মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

যাকাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৭৬ টি

হাদীস নং: ৮৬৫
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صدقہ کے خواص اور برکات
مرثد بن عبداللہ تابعی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے کہ قیامت کے دن مومن پر اس کے صدقہ کا سایہ ہو گا ۔ (مسند احمد)

تشریح
حدیثوں میں بہت سے اعمال صالحہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن یہ اعمال سایہ کا ذریعہ بن جئائیں گے ۔ اس حدیث میں صدقہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں اس کی ایک برکت یہ ظاہر ہو گی کہ صدقہ کرنے والے کے لیے اس کا صدقہ سائبان بن جائے گا جو اس دن کی تپش اور تمازت سے اس کو بچائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقین اور اس کے مطابق عمل نصیب فرمائے ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنَّ ظِلَّ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَدَقَتُهُ "
(رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৬৬
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں آئی بلکہ برکت ہوتی ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی (بلکہ اضافہ ہوتا ہے) اور قصور معاف کر دینے سے آدمی نیچا نہیں ہوتا بلکہ اس کو سربلند کر دیتا ہے ۔ اور اس کی عزت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جو بندہ اللہ کے لیے فروتنی اور خاکساری کا رویہ اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کو رفعت اور بالا تری بخشے گا ۔ (صحیح مسلم)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ ، وَمَا زَادَ اللهُ بِعَفْوٍ ، إِلَّا عِزًّا ، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ »
(رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৬৭
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں آئی بلکہ برکت ہوتی ہے
حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ! بتائیے کہ صدقہ کیا ہے ؟ (یعنی اللہ کی طرف سے اس کا کیا اجر ملنے والا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : چند در چند (یعنی جتنا کوئی اللہ کی راہ میں صدقہ کرے اس کا کئی گنا اس کو ملے گا) اور اللہ کے ہاں بہت ہے ۔ (مسند احمد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو اللہ کی راہ میں جتنا صدقہ کرے گا اس کو اس کا کئی گنا اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا ۔ دوسری بعض احادیث میں دس گنے سے سات سو گنے تک کا ذکر ہے اور یہ بھی آخری حد نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اس سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا ۔ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ اس کا خزانہ لا انتہا ہے ۔
بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ صدقہ کے عوض میں کئی گنا تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں عطا فرماتا ہے ، اور اس کا صلہ جو آخرت میں عطا فرمایا جائے گا وہ اس سے بہت زیادہ ہو گا ۔
اللہ کے بندوں کا یہ عام تجربہ ہے کہ اللہ پر یقین اور اعتماد کرتے ہوئے وہ اخلاص کے ساتھ جتنا اس کی راہ میں اس کے بندوں پر صرف کرتے ہ یں اس کا کئی گنا اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا ہی میں عطا فرما دیتا ہے ، ہاں اخلاص اور یقین شرط ہے ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ : قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ : يَا نَبِىَّ اللَّهِ أَرَأَيْتَ الصَّدَقَةَ مَا هِيَ؟ قَالَ : "أَضْعَافٌ مُضَاعَفَةٌ ، وَعِنْدَ اللهِ مَزِيدٌ "
(رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৬৮
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ضرورتمندوں کو کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر و ثواب
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس مسلم نے کسی دوسرے مسلم بھائی کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا ، پہننے کو کپڑا دیا ، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جس مسلم بھائی نے دوسرے مسلم بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا ، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا ، اور جس مسلم نے پیاس کی حالت میں دوسرے مسلم بھائی کو پانی پلایا ، تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی سر بمہر شراب پلائے گا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَيُّمَا مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا عَلَى عُرْيٍ ، كَسَاهُ اللَّهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ ، وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ أَطْعَمَ مُسْلِمًا عَلَى جُوعٍ ، أَطْعَمَهُ اللَّهُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ ، وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ سَقَى مُسْلِمًا عَلَى ظَمَإٍ ، سَقَاهُ اللَّهُ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ »
(رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৬৯
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ضرورتمندوں کو کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر و ثواب
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ، جس بندے نے کسی مسلم کو کپڑا پہنایا وہ یقیناً اس وقت تک اللہ کے حفظ و امان میں رہے گا جب تک کہ اس کے جسم پر اس کپڑے میں سے کچھ بھی رہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی)
کتاب الزکوٰۃ
عَنِ ا بْنَ عَبَّاسٍ مَا مِنْ مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا إِلاَّ كَانَ فِي حِفْظٍ مِنَ اللهِ مَا دَامَ مِنْهُ عَلَيْهِ خِرْقَةٌ.
(رواه احمد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭০
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ ضرورتمندوں کو کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر و ثواب
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے سمجھنے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، جب میں نے غور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور دیکھا تو پہچان لیا (اور بلا کسی شک و شبہ کے جان لیا) کہ یہ ہرگز کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی جو بات فرمائی وہ یہ تھی کہ : “ اے لوگو ! آپس میں سلام کی خوب اشاعت کرو اور رواج دو (یعنی ہر ایک دوسرے کو سلام کیا کرے اس سے دل کی گرہیں کھلتی ہیں اور تعلق بڑھتا ہے) اور (اللہ کے بندوں کو خاص کر ان کو جو ضرورت مند ہوں) کھانا کھلاؤ ، اور آپس میں صلہ رحمی کرو (یعنی قرابت کے حقوق ادا کرو) اور رات کو جس وقت لو پڑے سوتے ہیں اللہ کے حضور میں نماز پڑھو ، ایسا کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں جاؤ گے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ ، جِئْتُ ، فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهُ ، عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ ، فَكَانَ أَوَّلُ مَا قَالَ : « يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ ، وَالنَّاسُ نِيَامٌ ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ »
(رواه الترمذى وابن ماجة)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭১
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بھوکے پیاسے جانوروں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بد چلن عورت اس عمل پر بخش دی گئی کہ وہ ایک کنوئیں کے پاس سے گزری اور اس نے دیکھا کہ ایک کتا زبان نکالنے ہوئے (اور اس کی حالت ایسی ہے کہ) گویا وہ پیاس سے مر ہی جائے گا (اس عورت کے دل میں ترس آیا ۔ وہاں پانی نکالنے کے لیے رسی ڈول کچھ موجود نہیں تھا) اس نے اپنا چمڑے کا موزہ پاؤں سے نکالا اور (کسی طرح اس کو) اپنی اوڑھنی سے باندھا اور (محنت مشقت کر کے) سی کے ذریعہ کنوئیں سے پانی نکال کر اس کو پلایا ، وہ عورت اپنے اسی عمل کی وجہ سے بخش دی گئی .... کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا جانوروں کے کھلانے پلانے میں بھی ثواب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! ہر حساس جانور (جس کو بھوک پیاس کی تکلیف ہوتی ہو) اس کو کھلانے پلانے میں اجر و ثواب ہے ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : غُفِرَ لِامْرَأَةٍ مُومِسَةٍ ، مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ ، قَالَ : كَادَ يَقْتُلُهُ العَطَشُ ، فَنَزَعَتْ خُفَّهَا ، فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا ، فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ المَاءِ ، فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ قِيْلَ إِنَّ لَنَا فِي البَهَائِمِ أَجْرًا؟ قَالَ : « نَعَمْ ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ"
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭২
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بھوکے پیاسے جانوروں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو مسلمان بندہ کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے تو اس درخت یا اس کھیتی سے جو پھل اور جو دانہ کوئی انسان یا کوئی پرندہ یا کوئی چوپایہ کھائے گا وہ اس بندہ کے لیے صدقہ اور اجر و ثواب کا ذریعہ ہو گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا ، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا ، فَيَأْكُلُ مِنْهُ إِنْسَانٌ أَوْ طَيْرٌ أَوْ بَهِيمَةٌ ، إِلَّا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةٌ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭৩
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اللہ کی بندوں کو زحمت سے بچانے کا صلہ جنت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ : اللہ کا کوئی بندہ کسی راستے پر چلا جا رہا تھا جس پر کسی درخت کی ایک شاخ تھی (جس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہوتی تھی) اس بندے نے اپنے جی میں کہا کہ میں اس شاخ کو یہاں سے الگ کر کے راستہ صاف کروں گا تا کہ بندگانِ خدا کو تکلیف نہ ہو (پھر اس نے ایسا ہی کیا) تو وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے جنت میں بھیج دیا گیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
بعض اعمال بظاہر بہت چھوٹے اور معمولی ہوتے ہیں ، لیکن کبھی کبھی وہ دل کی ایسی کیفیت اور ایسے خدا پرستانہ جذبہ کے ساتھ صادر ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بڑا قیمتی اور محبوب ہوتا ہے ، اس کی وجہ سے ارحم الراحمین کا دریائے رحمت جوش میں آ جاتا ہے ، پھر اس بندے کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اور اس کے لیے مغفرت اور داخلہ جنت کا فیصلہ فرما دیا جاتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی مندرجہ بالا حدیث میں ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے والی ایک بدچلن عورت کی مغفرت کی جو خوشخبری دی گئی ہے اور اس حدیث میں راستے سے ایک درخت کی صرف شاخ ہٹا دینے پر ایک آدمی کے داخلہ جنت کی جو بشارت سنائی گئی ہے اس کا راز یہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَرَّ رَجُلٌ بِغُصْنِ شَجَرَةٍ عَلَى ظَهْرِ طَرِيقٍ ، فَقَالَ : لَأُنَحِّيَنَّ هَذَا عَنِ طَرِيْقِ الْمُسْلِمِينَ لَا يُؤْذِيهِمْ فَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ "
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭৪
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کس وقت صدقہ کا ثواب بہت زیادہ ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : کس صدقہ کا ثواب زیادہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : زیادہ ثواب کی صورت یہ ہے کہ تم ایسی حالت میں صدقہ کرو جب کہ تمہاری تندرستی قائم ہو اورتمہارے اندر دولت کی چاہت اور اس کو اپنے پاس رکھنے کی حرص ہو ، اس حالت میں (راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے) تمہیں محتاجی کا خطرہ ہو ، اور دولت مندی کی دل میں آرزو ہو (ایسے وقت میں اللہ کی رضا کے لیے اپنا مال خرچ کرنا سچی خدا پرستی اور خدا طلبی کی دلیل ہے اور ایسے صدقہ کا ثواب بہت بڑا ہے) ۔ اور اسیا نہ ہونا چاہئے کہ تم سوچتے رہو اور ٹالتے رہو ، یہاں تک کہ جب موت کا وقت آ جائے اور جان کھنچ کر حلق میں آ جائے تو تم مال کے بارے میں وصیت کرنے لگو کہ اتنا فلاں کو اور اتنا فلاں کو ، حالانکہ اب تو مال (تمہاری ملکیت سے نکل کر) فلاں فلاں کا (یعنی وارثوں) کا ہو ہی جائے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
انسانوں کی یہ عام کمزوری ہے کہ جب تک وہ تندرست و توانا ہوتے ہیں اور موت سامنے نہیں کھڑی ہوتی ، وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل کرتے ہیں ۔ شیطان ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اگر ہم نے راہِ خدا میں خرچ کیا تو ہمارے پاس کمی ہو جائے گی ، ہم خود تنگدست اور محتاج ہو جائیں گے ۔ اس لیے ان کا ہاتھ نہیں کھلتا ، لیکن جب موت سامنے آ جائی ہے اور زندگی کی امید باقی نہیں رہتی تو انہیں صدقہ یاد آتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ہے ، اللہ کی نگاہ میں محبوب اور مقبول صدقہ وہ ہے جو بندہ تندستی اور توانائی کی ایسی حالت میں کرے کہ اس کے سامنے اپنے مسائل اور اپنا مستقبل بھی ہو اس کے باوجود وہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے آخرت کے ثواب کی امید میں اور رب کریم کے وعدوں پر یقین و اعتماد کرتے ہوئے اسی حال ت میں ہاتھ کھول کر اللہ کی راہ میں اس کے بندوں پہ خرچ کرے ۔ ایسے بندوں کے لیے قرآن مجید میں فلاح کا وعدہ ہے ۔ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : رَجُلٌ قَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ : " أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ ، تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى ، وَلَا تُمْهِلَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ الْحُلْقُومَ قُلْتَ : لِفُلَانٍ كَذَا ، وَلِفُلَانٍ كَذَا ، أَلَا وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ "
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭৫
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی صاحب ایمان بندہ اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرے تو وہ اس کے حق میں صدقہ ہو گا (اور وہ عند اللہ ثواب کا مستحق ہو گا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کم و بیش خرچ تو سب ہی کرتے ہیں لیکن اس خرچ کرنے سے لوگوں کو وہ روحانی خوشی حاصل نہیں ہوتی جو اللہ کے نیک بندوں کو دوسرے ضرورت مندوں اور مساکین و فقراء پر صدقہ کرنے سے ہوتی ہے ، کیوں کہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کو لوگ کار ثواب نہیں سمجھتے ، بلکہ اس کو مجبوری کا ایک تاوان ، یا نفس کا ایک تقاضا سمجھتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اپنے اہل و عیال اور اعزہ و اقارب پر بھی لوجہ اللہ اور ثواب کی نیت سے خرچ کرنا چاہئے ، اس صورت میں جو خرچ اس مد میں ہو گا وہ سب صدقہ کی طرح آخرت کے بینک میں جمع ہو گا ، بلکہ دوسرے لوگوں پر صدقہ کرنے سے زیادہ اس کا ثواب ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم سے ہمارے لیے خیر و سعادت کا ایک بہت بڑا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ اب ہم جو کچھ اپنے بیوی بچوں کے کھانے ، کپڑے پر ، حتیٰ کہ ان کے جوتوں پر جائز حدود میں خرچ کریں وہ ایک طرح کا “ صدقہ ” اور کار ثواب ہو گا ۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم اس ذہن سے اور اس نیت سے خرچ کریں ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا أَنْفَقَ المُسْلِمُ نَفَقَةً عَلَى أَهْلِهِ ، وَهُوَ يَحْتَسِبُهَا ، كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭৬
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ صدقہ افضل ترین صدقہ ہے جو غریب آدمی اپنی محنت کی کمائی سےکرے اور پہلے ان پر خرچ کرو جن کے تم ذمہ دار ہو (یعنی اپنے بیوی بچوں پر) ۔ (سنن ابی داؤد)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : « جُهْدُ الْمُقِلِّ ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ »
(رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭৭
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورعرض کیا کہ : میرے پاس ایک دینا رہے (بتائیے کہ میں وہ کہاں خرچ کروں اور کس کو دے دوں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (سب سے مقدم یہ ے) کہ اپنی ضرورتوں پر خرچ کرو ۔اس نے کہا کہ : اس کے لیے میرے پاس اور ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اسکو اپنی بیوی کی ضروریات پر خرچ کرو ۔ اس نے کہا کہ : اس کے لیے میرے پاس اور ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ پھر اس کو اپنے غلام اور خادم پر صرف کر دو ۔ اس نے کہا کہ : اس کے لیے میرے پاس اور ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ تم زیادہ واقف ہو (کہ تمہارے اہل قرابت میں کون زیادہ ضرورت مند اور مستحق ہے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)

تشریح
غالباً ان صاحب کے ظاہری حال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اندازہ کیا تھا کہ یہ خود ضرورت مند اور تنگ حال ہیں اور ان کے پاس بس ایک دینار ہے اور یہ اس کو ثواب آخرت اور اللہ کی رضا کے لیے کہیں خرچ کرنا چاہتے ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں کہ مومن بندہ جو کچھ اپنی ضرورتوں پر خرچ کرے یا اپنے بیوی بچوں اور غلاموں پر (جن کی اس پر ذمہ داری ہے) خرچ کرے وہ سب بھی صدقہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کا وسیلہ ہے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بالترتیب یہ مشورہ دیا ۔ عام اصول اور حکم یہی ہے کہ آدمی پہلے ان حقوق اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جن کا وہ ذاتی اور شخصی طور پر ذمہ دار ہے اس کے بعد آگے بڑھے ۔ ہاں وہ خاصاسن خدا جن کو توکل و اعتماد علی اللہ کا بلند مقام حاصل ہو اور ان کے اہل و عیال کو بھی اس عدولت میں سے حصہ ملا ہو ان کے لیے یہ صحیح ہے کہ خود فاقہ سے رہیں ، پیٹوں پہ پتھر باندھیں اور گھر میں جو کھانا ہو وہ دوسرے اہل حاجت کو کھلا دیں ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خواص صحابہ کا حال اور طرز یہی تھا ۔وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
(سورہ الحشر)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عِنْدِي دِينَارٌ قَالَ : « أَنْفِقْهُ عَلَى نَفْسِكَ » . قَالَ : عِنْدِي آخَرُ ، قَالَ : « أَنْفِقْهُ عَلَى وَلَدِكَ » . قَالَ : عِنْدِي آخَرُ ، قَالَ : « أَنْفِقْهُ عَلَى أَهْلِكَ » . قَالَ : عِنْدِي آخَرُ ، قَالَ : « أَنْفِقْهُ عَلَى خَادِمِكَ » . قَالَ : عِنْدِي آخَرُ ، قَالَ : « أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ »
(رواه ابوداؤد والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭৮
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اہل قرابت پر صدقہ کی خاص فضیلت
سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی اجنبی مسکین کو اللہ کے لیے کچھ دینا صرف صدقہ ہے ار اپنے کسی عزیز قریب (ضرورت مند) کو اللہ کے لیے کچھ دینے میں دو پہلو ہیں اور دو طرح کا ثواب ہے ، ایک یہ کہ وہ صدقہ ہے اور دوسرے یہ کہ وہ صلہ رحمی ہے (یعنی حق قرابت کی ادائیگی ہے) جو بجائے خود بڑی نیکی ہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، ابن ماجہ ، سنن دارمی)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ ، وَهِيَ عَلَى ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ : صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ.
(رواه احمد والترمذى والنسائى وابن ماجه والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৭৯
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اہل قرابت پر صدقہ کی خاص فضیلت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک خطبہ میں خاص طور سے عورتوں کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ : اے خواتین ! تم کو چاہئے کہ راہ خدا میں صدقہ کیا کرو ، اگرچہ تم کو اپنے زیورات میں سے دینا پڑے (آگے زینب بیان کرتی ہیں کہ) میں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا تو میں نے اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود کے پاس آئی اور میں نے ان سے کہا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم عورتوں کو خاص طور سے صدقہ کی تاکید فرمائی ہے (اور میں چاہتی ہوں کہ میرے پاس جو کچھ ہے اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی سعادت حاصل کروں) اور تم بھی تنگ حال اور خالی ہاتھ ہو ، اب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کرو (کہ اگر میں تم کو ہی دے دوں تو کیا میرا صدقہ ادا ہو جائے گا) اگر میرا تم کو دینا صحیح ہو تو میں تم ہی کو دے دوں گی ، ورنہ دوسرے ضرورت مند پر خرچ کر دوں گی .... کہتی ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود نے مجھ سے کہا کہ : تم خود ہی جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو ۔ تو میں خود گئی ، وہاں پہنچی تو دیکھا کہ انصار میں سے ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر کھڑی اور اس کی غرض بھی وہی ہے جو میری غرض ہے (یعنی وہ بھی یہی مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حاضر ہوئی تھی) ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص ہیبت دی تھی (جس کی وجہ سے ہر ایک کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو بدو بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی اس لیے ہمیں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی) اتنے میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص خادم اور موذن) حضرت بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے ۔ ہم دونوں نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیجئے کہ دو عورتیں دروازے پر کھڑی ہیں اور آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہیں کہ اگر وہ اپنے ضرورت مند شوہروں اور یتیموں پر جو خود ان کی گود میں پرورش پا رہے ہیں صدقہ کریں تو کیا یہ صدقہ ادا ہو جائے گا ۔ (اور ہم کو اس صدقہ کا ثواب ملے گا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی یہ نہ بتانا کہ ہم کون دو عورتیں ہیں ؟ .... بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں عورتوں کا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ : وہ کون عورتیں ہیں ؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ : ایک عورت تو انصار میں سے ہے اور دوسری زینب ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کون سی زینب ؟ بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ان کا صدقہ ادا ہو جائے گا ، بلکہ اس صورت میں) ان کو دو ہر ثواب ملے گا ، ایک صدقہ کا اور دوسرا ص؛پ رحمی کا ثواب ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ زَيْنَبَ ، امْرَأَةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « تَصَدَّقْنَ ، يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ ، وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ » قَالَتْ : فَرَجَعْتُ إِلَى عَبْدِ اللهِ فَقُلْتُ : إِنَّكَ رَجُلٌ خَفِيفُ ذَاتِ الْيَدِ ، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ ، فَأْتِهِ فَاسْأَلْهُ ، فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ يَجْزِي عَنِّي وَإِلَّا صَرَفْتُهَا إِلَى غَيْرِكُمْ ، قَالَتْ : فَقَالَ لِي عَبْدُ اللهِ : بَلِ ائْتِيهِ أَنْتِ ، قَالَتْ : فَانْطَلَقْتُ ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِبَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتِي حَاجَتُهَا ، قَالَتْ : وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُلْقِيَتْ عَلَيْهِ الْمَهَابَةُ ، قَالَتْ : فَخَرَجَ عَلَيْنَا بِلَالٌ فَقُلْنَا لَهُ : ائْتِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّ امْرَأَتَيْنِ بِالْبَابِ تَسْأَلَانِكَ : أَتُجْزِئُ الصَّدَقَةُ عَنْهُمَا ، عَلَى أَزْوَاجِهِمَا ، وَعَلَى أَيْتَامٍ فِي حُجُورِهِمَا؟ وَلَا تُخْبِرْهُ مَنْ نَحْنُ ، قَالَتْ : فَدَخَلَ بِلَالٌ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ هُمَا؟ » فَقَالَ : امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَزَيْنَبُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَيُّ الزَّيَانِبِ؟ » قَالَ : امْرَأَةُ عَبْدِ اللهِ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَهُمَا أَجْرَانِ : أَجْرُ الْقَرَابَةِ ، وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ "
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৮০
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اہل قرابت پر صدقہ کی خاص فضیلت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کھجور کے باغات کے لحاظ سے مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ دولت مند حضرت ابو طلحہ انصاری تھے اور انہیں اپنے باغات اور جائیدادوں میں سے سے زیادہپ محبوب بیر حا تھا (یہ ان کے ایک قیمتی باغ کا نام تھا) اور یہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس کا نفیس پانی (شوق سے) نوش فرماتے تھے ... انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی : لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (نیکی اور مقبولیت کا مقام تم کو اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اپنی محبوب چیزوں کو تم راہ خدا میں خرچ نہ کرو) تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ اور مجھے اپنی ساری مالیات میں سب سے زیادہ محبوب بیر حاء ہے ، اس لیے اب وہی میری طرف سے اللہ کے لیے صدقہ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ آخرت میں مجھے اس کا ثواب ملے گا ، اور میرے لیے ذخیرہ ہو گا ۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں وہ فیصلہ فرما دیں جو اللہ تعالیٰ آپ کے ذہن میں ڈالے (یعنی جو مصرف اس کا مناسب سمجھیں معین فرما دیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : واہ واہ ! یہ تو بڑی نفع مند اور کارآمد جائیداد ہے ، میں نے تمہاری بات سن لی (اور تمہارا منشاء سمجھ لیا) میں سمجھتا ہوں کہ تم اس کو اپنے ضرورت مند قرئبی رشتہ داروں میں تقسیم کر دو ۔ حضرت ابو طلحہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں یہی کروں گا ۔ چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں میں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
بعض روایات میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا یہ باغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق اپنے خاص اقارب ابی بن کعب ، حسان بن ثابت ، شداد بن اوس اور عبیط بن جابر پر تقسیم کر دیا تھا ..... یہ باغ کس قدر قیمتی تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بعد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صرف حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا حصہ ایک لاکھ درہم میں خریدا تھا ۔
فائدہ .... چونکہ آدمی کا زیادہ واسطہ اپنے عزیزوں قریبوں ہی سے رہتا ہے اور زیادہ تر معاملات انہیں سے پڑتے ہیں ، اس لیے اختلافات اور تنازعات بھی زیادہ تر اقارب ہی سے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس دنیا کی زندگی بھی عذاب بن جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہے ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم و ہدایت پر عمل کیا جائے اور لوگ اپنے قرابت داروں پر اپنی کمائی خرچ کرنا اللہ کی رضا کا وسیلہ سمجھیں تو دنیا اور آخرت کے بڑے عذاب سے محفوظ رہیں ۔ کاش دنیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کی قدر سمجھے اور اس سے فائدہ اٹھائے ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ ، وَكَانَ أَحَبُّ مَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ المَسْجِدِ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ ، قَالَ أَنَسٌ : فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ : {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} وَإِنَّ أَحَبَّ مَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « بَخٍ بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ » فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ : أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَفِي بَنِي عَمِّهِ .
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৮১
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مرنے والوں کی طرف صدقہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ : میری والدہ کا بالکل اچانک اور دفعتاً انتقال ہو گیا اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ موت واقع ہونے سے پہلے کچھ بول سکتیں تو وہ ضرور کچھ صدقہ کرتیں ، تو اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کا ثواب ان کو پہنچ جائے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہاں ! پہنچ جائے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
صدقہ کیا ہے ؟ اللہ نے بندوں کے ساتھ اس نیت سے اور اس امید پر احسان کرنا کہ اس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت اور مہربانی نصیب ہو گی اور بلا شبہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا کرم و احسان حاصل کرنے کا خاص الخاص وسیلہ ہے ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ جس طرح ایک آدمی اپنی طرف سے صدقہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے ثواب و صلہ کی امید کر سکتا ہے اسی طرح اگر کسی مرنے والے کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کا ثواب و صلہ اس مرنے والے کو عطا فرمائے گا .... پس مرنے والوں کی خدمت اور ان کے ساتھ ہمدردی و احسان کا ایک طریقہ ان کے لیے دعا و استغفار کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے ، یا اسی طرح ان کی طرف سے دوسرے اعمال خیر کر کے ان کو ثواب پہنچایا جائے ..... اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے :
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا ، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : « نَعَمْ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৮২
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مرنے والوں کی طرف صدقہ
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ کی والدہ کا انتقال ایسے وقت ہوا کہ خود سعد موجود نہیں تھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے ہوئے تھے ۔ جب ان کی واپسی ہوئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ ! میری عدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہو گیا ، تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں ، تو کیا وہ ان کے لیے نفع مند ہو گا (اور ان کو اس کا ثواب پہنچے گا ؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں پہنچے گا ۔ انہوں نے عرض کیا : تو میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا باغ مخراف اپنی والدہ مرحومہ کے لیے صدقہ کر دیا ۔ (صحیح بخاری)
کتاب الزکوٰۃ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا ، أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا؟ قَالَ : « نَعَمْ » ، قَالَ : فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ المِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا.
(رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৮৩
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مرنے والوں کی طرف صدقہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ : حضرت ! میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور انہوں نے ترکہ میں کچھ مال چھوڑا ہے اور (صدقہ وغیرہ کی) کوئی وصیت نہیں کی ہے ، تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا میرا یہ صدقہ ان کے لیے کفارہ سیئات اور مغفرت و نجات کا ذریعہ بن جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! (اللہ تعالیٰ سے اسی کی امید ہے) ۔ (تہذیب الآثار لابن جریر)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : جَاءَ رَجُلًا اِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا ، وَلَمْ يُوصِ ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ فَقَالَ : « نَعَمْ »
(رواه ابن جرير فى تهذيب الآثار)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৮৪
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ مرنے والوں کی طرف صدقہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ قربان کرنے کی نذر مانی تھی (جس کو وہ پورا نہیں کر سکے تھے) تو ان کے ایک بیٹے ہشام بن العاص نے تو پچاس اونٹوں کی قربانی (اپنے باپ کی اس نذر کے حساب میں) کر دی ، اور دوسرے بیٹے عمرو بن العاص نے (جن کو اللہ نے اسلام کی توفیق دے دی تھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اگر تمہارے باپ ایمان لے آئے ہوتے اور پھر تم ان کی طرف سے روزے رکھتے یا صدقہ کرتے ، تو ان کے لیے نفع مند ہوتا (اور اس کا ثواب ان کو پہنچتا ، لیکن کفر و شرک کی حالت میں مرنے کی وجہ سے اب تمہارا کوئی عمل ان کے کام نہیں آ سکتا) ۔ (مسند احمد)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حدیثوں میں (اور ان کے علاوہ بھی بہت سی حدیثوں میں جو کتب حدیث کے مختلف ابواب میں مروی ہیں) یہ بات پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ صدقہ وغیرہ جو قابل قبول نیک عمل کسی مرنے والے کی طرف سے کیا جائے یعنی اس کا ثواب اس کو پہچایا جائے وہ اس کے لیے نفع مند ہو گا اور اس کو اس کا ثواب پہنچے گا .... گویا جس طرح اس دنیا میں ایک آدمی اپنا کمایا ہوا پیسہ اللہ کے کسی دوسرے بندے کو دے کر اس کی خدمت اور مدد کر سکتا ہے اور وہ بندہ اس سے نفع اٹھا سکتا ہے اسی طرح اگر کوئی صاحب ایمان اپنے مرحوم ماں باپ یا کسی دوسرے مومن بندہ کی طرف سے صدقہ کر کے اس کو آخرت میں نفع پہنچانا اور اس کی خدمت کرنا چاہے تو مندرجہ بالا حدیثوں نے بتایا کہ ایسا ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔
سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ کتنا عظیم فضل و احسان ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس راستے سے ہم اپنے ماں باپ اور دوسرے عزیزوں قریبوں اور دوستوں محسنوں کی خدمت ان کے مرنے کے بعد بھی کر سکتے ہیں ، اور اپنے ہدئیے اور تحفے ان کو برابر بھیج سکتے ہیں ۔
یہ مسئلہ احادیث نبویہ سے بھی ثابت ہے اور اس پر امت کے ائمہ حق کا اجماع بھی ہے ۔ ہمارے زمانہ کے بعض ان لوگوں نے جو حدیث و سنت کو کتاب اللہ کے بعد دین و شریعت کی ثانوی اساس بھی نہیں مانتے ، اور اس کے حجت دینی ہونے کے قطعی منکر ہیں ، اس مسئلہ سے نکار کیا ہے .... اس عاجز نے اب سے قریباً ۲۰ سال پہلے ایک مستقل مبسوط رسالہ اس موضوع پر لکھا تھا ، اس میں اس مسئلہ کے ہر پہلو پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے اور منکرین کے ہر شبہ کا جواب دیا گیا ہے ۔ الحمد للہ وہ اس موضوع پر کافی شافی ہے ۔
کتاب الزکوٰۃ کو ہم اسی پر ختم کر کے کتاب الصوم شروع کرتے ہیں ۔
اللَّهُمَّ , لَكَ الْحَمْدُ وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنَ عَمْرُو بْنَ الْعَاصَ أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَنْحَرَ مِائَةَ بَدَنَةٍ وَأَنَّ هِشَامَ بْنَ الْعَاصِي نَحَرَ حِصَّتَهُ خَمْسِينَ بَدَنَةً وَأَنَّ عَمْرًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ : « أَمَّا أَبُوكَ ، فَلَوْ كَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ ، فَصُمْتَ ، وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ ، نَفَعَهُ ذَلِكَ »
(رواه احمد)
tahqiq

তাহকীক: