আল জামিউল কাবীর- ইমাম তিরমিযী রহঃ (উর্দু)
الجامع الكبير للترمذي
طب کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৫৪ টি
হাদীস নং: ২০৫৬
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تعویذ اور دم وغیرہ کی اجازت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بچھو کے ڈنک، نظر بد اور پسلی میں نکلنے والے دانے کے سلسلے میں، جھاڑ پھونک کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : الطب ٣٤ (٣٥١٦) (تحفة الأشراف : ٩٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2056
حدیث نمبر: 2056 حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي الرُّقْيَةِ مِنَ الْحُمَةِ وَالْعَيْنِ وَالنَّمْلَةِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৫৭
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تعویذ اور دم وغیرہ کی اجازت
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جھاڑ پھونک صرف نظر بد اور پسلی میں نکلنے والے دانے کی وجہ سے ہی جائز ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : شعبہ نے یہ حدیث «عن حصين عن الشعبي عن بريدة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطب ١٧ (٣٨٨٤) ، وأخرجہ البخاري في الطب ١٧ (٥٧٠٥) موقوفا علی عمران بن حصین رضي اللہ عنہ (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٠) ، وانظر مسند احمد (٤/٤٣٦، ٤٣٨، ٤٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کسی اور بیماری میں جھاڑ پھونک جائز نہیں ہے ، کیونکہ ان کے علاوہ میں جھاڑ پھونک احادیث سے ثابت ہے ، اس لیے اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ان دونوں میں جھاڑ بھونک زیادہ مفید اور کار آمد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (4557) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2057
حدیث نمبر: 2057 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِالشَّعْبِيِّ، عَنْ بُرَيْدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৫৮
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ معوذتین کے ساتھ جھاڑ پھونک کرنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جنوں اور انسان کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، یہاں تک کہ معوذتین (سورۃ الفلق اور سورة الناس) نازل ہوئیں، جب یہ سورتیں اتر گئیں تو آپ نے ان دونوں کو لے لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑ دیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستعاذة ٣٧ (٥٤٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٣ (٣٥١١) (تحفة الأشراف : ٤٣٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں سورتوں یعنی «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» کے بہت سارے فائدے ہیں ، انہیں صبح و شام تین تین بار پڑھنے والا إن شاء اللہ مختلف قسم کی بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رہے گا ، ان سورتوں کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرم ﷺ انہیں دونوں کے ذریعہ پناہ مانگا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3511) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2058
حدیث نمبر: 2058 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنَ الْجَانِّ وَعَيْنِ الْإِنْسَانِ حَتَّى نَزَلَتِ الْمُعَوِّذَتَانِ، فَلَمَّا نَزَلَتَا أَخَذَ بِهِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَاهُمَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৫৯
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نظر بد سے جھاڑ پھونک
عبید بن رفاعہ زرقی (رض) سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جعفر طیار (رض) کے لڑکوں کو بہت جلد نظر بد لگ جاتی ہے، کیا میں ان کے لیے جھاڑ پھونک کراؤں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اس لیے کہ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کرسکتی تو اس پر نظر بد ضرور سبقت کرتی ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث «عن أيوب عن عمرو بن دينار عن عروة بن عامر عن عبيد بن رفاعة عن أسماء بنت عميس عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے، ٣ - اس باب میں عمران بن حصین اور بریدہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٣٣ (٣٥١٠) ، (والنسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ١٥٧٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3510) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2059 اس سند سے بھی اسماء بنت عمیس (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ فائدہ ١ ؎: معلوم ہوا کہ نظر بد کا اثر بےانتہائی نقصان دہ اور تکلیف دہ ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی چیز خلاف تقدیر پیش آسکتی اور ضرر پہنچا سکتی تو وہ نظر بد ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3510) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2059
حدیث نمبر: 2059 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ وَهُوَ أَبُو حَاتِمْ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيِّ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ وَلَدَ جَعْفَرٍ تُسْرِعُ إِلَيْهِمُ الْعَيْنُ، أَفَأَسْتَرْقِي لَهُمْ، فَقَالَ: نَعَمْ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬০
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نظر بد سے جھاڑ پھونک
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول حسن اور حسین (رض) پر یہ کلمات پڑھ کر جھاڑ پھونک کرتے تھے : «أعيذكما بکلمات اللہ التامة من کل شيطان وهامة ومن کل عين لامة» میں تمہارے لیے اللہ کے مکمل اور پورے کلمات کے وسیلے سے ہر شیطان اور ہلاک کرنے والے زہریلے کیڑے اور نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں ، اور آپ فرماتے تھے : اسماعیل اور اسحاق کے لیے اسی طرح ابراہیم (علیہم السلام) پناہ مانگتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/احادیث الأنبیاء ١٠ (٣٦٦٩) ، سنن ابی داود/ السنة ٢٢ (٤٧٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٦ (٣٥٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3525) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2060
حدیث نمبر: 2060 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَيَعْلَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ، يَقُولُ: أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ، وَيَقُولُ: هَكَذَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يُعَوِّذُ إِسْحَاق وَإِسْمَاعِيل عَلَيْهِمُ السَّلَام .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬১
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نظر لگ جانا حق ہے اور اس کے لئے غسل کرنا
حابس تمیمی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : الو (کے سلسلے میں لوگوں کے اعتقاد) کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نظر بد کا اثر حقیقی چیز ہے (یعنی سچ ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٣٢٧٢) ، وانظر مسند احمد (٤/٦٧) (صحیح) (سند میں حیہ بن حابس متابعت کے باب میں مقبول راوی ہیں، اس لیے حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، تراجع الالبانی/٥، السراج المنیر ٥٥٩٠ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، لکن قوله : العين حق صحيح .، الضعيفة (4804) ، الصحيحة (1248) // ضعيف الجامع الصغير (6295) ، صحيح الجامع الصغير (7503) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2061
حدیث نمبر: 2061 حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي حَيَّةُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا شَيْءَ فِي الْهَامِ وَالْعَيْنُ حَقٌّ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬২
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ نظر لگ جانا حق ہے اور اس کے لئے غسل کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت (پہل) کرسکتی تو اس پر نظر بد ضرور سبقت (پہل) کرتی، اور جب لوگ تم سے غسل کرائیں تو تم غسل کرلو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ٢ - حیہ بن حابس کی روایت (جو اوپر مذکور ہے) غریب ہے، ٣ - شیبان نے اسے «عن يحيى بن أبي كثير عن حية بن حابس عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے جب کہ علی بن مبارک اور حرب بن شداد نے اس سند میں ابوہریرہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ٤ - اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ١٦ (٢١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زمانہ جاہلیت میں نظر بد کا ایک علاج یہ تھا کہ جس آدمی کی نظر لگنے کا اندیشہ ہوتا اس سے غسل کرواتے ، اور اس پانی سے نظر لگنے والے کو غسل دیتے ، نبی اکرم ﷺ نے اس عمل کو سند جواز عطا فرمایا ، اور فرمایا کہ اگر کسی سے ایسے غسل کی طلب کی جائے تو وہ برا نہ مانے اور غسل کر کے غسل کیا ہوا پانی نظر بد لگنے والے کو دیدے۔ مگر اس غسل کا طریقہ عام غسل سے سے قدرے مختلف ہے ، تفصیل کے لیے ہماری کتاب مسنون وظائف واذکار اور شافی طریقہ علاج کا مطالعہ کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الصحيحة (1251 - 1252) ، الکلم الطيب (242) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2062
حدیث نمبر: 2062 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاق الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ، وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَحَدِيثُ حَيَّةَ بْنِ حَابِسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ حَيَّةَ بْنِ حَابِسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَحَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، لَا يَذْكُرَانِ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬৩
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تعویز پر اجرت لینا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، ہم نے ایک قوم کے پاس پڑاؤ ڈالا اور ان سے ضیافت کی درخواست کی، لیکن ان لوگوں نے ہماری ضیافت نہیں کی، اسی دوران ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، چناچہ انہوں نے ہمارے پاس آ کر کہا : کیا آپ میں سے کوئی بچھو کے ڈنک سے جھاڑ پھونک کرتا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، میں کرتا ہوں، لیکن اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم مجھے کچھ بکریاں نہ دے دو ، انہوں نے کہا : ہم تم کو تیس بکریاں دیں گے، چناچہ ہم نے قبول کرلیا اور میں نے سات بار سورة فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ صحت یاب ہوگیا اور ہم نے بکریاں لے لیں ١ ؎، ہمارے دل میں بکریوں کے متعلق کچھ خیال آیا ٢ ؎، لہٰذا ہم نے کہا : جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ جائیں، جب ہم آپ ﷺ کے پاس پہنچے تو میں نے جو کچھ کیا تھا آپ سے بیان کردیا، آپ نے فرمایا : تم نے کیسے جانا کہ سورة فاتحہ رقیہ (جھاڑ پھونک کی دعا) ہے ؟ تم لوگ بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - شعبہ، ابو عوانہ ہشام اور کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي المتوکل عن أبي سعيد عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ٣ - تعلیم قرآن پر معلم کے لیے اجرت لینے کو امام شافعی نے جائز کہا ہے اور وہ معلم کے لیے اجرت کی شرط لگانے کو درست سمجھتے ہیں، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ١٦ (٢٢٧٦) ، وفضائل القرآن ٩ (٥٠٠٧) ، والطب ٣٣ (٥٧٣٦) ، و ٣٩ (٥٧٤٩) ، صحیح مسلم/السلام ٢٣ (٢٢٠١) ، سنن ابی داود/ الطب ١٩ (٣٩٠٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٧ (٢١٥٦) (تحفة الأشراف : ٤٣٠٧) ، و مسند احمد (٣/٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ خیال آیا کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔ ٢ ؎ : جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اذان ، قضاء ، امامت ، اور تعلیم قرآن کی اجرت لی جاسکتی ہے ، کیونکہ صحیح بخاری میں کتاب اللہ کی تعلیم کی بابت اجرت لینے سے متعلق ابن عباس کی روایت اور سورة فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابو سعید خدری (رض) کی یہ حدیث جو صحیح بخاری میں بھی ہے ، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد (رض) کی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے ایک شخص کے نکاح میں قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا یہ ساری کی ساری روایات اس کے جواز پر دلیل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2156) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2063
حدیث نمبر: 2063 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ، فَسَأَلْنَاهُمُ الْقِرَى فَلَمْ يَقْرُونَا، فَلُدِغَ سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا، فَقَالُوا: هَلْ فِيكُمْ مَنْ يَرْقِي مِنَ الْعَقْرَبِ، قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا، وَلَكِنْ لَا أَرْقِيهِ حَتَّى تُعْطُونَا غَنَمًا، قَالَ: فَإِنَّا نُعْطِيكُمْ ثَلَاثِينَ شَاةً، فَقَبِلْنَا، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَبَرَأَ، وَقَبَضْنَا الْغَنَمَ، قَالَ: فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْهَا شَيْءٌ، فَقُلْنَا: لَا تَعْجَلُوا حَتَّى تَأْتُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَيْهِ ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي صَنَعْتُ، قَالَ: وَمَا عَلِمْتَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، اقْبِضُوا الْغَنَمَ وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ، وَرَخَّصَ الشَّافِعِيُّ لِلْمُعَلِّمِ أَنْ يَأْخُذَ عَلَى تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ أَجْرًا، وَيَرَى لَهُ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَى ذَلِكَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ، وَهُوَ أَبُو بِشْرٍ، وَرَوَى شُعْبَةُ، وَأَبُو عَوَانَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬৪
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ تعویز پر اجرت لینا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ (جن میں شامل میں بھی تھا) عرب کے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے، انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی، اسی دوران ان کا سردار بیمار ہوگیا، چناچہ ان لوگوں نے ہمارے پاس آ کر کہا : آپ لوگوں کے پاس کوئی علاج ہے ؟ ہم نے کہا : ہاں، لیکن تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی ہے اس لیے ہم اس وقت تک علاج نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اجرت نہ متعین کر دو ، انہوں نے اس کی اجرت میں بکری کا ایک گلہ مقرر کیا، ہم میں سے ایک آدمی (یعنی میں خود) اس کے اوپر سورة فاتحہ پڑھ کر دم کرنے لگا تو وہ صحت یاب ہوگیا، پھر جب ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس واقعہ کو بیان کیا تو آپ نے فرمایا : تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ جھاڑ پھونک (کی دعا) ہے ؟ ابو سعید خدری (رض) نے آپ سے اس پر کوئی نکیر ذکر نہیں کی، آپ نے فرمایا : کھاؤ اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث صحیح ہے، ٢ - یہ حدیث اعمش کی اس روایت سے جو جعفر بن ایاس کے واسطہ سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے، ٣ - کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي بشر جعفر بن أبي وحشية عن أبي المتوکل عن أبي سعيد» کی سند سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ٤٢٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (2063) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2064
حدیث نمبر: 2064 حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَكِّلِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِحَيٍّ مِنَ الْعَرَبِ، فَلَمْ يَقْرُوهُمْ وَلَمْ يُضَيِّفُوهُمْ، فَاشْتَكَى سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا، فَقَالُوا: هَلْ عِنْدَكُمْ دَوَاءٌ: قُلْنَا: نَعَمْ، وَلَكِنْ لَمْ تَقْرُونَا وَلَمْ تُضَيِّفُونَا، فَلَا نَفْعَلُ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا، فَجَعَلُوا عَلَى ذَلِكَ قَطِيعًا مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنَّا يَقْرَأُ عَلَيْهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَبَرَأَ، فَلَمَّا أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ قَالَ: وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ، وَلَمْ يَذْكُرْ نَهْيًا مِنْهُ، وَقَالَ: كُلُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي وَحْشِيَّةَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬৫
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جھاڑ پھونک اور ادویات
ابوخزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! جس دم سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، جس دوا سے علاج کرتے ہیں اور جن بچاؤ کی چیزوں سے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں (ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ) کیا یہ اللہ کی تقدیر میں کچھ تبدیلی کرتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ سب بھی اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر ہی کا حصہ ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ١ (٣٤٣٧) (تحفة الأشراف : ١١٨٩٨) (ضعیف) (اس کی سند میں اضطراب ہے ۔ یعنی ” أبوخزامة، عن أبيه “ یا ” ابن أبي خزامة، عن أبيه “ نیز ابو خزامہ تابعی ہیں یا صحابی ؟ ، اگر ” ابو خزامہ “ تابعی ہیں تو ان کا حال معلوم نہیں، اگر یہ صحابی ہیں تو ان کے بیٹے ” ابن أبی خزمہ “ ہیں، تراجع الالبانی ٣٤٤ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کی توفیق حسب تقدیر الٰہی ہوتی ہے ، اس لیے اسباب کو اپنانا چاہیئے ، لیکن یہ اعتقاد نہ ہو کہ ان سے تقدیر بدل جاتی ہے ، کیونکہ اللہ اپنے فیصلہ کو نہیں بدلتا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (3437) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (749) ، وسيأتي برقم (379 / 2252) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2065
حدیث نمبر: 2065 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا: هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا ؟ قَالَ: هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ ! ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬৬
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عجوہ (کھجور) جنت کا پھل ہے، اس میں زہر سے شفاء موجود ہے اور صحرائے عرب کا «فقعہ» ١ ؎ ایک طرح کا «من» (سلوی والا «من» ) ہے، اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - یہ محمد بن عمرو کی روایت سے ہے، ہم اسے صرف محمد بن عمر ہی سعید بن عامر کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ محمد بن عمرو سے روایت کرتے ہیں، ٣ - اس باب میں سعید بن زید، ابوسعید اور جابر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٨ (٣٤٥٥) (تحفة الأشراف : ١٥٠٢٧) و مسند احمد (٢/٣٠١، ٣٠٥، ٣٢٥، ٣٥٦، ٤٢١، ٤٨٨، ٤٩٠، ٥١١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہاں حدیث میں وارد لفظ «الکمأ ۃ » کا ترجمہ کھمبی قطعاً درست نہیں ہے «الکمأ ۃ » کو عربوں کی عامی زبان میں «فقعہ» کہا جاتا ہے ، یہ «فقعہ» موسم سرما کی بارشوں کے بعد صحرائے نجد و نفود کبریٰ ، مملکت سعودیہ کے شمال اور ملک عراق کے جنوب میں پھیلے ہوئے بہت بڑے صحراء میں زیر زمین پھیلتا ہے ، اس کی رنگت اور شکل و صورت آلو جیسی ہوتی ہے ، جب کہ کھمبی زمین سے باہر اور ہندوستان کے ریتلے علاقوں میں ہوتی ہے ، ابن القیم ، ابن حجر اور دیگر علماء امت نے «الکمأ ۃ » کی جو تعریف لکھی ہے اس کے مطابق بھی «الکمأ ۃ » درحقیقت «فقعہ» ہے کھمبی نہیں ، (تفصیل کے لیے فتح الباری اور تحفۃ الأحوذی کا مطالعہ کرلیں ، نیز اس پر تفصیلی کلام ابن ماجہ کے حدیث نمبر ( ٣٤٥٥ ) کے حاشیہ میں ملاحظہ کریں ، اور جہاں بھی «کمأ ۃ » کا ترجمہ کھمبی لکھا ہے ، اس کی جگہ «فقعہ» لکھ لیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (4235 / التحقيق الثانی) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2066
حدیث نمبر: 2066 حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ وَهُوَ ابْنُ أَبِي السَّفَرِ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَاسَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَفِيهَا شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ، وَالْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَجَابِرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَهُوَ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬৭
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)
سعید بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صحرائے عرب کا فقعہ ایک طرح کا «من» (سلوی والا «من» ) ہے اور اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر البقرة ٤ (٤٤٧٨) ، وتفسیر الأعراف ٢ (٤٦٣٩) ، والطب ٢٠ (٥٧٠٨) ، صحیح مسلم/الأشربة والأطعمة ٢٨ (٢٠٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٨ (٣٤٥٤) (تحفة الأشراف : ٤٤٦٥) ، و مسند احمد (١/١٨٧، ١٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، الروض النضير (444) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2067
حدیث نمبر: 2067 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ. ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬৮
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا : کھنبی زمین کی چیچک ہے، (یہ سن کر) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صحرائے عرب کا «فقعہ» ایک طرح کا «من» ہے، اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے، اور عجوہ کھجور جنت کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے، وہ زہر کے لیے شفاء ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٠٦٦ (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٦) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (2067) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2068
حدیث نمبر: 2068 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: الْكَمْأَةُ جُدَرِيُّ الْأَرْضِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ، وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَهِيَ شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৬৯
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے تین، پانچ یا سات کھنبی لی، ان کو نچوڑا، پھر اس کا عرق ایک شیشی میں رکھا اور اسے ایک لڑکی کی آنکھ میں ڈالا تو وہ صحت یاب ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (سند میں قتادہ اور ابوہریرہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، نیز یہ موقوف ہے، یعنی ابوہریرہ کا کلام ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مع وقفه صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2069
حدیث نمبر: 2069 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حُدِّثْتُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَخَذْتُ ثَلَاثَةَ أَكْمُؤٍ، أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا فَعَصَرْتُهُنَّ فَجَعَلْتُ مَاءَهُنَّ فِي قَارُورَةٍ فَكَحَلْتُ بِهِ جَارِيَةً لِي فَبَرَأَتْ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৭০
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کھمبی اور عجوہ (عمدہ کھجور)
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ کلونجی موت کے علاوہ ہر بیماری کی دوا ہے۔ قتادہ ہر روز کلونجی کے اکیس دانے لیتے، ان کو ایک پوٹلی میں رکھ کر پانی میں بھگوتے پھر ہر روز داہنے نتھنے میں دو بوند اور بائیں میں ایک بوند ڈالتے، دوسرے دن بائیں میں دو بوندیں اور داہنی میں ایک بوند ڈالتے اور تیسرے روز داہنے میں دو بوند اور بائیں میں ایک بوند ڈالتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (اس سند میں بھی قتادہ اور ابوہریرہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، نیز یہ موقوف ہے، یعنی ابوہریرہ کا کلام ہے، لیکن ابوہریرہ کا یہ قول مرفوع حدیث سے ثابت ہے، الصحیحة ١٩٠٥ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مع وقفه، لكن، الصحيحة مرفوعا دون قول قتادة : يأخذ ... ، الصحيحة (1905) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2070
حدیث نمبر: 2070 حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ بْنِ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حُدِّثْتُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: الشُّونِيزُ دَوَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ إِلَّا السَّامَ ، قَالَ قَتَادَةُ: يَأْخُذُ كُلَّ يَوْمٍ إِحْدَى وَعِشْرِينَ حَبَّةً فَيَجْعَلُهُنَّ فِي خِرْقَةٍ فَلْيَنْقَعْهُ فَيَتَسَعَّطُ بِهِ كُلَّ يَوْمٍ فِي مَنْخَرِهِ الْأَيْمَنِ قَطْرَتَيْنِ، وَفِي الْأَيْسَرِ قَطْرَةً، وَالثَّانِي: فِي الْأَيْسَرِ قَطْرَتَيْنِ، وَفِي الْأَيْمَنِ قَطْرَةً، وَالثَّالِثُ: فِي الْأَيْمَنِ قَطْرَتَيْنِ، وَفِي الْأَيْسَرِ قَطْرَةً.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৭১
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کاہن کی اجرت
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کے نذرانے لینے سے منع فرمایا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١١٣٣، ١٢٧٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : غیب کا علم صرف رب العالمین کے لیے خاص ہے ، اس کا دعویٰ کرنا بہت بڑا گناہ ہے ، اسی لیے اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل اور غلط طریقے سے جو مال لوگوں سے حاصل کرتے ہیں ، وہ حرام ہے ، زنا معصیت اور فحش کے اعمال میں سے سب سے بدترین عمل ہے ، اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت ناپاک اور حرام ہے ، کتا ایک نجس جانور ہے اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ جس برتن میں یہ منہ ڈال دے شریعت نے اسے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے ، اسی لیے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے ، سوائے اس کے کہ گھر ، جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (2159) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2071
حدیث نمبر: 2071 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৭২
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گلے میں تعویز لٹکانا
عیسیٰ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عکیم ابومعبد جہنی کے ہاں ان کی عیادت کرنے گیا، ان کو «حمرة» کا مرض تھا ١ ؎ ہم نے کہا : کوئی تعویذ وغیرہ کیوں نہیں لٹکا لیتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : موت اس سے زیادہ قریب ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کردیا گیا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : عبداللہ بن عکیم کی حدیث کو ہم صرف محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی روایت سے جانتے ہیں، عبداللہ بن عکیم نے نبی اکرم ﷺ سے حدیث نہیں سنی ہے لیکن وہ آپ ﷺ کے زمانہ میں تھے، وہ کہتے تھے : رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کے پاس لکھ کر بھیجا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ٦٦٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : «حمرہ» ایک قسم کا وبائی مرض ہے جس کی وجہ سے بخار آتا ہے ، اور بدن پر سرخ دانے پڑجاتے ہیں۔ ٢ ؎ : جو چیزیں کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہیں وہ حرام ہیں ، چناچہ تعویذ گنڈا اور جادو منتر وغیرہ اسی طرح حرام کے قبیل سے ہیں ، تعویذ میں آیات قرآنی کا ہونا اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیونکہ حدیث میں مطلق لٹکانے کو ناپسند کیا گیا ہے ، یہ حکم عام ہے اس کے لیے کوئی دوسری چیز مخص نہیں ہے۔ بلکہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی تعویذ ، گنڈا یا کوئی منکا وغیرہ لٹکایا اس نے شرک کیا ۔ قال الشيخ الألباني : حسن غاية المرام (297) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2072
حدیث نمبر: 2072 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عِيسَى أَخِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ أَبِي مَعْبَدِ الْجُهَنِيِّ أَعُودُهُ وَبِهِ حُمْرَةٌ، فَقُلْنَا: أَلَا تُعَلِّقُ شَيْئًا، قَالَ: الْمَوْتُ أَقْرَبُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُكَيْمٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: كَتَبَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৭৩
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرنا
رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بخار جہنم کی گرمی سے ہوتا ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں اسماء بنت ابوبکر، ابن عمر، زبیر کی بیوی، ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں (عائشہ (رض) کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٠ (٣٢٦٢) ، والطب ٢٨ (٥٧٢٦) ، صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢١٢) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١٩ (٣٤٧٣) (تحفة الأشراف : ٣٥٦٢) ، و مسند احمد (٣/٤٦٤) ، و (٤/١٤١) ، وسنن الدارمی/الرقاق ٥٥ (٢٨١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3473) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2073
حدیث نمبر: 2073 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْحُمَّى فَوْرٌ مِنَ النَّارِ فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَامْرَأَةِ الزُّبَيْرِ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৭৪
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بخار جہنم کی گرمی سے ہوتا ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٢٨ (٥٧٢٥) ، صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢١٠) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١٩ (٣٤٧١) (تحفة الأشراف : ١٧٠٥٠) ، مسند احمد (٦/٥٠، ٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2074
حدیث نمبر: 2074 حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ .
তাহকীক:
হাদীস নং: ২০৭৫
طب کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ صحابہ کو بخار اور ہر قسم کے درد میں یہ دعا پڑھنا سکھاتے تھے، «بسم اللہ الکبير أعوذ بالله العظيم من شر کل عرق نعار ومن شر حر النار» میں بڑے اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور عظمت والے اللہ کے واسطے سے ہر بھڑکتی رگ اور آگ کی گرمی کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - ہم اسے صرف ابراہیم بن اسماعیل بن ابوحبیبہ کی روایت سے جانتے ہیں اور ابراہیم بن اسماعیل ضعیف الحدیث سمجھے جاتے ہیں، ٣ - بعض احادیث میں «عرق نعار» کے بجائے «عرق يعار» بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٣٧ (٣٥٢٦) (تحفة الأشراف : ٦٠٧٦) (ضعیف) (سند میں ابراہیم بن اسماعیل ضعیف راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف، المشکاة (1554) // ضعيف الجامع الصغير (4587) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2075
حدیث نمبر: 2075 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْحُمَّى وَمِنَ الْأَوْجَاعِ كُلِّهَا أَنْ يَقُولَ: بِسْمِ اللَّهِ الْكَبِيرِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ مِنْ شَرِّ كُلِّ عِرْقٍ نَعَّارٍ، وَمِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، وَإِبْرَاهِيمُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى: عِرْقٌ يَعَّارٌ.
তাহকীক: