কিতাবুস সুনান - ইমাম ইবনে মাজা' রহঃ (উর্দু)
كتاب السنن للإمام ابن ماجة
فیصلوں کا بیان - এর পরিচ্ছেদসমূহ
মোট হাদীস ৬৭ টি
হাদীস নং: ২৩৪৮
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قرعہ ڈال کر فیصلہ کرنا
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب (رض) جب یمن میں تھے، تو ان کے پاس یہ مقدمہ آیا کہ تین آدمیوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی، تو انہوں نے پہلے دو آدمیوں سے پوچھا : کیا تم دونوں اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے ؟ ان دونوں نے کہا : نہیں، پھر دو کو الگ کیا، اور ان سے پوچھا : کیا تم دونوں اقرار کرتے ہو کہ یہ لڑکا اس تیسرے شخص کا ہے ؟ اس طرح جب وہ دو دو سے پوچھتے کہ تم اس لڑکے کو تیسرے کا کہتے ہو ؟ تو وہ انکار کرتے، آخر انہوں نے قرعہ اندازی کی، اور جس کے نام قرعہ نکلا وہ لڑکا اس کو دلایا، اور دو تہائی کی دیت اس پر لازم کردی، اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ ہنسے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت ظاہر ہوگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٢ (٢٢٧٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٠ (٣٥١٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٣، ٤٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہنسی کی وجہ یہ تھی کہ یہ فیصلہ عجیب طور کا تھا، اور دو تہائی دیت کی اس سے اس لئے دلوائی کہ دعوی کے مطابق اس لڑکے میں تینوں شریک تھے، اب قرعہ جھگڑا ختم کرنے کے لئے کیا، نہ نسب ثابت کرنے کے لئے، تو اس شخص کو بچہ کا دو تہائی کا بدلہ دوسرے دعویداروں کو دینا پڑا اور یہ علی (رض) کی اپنی رائے تھی، لیکن ابوداود نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسی صورت میں یہ حکم فرمایا : وہ بچہ اپنی ماں کے پاس رہے گا، اور کسی سے اس کا نسب ثابت نہ ہوگا، نہ وہ ان دعویداروں میں سے کسی مرد کا وارث ہوگا۔
حدیث نمبر: 2348 حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: أُتِيَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَهُوَ بِالْيَمَنِ فِي ثَلَاثَةٍ قَدْ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ فَسَأَلَ اثْنَيْنِ، فَقَالَ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَقَالَا: لَا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ، فَقَالَ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَقَالَا: لَا، فَجَعَلَ كُلَّمَا سَأَلَ اثْنَيْنِ أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ قَالَا: لَا، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي أَصَابَتْهُ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيِ الدِّيَةِ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৪৯
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قیافہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس خوش خوش تشریف لائے، آپ فرما رہے تھے : عائشہ ! کیا تم نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا، اس نے اسامہ اور زید بن حارثہ کو ایک چادر میں سویا ہوا دیکھا، وہ دونوں اپنے سر چھپائے ہوئے تھے، اور دونوں کے پیر کھلے تھے، تو کہا : یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٣٥٥) ، فضائل الصحابہ ١٧ (٣٧٣١) ، الفرائض ٣١ (٦٧٧١) ، صحیح مسلم/الرضاع ١١ (١٤٥٩) ، سنن ابی داود/الطلاق ٣١ (٢٢٦٧) ، سنن الترمذی/الولاء ٥ (٢١٢٩) ، سنن النسائی/الطلاق ٥١ (٣٤٢٣، ٣٥٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٢، ٢٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی کریم ﷺ کے متبنی زید بن حارثہ (رض) گورے رنگ کے تھے، اور ان کے بیٹے اسامہ سانولے رنگ کے تھے، منافقوں نے یہ طوفان اٹھایا کہ اسامہ زید کے بیٹے نہیں ہیں، اس سے نبی کریم ﷺ کو بڑا رنج ہوا، جب قیافہ شناس نے دونوں کے پاؤں دیکھ کر ایک طرح کے بتلائے تو مزید اطمینان ہوا کہ اسامہ زید ہی کے بیٹے ہیں، ہرچند پہلے بھی اس کا یقین تھا مگر قیافہ شناس کے کہنے پر اور زیادہ یقین ہوا، منافقوں کا منہ بند ہوا اور نبی کریم ﷺ کو خوشی حاصل ہوئی۔
حدیث نمبر: 2349 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِالزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مَسْرُورًا وَهُوَ يَقُولُ: يَا عَائِشَةُ، أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ دَخَلَ عَلَيَّ فَرَأَى أُسَامَةَ وَزَيْدًا عَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا وَقَدْ بَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫০
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قیافہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے ایک کاہنہ کے پاس آ کر کہا : ہمیں بتاؤ کہ ہم میں سے کون مقام ابراہیم کے صاحب (ابراہیم علیہ السلام) سے زیادہ مشابہ ہے ؟ ، وہ بولی : اگر تم ایک کمبل لے کر اسے اس نرم اور ہموار زمین پر گھسیٹو پھر اس پر چلو تو میں بتاؤں، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے کمبل کو زمین پر پھیرا (تاکہ زمین کے نشانات مٹ جائیں) پھر لوگ اس پر چلے، اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاؤں کے نشانات دیکھے، تو بولی : یہ شخص تم میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہے، پھر اس واقعہ پر بیس سال یا جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا گزرے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو نبوت عطا کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماحہ، (تحفة الأشراف : ٦١٣٠، ومصباح الزجاجة : ٨٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٢) (منکر ضعیف) ط (سماک بن حرب کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے )
حدیث نمبر: 2350 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ قُرَيْشًا أَتَوْا امْرَأَةً كَاهِنَةً فَقَالُوا لَهَا: أَخْبِرِينَا أَشْبَهَنَا أَثَرًا بِصَاحِبِ الْمَقَامِ، فَقَالَتْ: إِنْ أَنْتُمْ جَرَرْتُمْ كِسَاءً عَلَى هَذِهِ السِّهْلَةِ ثُمَّ مَشَيْتُمْ عَلَيْهَا أَنْبَأْتُكُمْ، قَالَ: فَجَرُّوا كِسَاءً ثُمَّ مَشَى النَّاسُ عَلَيْهَا فَأَبْصَرَتْ أَثَرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: هَذَا أَقْرَبُكُمْ إِلَيْهِ شَبَهًا ثُمَّ مَكَثُوا بَعْدَ ذَلِكَ عِشْرِينَ سَنَةً أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫১
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بچہ کو اختیار دینا کہ ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک لڑکے کو اختیار دیا کہ وہ اپنے باپ کے پاس رہے یا ماں کے پاس اور فرمایا : بچے ! یہ تیری ماں ہے اور یہ تیرا باپ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٥ (٢٢٧٧) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢١ (١٣٥٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٥ (٣٥٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٤٧) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تو جس کے ساتھ چاہے جاسکتا ہے۔
حدیث نمبر: 2351 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيَّرَ غُلَامًا بَيْنَ أَبِيهِ وَأُمِّهِ وَقَالَ: يَا غُلَامُ هَذِهِ أُمُّكَ وَهَذَا أَبُوكَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫২
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ بچہ کو اختیار دینا کہ ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔
رافع بن سنان (رض) کہتے ہیں کہ ان کے ماں اور باپ دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے، ان میں سے ایک کافر تھے اور ایک مسلمان، تو نبی اکرم ﷺ نے ان (رافع) کو اختیار دیا (کہ جس کے ساتھ جانا چاہیں جاسکتے ہیں) وہ کافر کی طرف متوجہ ہوئے، آپ ﷺ نے دعا فرمائی : اے اللہ ! اس کو ہدایت دے ، پھر وہ مسلمان کی طرف متوجہ ہوئے، آپ ﷺ نے اسی (مسلمان) کے پاس ان کے رہنے کا فیصلہ فرما دیا۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عبد الحمید بن سلمة عن أبیہ عن جدہ، علی أن إسم أبویہ لایعرفان تفرد بہ ابن ماجہ : (تحفة الأشرا ف : ١٥٥٨٦، مصباح الزجاجة : ٨٥٢) ، وحدیث عبد الحمید بن سملة عن جدہ رافع بن سنان أخرجہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٦ (٢٢٤٤) ، سنن النسائی/الطلاق ٥٢ (٣٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٤) (صحیح) (سند میں عبدالحمید بن سلمہ عن أبیہ عن جدہ تینوں مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ٤١ ١٩ )
حدیث نمبر: 2352 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ أَبَوَيْهِ اخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا كَافِرٌ وَالْآخَرُ مُسْلِمٌ، فَخَيَّرَهُ فَتَوَجَّهَ إِلَى الْكَافِرِ فَقَالَ: اللَّهُمَّ اهْدِهِ. فَتَوَجَّهَ إِلَى الْمُسْلِمِ فَقَضَى لَهُ بِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৩
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ صلح کا بیان
عمرو بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : مسلمانوں کے مابین صلح جائز ہے، سوائے ایسی صلح کے جو حلال کو حرام کر دے یا حرام کو حلال ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ١٧ (١٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی خلاف شرع صلح جائز نہیں، باقی جس میں شرع کی مخالفت نہ ہو وہ صلح ہر طرح سے جائز ہے۔
حدیث نمبر: 2353 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৪
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اپنا مال برباد کرنے والے پر پابندی لگانا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص کچھ کم عقل تھا، اور وہ خریدو فروخت کرتا تھا تو اس کے گھر والے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دیجئیے، نبی اکرم ﷺ نے اس کو بلایا، اور اس کو خریدو فروخت کرنے سے منع کیا، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ خریدو فروخت نہ کروں، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا جب خریدو فروخت کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ دھوکا دھڑی کی بات نہیں چلے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٨ (٣٥٠١) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٨ (١٢٥٠) ، سنن النسائی/البیوع ١٠ (٤٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مجھ کو دھوکہ مت دو ، اگر فریب ثابت ہوگا تو معاملہ فسخ کرنے کا مجھ کو اختیار ہوگا، دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ مجھ کو تین دن تک اختیار ہے (طبرانی اور بیہقی) ۔
حدیث نمبر: 2354 حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، وَكَانَ يُبَايِعُ وَأَنَّ أَهْلَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ احْجُرْ عَلَيْهِ فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ، فَقَال: إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ هَا وَلَا خِلَابَةَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৫
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ اپنا مال برباد کرنے والے پر پابندی لگانا
محمد بن یحییٰ بن حبان کہتے ہیں کہ میرے دادا منقذ بن عمرو ہیں، ان کے سر میں ایک زخم لگا تھا جس سے ان کی زبان بگڑ گئی تھی، اس پر بھی وہ تجارت کرنا نہیں چھوڑتے تھے، اور ہمیشہ ٹھگے جاتے تھے، بالآخر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : جب تم کوئی چیز بیچو تو یوں کہہ دیا کرو : دھوکا دھڑی نہیں چلے گی، پھر تمہیں ہر اس سامان میں جسے تم خریدتے ہو تین دن کا اختیار ہوگا، اگر تمہیں پسند ہو تو رکھ لو اور اگر پسند نہ آئے تو اسے اس کے مالک کو واپس کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٩٤٢٨، ومصباح الزجاجة : ٨٢٦) (حسن) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور راویت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، کما تقدم، تراجع الألبانی : رقم : ١٠٢ ) وضاحت : ١ ؎: پس یہ اختیار خاص کر کے آپ ﷺ نے منقذ کو دیا تھا، اگر کسی کے عقل میں فتور ہو تو حاکم ایسا اختیار دے سکتا ہے، نیز مسرف اور بیوقوف پر حجر کرنا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 2355 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانٍ، قَالَ: هُوَ جَدِّي مُنْقِذُ بْنُ عَمْرٍو وَكَانَ رَجُلًا قَدْ أَصَابَتْهُ آمَّةٌ فِي رَأْسِهِ فَكَسَرَتْ لِسَانَهُ، وَكَانَ لَا يَدَعُ عَلَى ذَلِكَ التِّجَارَةَ، وَكَانَ لَا يَزَالُ يُغْبَنُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَهُ: إِذَا أَنْتَ بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ، ثُمَّ أَنْتَ فِي كُلِّ سِلْعَةٍ ابْتَعْتَهَا بِالْخِيَارِ ثَلَاثَ لَيَالٍ، فَإِنْ رَضِيتَ فَأَمْسِكْ وَإِنْ سَخِطْتَ فَارْدُدْهَا عَلَى صَاحِبِهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৬
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس کے پاس مال نہ رہے اسے مفلس قرار دینا اور قرض خواہوں کی خاطر اس کا مال فروخت کرنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک شخص کو اس کے خریدے ہوئے پھلوں میں گھاٹا ہوا، اور وہ بہت زیادہ مقروض ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : تم لوگ اسے صدقہ دو چناچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، لیکن اس سے اس کا قرض پورا ادا نہ ہوسکا، بالآخر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مل گیا وہ لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ہے یعنی قرض خواہوں کے لیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٤ (١٥٥٦) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٠ (٣٤٦٩) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٤ (٦٥٥) ، سنن النسائی/البیوع ٢٨ (٤٥٣٤) ، ٩٣ (٤٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦، ٥٦، ٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اب وہ مفلس ہوگیا تو قرض خواہوں کو اس سے زیادہ کچھ نہیں پہنچتا کہ اس کے پاس جو مال ہو وہ لے لیں، مگر مکان رہنے کا اور ضروری کپڑا اور سردی کا کپڑا، اور سد رمق کے موافق خوراک اس کی اور اس کے گھر والوں کی یہ چیزیں قرض میں نہیں لی جائیں گی۔ (الروضۃ الندیۃ) ۔
حدیث نمبر: 2356 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْعِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا فَكَثُرَ دَيْنُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ، فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَيَعْنِي الْغُرَمَاءَ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৭
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس کے پاس مال نہ رہے اسے مفلس قرار دینا اور قرض خواہوں کی خاطر اس کا مال فروخت کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل (رض) کو ان کے قرض خواہوں سے چھٹکارا دلوایا، اور پھر آپ ﷺ نے انہیں یمن کا عامل بنادیا، معاذ (رض) نے کہا : دیکھو ! رسول اللہ ﷺ نے میرے مال کے ذریعہ مجھے میرے قرض خواہوں سے چھٹکارا دلوایا، پھر مجھے آپ ﷺ نے عامل بھی بنادیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٦٨، ومصباح الزجاجة : ٨٢٧) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن مسلم بن ہرمز ضعیف اور سلمہ المکی مجہول الحال ہیں )
حدیث نمبر: 2357 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ هُرْمُزٍ، عَنْ سَلَمَةَ الْمَكِّيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلَعَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ مِنْ غُرَمَائِهِ ثُمَّ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الْيَمَنِ فَقَالَ مُعَاذٌ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَخْلَصَنِي بِمَالِي ثُمَّ اسْتَعْمَلَنِي.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৮
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایک شخص مفلس ہوگیا اور کسی نے اپنا مال بعینہ اسکے پاس پالیا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بعینہ اپنا مال اس شخص کے پاس پا لیا جو مفلس (دیوالیہ) ہوگیا ہو، تو وہ دوسرے قرض خواہوں سے اس مال کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستقراض ١٤ (٢٤٠٢) ، صحیح مسلم/المساقاة ٥ (١٥٥٩) ، سنن ابی داود/البیوع ٧٦ (٣٥١٩، ٣٥٢٠) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٦٢) ، سنن النسائی/البیوع ٩٣ (٤٦٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٤٢ (٨٨، مسند احمد (٢/٢٢٨، ٢٥٨، ٤١٠، ٤٦٨، ٤٧٤، ٥٠٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٥١ (٢٦٣٢) (صحیح )
حدیث نمبر: 2358 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ جَمِيعًا، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ وَجَدَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ أَفْلَسَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৫৯
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایک شخص مفلس ہوگیا اور کسی نے اپنا مال بعینہ اسکے پاس پالیا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے کوئی سامان بیچا پھر اس نے اس کو بعینہ اس (مشتری) کے پاس پایا جو دیوالیہ ہوگیا ہے، اور بائع کو ابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ نہیں ملا تھا، تو وہ سامان بائع کو ملے گا، اور اگر وہ اس کی قیمت میں سے کچھ لے چکا ہے تو وہ دیگر قرض خواہوں کے مانند ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وانظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کو بیچ کر قرض خواہوں کا قرضہ حصے کے طور پر اس سے ١ دا کریں گے، بائع کو بھی اپنے حصہ کے موافق ملے گا، حدیث سے یہ نکلا کہ اگر مشتری نے اسباب میں کچھ تصرف کیا ہو یعنی اس حال پر باقی نہ رہا جو بائع کے وقت پر تھا تب بھی وہ بائع کو نہ ملے گا بلکہ اس کو بیچ کر سب قرض خواہوں کو حصہ ادا کریں گے، بائع بھی اپنے حصہ کے موافق لے گا۔
حدیث نمبر: 2359 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ سِلْعَةً فَأَدْرَكَ سِلْعَتَهُ بِعَيْنِهَا عِنْدَ رَجُلٍ وَقَدْ أَفْلَسَ وَلَمْ يَكُنْ قَبَضَ مِنْ ثَمَنِهَا شَيْئًا، فَهِيَ لَهُ وَإِنْ كَانَ قَبَضَ مِنْ ثَمَنِهَا شَيْئًا فَهُوَ أُسْوَةٌ لِلْغُرَمَاءِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৬০
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایک شخص مفلس ہوگیا اور کسی نے اپنا مال بعینہ اسکے پاس پالیا
ابن خلدہ زرقی (وہ مدینہ کے قاضی تھے) کہتے ہیں کہ ہم اپنے ایک ساتھی کے سلسلے میں جس کا دیوالیہ ہوگیا تھا ابوہریرہ (رض) کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا : ایسے ہی شخص کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے یہ فیصلہ دیا تھا : جو شخص مرجائے یا جس کا دیوالیہ ہوجائے، تو سامان کا مالک ہی اپنے سامان کا زیادہ حقدار ہے، جب وہ اس کو بعینہ اس کے پاس پائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٧٦ (٣٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٩) (ضعیف) (سند میں ابو المعتمر بن عمرو بن رافع مجہول ہیں )
حدیث نمبر: 2360 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ أَبِي الْمُعْتَمِرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ رَافِعٍ، عَنِ ابْنِ خَلْدَةَ الزُّرَقِيِّ وَكَانَ قَاضِيًا بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: جِئْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ فِي صَاحِبٍ لَنَا قَدْ أَفْلَسَ، فَقَالَ: هَذَا الَّذِي قَضَى فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا رَجُلٍ مَاتَ أَوْ أَفْلَسَ فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أَحَقُّ بِمَتَاعِهِ إِذَا وَجَدَهُ بِعَيْنِهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৬১
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ ایک شخص مفلس ہوگیا اور کسی نے اپنا مال بعینہ اسکے پاس پالیا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مرجائے، اور اس کے پاس کسی کا مال بعینہ موجود ہو، خواہ اس کی قیمت سے کچھ وصول کیا ہو یا نہیں، وہ ہر حال میں دوسرے قرض خواہوں کے مانند ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٦٨) (صحیح )
حدیث نمبر: 2361 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا الْيَمَانُ بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا امْرِئٍ مَاتَ وَعِنْدَهُ مَالُ امْرِئٍ بِعَيْنِهِ اقْتَضَى مِنْهُ شَيْئًا أَوْ لَمْ يَقْتَضِ فَهُوَ أُسْوَةٌ لِلْغُرَمَاءِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৬২
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس سے گواہی طلب نہیں کی گئی اس کے لئے گواہی دینا مکروہ ہے۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کون سے لوگ بہتر ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میرے زمانہ والے، پھر جو لوگ ان سے نزدیک ہوں، پھر وہ جو ان سے نزدیک ہوں، پھر ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کی گواہی ان کی قسم سے اور قسم گواہی سے سبقت کر جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ٩ (٢٦٥٢) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٢ (٢٥٣٣) ، سنن الترمذی/المناقب ٥٧ (٣٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٣٧٨، ٤١٧، ٤٣٤، ٤٣٨، ٤٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے کے بڑے حریص ہوں گے، ہر وقت اس کے لیے تیار رہیں گے ذرا بھی احتیاط سے کام نہیں لیں گے۔
حدیث نمبر: 2362 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَبْدُرُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৬৩
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس سے گواہی طلب نہیں کی گئی اس کے لئے گواہی دینا مکروہ ہے۔
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے مقام جابیہ میں خطبہ دیا، اس خطبہ میں انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہمارے بیچ کھڑے ہوئے جیسے میں تمہارے بیچ کھڑا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کی شان کے سلسلے میں میرا خیال رکھو پھر ان لوگوں کی شان کے سلسلے میں جو ان کے بعد ہوں، پھر جو ان کے بعد ہوں، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا یہاں تک کہ ایک شخص گواہی دے گا اور کوئی اس سے گواہی نہ چاہے گا، اور قسم کھائے گا اور کوئی اس سے قسم نہ چاہے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤١٨، ومصباح الزجاجة : ٨٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦) (صحیح) (سند میں عبد الملک بن عمیر مدلس ہیں، اور راویت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، الصحیحة : ٤٣١ ، ١١١٦ ) وضاحت : ١ ؎: مقام جابیہ شام کی ایک بستی کا نام ہے۔ میرا خیال رکھو یعنی کم از کم میری رعایت کرتے ہوئے انہیں کوئی ایذا نہ پہنچاؤ۔
حدیث نمبر: 2363 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِينَا مِثْلَ مُقَامِي فِيكُمْ فَقَالَ: احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَمَا يُسْتَشْهَدُ وَيَحْلِفَ وَمَا يُسْتَحْلَفُ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৬৪
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ کسی کو معاملہ کا علم ہولیکن صاحب معاملہ کو اس کے گواہ ہونے کا علم نہ ہو۔
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بہتر گواہ وہ ہے جو پوچھے جانے سے پہلے گواہی دیدے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأقضیة ٩ (١٧١٩) ، سنن ابی داود/الأقضیة ١٣ (٣٥٩٦) ، سنن الترمذی/الشہادات ١ (٢٢٩٥، ٢٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٢ (٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی گواہ نہ ہونے کے سبب جب کسی مسلمان کا حق مارا جا رہا ہو، یا اس کے مال یا جان کو نقصان لاحق ہو رہا ہو، تو ایسی صورت میں بغیر بلائے قاضی کے پاس جا کر گواہی دے دے۔
حدیث نمبر: 2364 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبدِ الرَّحْمَنِ الْجُعْفِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَاب: الْعُكْلِيُّ، أَخْبَرَنِي أُبَيُّ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، حَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: خَيْرُ الشُّهُودِ مَنْ أَدَّى شَهَادَتَهُ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৬৫
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ قرضوں پر گواہ بنانا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے آیت کریمہ : يا أيها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى کی تلاوت کی، یہاں تک کہ فإن أمن بعضکم بعضا یعنی اے ایمان والو ! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہیئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہیئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہیئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرلو، تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو چاہیئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں، خریدو فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کرلیا کرو، اور (یاد رکھو کہ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو گے تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جیسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے، اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گنہگار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے (سورۃ البقرہ : ٢٨٢ ، ٢٨٣ ) تک پہنچے تو فرمایا : اس آیت نے اس پہلی والی آیت کو منسوخ کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٤، ومصباح الزجاجة : ٨٢٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اور بعض علماء نے کہا کہ سابقہ آیت منسوخ نہیں ہے اس لئے کہ وہ استحبابی حکم تھا، واجب نہ تھا اور مستحب یہی ہے کہ جب قرض لیا جائے تو اس کو لکھیں اور گواہ بنالیں کیونکہ زندگی کا اعتبار نہیں ہے ایسا نہ ہو کہ دائن (قرض خواہ) یا مدیون (مقروض) مرجائے اور ان کے وارثوں میں جھگڑا ہو یا مدیون کے ذمہ قرض رہ جائے اس کے وارث ادا نہ کریں تو عاقبت کا مواخذہ رہے۔
حدیث نمبر: 2365 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ الْجُبَيْرِيُّ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَتَكِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَاعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى حَتَّى بَلَغَ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا سورة البقرة آية 282 ـ 283 فَقَالَ: هَذِهِ نَسَخَتْ مَا قَبْلَهَا.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৬৬
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس کی گواہی جائز نہیں
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ خائن مرد کی گواہی جائز ہے اور نہ خائن عورت کی، اور نہ اس کی جس پر اسلام میں حد نافذ ہوئی ہو، اور نہ اس کی جو اپنے بھائی کے خلاف کینہ و عداوت رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٤) ، ومصباح الزجاجة : ٨٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨١، ٢٠٣، ٢٠٨) (حسن) (سند میں حجاج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن ترمذی میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٦٦٩ ) وضاحت : ١ ؎: جس سے وہ کینہ رکھتا ہو اس کی گواہی جائز نہیں ہے، البتہ اگر اس کے فائدہ کے لئے گواہی دے تو قبول ہوگی، اہل حدیث کے نزدیک اس شخص کی شہادت جو عادل نہ ہو مقبول نہیں ہے، اس لئے کہ قرآن میں ہے : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ (سورة الطلاق :2) ، اور اپنے میں سے دو عادل کو گواہ کرلو غرض یہ کہ شہادت میں ضروری ہے کہ شاہد مسلمان ہو، آزاد ہو، مکلف ہو، یعنی عاقل بالغ ہو، عادل ہو، صاحب مروت ہو متہم نہ ہو۔
حدیث نمبر: 2366 حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ خَائِنٍ وَلَا خَائِنَةٍ وَلَا مَحْدُودٍ فِي الْإِسْلَامِ وَلَا ذِي غِمْرٍ عَلَى أَخِيهِ.
তাহকীক:
হাদীস নং: ২৩৬৭
فیصلوں کا بیان
পরিচ্ছেদঃ جس کی گواہی جائز نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بدوی (دیہات میں رہنے والے) کی گواہی شہری (بستی میں رہنے والے) کے خلاف جائز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأقضیة ١٧ (٣٦٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٣١) (صحیح )
حدیث نمبر: 2367 حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ بَدَوِيٍّ عَلَى صَاحِبِ قَرْيَةٍ.
তাহকীক: