আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
قیامت کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ১০৯ টি
হাদীস নং: ২৪৫৫
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن اس کی دو خواہشیں جوان رہتی ہیں : ایک مال کی ہوس دوسری لمبی عمر کی تمنا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٣٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4234) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2455
حدیث نمبر: 2455 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَانِ الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৫৬
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
عبداللہ بن شخیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں، اگر وہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہوجائے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٥٠ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن ومضی (2151) // هذا رقم الدع اس، وهو عندنا برقم (1747 - 2255 ) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2456
حدیث نمبر: 2456 حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ مُحَمَّدُ بْنُ فِرَاسٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ وَهُوَ عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مُثِّلَ ابْنُ آدَمَ وَإِلَى جَنْبِهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ مَنِيَّةً، إِنْ أَخْطَأَتْهُ الْمَنَايَا وَقَعَ فِي الْهَرَمِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৫৭
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ ﷺ اٹھتے اور فرماتے : لوگو ! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ پر بہت صلاۃ (درود) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : جتنا تم چاہو ، میں نے عرض کیا چوتھائی ؟ آپ نے فرمایا : جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے ، میں نے عرض کیا : آدھا ؟ آپ نے فرمایا : جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی ؟ آپ نے فرمایا : جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا : وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں ؟۔ آپ نے فرمایا : اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہوگا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٠) ، وانظر مسند احمد (٥/١٣٥) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن، الصحيحة (954) ، فضل الصلاة علی النبی صلی اللہ عليه وسلم رقم (13 و 14) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2457
حدیث نمبر: 2457 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللَّهَ، اذْكُرُوا اللَّهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ ، قَالَ أُبَيٌّ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي ؟ فَقَالَ: مَا شِئْتَ ، قَالَ: قُلْتُ: الرُّبُعَ ؟ قَالَ: مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ، قُلْتُ: النِّصْفَ ؟ قَالَ: مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ، قَالَ: قُلْتُ: فَالثُّلُثَيْنِ ؟ قَالَ: مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ، قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا، قَالَ: إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৫৮
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے ١ ؎، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ٢ ؎، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ٣ ؎، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے۔ ٢ - اس حدیث کو اس سند سے ہم صرف ابان بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اور انہوں نے صباح بن محمد سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٥٥٣) (حسن) (صحیح الترغیب ٣٣٣٧، ١٦٣٨، ١٧٢٥، ١٧٢٤ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ سے پورا پورا ڈرو ، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ ٢ ؎ : یعنی اپنا سر غیر اللہ کے سامنے مت جھکانا ، نہ ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنا ، اور نہ ہی اپنی زبان ، آنکھ اور کان کا غلط استعمال کرنا۔ ٣ ؎ : یعنی حرام کمائی سے اپنا پیٹ مت بھرو ، اسی طرح شرمگاہ ، ہاتھ ، پاؤں اور دل کی اس طرح حفاظت کرو ، کہ ان سے غلط کام نہ ہونے پائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، الروض النضير (601) ، المشکاة (1608 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2458
حدیث نمبر: 2458 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَتَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَتَتَذَكَّرَ الْمَوْتَ وَالْبِلَى، وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৫৯
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کرلے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اور «من دان نفسه» کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرلے اس سے پہلے کہ قیامت کے روز اس کا محاسبہ کیا جائے، ٣ - عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں : اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور «عرض الأكبر» (آخرت کی پیشی) کے لیے تدبیر کرو، اور جو شخص دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے قیامت کے روز اس پر حساب و کتاب آسان ہوگا، ٤ - میمون بن مہران کہتے ہیں : بندہ متقی و پرہیزگار نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے جیسا کہ اپنے شریک سے محاسبہ کرتا ہے اور یہ خیال کرے کہ میرا کھانا اور لباس کہاں سے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٣١ (٤٢٦٠) (تحفة الأشراف : ٤٨٢٠) (ضعیف) (سند میں ابوبکر بن ابی مریم ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (4260) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (930) ، المشکاة (5289) ، ضعيف الجامع الصغير (4305) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2459
حدیث نمبر: 2459 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ، يَقُولُ: حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا قَبْلَ أَنْ يُحَاسَبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيُرْوَى عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا، وَتَزَيَّنُوا لِلْعَرْضِ الْأَكْبَرِ وَإِنَّمَا يَخِفُّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا، وَيُرْوَى عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ: لَا يَكُونُ الْعَبْدُ تَقِيًّا حَتَّى يُحَاسِبَ نَفْسَهُ كَمَا يُحَاسِبُ شَرِيكَهُ مِنْ أَيْنَ مَطْعَمُهُ وَمَلْبَسُهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬০
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مصلی پر تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ ہنس رہے ہیں، آپ نے فرمایا : آگاہ رہو ! اگر تم لوگ لذتوں کو ختم کردینے والی چیز کو یاد رکھتے تو تم اپنی ان حرکتوں سے باز رہتے، سو لذتوں کو ختم کردینے والی موت کا ذکر کثرت سے کرو، اس لیے کہ قبر روزانہ بولتی ہے اور کہتی ہے : میں غربت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں، اور میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، پھر جب مومن بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے مرحبا (خوش آمدید) کہتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے : بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب تھا جو میرے پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوگئی اور تو میری طرف آگیا تو اب دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا حسن سلوک کروں گی، پھر اس کی نظر پہنچنے تک قبر کشادہ کردی جائے گی اور اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا، اور جب فاجر یا کافر دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے نہ ہی مرحبا کہتی ہے اور نہ ہی مبارک باد دیتی ہے بلکہ کہتی ہے : بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا جو میری پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوں اور تو میری طرف آگیا سو آج تو اپنے ساتھ میری بدسلوکیاں دیکھ لے گا، پھر وہ اس کو دباتی ہے، اور ہر طرف سے اس پر زور ڈالتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف مل جاتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور ایک دوسرے کو آپس میں داخل کر کے فرمایا : اللہ اس پر ستر اژد ہے مقرر کر دے گا، اگر ان میں سے کوئی ایک بار بھی زمین پر پھونک مار دے تو اس پر رہتی دنیا تک کبھی گھاس نہ اگے، پھر وہ اژد ہے اسے حساب و کتاب لیے جانے تک دانتوں سے کاٹیں گے اور نوچیں گے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٤٢١٣) (ضعیف جداً ) (سند میں عبید اللہ وصافی اور عطیہ عوفی دونوں ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، لکن جملة هاذم اللذات صحيحة، فانظر الحديث (2409) ، الضعيفة (4990) ، (2409) // ضعيف الجامع الصغير (1231) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2460
حدیث نمبر: 2460 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ الْعُرَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ، عَنْعَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَلَّاهُ فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ، قَالَ: أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى، فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى الْقَبْرِ يَوْمٌ إِلَّا تَكَلَّمَ فِيهِ، فَيَقُولُ: أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ، فَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، قَالَ: فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوِ الْكَافِرُ، قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، قَالَ: فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلَاعُهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِهِ: فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ، قَالَ: وَيُقَيِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬১
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ چٹائی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے سو میں نے دیکھا کہ چٹائی کا نشان آپ کے پہلو پر اثر کر گیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے، (وہی آپ کا ازواج مطہرات سے ایلاء کرنے کا قصہ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٢٥ (٢٤٦٨) ، والنکاح ٨٣ (٥١٩١) ، واللباس ٣١ (٥٨٤٣) ، صحیح مسلم/الطلاق ٥ (١٤٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١١ (٤١٥٣) (کلہم في سیاق طویل في سیاق إیلاء النبی ﷺ نسائہ) (ویأتي برقم ٢٣١٨) (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٧) ، و مسند احمد (١/٣٠١، ٣٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2461
حدیث نمبر: 2461 حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ فَرَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬২
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
مسور بن مخرمہ (رض) نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف (رض) (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ ﷺ نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ ﷺ نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا : شاید تم لوگوں نے یہ بات سن لی ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں ، لوگوں نے کہا جی ہاں، اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : تمہارے لیے خوشخبری ہے اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے، اللہ کی قسم ! میں تم پر فقر و محتاجی سے نہیں ڈرتا ہوں، البتہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر کشادہ کردی جائے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی، پھر تم اس میں حرص و رغبت کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے حرص و رغبت کی، پھر دنیا تمہیں تباہ و برباد کر دے جیسا کہ اس نے ان کو تباہ و برباد کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیہ ١ (٣١٥٨) ، والمغازي ١٢ (٤٠١٥) ، والرقاق ٧ (٦٤٢٥) ، صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٦١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٨ (٣٩٩٧) (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال و اسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقر و تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا ، تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں ، لیکن افسوس صد افسوس مال و اسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کردیا ، اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپ کو اندیشہ تھا ، حالانکہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھر سکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3997) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2462
حدیث نمبر: 2462 حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَيُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَدِمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ، وَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ، ثُمَّ قَالَ: أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنْ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ ، قَالُوا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا فَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬৩
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا : حکیم ! بیشک یہ مال ہرا بھرا میٹھا ہے، جو اسے خوش دلی سے لے لے گا تو اسے اس میں برکت نصیب ہوگی، اور جو اسے حریص بن کرلے گا اسے اس میں برکت حاصل نہ ہوگی، اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے ، حکیم کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں، پھر ابوبکر (رض)، حکیم (رض) کو کچھ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے، ان کے بعد عمر (رض) نے بھی انہیں کچھ دینے کے لیے بلایا تو اسے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا، چناچہ عمر (رض) نے کہا : اے مسلمانوں کی جماعت ! میں تم لوگوں کو حکیم پر گواہ بناتا ہوں کہ اس مال غنیمت میں سے میں ان کا حق پیش کرتا ہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں، چناچہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حکیم (رض) نے کسی شخص کے مال سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (١٤٧٢) ، والوصایا ٩ (٢٧٥٠) ، وفرض الخمس ١٩ (٣١٤٣) ، والرقاق ١١ (٦٤٤١) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٢ (١٠٣٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٥٠ (٢٥٣٢) ، و ٩٣ (٢٦٠٢-٢٦٠٤) (تحفة الأشراف : ٣٤٢٦) ، وحإ (٣/٤٠٢، ٤٣٤) ، وسنن الدارمی/الزکاة ٢٢ (١٦٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حکیم بن حزام (رض) کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر لوگوں سے ان کے لیے ہوئے کو قبول کرنے لگا تو کہیں یہ عادت اس حد سے بڑھ نہ جائے جس کے لینے کی انہیں خواہش نہیں ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس چیز کا بھی انکار کردیا جو ان کا حق بنتا تھا ، یہ دنیا سے بےرغبتی کی اعلی مثال ہے ، عمر (رض) نے لوگوں کو گواہ اس لیے بنایا تاکہ لوگ ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں کہ حکیم (رض) کے انکار کی حقیقت کو عمر (رض) نہ جان سکے ، «واللہ اعلم»۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2463
حدیث نمبر: 2463 حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ، فَقَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَاءِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَ أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ شَيْئًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬৪
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تکلیف اور تنگی میں آزمائے گئے تو اس پر ہم نے صبر کیا، پھر آپ کے بعد کی حالت میں کشادگی اور خوشی میں آزمائے گئے تو ہم صبر نہ کرسکے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٩٧١٩) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کے زمانہ میں جب ہم بےانتہا مشقت و پریشانی کی زندگی گزار رہے تھے تو اس وقت ہم نے صبر سے کام لیا ، لیکن آپ کے بعد جب ہمارے لیے مال و اسباب کی کثرت ہوگئی تو ہم گھمنڈ و تکبر میں مبتلا ہوگئے اور اترا گئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2464
حدیث نمبر: 2464 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍقَالَ: ابْتُلِينَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالضَّرَّاءِ فَصَبَرْنَا، ثُمَّ ابْتُلِينَا بِالسَّرَّاءِ بَعْدَهُ فَلَمْ نَصْبِرْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬৫
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کا مقصود زندگی آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں استغناء و بےنیازی پیدا کردیتا ہے، اور اسے دل جمعی عطا کرتا ہے ١ ؎، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جس کا مقصود طلب دنیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کی جمع خاطر کو پریشان کردیتا ہے اور دنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٦٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس کی نیت طلب آخرت ہوگی اللہ رب العالمین اسے معمولی زندگی پر بھی صابر و قانع بنا دے گا تاکہ وہ دنیا کا حریص اور اس کا طالب بن کر نہ رہے ، اس کے پراگندہ دنیاوی خیالات کو جمع کر دے گا ، اسے دل جمعی نصیب ہوگی ، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح (947 - 948) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2465
حدیث نمبر: 2465 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ وَهُوَ الرَّقَاشِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ، وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬৬
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم ! تو میری عبادت کے لیے یکسو ہوجا، میں تیرا سینہ استغناء و بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کروں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ٢ (٤١٠٧) (تحفة الأشراف : ١٤٨٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (4107) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2466
حدیث نمبر: 2466 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ اسْمُهُ: هُرْمُزُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬৭
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، اس وقت ہمارے پاس تھوڑی سی جو تھی، پھر جتنی مدت تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم نے اسی سے کھایا، پھر ہم نے لونڈی کو جو تولنے کے لیے کہا، تو اس نے تولا، پھر بقیہ جو بھی جلد ہی ختم ہوگئے، لیکن اگر ہم اسے چھوڑ دیتے اور نہ تولتے تو اس میں سے اس سے زیادہ مدت تک کھاتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہاں عائشہ (رض) کے قول «شطر» کا معنی قدرے اور تھوڑا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار نے والوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اہل دنیا اور ان کو میسر آسائشوں کی طرف نہ دیکھیں ، بلکہ رسول اور ازواج مطہرات کی زندگیوں کو سامنے رکھیں ، اور فقر و فاقہ کی زندگی کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھیں ، یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے پینے کی چیزوں کو بلا تولے ناپے استعمال کیا جائے تو اس میں برکت ہوتی ہے ، اور جس حدیث میں طعام کے تولنے کے بارے میں ہے کہ تولنے سے برکت ہوتی ہے وہ طعام بیچنے کے موقع سے ہے ، کیونکہ اس وقت دو آدمیوں کے اپنے اپنے حقوق کی جانکاری کی بات ہے۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2467
حدیث نمبر: 2467 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَنَا شَطْرٌ مِنْ شَعِيرٍ فَأَكَلْنَا مِنْهُ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قُلْتُ لِلْجَارِيَةِ: كِيلِيهِ فَكَالَتْهُ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ فَنِيَ، قَالَتْ: فَلَوْ كُنَّا تَرَكْنَاهُ لَأَكَلْنَا مِنْهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهَا شَطْرٌ تَعْنِي شَيْئًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬৮
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک باریک پردہ تھا جس پر تصویریں بنی تھیں، پردہ میرے دروازے پر لٹک رہا تھا، جب اسے رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو فرمایا : اس کو یہاں سے دور کر دو اس لیے کہ یہ مجھے دینا کی یاد دلاتا ہے ، عائشہ (رض) کہتی ہیں : ہمارے پاس ایک روئیں دار پرانی چادر تھی جس پر ریشم کے نشانات بنے ہوئے تھے اور اسے ہم اوڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٧/٨٨) ، سنن النسائی/الزینة ١١١ (٥٣٥٥) ، انظر أیضا : صحیح البخاری/المظالم ٣٢ (٢٤٧٩) ، واللباس ٩١ (٥٩٥٤) ، والأدب ٧٥ (٦١٠٩) ، وسنن النسائی/القبلة ١٢ (٧٦٢) (تحفة الأشراف : ١٦١٠١) ، و مسند احمد (٦/٤٩، ٢٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح غاية المرام (136) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2468
حدیث نمبر: 2468 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ لَنَا قِرَامُ سِتْرٍ فِيهِ تَمَاثِيلُ عَلَى بَابِي، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: انْزَعِيهِ فَإِنَّهُ يُذَكِّرُنِي الدُّنْيَا ، قَالَتْ: وَكَانَ لَنَا سَمَلُ قَطِيفَةٍ تَقُولُ عَلَمُهَا مِنْ حَرِيرٍ كُنَّا نَلْبَسُهَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৬৯
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس چمڑے کا ایک تکیہ (بستر) تھا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس میں کھجور کی پتلی چھال بھری ہوئی تھی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٦ (٢٠٨٢) (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس ذات گرامی کی سادہ زندگی کا حال تھا جو سید المرسلین تھے ، آج کی پرتکلف زندگی آپ ﷺ کی اس سادہ زندگی سے کس قدر مختلف ہے ، کاش ہم مسلمان آپ کی اس سادگی کو اپنے لیے نمونہ بنائیں ، اور اسے اختیار کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (282) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2469
حدیث نمبر: 2469 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ وِسَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي يَضْطَجِعُ عَلَيْهَا مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৭০
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک بکری ذبح کی، نبی اکرم ﷺ نے پوچھا اس میں سے کچھ باقی ہے ؟ عائشہ (رض) نے کہا : دستی کے سوا اور کچھ نہیں باقی ہے، آپ نے فرمایا : دستی کے سوا سب کچھ باقی ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٧٤١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ ذبح کی گئی بکری کا جتنا حصہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ یہی صدقہ کیا ہوا مال درحقیقت باقی ہے ، رہا وہ حصہ جو تمہارے پاس ہے وہ باقی نہیں ہے ، اس سے آپ ﷺ کا اشارہ رب العالمین کے اس فرمان کی طرف ہے ، «ماعندکم ينفد وما عند اللہ باق» جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے ، اور رب العالمین کے پاس جو کچھ ہے وہ باقی رہنے والا ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (2544) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2470
حدیث نمبر: 2470 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهُمْ ذَبَحُوا شَاةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَقِيَ مِنْهَا ؟ قَالَتْ: مَا بَقِيَ مِنْهَا إِلَّا كَتِفُهَا، قَالَ: بَقِيَ كُلُّهَا غَيْرَ كَتِفِهَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَيْسَرَةَ هُوَ الْهَمْدَانِيُّ اسْمُهُ: عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৭১
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم آل محمد ( ﷺ ) ایسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہا نہیں جلاتے تھے، ہمارا گزر بسر صرف کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١٠ (٤١٤٤) (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٥) ، وراجع أیضا صحیح البخاری/الھبة ١ (٢٥٦٧) ، والرقاق ١٧ (٦٤٥٨، ٦٥٤٥٩) (تحفة الأشراف : ١٧٠٦٥) ، و مسند احمد (٦/٥٠، ٧١، ٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مختصر الشمائل (111) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2471
حدیث نمبر: 2471 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنْ كُنَّا آَلَ مُحَمَّدٍ نَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ إِنْ هُوَ إِلَّا الْمَاءُ وَالتَّمْرُ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৭২
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے اللہ کی راہ میں ایسا ڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں، مجھ پر مسلسل تیس دن و رات گزر جاتے اور میرے اور بلال کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوتا کہ جسے کوئی جان والا کھائے سوائے تھوڑی سی چیز کے جسے بلال اپنی بغل میں چھپالیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - ـ اسحدیث میں وہدنمراد ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہوسلم اہلم کہ سے بیزارہوکرم کہ سے نکلگئے تھے اور ساتھ میں بلالرضیاللهعنہ تھے، انکے پاسکچھکھاناتھاج سے وہبغل میں دبائے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٥١) (تحفة الأشراف : ٣٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور اس کے دین کے اظہار کے لیے آپ نے کس قدر جسمانی تکالیف برداشت کی ہیں ، اور اس پر مستزاد یہ کہ مسلسل کئی کئی دن گزر جاتے اور آپ بھوکے رہتے ، ظاہر ہے بلال نے اپنی بغل میں جو کچھ چھپا رکھا تھا وہ کب تک ساتھ دیتا ، اس حدیث میں داعیان حق کے لیے عبرت و نصیحت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (151) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2472
حدیث نمبر: 2472 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ، وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَمَا لِي وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَيْءٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلَالٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حِينَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَارِبًا مِنْ مَكَّةَ وَمَعَهُ بِلَالٌ إِنَّمَا كَانَ مَعَ بِلَالٍ مِنَ الطَّعَامِ مَا يَحْمِلُهُ تَحْتَ إِبْطِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৭৩
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
علی بن ابی طالب کہتے ہیں کہ ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ ﷺ کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے، پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی، اگر رسول اللہ ﷺ کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھا لیتا، چناچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا، راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہا تھا، اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا : اعرابی ! کیا بات ہے ؟ کیا تو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا ؟ میں نے کہا : ہاں، اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندر آ جاؤں، اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہوگیا، اس نے مجھے اپنا ڈول دیا، پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تو وہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہا کہ اتنا میرے لیے کافی ہے، چناچہ میں نے اسے کھایا اور دو تین گھونٹ پانی پیا، پھر میں مسجد میں آیا اور وہیں رسول اللہ ﷺ کو موجود پایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ١٠٣٣٨) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی کے استاذ راوی مبہم ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی زندگی کس قدر فقر و تنگ دستی سے دو چار تھی ، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ کی بھی یہی حالت تھی ، اس فقر و فاقہ کے باوجود کسب حلال کا راستہ اپناتے تھے ، اور جو کچھ میسر ہوتا اسی پر قانع ہوتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، التعليق الرغيب (3 / 109 - 110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2473
حدیث نمبر: 2473 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ، سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: خَرَجْتُ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ أَخَذْتُ إِهَابًا مَعْطُوبًا فَحَوَّلْتُ وَسَطَهُ فَأَدْخَلْتُهُ عُنُقِي وَشَدَدْتُ وَسَطِي، فَحَزَمْتُهُ بِخُوصِ النَّخْلِ وَإِنِّي لَشَدِيدُ الْجُوعِ وَلَوْ كَانَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامٌ لَطَعِمْتُ مِنْهُ، فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ شَيْئًا، فَمَرَرْتُ بِيَهُودِيٍّ فِي مَالٍ لَهُ وَهُوَ يَسْقِي بِبَكَرَةٍ لَهُ فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهِ مِنْ ثُلْمَةٍ فِي الْحَائِطِ، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَعْرَابِيُّ، هَلْ لَكَ فِي كُلِّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَافْتَحْ الْبَابَ حَتَّى أَدْخُلَ، فَفَتَحَ فَدَخَلْتُ فَأَعْطَانِي دَلْوَهُ، فَكُلَّمَا نَزَعْتُ دَلْوًا أَعْطَانِي تَمْرَةً حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ كَفِّي أَرْسَلْتُ دَلْوَهُ، وَقُلْتُ: حَسْبِي، فَأَكَلْتُهَا ثُمَّ جَرَعْتُ مِنَ الْمَاءِ فَشَرِبْتُ، ثُمَّ جِئْتُ الْمَسْجِدَ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৪৭৪
قیامت کا بیان
পরিচ্ছেদঃ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ کو ایک مرتبہ بھوک لگی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو صرف ایک ایک کھجور دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٢ (٤١٥٧) (تحفة الأشراف : ١٣٦١٧) (شاذ) (مؤلف اور ابن ماجہ کے یہاں جو متن ہے وہ صحیح بخاری میں اسی سند سے مروی متن سے مختلف ہے، صحیح بخاری میں فی نفر سات سات کھجوریں ملنے کا تذکرہ ہے، دیکھیے : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٣ (٥٤١١) ، و ٣٩ (٥٤٤٠ ) قال الشيخ الألباني : شاذ، ابن ماجة (4157) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2474
حدیث نمبر: 2474 حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ أَصَابَهُمْ جُوعٌ فَأَعْطَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرَةً تَمْرَةً ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক: