ مَوْلَى فَضَالَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَلَّهُ أَشَدُّ أَذَنًا إِلَى الرَّجُلِ الْحَسَنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏يَجْهَرُ بِهِ مِنْ صَاحِبِ الْقَيْنَةِ إِلَى قَيْنَتِهِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৪১
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ خوش آوازی سے قرآن پڑھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے، وہاں آپ ﷺ نے ایک شخص کی قراءت سنی تو پوچھا : یہ کون ہے ؟ عرض کیا گیا : عبداللہ بن قیس ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں داؤد (علیہ السلام) کی خوش الحانی میں سے حصہ ملا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥١١٩، ومصباح الزجاجة : ٤٧٣) ، وقد أخر جہ : سنن النسائی/الافتتاح ٨٣ (١٠٢٠) ، مسند احمد (٢/٣٥٤، ٣٦٩، ٤٥٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مزامیر: جمع ہے مزمار کی، مزمار کہتے ہیں ستار کو، یا بجانے کے آلہ کو، یہاں مزمار سے مراد خوش الحانی ہے، اور داود (علیہ السلام) بہت خوش الحان تھے۔
حدیث نمبر: 1341 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعَ قِرَاءَةَ رَجُلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا؟، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَقَدْ أُوتِيَ هَذَا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ১৩৪২
اقامت نماز اور اس کا طریقہ
পরিচ্ছেদঃ خوش آوازی سے قرآن پڑھنا
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٣ (١٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ٥٢ تعلیقًا، مسند احمد (٤/٢٨٣، ٢٨٥، ٣٠٤) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٤ (٣٥٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خطابی وغیرہ نے اس کا ایک مفہوم یہ بتایا ہے کہ قرآن کے ذریعہ اپنی آواز کو زینت دو ، یعنی اپنی آوازوں کو قرآن کی تلاوت میں مشغول رکھو، اس مفہوم کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں زينوا أصواتکم بالقرآن کے الفاظ ہیں، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ موسیقی کی طرح آواز نکالو۔
حدیث نمبر: 1342 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ طَلْحَةَ الْيَامِيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْسَجَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ.
tahqiq

তাহকীক: