মা'আরিফুল হাদীস

معارف الحديث

যাকাত অধ্যায় - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৭৬ টি

হাদীস নং: ৮৪৫
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کن حالات میں سوال کرنے کی اجازت ہے اور کن حالات میں ممانعت
حبشی بن جنادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سوال کرنا جائز نہیں ہے غنی آدمی کو اور نہ توانا اور تندرست آدمی کو ۔ البتہ ایسے آدمی کو جائز ہے جس کو ناداری اور افلاس نے زمین پر گرا دیا ہو یا جس پر قرض یا کسی تاوان وغیرہ کا کوئی بھاری بوجھ پڑ گیا ہو ، اور جو آدمی (محتاجی کی وجہ سے نہیں بلکہ) اپنے مال کے اضافے کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور سوال کرے تو قیامت کے دن اس کا یہ سوال اس کے چہرے پر ایک زخم اور گھاؤ کی شکل میں نمایاں ہو گا۔ اور جہنم کا گرم جلتا ہوا پتھر ہو گا جس کو وہاں وہ کھائے گا ، اس کے بعد جس کا جی چاہے سوال کم کرے اور جس کا جی چاہے زیادہ کرے (اور آخرت میں اس کا یہ نتیجہ بھگتے) ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حضرات محدثین “ کتاب الزکوٰۃ ” ہی میں وہ حدیثیں بھی درج کرتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ جن حالات میں سوال کرنے کی ممانعت ہے اور کن حالات میں اجازت ہے ۔ ان کے اس طریقے کی پیروی میں اس سلسلہ “ معارف الحدیث ” میں بھی وہ حدیثیں یہیں درج کی جاتی ہیں :

تشریح ..... اس حدیث میں بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث (نمبر ۱۴) کی طرح غنی سے مراد وہ آدمی ہے جو فی الحال محتاج اور ضرورت مند نہ ہو (اگرچہ وہ صاحب نصاب اور سرمایہ دار بھی نہ ہو) ایسے آدمی کو اور اس تندرست و توانا آدمی کو جو محنت کر کے اپنی روزی کما سکتا ہو ، اس حدیث میں سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ عام ضابطہ اور مسئلہ یہی ہے کہ ایسے آدمی کو کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرنا چاہئے ۔ ہاں اگر افلاس و ناداری نے کسی کو بالکل ہی گرا دیا ہو اور سوال کے سوا اس کے سامنے کوئی راہ نہ ہو ، یا کسی کو کوئی جرمانہ یا تاوان یا قرض ادا کرنا ہو اور وہ دوسروں سے امداد لیے بغیر اس کو ادا نہ کر سکتا ہو تو ان صورتوں میں اس کو سوال کرنے کی اجازت ہے .... آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص ضرورت مندی اور محتاجی کی مجبوری سے نہیں بلکہ اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا اس کو قیامت میں اس کی سزا یہ دی جائے گی کہ اس کے چہرے پر ایک بدنما گھاؤ ہو گا .... اور جو کچھ اس نے سوال کر کے لوگوں سے لیا تھا وہ وہاں جہنم کا گرم پتھر بنا دیا جائے اور وہ اسے کھانے پر مجبور ہو گا ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لاَ تَحِلُّ لِغَنِيٍّ ، وَلاَ لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ ، إِلاَّ لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ ، أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِهِ مَالَهُ ، كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ ، وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ
(رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৪৬
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کن حالات میں سوال کرنے کی اجازت ہے اور کن حالات میں ممانعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی (حاجت سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ) زیادہ مال حاصل کرنے کے لیے لوگوں سے مانگتا ہے تو وہ درحقیقت اجپنے لیے جہنم کا انگارہ مانگتا ہے (یعنی جو کچھ اس طرح سوال کر کے وہ حاصل کرے گا وہ آخرت میں اس کے لیے دوزخ کا انگارہ بن جائے گا) ...... اب خواہ اس میں کمی کرے ، یا زیادتی کرے ۔ (صحیح مسلم)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ « مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلَّ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ »
(رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৪৭
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ کن حالات میں سوال کرنے کی اجازت ہے اور کن حالات میں ممانعت
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ایسی حالت میں لوگوں سے سوال کرے کہ اس کے پاس “ مَا يُغْنِيهِ ” ہو (یعنی اتنا موجود ہو جو اس کے لیے کافی ہو ، اور جس کے بعد وہ دوسروں کا محتاج اور دست نگر نہ رہے) تو وہ قیامت کے دن محشر میں اس حال میں آئے گا کہ اس کا سوال اس کے چہرے میں ایک گھاؤ کی صورت میں ہو گا (خموش) خدوش ، کدوخ ۔ یہ تینوں لفظ قریب المعنی ہیں ، ان کے معنی زخم کے ہیں ۔ غالباً راوی کو شک ہو گیا ہے کہ اصل حدیث میں ان تینوں میں سے کون سا لفظ تھا .... آگے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کا یہ ارشاد سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کتنی مقدار ہے جس کو آپ نے “ مَا يُغْنِيهِ ” فرمایا (اور جس کے بعد وہ دوسروں کا محتاج اور دست نگر نہیں رہتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : پچاس درہم ، یا ان کی قیمت کا سونا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس پچاس درہم یا اس کے قریب مالیت موجود ہو ، جسے وہ اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتا ہو اور کسی کاروبار میں لگا سکتا ہو اس کے لیے سوال کرنا گناہ ہے ، اور ایسا شخص قیامت میں اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر اس ناجائز سوال کی وجہ سے بدنما داغ ہو گا ۔
اس حدیث میں اس غنا کا معیار جس کے ہوتے ہوئے سوال جائز نہیں ، پچاس درہم کی مالیت کو قرار دیا گیا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کی مالیت کا بھی ذکر ہے ..... اور ظاہر ہے کہ ان دونوں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے لیکن سنن ابی داؤد کی ایک اور حدیث میں جو سہل بن الحنظلیہ سے مروی ہے مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا : ما الغنى الذى تسعى معه المسئلة (غنا کی وہ کیا مقدار ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہئے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قدر ما يغديه ويعشيه (اتنا کہ اس سے دن کا کھانا کھا سکے اور رات کا کھانا کھا سکے) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایک دن کے کھانے بھر بھی ہے تو اس کو سوال کرنا درست نہیں ۔
وہ غنا جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اس کا معیار تو متعین ہے اور اس کے متعلق حدیثیں پہلے گزر چکی ہیں ، لیکن وہ غنا جس کے حاصل ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں اس کے معیار مختلف بیان فرمائے ہیں ۔ شارحین حدیث نے اس اختلاف کی توجیہ کئی طرح سے کی ہے ۔ اس عاجز کے نزدیک سب سے اقرب بات یہ ہے کہ یہ اختلاف اشخاص اور احوال کے لحاظ سے ہے ۔ یعنی بعض حالات اور اشخاص ایسے ہو سکتے ہیں کہ تھوڑا بہت اثاثہ ہونے کی صورت میں بھی ان کے لیے سوال کی گنجائش ہو سکتی ہے ، لیکن اگر یہ اثاثہ (۴۰ ، ۵۰) درہم کی مالیت کو معیار بتایا گیا ہے ان میں رخصت اور فتوے کا بیان ہے ، اور جن میں ایک دن کے کھانے بھر ہونے کی صورت میں بھی سوال سے منع کیا گیا ہے وہ عزیمت اور تقوے کا مقام ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ سَأَلَ ، وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ ، جَاءَتْ مَسْأَلَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي وَجْهِهِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ ، أَوْ كُدُوحٌ » ، قِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا يُغْنِيهِ؟ قَالَ « خَمْسُونَ دِرْهَمًا ، أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ »
(رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى وابن ماجه والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৪৮
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ سوال میں بہرحال ذلت ہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا اور مانگنے سے پرہیز کرنے کا ذکر کرتے ہوئے بر سر منبر ایک دن فرمایا : اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ، اوپر والا ہاتھ دینے والا ہوتا ہے اور نیچے والا ہاتھ لینے والا ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ دینے والے کا مقام اونچا اور عزت کا ہے ، اور مانگنے والے کا نیچا اور ذلت کا ۔ اس لیے مومن کو دینے والا بننا چاہئے اور سوال کی ذلت سے اپنے کو حتی الامکان بچانا ہی چاہئے ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنِ بْنِ عُمَر أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ عَلَى المِنْبَرِ وَهُوَ يَذْكُرُ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ عَنِ الْمَسْأَلَةِ اليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى ، فَاليَدُ العُلْيَا : هِيَ المُنْفِقَةُ ، وَالسُّفْلَى : هِيَ السَّائِلَةُ.
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৪৯
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اگر سوال کرنا ناگزیر ہو تو اللہ کے نیک بندوں سے کیا جائے
ابن الفراسی تابعی اپنے والد فراسی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : میں اپنی ضرورت کے لیے لوگوں سے سوال کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (جہاں تک ہو سکے) سوال نہ کرو ، اور اگر تم سوال کے لیے مجبور ہی ہو جاؤ تو اللہ کے نیک بندوں سے سوال کرو ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
کتاب الزکوٰۃ
عَنِ ابْنِ الْفِرَاسِيِّ ، أَنَّ الْفِرَاسِيَّ ، قَالَ قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَسْأَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا ، وَإِنْ كُنْتَ سَائِلًا لَا بُدَّ ، فَاسْأَلِ الصَّالِحِينَ » (رواه ابوداؤد والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫০
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اگر سوال کرنا ناگزیر ہو تو اللہ کے نیک بندوں سے کیا جائے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس آدمی کو کوئی سخت حاجت پیش آئی اور اسے اس نے بندوں کے سامنے رکھا (اور ان سے مدد چاہی) تو اسے اس مصیبت سے مستقل نجات نہیں ملے گی ، اور جس آدمی نے اسے اللہ کے سامنے رکھا اور اس سے دعا کی ، تو پوری امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی اس کی یہ حاجت ختم کر دے ، یا تو جلدی موت دے کر (اور اگر اس کی موت کا مقرر وقت آ گیا ہو) یا کچھ تاخیر سے خوشحالی دے کر ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)
کتاب الزکوٰۃ
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ ، فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ ، لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ ، وَمَنْ أَنْزَلَهَا بِاللَّهِ ، أَوْشَكَ اللَّهُ لَهُ ، بِالْغِنَى ، إِمَّا بِمَوْتٍ عَاجِلٍ ، أَوْ غِنًى آجِلٍ »
(رواه ابوداؤد والترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫১
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ بندوں سے سوال نہ کرنے پر جنت کی ضمانت
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا : جو مجھ سے اس بات کا عہد کرے کہ وہ اللہ کے بندوں سے اپنی کوئی حاجت نہ مانگے گا تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔ ثوبان کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) میں یہ عہد کرتا ہوں .... راوی کا بیان ہے کہ اس وجہ سے حضرت ثوبان کا یہ دستور تھا وہ کسی آدمی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ ثَوْبَانُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ يَكْفُلُ لِي أَنْ لَا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا ، فأَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ فَقَالَ ثَوْبَانُ : أَنَا ، فَكَانَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا.
(رواه ابوداؤد والنسائى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫২
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ اگر بغیر سوال اور طمع نفس کے کچھ ملے تو اس کو لے لینا چاہئے
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مجھے کچھ عطا فرماتے تھے تو میں عرض کرتا تھا کہ : حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ! کسی ایسے آدمی کو دے دیجئے جس کو مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ عمر اس کو لے لو اور اپنی ملکیت بنا لو (پھر چاہو تو) صدقہ کے طور پر کسی حاجت مند کو دے دو (اور اپنا یہ اصول بنا لو کہ) جب کوئی مال تمہیں اس طرح ملے کہ نہ تو تم نے اس کے لیے سوال کیا اور نہ تمہارے دل میں اس کی چاہت اور طمع ہو (تو اس کو اللہ کا عطیہ سمجھ کر) لے لی کرو ، اور جو مال اس طرح تمہارے پاس نہ آئے تو اس کی طرف توجہ بھی نہ کرو (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : كَانَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي العَطَاءَ ، فَأَقُولُ : أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي ، فَقَالَ : « خُذْهُ إِذَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا المَالِ شَيْءٌ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلاَ سَائِلٍ ، فَخُذْهُ وَمَا لاَ فَلاَ تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫৩
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جب تک محنت سے کما سکتے ہو سوال نہ کرو
حضرت زبیر بن العوام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کسی ضرورت مند آدمی کا یہ رویہ کہ وہ رسی کے کر جنگل جائے اور لکڑیوں کا ایک گٹھا اپنی کمر پر لاد کے لائے اور بیچے ، اور اس طرح اللہ کی توفیق سے وہ سوال کی ذلت سے اپنے کا بچا لے ، اس سے بہت بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے سوال کا ہاتھ پھیلائے پھر خواہ وہ اس کو دیں یا نہ دیں ۔ (صحیح بخاری)
کتاب الزکوٰۃ
عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ العَوَّامِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ ، فَيَأْتِيَ بِحُزْمَةِ الحَطَبِ عَلَى ظَهْرِهِ ، فَيَبِيعَهَا ، فَيَكُفَّ اللَّهُ بِهَا وَجْهَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنَعُوهُ »
(رواه البخارى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫৪
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جب تک محنت سے کما سکتے ہو سوال نہ کرو
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک (مفلس اور غریب شخص) انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور (اپنی حاجت مندی ظاہر کر کے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز بھی نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا : پس ایک کمبل ہے جس میں سے کچھ ہم اوڑھ لیتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں ، (باقی بس اللہ کا نام ہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہی دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ ، انہوں نے وہ دونوں لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کمبل اور پیالہ ہاتھ میں لیا اور (نیلام کے طریقے پر) حاضرین سے فرمایا : کون ان دونوں چیزوں کو خریدنے پر تیار ہے ؟ ایک صاحب نے عرض کیا : حضرت ! میں ایک درہم میں ان کو لے سکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کون ایک درہم سے زیادہ لگاتا ہے ؟ “ ، (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ یا تین دفعہ فرمائی) ایک دوسرے صاحب نے عرض کیاکہ : حضرت ! میں یہ دو درہم میں لے سکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں چیزیں ان صاحب کو دے دیں اور ان سے دو درہم لے لیے اور ان انصاری کے حوالے کئے اور ان سے فرمایا کہ : ان میں سے ایک کا تو تم کھانے کا کچھ سامان (غلہ وغیرہ) لے کر اپنے بیوی بچوں کو دے دو اور دوسرے درہم سے ایک کلہاڑی خریدو اور اس کو میرے پاس لے کر آؤ ، انہوں نے ایسا ہی کیا اور کلہاڑی لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس کلہاڑی میں لکڑی کا ایک دستہ خوب مضبوط لگا دیا ، اور ان سے فرمایا : جاؤ اور جنگل کی لکڑیاں لا کر بیچو اور اب میں پندرہ دن تک تم کو نہ دیکھوں ، (یعنی دو ہفتہ تک یہی کام کرو اور میرے پاس آنے کی بھی کوشش نہ کرو) چنانچہ وہ صاحب چلے گئے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق جنگل کی لکڑیاں لا لا کر بیچتے رہے ، پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنی محنت اور لکڑی کے اس کاروبار میں دس بارہ درہم کما لئے تھے ، جن میں کچھ کا انہوں نے کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ وغیرہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اپنی محنت سے یہ کمانا تمہارے لیے اس سے بہت ہی بہتر ہے کہ قیامت کے دن لوگوں سے مانگنے کا داغ تمہارے چہرے پر ہو ، (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) سوال کرنا صرف تین قسم کے آدمیوں کے لیے درست ہے : ایک وہ آدمی جسے فقر و فاقہ نے زمین سے لگا دیا ہو ، دوسرے وہ جس پر قرض یا کسی ڈنڈ کا بھاری بوجھ ہو ، (جس کی ادائیگی اس کے امکان میں نہ ہو) تیسرے وہ جس کو کوئی خون بہا ادا کرنا ہو اور وہ اسے ادا نہ کر سکتا ہو ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہ حدیث کسی تشریح کی محتاج نہیں ۔ افسوس ً جس پیغمبر کی یہ ہدایت اور یہ طرز عمل تھا ، اس کی امت میں پیشہ ور سائلوں اور گداگروں کا ایک طبقہ موجود ہے ، اور کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو عالم یا پیر بن کر معزز قسم کی گدا گری کرتے ہیں ۔ یہ لوگ سوال اور گدا گری کے علاوہ فریب دہی اور دین فروشی کے بھی مجرم ہیں ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ ، فَقَالَ : « أَمَا فِي بَيْتِكَ شَيْءٌ؟ » فَقَالَ : بَلَى ، حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ ، وَقَعْبٌ نَشْرَبُ فِيهِ مِنَ الْمَاءِ ، قَالَ : « ائْتِنِي بِهِمَا » ، قَالَ : فَأَتَاهُ بِهِمَا ، فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ، وَقَالَ : « مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ؟ » قَالَ رَجُلٌ : أَنَا ، آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ ، قَالَ : « مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ ، أَوْ ثَلَاثًا » ، قَالَ رَجُلٌ : أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ ، وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ وَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ ، وَقَالَ : « اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ ، وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا فَأْتِنِي بِهِ ، » ، فَأَتَاهُ بِهِ ، فَشَدَّ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودًا بِيَدِهِ ، ثُمَّ قَالَ لَهُ : « اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَبِعْ ، وَلَا أَرَيَنَّكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا » ، فَذَهَبَ الرَّجُلُ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ ، فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ ، فَاشْتَرَى بِبَعْضِهَا ثَوْبًا ، وَبِبَعْضِهَا طَعَامًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ الْمَسْأَلَةُ نُكْتَةً فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِثَلَاثَةٍ : لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ ، أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ ، أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ "
(رواه ابوداؤد)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫৫
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ زکوٰۃ کے علاوہ مالی صدقات
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی (اللہ کا) حق ہے ” ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔
لَيْسَ البِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ ، وَلَكِنَّ البِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ وَالمَلاَئِكَةِ وَالكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى المَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي القُرْبَى وَاليَتَامَى وَالمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ، وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ ، وَآتَى الزَّكَاةَ
..... الآيَةَ (البقرة : 177 : 2)
اصل نیکی اور بھلائی (کا معیار) یہ نہیں ہے کہ (عبادت میں) تم مشرق کی طرف اپنا رخ کرو ، یا مغرب کی طرف ، بلکہ اصل نیکی کی راہ بس ان لوگوں کی ہے جو ایمان لائے اﷲ پر اور آخرت کے دن پر اور ملائکہ پر اور اﷲ کی کتابوں پر اور اس کے نبیوں پر ، اور جنہوں نے مال کی محبت کے باوجود اس کو خرچ کیا قرابت داروں اور یتیموں ، مسکینوں پر اور مسافروں پر اور سائلوں پر اور غلاموں کی آزادی دلانے میں ، اور اچھی طرح قائم کی انہوں نے نماز اور ادا کی زکوٰۃ ۔ الخ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی)

تشریح
حدیث کا مقصد و منشاء یہ ہے کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہئے ک مقررہ زکوٰۃ (یعنی فاضل سرمایہ کا چالیسواں حصہ) ادا کر دینے کے بعد آدمی پر اللہ کا کوئی مالی حق اور مطالبہ باقی نہیں رہتا اور وہ اس سلسلہ کی ہر قسم کی ذمہ داریوں سے بالکل سبکدوش ہو جاتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے ، بلکہ خاص حالات میں زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی اللہ کے ضرورت مند بندوں کی مدد کی ذمہ داری دولت مندوں پر باقی رہتی ہے ۔ مثلاً ایک صاحب ثروت آدمی حساب سے پوری زکوٰۃ ادا کر چکا ہو ، اس کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس کے پڑوس میں فاقہ یا اس کا فلاں قریبی رشتہ دار سخت محتاجی کی حالت میں ہے ، یا کوئی شریف مصیبت زدہ مسافر ایسی حالت میں اس کے پاس پہنچے جس کو فوری امداد کی ضرورت ہو تو ایسی صورتوں میں ان ضرورتمندوں ، محتاجوں کی امداد اس پر واجب ہو گی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بیان فرمائی اور بطور استشہاد سورہ بقرہ کی مندرجہ بالا آیات تلاوت فرمائی ۔ اس آیت میں اعمال بر (نیکی کے کاموں) کے ذیل میں ایمان کے بعد یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ، سائلوں وغیرہ حاجت مند طبقوں کی مالی مدد کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد اقامت صلوٰۃ اور اداء زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کمزور اور ضرورت مند طبقوں کی مالی مدد کا جو ذکر یہاں کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے ، کیوں کہ زکوٰۃ کا مستقلاً ذکر اس آیت میں آگے موجود ہے ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، قَالَتْ : قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ ، ثُمَّ تَلاَ لَيْسَ البِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ الآيَةَ.....
(رواه الترمذى وابن ماجه والدارمى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫৬
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ امیر غریب ہر مسلمان کے لیے صدقہ لازم ہے
حضرت اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ : اگر کسی آدمی کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اپنے دست و بازو سے محنت کرے اور کمائے ۔ پھر اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے ۔ عرض کیا گیا کہ : اگر وہ یہ نہ کر سکتا ہو تو کیا کرے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی پریشان حال محتاج کا کوئی کام کر کے اس کی مدد ہی کر دے (یہ بھی ایک طرح کا صدقہ ہے) ۔ عرض کیا گیا کہ : اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اپنی زبان ہی سے لوگوں کو بھلائی اور نیکی کے لیے کہے ۔ لوگوں نے عرض کیا : اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے تو کیا کرے ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (کم از کم) شر سے اپنے کو روکے (یعنی اس کا اہتمام کرے کہ اس سے کسی کو تکلیف اور ایذا نہ پہنچے) یہ بھی اس کے لیے ایک طرح کا صدقہ ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں پر دولت اور سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ان کو بھی صدقہ کرنا چاہئے ۔ اگر روپیہ پیسہ سے ہاتھ بالکل خالی ہو تو محنت مزدوری کر کے اور اپنا پیٹ کاٹ کر صدقہ کی سعادت حاصل کرنی چاہئے ل۔ اگر اپنے خاص حالات کی وجہ سے کوئی اس سے بھی مجبور ہو تو کسی پریشان حال کی خدمت ہی کر دے ، اور ہاتھ پاؤں سے کسی کا کام نہ کر سکے تو زبان ہی سے خدمت کرے .... حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ ہر مسلمان خواہ امیر ہو یا غریب ، طاقتور اور توانا ہو یا ضعیف اس کے لیے لازم ہے کہ دامے ، درمے ، قدمے ، سخنے جس طرح اور جس قسم کی بھی مدد اللہ کے حاجت مند بندوں کی کر سکے ضرور کرے ، اور اس سے دریغ نہ کرے ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ » قَالُوا : فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ : « فَلْيَعْمَلُ بِيَدَيْهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ » قَالُوا : فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ؟ قَالَ : « فَيُعِينُ ذَا الحَاجَةِ المَلْهُوفَ » قَالُوا : فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْهُ؟ قَالَ : « فَيَأْمُرُ بِالخَيْرِ » قَالُوا : فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ : « فَيُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫৭
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صدقہ کی ترغیب اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہر بندے کو اللہ کا پیغام ہے کہ اے آدم کے فرزند ! تو (میرے ضرورت مند بندوں پر) اپنی کمائی خرچ کر ، میں اپنے خزانہ سے تجھ کو دیتا رہوں گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ جو بندہ اس کے ضرورت من بندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرتا رہے گا اس کو اللہ تعالیٰ کے خزانہ غیب سے ملتا رہے گا .... اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں کو یقین کی دولت سے نوازا ہے ہم نے دیکھا کہ ان کا یہی معلوم ہے اور ان کے ساتھ ان کے رب کریم کا یہی معاملہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو بھی اس یقین کا کوئی حصہ نصیب فرمائے ۔
فائدہ ..... پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ جس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے کوئی بات بیان فرمائیں اور وہ قرآن مج ید کی آیت نہ ہو ، اس حدیث کو “ حدیث قدسی ” کہا جاتا ہے ، یہ حدیث بھی اسی قسم کی ہے ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : أَنْفِقْ يَا ابْنَ آدَمَ أُنْفِقْ عَلَيْكَ "
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫৮
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صدقہ کی ترغیب اور اس کی برکات
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : تم اللہ کے بھروسہ پر اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور گنو مت (یعنی اس فکر میں نہ پڑو کہ میرے پاس کتنا ہے اور اس میں کتنا راہ خدا میں دوں) اگر تم اس کی راہ میں اس طرح حساب کر کے دو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا (اور اگر بے حساب دو گی تو وہ بھی تم پر اپنی نعمتیں تم پر بےحساب انڈیلے گا) اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بند کر کے نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا (کہ رحمت اور برکت کے دروازے تم پر خدانخواستہ بن ہو جائیں گے) لہٰذا تھوڑا بہت کچھ ہو سکے اور جس کی توفیق ملے راہ خدا میں کشادہ دستی سے دیتی رہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ : قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَنْفِقِي ، وَلاَ تُحْصِي ، فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ ، وَلاَ تُوعِي ، فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ ارْضَخِي مَاسْتَطَعْتِ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৫৯
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صدقہ کی ترغیب اور اس کی برکات
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے آدمؑ کے فرزندو ! اللہ کی دی ہوئی دولت جو اپنی ضرورت سے فاضل ہو اس کا راہ خدا میں صرف کر دینا تمہارے لیے بہتر ہے اور اس کا روکنا تمہارے لیے برا ہے ، اور ہاں گزارے کے بقدر رکھنے پر کوئی ملامت نہیں ۔ اور سب سے پہلے ان پر خرچ کرو جن کی تم پر ذمہ داری ہے ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث کا پیغام یہ ہے کہ آدمی کے لیے بہتر یہ ہے کہ جو دولت وہ کمائے یا کسی ذریعہ سے اس کے پاس آئے اس میں سے اپنی زندگی کی ضرورت کے بقدر تو اپنے پاس رکھے باقی راہ خدا میں اس کے بندوں پر خرچ کرتا رہے ، اور اس پر پہلا حق ان لوگوں کا ہے جن کا اللہ نے اس کو ذمہ دار بنایا ہے اور جن کی کفالت اس کے ذمہ ہے ۔ مثلاً اس کے اہل و عیال اور حاجت مند قریبی اعزہ وغیرہ ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِىْ أُمَامَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنْ تَبْذُلِ الْخَيْرَ خَيْرٌ لَكَ ، وَإِنْ تُمْسِكْهُ شَرٌّ لَكَ. وَلَا تُلَامُ عَلَى الْكَفَافِ ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ.
(رواه مسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৬০
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جو راہ خدا میں خرچ کر دیا جائے وہی باقی اور کام آنے والا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی (اور اس کا گوشت للہ تقسیم کر دیا گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ : بکری میں سے کیا باقی رہا ؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ : صرف ایک دست اس کی باقی رہی ہے (باقی سب ختم ہو گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اس دست کے علاوہ جو للہ تقسلیم کر دیا گیا دراصل وہی سب باقی ہے اور کام آنے والا ہے (یعنی آخرت میں ان شاء اللہ اس کا اجر ملے گا) ۔ (جامع ترمذی)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهُمْ ذَبَحُوا شَاةً ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا بَقِيَ مِنْهَا؟ قَالَتْ : مَا بَقِيَ مِنْهَا إِلاَّ كَتِفُهَا قَالَ : بَقِيَ كُلُّهَا غَيْرَ كَتِفِهَا.
(رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৬১
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ انفاق کے بارے میں اصحاب یقین و توکل کی راہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میرے لیے بڑی خوشی کی بات یہ ہو گی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اس کو راہ خدا میں خرچ کر دوں اور میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے سوائے اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کے لیے اس میں کچھ بچا لوں ۔ (صحیح بخاری)
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا ، لَسَرَّنِي أَنْ لاَ يَمُرَّ عَلَيَّ ثَلاَثُ لَيَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ ، إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ »
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৬২
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ انفاق کے بارے میں اصحاب یقین و توکل کی راہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قیام گاہ پہنچے اور دیکھا کہ ان کے پاس چھواروں کا ایک ڈھیر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلال یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کو آئندہ کے لیے ذخیرہ بنایا ہے (تا کہ مستقبل میں روزی کی طرف سے ایک گونہ اطمینان رہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلال ! کیا تمہیں اس کا ڈر نہیں ہے کہ کل قیامت کے دن آتش دوزخ میں تم اس کی تپش اور سوزش دیکھو ۔ اے بلال ! جو ہاتھ پاس آئے اس کو اپنے پر اور دوسروں پر خرچ کرتے رہو اور عرش عظیم کے مالک سے قلت کا خوف نہ کرو (یعنی یقین رکھو کہ جس طرح اس نے یہ دیا ہے آئندہ بھی اسی طرح عطا فرماتا رہے گا ، اس کے خزانہ میں کیا کمی ہے ، اس لیے کل کے لیے ذخیرہ رکھنے کی فکر نہ کرو) ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
حضرت بلال رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی متوکلانہ زندگی کا طریقہ اپنایا تھا ۔ ان کے لیے مستقبل کے واسطے غـذا کا ذخیرہ کرنا بھی مناسب نہ تھا ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ ہدایت فرمائی ۔ اگرچہ عام لوگوں کے لیے یہ بات بالکل جائز ہے ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو بھی اس سے روکا تھا کہ وہ اپنا سارا مال راہ خدا میں خرچ کر دیں اور گھر والوں کے لیے کچھ نہ رکھیں .... لیکن صحابہ میں سے جن حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب صفہ والی خالص توکل کی راہ اپنائی تھی ان کے لیے اس طرز عمل کی گنجائش نہ تھی .... ع
“ جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے ”
حدیث کے آخری فقرے میں اشارہ ہے .... کہ اللہ کا جو بندہ خیر کی راہوں میں ہمت کے ساتھ صرف کرے گا .... وہ اللہ تعالیٰ کی عطا مین کبھی کمی نہ پائے گا ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، دَخَلَ عَلَى بِلَالٍ وَعِنْدَهُ صُبْرَةٌ مِنْ تَمْرٍ ، فَقَالَ : " مَا هَذَا يَا بِلَالُ؟ " قَالَ : تَمْرٌ ادَّخَرْتُهُ ، قَالَ : " أَمَا تَخْشَى ، أَنْ تَرَى لَهُ بُخَارٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَوْم الْقِيَامَةِ؟ أَنْفِقْ يَا بِلَالُ وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالًا "
(رواه البيهقى فى شعب الايمان)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৬৩
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ جو دولت مند کشادہ دستی سے راہ خدا میں صرف نہ کریں بڑے خسارے میں ہیں
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبہ کے سائے میں اور اس کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا : رب کعبہ کی قسم ! وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں ؟ میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ! کون لوگ ہیں جو بڑے خسارے میں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ لوگ جو بڑے دولت مند اور سرمایہ دار ہیںٰ ، ان میں سے وہی لوگ خسارے سے محفوظ ہیں جو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں (ہر طرف خیر کے مصارف میں) اپنی دولت کشادہ دستی کے ساتھ صرف کرتے ہیں .... مگر دولت مندوں اور سرمایہ داروں میں ایسے بندے بہت کم ہیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فقر کی زندگی اختیار کر رکھی تھی اور ان کے مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے یہی ان کے لیے بہتر تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اطمینان خاطر کے لیے بیان فرمایا کہ : دولت مندی اور سرمایہ داری جو بظاہر بڑی نعمت ہے دراصل کڑی آزمائش بھی ہے اور صرف وہی بندے اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس سے دل نہ لگائیں اور پوری کشادہ دستی کے ساتھ دولت کو خیر کے مصارف میں خرچ کریں ، جو ایسا نہ کریں گے وہ انجام کار بڑے خسارے میں رہیں گے ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ ، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ : « هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ » فَقُلْتُ : فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي ، مَنْ هُمْ؟ قَالَ : « هُمُ الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ.
(رواه البخارى ومسلم)
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৮৬৪
যাকাত অধ্যায়
পরিচ্ছেদঃ صدقہ کے خواص اور برکات
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
جس طرح دنیا کی مادی چیزوں جڑی بوٹیوں تک کے خواص اور اثرات ہوتے ہیں ، اسی طرح انسانوں کے اچھے برے اعمال اور اخلاق کے بھی خواص اور اثرات ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ اس حدیث میں صدقہ کی دو خاصیتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر بندے کی کسی بڑی لغزش اور معصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غضب اور ناراضی کے اس کی رضا اور رحمت کا مستحق بن جاتا ہے اور دوسری خاصیت یہ ہے کہ وہ بری موت سے آدمی کو بچاتا ہے (یعنی صدقہ کی برکت سے اس کا خاتمہ اچھا ہوتا ہے) دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس طرح کی موت سے بچاتا ہے جس کو دنیا میں بری موت سمجھا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کتاب الزکوٰۃ
عَنْ أَنَسِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ.
(رواه الترمذى)
tahqiq

তাহকীক: