কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)

كتاب السنن للإمام ابن ماجة

شکار کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ

মোট হাদীস ৫১ টি

হাদীস নং: ৩২৪০
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گوہ کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ضب (گوہ) کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے اسے ناپسند فرمایا، اور وہ عام چرواہوں کا کھانا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ متعدد بہت سارے لوگوں کو فائدہ دیتا ہے، اور وہ اگر میرے پاس ہوتی تو اسے میں ضرور کھاتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٣، ومصباح الزجاجة : ١١١٣) (ضعیف) (سند میں قتادہ اور سلیمان بن قیس کے درمیان انقطاع ہے )
حدیث نمبر: 3239 حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُحَرِّمْ الضَّبَّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ قَذِرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَطَعَامُ عَامَّةِ الرِّعَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَنْفَعُ بِهِ غَيْرَ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ كَانَ عِنْدِي لَأَكَلْتُهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪১
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گوہ کا بیان
امام ابن ماجہ (رح) نے ایک دوسری سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی یہ روایت بھی نبی کریم ﷺ سے بیان کی ہے۔
حدیث نمبر: 3239 حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪২
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ گوہ کا بیان
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھ کر لوٹے تو اہل صفہ میں سے ایک شخص نے آپ کو آواز دی، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے ملک میں ضب (گوہ) بہت ہوتی ہے، آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ کوئی امت ہے جو مسخ کردی گئی ہے پھر آپ ﷺ نے نہ اس کے کھانے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید والذبائح ٧ (١٩٥١) ، (تحفة الأشراف : ٤٣١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥، ١٩، ٦٦) (صحیح )
حدیث نمبر: 3240 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَادَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضٌ مَضَبَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا تَرَى فِي الضِّبَاب؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَلَغَنِي أَنَّهُ أُمَّةً مُسِخَتْفَلَمْ يَأْمُرْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪৩
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ خرگوش کا بیان
خالد بن ولید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب (گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ ﷺ نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ١ ؎، تو وہاں موجود ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے (یہ سن کر) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد (رض) نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ضب (گوہ) حرام ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں ، (یہ سن کر) خالد (رض) نے ضب (گوہ) کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو کھایا، اور رسول اللہ ﷺ انہیں دیکھ رہے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١٠ (٥٣٩١) ، ١٤ (٥٤٠٠) ، الذبائح ٣٣ (٥٥٣٧) ، صحیح مسلم/الذبائح ٧ (١٩٤٦) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٨ (٣٧٩٤) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ٢٦ (٤٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الإستئذان ٤ (١٠) ، مسند احمد (٤/٨٨، ٨٩) ، سنن الدارمی/الصید ٨ (٢٠٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں یونس نے زہری سے مزید یہ الفاظ نقل کیے ہیں کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کسی کھانے کو اپنے ہاتھ میں لیتے یہاں تک کہ آپ کو اس کے بارے میں بتادیا جاتا، اسحاق بن راہویہ اور بیہقی نے شعب الإیمان میں عمر (رض) سے یہ نقل کیا ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آپ کو ہدیہ دینے کے لیے ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا اور آپ ہدیہ کا کھانا اس وقت تک نہ کھاتے تھے جب تک کہ صاحب ہدیہ کو اس کے کھانے کا حکم نہ دیتے، جب وہ کھا لیتا تو آپ بھی کھاتے، ایسا اس واسطے کرتے تھے کہ خیبر میں آپ کے پاس (مسموم) بھنی بکری یہودی عورت نے پیش کی تھی (اور اس سے آپ متاثر ہوگئے تھے تو بعد میں احتیاطی تدبیر کے طور پر ہدیہ دینے والے سے کھانے کی ابتداء کراتے تاکہ کسی سازش کا خطرہ نہ رہ جائے) (حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے) ٢ ؎: صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل ہے کہ خالد بن ولید نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ (رض) کے گھر گئے، اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ میمونہ (رض) نے ہی نبی اکرم ﷺ کو یہ بتایا تھا کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، اور صحیح بخاری کے کتاب الأطعمہ میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ضب (گوہ) نہ کھا کر پنیر کھائی اور دودھ پیا۔ اس حدیث میں آپ کے گھن اور کراہت کا سبب یہ ہے کہ آپ کے علاقہ میں ضب (گوہ) نہیں پائی جاتی تھی، ایک دوسری روایت میں ہے کہ ضب (گوہ) کا گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا، حافظ ابن حجر حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حدیث میں وارد بأرض قومي کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قوم سے مراد قریش ہیں، تو ضب (گوہ) کے نہ پائے جانے کا معاملہ مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ سے متعلق ہوگا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ حجاز کے دوسرے علاقے میں ضب (گوہ) موجود ہی نہ ہو صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ مدینہ میں ایک دلہا نے ہمیں دعوت ولیمہ دی اور ہمارے سامنے تیرہ ضب (گوہ) پیش کیے تو کسی نے کھایا اور کسی نے نہیں کھایا، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علاقہ حجاز میں ضب (گوہ) بکثرت پائی جاتی ہے، اس حدیث میں صرف خالد (رض) کے بارے میں ہے کہ انہوں نے ضب (گوہ) کا گوشت کھایا، صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے لوگوں سے کہا کہ تم ضب (گوہ) کا گوشت کھاؤ تو فضل بن عباس، خالد اور مذکورہ عورت نے کھایا، شعبی نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا : ضب (گوہ) کھاؤ اور کھلاؤ، اس لیے کہ یہ حلال ہے یا فرمایا کوئی حرج نہیں، لیکن یہ میری خوراک نہیں ، ان تصریحات سے پتہ چلا نبی اکرم ﷺ نے ضب (گوہ) کا گوشت صرف اس واسطے نہ کھایا کہ آپ کو اس کے کھانے کی سابقہ عادت نہ تھی۔ (الفریوائی )
حدیث نمبر: 3241 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقُرِّبَ إِلَيْهِ فَأَهْوَى بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ مَنْ حَضَرَهُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ فَرَفَعَ يَدَهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ خَالِدٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَحَرَامٌ الضَّبُّ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَهْوَى خَالِدٌ إِلَى الضَّبِّ فَأَكَلَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪৪
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ خرگوش کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں حرام نہیں کرتا یعنی ضب (گوہ) کو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧١٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصید ٣٣ اتم منہ (٥٥٣٦) ، صحیح مسلم/الصید ٧ اتم منہ (١٩٤٣) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣ (١٧٩٠) ، موطا امام مالک/الإستئذان ٤ (١١) ، مسند احمد (٢/٩، ١٠، ٣٣، ٤١، ٤٦، ٦٠، ٦٢، ٧٤، ١١٥) ، سنن الدارمی/الصید ٨ (٢٠٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ١ ۔ جمہورعلماء کے نزدیک ضب (گوہ) کا گوشت کھانا حلال ہے، ابن ماجہ نے اس باب میں کئی احادیث کا ذکر کیا ہے، جس سے اس کی حلت واضح ہے، ضب (گوہ) امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے دسترخوان پر رکھی گئی، ساتھ میں دودھ اور پنیر بھی تھا، دسترخوان پر نبی اکرم ﷺ بھی تشریف فرما تھے، یہودی عورت کے گوشت میں زہر ملا دینے اور اس سے رسول اللہ ﷺ کے متاثر ہوجانے کے بعد آپ دسترخوان پر موجود چیزوں کے بارے میں سوال کرتے تھے، اور احتیاط کے نقطہ نظر سے یہ بڑی اچھی بات تھی، امہات المؤمنین اور صحابہ کرام کو یہ بات معلوم تھی، یہ بھی واضح رہے کہ آپ بہت نفاست پسند تھے، جبریل (علیہ السلام) قرآن لے کر آتے تو ان سے ملاقات کے سلسلے میں بھی ہر طرح کی صفائی ستھرائی اور نظافت مطلوب تھی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علاقہ حجاز میں آپ کے عہد میں ضب (گوہ) نہ پائی جاتی تھی یا کم پائی جاتی تھی، یا مکہ میں بالخصوص قبیلہ قریش میں ضب (گوہ) کھانے کا رواج نہ تھا، علاقہ میں نہ ہونے کی وجہ سے یا کم پائے جانے کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ عام طور پر بدؤں اور دیہاتیوں کی غذا تھی تو جب نبی اکرم ﷺ کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، تو آپ نے اس کے نہ کھانے کا یہ عذر کیا کہ اس سے طبیعت کو گھن آتی ہے، جی نہیں بھرتا کہ اس سے پہلے کبھی اس کے کھانے کا تجربہ نہیں ہوا اور دودھ اور پنیر پر اکتفا کیا، ضب (گوہ) کے دسترخوان پر ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ امہات المؤمنین کے یہاں اور دوسرے صحابہ کے یہاں بلاکراہت کھانا جائز تھا اور آپ کے دسترخوان پر خالد بن ولید نے اسے مزے لے کر کھایا بھی، اس طرح سے آپ نے اس پر صاد کیا اس کو تقریری سنت کہتے ہیں، اگر ضب (گوہ) حرام ہوتی یا اس کی کراہت کا علم ہوتا تو آپ کی موجودگی میں اس دسترخوان پر اسے کوئی نہ کھاتا اس لیے اس واقعہ سے ضب (گوہ) کی حرمت لازم نہیں آتی۔ شافعی، مالک، احمد اور اکثر فقہاء اور اہل حدیث کے یہاں یہ حلال ہے، اور اس کی حلت کے ثبوت میں بہت سی احادیث وارد ہیں، حرمت کی کوئی دلیل قوی نہیں ہے، سنن ابی داود میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ضب (گوہ) کھانے سے منع کیا، اس کی سند ضعیف ہے۔ ابن ماجہ نے اوپر ٣٢٤٢ نمبر کی حدیث ذکر فرمائی ہے، بخاری میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں : الضب لست آكله ولا أحرمه ( ٥٥٣٦ ) (ضب۔ گوہ۔ نہ میں کھاتا ہوں نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں) ۔ صحیح مسلم میں یہ تفصیل ہے کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے ضب (گوہ) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے سابقہ جواب دیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ سوال و جواب منبر رسول پر ہوا، نیز ابن عباس (رض) کی حدیث جو اوپر ( ٣٢٤١ ) نمبر پر گزری سے بھی ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : اس حدیث سے ضب (گوہ) کا گوشت کھانا جائز ہے، قاضی عیاض نے ایک جماعت سے اس کی حرمت نقل کی ہے، اور حنفیہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل ہے، نووی اس نقل کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میرے خیال میں کسی سے بھی (اس کے حرام یا مکروہ ہونے) کا قول صحیح اور ثابت نہیں ہے، اور اگر صحیح بھی ہو تو جواز و حلت کے نصوص سے اور پہلے لوگوں کے اجماع سے یہ رائے مرجوح ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : ابن المنذر نے علی (رض) سے اس کا مکروہ ہونا نقل کیا ہے تو علی (رض) کی مخالفت کی صورت میں یہ کون سا اجماع ہوا ؟۔ نیز امام ترمذی نے بعض اہل علم سے اس کی کراہت نقل کی ہے۔ امام طحاوی معانی الأثار میں کہتے ہیں : ایک جماعت نے ضب (گوہ) کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے، ان میں ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد بن الحسن ہیں، نیز فرمایا : محمد بن الحسن نے عائشہ (رض) کی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ضب (گوہ) ہدیہ میں آئی، تو آپ نے اسے نہ کھایا، ایک سائل کھڑا ہوا، عائشہ (رض) نے اسے ضب (گوہ) کو دینا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا جو چیز تم نہیں کھا رہی ہو وہ سائل کو دو گی ۔ طحاوی کہتے ہیں : اس حدیث میں کراہت کی دلیل اس احتمال کی وجہ سے نہیں ہے کہ عائشہ (رض) نے ضب (گوہ) کے گوشت سے گھن کی ہو تو اللہ کے رسول نے یہ سوچا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے صرف بہترین کھانا ہی پیش کیا جائے، جیسا کہ ردی کھجور دینے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ عبدالرحمن بن حسنہ (رض) سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بھوک کا شکار ہوئے، اور صحابہ کرام کو کچھ ضب (گوہ) ملیں تو انہوں نے اسے پکایا، ابھی یہ ہانڈیوں پر ابل ہی رہی تھیں کہ اس کا علم نبی اکرم ﷺ کو ہوا تو آپ نے اسے انڈیل دینے کا حکم دیا، اس میں یہ بھی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل کی ایک قوم مسخ کر کے زمین پر رینگنے والی مخلوق بنادی گئی تھی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ ضب (گوہ) وہی مسخ شدہ مخلوق نہ ہو، اس لیے اسے انڈیل دو (اس حدیث کو احمد نے مسند میں روایت کیا ہے، اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے، اور طحاوی نے بھی اس کی روایت کی ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : اس کی سند شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے صرف ایک راوی ضحاک سے بخاری و مسلم نے روایت نہیں کی ہے، طحاوی نے ایک دوسرے طریق سے روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ کو خبر دی گئی کہ لوگوں نے ضب (گوہ) کو بھونا اور اسے کھایا تو نہ تو آپ نے کھایا اور نہ اس کے کھانے سے منع کیا۔ مذکورہ بالا احادیث سے ہر طرح سے ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت جائز ہے، اس بارے میں نصوص صریح ہیں، تو جن احادیث میں ضب (گوہ) کے گوشت کھانے کی ممانعت وارد ہے، اس کے درمیان اور حلال ثابت کرنے والی احادیث کے درمیان توفیق و تطبیق یوں دی جائے گی کہ نبی اکرم ﷺ نے پہلے جب پکی ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا تھا تو وہ اس خیال کی بنا پر تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ جانور ہی تو نہیں ہے، پھر بعد میں توقف فرمایا تو نہ تو اس کے کھانے کا حکم دیا اور نہ اس کے کھانے سے روکا، اور جب آپ کو اس بات کا علم ہوگیا کہ مسخ شدہ اقوام کی نسل نہیں باقی رہتی تو آپ نے کھانے کی اجازت دے دی، پھر اس کے بعد آپ ضب (گوہ) سے گھن کرنے کی وجہ سے نہ اسے کھاتے تھے نہ اسے حرام قرار دیتے تھے، اور جب وہ آپ کے دسترخوان پر کھائی گئی تو اس سے اس کا مباح ہونا ثابت ہوگیا، کراہت ان آدمیوں کے حق میں ہے جو اس سے گھن کرتے ہوں تو یہ ان کے حق میں کراہت تنزیہی ہوگی، یعنی نہ کھانا ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے، اور جن لوگوں کو ضب (گوہ) سے گھن نہیں آتی ان کے لیے احادیث سے ضب (گوہ) کا کھانا جائز اور مباح ٹھہرا، اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ گوہ مطلقاً مکروہ ہے۔ امام طحاوی ضب (گوہ) سے متعلق احادیث و آثار کی روایت کے بعد فرماتے ہیں : ان آثار سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ضب (گوہ) کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور میں بھی اس کا قائل ہوں، اوپر عائشہ (رض) کی حدیث جس میں یہ ہے کہ انہوں نے ہدیہ میں آئی ضب (گوہ) کو سائل کو دینا چاہا تو اللہ کے رسول نے کہا کہ جو چیز تم نہیں کھاتی کیا تم اسے سائل کو دو گی ! اس کے بارے میں امام طحاوی کہتے ہیں کہ اس سے محمد بن حسن نے اپنے اصحاب کے لیے دلیل پکڑی ہے، محمد بن حسن کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس چیز کو اللہ کے رسول نے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مکروہ سمجھا، امام طحاوی اس پر تعاقب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قصہ میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ آیت کریمہ : ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه (سورة البقرة :267) کے قبیل سے ہو، پھر خراب کھجور کو صدقہ میں دینے کی کراہت سے متعلق احادیث ذکر کیں اور براء بن عازب (رض) کی یہ حدیث نقل کی کہ لوگ اپنی سب سے خراب کھجوروں کو صدقہ میں دینا پسند کرتے تھے تو آیت کریمہ : أنفقوا من طيبات ما کسبتم (سورة البقرة :267) نازل ہوئی، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے یہ ناپسند کیا کہ عائشہ ضب (گوہ) کو صدقہ میں دیں اس لیے نہیں کہ وہ حرام ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طحاوی نے محمد بن حسن کے نزدیک کراہت کو تحریمی سمجھا، جب کہ معروف یہ ہے کہ حنفیہ کی اکثریت کراہت تنزیہی کی قائل ہے، بعض لوگوں کا میلان تحریم کی طرف ہے، ان کی تعلیل یہ ہے کہ احادیث مختلف ہیں، اور پہلے کون ہے اور بعد میں کون ؟ اس کا جاننا مشکل ہے، اس لیے ہم نے تحریم کو راجح قرار دیا ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : تحریم کے قائل کا یہ دعویٰ کہ پہلے کون ہے اور بعد میں کون ؟ یہ جاننا مشکل ہے، سابقہ احادیث کی بنا پر ممنوع ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : فتح الباری شرح صحیح البخاری، حدیث نمبر ٥٥٣٧ ) ، (نیز : المحلی لإبن حزم ٦ /١١٢، مسألہ نمبر ١٠٣٢ ، و الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ٥ /١٤٢، توضیح الأحکام للبسام) (حررہ الفریوائی )
حدیث نمبر: 3242 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا أُحَرِّمُ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي الضَّبَّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪৫
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ خرگوش کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ مرالظہران سے گزرے، تو ہم نے ایک خرگوش کو چھیڑا (اس کو اس کی پناہ گاہ سے نکالا) ، لوگ اس پر دوڑے اور تھک گئے، پھر میں نے بھی دوڑ لگائی یہاں تک کہ میں نے اسے پا لیا، اور اسے لے کر ابوطلحہ (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے اس کو ذبح کیا، اور اس کی پٹھ اور دم گزا نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجی تو آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٥ (٢٥٧٢) ، الصید ١٠ (٥٤٨٩) ، ٣٢ (٥٥٣٥) ، صحیح مسلم/الصید ٩ (١٩٥٣) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٧ (٣٧٩١) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢ (١٧٩٠) ، سنن النسائی/الصید ٢٥ (٤٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٨، ١٧١، ٢٩١) ، سنن الدارمی/الصید ٧ (٢٠٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مرالظہران مکہ کے قریب ایک وادی کا نام ہے۔ جمہور اہل سنت خرگوش کے گوشت کی حلّت کے قائل ہیں، روافض اسے حرام کہتے ہیں لیکن حدیث صحیح سے اس کی حلت ثابت ہے۔
حدیث نمبر: 3243 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرَرْنَا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَأَنْفَجْنَا أَرْنَبًا، ‏‏‏‏‏‏فَسَعَوْا عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَغَبُوا فَسَعَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى أَدْرَكْتُهَا فَأَتَيْتُ بِهَا أَبَا طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَبَحَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثَ بِعَجُزِهَا وَوَرِكِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبِلَهَا.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪৬
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جو مچھلی مر کر سطح آب پر آجائے؟
محمد بن صفوان (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے دو خرگوش لٹکائے ہوئے گزرے، اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے یہ دونوں خرگوش ملے، اور مجھے کوئی لوہا نہیں ملا، جس سے میں انہیں ذبح کرتا، اس لیے میں نے ایک (تیز) پتھر سے انہیں ذبح کردیا، کیا میں انہیں کھاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١٥ (٢٨٢٢) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ٢٥ (٤٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧١) ، سنن الدارمی/الصید ٧ (٢٠٥٧) (صحیح )
حدیث نمبر: 3244 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ أَنَّهُ مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْنَبَيْنِ مُعَلِّقَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي أَصَبْتُ هَذَيْنِ الْأَرْنَبَيْنِ فَلَمْ أَجِدْ حَدِيدَةً أُذَكِّيهِمَا بِهَا فَذَكَّيْتُهُمَا بِمَرْوَةٍ، ‏‏‏‏‏‏أَفَآكُلُ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلْ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪৭
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جو مچھلی مر کر سطح آب پر آجائے؟
خزیمہ بن جزء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا کہ آپ سے زمین کے کیڑوں کے متعلق سوال کروں، آپ ضب (گوہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہ تو میں اسے کھاتا ہوں، اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں میں نے عرض کیا : میں تو صرف ان چیزوں کو کھاؤں گا جسے آپ نے حرام نہیں کیا ہے، اور آپ (ضب) کیوں نہیں کھاتے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : قوموں میں ایک گروہ گم ہوگیا تھا اور میں نے اس کی خلقت کچھ ایسی دیکھی کہ مجھے شک ہوا (یعنی شاید یہ ضب۔ گوہ۔ وہی گمشدہ گروہ ہو) میں نے عرض کیا : آپ خرگوش کے سلسلے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ ہی حرام قرار دیتا ہوں ، میں نے عرض کیا : میں تو ان چیزوں میں سے کھاؤں گا جسے آپ حرام نہ کریں، اور آپ خرگوش کھانا کیوں نہیں پسند کرتے ؟ اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے خبر دی گئی ہے کہ اسے حیض آتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٣٣، ومصباح الزجاجة : ١١١٤) (ضعیف) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبدالکریم ضعیف ہیں )
حدیث نمبر: 3245 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حِبَّانَ بْنِ جَزْءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَخِيهِ خُزَيْمَةَ بْنِ جَزْءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏جِئْتُكَ لِأَسْأَلَكَ عَنْ أَحْنَاشِ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏مَا تَقُولُ فِي الضَّبِّ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا آكُلُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أُحَرِّمُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنِّي آكُلُ مِمَّا لَمْ تُحَرِّمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُ خَلْقًا رَابَنِي، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا تَقُولُ فِي الْأَرْنَبِ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا آكُلُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أُحَرِّمُهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنِّي آكُلُ مِمَّا لَمْ تُحَرِّمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نُبِّئْتُ أَنَّهَا تَدْمَى.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪৮
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کوے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے ۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوعبیدہ الجواد سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا : یہ آدھا علم ہے اس لیے کہ دنیا بحر و بر یعنی خشکی اور تری کا نام ہے، تو آپ نے سمندر کے متعلق مسئلہ بتادیا، اور خشکی (کا مسئلہ) باقی رہ گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤١ (٨٣) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٢ (٦٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٧ (٥٩) ، الصید ٣٥ (٤٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٣ (١٢) ، مسند احمد (٢/٣٧، ٣٦١، ٣٧٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٢ (٧٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحابہ کی ایک جماعت، تابعین، مالک، شافعی اور اہل حدیث کے نزدیک اس کا کھانا حلال ہے اور ابوحنیفہ کے نزدیک ناجائز، ان کی دلیل آگے آتی ہے، امام نووی کہتے ہیں : سمندر کے سب مردے حلال ہیں، خواہ خود بخود مرجائیں یا شکار سے مریں، اور مچھلی کی حلت پر اجماع ہے لیکن طافی مچھلی (یعنی جو مر کر خود بخود پانی پر تیر آئے) میں اختلاف ہے، اصحاب شافعیہ کے نزدیک مینڈک حرام ہے، اور باقی سمندر کے جانوروں میں تین قول ہیں : ایک یہ کہ سمندر کے کل جانور حلال ہیں، دوسرے یہ کہ مچھلی کے سوا کوئی حلال نہیں ہے، تیسرے یہ کہ جو خشکی کے جانور ہیں، ان کی شبیہ سمندر میں بھی حلال ہے جیسے سمندری گھوڑے، سمندری بکری، سمندری ہرن اور جو خشکی کے جانور حرام ہیں، ان کے شبیہ سمندر میں بھی حرام ہے جیسے سمندری کتا، سمندری سور۔ واللہ اعلم۔
حدیث نمبر: 3246 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْبَحْرُ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْجَوَادِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا نِصْفُ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ الدُّنْيَا بَرٌّ وَبَحْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ أَفْتَاكَ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَقِيَ الْبَرُّ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৪৯
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کوے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس جانور کو سمندر نے کنارے پر ڈال دیا ہو یا پانی کم ہوجانے سے وہ مرجائے تو اسے کھاؤ، اور جو سمندر میں مر کر اوپر آجائے اسے مت کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٦ (٣٨١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥٧) (ضعیف) (سند میں یحییٰ بن سلیم طائفی ضعیف راوی ہیں )
حدیث نمبر: 3247 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أُمَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا أَلْقَى الْبَحْرُ أَوْ جَزَرَ عَنْهُ فَكُلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا مَاتَ فِيهِ فَطَفَا فَلَا تَأْكُلُوهُ.
tahqiq

তাহকীক:

হাদীস নং: ৩২৫০
شکار کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بلی کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ کوّا کون کھائے گا ؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو فاسق کہا، اللہ کی قسم وہ پاک چیزوں میں سے نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٦، ومصباح الزجاجة : ١١١٥) (صحیح) (شریک القاضی سئی الحفظ ہیں، لیکن دوسرے طریق سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی : ١٨٢٥ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی طیبات میں سے جو حلال ہے بلکہ یہ خبائث میں سے ہے اس سے کوے کی حرمت ثابت ہوئی۔
حدیث نمبر: 3248 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ النَّيْسَابُورِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ يَأْكُلُ الْغُرَابَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ سَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسِقًا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا هُوَ مِنَ الطَّيِّبَاتِ.
tahqiq

তাহকীক: